Article-38 [Status of transferred PTC employees in PTCL who were appointed in PTC on regular base
Article-38 [پی ٹی سی میں ريگولر بھرتی ھونے والے ملازمین کی پی ٹی سی ایل میں سٹیٹس]
عزیز پی ٹی سی ایل ساتھیو
اسلام و علیکم
مجھے کراچی سے کچھ پی ٹی سی ایل کے ملازمین کے فون موصول ھوئے جنکا کہنا یہ تھا کے وھاں کراچی میں ایسے لوگ جو ٹی اینڈ ٹی میں ریگولر بھرتی ھوۓ تھے اور ابھی پی ٹی سی ایل کے ملازمین ھیں ، وہ یہ تاثر دے رھے ھیں کے راجہ ریاض کے حق میں جو حال ھی میں سپریم کوڑٹ کا فیصلہ آیا ھے اسکا فائدہ ان پی ٹی سی ایل کے ان ملازمین کو نہیں ھوگا جو کارپوریشن یعنی "پی ٹی سی " میں ریگولر طور پر بھرتی ھوۓ اور پھر پی ٹی سی ایل میں یکم جنوری 1996 کو ٹرانسفر ھوگئے تھے. میں انکی اس بات سے بالکل بھی اتفاق نہیں کرتا کیونکے یہ بات میرے نزدیک صحیح نہیں ھے ، کیونکے میں سمجھتا ھوں اس فیصلے کے خلاف ھے، جو سپریم کوڑٹ نے مسعود بھٹی کیس میں پی ٹی سی کے ان تمام ملازمین کے حق میں دیا ما سوائے ان ملازمین کے جو پی ٹی سی میں کنٹریکٹ یا کسی اور پیکج کے تحت بھرتی کئے گئے تھے. مجھے یہ بات آپ لوگوں کو سمجھانے کے لئے تفصیل سے بیان کرنا ھوگا کے کیوں ایسے ملازمین جو پی ٹی سی میں ريگولر پوسٹوں پر بھرتی ھوئے تھے تو انپر بھی انھيں گورنمنٹ کے سرکاری ملازمین والے قوانین کا اطلاق ھوتا تھا جو ان ٹی اینڈ ٹی کے ان ملازمین پر ھوتا تھا جو ٹی اینڈ ٹی کے ختم ھونے کے فورن بعد ٹرانسفر ھوکر پی ٹی سی میں ضم ھوچکے تھے اور انپر پی ٹی سی ایکٹ۱۹۹۱ کی کلاز سیکشن (۱)۹ کے تحت انپر پی ٹی سی ایل کے ملآزم ھونے کے باوجود انھی گورنمنٹ کے قوانین کا اطلاق ھوتا تھا جو انکوٹی اینڈ میں تھا.
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن دسمبر 1991 میں Pakistan Telecommunication Corporation Act, 1991 (ACT XVIII of 1991 کے تحت وجود میں آئی اور گورنمنٹ کا محکمہ یعنی پاکستان ٹیلی گراف اینڈ ٹیلی فون ڈیپاڑٹمنٹ (ٹی اینڈ ٹی) کا وجود ختم ھوگیا اور اسکے تمام ملازمین (Departmental Employees ) جو اس گورنمنٹ کے ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ میں بحیثیت گورنمنٹ کے سرکاری ملازمین (سول سرونٹس ) کام کررھے تھے وہ اسی PTC ACT 1991 کی سیکشن (1) 9 کے تحت PTC میں ٹرانسفر ھونے کے بعد کارپوریشن (PTC) کے ملازمین , انھیں Terms &Conditions پر بن گئے جو انکے PTC میں ٹرانسفر ھونے سے فورن پہلے انکے ٹی اینڈ میں تھے [ یعنی بطور سول سرونٹ ، Civil Servant ACT 1973 کے تحت] اور PTC ACT 1991 کی کلاز (2)9 کے رو سے PTC کو ان کے ان ٹرمز اینڈ کنڈیشنس میں کس بھی قسم کی ایسی منفی تبدیلی کا اختیار نھیں جس انکو نقصان ھو. یاد رھے یہ تمام Terms and conditions اسی Civil Servant Act 1973 کی سیکشنس 3 سے 22 میں دی گئیں ھیں [ ایک ضروری بات ، 1994 میں ایک آڑڈیننس کے تحت Terms & Conditions کی کلاز 3 میں ایک سب سیکشن 2 کا اضافہ کیا گیا جس کے تحت حکومت کسی بھی سرکاری ملازم کی ان Terms&conditions کوئی بھی ایسی تبدیلی نہیں کر سکتی جس سے اسکو نقصان ھو ] سیکشن 25 کے تحت گورنمنٹ کو یہ اختیار دیا گیا کے وہ سول سرونٹس کے لئے قانون بنا سکتے ھیں جو انکے ٹرمز اینڈ کنڈیشن کے مطابق ھی ھوں گے. فیڈرل گورنمنٹ نے ان تمام سول سرونٹس کے لئے جو کسی بھی گورنمنٹ اداروں ریگولرز طور تر کام کر رھے تھے یا اس سے ریٹآئر ھوچکے تھے ، انھیں 1973 Civil Servant Act میں دی گئيں Terms & Conditions جو اسکے سیکشنس 3 سے 22 تک میں دی گئیں ھیں، اپنے سول سرونٹس کے لئے قوانین بنائے جنکو سرکاری قوانین کہتے ھیں اور انگلش میں انکو "statutory rules" بناۓ جن میں جو اکثر کافی active رھتے ھیں آپ لوگوں کے لئے بیان کردیتا ھوں . مثلن
The Civil Servant (Efficiency & Discipline)Rules 1973,The Civil Servants( Appointment, Promotion and Transfer) Rules,&The Civil Servants (Seniority) Rules 1993 etc
تو یہ کچھ Statutory Rules جو فیڈرل گورنمنٹ نے اپنے سول سرونٹس کے لئے ، انکو سول سرونٹ ایکٹ 1973 کی کلاز 25 میں دئیے ھوۓ اختیارات کے تحت سول سرونٹ ٹرمز اینڈ کنڈیشنس کے مطابق بناۓ ھیں. ان ٹرمز اینڈ کنڈیشنس میں ان چیزوں،pay and pension appointment, probation, discipline, leave وغیرہ وغیرہ کے بارے میں بتایا گیا ھے اور حکومت نے انھی کے بارے میں قوانین بنائے جن میں کچھ کا زکر کرچکا ھوں . ایک اور بات آپ لوگوں کی معلومات کے لئے بتانا چاھتا ھوں. کے ان Terms & Conditions کی کلاز "19" سول سرونٹ کو پنشن دینے کے بارے میں ھے یعنی جو سول سرونٹ ریٹآئر ھوگا اسکو پنشن یا گریجوٹی دی جائگی اور اسکی فیملی کو اسکی وفات پر پنشن دیجائگی چاھے وفات سے پھلے رٹائیر ھوا ھو یہ نہ ھو. اس کلاز پر حکومت نے سول سرونٹ ایکٹ کے تحت کوئی رولز نھیں بناۓ کیونکے پنشن دینے کے بارے سرکاری قوانین پھلے سے ھی بنے ھوئے جو 1885میں ایک ایکٹ کے تحت بنے تھے وھی ابتک سرکاری ملازمین پر نافظ ھیں .مگر اس میں تبدیلی ھوتی رھتی ھے جوحکومت ان سرکاری پنشنوں کے لئۓ کرتی دھتی ھے جو صرف ان سرکاری پنشنروں کے فائدے کے لئۓ ھوتی ھیں .کیونکے سول سرونٹ ایکٹ 1973 کی ٹرمز اینڈ کنڈیشن کی کلاز ( 2) 3 واضح کردیا گیا ھے کے ان ٹرمز اینڈ کنڈیشن میں کوئی بھی ایسی منفی تبدیلی نھيں کی جاسکتی جس انکو نقصان ھو. . . [ یہ نھیں جسطرح پی ٹی سی ایل نے ایسے سرکاری ملازمین کے ضمرے میں آنے والے پی ٹی سی ایل کے ملازمین کی پنشن لینے کی کم از کم مدت دس سال سے بڑھا کر بیس سال کردی اور اسطرح VSS-2008 لینے والے ھزاروں ایس پی ٹی سی ایل ملازمین کو پنشنروں سے محروم کردیا جن کی کوالیفائنگ سروس بیس سال سے ایک دن بھی کم تھی. عجیب دادا گیری کی ان 26% شئیرس ھولڈرز والے بے ضمیر کمبختوں نے.وہ کام کیا جن کا انکوکوئی قانونی اختیار سرے سے ھی نھیں تھا.انھوں نے یہ تک نہ سوچا کےوہ گورنمنٹ کے سول سرونٹ ایکٹ والے قوانین رکھنے والے کسی بھی ایک ایسے ٹرانسفڑڈ پی ٹی سی ایل والے ملازم کو پنشن کے حق سےکسی بھی طرح محروم نہيں کرسکتے یہ انکا اختیار ھی نہیں کیونکےان سرکاری پنشن کے قوانین کے مطابق جسکی کوالیفائنگ سروس دس سال یا اس سے زیادہ ھو اسکو پنشن اور آگر دس سال سے کم ھو تو گریجویٹی دینی ھی پڑتی ھے . بیشک اسکو ریٹآئیر کرنے کا طریقہ کوئی بھی ھو یعنی جبری ریٹائرمنٹ، نارمل ریٹائرمنٹ 60 سال کی عمر میں، پر میچور ریٹائرمنٹ یعنی ۲۵ سال کی کولیفائنگ سروس یا اسکے بعد اور 60 سال کی عمر سے پہلے یا والینٹری ریٹائرمنٹ جس گولڈن شیک ھینڈ بھی کہتے ھیں اور اس میں الگ سے ایک مختص اچھی خاصی رقم بطور معاوضہ یعنی compensation بھی اسوجہ سے دیا جاتا ھے کیوں کے ریٹائرمنٹ کے وقت سے پہلے ریٹآئرمنٹ کی جارھی ھوتی ھے وغیرہ وغیرہ ] . . .تو جو ٹی اینڈ ٹی کے ملازمین ، ٹی اینڈ ٹی کے ختم ھونے کے فورن بعد پی ٹی سی ایکٹ ۹۱ کے تحت بننے والی پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن میں ضم ھوگئے تھے وہ اس کارپوریشن میں انھی قوانین اور ٹرمز اینڈ کنڈیشنس کے تحت کام کرھے تھے جو انکے ٹی اینڈ ٹی میں تھے . پی ٹی سی میں انکے تنخواھوں کے سکیلس وھی تھے جو ٹی اینڈ ٹی میں تھے اور انکو وھی تنخواہ دی جارھی تھی . جو گورنمنٹ کے سرکاری ملازمین کو دیجارھی تھی اور جب ھی گورنمنٹ اپنے ان سرکاری ملازم کی تنخواہ بڑھاتی یا اس ميں اضافہ کرتی یا کوئی اور بینیفٹس وغیرہ دیتی تو وھی پی ٹی سی انکو دیتی جہاں تک ٹی اینڈ ٹی کے پنشنروں کو پنشن دینے کا تعلق تھا، پی ٹی سی اسی حساب سے تمام پی ٹی سی ایل پنشنروں کو پنشن دیتی تھی اور انکو بھی جو پی ٹی سی میں ٹرانسفر ھوچکے تھے او وھیں سے ریٹائیر ھورھے تھے. گورنمنٹ نے اس مقصد کے لئے "پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن ایمپلائیز پنشن فنڈ "قائم کیا اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن بحیثیت "ایمپلائیر" اسکا ٹرسٹی بنایا گیا اور ایک ٹرسٹ ڈیڈ ، 2 اپریل 1994عمل میں لائی گئی جس کے تحت پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن ان تمام ٹی اینڈ ٹی سے ریٹائر ھونے والے تمام پنشنرز اور وہ جو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن سے ریٹائر ھونگے انکو اسی حساب سے سے پنشن دیا کرے گی جسطرح حکومت اپنے سرکاری ملازمین پنشنرز کو دیتی ھے اور دیتی رھیگی . جسوقت یہ ٹرسٹ ڈیڈ سائین ھوئی تھی ، یعنی 2 اپریل 1994 کو اس وقت پورے پاکستان ایس پنشنروں کی تعداد 71065 درج تھی (جس میں اضافہ بھی ھوناتھا) اور پاکستان سے باھر صرف 8 ایسے پنشنرس کی تعداد درج تھی [ یاد رھے جب حکومت نے پی ٹی سی کو ختم کرکے پی ٹی ری آرگنائیزیشنس ایکٹ 1996 کے تحت پانچ اداروں میں تقسیم کیا تو اس میں پاکستان ٹیلی کام کمپنی لمیٹڈ (PTCL) کے علاوہ پاکستان ٹیلی کام ایمپلائی ٹرسٹ (PTET) کو بھی قآیم کیا گیا جسکا کام صرف یہ مقصد تھا کے وہ انھی قوانین کے تحت پی ٹی سی ایل کے تمام پنشنرز کو طرح پنشن ادا کرے گی جسطرح پی ٹی سی بطور ٹرسٹی اداکررھی رھی تھی یعنی اتنی ھی اور اسی قوانین کے تحت جسطرح حکومت اپنے سرکاری ملازمین پنشنرز کو ادا کرتی تھی اور اداکررھی ھے] .
پھر جب پاکستان ٹیلی کام کمپنی لمیٹڈ ( پی ٹی سی ایل) یکم جنوری 1996 میں قائم کی گئی تو یہ پی ٹی سی کے یہ تمام ملازمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ کی کلاز ( 1)35 اور کلاز (2) 36 کے تحت یعنی انھیں گورنمنٹ کے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس کے ، جن کے تحت وہ پی ٹی سی میں کام کرھے تھے، پی ٹی سی ایل کے یکم جنوری 1996 سے ملازم بن گئے [ اس بات کو مد نظر رکھنا چاھئے ان تمام پی ٹی سی کے کے وہ ملازمین میں جو یکم جنوری 1996 میں ٹی اینڈ ٹی سے پی ٹی سی ایکٹ ۱۹۹۱ دسمبر ۱۹۹۱ میں ٹرانسفر ھوکر پی ٹی سی کے ملازمین بن گئے تھے بلکے وہ بھی جو پی ٹی سی میں ریگولر پو سٹوں پر ٹی اینڈ ٹی رولز کے مطابق appointed ھوۓ تھے] اور یہاں پی ٹی سی ایل میں بھی انکو وھی تنخواہ اور ریٹائڑڈ ملازمین کو وھی پنشن جو گورنمنٹ کے سول ملازمین کو دی جارھی تھی مل رھی تھی اورجیسے جیسے ان میں کوئی بھی گورنمنٹ اضافہ کرتی تو وہ بھی برابرملتا تھا اور ان سب پر گورنمنٹ کے ھی سرکاری قوانین (Statutory Rules) استعمال ھوتےتھے چاھے وہ پروموشن کا معاملہ ھو ، ٹرانسفر کا یا چھٹی کا یا ان کے خلاف کسی Disciplinary Action کا , ان سب پر گورنمنٹ کے سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے تحت بنائے گۓ فیڈرل گورنمنٹ کے ھی سرکاری قوانین استعمال ھوتے تھے مگر
جون 2006 میں یو اے ای کی کمپنی ایتصلات نے پی ٹی ی کے 26% شئيرس خرید کر پی ٹی سی کے انتظامی اختیار بھی حاصل کرلئے . اور اس پی ٹی سی ایل کی نئی انتظامیہ نے ان پی ٹی سی ایل کے ملازمین پر اپنے یعنی کمپنی بنائے ھوئے قوانین کا اطلاق شروع کردیا اور ساتھ ساتھ انکی تنخواھوں، الاؤنسوں اور پنشن میں کمی کردی بلحاظ گورنمنٹ بہت کم کردئے ، تنخواہ اور پنشن میں وہ اضافہ روک دیا گیا جو گورنمنٹ اپنے سرکاری ملازمین اور پینشنروں کو دیتی ھے جسکا یہ کرنے کے بالکل بھی مجاز نہ تھے .اس نئی پی ٹی سی ایل کی انتظامیہ نے ان ملازمین کے ساتھ سوتیلی ماں والا سلوک شروع کردیا جسکا نتیجہ یہ ھوا اس پی ٹی سی ایل کی نئی انتظامیہ کی Victimisation Policy سے متاثرہ ملازمین نے اعلی عدالتوں کا رخ کرنا شروع کردیا . سب سے زیادہ اپیلیں/درخواستیں سندھ ہائی کورٹ میں داخل کی گئيں کے مگر کسی بھی اپیل یا درخواست جلدی کوئی فیصلہ نہ آیا . پھر سندھ ھائی کوڑٹ ، یہ تمام اپیلیں اور درخواستیں جو تقریبن چارسو کے لگ بھگ تھیں ، ٹیکنیکل بنیاد پر صرف یہ جواز بناکر 3 جون 2010 کو خارج کردیں کے ان پی ٹی سی ایل ملازمین یعنی اپیل کنندہ پر چونکے کمپنی کا ماسٹر اینڈ سرونٹ رولز لگتا ھے یعنی انپر گورنمنٹ کے سرکاری قوانین (statutory rules ) کا اطلاق نھیں ھوتا اسلئے یہ ملازمین آئین کے آڑٹیکل 199کے یہ ھائی کوڑٹ رجوع کرنے کا اختیار نہیں رکھتےلہزا ان پی ٹی سی ایل کے ملازمین کی یہ اپیلیں خارج کی جاتی ھیں . اسکے خلاف تین ایسے aggrieved پی ٹی سی ایل کے ملازمین نے سپریم کوڑٹ میں اپیلیں داخل کیں اور سپریم کوڑٹ نے 7 اکتوبر 2011 کو انکی نہ صرف یہ اپیلیں منظور کیں بلکے سندھ ھائی کوڑٹ 3 جون 2010 کا منسوخ کردیا اور ان اپیل کنندہ کو یہ حکم دیا کے وہ یہ سمجھيں کے انکی اپیلیں ابھی تک سندھ ھائی کوڑ ٹ میں پینڈنگ ھیں جسکا فیصلہ ابھی ھائی کوڑٹ کوکرنا ھے .سپریم کوڑٹ کے اس حکم کی بنیاد ان تین معزز ممبرز ججز سپریم کوڑٹ بینچ کا یہ متفقہ فیصلہ تھا کے " پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کے وہ ملازمین جو ٹرانسفر ھوکر جو یکم جنوری 1996 پی ٹی سی ایل کا حصہ بن چکے ھیں انپر حکومت پاکستان کے سرکاری قوانین (statutory rules ) استعمال ھونگے اور پی ٹی سی ایل یا حکومت کو اس بات کا بالکل بھی اختیار نھیں کے وہ انکے ٹرمز اینڈ کنڈیشنس میں کسی قسم کی ایسی منفی (adverse) کریں جس سے انکو نقصان ھو. اور حکومت اس بات کی گارنٹر ھے کے ان میں کسی قسم کی منفی (adverse) تبدیلی نہ کی جائے جس میں انکی پنشن بھی شامل ھے .تاھم حکومت پاکستان کی یہ گارنٹی ان پی ٹی سی ایل کے ملازمین کے لئیے نھیں ھوگی جنھوں نے پی ٹی سی ایل یکم جنوری 1996کے بعد جائن کیا ھو یا جنکی سروس کنٹریکٹ اور بشمول وہ پی ٹی سی کے وہ ملازمین بھی جو پی ٹی سی میں ایڈھاک طور پر یا ورک چارج یا ڈیلی ویجز میں کام کررھے تھے اور یکم جنوری 1996 کو پی ٹی سی ایل میں ٹرانسفر تو ھوگئے مگر یکم جنوری 1996 کے بعد ريگولر یعنی کنفرم ھوئے ھوں وغیرہ وغیرہ [ یعنی ایسے ملازمین کمپنی کے ملازم کہلائیں گے تو ان کمپنی کے رولز ھی استعمال ھونگے جنکو ماسٹر اینڈ سرونٹس رولز کہتے ھیں.] . پی ٹی سی ایل کے ایسے ملازمین یعنی جن پر گورنمنٹ کے سرکاری قوانین (statutory rules ) لاگو ھونگے وہ پی ٹی سی ایل کی انتظامیہ کے خلاف اپنی شکایات (grievances ) دور کرانے کے لئے ھائی کورٹس میں آئین کے آڑٹیکل 199 کے تحت رجوع کرسکتےھيں". سپریم کوڑٹ کا یہ ایک تاریخی فیصلہ ھے جو "مسعود بھٹی اور دیگر بنام فیڈریشن آف پاکستان جو 2012SCMR152 میں درج ھے.اسکے خلاف پی ٹی سی ایل نے نومبر 2011 میں ایک رویو پٹیشن بھی داخل کی تھی اور سٹے آڈر مانگا تھا . انکو سٹے بھی نہیں ملا اور انکی رویو پٹیشن سپریم کوڑٹ کے پانچ رکنی بینچ نے سابق چیف جسٹس آف پاکستان ظہیر جمالی کی سربراھی میں 16 فروری 2016 کو اپنے شاڑٹ آڑڈر میں خارج کردی جسکا تفصیلی فیصلہ 16 مارچ 2016 میں آیا اور اسطرح یہ فیصلہ اب فائنل ھوچکاھے اور اب ایک قانون بن چکاھے.
اب کچھ لوگ یہ تاثر قائیم کررھے ھيں چونکے سپریم کوڑٹ میں یہ اپیل ٹی اینڈ ٹی کے ان تین ملازمین نے کی تھی جو پھلے ٹی اینڈ ٹی سے ٹرانسفر ھوکر پی ٹی سی میں کے ملازم بن گئے تھے اور پھر بعد میں یکم جنوری 1996 کو پی ٹی سی ایل میں ٹرانسفر ھوکر پی ٹی سی ایل کے ملازمین, اور چونکے یہ فیصلہ انکے حق میں آیا ھے تو یہ صرف ان ٹی اینڈ کے تمام ملازمین پر لاگو ھوگا جو پہلے پی ٹی سی اور بعد میں یکم جنوری 1996 کو پی ٹی سی ایل کے ملازمین بن گئے تھے، میں یہ سمجھتا ھوں یہ بالکل غلط ھے . سپریم کوڑٹ نے اپنے اس مسعود بھٹی کیس کے فیصلہ میں پھلے یہ بات بڑی مفصل طریقے سے ثابت کی کے پی ٹی سی ایل سے ٹرانسفر ھونے سے پھلے پی ٹی سی کے ریگولر ملازمین پر گورنمنٹ کے سرکاری قوانین یعنی statutory rules ھی استعمال ھورھے تھے .پی ٹی سی کے اپنے کوئی رولز نہیں تھےاور پی ٹی سی نے یہ گورنمنٹ کے سرکاری رولز ھی اپنائے ھوۓ تھے. سپريم کوڑٹ کے تین ممبران معزز ججز صاحبان ان مسعود بھٹی کیس کے فیصلے میں پیرا نمبر ۹ کے آخر میں لکھا ھے کے " ھمیں یہ نتیجہ اخز کرنے میں کسی قسم کوئی مشکل نھیں کے ان اپیلنٹس پر کارپوریشن کی نوکری میں گورنمنٹ کے سرکاری قوانین یعنی statutory rules ھی استعمال ھوتے تھے. یہ بات سچ بھی ھے کیونکے پی ٹی سی کا ھر ریگولر ملازم پر چاھے وہ ٹی اینڈ ٹی سے ٹرانسفر ھوکر آیا ھو یا پی ٹی سی میں ھی ریگولر بھرتی ھوا ھو. ان سب پر گورنمنٹ ھی statutory rules [ وہ رولز جنکا زکر تفصیل سے اوپر کر چکا ھوں ] استعمال ھوتے تھے وھی تنخواہ کے سکیل تھے اور وھی تنخواہ الاؤنسس دئے جاتے تھے جو گونمنٹ کے سول سرونٹ کو دئیے جاتے تھے . دراصل پاکستان ٹیلی کیمیونیکیشن کارپوریشن یعنی پی ٹی سی ایک گورنمنٹ based کارپوریشن تھی جسمیں گورنمنٹ کے ھی قوانین استعمال ھوتے تھے اسکا ایکسٹرنل آڈٹ بھی " آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے ذمے تھا[ کلاز 2a آف پی ٹی سی ایکٹ 1991].کیونکے گورنمنٹ اداروں کا آڈٹ کرنے کی زمہ داری آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی آئینی زمہ داری ھے. تو یہ ایک اصولی بات ھے جب بات" پی ٹی سی " (جو ایک کاربوریشن تھی ) کے ملازموں کی ھوگی تو اسکا مطلب صرف وہ ملازمین نہ ھونگے جو پہلے ٹی اینڈ ٹی کے ملازمین تھے اور بعد میں پی ٹی سی کے ملازمین بن گئے تھے بلکے وہ تمام ملازمین بھی جو پی ٹی سی میں ریگولر بھرتی ھوئے تھے ، وہ ملازمین بھی جو ٹی اینڈ ٹی میں پھلے ایڈہاک طور یا ورک چارج بھرتی ھوئے تھے لیکن پی ٹی سی میں ٹرانسفر ھونے کے بعد پی ٹی سی میں ریگولر ھوگئے تھے [ انکے date of appointment پی ٹی سی میں اس تاریخ سے شمار ھوگی جس تاریخ سے وہ پی ٹی سی میں ریگولر ھوئے تھے].مزید برآں اس کی اور توضیح کے لئے یہ بات عرض کردوں کے جیسا کے آپکو علم ھے اور یہ بات اپنے اوپر کے پیرے میں واضح کرچکا ھوں کے پی ٹی سی کے ملازمین کی ٹرانسفر "پی ٹی ری آرگنائزیشن ایکٹ 1996 " کی کلاز (2 )35 کے تحت ھوئی تھی . اس کلاز میں لکھا گیا ھے " فیڈرل گورنمنٹ اسی کلاز کی سب سیکشن 1 کے تحت ایک آڑڈر جاری کرے گی جس میں کارپوریشن ( یعنی پی ٹی سی ) کے ملازمین کو ایک مؤثر تاریخ سے ٹراسنفر کردیا جائیگا تاکہ وہ اس ادارے ( یعنی پی ٹی سی ایل) جسکا زکر اوپر کیا گیا ھے اسکے ملازم بن جائیں . "جبکے یہ آڈر ان ملازمین ( یعنی وہ پی ٹی سی کے ملازمین جو پی ٹی سی کے ملازم بنیں گے) کے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس میں کوئی ایسی تبدیلی نہیں کرے گا جن سے انکو نقصان ھو" [ یہاں یہ بات قابل زکر ھے کے مسعود بھٹی کیس کے فیصلے کے پیرا نمبر ۱۲ میں یہ پی ٹی ری آرگنائزیشن ایکٹ 1996 کی کلاز 35 پوری لکھی گئی ھے اور اسکے اس آخری پیرے کو معزز جج صاحبان نے انڈر لائین کیا. جو اس بات کی عمازی کرتاھے کے معزز جج صاحبان نے جو یہ فیصلہ دیا کے یہ ٹرانسفڑڈ ملازمین جو پی ٹی سی ایل کے یکم جنوری 1996 کے ملازم بن گئے انپر پی ٹی سی ایل میں گورنمنٹ کے statutory rules استعمال ھونگے یعنی "they will be governed by statutory rules in PTCL".[اور میرا زاتی خیال ھے شائید اسی وجہ سے اسطرح کا آڈر سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ نےدیا اور اس قانون کی ایک طرح کی تشریح کردی] . فیڈرل گورنمنٹ نے اسی کلاز ۳۵ کے تحت 7 فروری 1996 کو ایک آرڈر جاری کیا جسکا نمبر S. R.O 115 (1)/ 96 ھے جسکے تحت پی ٹی سی سے ٹرانسفر ھونے والے تمام ملازمین یکم جنوری 1996 سے پی ٹی سی کے ملازمین بن گئیے. اور ان ملازمین پر گورنمنٹ کے statutory rules ھی استعمال ھونگے جیسا سپریم کوڑٹ کے مسعود بھٹی کیس کے فیصلے میں کہا گیا اس بات سے ممبراء کے کون ٹی اینڈ ٹی میں ریگولر بھرتی ھوا تھا اور کون پی ٹی سی میں ، [وہ تھے تو سب ھی پی ٹی سی کے ملازمین ] اسطرح یہ تمام ملازمین اسی کٹیگری میں آتے ھیں جس کٹیگری میں راجہ ریاض تھے اور اسکو سپریم کوڑٹ نے وھی تنخواہ اور وھی پنشن دینے کو کہا جو ایک گورنمنٹ کے سرکاری ملازم اور اسکے پنشنر کو ملتی ھے. لہازا اس کٹیگری کے تمام ایسے پی ٹی سی ایل کے ملازمین اور پنشنرز ، ایسی تمام گورنمنٹ کی مراعات کے قانونی حقدار ھوتے ھیں
واسلام
محمد طارق اظہر
ریٹائڑڈ جنرل منیجر ( آپس)
پی ٹی سی ایل
0300-8249598
15-02-2017
azhar.tariq@gmail.com
tariqazhar.blogspot.com
عزیز پی ٹی سی ایل ساتھیو
اسلام و علیکم
مجھے کراچی سے کچھ پی ٹی سی ایل کے ملازمین کے فون موصول ھوئے جنکا کہنا یہ تھا کے وھاں کراچی میں ایسے لوگ جو ٹی اینڈ ٹی میں ریگولر بھرتی ھوۓ تھے اور ابھی پی ٹی سی ایل کے ملازمین ھیں ، وہ یہ تاثر دے رھے ھیں کے راجہ ریاض کے حق میں جو حال ھی میں سپریم کوڑٹ کا فیصلہ آیا ھے اسکا فائدہ ان پی ٹی سی ایل کے ان ملازمین کو نہیں ھوگا جو کارپوریشن یعنی "پی ٹی سی " میں ریگولر طور پر بھرتی ھوۓ اور پھر پی ٹی سی ایل میں یکم جنوری 1996 کو ٹرانسفر ھوگئے تھے. میں انکی اس بات سے بالکل بھی اتفاق نہیں کرتا کیونکے یہ بات میرے نزدیک صحیح نہیں ھے ، کیونکے میں سمجھتا ھوں اس فیصلے کے خلاف ھے، جو سپریم کوڑٹ نے مسعود بھٹی کیس میں پی ٹی سی کے ان تمام ملازمین کے حق میں دیا ما سوائے ان ملازمین کے جو پی ٹی سی میں کنٹریکٹ یا کسی اور پیکج کے تحت بھرتی کئے گئے تھے. مجھے یہ بات آپ لوگوں کو سمجھانے کے لئے تفصیل سے بیان کرنا ھوگا کے کیوں ایسے ملازمین جو پی ٹی سی میں ريگولر پوسٹوں پر بھرتی ھوئے تھے تو انپر بھی انھيں گورنمنٹ کے سرکاری ملازمین والے قوانین کا اطلاق ھوتا تھا جو ان ٹی اینڈ ٹی کے ان ملازمین پر ھوتا تھا جو ٹی اینڈ ٹی کے ختم ھونے کے فورن بعد ٹرانسفر ھوکر پی ٹی سی میں ضم ھوچکے تھے اور انپر پی ٹی سی ایکٹ۱۹۹۱ کی کلاز سیکشن (۱)۹ کے تحت انپر پی ٹی سی ایل کے ملآزم ھونے کے باوجود انھی گورنمنٹ کے قوانین کا اطلاق ھوتا تھا جو انکوٹی اینڈ میں تھا.
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن دسمبر 1991 میں Pakistan Telecommunication Corporation Act, 1991 (ACT XVIII of 1991 کے تحت وجود میں آئی اور گورنمنٹ کا محکمہ یعنی پاکستان ٹیلی گراف اینڈ ٹیلی فون ڈیپاڑٹمنٹ (ٹی اینڈ ٹی) کا وجود ختم ھوگیا اور اسکے تمام ملازمین (Departmental Employees ) جو اس گورنمنٹ کے ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ میں بحیثیت گورنمنٹ کے سرکاری ملازمین (سول سرونٹس ) کام کررھے تھے وہ اسی PTC ACT 1991 کی سیکشن (1) 9 کے تحت PTC میں ٹرانسفر ھونے کے بعد کارپوریشن (PTC) کے ملازمین , انھیں Terms &Conditions پر بن گئے جو انکے PTC میں ٹرانسفر ھونے سے فورن پہلے انکے ٹی اینڈ میں تھے [ یعنی بطور سول سرونٹ ، Civil Servant ACT 1973 کے تحت] اور PTC ACT 1991 کی کلاز (2)9 کے رو سے PTC کو ان کے ان ٹرمز اینڈ کنڈیشنس میں کس بھی قسم کی ایسی منفی تبدیلی کا اختیار نھیں جس انکو نقصان ھو. یاد رھے یہ تمام Terms and conditions اسی Civil Servant Act 1973 کی سیکشنس 3 سے 22 میں دی گئیں ھیں [ ایک ضروری بات ، 1994 میں ایک آڑڈیننس کے تحت Terms & Conditions کی کلاز 3 میں ایک سب سیکشن 2 کا اضافہ کیا گیا جس کے تحت حکومت کسی بھی سرکاری ملازم کی ان Terms&conditions کوئی بھی ایسی تبدیلی نہیں کر سکتی جس سے اسکو نقصان ھو ] سیکشن 25 کے تحت گورنمنٹ کو یہ اختیار دیا گیا کے وہ سول سرونٹس کے لئے قانون بنا سکتے ھیں جو انکے ٹرمز اینڈ کنڈیشن کے مطابق ھی ھوں گے. فیڈرل گورنمنٹ نے ان تمام سول سرونٹس کے لئے جو کسی بھی گورنمنٹ اداروں ریگولرز طور تر کام کر رھے تھے یا اس سے ریٹآئر ھوچکے تھے ، انھیں 1973 Civil Servant Act میں دی گئيں Terms & Conditions جو اسکے سیکشنس 3 سے 22 تک میں دی گئیں ھیں، اپنے سول سرونٹس کے لئے قوانین بنائے جنکو سرکاری قوانین کہتے ھیں اور انگلش میں انکو "statutory rules" بناۓ جن میں جو اکثر کافی active رھتے ھیں آپ لوگوں کے لئے بیان کردیتا ھوں . مثلن
The Civil Servant (Efficiency & Discipline)Rules 1973,The Civil Servants( Appointment, Promotion and Transfer) Rules,&The Civil Servants (Seniority) Rules 1993 etc
تو یہ کچھ Statutory Rules جو فیڈرل گورنمنٹ نے اپنے سول سرونٹس کے لئے ، انکو سول سرونٹ ایکٹ 1973 کی کلاز 25 میں دئیے ھوۓ اختیارات کے تحت سول سرونٹ ٹرمز اینڈ کنڈیشنس کے مطابق بناۓ ھیں. ان ٹرمز اینڈ کنڈیشنس میں ان چیزوں،pay and pension appointment, probation, discipline, leave وغیرہ وغیرہ کے بارے میں بتایا گیا ھے اور حکومت نے انھی کے بارے میں قوانین بنائے جن میں کچھ کا زکر کرچکا ھوں . ایک اور بات آپ لوگوں کی معلومات کے لئے بتانا چاھتا ھوں. کے ان Terms & Conditions کی کلاز "19" سول سرونٹ کو پنشن دینے کے بارے میں ھے یعنی جو سول سرونٹ ریٹآئر ھوگا اسکو پنشن یا گریجوٹی دی جائگی اور اسکی فیملی کو اسکی وفات پر پنشن دیجائگی چاھے وفات سے پھلے رٹائیر ھوا ھو یہ نہ ھو. اس کلاز پر حکومت نے سول سرونٹ ایکٹ کے تحت کوئی رولز نھیں بناۓ کیونکے پنشن دینے کے بارے سرکاری قوانین پھلے سے ھی بنے ھوئے جو 1885میں ایک ایکٹ کے تحت بنے تھے وھی ابتک سرکاری ملازمین پر نافظ ھیں .مگر اس میں تبدیلی ھوتی رھتی ھے جوحکومت ان سرکاری پنشنوں کے لئۓ کرتی دھتی ھے جو صرف ان سرکاری پنشنروں کے فائدے کے لئۓ ھوتی ھیں .کیونکے سول سرونٹ ایکٹ 1973 کی ٹرمز اینڈ کنڈیشن کی کلاز ( 2) 3 واضح کردیا گیا ھے کے ان ٹرمز اینڈ کنڈیشن میں کوئی بھی ایسی منفی تبدیلی نھيں کی جاسکتی جس انکو نقصان ھو. . . [ یہ نھیں جسطرح پی ٹی سی ایل نے ایسے سرکاری ملازمین کے ضمرے میں آنے والے پی ٹی سی ایل کے ملازمین کی پنشن لینے کی کم از کم مدت دس سال سے بڑھا کر بیس سال کردی اور اسطرح VSS-2008 لینے والے ھزاروں ایس پی ٹی سی ایل ملازمین کو پنشنروں سے محروم کردیا جن کی کوالیفائنگ سروس بیس سال سے ایک دن بھی کم تھی. عجیب دادا گیری کی ان 26% شئیرس ھولڈرز والے بے ضمیر کمبختوں نے.وہ کام کیا جن کا انکوکوئی قانونی اختیار سرے سے ھی نھیں تھا.انھوں نے یہ تک نہ سوچا کےوہ گورنمنٹ کے سول سرونٹ ایکٹ والے قوانین رکھنے والے کسی بھی ایک ایسے ٹرانسفڑڈ پی ٹی سی ایل والے ملازم کو پنشن کے حق سےکسی بھی طرح محروم نہيں کرسکتے یہ انکا اختیار ھی نہیں کیونکےان سرکاری پنشن کے قوانین کے مطابق جسکی کوالیفائنگ سروس دس سال یا اس سے زیادہ ھو اسکو پنشن اور آگر دس سال سے کم ھو تو گریجویٹی دینی ھی پڑتی ھے . بیشک اسکو ریٹآئیر کرنے کا طریقہ کوئی بھی ھو یعنی جبری ریٹائرمنٹ، نارمل ریٹائرمنٹ 60 سال کی عمر میں، پر میچور ریٹائرمنٹ یعنی ۲۵ سال کی کولیفائنگ سروس یا اسکے بعد اور 60 سال کی عمر سے پہلے یا والینٹری ریٹائرمنٹ جس گولڈن شیک ھینڈ بھی کہتے ھیں اور اس میں الگ سے ایک مختص اچھی خاصی رقم بطور معاوضہ یعنی compensation بھی اسوجہ سے دیا جاتا ھے کیوں کے ریٹائرمنٹ کے وقت سے پہلے ریٹآئرمنٹ کی جارھی ھوتی ھے وغیرہ وغیرہ ] . . .تو جو ٹی اینڈ ٹی کے ملازمین ، ٹی اینڈ ٹی کے ختم ھونے کے فورن بعد پی ٹی سی ایکٹ ۹۱ کے تحت بننے والی پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن میں ضم ھوگئے تھے وہ اس کارپوریشن میں انھی قوانین اور ٹرمز اینڈ کنڈیشنس کے تحت کام کرھے تھے جو انکے ٹی اینڈ ٹی میں تھے . پی ٹی سی میں انکے تنخواھوں کے سکیلس وھی تھے جو ٹی اینڈ ٹی میں تھے اور انکو وھی تنخواہ دی جارھی تھی . جو گورنمنٹ کے سرکاری ملازمین کو دیجارھی تھی اور جب ھی گورنمنٹ اپنے ان سرکاری ملازم کی تنخواہ بڑھاتی یا اس ميں اضافہ کرتی یا کوئی اور بینیفٹس وغیرہ دیتی تو وھی پی ٹی سی انکو دیتی جہاں تک ٹی اینڈ ٹی کے پنشنروں کو پنشن دینے کا تعلق تھا، پی ٹی سی اسی حساب سے تمام پی ٹی سی ایل پنشنروں کو پنشن دیتی تھی اور انکو بھی جو پی ٹی سی میں ٹرانسفر ھوچکے تھے او وھیں سے ریٹائیر ھورھے تھے. گورنمنٹ نے اس مقصد کے لئے "پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن ایمپلائیز پنشن فنڈ "قائم کیا اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن بحیثیت "ایمپلائیر" اسکا ٹرسٹی بنایا گیا اور ایک ٹرسٹ ڈیڈ ، 2 اپریل 1994عمل میں لائی گئی جس کے تحت پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن ان تمام ٹی اینڈ ٹی سے ریٹائر ھونے والے تمام پنشنرز اور وہ جو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن سے ریٹائر ھونگے انکو اسی حساب سے سے پنشن دیا کرے گی جسطرح حکومت اپنے سرکاری ملازمین پنشنرز کو دیتی ھے اور دیتی رھیگی . جسوقت یہ ٹرسٹ ڈیڈ سائین ھوئی تھی ، یعنی 2 اپریل 1994 کو اس وقت پورے پاکستان ایس پنشنروں کی تعداد 71065 درج تھی (جس میں اضافہ بھی ھوناتھا) اور پاکستان سے باھر صرف 8 ایسے پنشنرس کی تعداد درج تھی [ یاد رھے جب حکومت نے پی ٹی سی کو ختم کرکے پی ٹی ری آرگنائیزیشنس ایکٹ 1996 کے تحت پانچ اداروں میں تقسیم کیا تو اس میں پاکستان ٹیلی کام کمپنی لمیٹڈ (PTCL) کے علاوہ پاکستان ٹیلی کام ایمپلائی ٹرسٹ (PTET) کو بھی قآیم کیا گیا جسکا کام صرف یہ مقصد تھا کے وہ انھی قوانین کے تحت پی ٹی سی ایل کے تمام پنشنرز کو طرح پنشن ادا کرے گی جسطرح پی ٹی سی بطور ٹرسٹی اداکررھی رھی تھی یعنی اتنی ھی اور اسی قوانین کے تحت جسطرح حکومت اپنے سرکاری ملازمین پنشنرز کو ادا کرتی تھی اور اداکررھی ھے] .
پھر جب پاکستان ٹیلی کام کمپنی لمیٹڈ ( پی ٹی سی ایل) یکم جنوری 1996 میں قائم کی گئی تو یہ پی ٹی سی کے یہ تمام ملازمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ کی کلاز ( 1)35 اور کلاز (2) 36 کے تحت یعنی انھیں گورنمنٹ کے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس کے ، جن کے تحت وہ پی ٹی سی میں کام کرھے تھے، پی ٹی سی ایل کے یکم جنوری 1996 سے ملازم بن گئے [ اس بات کو مد نظر رکھنا چاھئے ان تمام پی ٹی سی کے کے وہ ملازمین میں جو یکم جنوری 1996 میں ٹی اینڈ ٹی سے پی ٹی سی ایکٹ ۱۹۹۱ دسمبر ۱۹۹۱ میں ٹرانسفر ھوکر پی ٹی سی کے ملازمین بن گئے تھے بلکے وہ بھی جو پی ٹی سی میں ریگولر پو سٹوں پر ٹی اینڈ ٹی رولز کے مطابق appointed ھوۓ تھے] اور یہاں پی ٹی سی ایل میں بھی انکو وھی تنخواہ اور ریٹائڑڈ ملازمین کو وھی پنشن جو گورنمنٹ کے سول ملازمین کو دی جارھی تھی مل رھی تھی اورجیسے جیسے ان میں کوئی بھی گورنمنٹ اضافہ کرتی تو وہ بھی برابرملتا تھا اور ان سب پر گورنمنٹ کے ھی سرکاری قوانین (Statutory Rules) استعمال ھوتےتھے چاھے وہ پروموشن کا معاملہ ھو ، ٹرانسفر کا یا چھٹی کا یا ان کے خلاف کسی Disciplinary Action کا , ان سب پر گورنمنٹ کے سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے تحت بنائے گۓ فیڈرل گورنمنٹ کے ھی سرکاری قوانین استعمال ھوتے تھے مگر
جون 2006 میں یو اے ای کی کمپنی ایتصلات نے پی ٹی ی کے 26% شئيرس خرید کر پی ٹی سی کے انتظامی اختیار بھی حاصل کرلئے . اور اس پی ٹی سی ایل کی نئی انتظامیہ نے ان پی ٹی سی ایل کے ملازمین پر اپنے یعنی کمپنی بنائے ھوئے قوانین کا اطلاق شروع کردیا اور ساتھ ساتھ انکی تنخواھوں، الاؤنسوں اور پنشن میں کمی کردی بلحاظ گورنمنٹ بہت کم کردئے ، تنخواہ اور پنشن میں وہ اضافہ روک دیا گیا جو گورنمنٹ اپنے سرکاری ملازمین اور پینشنروں کو دیتی ھے جسکا یہ کرنے کے بالکل بھی مجاز نہ تھے .اس نئی پی ٹی سی ایل کی انتظامیہ نے ان ملازمین کے ساتھ سوتیلی ماں والا سلوک شروع کردیا جسکا نتیجہ یہ ھوا اس پی ٹی سی ایل کی نئی انتظامیہ کی Victimisation Policy سے متاثرہ ملازمین نے اعلی عدالتوں کا رخ کرنا شروع کردیا . سب سے زیادہ اپیلیں/درخواستیں سندھ ہائی کورٹ میں داخل کی گئيں کے مگر کسی بھی اپیل یا درخواست جلدی کوئی فیصلہ نہ آیا . پھر سندھ ھائی کوڑٹ ، یہ تمام اپیلیں اور درخواستیں جو تقریبن چارسو کے لگ بھگ تھیں ، ٹیکنیکل بنیاد پر صرف یہ جواز بناکر 3 جون 2010 کو خارج کردیں کے ان پی ٹی سی ایل ملازمین یعنی اپیل کنندہ پر چونکے کمپنی کا ماسٹر اینڈ سرونٹ رولز لگتا ھے یعنی انپر گورنمنٹ کے سرکاری قوانین (statutory rules ) کا اطلاق نھیں ھوتا اسلئے یہ ملازمین آئین کے آڑٹیکل 199کے یہ ھائی کوڑٹ رجوع کرنے کا اختیار نہیں رکھتےلہزا ان پی ٹی سی ایل کے ملازمین کی یہ اپیلیں خارج کی جاتی ھیں . اسکے خلاف تین ایسے aggrieved پی ٹی سی ایل کے ملازمین نے سپریم کوڑٹ میں اپیلیں داخل کیں اور سپریم کوڑٹ نے 7 اکتوبر 2011 کو انکی نہ صرف یہ اپیلیں منظور کیں بلکے سندھ ھائی کوڑٹ 3 جون 2010 کا منسوخ کردیا اور ان اپیل کنندہ کو یہ حکم دیا کے وہ یہ سمجھيں کے انکی اپیلیں ابھی تک سندھ ھائی کوڑ ٹ میں پینڈنگ ھیں جسکا فیصلہ ابھی ھائی کوڑٹ کوکرنا ھے .سپریم کوڑٹ کے اس حکم کی بنیاد ان تین معزز ممبرز ججز سپریم کوڑٹ بینچ کا یہ متفقہ فیصلہ تھا کے " پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کے وہ ملازمین جو ٹرانسفر ھوکر جو یکم جنوری 1996 پی ٹی سی ایل کا حصہ بن چکے ھیں انپر حکومت پاکستان کے سرکاری قوانین (statutory rules ) استعمال ھونگے اور پی ٹی سی ایل یا حکومت کو اس بات کا بالکل بھی اختیار نھیں کے وہ انکے ٹرمز اینڈ کنڈیشنس میں کسی قسم کی ایسی منفی (adverse) کریں جس سے انکو نقصان ھو. اور حکومت اس بات کی گارنٹر ھے کے ان میں کسی قسم کی منفی (adverse) تبدیلی نہ کی جائے جس میں انکی پنشن بھی شامل ھے .تاھم حکومت پاکستان کی یہ گارنٹی ان پی ٹی سی ایل کے ملازمین کے لئیے نھیں ھوگی جنھوں نے پی ٹی سی ایل یکم جنوری 1996کے بعد جائن کیا ھو یا جنکی سروس کنٹریکٹ اور بشمول وہ پی ٹی سی کے وہ ملازمین بھی جو پی ٹی سی میں ایڈھاک طور پر یا ورک چارج یا ڈیلی ویجز میں کام کررھے تھے اور یکم جنوری 1996 کو پی ٹی سی ایل میں ٹرانسفر تو ھوگئے مگر یکم جنوری 1996 کے بعد ريگولر یعنی کنفرم ھوئے ھوں وغیرہ وغیرہ [ یعنی ایسے ملازمین کمپنی کے ملازم کہلائیں گے تو ان کمپنی کے رولز ھی استعمال ھونگے جنکو ماسٹر اینڈ سرونٹس رولز کہتے ھیں.] . پی ٹی سی ایل کے ایسے ملازمین یعنی جن پر گورنمنٹ کے سرکاری قوانین (statutory rules ) لاگو ھونگے وہ پی ٹی سی ایل کی انتظامیہ کے خلاف اپنی شکایات (grievances ) دور کرانے کے لئے ھائی کورٹس میں آئین کے آڑٹیکل 199 کے تحت رجوع کرسکتےھيں". سپریم کوڑٹ کا یہ ایک تاریخی فیصلہ ھے جو "مسعود بھٹی اور دیگر بنام فیڈریشن آف پاکستان جو 2012SCMR152 میں درج ھے.اسکے خلاف پی ٹی سی ایل نے نومبر 2011 میں ایک رویو پٹیشن بھی داخل کی تھی اور سٹے آڈر مانگا تھا . انکو سٹے بھی نہیں ملا اور انکی رویو پٹیشن سپریم کوڑٹ کے پانچ رکنی بینچ نے سابق چیف جسٹس آف پاکستان ظہیر جمالی کی سربراھی میں 16 فروری 2016 کو اپنے شاڑٹ آڑڈر میں خارج کردی جسکا تفصیلی فیصلہ 16 مارچ 2016 میں آیا اور اسطرح یہ فیصلہ اب فائنل ھوچکاھے اور اب ایک قانون بن چکاھے.
اب کچھ لوگ یہ تاثر قائیم کررھے ھيں چونکے سپریم کوڑٹ میں یہ اپیل ٹی اینڈ ٹی کے ان تین ملازمین نے کی تھی جو پھلے ٹی اینڈ ٹی سے ٹرانسفر ھوکر پی ٹی سی میں کے ملازم بن گئے تھے اور پھر بعد میں یکم جنوری 1996 کو پی ٹی سی ایل میں ٹرانسفر ھوکر پی ٹی سی ایل کے ملازمین, اور چونکے یہ فیصلہ انکے حق میں آیا ھے تو یہ صرف ان ٹی اینڈ کے تمام ملازمین پر لاگو ھوگا جو پہلے پی ٹی سی اور بعد میں یکم جنوری 1996 کو پی ٹی سی ایل کے ملازمین بن گئے تھے، میں یہ سمجھتا ھوں یہ بالکل غلط ھے . سپریم کوڑٹ نے اپنے اس مسعود بھٹی کیس کے فیصلہ میں پھلے یہ بات بڑی مفصل طریقے سے ثابت کی کے پی ٹی سی ایل سے ٹرانسفر ھونے سے پھلے پی ٹی سی کے ریگولر ملازمین پر گورنمنٹ کے سرکاری قوانین یعنی statutory rules ھی استعمال ھورھے تھے .پی ٹی سی کے اپنے کوئی رولز نہیں تھےاور پی ٹی سی نے یہ گورنمنٹ کے سرکاری رولز ھی اپنائے ھوۓ تھے. سپريم کوڑٹ کے تین ممبران معزز ججز صاحبان ان مسعود بھٹی کیس کے فیصلے میں پیرا نمبر ۹ کے آخر میں لکھا ھے کے " ھمیں یہ نتیجہ اخز کرنے میں کسی قسم کوئی مشکل نھیں کے ان اپیلنٹس پر کارپوریشن کی نوکری میں گورنمنٹ کے سرکاری قوانین یعنی statutory rules ھی استعمال ھوتے تھے. یہ بات سچ بھی ھے کیونکے پی ٹی سی کا ھر ریگولر ملازم پر چاھے وہ ٹی اینڈ ٹی سے ٹرانسفر ھوکر آیا ھو یا پی ٹی سی میں ھی ریگولر بھرتی ھوا ھو. ان سب پر گورنمنٹ ھی statutory rules [ وہ رولز جنکا زکر تفصیل سے اوپر کر چکا ھوں ] استعمال ھوتے تھے وھی تنخواہ کے سکیل تھے اور وھی تنخواہ الاؤنسس دئے جاتے تھے جو گونمنٹ کے سول سرونٹ کو دئیے جاتے تھے . دراصل پاکستان ٹیلی کیمیونیکیشن کارپوریشن یعنی پی ٹی سی ایک گورنمنٹ based کارپوریشن تھی جسمیں گورنمنٹ کے ھی قوانین استعمال ھوتے تھے اسکا ایکسٹرنل آڈٹ بھی " آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے ذمے تھا[ کلاز 2a آف پی ٹی سی ایکٹ 1991].کیونکے گورنمنٹ اداروں کا آڈٹ کرنے کی زمہ داری آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی آئینی زمہ داری ھے. تو یہ ایک اصولی بات ھے جب بات" پی ٹی سی " (جو ایک کاربوریشن تھی ) کے ملازموں کی ھوگی تو اسکا مطلب صرف وہ ملازمین نہ ھونگے جو پہلے ٹی اینڈ ٹی کے ملازمین تھے اور بعد میں پی ٹی سی کے ملازمین بن گئے تھے بلکے وہ تمام ملازمین بھی جو پی ٹی سی میں ریگولر بھرتی ھوئے تھے ، وہ ملازمین بھی جو ٹی اینڈ ٹی میں پھلے ایڈہاک طور یا ورک چارج بھرتی ھوئے تھے لیکن پی ٹی سی میں ٹرانسفر ھونے کے بعد پی ٹی سی میں ریگولر ھوگئے تھے [ انکے date of appointment پی ٹی سی میں اس تاریخ سے شمار ھوگی جس تاریخ سے وہ پی ٹی سی میں ریگولر ھوئے تھے].مزید برآں اس کی اور توضیح کے لئے یہ بات عرض کردوں کے جیسا کے آپکو علم ھے اور یہ بات اپنے اوپر کے پیرے میں واضح کرچکا ھوں کے پی ٹی سی کے ملازمین کی ٹرانسفر "پی ٹی ری آرگنائزیشن ایکٹ 1996 " کی کلاز (2 )35 کے تحت ھوئی تھی . اس کلاز میں لکھا گیا ھے " فیڈرل گورنمنٹ اسی کلاز کی سب سیکشن 1 کے تحت ایک آڑڈر جاری کرے گی جس میں کارپوریشن ( یعنی پی ٹی سی ) کے ملازمین کو ایک مؤثر تاریخ سے ٹراسنفر کردیا جائیگا تاکہ وہ اس ادارے ( یعنی پی ٹی سی ایل) جسکا زکر اوپر کیا گیا ھے اسکے ملازم بن جائیں . "جبکے یہ آڈر ان ملازمین ( یعنی وہ پی ٹی سی کے ملازمین جو پی ٹی سی کے ملازم بنیں گے) کے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس میں کوئی ایسی تبدیلی نہیں کرے گا جن سے انکو نقصان ھو" [ یہاں یہ بات قابل زکر ھے کے مسعود بھٹی کیس کے فیصلے کے پیرا نمبر ۱۲ میں یہ پی ٹی ری آرگنائزیشن ایکٹ 1996 کی کلاز 35 پوری لکھی گئی ھے اور اسکے اس آخری پیرے کو معزز جج صاحبان نے انڈر لائین کیا. جو اس بات کی عمازی کرتاھے کے معزز جج صاحبان نے جو یہ فیصلہ دیا کے یہ ٹرانسفڑڈ ملازمین جو پی ٹی سی ایل کے یکم جنوری 1996 کے ملازم بن گئے انپر پی ٹی سی ایل میں گورنمنٹ کے statutory rules استعمال ھونگے یعنی "they will be governed by statutory rules in PTCL".[اور میرا زاتی خیال ھے شائید اسی وجہ سے اسطرح کا آڈر سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ نےدیا اور اس قانون کی ایک طرح کی تشریح کردی] . فیڈرل گورنمنٹ نے اسی کلاز ۳۵ کے تحت 7 فروری 1996 کو ایک آرڈر جاری کیا جسکا نمبر S. R.O 115 (1)/ 96 ھے جسکے تحت پی ٹی سی سے ٹرانسفر ھونے والے تمام ملازمین یکم جنوری 1996 سے پی ٹی سی کے ملازمین بن گئیے. اور ان ملازمین پر گورنمنٹ کے statutory rules ھی استعمال ھونگے جیسا سپریم کوڑٹ کے مسعود بھٹی کیس کے فیصلے میں کہا گیا اس بات سے ممبراء کے کون ٹی اینڈ ٹی میں ریگولر بھرتی ھوا تھا اور کون پی ٹی سی میں ، [وہ تھے تو سب ھی پی ٹی سی کے ملازمین ] اسطرح یہ تمام ملازمین اسی کٹیگری میں آتے ھیں جس کٹیگری میں راجہ ریاض تھے اور اسکو سپریم کوڑٹ نے وھی تنخواہ اور وھی پنشن دینے کو کہا جو ایک گورنمنٹ کے سرکاری ملازم اور اسکے پنشنر کو ملتی ھے. لہازا اس کٹیگری کے تمام ایسے پی ٹی سی ایل کے ملازمین اور پنشنرز ، ایسی تمام گورنمنٹ کی مراعات کے قانونی حقدار ھوتے ھیں
واسلام
محمد طارق اظہر
ریٹائڑڈ جنرل منیجر ( آپس)
پی ٹی سی ایل
0300-8249598
15-02-2017
azhar.tariq@gmail.com
tariqazhar.blogspot.com
Comments