کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاھیں ؟؟؟؟ آڑٹیکل نمبر 142
کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں؟ دنیا زندان بنی اور زندان میں تاریکی بڑھی تو خونِ دل میں انگلیاں ڈبو کر فیض نے تو برسوں پہلے یہ شعر نجانے کس ترنگ میں کہہ ڈالا تھا، لیکن اپنے ارد گرد نظریں دوڑائیں تو موجودہ صورتحال میں آج کا معاشرہ اس شعر کے قالب میں مکمل طور پر رنگا اور ڈھلا نظر آتا ہے۔ کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ فیض نے یہ شعر آج کے معاشرے اورموجودہ صورتحال کے تناظر میں ہی کہا ہوگا۔ آج معاشرے کی ہر اکائی اور ہر جزو کے ہونٹوں پراُس شاعرِ انقلاب کا بس یہی شعر متبسم دکھائی دیتا ہے۔ اور ایسا بھلا آخر کیوں نہ ہو؟ جب ڈاکٹر دکھی انسانیت کی مسیحائی کرنے کی بجائے علاج کو اپنے فیس کے ترازو میں تولیں، جب جراح زخموں پر پھاہا رکھنے کی بجائے اُنہیں ناسور بنانے کے در پر ہوں، جب اسپتالوں میں شفا کی بجائے بیماریاں پل رہی ہوں، جب حکیم ، وید، دانا اور سیانے نبض کی بجائے مریض کی جیب پر نظریں گاڑ کر بیٹھ جائیںتو بتائیے کہ ....ع کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں؟ جب جب ایک استاد نئی نسل کوآداب، اخلاق اور تعلیم کے زیورسے آراستہ کرنے کی بجائے اُن کی رگوں میں منافرت، منافقت، ہوس اور جہالت کا سبق اتارتا ...