Article-108[Regarding Writ Petition No 4588/2018]
About Writ Petition WP-4588/2018
Muhammad Tariq Azhar & others
Federation of Pakistan & others
نوٹ : اس کیس میں میرے ساتھ شامل ھونے والے پٹیشنرس متوجہ ھوں
عزیز پی ٹی سی ایل پنشنرس پٹیشنرس ساتھیو
اسلام علیکم
جیسا کے آپ سب لوگ جانتے ھیں میں نے یہ کیس آپ اکتیس پٹیشنروں کی ساتھ جناب جمیل حسن قریشی ایڈوکیٹ کی وساطت سے اسلام آباد ھائی کوڑٹ ۱۵ نومبر ۲۰۱۸ میں دائیر کیا تھا جو اس نمبر سے یعنی WP-4588/2018 یکم دسمبر کو رجسٹڑڈ ھوا اور اسکی پہلی شنوائی ۳ دسمبر ۲۰۱۸ کو اسلام ھائی کوڑٹ کے جج محترم جج جناب جسٹس عامر صاحب کی عدالت میں ھوئی جو انھوں نے سماعت کے لئیے منظور کرتے ھوئیے ، پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل اور دیگر ریسپونڈنٹس کو نوٹسس دیتے ھوئے دو ھفتوں میں جواب مانگا۔ جسکا جواب یہ لوگ اب تک جمع نھیں کراسکے ۔ ھمارے وکیل صاحب نے جون ۲۰۱۹ میں اسکی ارجنٹ ھئیرنگ کی درخواست لگائی جسکی ھئیرنگ شائید 24 جون ۲۰۱۹ کو ھوئی ۔ اسوقت بھی انھوں نے جواب جمع نہیں کرایا تو عدالت نے کیس کی ھئیرنگ عدالت کی چھٹیوں تک موقوف کردی اور پھر ۲۲ اکتوبر ۲۰۱۹ کو اسکی ھئیرنگ ھوئی ۔ مگر وہ بھی موقوف کردی گئی کیونکے انھوں نہ تو جواب جمع کرایا اور نہ انکا وکیل آیا۔ پھر یہ موقوف کردی گئی اور اب ۵ دسمبر ۲۰۱۹ کو یہ لگے گی ۔ دیکھئیے کیا ھوتا ھے ۔
میں آجکل پاکستان میں نھیں ھوں میں نے مسرت نواز صاحب کو جو اسلام آباد میں رھتے ھیں کے وہ ھئیرنگ سننے ضرور جائیں ۔ آپ لوگ اس سلسلے میں کیس کے وکیل جناب جمیل حسن قریشی [ سیل نمبرز3293159-0321 ، 3293159-0336 ] سے بات کرنا چاھیں تو ضرور کریں ۔ مگر احسن طریقے سے کرئیے گا کوئی غلط تاثر نہ جائیے ۔ جب فون کریں تو انکو پہلے اپنا نام اور اپنا پٹیشنر سیریل نمبر ضرور بتادیں ۔ میں پٹیشنرس کی لسٹ نیچے پیسٹ کررھا ھوں اس سے اپنا سیریل نمبر دیکھ سکتےھیں ۔ تیس پی ٹی سی ایل ساتھیو نے مجھے اٹارنی دی تھی انکی طرف سے میں نے وکیل کے وکالت نامہ پر دستخط کئیے ، مسرت نواز صاحب جو اسلام آباد میں مقیم ھیں انھوں نے وکالت نامہ خود سائین کیا تھا۔
میں نے وکیل جمیل حسن قریشی صاحب کو ۵ دسمبر کی ھئیرنگ کے بارے میں ایک خط لکھ کر انکو واٹس ایپ کردیا ۔ یہ خط بھی آپ لوگوں کے لئیے نیچے پوسٹ کردیا ھے آپ اسکو ضرور پڑھئیے گا تاکے آپ لوگوں کو بھی اچھی طرح آگاھی ھو کے کیا کیس کیا گیا ھے اور اسکے اھم نکات کیا ھیں ۔مجھے ضرور اپنی آرا سے فیس بک یا واٹس ایپس پر کال کرکے مطلع کرتے رھیں ۔ بس کنیڈا اور پاکستان کے وقت کا خیال رکھیں ۔ایسا نہ ھو جب آپ مجھے میسج یا کال کریں یہاں رات ھو اور میں سو رھا ھوں۔ شکریہ
واسلام
طارق
شب ۱۰ بجے ۲ دسمبر۲۰۱۹
اٹاوہ۔ کنیڈا
“خط”
ڈئیر جمیل حسن قریشی ایڈوکیٹ صاحب
اسلام و علیکم
امید ھے آپ خیریت سے ھونگے۔ میں 14 نومبر سے اپنے بیٹے کے پاس اٹاوہ کنیڈا میں ھوں ۔ مجھے کنیڈا آنے میں دیر ھوگئی میرا خیال اگست میں آنے کا تھا اور ٹانگ میں فریکچر کی وجہ سے نہ آسکا اور اسی لئیے ۲۲ اکتوبر کو ھونے والی اپنے کیس کی شنوائی کے لئیے کوڑٹ میں بھی نہ آسکا۔ اب ۵ دسمبر کو ھونے والی اپنے کیس 4588/2018 میں نہیں آسکتا ۔ بحر حال میرے دوست ریٹائیڑڈ ڈائیریکٹر مسرت نواز جو اس کیس میں میرے ساتھ پٹیشنر بھی ھیں ( ۳۲ نمبر پٹیشنر)، وہ آئیں گے ۔ میری نمائیندگی میرے دیرینہ دوست ریٹائیڑڈ جنرل منیجر رسول خان کریں گے جنھوں نے خود بھی کیس کر رکھا ھے ۔ مجھے امید ھے کے آپ نے فل تیاری کرلی ھوگی ۔ مجھے آپ جیسے قابل اور صد احترام وکیل سے بیحد اچھی توقعات ھیں ۔
میں آپ کو اس کیس کے متعلق اچھی طرح آگاہ کرچکا تھا اور آپ نے بھی اس سے اتفاق کیا تھا۔ آپ نے جو پٹیشن میری ڈرافٹ پٹیشن کو دیکھ کر بنائی تھی اس میں آپ نے سپریم کوڑٹ کے صرف دو کیسوں کے ریفرنس دئیے تھے یعنی حمید اختر نیازی کیس اور انیتا تراب علی کیس ۔ جبکے میں نے اس میں اور بہت سے ھائی کوڑٹوں کے ریفرنسس اسی طرح کے کیسوں میں دئیے تھے جس میں ھائی کوڑٹوں نے سپریم کوڑٹ کے ایک یا اس سے زیادہ سرکاری ملازمین کے حق میں دئیے گئیے فیصلوں کا جنھوں نے مقدمہ کیا تھا، انکا فائیدہ اور ایسے تمام سرکاری ملازمین کو بھی دیا تھا جنھوں نے مقدمہ نہیں کیا تھا۔ آپ نے ان کیسوں کا ریفرنس پٹیشن میں نہیں دیا تھا بلکے مجھے بتایا تھا وہ ایسے اور کیسوں ریفرنس دوران بحث دیں گے ۔ تو آپ وعدہ کے مطابق ان ریفرنسس کا عدالت میں ضرور زکر کرئیے گا خاص کر تارہ چند کیس کا ۔ آپ اپنی بحث کا محور صرف اور صرف ۱۲ جون ۲۰۱۵ والا تین رکنی سپریم کوڑٹ کا آڈڑ ھی رکھئیے گا ۔ جسکے خلاف پی ٹی ای ٹی کی رویو پٹیشن بھی تین رکنی بینچ نے 17 مئی 2017 کو خارج کردی تھی ۔ وہ لوگ ۱۵ فروری ۲۰۱۸ والے دو رکنی بینچ کے آڑڈڑ کو ترجیح دیں گے ۔ جسکی آپنے بھر پور منفی کرنی ھے۔ یہ مقابل عمل ھے یہ دو ججوں کا آڑڈڑ ھے یہ کس طرح چھ ججوں کے آڑڈڑ پر فوقیت لے سکتا ھے ۔
یہ نا قابل عمل آڑڈڑ دو رکنی سپریم کوڑٹ جسٹس محترم گلزار صاحب اور جسٹس قاضی عیسے صاحب نے دیا تھا جسکو جسٹس محترم گلزار صاحب نے تحریر کیا تھا ۔ اس آڈر میں عدالت نے ماسوائیے وی ایس ایس لے کر ریٹائیڑڈ ھونے والے پی ٹی سی ایل پنشنرز کے صرف نارمل ریٹائیڑڈ پٹیشنرز پی ٹی سی ایل پنشنرز کو گورنمنٹ انکریز ، incentive pay کی پنشن کیلکولیشن شامل کرکے دو ھفتے میں ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔ یہ ایک ناقابل عمل ( ultra- varies) دو رکنی بینچ کا آڈڑ تھا۔ جبکے تین رکنی بینچ کے آریجنل آڈڑ جو ۱۲ جون ۲۰۱۵ کو دیا گیا اس میں ایسا کوئی زکر نہیں تھا ۔ اس میں انھوں نے تمام ریٹائیڑڈ پی ٹی سی ایل ملازمین کو جو ٹی اینڈ ٹی سے کاپوریشن (پی ٹی سی ) اور کمپنی (پی ٹی سی ایل ) میں ٹرانسفڑڈ ھوکر ریٹائیڑڈ ھوئیے تھے ، پی ٹی ای ٹی کو گورنمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریز دینے کا حکم دیا تھا ۔ انھوں کوئی قدغن نھیں لگائی تھی کے جو وی ایس ایس لے کر ریٹائیڑڈ ھو اسکو گورنمنٹ والی پنشن انکریز نہ دیا جائیے ۔ پی ٹی ای ٹی 1997-1998 میں وی ایس ایس لے کر ریٹائیڑڈ ھونے والے سبھی ایسے پنشنروں کو نارمل ریٹائیڑڈ ھونے والے پنشنروں کے مطابق ھمیشہ گورنمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریز دی جو انھوں یکم جولائی 2010 سے کم کردی اور اسوقت گورنمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریز ۲۰% کی بجائیے اپنی طرف سے ۸% کردی جب ھی یہ مسعلہ کھڑا ھوا۔ جو لوگ ۲۰۰۸ میں وی ایس ایس لے کر ریٹائیڑڈ ھوئیے تھے انکو بھی ای پی ٹی ای ٹی نے ھرسال گورنمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریز دی اور اب نہ جانے کیوں انکاری ھے ۔انھوں نے جو اپنی رویو پٹیشن ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے کیس کے خلاف داخل کی تھی اس میں بھی کہیں بھی انھوں نے اپنا مدعا ظاھر نھہیں کیا کے وی ایس ایس لے کر ریٹائیڑڈ ھونے پی ٹی سی ایل پنشنروں کو گورنمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریز نہیں دینا چاھتے ۔ انھوں نے تو اپنی رویو پٹیشن میں اس ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے عدالتی حکم کو سرے سے ختم کرنے کی درخواست کی تھی اور اس سلسلے میں انکے وکیل جناب خالد انور صاحب نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا یہ ثابت کرنے میں کے یہ سرکاری ملازمین کے زمرے میں نھیں آتے اور یہ کمپنی کے ملازمین ھیں[ یہ بات سپریم کوڑٹ کے مسعود بھٹی کیس 2012SCMR152 کے تناظر میں بلکل غلط ھے جسکے خلاف انکی رویو پٹیشن بھی سپریم کوڑٹ کے پانچ رکنی بینچ نے 19 فروری 2016 کو خارج کردی تھی اور اس بات کو ری کنفرم کیا کے پی ٹی سی ایل کو اس عمل کا کوئی اختیار نھیں کے وہ ان کے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس ( جو گورنمنٹ سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے سیکشن ۳ سے سیکشن ۲۲ تک دئیے گئیے ھیں ) کو انکے نقصان کے لئیے کرے اور حکومت کو بھی ایسا کرنے کی ممانعت ھے ] اور انکو اس گورنمنٹ پنشن لینے یا اس میں انکریز لینے کا کا کوئی اختیار نھیں ۔ مگر عدالت عظمی نے انکی کسی دلیل سے اتفاق نہیں کیا اور انکی رویو پٹیشن ڈسمس کردی ۔ تاھم عدالت نے انکے وکیل جناب خالد انور صاحب کی پر زور اسرار پر جب انھوں نے یہ کہا کے جن لوگوں نے وی ایس ایس ایس لیا وہ کمپنی کے ملازم بن گئیے کیونکے انکے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس تبدیل ھو گئیے تو بحیثیت کمپنی کے ملازمین انکو اپنے grievances دور کرنے اور مراعات لینے کا ھائی کوڑٹوں سے رجوع کرنے کا اختیار نھیں تھا لیکن انھوں نے رجوع کرکے ھائی کوڑٹوں سے مراعات حاصل کیں اسلئیے انھوں نے فراڈ کیا۔ اس پر عدالت عظمی نے اپنے 17 مئی 1917 کی آف میں یہ حکم بھی دیا کے کے اگر وکیل جناب خالد انور صاحب یہ سمجھتے ھیں کے انھوں نے فراڈ کیا تو جن ھائی کوڑٹوں سے انھوں نے مراعات لیں وہ ان عدالتوں میں CPC12(2) کے تحت کیسس کریں ۔ پی ٹی ای ٹی نے اسلام آباد ھائی کوڑٹ اور پشاور ھائی کوڑٹ میں ایسی اپیلیں CPC12(2) کے تحت داخل کیں جو تمام خارج ھوگئیں ۔ جن کے خلاف پی ٹی ای ٹی نے سپریم کوڑٹ میں اپیلیں دائیر کر رکھیں ھیں جو پینڈنگ ھیں۔ھوسکتا ھے انکے وکیل عدالت سے یہ درخواست کریں کیں انکے اسلام آباد ھائی کوڑٹ اور پشاور ھائی کوڑٹ میں انکے CPC12(2) کے تحت ڈالی جانے والی اپیلوں کے خارج ھونے کے خلاف انھوں نے جو اپیلیں سپریم کوڑٹ میں داخل کر رکھی ھیں اور وہ عدالت عظمی میں زیر سماعت ھیں اسلئیے اس کیس کو انکے فیصلے آنے تک پینڈنگ رکھا جائیے ۔ مگر یاد رھے ان کیسس کا اس پٹیشن 4588/201 کا کوئی بھی تعلق نہیں بنتا ھے ۔ وہ کیسس تو انھوں نے سپریم کوڑٹ کے کہنے پر CPC12(2) کے تحت ان وی ایس ایس لینے والے ریٹائیریز کے خلاف اسلام آباد ھائی کوڑٹ اور پشاور ھائی کوڑٹ میں کیں تھیں جنھوں نے ان ھائی کوڑٹوں سے بقول پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل کے مراعات فراڈ طور پر لے لیں تھیں اور اسلام آباد ھائی کوڑٹ اور پشاور ھائی کوڑٹ انکی یہ اپیلیں خارج کردیں تھیں ۔ جبکے ھمارے کیس کا تعلق سپریم کوڑٹ کے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے فیصلے پر تمام نان پٹیشنرس پی ٹی سی ایل پر سپریم کوڑٹ کے اپنے متعین کردہ قوانین جو اسنے حمید اختر نیازی کیس 1996SCMR1185 میں کیا تھا اور جسکا اعادہ سپریم کوڑٹ نے انیتا تراب علی کیس میں کیا تھا اور سخت تنبیہہ کی تھی جو سپریم کوٹ کے ان متعین کردہ اصول اور قانون پر عمل نہیں کریں گے ان کے خلاف توھین عدالت کی کاروائی کی جاسکتی ھے ۔ ڈئیر جمیل صاحب آپنے اس پر stick ھونا ھے اور stand لینا ھے اور انکی اس چال کو کامیاب نھیں ھونے دینا ۔ یہیں آپکی وکالت کا امتحان ھوگا۔
ایک اور اھم بات آپکو بتانا چاھتا ھوں اگرچہ ھم یہ کیس تمام پی ٹی سی ایل پنشنرس پر چاھے وہ کسی طرح بھی ریٹائیڑڈ ھوئیے ھوں ، ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے عدالت عظمی کے حکم کے مطابق عدالت عظمی کے اپنے متعین کردہ قانون اور اصول کے تحت عمل کرنے کے لئیے کیا ھے ۔ لیکن حقیقت یہ ھے کے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے عدالت عظمی کے کے آڈڑ کو غور سے پڑھیں تو انھوں نے پی ٹی ای کو “ all such employee” پر عمل کرنے کا حکم دیا ھے نا کے “ all such respondents “ انھوں نے جو لکھا وہ یہ ھے اور آپ نے وھی پٹیشن میں بھی reproduced کیا ھے
“the respondents(PTET), who were the employees of T&T Department having retired after their transfer to the Corporation and the Company will be entitled of the same pension as announced by the Government of Pakistan and Board of the trustees of the Trust is bound to follow such announcement of Government in respect of such employees.
یاد رھے عدالت کے ھر لفظ ، کاما، فلسٹاپ تک کی بڑی اھمیت ھوتی ھے ۔ بحرحال یہ میرا تجزیہ ھے آپ اسکو کسطرح دیکھتے ھیں اور اس پر plea لیتے ھیں یہ آپ خود ھی بخوبی جان سکتے ھیں ۔
وکیل صاحب مجھے نہیں لگتا کے وہ اب بھی جواب جمع کرائیں گے ۔ وہ کیا جواب جمع کرائیں گے ۔ کسطرح سپریم کوڑٹ کے احکامات کی منفی کریں گے اور کیا جواز دیں گے کے وہ سپریم کوڑٹ کے متعین کردہ قانون اور اصول کے مطابق عمل نہیں کریں گے اور اپنی کریں گے ۔ آپ یہ بات اور عدالت کو باور کرانے کی کوشش کیجئیے گا کے انھوں نے عدالت کے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے احکامات کی جس طرح بے توقیری کی اسکی کوئی مثال نہیں نہیں سکتی ۔ عدالت نے حکم دیا کے گورنمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریز ایسے ریٹائیڑڈ ملازمین کو ادا کرنے کی ٹرسٹ سختی سے پابند ھے مگر ٹرسٹ نے کیا وہ گورنمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریزز کا نوٹیفیکیشن کیا نکالتی اس نے تو اپنے ھی پنشن انکریز میں کمی کردی اور اور اسکو دو کٹیگری میں تبدیل کردیا ۔ یعنی وی ایس ایس لے ریٹائیڑڈ ھونے ولی پنشنروں کو کم ملے گی اور نارمل والوں کو اس سے تھوڑی زیادہ اپنے دئیے ھوئیے پہلے سے کم جو یہ یکم جولائی 2010 سے دیتے آرھے تھے یعنی ۸% ۔ یہ ھے انکا سپریم کوڑٹ کاحکامات پر عمل ۔ دیکھا جائیے پی ٹی ای ٹی نے عدالتی ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے احکامات کا تمسخر اڑایا ھے ۔ اور کوئی بھی انکو پوچھنے والا نہیں۔ آپ اس بات جو ضرور عدالت کے سامنے آشکارا کیجئیے گا یہ بہت ھی کم ظرف لوگ ھیں ۔ انکے وکیل آپکو اور عدالت کو زچ کرنے کی بہت کوشش کریں گے ۔ انسے ھوشیار رھئیے گا ۔
آپ سے التماس ھے اگر کوئی جواب یہ جمع کرائیں اور عدالت آپ سے اسکاrebutter مانگے تو آپ اگر چاھیں تو اسکا جواب مجھ سے لے سکتے ھیں اور مجھے یہ ای میل کردیجئیے گا آپ سے التماس ھے ۵ دسمبر کی عدالتی کاروائی کے متعلق مجھے اس میرے واٹس ایپس نمبر پر اسی دن ضرور مطلع کردیں ۔شکریہ اللہ سے دعا ھے کے کوئی اچھا رزلٹ آئیے آمین!
نیازمند
پٹیشنر محمد طارق اظھر
۲ دسمبر ۲۰۱۹
اٹاوہ۔ کنیڈا
پیر دن چار بجے
( پاکستانی منگل ۳ دسمبر رات دو بجے)
Muhammad Tariq Azhar & others
Federation of Pakistan & others
نوٹ : اس کیس میں میرے ساتھ شامل ھونے والے پٹیشنرس متوجہ ھوں
عزیز پی ٹی سی ایل پنشنرس پٹیشنرس ساتھیو
اسلام علیکم
جیسا کے آپ سب لوگ جانتے ھیں میں نے یہ کیس آپ اکتیس پٹیشنروں کی ساتھ جناب جمیل حسن قریشی ایڈوکیٹ کی وساطت سے اسلام آباد ھائی کوڑٹ ۱۵ نومبر ۲۰۱۸ میں دائیر کیا تھا جو اس نمبر سے یعنی WP-4588/2018 یکم دسمبر کو رجسٹڑڈ ھوا اور اسکی پہلی شنوائی ۳ دسمبر ۲۰۱۸ کو اسلام ھائی کوڑٹ کے جج محترم جج جناب جسٹس عامر صاحب کی عدالت میں ھوئی جو انھوں نے سماعت کے لئیے منظور کرتے ھوئیے ، پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل اور دیگر ریسپونڈنٹس کو نوٹسس دیتے ھوئے دو ھفتوں میں جواب مانگا۔ جسکا جواب یہ لوگ اب تک جمع نھیں کراسکے ۔ ھمارے وکیل صاحب نے جون ۲۰۱۹ میں اسکی ارجنٹ ھئیرنگ کی درخواست لگائی جسکی ھئیرنگ شائید 24 جون ۲۰۱۹ کو ھوئی ۔ اسوقت بھی انھوں نے جواب جمع نہیں کرایا تو عدالت نے کیس کی ھئیرنگ عدالت کی چھٹیوں تک موقوف کردی اور پھر ۲۲ اکتوبر ۲۰۱۹ کو اسکی ھئیرنگ ھوئی ۔ مگر وہ بھی موقوف کردی گئی کیونکے انھوں نہ تو جواب جمع کرایا اور نہ انکا وکیل آیا۔ پھر یہ موقوف کردی گئی اور اب ۵ دسمبر ۲۰۱۹ کو یہ لگے گی ۔ دیکھئیے کیا ھوتا ھے ۔
میں آجکل پاکستان میں نھیں ھوں میں نے مسرت نواز صاحب کو جو اسلام آباد میں رھتے ھیں کے وہ ھئیرنگ سننے ضرور جائیں ۔ آپ لوگ اس سلسلے میں کیس کے وکیل جناب جمیل حسن قریشی [ سیل نمبرز3293159-0321 ، 3293159-0336 ] سے بات کرنا چاھیں تو ضرور کریں ۔ مگر احسن طریقے سے کرئیے گا کوئی غلط تاثر نہ جائیے ۔ جب فون کریں تو انکو پہلے اپنا نام اور اپنا پٹیشنر سیریل نمبر ضرور بتادیں ۔ میں پٹیشنرس کی لسٹ نیچے پیسٹ کررھا ھوں اس سے اپنا سیریل نمبر دیکھ سکتےھیں ۔ تیس پی ٹی سی ایل ساتھیو نے مجھے اٹارنی دی تھی انکی طرف سے میں نے وکیل کے وکالت نامہ پر دستخط کئیے ، مسرت نواز صاحب جو اسلام آباد میں مقیم ھیں انھوں نے وکالت نامہ خود سائین کیا تھا۔
میں نے وکیل جمیل حسن قریشی صاحب کو ۵ دسمبر کی ھئیرنگ کے بارے میں ایک خط لکھ کر انکو واٹس ایپ کردیا ۔ یہ خط بھی آپ لوگوں کے لئیے نیچے پوسٹ کردیا ھے آپ اسکو ضرور پڑھئیے گا تاکے آپ لوگوں کو بھی اچھی طرح آگاھی ھو کے کیا کیس کیا گیا ھے اور اسکے اھم نکات کیا ھیں ۔مجھے ضرور اپنی آرا سے فیس بک یا واٹس ایپس پر کال کرکے مطلع کرتے رھیں ۔ بس کنیڈا اور پاکستان کے وقت کا خیال رکھیں ۔ایسا نہ ھو جب آپ مجھے میسج یا کال کریں یہاں رات ھو اور میں سو رھا ھوں۔ شکریہ
واسلام
طارق
شب ۱۰ بجے ۲ دسمبر۲۰۱۹
اٹاوہ۔ کنیڈا
“خط”
ڈئیر جمیل حسن قریشی ایڈوکیٹ صاحب
اسلام و علیکم
امید ھے آپ خیریت سے ھونگے۔ میں 14 نومبر سے اپنے بیٹے کے پاس اٹاوہ کنیڈا میں ھوں ۔ مجھے کنیڈا آنے میں دیر ھوگئی میرا خیال اگست میں آنے کا تھا اور ٹانگ میں فریکچر کی وجہ سے نہ آسکا اور اسی لئیے ۲۲ اکتوبر کو ھونے والی اپنے کیس کی شنوائی کے لئیے کوڑٹ میں بھی نہ آسکا۔ اب ۵ دسمبر کو ھونے والی اپنے کیس 4588/2018 میں نہیں آسکتا ۔ بحر حال میرے دوست ریٹائیڑڈ ڈائیریکٹر مسرت نواز جو اس کیس میں میرے ساتھ پٹیشنر بھی ھیں ( ۳۲ نمبر پٹیشنر)، وہ آئیں گے ۔ میری نمائیندگی میرے دیرینہ دوست ریٹائیڑڈ جنرل منیجر رسول خان کریں گے جنھوں نے خود بھی کیس کر رکھا ھے ۔ مجھے امید ھے کے آپ نے فل تیاری کرلی ھوگی ۔ مجھے آپ جیسے قابل اور صد احترام وکیل سے بیحد اچھی توقعات ھیں ۔
میں آپ کو اس کیس کے متعلق اچھی طرح آگاہ کرچکا تھا اور آپ نے بھی اس سے اتفاق کیا تھا۔ آپ نے جو پٹیشن میری ڈرافٹ پٹیشن کو دیکھ کر بنائی تھی اس میں آپ نے سپریم کوڑٹ کے صرف دو کیسوں کے ریفرنس دئیے تھے یعنی حمید اختر نیازی کیس اور انیتا تراب علی کیس ۔ جبکے میں نے اس میں اور بہت سے ھائی کوڑٹوں کے ریفرنسس اسی طرح کے کیسوں میں دئیے تھے جس میں ھائی کوڑٹوں نے سپریم کوڑٹ کے ایک یا اس سے زیادہ سرکاری ملازمین کے حق میں دئیے گئیے فیصلوں کا جنھوں نے مقدمہ کیا تھا، انکا فائیدہ اور ایسے تمام سرکاری ملازمین کو بھی دیا تھا جنھوں نے مقدمہ نہیں کیا تھا۔ آپ نے ان کیسوں کا ریفرنس پٹیشن میں نہیں دیا تھا بلکے مجھے بتایا تھا وہ ایسے اور کیسوں ریفرنس دوران بحث دیں گے ۔ تو آپ وعدہ کے مطابق ان ریفرنسس کا عدالت میں ضرور زکر کرئیے گا خاص کر تارہ چند کیس کا ۔ آپ اپنی بحث کا محور صرف اور صرف ۱۲ جون ۲۰۱۵ والا تین رکنی سپریم کوڑٹ کا آڈڑ ھی رکھئیے گا ۔ جسکے خلاف پی ٹی ای ٹی کی رویو پٹیشن بھی تین رکنی بینچ نے 17 مئی 2017 کو خارج کردی تھی ۔ وہ لوگ ۱۵ فروری ۲۰۱۸ والے دو رکنی بینچ کے آڑڈڑ کو ترجیح دیں گے ۔ جسکی آپنے بھر پور منفی کرنی ھے۔ یہ مقابل عمل ھے یہ دو ججوں کا آڑڈڑ ھے یہ کس طرح چھ ججوں کے آڑڈڑ پر فوقیت لے سکتا ھے ۔
یہ نا قابل عمل آڑڈڑ دو رکنی سپریم کوڑٹ جسٹس محترم گلزار صاحب اور جسٹس قاضی عیسے صاحب نے دیا تھا جسکو جسٹس محترم گلزار صاحب نے تحریر کیا تھا ۔ اس آڈر میں عدالت نے ماسوائیے وی ایس ایس لے کر ریٹائیڑڈ ھونے والے پی ٹی سی ایل پنشنرز کے صرف نارمل ریٹائیڑڈ پٹیشنرز پی ٹی سی ایل پنشنرز کو گورنمنٹ انکریز ، incentive pay کی پنشن کیلکولیشن شامل کرکے دو ھفتے میں ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔ یہ ایک ناقابل عمل ( ultra- varies) دو رکنی بینچ کا آڈڑ تھا۔ جبکے تین رکنی بینچ کے آریجنل آڈڑ جو ۱۲ جون ۲۰۱۵ کو دیا گیا اس میں ایسا کوئی زکر نہیں تھا ۔ اس میں انھوں نے تمام ریٹائیڑڈ پی ٹی سی ایل ملازمین کو جو ٹی اینڈ ٹی سے کاپوریشن (پی ٹی سی ) اور کمپنی (پی ٹی سی ایل ) میں ٹرانسفڑڈ ھوکر ریٹائیڑڈ ھوئیے تھے ، پی ٹی ای ٹی کو گورنمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریز دینے کا حکم دیا تھا ۔ انھوں کوئی قدغن نھیں لگائی تھی کے جو وی ایس ایس لے کر ریٹائیڑڈ ھو اسکو گورنمنٹ والی پنشن انکریز نہ دیا جائیے ۔ پی ٹی ای ٹی 1997-1998 میں وی ایس ایس لے کر ریٹائیڑڈ ھونے والے سبھی ایسے پنشنروں کو نارمل ریٹائیڑڈ ھونے والے پنشنروں کے مطابق ھمیشہ گورنمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریز دی جو انھوں یکم جولائی 2010 سے کم کردی اور اسوقت گورنمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریز ۲۰% کی بجائیے اپنی طرف سے ۸% کردی جب ھی یہ مسعلہ کھڑا ھوا۔ جو لوگ ۲۰۰۸ میں وی ایس ایس لے کر ریٹائیڑڈ ھوئیے تھے انکو بھی ای پی ٹی ای ٹی نے ھرسال گورنمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریز دی اور اب نہ جانے کیوں انکاری ھے ۔انھوں نے جو اپنی رویو پٹیشن ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے کیس کے خلاف داخل کی تھی اس میں بھی کہیں بھی انھوں نے اپنا مدعا ظاھر نھہیں کیا کے وی ایس ایس لے کر ریٹائیڑڈ ھونے پی ٹی سی ایل پنشنروں کو گورنمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریز نہیں دینا چاھتے ۔ انھوں نے تو اپنی رویو پٹیشن میں اس ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے عدالتی حکم کو سرے سے ختم کرنے کی درخواست کی تھی اور اس سلسلے میں انکے وکیل جناب خالد انور صاحب نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا یہ ثابت کرنے میں کے یہ سرکاری ملازمین کے زمرے میں نھیں آتے اور یہ کمپنی کے ملازمین ھیں[ یہ بات سپریم کوڑٹ کے مسعود بھٹی کیس 2012SCMR152 کے تناظر میں بلکل غلط ھے جسکے خلاف انکی رویو پٹیشن بھی سپریم کوڑٹ کے پانچ رکنی بینچ نے 19 فروری 2016 کو خارج کردی تھی اور اس بات کو ری کنفرم کیا کے پی ٹی سی ایل کو اس عمل کا کوئی اختیار نھیں کے وہ ان کے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس ( جو گورنمنٹ سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے سیکشن ۳ سے سیکشن ۲۲ تک دئیے گئیے ھیں ) کو انکے نقصان کے لئیے کرے اور حکومت کو بھی ایسا کرنے کی ممانعت ھے ] اور انکو اس گورنمنٹ پنشن لینے یا اس میں انکریز لینے کا کا کوئی اختیار نھیں ۔ مگر عدالت عظمی نے انکی کسی دلیل سے اتفاق نہیں کیا اور انکی رویو پٹیشن ڈسمس کردی ۔ تاھم عدالت نے انکے وکیل جناب خالد انور صاحب کی پر زور اسرار پر جب انھوں نے یہ کہا کے جن لوگوں نے وی ایس ایس ایس لیا وہ کمپنی کے ملازم بن گئیے کیونکے انکے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس تبدیل ھو گئیے تو بحیثیت کمپنی کے ملازمین انکو اپنے grievances دور کرنے اور مراعات لینے کا ھائی کوڑٹوں سے رجوع کرنے کا اختیار نھیں تھا لیکن انھوں نے رجوع کرکے ھائی کوڑٹوں سے مراعات حاصل کیں اسلئیے انھوں نے فراڈ کیا۔ اس پر عدالت عظمی نے اپنے 17 مئی 1917 کی آف میں یہ حکم بھی دیا کے کے اگر وکیل جناب خالد انور صاحب یہ سمجھتے ھیں کے انھوں نے فراڈ کیا تو جن ھائی کوڑٹوں سے انھوں نے مراعات لیں وہ ان عدالتوں میں CPC12(2) کے تحت کیسس کریں ۔ پی ٹی ای ٹی نے اسلام آباد ھائی کوڑٹ اور پشاور ھائی کوڑٹ میں ایسی اپیلیں CPC12(2) کے تحت داخل کیں جو تمام خارج ھوگئیں ۔ جن کے خلاف پی ٹی ای ٹی نے سپریم کوڑٹ میں اپیلیں دائیر کر رکھیں ھیں جو پینڈنگ ھیں۔ھوسکتا ھے انکے وکیل عدالت سے یہ درخواست کریں کیں انکے اسلام آباد ھائی کوڑٹ اور پشاور ھائی کوڑٹ میں انکے CPC12(2) کے تحت ڈالی جانے والی اپیلوں کے خارج ھونے کے خلاف انھوں نے جو اپیلیں سپریم کوڑٹ میں داخل کر رکھی ھیں اور وہ عدالت عظمی میں زیر سماعت ھیں اسلئیے اس کیس کو انکے فیصلے آنے تک پینڈنگ رکھا جائیے ۔ مگر یاد رھے ان کیسس کا اس پٹیشن 4588/201 کا کوئی بھی تعلق نہیں بنتا ھے ۔ وہ کیسس تو انھوں نے سپریم کوڑٹ کے کہنے پر CPC12(2) کے تحت ان وی ایس ایس لینے والے ریٹائیریز کے خلاف اسلام آباد ھائی کوڑٹ اور پشاور ھائی کوڑٹ میں کیں تھیں جنھوں نے ان ھائی کوڑٹوں سے بقول پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل کے مراعات فراڈ طور پر لے لیں تھیں اور اسلام آباد ھائی کوڑٹ اور پشاور ھائی کوڑٹ انکی یہ اپیلیں خارج کردیں تھیں ۔ جبکے ھمارے کیس کا تعلق سپریم کوڑٹ کے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے فیصلے پر تمام نان پٹیشنرس پی ٹی سی ایل پر سپریم کوڑٹ کے اپنے متعین کردہ قوانین جو اسنے حمید اختر نیازی کیس 1996SCMR1185 میں کیا تھا اور جسکا اعادہ سپریم کوڑٹ نے انیتا تراب علی کیس میں کیا تھا اور سخت تنبیہہ کی تھی جو سپریم کوٹ کے ان متعین کردہ اصول اور قانون پر عمل نہیں کریں گے ان کے خلاف توھین عدالت کی کاروائی کی جاسکتی ھے ۔ ڈئیر جمیل صاحب آپنے اس پر stick ھونا ھے اور stand لینا ھے اور انکی اس چال کو کامیاب نھیں ھونے دینا ۔ یہیں آپکی وکالت کا امتحان ھوگا۔
ایک اور اھم بات آپکو بتانا چاھتا ھوں اگرچہ ھم یہ کیس تمام پی ٹی سی ایل پنشنرس پر چاھے وہ کسی طرح بھی ریٹائیڑڈ ھوئیے ھوں ، ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے عدالت عظمی کے حکم کے مطابق عدالت عظمی کے اپنے متعین کردہ قانون اور اصول کے تحت عمل کرنے کے لئیے کیا ھے ۔ لیکن حقیقت یہ ھے کے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے عدالت عظمی کے کے آڈڑ کو غور سے پڑھیں تو انھوں نے پی ٹی ای کو “ all such employee” پر عمل کرنے کا حکم دیا ھے نا کے “ all such respondents “ انھوں نے جو لکھا وہ یہ ھے اور آپ نے وھی پٹیشن میں بھی reproduced کیا ھے
“the respondents(PTET), who were the employees of T&T Department having retired after their transfer to the Corporation and the Company will be entitled of the same pension as announced by the Government of Pakistan and Board of the trustees of the Trust is bound to follow such announcement of Government in respect of such employees.
یاد رھے عدالت کے ھر لفظ ، کاما، فلسٹاپ تک کی بڑی اھمیت ھوتی ھے ۔ بحرحال یہ میرا تجزیہ ھے آپ اسکو کسطرح دیکھتے ھیں اور اس پر plea لیتے ھیں یہ آپ خود ھی بخوبی جان سکتے ھیں ۔
وکیل صاحب مجھے نہیں لگتا کے وہ اب بھی جواب جمع کرائیں گے ۔ وہ کیا جواب جمع کرائیں گے ۔ کسطرح سپریم کوڑٹ کے احکامات کی منفی کریں گے اور کیا جواز دیں گے کے وہ سپریم کوڑٹ کے متعین کردہ قانون اور اصول کے مطابق عمل نہیں کریں گے اور اپنی کریں گے ۔ آپ یہ بات اور عدالت کو باور کرانے کی کوشش کیجئیے گا کے انھوں نے عدالت کے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے احکامات کی جس طرح بے توقیری کی اسکی کوئی مثال نہیں نہیں سکتی ۔ عدالت نے حکم دیا کے گورنمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریز ایسے ریٹائیڑڈ ملازمین کو ادا کرنے کی ٹرسٹ سختی سے پابند ھے مگر ٹرسٹ نے کیا وہ گورنمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریزز کا نوٹیفیکیشن کیا نکالتی اس نے تو اپنے ھی پنشن انکریز میں کمی کردی اور اور اسکو دو کٹیگری میں تبدیل کردیا ۔ یعنی وی ایس ایس لے ریٹائیڑڈ ھونے ولی پنشنروں کو کم ملے گی اور نارمل والوں کو اس سے تھوڑی زیادہ اپنے دئیے ھوئیے پہلے سے کم جو یہ یکم جولائی 2010 سے دیتے آرھے تھے یعنی ۸% ۔ یہ ھے انکا سپریم کوڑٹ کاحکامات پر عمل ۔ دیکھا جائیے پی ٹی ای ٹی نے عدالتی ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے احکامات کا تمسخر اڑایا ھے ۔ اور کوئی بھی انکو پوچھنے والا نہیں۔ آپ اس بات جو ضرور عدالت کے سامنے آشکارا کیجئیے گا یہ بہت ھی کم ظرف لوگ ھیں ۔ انکے وکیل آپکو اور عدالت کو زچ کرنے کی بہت کوشش کریں گے ۔ انسے ھوشیار رھئیے گا ۔
آپ سے التماس ھے اگر کوئی جواب یہ جمع کرائیں اور عدالت آپ سے اسکاrebutter مانگے تو آپ اگر چاھیں تو اسکا جواب مجھ سے لے سکتے ھیں اور مجھے یہ ای میل کردیجئیے گا آپ سے التماس ھے ۵ دسمبر کی عدالتی کاروائی کے متعلق مجھے اس میرے واٹس ایپس نمبر پر اسی دن ضرور مطلع کردیں ۔شکریہ اللہ سے دعا ھے کے کوئی اچھا رزلٹ آئیے آمین!
نیازمند
پٹیشنر محمد طارق اظھر
۲ دسمبر ۲۰۱۹
اٹاوہ۔ کنیڈا
پیر دن چار بجے
( پاکستانی منگل ۳ دسمبر رات دو بجے)
Comments