: Article-68[Attentiin Non Pensioners PTCL VSS optees retirees]
Article-68
Attentiin Non Pensioners PTCL VSS optees retirees
مجھے ان پی ٹی سی ایل وی ایس ایس نان پنشنر ریٹائریز کے بہت فون آتے اور وہ مجھ سے اسلام آباد ھائی کوڑٹ میں وی ایس ایس نان پنشنرس کی طرف سے پٹیشن کے فیصلے کی[ WP-2114/2016] بابت معلوم کرتے رھتے ھیں .جسکی hearing مکمل ھوچکی ھے اور عدالت میں 28 فروری 2018 سے ابتک فیصلہ محفوظ ھی ھے اور اس کیس کے جج صاحب اب تک اس کا فیصلہ شائید وقت نہ ملنے کی وجہ سے اب تک لکھ نہ سکے . اور دیکھیں کب لکھتے ھیں اور جاری کرتے ھیں
آپکو یاد ھوگا کے 19 فروری 2016 کو جب سپریم کوڑٹ کے پانچ رکنی بینچ نے جب پی ٹی سی ایل کی مسعود بھٹی کیس کے خلاف رویو اپیل خارج کی اور اس کیس میں سپریم کوڑٹ کا دیا ھوا فیصلہ کے پی ٹی سی سے یکم جنوری 1996 کو پی ٹی سی ایل میں تمام پی ٹی سی کے ریگولر ملازمین پر ، پی ٹی سی ایل میں گورنمنٹ کے سرکاری قوانین [statutory rules] ھی استعمال ھونگے اور پی ٹی سی ایل کو انکے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشن میں کسی قسم کی ایسی منفی کا بالکل اختیار نہیں ھے جن سے انکو نقصان ھو .اور ایسی تبدیلی حکومت بھی نہیں کرسکتی ، تو اس سپریم کوڑٹ کے پانچ رکنی بینچ کے اس فیصلے کے بعد، یہ بات کنفرم ھوگئی کے 2008 میں پی ٹی سی ایل نے جو پنشن دینے کی مدت میں دس سال سے بیس سال کرنے کا اضافہ کیا تھا وہ غیر قانونی تھا کیونکے پی ٹی سی ایل کو اس گورنمنٹ کے پنشن دینے کے
قوا نین کو تبدیل کرنے کا سرے سے اختیار ہی نہیں تھا تو کسطرح انھوں نے یہ قوانین تبدیل کردئے . کیونکے پنشن دینے کے قوانین کے تحت دس سال یا اس سے زیادہ کی کوالیفائیڈ سروس کرنے والے ریٹائڑڈ گورنمنٹ ملازمین پنشن لینے کا کے حقدار بن جاتے ہیں . چاھے انکو کسی طرح سے ھی ریٹائڑڈ کیا جائے . دس سال یا اس سے زیادہ کوالیفائیڈ سروس کرنے والے گورنمنٹ ملازم کی وفات کے بعد اسکی بیوہ پننشن کا حقدار بن جاتی ھے. بلکہ گورنمنٹ پنشن قوانین کے کےتحت اگر کسی ریٹآئڑڈ ھونے والے گورنمنٹ ملازم کی ریٹائڑ منٹ کے وقت اگر اسکی کوالیفائیڈ سروس نو سال چھ ماہ یا اس سے زیادہ ھو مگر دس سال سے کم تو اسکی یہ کوالیفائیڈ سروس دس سال خود بخود تصور ھوگی تاکے اسکو پنشن مل سکے لیکن اگر نو سال یا اس سے زیادہ ھو مگر نو سال چھ ماہ سے کم ، تو مجاز اتھاڑٹی کو یہ اختیار حاصل ھوگا کے کے وہ پیریڈ کو condone کرسکتا ھے اور اسکی کوالیفائیڈ سروس کو دس سال کرتے ھوئے اسکو پنشن دینے کا حکم دے سکتا ھے . پی ٹی سی ایل والے یہ قوانین کیا استعمال کرتے انھوں 19 سال چھ ماہ سے زیادہ کوالیفائیڈ سروس والے ایس ٹرانسفڑڈ پی ٹی سی ایل ایمپلائیز کو بھی وی ایس ایس میں جبری ریٹائڑڈ کرکے پنشن سے محروم کردیا . جب سے یہ مسعود بھٹی کا اکتوبر ۲۰۱۱ کیس میں آیا تھا تو میرا خیال اسی وقت سے تھا کے میں اس کیس کے ریفرینس سےایسے تمام وی ایس ایس نا پنشنرس سے درخواست کروں گا کے کے وہ فورن پی ٹی سی ایل کے کے خلاف ھائی کوڑٹ میں آئین پٹیشنس آئین کے آڑٹیکل ۱۹۹ کے تحت داخل کریں کے پی ٹی سی ایل کو انکی پنشن کی مدت میں دس سال سے زیادہ بیس سال تک کرنے کا کوئی قانونی اختیار نھیں تھا ۔ یہ پی ٹی سی ایل کو کس نے اختیار دیا کے وہ گورنمنٹ کے ان پنشن قوانین کو اپنی مرضی سے اپنے فائیدے کے لئے تبدیل کریں جس انکو کوئی قانونی اختیار نھیں تھا ۔ اور دوسرے یہ کے پی ٹی ای ٹی کو یہ کس نے اختیار دیا کے وہ دس سال یا اس سے زیادہ مگر بیس سال سے کم کوالیفائیڈ سروس والوں کو پنشن نہ دے جب کے ٹرسٹ کے قانون کے مطابق کے دس سال یا اس زیادہ ایسے پی ٹی سی ایل میں ٹرانسفڑڈ ملازمین کو پنشن دینے کی قانونی پابند ھے - یہ ٹرسٹ 1998-1997 میں وی ایس ایس لے دس سال یا اس سے زیادہ کوالیفائیڈ سروس والوں کو نہ صرف بلکہ جنکی سروس نو سال چھ ماہ یا اس سے زیادہ اور دس سال سے کم بھی تھی انکو بھی گورنمنٹ کے قوانین کے مطابق پنشن دی تو پھر 2008 میں وی ایس ایس لینے والوں کو جنکی کوالیفائیڈ سروس بیس سال سے کم تھی اور دس سال یا اس سے زیادہ انکو پنشن کیوں نہ دی - لیکن اس وقت میں اپنے اس خیال کو اس لئیے عملی جامہ نا پہناسکا اسکی وجہ اس مسعود بھٹی کیس کے خلاف انکی رویو پٹیشن پینڈنگ تھی - اور جب انکی یہ رویو پٹیشن 19 فروری 2016 کو خارج ھوگئی تو میں نے اپنا آڑٹیکل 1 لکھ کر تمام ایسے وی ایس ایس لے کر ریٹائیڑڈ ھونے والے نان پنشنرس کو motivate کیا کے پہلے وہ انکو اپیل کریں اور پندرہ دن کا نوٹس دیں کے وہ انک جائیز پنشن بحال کریں ورنہ وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے پر حق بجانب ھوں گے- اور سب کو اپنے آڑٹیکل کے زریعے اس اپیل کا ڈرا فٹ بھیجا - سب ایسے لوگوں نے لبیک کہا اور پہلے اپیلیں پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی ھیڈ کوارٹر بھیجیں اور نوٹس پیریڈ ختم ھونے کے بعد کچھ لوگوں نے عدالت سے رجوع کیا۔ - اس سلسلے میں پہلے ھی بتا چکا ھوں کے کسطرح غلام سرور ابڑو صاحب ، جو خود بھی ایک وکیل ھیں اور بلوچستان ھائی کوڑٹ میں وکالت کرتے ھیں - اور وہ بھی پی ٹی سی ایل سے وی ایس ایس ۲۰۰۸ بغیر پنشن کے ریٹائیڑڈ ھوۓ تھے - وہ اپنے ایسے پی ٹی سی ایل ساتھیوں کے ساتھ مئی 2016 میں کوئیٹہ سے ڈائریکٹ اپنی ٹرانسپورٹ مر میرے گھر راولپنڈی آئیے تھے اور مجھ سے کیس کرنے کے بارے میں مشورہ مانگا تھا اور میرے کہنے پر انھوں اسلام آباد میں ایڈوکیٹ آصف محمود صاحب [ آصف محمود صاحب روز ٹی وی پر بھی آتے ھیں انکا پروگرام analysis with Asia Mehmood بھی شائد بدھ اور جمعرات جو رات آٹھ بجے آتا ھے] کو اس کیس کے لئیے وکیل انگیج کیا تھا . پھر اس کیس کی پٹیشن کا جو ڈرا فٹ میں نے ان وکیل صاحب کو بھیجا ، آصف محمود نے اسی پٹیشن کے ڈرا فٹ کو من وعن approve کیا اور کسی بھی مزید تبدیلی کے یہ رٹ پٹیشن یہ 31 مئی 2016 کو غلام سرور اور دیگر کی طرف سے فیڈریشن آف پاکستان پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کے خلاف جسکا نمبر 2114/2016 WP ھے اسلام آباد ھائی کوڑٹ میں داخل کی اور اسی طرح کی ایک پٹیشن وحید راجپوت صاحب نے داخل کی ان میں انکے ساتھ ملتان ، لاھور اور اسلام آباد کے ایسے پی ٹی سی ایل نان پنشنرس وی ایس ایس ریٹائیریز شامل ھیں انکے وکیل کوئی دوسرے ھیں لیکن ان دونوں کیسوں کی hearings ایک ھی جج صاحب نے کی جو مکمل ھوچکی ھے وہ بھی ۲۸ فروری ۲۰۱۸ سے ابھی تک فیصلے کے لئیے محفوظ ھے - وحید راجپوت والے كیس كے وكیل نے عدالت میں انھیں دلائیل سے اتفاق كیا جو غلام سرور ابڑو صاحب كے وكیل آصف محمود صاحب نے دئے تھے-
میں آپ لوگوں کو مختصرن اس کیس کی کاروائی کے متعلق بتانا چاھتا ھوں یعنی 2114/2016 WP کے جو غلام سرور ابڑو اور دیگر نے کیا تھا- اس پر عدالت متعلقہ کو نوٹس جاری کئے اور ان سے اسکا جواب مانگا گیا- مگر نومبر 2016 تک کسی بھی ریسپونڈنٹس نے جواب ھی نھیں دیا اور نہ کیس کی پیروی کے لئیے کوئی آیا- مجھے یہ سب وکیل آصف محمود صاحب نے بتایا جن سے کیس کے متعلق معلومات کرتا رھتا تھا. انکا جواب دسمبر2016 میں آیا اور اس کیس کی hearings مارچ 2017 میں شروع ھوئی - ایک دن مجھے وکیل آصف محمود صاحب نے فون کر کے بتایا کے پی ٹی سی ایل والے اس بات کو تسلیم کرنے سے انکاری ھیں کے جو پٹیشنرس کارپوریشن یعنی پی ٹی سی میں بھرتی ھوئے تھے اور پھر وی ایس ایس لے کر ۲۰۰۸ میں ریٹائڑڈ ھوئے ان پر بھی گورنمنٹ کے قوانین استعمال ھونگے - بقول انکے ان پر کارپوریشن کے قوانین استعمال ھوں گے - تو انکے بارے میں مجھ سے آصف صاحب نے استفسار کیا کے اسکا کیا جواب ھے - ایسے کارپوریشن میں بھرتی ھونے والوں پر کارپوریشن کے کیا قوانین استعمال ھو رھے تھے - اور ان قوانین کا کوئی نوٹیفیکیشن بھی ھے یا نھیں - میں نے انکو جواب دیا کے کارپوریشن میں گورنمنٹ کے ھی ٹی اینڈ ٹی کے والے قوانین استعمال ھو رھے تھے اور کوئی بھی نہ تو کارپوریشن کے قوانین بنائیے گئیے تھے اور نا ھی ایسا کوئی نوٹیفیکیشن نکالا گیا تھا- وکیل صاحب نے یہ ھی جواب عدالت میں جج صاحب کو بتایا - لیکن پی ٹی سی ایل والے اس بات کو تسلیم ھی نھیں کرھے تھے اور اس بات پر مصر تھے کے جو لوگ کارپوریشن میں بھرتی ھوئے تھے ان پر گورنمنٹ کے قوانین استعمال نھیں ھوں گے کیونکہ انپر کارپوریشن کے قوانین استعمال رھے تھے- جس پر ھمارے وکیل صاحب کو یہ کہنا پڑا ٹھیک ھے اگر یہ لوگ یہ سمجھتے ھیں کے ایسے کارپوریشن میں بھرتی ھونے والوں پر کارپوریشن کے قوانین استعمال ھو رھے تھے تو وہ اسکے نوٹیفکیشن کی کاپی لا کر د کھادیں کے پی ٹی سی میں یہ کارپوریشن کے قوانین لاگو ھونگے اور اگر انھوں یہ لاکر دکھا دیا تو وہ اپنی یہ پٹیشن واپس لے لیں گے۔ جج صاحب نے پی ٹی سی ایل والوں کو ایسا نوٹیفکیشن پیش کرنے کا حکم دیا جو یہ نہ کرسکے- ھوتا تو produced کرتے- [مجھے بعد میں کسی نے واٹس ایپس پر پی ٹی سی بوڑڈ کی منظوری سے ۹ فروری ۱۹۹۲ کو جاری کردہ نوٹیفکیشن کی کاپی بھیجی جس میں کہا گیا تھا جب تک کارپوریشن کے اپنے قوانین نھیں بن جاتے اسوقت تک پی ٹی سی میں گورنمنٹ کے ٹی اینڈ ٹی کے existing rules and procedure ھی استعمال ھونگے - اسکی کاپی آپ لوگوں کی آگاھی کے لئیے میں نیچے پیسٹ کررھا ھوں اور یہ کارپوریشن کے قوانین دسمبر ۱۹۹۵ تک نہ بن سکے اور کارپوریشن ۳۱ دسمبر کو ختم ھوگئی اور یکم جنوری 1996 کو پانچ حصوں میں بٹ گئی جس میں ایک حصہ پی ٹ سی ایل یعنی کمپنی تھا اور ایک حصہ پی ٹی ای ٹی یعنی ٹرسٹ بھی تھا]- اس کیس کی آخری hearing کے بعد وکیل صاحب نے 15 اپریل 2017 پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کے اعتراضات ای میل کئے گۓ اور مجھے بتایا کے جج صاحب نے اس کے جوابات 17 اپریل 2017 تک لازمی جمع کرانے کا کہا جو میں نے 16 اور 17 اپریل 2017 کی شب کو رات بھر بیٹھ کر بناۓ کیونکے کے 16 اپریل کے دن میں اپنے بھتیجے کے نکاح کے سلسلے میں لاھور گیا ھوا تھا جھاں سے رات گئے واپس راولپنڈی آیا تھا۔ صبح کو وکیل صاحب کو ان سب کے جوابات بمعہ orguments ای میل کردئیے جو انھوں نے اسی دن یعنی 17 اپریل 2017 کو عدالت کے حکم کے تحت جمع کرا دئیے - اسکے بعد عدالت کی طرف سے خاموشی چھا گئی اور مزید کاروائی کی نئی تاریخ داخل دفتر ھوگئی - وکیل صاحب نے بتایا کے چونکہ دونوں طرف سے دلائیں مکمل ھو چکے ھیں تو اب خیال یہ ھی ھے آئندہ تاریخ میں اس کیس کا فیصلہ سنا دیا جائیگا - 25 جون 2017 کو یہ کیس پھر لگا اور قوی امید تو یہ ہی تھی کے فیصلہ سنایا جائیگا مگر اس دن جج صاحب نے بتایا کے وہ فیصلہ نھیں لکھ سکے اب وہ اسکا فیصلہ 27 ستمبر 2017 کو عدالت کی چھٹیوں کے بعد سنائیں گے - اور ساتھ انھوں نے پی ٹی سی ایل والوں راجہ ریاض کے کیس کے بارے میں ، جو سپریم کوڑٹ میں چل رھا تھا ، اسکے بارے میں باز پرس کی اور پوچھا کے انھوں نے جو جواب سپریم کوڑٹ میں جمع کرایا ھے وہ فائنل ھے اس میں کوئی اور مزید جواب جمع کرائیں گے یا نھیں - جس انھوں نے جواب دیا کے انکا یہ جمع کرایا ھوا جواب فائنل ھے - [ یاد رھے ان دنوں راجہ ریاض کی طرف سے پي ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹي کے خلاف توھین عدالت کا کیس سپریم کوڑٹ میں چل رھا تھا جو راجہ ریاض نے سپریم کوڑٹ کے اس حکم کے مطابق عمل نہ کرنے کی وجہ سے کیا تھا۰ سپریم کوڑٹ نے راجہ ریاض کو گورنمنٹ والی تنخواہ اور پنشن دینے کا حکم دیا تھا.]- اسوقت موصوف جج صاحب کے طرز عمل اور گفتگو سے یہ معلوم ھو رھا تھا کے اسکا فیصلہ پٹیشنرس کے حق میں آئیگا - اس سلسلے میں نے اسی دن اپنے آڑٹیکل میں اس کیس کے فیصلے کی پٹیشنرس کے حق میں جانے کی نوید سنائی تھی کیونکے مجھے اس بات کی قوی امید تھی - مگر ایسا نہ ھوا 27 ستمبر 2017 کو موصوف جج صاحب فیصلہ کیا سناتے انھوں نے تو ریسپونڈنٹ کے وکیل کی request پر انکو مزید arguments کی اجازت دیتے ھوئے کیس ایک ھفتے کے کے لئیے adjourned کردیا - حالانکہ دونوں طرف سے دلائیل اپریل 2017 مکمل ھو چکے تھے اب صرف جج صاحب کو فیصلہ سنانا تھا- جب ایک ھفتے کے بعد کیس لگا تو انکو دو ھفتے کا اور مزید وقت دے دیا گیا- اکتوبر 2017 میں مجھے وکیل صاحب نے بتایا کے جج صاحب کا استدلال یہ ھے کے پنشن بیس سال کی کوالیفائیڈ سروس پر ھوتی ھے نہ کے دس سال پر- اس سلسلے میں وکیل صاحب نے دستاویزی ثبوت مانگے - جس پر انکو میں نے بتایا کے شائد موصوف جج صاحب شائید کسی غلط فہمی کا شکار ھیں بیس سال کی کوالیفائیڈ سروس پر پنشن کا حقدار ھونا صحیح نھیں پنش تو قانون کے مطابق دس سال کی کوالیفائیڈ سروس پر لازمن ھوجاتی ھے چاھے یہ ریٹائرمنٹ جبری ھی کیوں نہ ھو- پہلے بیس سال کی کوالیفائیڈ سروس پر premature retirement دی جاتی تھی جو اب 25 سال ھو چکی ھے- یعنی اگر کوئی سرکاری ملازم جسکی کوالیفائیڈ سروس 25 سال ھو جائیے تو وہ خود درخواست دے کر ریٹائیڑمنٹ لے سکتا ھے یا گورنمنٹ چاھے تو وہ بھی اسکو ریٹائیڑ کرسکتی ھے- جہاں تک تعلق کے پنشن دینے کا تعلق بیس سال کی کوالیفائیڈ سروس پر ھے وہ غلط اور غیر قانونی ھے جسطرح پی ٹی سی ایل والوں نے وی ایس ایس لینے والوں کے ساتھ کیا کے جسکی کوالیفائیڈ سروس بیس سال سے کم تھی انکو پنشن نھیں دی - اپنے اس دلائیل کے جواب میں نے وکیل صاحب کو revise pension کا یہ چاڑٹ پیش کیا [ اسکی کاپی میں آپ لوگوں کی آگاھی میں نیچے پیسٹ کر رکھا ھے] - اس چاڑٹ میں یہ دیا گیا کے کتنی کوالیفائیڈ سروس پر پنشن کیسے calculate کریں گے. اس کولیفائیڈ سروس کا آغاز "دس سال" سے ھوا کے دس سال کی کوالیفائیڈ سروس پر کیا پنشن کے emoluments ملیں گے اور گیارہ سال کی کولیفائیڈ سروس پر کیا اور اسی طرح - تیس سال کی کولیفائیڈ سروس تک اسکی شرح تبدیل ھوتی رھے گی لیکن تیس سال سے زیادہ کولیفائیڈ سروس پر شرح تیس سال والی کولیفائیڈ سروس کے مطابق رھے گی - تو اگر پنشن دینے کا آغاز، بطور جج صاحب بیس سال والی کوالیفائیڈ سروس ھونا تھی تو اسکا چاڑٹ میں آغاز ھی بیس سال کی کوالیفائیڈ سروس سے ھوتا۔ پھر میں نے وکیل صاحب کو سروس بک پر ۱۰ سال کی اور ۲۵ سال کی کوالیفائیڈ سروس verifications کے stemps دکھائے - جسکا مطلب یہ ھے کے جب تک ۱۰ سال کی اور ۲۵ سال کوالیفائیڈ کی سروس verifications سروس بک پر نہ ھو تو نہ تو ۱۰ سال کی یا ۲۵ سال کوالیفائیڈ سروس کے بعد بھی انکی ریٹائیرمنٹ پر انکو پنشن نھیں دی جا سکتی - وکیل صاحب نے یہ دلیلیں عدالت میں جمع کرا دئیے- بحر حال اس کیس کا دوبار دلائیل کا سلسلہ خدا خدا کرکے ۲۸ فروری ۲۰۱۸ کو پائیہ تکمیل تک پہنچا - جسکا کا فیصلہ اب تک آج کی تاریخ تک محفوظ ھے اور کتنا اور رھتا ھے اللہ ھی بہتر جانتا ھے یا وہ جج صاحب جنھوں نے فیصلہ لکھنا ھے - کچھ دن پہلے میں نے وکیل صاحب سے پوچھا تھا کے کب تک امید ھے - تو انھوں نے جواب دیا تھا جج صاحب نے نے اسکی فائیل منگوالی ھے جو اب انکے آفس میں پڑی ھوئی ھے - دیکھیں اب کب اس کی قسمت کھلتی ھے- بحر حال یہ بات تو یقینی ھے کے اسکا فیصلہ انشاللہ پٹیشنرس کے حق میں ھی آئیگا - اسکی ایک بڑی وجہ یہ ھے کے ابھی حال ھی سپریم کوڑٹ نے یو بی ایل کی رویو پٹیشن 13 اپریل 2018 خارج کرتے ھوئے یہ حکم دیا کے بنک کے 5416 ملازمین کو بینک نے اکتوبر 2010 کو سٹاف میں کمی کرتے ھوئے نکال دیا تھا ، تو جن نکالے ھوئے ملازمین کی کوالیفائیڈ سروس دس سال ھوچکی تھی انکو قانون کے مطابق پنشن دی جائیے- یاد رھے ان بنکوں کے ملازمین فیڈرل گورنمنٹ کے ھی پنشن قوانین نافذ تھے- تو جب ملک کی سب سے بڑی عدالت عظمی ایسے دس سال کوالیفائیڈ سروس والے نکالے ھوئے ملازمین کو پنشن دینے کا حکم دے سکتی ھے تو کیا چھوٹی عدالت عالیہ یعنی ھائی کوڑٹ ایسے حکم کی کیسے نفی کرسکتی ھے؟؟؟ اور وی ایس ایس ۲۰۰۸ میں جبری وی ایس ایس دے کر ، 10 سال یا اس سے زیادہ مگر 20 سال سے کم کوالیفائیڈ سروس کو پنشن دینے کا حکم کیوں نھیں کرسکتی؟؟؟؟
واسلام
محمد طارق اظہر
۱۳ نومبر ۲۰۱۸
بوقت شب ۱۲ بجکر ۳۵ منٹ
Comments