Article-66[ HSC order sheets copies of dated 26th and 28th June 2018]


     Article-66[06-08-2018]

[ Copies of order sheets of dated 26th & 28th June 201-]

جائیں اب کہاں. . . . 

عزیز پی ٹی سی ایل ساتھیو
                                                 اسلام و علیکم

آپ لوگوں کی خدمت میں میں یہ  سپریم کوڑٹ کی دو آڑڈرشیٹس  یعنی 26 اور 28 جون 2018  کی کاروائی کی پی ٹی سی ایل پنشنرس کی تو ھین عدالت کیس کی , ۲ فوٹو کاپیاں پیسٹ کررھا ھوں . یہ کاپیاں دو دن پہلے ھی مجھے موصول ھوئی تھیں آپ لوگ  پہلے ان دونوں کوبغور پڑھیں .   26 جون والی آڑڈر شیٹ میں وہ تمام کچھ نہیں لکھا گیا اور ریکاڑڈ پر لایا گیا جو اس دن یعنی 26 جون 2018 کو عدالتی کاروائی میں ھوا جسکے متعلق آپ لوگوں کو میں نے اسی دن اپنے آڑٹیکل 60  میں تفصیلن بیان کیا تھا اور اسی طرح جو 28 جون 2018 کو عدالتی کاروائی ھوئی تھی اسکے متعلق بھی میں نے آپ لوگوں کو اپنے آڑٹیکل 61 میں بتایا تھا .  جو کچھ اس آڑڈر شیٹ میں لکھا وہ اس چیز کی عمازی نہیں کرتا جو اس دن کاروائی کا حصہ تھے . آپکو یاد ھوگا کے 28 جون 2018 کی کاروآئی صرف اسوجہ Adjourned اردی گئی تھی کے پی ٹی سی ایل  کی اسلام آباد ھائی کوڑٹ کے س پی سی 12(2) کے فیصلےکے خلاف اپیل پینڈنگ تھی  اور پی ٹی سی ایل کے وکیل خالد انور صاحب نے بوجہ سرجری سفر نہ کرنے کی وجہ سے آنے سے انکار کردیا تھا . عدالت نے پی ٹی سی ایل پنشنرس کے وکیل ابراہیم ستی صاحب کو کراچی رجسٹری میں  کیس کی hearing  کے لئے کہا تھا لیکن انھوں نے وھاں جانے سے انکار کردیا . تو عدالت نے کیس کو چھٹیوں کے فورن بعد جو بھی available bench  ھوگا اس میں لگانے کا حکم دیا . حیرت انگیز طور پر 28جون 2018 کی آڑڈڑ شیٹ میں خالد انور صاحب کا زکر تک نہیں بس یہ لکھا کے دونوں پاڑٹی کی رضامندی سے یہ کیس adjourned کیا جارھاھے.
 اگرچہ یہ سپریم کوڑٹ میں یہ ریت رھی ھے کے اگر کسی پاڑٹی کے سپریم کوڑٹ کا وکیل ( ASC) کسی وجہ سے نہیں آتا تو کیس کبھی بھی adjourned  نہیں کیا جاتا ھے  اسکی جگہ کیس ایڈوکیٹ آن ریکاڑڈ ( AOR) لڑتا ھے . یہ کنڈیشن ھمیشہ Cause list کے شروع میں لکھی جاتی ھے . مگر حیرت انگیز طور پر اس 28 جون 2018 والی سپیشل کاز لسٹ پر یہ کنڈیشن موجود نہیں تھی . جس کا مطلب یہ ھوا کے عدالت کو یہ علم تھا کے خالد انور صاحب نہیں آئیں گے اور انکو اسکو adjourned کرنا پڑے گا. محترم چیف جسٹس صاحب نے  26 جون کو انکے وکیل خالد انور صاحب کو 28 جون 2018 کو بلانے کا حکم دیا تھا تاکے وہ اس کیس پر فیصلہ کرسکیں .مگر وہ ایسا نہ کرسکے وہ چاھتے  تو خالد انور کے نہ آنے کی صورت میں  AOR کو بھی کہہ سکتے تھے  کے وہ اسکو proceed کریں . اسکی خاص وجہ یہ ھے کے محترم  چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب ،  خالد انور صاحب کا بہت Regard کرتے ھیں کیونکے یہ انکے بہت اچھے دوستوں میں سے ھیں . خالد انور صاحب جب مشرف کے زمانے میں وزیر قانون تھے تو انھوں نے ھی محترم ثاقب نثار صاحب کو سیکریٹری قانون بنایا تھا . محترم ثاقب نثار صاحب نے ھی جب وہ پی ٹی سی ایل کی رویو  پٹیشن ۱۲ جون ۲۰۱۵ سننے والے سپیشل بینچ کے سربراہ تھے انھوں نے ھی موصوف خالد انور صاحب کو رویو کیس میں پی ٹی سی ایل کی طرف سے کیس لڑنے کی اجازت دی تھی جو سپریم کوڑٹ کے رویو کیسز میں رولز اور اصول کے خلاف تھی کیونکے رویو میں صرف وھی وکیل کیس لڑ سکتاھے جو آریجنل اپیل کا حصہ ھو  صرف کوئی دوسرا نیا وکیل صرف اس صورت میں رویوکیس لڑ سکتاھے جب آریجنل اپیل میں حصہ لینے والا وکیل کسی ایسی  مجبوری کی وجہ سے رویو کیس لڑنے کے قابل نہ ھو مگر یہاں ایسی کوئی مجبوری نہیں تھی . شاھد انور باجواہ صاحب موجود تھے جو آریجنل  اپیل میں پی ٹی سی ایل کے وکیل تھے . اسی طرح وھی ججز رویو کیس سن سکتے ھیں جنھوں نے آریجنل اپیل کا فیصلہ کیا ھو . صرف اس صورت میں دیگر ججز رویو کیسز کی hearing  سن سکتےھیں اگر فیصلہ کرنے والے ججز یا تو ریٹائڑڈ ھوجائیں یا اور کسی وجہ سے انکی موجودگی ناممکن رھے .  جسطرح اس رویو کیس میں دوسرے دو ججوں نے کیس سنا تھا ان میں سے ایک  جج محترم ثاقب نثار صاحب تھے اور آریجنل اپیل سننے والے جج محترم گلزار صاحب کیونکے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کو اپیل کا فیصلہ کرنے والے دوججز حضرات سابق چیف جسٹس ناصرالملک صاحب اور مشیر عالم صاحب ریٹائڑڈ ھوچکے تھے . ان رویو کیسس کے دوران خالد انور صاحب  کے اکثر نہ آنے کی وجہ سے ھی بہت delay ھوئی اور رویو پٹیشن پر فیصلہ تقریبن دوسال میں مئی 2017 میں میں آیا اور اب بھی مجھے یہ ھی دکھائی دے رھا ھے کے اس پر بھی فیصلہ جلدی نہ آئے اگر خالد انور صاحب نے وھی اپنا پرانا طرز عمل رکھا . پی ٹی ای ٹی کے پاس صرف ماسوائے اسکے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے فیصلے  پر نہ عمل کرنے کے کے کوئی چانس نہیں . اسکا خالد انور کو وکیل کرنے کی وجہ صرف یہ ھی  کے جتنا delay ھو اتنا ھی بہترھے. اگرچہ اسکو اس پر عمل نہ کرنے کا کوئی عدالتی حکم یا سٹے آڈڑ نہیں . ان کیسس کے ھوتے ھوئے بھی عدالت عظمی کے۱۲ جون ۲۰۱۵ پر عمل کرنا لازمی ھے. مگرھم دیکھ رھے ھیں کے وہ ایسا نہیں کررھی اور عدالت عظمی بھی انکی طرف ھی inclined  دکھائی دیتی ھے ورنہ آج اسکے آڈر کو تین سال سے سے زیادہ ھوگئے ھیں مگر نہ وہ اس پر عمل کرتے دکھائی دیتی ھے اور نہ عدالت عظمی اسکو کرانے میں interested نظر آتی ھے
صادق علی ، TPA اور محمد عارف صاحب نے توھین عدالت کے کیس کر رکھے ھیں جنکی یہ شنوائی ھورھی ھے . ان سب کا صرف ایک پوائنٹ کا ایجنڈہ ھونا چاھئے کے پی ٹی ای ٹی کو  ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے عدالت عظمی کے اس حکم پر اسکی روح کے مطابق عمل کرنا چاھئے اور فورن اسی کے مطابق نوٹیفیکیشن نکالنا چاھئے جسطرح حکومت ھمیشہ کسی ملازم کے حق میں آئے فیصلے پر ھمیشہ نکالتی ھے . جسکی زندہ مثال  سرکاری ملازمین کی منافع کے ساتھ کمیوٹیشن پنشن کی restoration  کا کیس اور ابھی حال ھی میں لاھور ھائی کوڑٹ کا بیوہ پینشنر کی وفات کے بعد اسکی تمام زندہ اولادوں کو پنشن دینے کا حکم . جسکے بعد حکومت نے  لبرل پنشن سرکاری قوانین کو modified کیا  تاکے اسکا فائدہ تمام ایسی بیوہ پنشنروں کو اسکے انتقال کے بعد  اسکی تمام زندہ اولادوں کو بھی ملے گا[ میں اس نوٹیفیکیشن کے بارے میں اپنے آڑٹیکل 63 میں تفصیلن بتا چکا ھوں ]. ان لوگوں کو چاھئے کے وہ اس کیس کے دوران پی ٹی ای اٹی کے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے حکم کے خلاف نکالے ھوئےان پی ٹی ای ٹی کی ان نٹیفیکیشن کی کاپیاں بھی عدالت میں پیش کریں اورعدالت کو یہ باور کرائیں کے وہ اسکے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے حکم عمل کرنے کو کجا اپنے ھی پچھلے سالوں میں دئے ھوئے پنشن میں کمی کردی اور جو وی ایس ایس لے کرریٹائڑڈ ھوئے انکو تو اور کم کردیا جبکے ایسا کوئی حکم عدالت کے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے فیصلے میں نہیں تھا .  عدالت میں انکے نوٹیفیکیشنس  صرف یکم جولائی 2016 سے لے کر یکم جولائی 2018 سے عمل کرنے کی کاپیاں پیش کی جائیں . [ یعنی صرف ان پی ٹی ای ٹی کے نوٹیفیکیشنس جو اسنے 2017-2016, 2018-2017, اور 2019-2018] ایک گزارش ھے ھے  خاصکر صادق علی اور عارف صاحب اپنے اپنے وکیلوں کو فورن تبدیل کریں کیونکے ان میں اتنا تپڑ نہیں  کے وہ صححیح طریقے انکے کیس کی plea کرسکیں . جن لوگوں نے (CPC12(2 کے لئے ابراھیم ستی کو وکیل کیا ھے وہ تو فورن اسکو ھٹا دیں اور کوئی صحیح معنوں میں دبنگ قسم ک کوئی اچھا وکیل کریں جو خالد انور کے ٹکر کا ھونا چاھئیے اور اسکو خوب  گروم کریں .پھر ھی کچھ فائیدہ ھوگا ورنہ نہیں .  خالد انور صاحب تو یہ ھی کوشش کریں گے کے وہ کسی نہ کسی بہانے کیس کی hearing کے لئے نہ آئیں اور یہ معاملہ سپریم کوڑٹ کے یعنی۱۲ جون ۲۰۱۵ کے فیصلے پر عمل کرانے کا لٹکا رھے. 
واسلام 
محمد طارق اظہر
06-08-2018

Comments

Popular posts from this blog

.....آہ ماں۔

Article-173 Part-2 [Draft for non VSS-2008 optees PTCL retired employees]

‏Article-99[Regarding clerification about the registration of the Ex-PTC employees of any capacity with EOBI by PTCL]