.....آہ ماں۔
آہ ماں۔
جب دنیا کی سب سے بڑی دولت مجھ سے جدا ھوئی. . .
"ماں" محض ایک لفظ ہی نہیں بلکہ محبتوں کا مجموعہ ہے جس کے سنتے ہی ٹھنڈی چھاﺅں اور تحفظ کا احساس اجاگر ہوتا ہے اور ذہن میں عظمت کی دیوی اور سب کچھ قربان کردینے والی ہستی کا تصور آتا ہے۔ انسانی رشتوں میں سب سے زیادہ محبت کرنے والی ہستی ماں کی ہے جس کو رب ذوالجلال نے تخلیق کا اعجاز عطا کرکے اپنی صفت سے روشناس فرمایا۔ ماں کا وجود محبت کا وہ بیکراں سمندر ہے کہ جس کی وسعت کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا، ماں ایک ایسا سائبان عافیت ہے جس کی چھاﺅں میں کوئی دکھ پریشانی ہمیں چھو نہیں سکتی۔ دنیا میں جتنے بھی رشتے ہوں اور ان رشتوں میں جتنی بھی محبت ہو، وہ اپنی محبت کی قیمت مانگتے ہیں مگر ماں کا رشتہ دنیا میں واحد ایک ایسا رشتہ ہے جو اولاد سے محبت کے بدلے میں کچھ نہیں مانگتا۔ ماں ایک پھول ہے جس کی مہک کبھی ختم نہیں ہوتی، ایک ایسی دوست جو کبھی بیوفا نہیں ہوتی، ایک ایسا وعدہ ہے جو کبھی ٹوٹتا نہیں، ایک ایسا خواب ہے جو تعبیر بن کر ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتا ہے، ایک ایسی محبت ہے جو کبھی کم نہیں ہوتی، ایک ایسی پرچھائیں ہے جو ہر مصیبت سے ہمیں بچانے کے لئے ہمارے ساتھ رہتی ہے، ایک ایسی محافظ ہے جو ہمیں ہر ٹھوکر لگنے سے بچاتی ہے، ایک ایسی دعا ہے جو ہر وقت اس کے لب پر رہتی ہے اور دنیا میں ہر انسان کا وجود اسی عظیم رشتے کا احسان ہے۔ شاید اسی لئے اللہ تعالیٰ نے جنت کسی عورت کیلئے نہیں بلکہ ماں کے قدموں تلے رکھی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ ماں، جنت کو پانے کا ایک آسان راستہ ہے ۔"
اسلام میں ماں کے مقام اور عظمت و اہمیت کا اندازہ اس حدیث لگایا جاسکتا ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص نے حضور اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا۔ پیارے رسولﷺ! میں سب سے زیادہ نیکی کس کے ساتھ کروں؟ نبی کریمﷺ نے فرمایا۔ "اپنی ماں کے ساتھ" اس شخص نے دوبارہ عرض کیا۔نبی کریمﷺ نے فرمایا۔ "اپنی ماں کے ساتھ" اس شخص نے پھر تیسری بار عرض کیا۔ نبی کریمﷺ پھر فرمایا ۔"اپنی ماں کے ساتھ نیکی کرو۔" لیکن جب اس شخص نے چوتھی بار عرض کیا تو نبی کریمﷺ نے فرمایا "اپنے باپ کے ساتھ۔" اس حدیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پہلے تین درجے ماں اور پھر ایک درجہ باپ کا ہے۔ ماں کی محبت اور دعا کی طاقت کا اعتراف خود اللہ تبارک تعالیٰ نے بھی کیا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ جب اس دنیا سے رخصت ہوگئیں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام انتہائی رنجیدہ حالت میں اللہ تعالیٰ سے کلام کیلئے کوہ طور پر چڑھنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا۔ "اے موسیٰ اب تم ذرا سنبھل کر آنا کیونکہ تمہارے لئے دعائیں کرنے والی ہستی اب دنیا میں نہیں رہی، اس سے قبل جب تم میرے پاس آتے تھے تو تمہاری ماں سجدے میں جاکر تمہارے لئے دعائیں کیا کرتی تھی۔" اس سے ثابت ہوا کہ ماں وہ عظیم ہستی ہے جس کی دعاﺅں کی ضرورت صرف ہم جیسے گنہگاروں کو ہی نہیں بلکہ پیغمبروں کو بھی ہوتی تھی۔
حج و عمرہ کے دوران سعی کے چکر بھی ایک ماں کی اپنی اولاد کیلئے مثالی محبت کی یاد تازہ کرتے ہیں جو حضرت بی بی حاجرہؓ اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیاس بجھانے کیلئے پانی کی تلاش میں لگائے تھے۔ اللہ تعالیٰ کو ایک ماں کی اپنی اولاد کیلئے بے تابی اور تڑپ اتنی پسند آئی کہ اس نے تاقیامت اسے حج و عمرے کا اہم رکن قرار دے دیا تاکہ دنیا کو ماں کی محبت اور عظمت کا احساس ہوسکے۔ اسلام میں ماں کی خدمت کو کتنی اہمیت دی گئی ہے، اس کا اندازہ اس حدیث سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک دفعہ حضور اکرمﷺ حج کیلئے روانہ ہورہے تھے۔ ایک صحابیؓ جن کی والدہ شدید بیمار تھیں کی خواہش تھی کہ وہ بھی حضور اکرمﷺ کے ساتھ حج کی سعادت حاصل کریں۔ حضور اکرمﷺ نے صحابیؓ سے فرمایا۔ "اپنی بوڑھی ماں کی خدمت کرو، تمہیں اس کا ثواب حج کے برابر ملے گا۔" اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماں کی خدمت کا صلہ حج کے ثواب کے برابر ہے۔
ماں کی خدمت سے صرف ماں ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اور حضور اکرمﷺ کی خوشنودی بھی حاصل ہوتی ہے اور جنت بھی ایسے پیاروں کی منتظر ہے جنہوں نے دنیا میں اپنی ماں کی خدمت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی ہو۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی ماں کی خدمت کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں کیونکہ اولاد کی ترقی کا راز ماں کی دعاﺅں میں مضمر ہے۔ میرا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ جس شخص کی ماں اس سے خوش ہو اور اس کے لئے دعاگو رہتی ہو اس کی ہر منزل آسان ہوجاتی ہے جس کا مجھے ذاتی تجربہ ہے۔ میں آج جو کچھ بھی ہوں اپنی والدہ کی دعاﺅں کی بدولت ہوں کیونکہ میں جب بھی کبھی مشکل میں ہوتا تھا تو وہ میرے لئے دعا کرتی تھیں اور ان کی دعاﺅں کے نتیجے میں میری تمام مشکلات و پریشانیاں حل ہوجاتی تھیں . . .
سب کی طرح میری بھی ایک ماں تھی .. . میری جان سے پیاری امی جان جو آج سے ٹھیک چھ سال پہلے یعنی ۱۹ستمبر ۲۰۱۰ علی الصبح بروز اتوار زندگی کی سب سے عظیم ہستی میری ماں مختصر علالت کے بعد اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ اناللله وانا علىه راجعون .
ماں محبت ، شفقت ، عبادت ، ریاضت
وہ لفظ ہی نہیں اُترا ، جس سے تجھے لکھوں
میری والدہ محترمہ ایک عظیم شخصیت کی مالک اور نماز روزے کی انتہائی پابند تھیں۔ ماں تو سب کو پیاری ھوتی ھیں کیونکے یہ وہ عظیم ھستی ھیں جن کے پاؤں کے نیچے اللہ تعالی نے جنت رکھی . . میری ماں بھی ایک اسی طرح کی عظیم ھستی تھیں جہاں وہ ایک طرف اپنے شوھر کی خدمت کرنے والی بےلوث بیوی تو دوسری طرف اپنی اولاد سے بیحد محبت کرنے والی اور انکی تربیت کرنے والی بہترین ماں تھیں .وہ ایک غیر معمولی صلاحیت کی مالک تھیں جہاں وہ ایک بہترین امور خانہ داری کی ماہر تھیں وہاں دوسری ایک بیحد قابل خاتون. ایسی کےھر ایک انکی تعلیمی قابلیت سے متعرف تھا.اگرچہ انھوں نے پہلے وقتوں کی صرف ساتویں جماعت تک تعلیم حاصل کی تھی مگر وہ اردوادب، تاریخی اور اسلامی معلومات میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھیں یہ بات مجھے بتاتے ھوۓ فخر محسوس ھورھا ھے کے میری ماں بیحد قابل عورت تھیں .مجھے اچھی طرح یاد ھے انھوں نے اپنے خالہ زاد بہن کو جو 1964 میں ایم اے اردو پرائیٹولی پشاور یونیورسٹی سے ایم اے اردو کرنے ھمارے گھر پشاور آئی ھوئی تھیں ، ان کو میری والدہ پڑھایا کرتی تھیں اور انکی ان خالہ زاد بہن نے ایم اے اردو امتیازی نمبروں سے پاس کیا .یہ ماشااللہ آج بھی حیات ھیں اور ملتان میں ایک مشھور برائویٹ اسکول چلارھی ھیں اور اسکی پرنسپل ھیں. میری والدہ جہاں تاریخی اور اسلامی تاریخ بیحد آشکارا تھیں وھیں وہ اردو شاعری سے بیحد رغبت رکھتی تھیں انکو تقریبن اردو کے تمام بڑے بڑے شاعروں کے حالت زنگی اور انکی شاعری سے بیحد واقف تھیں .انکو شاعروں میں علامہ اقبال، جوش، حالی اور حفیظ جالندھری میں بیحد پسند تھے. انکو حالی کی مسدس حالی، علامہ اقبال کا شکوہ جواب شکوہ، حفیظ جالندھری کا شاہنامہ اسلام اور خاصکر جوش کی نظم "اے ھٹلر اعظم تجھے سلام ( اس نظم پر جوش کو جیل ھوگئی تھی) اور جوش کی ہی ایک مشھور نظم "جنگل کی شہزادی . . " زبانی یاد تھیں بلکے آخری بڑھاپے تک یاد تھیں . میری ابتدائی تعلیم میں انکا بہت حصہ ھے .میں چونکے اولاد اکبر تھا تو انھوں نے مجھے ہر طرح کے اسلامی نمود اور اسلامی تعلیمات معلومات سے آگہا کیا.میں بہت ہی چھوٹی عمر میں ان اسلامی معلومات سے آشکارا ھوچکا تھا .مجھے یاد نہیں کے میں نے اردو پڑھنا کب سیکھی جو مجھے میری والدہ نے سکھائی تھی بس اتنا دھندلا سا یاد ھے شائید چار یا پانچسال کی عمر سے جب میں اردو اخبار انجام میں روزانہ ابن حسن نگار کی روزانہ لکھی ھوئی قسط وار کہانی پڑھتا تھا .میری والدہ نے ھی مجھے شروع سے اردو گرائمر اور مضمون اور کہانی لکھنے کے اسلوب سکھاۓ تھے . انھی کی محنت کی وجہ سے میں نے چھ سال کی عمر میں قرآن شریف ختم کرلیا تھا .ایف ایس سی میں اردو جو ایک لازمی مضمون تھا ، انھيں سے میں پڑھا اور انھوں نے اس اردو میں شاعروں کے حالات زندگی انکی شاعری اور غزلوں کی تشریحات اس خوبصورتی او تفصیل سے بیان کئے جو مجھے ابتک یاد ھیں اور انھی کی اس محنت کا ثمر ملا کے میرے ایف ایس سی کے اردو پرچے میں 80% سے زیادہ نمبر آۓ تھے جس کی وجہ سے میری ڈویژن بہت اچھی آئی اور میرے ایف ایس سی میں نہایت اچھے نمبر آۓ بلکے فرسٹ ڈویژن سے اچھے نمبر تھے اور یوں مجھے بڑی آسانی سے انجینئرنگ کالج پشاور ینورسٹی میں اس وقت کی پسندیدہ برانچ الیکٹرک میں داخلہ ملگیا. غرض یہ میری والدہ نے میری بیحد مددکی اور انھی کی محنت اور دعاؤں کی بدولت میں اس مقام تک پہنچا .انکی مجھکو سب سے بڑی نصیحت یہ تھی کے " بیٹا دل لگا کر محنت کیا کرو جتنی کرسکتے ھو اور نتیجہ خدا پر چھوڑ دو اور دعا کرتے رھو .بیشک خدا اس محنت کا بیحد اچھا صلہ دیتا ھے جو تمہارے حق میں بہتر ھو. ھمیشہ اسی کی زات پر بھروصہ رکھو. جو کام کرو اصولوں اور قانون کی بنیاد پر کرو اور کبھی نہ گھبراؤ کیونکے ایسے کام کرنے پر ھمیشہ خدا تمھارے ساتھ ھوگا". اور میں نے ھمیشہ اپنی والدہ کے بتاۓ ھوئے ان اصولو ں کی بنیاد پر دبنگ ھوکر کر کام کیا.اسی وجہ سے مجھے نوکری میں بیحد مشکلات کا ساما کرنا پڑا کیونکے میں کسی کی کا دیا ھوا غلط حکم نہیں مانتا تھا اور وھی کرتا تھا جو قانون اور اصولوں کی کسوٹی پر صحیح ھوتا تھا کیونکے میں جانتا تھا میں حق پر ھوں اور میری ماں کی دعائیں میرے ساتھ ھیں. اللہ کا شکر ھے کے ماں کی انھی دعاؤں کی بدولت اللہ نے مجھے ھمیشہ سرخروع کیا اور اس مقام تک پہنچایا.
والدہ کے وفات کے بعد میں اپنے آپ کو بہت تنہا محسوس کرتا ہوں کیونکہ مجھ سے میری ایک عزیز دوست اور محبت کرنے والی ہستی جدا ہوگئی ہے، مجھے پیار کرنے والے لب، دعاﺅں کیلئے اٹھنے والے ہاتھ اب اس دنیا میں نہیں رہے اور وہ چھتری جو ہر وقت میرے سر پر سایہ رحمت کی طرح رہتی تھی مجھ سے چھن گئی ہےآہ . . .
اے میری پیاری ماں!!!
ذرد پتوں کے موسم میں جدا ہوئی تھی
اَب بھی تیری یاد ستاتی ہے مجھے
تیرے آنسوؤں کی اِک اِک فریاد نظر آتی ہے مجھے
تیرے اُن سب سجدوں کی آہٹ
تیرے چہرے پہ وضو کے قطرے
ہر بات تیری خوشنودی میں ڈوبی
میرے کانوں میں ابھی بھی بج اُٹھتی ہے
تسبیح سے گرتے دانوں میں حُو کی صدا
تیری کروٹ بدلنے کی بے چینیاں
بستر پہ پڑی سلوٹوں میں تیری
رچی ہوئی خوشبو۔۔۔۔۔۔۔
ہر پَل یاد تیری دِلاتی ہے ۔۔۔پھر وہی یاد
بہت رولاتی ہے مجھے ۔۔
تُو پلکیں بچھائے رہتی تھی میری راہوں میں
میری تو تقدیر ہی بدل ڈالی تھی تیری دعاؤں نے
جدائی کے پَل برسوں کی شاخوں پَر
کبھی پھول اور کبھی کانٹے بن جاتے ہیں
تیری گود کی گرمی مگر پھر بھی چھین پاتے ہی نہیں مجھ سے
ہر سال ہی یادیں اُداسیوں میں جکڑ لیتی ہیں
جدائی کے سب زخم آنکھوں میں اُتر آتے ہیں
جھونکے تیری یاد کے اے ماں ؔ
کرتے ہیں ایسے مجھے اَفسردہ
نہیں رُکتے پھر اَبر چشم سے
ہو جاتا ہوں پھر ایسے غمزدہ
میں آج بھی سارے لمحے
تیرے نام کرتاہوں
جومحبت دی تھی تُم نے مجھ کومیں آج بھی احترام کرتا ہوں
میرے نبی کا فرماں یہی ہے ماں ؔ
خیرو رحمت کی دعا کرتا ہوں
تیری مغفرت و بخشش کی طالب ہوں
سارے غم ہجر کے ،وہ سارے آنسو
جو اس برس بھی چھپا رکھے تھے میں نے
آج پھر اے ماں ؔ تجھے سُنا ڈالے میں نے
جدائی کے زخم مجھ کو رُلاتے ہی رہیں گے
زرد پتوں کے موسم ہر سال آتے رہیں گے. .
تمھارا بیٹا طارق. . .
نوٹ:- تمام آپ سب پیارے دوستوں اور احباب سے التماس ہے جو یہ تحریر پڑھ رھے ھیں کے کے آپ سب میری والدہ ماجدہ مرحومہ کے لئے فاتحہ خوانی اور درودِ پاک ایصال ثواب فرمائین۔آپ سب کی عین نوازش ھو گی. دلی مشکور ھونگا.
نيازمند
محمد طارق اظہر
ریٹائیڑڈ جنرل منیجر پی ٹی سی ایل (او پی ایس)
19 ستمبر 2016
باثواب
مرحومہ والدہ ماجدہ طاہرہ خاتون (٢٠١٠-١٩٣١)
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
Sent from Tariq's iPad from Rawalpindi Pakistan
Comments