Article:-13(Grounds for filing Writ Petition in High Courts)


                        "Article:- 13  (dated :15-05-2016)

Attention VSS-2008 Retd PTCL Employees W/O pension
 عزیز پی ٹی سی ایل کے ساتھیو
اسلا م و علیکم
آپ لوگوں کا یاد ھوگا کے جب 19فروری16 کو سپریم کوڑٹ کا شاڑٹ آڈر آیا جس میں سپریم کوڑٹ نے پی ٹی سی ایل کی پانچ سال پھلے مسعود بھٹی کیس کے خلاف کی ھوئی رویو خارج کر دی اور مسعود بھٹی کیس 2012SCMR152 فائینل شکل اختیار کرگیا اور ایک قانوں بن گیا جس سے پی ٹی سی ایل والوں کی یہ بڑکیں ختم ھوگئیں کے یہ سب پی ٹی سی ایل یعنی کمپنی کے ملازم ھیں اور ھم جیسا چاھیں انکے ساتھ سلوک کریں اور ھم ان کو گورنمنٹ کے ملازمیں نھیں مانتے جن پر صرف گورنمنٹ کے ہی قانون استعمال ھوں گے چاھے انکے  خلاف کوئی بھی انضباتی کاروائی کیوں نہ ھو. انکی پوری کرشش تھی کے انکی رویو اپیل منظور ھوجائے اسکے لئے انھوں نے  خالد انور صاحب ، جو ایک بھت ھی مشھور اور ممتاز وکیل ھیں، انکی خدمات بھی انکو ایک بہت ھی خطیر رقم دے کر حاصل کیں اور انکو  صرف یہ ٹاسک دیا گیا کے کسی کے کسی طرح سے سپریم کوڑٹ یہ فیصلہ کردے کے یہ پی ٹی سی کے ملازمیں جو یکم جنوری 1996 سے پی ٹی سی ایل کے ملازمین بنے ھیں ،یہ کمپنی کے ملازمین ھیں اور ان پر  صرف کمپنی کے ہی قوانین استعمال ھوں یعنی" ملازم اور نوکر والے". انکو یہ ڈر تھا کے اگر انکی رویو پٹیشن منظور نہ ھوئی تو وہ تمام اقدام جو انھوں نے ان ملازمین کے خلاف   کمپنی کے قوانین کے تحت کئے ھیں ، وہ ریورس  یا ختم بھی ھو سکتے ھیں خاصکر انکو یہ بھی ڈر تھا کے جن ایسے ملازمین کو انھوں ن پنشن دئیے بغیر نکالا ھے  جنکا گورنمنٹ کے قوانین کے تحت پنشن لینے کا حق تھا ، وہ سب انکی جان کو آجائیں گے. جناب محترم چیف جسٹس ظہیر جمالی صاحب نے خالد انور کو خوب موقع دیا کوڑٹ کو قائیل کرنے کا.دو دن یعنی 17 اور 18 فروری 16دئیے اور جناب خالد انور عدالت  نے  مسلسل بحث کی مگر سپریم کوڑٹ نے وھی فیصلہ کیا جو صحیح تھااور کیونکے مسعود بھٹی کیس میں جو فیصلہ دیا گیا وہ حقیقتن پی ٹی سی ایکٹ  1991 اور پی ٹی ری آرگینائیزشن ایکٹ 1996 کی تشریح تھی کو ئی ایسی  بات نھیں تھی جو کوڑٹ نے اپنے تئیں کی. اور اب یہ فیصلہ پر پی ٹی سی ایل کے اچھوں کو بھی عمل کرنا ھوگا.  سیدمظہر حسین ایس ای وی پی اور اسکے حواریوں نے کمپنی کے اپنے بناۓ ھوۓ قوانین  کی آڑ میں ان ملازمین کے ساتھ جو زیادتیاں  اور ظلم کیا . انکو اسکا جواب دینا ھوگااور جو بھی انھوں  نے انکی تنخوایں کم کرکے انکو گورنمنٹ والے الا ؤنس نہ دے کر انکے خلاف ظالمانہ کاروآئیاں کیں سب کا جواب دینا ھوگا اور انکو وھی تنخواہ  پنشن اور اس میں  سالانہ اضافہ ، پروموشنس اور دیگر مراعات وغیرہ وغیرہ گورنمنٹ کے قوانین کے  مطابق اسی دن سے دینا ھوں گی جب سے انکو  غیر قانونی طور پر محروم کیا گیا. اب یہ لوگ کچھ بھی کرلیں انکو سپریم کوڑٹ کے فیصلے پر تو عمل کرنا ھوگا لازمی ورنہ ان کی خیر نہيں اور ان سب کو بہت ہی خطرنائیک نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا. جب 7 اکتوبر 2011 کو جب سپرم کوڑٹ نے مسعود بھٹی کیس میں یہ تاریخی فیصلہ دیا تو اسکے بعد جب کبھی بھی ایسے ملازمین کے خلاف انھوں نے اپنے کمپنی قوانین کے تحت انضباطی کاروائی کرنے کی کوشش کی تو ایسے لوگ فورن کورٹ اپروچ کرکے ریلیف لے لیتے اور کورٹ یہ حکم جاری کرتی کے انکے خلاف کوئی انضباتی کاروائی کرنی ھے تو گورنمنٹ کے قوانین کے مطابق کریں جسکے ماتحت یہ لوگ پی ٹی سی ایل میں کام کررھے ھیں. سب سے زیادہ ان لوگوں کو سبکی فیض الرحمان اور چوھدری محمد قیصر  کے کیس میں ھوئی جنکو  انھوں نے کمپنی کے قوانین استعمال کرتے  ھوۓ   ایک کو ملازمت سے نکال اور دوسرےکو  جبری ریٹائیر کردیا تھا اور انکا یہ فیصلہ مسعود بھٹی کیس کے کےتاریخی فیصلے کے کچھ ھی دن بعد آیا.   فیض الرحمان اور انکے ساتھ   چوھدری محمد قیصر نے اسلام آباد ھائی کوڑٹ میں رٹ پٹیشن داخل کردی  (WP No 1064 and 1065 of 2011)کے انکو کمپنی کے قوانین کے تحت سزا دینا غیر قانونی ھے .اسلام آباد ھائی کوڑٹ نے ان دونوں کو بحال  کرتے ھوۓ  Civil Servants (E&D) Rules 1973 کے تحت کاروآئی کرنے کاحکم دیا جسکے خلاف  PTCL President  نے سپرم کوڑٹ میں اپیل کردی  (CP-717/2011، CP-718/2013) جسکو سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ , جسکے سربراہ سابق چیف جسٹس افتخار چوھدری تھے ، 28 اگست 2013 کو مسعود بھٹی کیس کا حوالا دیتے ھوۓ اسک روشنی میں  خارج کردی اور بی ٹی سی ایل کو حکم دیا کے اسلام آباد کے فیصلے پر من وعن عمل کیا جائے مگر پی ٹی سی ایل کے President نے اسکے خلاف رویوپٹیشن   (CRP-253/2013 & CRP-254/2013 ) داخل کردی اس میں بھی انھیں جوتے پڑےاور انکی یہ رویو پٹیشنس بھی سپریم کوڑٹ نے 11 دسمبر 2013 کو خارج کردی اور یہ اپنا سا منہ لے کر رہگئے. مسعود بھٹی کیس کے فصلے یہ بھی کہا گیا ھے کے نہ پی ٹی سی ایل  اور نہ ھی گورنمنٹ کو اس بات کا اختیار یا پاور ھے کے وہ ایسےکسی ملازم کی terms & conditions of services میں کسی ایسی قسم کی منفی تبدیلی کریں جن سے اسکو نقصان پھنچے اور یہ بھی کہا گیا ھے کے ایسے تمام ملازمیں کی گورنمنٹ گارنٹر ھوگی کے انکے ان terms & conditions of services میں پی ٹی سی ایل کوئی بھی منفی تبدیلی کر سکے جن سے ان ملازمین کو نقصان پھنچے خاصکر انکے Pensionary benefits  میں مگر سپریم کوڑٹ نے یہ بات واضح کردی کے یہ  گورنمنٹ کی یہ گارنٹی ان پی ٹی سی ایل کے ملازمین کے لئے نہ ھوگی جنھوں نے پی ٹی سی ایل یکم جنوری 1996کے بعد جائین کیا ھوگا مگر افسوس کی بات یہ ھوئی کے پی ٹی ای ٹی نے اس گورنمنٹ کی ملی بھگت سے ان ملازمین کو جو پی ٹی سی سے ٹرانسفر ھوکر  یکم جنوری 1996 کو پی ٹی سی ایل کے ملازمین بن گئے تھے اور جن پر گورنمٹ کے statutory rules لاگو ھو گئے تھے ، انکے پنشن قوانین تبدیل کردئیے اور نئے پنشن قوانین یعنی New Pension Rules-2012 نافز کردئیے جس میں گورنمنٹ کے پنشن رولز میں ایسی منفی تبدیلیاں کیں جن سے ان ٹرانسفڑڈ ملازمین  کو نقصان ھو مگر یہ رولز پشاور ھائی کوڑٹ میں چیلنج ھوگۓ اور پشاور ھائ کوڑٹ نے ان قوانین کو ایسے پی ٹی سی ایل ملازمین کے لئیے منسوخ کردئیے اور حکم دیا کے ان ملازمین پر صرف گورنمنٹ کے ھی پنشن رولز استعمال استعمال ھوں گے   (New pension rules of PTET vide SRO 525(I)2012 dismissed by PHC on 3-7-14 in WP M Yousaf Afridi vs FD vide no 2657/12).اس فیصلے کے خلاف پی ٹی ای ٹی کی اپیل بھی سپریم کوڑٹ نے اپنے 12 جون 2015 فیصلے میں  میں خارج کردی . اور اب ایسے ملازمین پر گورنمنٹ کے ھی  سول سرونٹ والے پنشن رولز استعمال ھوں گے.
 اب میں اس مقصد کی طرف آتا ھوں جسکے لئے میں یہ آڑٹیکل آپ لوگوں کی اطلا ع کے لئے لکھ رھا ھوں میرا ان سبکا آپ لوگوں کو یہ باور کرانا ھے کے یہ مسعوبھٹی کا فیصلہ جو اب ایک قانون بن چکا ھے آپ سب کے لئے کیا معنی رکھتا ھے جس کو بنیاد بناتے  ھوۓ میں نے آپ سبکو یہ مشورہ دیا کے پھلے آپ سب لوگ الگ الگ سے ایک زاتی اپیل  President PTCL اور  MD PTET  سے کریں کے وہ آپکو بحیثیت ایک سرکاری ملازم پی ٹی سی ایل میں انکو وہ پنشن اسی دن سے دیں جب انھوں نے غیر قانونی طور پر اس پنشن سے محروم کیا جسکے وہ بالکل بھی مجاز نہیں تھے (انکے پنشن دینے کی مدت میں دس سال سے بیس سال کا اضافہ کیا اور آپکو دھونس دھمکی سے وی ایس ایس 2008  بغیر پنشن کے لینے پر مجبور کیا )  اس سلسلے میں اپیلیں ھائی کوڑٹس میں داخل ھونا شروع ھوگئی ھیں . میری اطلاع کے مطابق لا ھور اور اسلام آباد ھائی کوڑٹس میں اپیلیں داخل ھو  ھیں. کچھ پنجاب کے لوگ اسی طرح کی اپیلیں داخل کرنے آۓ تھے اور جن وکیلوں سے انھوں نے یہ اپیلیں داخل کرنے کا مشورہ کیا انھوں نیں انکو یہ بتایا کے یہ تو time barred  اپیلیں ھیں یہ نہیں داخل کی جاسکتی ھیں .  ایسے لوگ بددول ھوکر میرے پاس آۓ تو انکو میں نے یہ مشورہ دیا کے آپ لوگ اپنی اپیل کا محور صرف  16 مارچ 2016 کا سپریم کوڑٹ کا وہ فیصلہ بنائیں جس میں سپریم کوڑٹ نے پی ٹی سی ایل کی وہ رویو پٹیشن خارج کی جو انھوں نے مسعود بھٹی کیس 2012SCMR152 کے  فیصلے کےخلاف کی تھی اور یہ فیصلہ اب قانونی شکل اختیار کر گیا اور پھر آپ لوگوں نے President PTCL  اور MD PTET  کو باقاعدہ اپیل کی تھی  (میرے آڑٹیکل نمبر 4 میںل اسکا ڈرافٹ موجود ھے )  کے انکی مسعود بھٹی کے کیس کی روشنی میں اسی دن سے پنشن بحال کی جاۓ جس دن سے انھیں 2008 میں بغیر پنشن  کے وی ایس ایس میں فارغ کیا گیا تھا (جبکے وہ بطور  گورنمنٹ کے سرکاری ملازم دس سال یا اس سے زیادہ ملازمت کرنے کے بعد وہ گورنمنٹ کے پنشن قوانین کے تحت وہ پنشن کے حقدار تھے )اور انکو آجتک کے پنشن کے واجبات دئیے جائیں  اگر یہ نہ دئیے گئۓ تو وہ اپنے جائز حق کے لئیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور ھونگے. جب آپ لوگ اس بات کے لئے ھائی کوڑٹ میں کیس کریں گے اور ساتھ انکو اپنی اس کی ھوئی اپیل کا ریکاڑڈ پیش کریں گے اور کوڑٹ او یہ بتائيں گے کے نہ تو PTCL  اور PTET نیں نا تو انکی پنشن بحال کی اور نہ ھی  اسکے بقایا جات  دئيے بلکے کسی قسم  کا جواب تک ہی نہ دیا.تو یقینن کوڑٹ اسکا انسے ضرور پوچھے گی اور پھر جو وہ جواب دیں گے تو انکو انھی خطوط پر جواب دیا جائے گا جسکی اپیل کا ڈرافٹ میں نے آپ لوگوں کے لئے بنایا ( آڑٹیکل نمبر 7& 8 میں موجود ھیں ) تاکے آپ اپنے وکیل  کو دکھائیں تاکے اگر وہ چاہیں تو انکا جواب دینے کے لئے اس سے استفادہ کر سکیں . مجھے آج ھی بتایا گیا کے انھی خطوط  جو اوپر میں نے بیان کیئے ہیں،  بلو چستان کے کوئیی نوے  (۹۰)  پی ٹی سی ایل کے بغیر پنشن کے ایسے  ریٹائڑڈ ملازمین  اسلام آباد ھائی کوڑٹ میں 16 مئی بروز پیر  کیس داخل کررھے ھیں.
ایک اور بات آپ لوگوں کو بتانا چاھتا ھوں کےستمبر 2008 میں یعنی مسیود بھٹی کیس  فیصلےکے تین سال پہلے لاھور ہائی کوڑٹ میں آپ جیسے کچھ پی ٹی سی ایل کے بغیر پنشن کے ریٹائڑڈ ملازمین نے ایک رٹ پٹیشن داخل کی تھی جو تقریبن انھیں خطوط پر تھی جنکا زکر اوپر کر چکا ھوں مگر فرق صرف اتنا ھے کے اس رٹ پٹیشن میں پی ٹی ری آر گنائیزیشن ایکٹ 1996 کے تحت سوال تھا کے جب انکی guaranteed terms and conditions of service تھیں انکو کیوں تبدیل کیا گیا . اس اس سلسلے میں میں نے ھائی کوڑٹ لاھور  کی 31 اکتوبر 2008  کی  آڑڈر شیٹ کی فوٹو کاپی نیچے لگائی ھے اور اس میں  محترم جناب عمر عطا بندیال اسوقت کے لاھور ے چیف جسٹس صاحب نے پی ٹی سی ایل سے اسکا جواب  دو ھفتے میں مانگا تھا مگر پی ٹی سی ایل نے نہ تو اسکا جواب مقررہ وقت پے دیا اور نہ ھی اس پر لاھور ھائی کوڑٹ جب ریمائنڈر دیا پھر بھی جواب نہیں دیا. میں آپ سب لوگوں کے لئیے اسی آڑڈر شیٹ کو  یہاں تحریر کرکے دے رھا ھوں تا کے پڑھا جاسکے . اسکو ضرور غور سے پڑھئیے گا تاکے آپ لوگوں کو اندازہ ھوسکے کے کتنی زیادتی آپ لوگوں سے کی گئی ھے.

                                   "ORDER SHEET"
                 IN THE LHORE HIGH COURT LAHORE
                          JUDICIAL DEPARTMENT
                       
                  Case No: W.P 15027/2008

                                  Versus

Aamer Latif Loan                G.M (HR&A) PTCL  etc.

Date of Proceedings.                Order & Signature of  Judge

1. 31-10-2008.                          Mr  M M  Alam Adv of Petitioner
                                               
                                                    1) Submits that the VSS scheme has been offered by the PTCL to all its employees on the uniform criteria. However, the Petitioner's option under the scheme has been rejected without disclosure of ground, although he satisfied the qualifying criteria . Further states that under Section 35&36 of PTC (Re-Organization ) Act, 1996 the transferred employees are guaranteed their original Terms & Conditions by the government. As government servants , the Petitioners would have earned pension after putting in 10 years of service. That right was recognised by first VSS of PTCL in year 1997 but it has been omitted from the latest Scheme 2007. Alleged violation of statutory obligation of PTCL.
                                                      2) Report and parawise comments to be filled by the respondents within two weeks.Relist thereafter.


                                                                                                   -Sd-
                                                                                   ( UMAR ATA BANDIAL)
                                                                                              JUDGE
اس آڑڈر شیٹ پر  لاھور ھائی کوڑٹ کے جناب چیف جسٹس صاحب کے نوٹ سے آپ لوگوں کو اندازہ ھو گیا ھوگا کے  اسوقت عدالت کیا محسوس کررھی تھی . کیونکے اسکو ری لسٹ کرنا پی ٹی سی ایل کی جانب سے دو ھفتے کے اندر جواب دینے پر منحصر تھا مگر پی ٹی سی ایل والوں نے جواب ھی نھیں دیا اسکے بعد اسکا reminder بھی  پی ٹی سی ایل کو ۱۵نومبر ۲۰۰۸ تک جواب جمع کرانے کے لئے دیا گیا مگر پھر بھی کوئی جواب نہ دیا گیا اس  کے بعد پٹیشنر عامر لطیف لون کے وکیل ھی چمپت ھوگئے اور انھوں نے کیس کو مزید peruse نھیں کیا اور پھر بدقسمتی سے عامر  لطیف لون کا ایکسیڈنٹ ھوگیا اور وہ صاحب فراش ھوگئے .انکے پاؤں میں فریکچر کی وجہ سے راڈ ڈالا گیا اور اسلئے وہ خود بھی peruse نہ کرسکے اور انکے وکیل موصوف ایسے غائب ھوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ . میں نے اب انکو یہ مشورہ دیا ھے کے وہ اپنی اس پٹیشن کا پہلے سٹیٹس جانکر اسکو انھی خطوط پر آج کے حالات کے مطابق modify  کریں کوئی اور اچھا وکیل کرکے . اور اگر انکی رٹ پٹیشن non persecution یا in appearance کی وجہ سے خارج ھوگئی ھو تو پھلے اسکو restore  کرائیں . ایسی رٹ پٹیشنیں بآسانی restore ھوجاتی ھیں
 آپ لوگوں کو پہلے ھی بتا چکا ھوں کے آپکے کیس میں سب سے بڑا کردار وکیل کا ھوگا اور اگر آپکو ایک دیانتدار نہ بکنے والا اچھا وکیل مل جاتا ھے تو آپ لوگوں کے کیس جیتنے کے چانسس زیادہ ھوجائیں گے ورنہ وکیل کیس ایسا لٹکاۓ گا اور چلنے نھیں دے گا آپ لوگوں کو بھی لوٹے گا اور دوسری  rival پاڑٹی کو بھی بلیک میل کر کے فائیدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا. جیسا حال آپ ھی جیسے لوگوں کا سندھ ھائی کوڑٹ اور لاھور ھائی کوڑٹ میں ھورھا تین تین سال سے زیادہ ھوگئے ھیں کیسز چلنے کا نام لینے کا نام ھی نہیں لے رھے کبھی پٹیشنر کا وکیل نہیں آتا وقت پر اور کبھی respondents  کا اور کبھی کیس لگتا تو نمبر ھی نھیں آتا وغیرہ وغیرہ . یہ وہ لوگ ھیں جنکو بیس سال سروس کے باوجود وی ایس ایس 2008 میں پنشن نہ دی گئی اور انکی سروس بیس سال سے کسی نہ کسی طریقے سے کم کردی گئی اور انکو پنشن سے محروم کردیا گیا . مجھے کراچی سے ایسے ھی پی ٹی ٹی سی ایل کے ایک دوست  نے بتایا کے اسکی کوالیفائیڈ سروس  ۲۲ سال سے زیادہ تھی مگر  پی ٹی سی ایل  نے  اسکو بیس سال سے کم کردی جو صرف آٹھ دن کم تھی  اور اسکو پنشن لینے کے حق سے محروم کردیا. اس نے اسکے خلاف سنھ ھائی کوڑٹ میں اس وقت ھی کیس کردیا تھا اور وکیل کو پچاس ھزار  بھی ایڈوانس دئیے جبکے وکیل نے اسی ھزار  فیس کے طلب کئے تھے مگر آجتک کیس ھی نہ لگا اور انکے وکیل موصوف مختلف بہانے کرتے رھتے ھیں اسنے مجھ سے مشورہ مانگا تھا کے وہ کیا کرے اسکو میں نے یہ ھی مشورہ دیا کے وہ اپنی پٹیشن کو  آجکل کے حالات کے مطابق مسعود بھٹی کے کیس کا فائنل ھونے کی وجہ سے modify  کرے اور کوئی دوسرا اچھا وکیل کرے اور modified  پٹیشن میں یہ لکھے کے اسکا پنشن لینے کا حق بطور سرکاری ملازم پی ٹی سی ایل میں دس سال یا اس زیادہ سروس کرنے کی وجہ سے پنشن لینے کا حق  بھی بنتا تھا انھوں نے کیوں نہیں دی وہ دلائی جاۓ.
آخر میں آپ لوگوں کے لئیے میرا مشورہ پھر وھی ھے کے آپ سب لوگ نہایت بردباری او اتحاد کے ساتھ اپنے حق کے لئیے قانونی جنگ لڑیں .کسی مرحلے پر ناآمید نا ھوں اللہ کی زات پر مکمل بھروسہ رکھیں  کیونکے جو بندے حق پے ھوتے ھیں اور اپنے اس حق کے لئے اسکی ذات پر بھروسہ رکھتے ھوۓ جدو جہد کرتے ھیں وہی مراد پاتے ھيں . انشاللہ جیت آپ ہی کی ھوگی.
واسلام
 محمد طارق اظہر
پی ٹی سی ایل ریٹائڑڈ جنرل منیجر( او پی ایس)
راولپن

ڈی
15-05-2016
0300-8249598

Comments

Popular posts from this blog

Article-173 Part-2 [Draft for non VSS-2008 optees PTCL retired employees]

.....آہ ماں۔

Article-170[ Regarding Article -137 Part -1 in English]