CANADA
C A N A D A
آج ھمیں کنیڈا آئیے ھوئیے دو ماہ سے زیادہ ھوگئیے ھیں ۔ ھم پچھلے سال 14 نومبر کو کنیڈا آئیے تھے تین دن ھمارا قیام ٹورنٹو میں رھا اور 17 نومبر کو ھم اٹاوہ آگئیے تھے ۔ اٹاوہ جو کنیڈا کا دارالحکومت ھے ۔ میرا بیٹا سجاد کا یہاں دو سال سے قیام ھے اس سے پہلے وہ ٹورنٹو میں قیام پزیر تھا ۔ اسکے متعلق میں یہ سب کچھ آپ لوگوں کو ۱۵ نومبر ۲۰۱۹ کو لکھنے والےمضمون “کنیڈا کا رخت سفر”
میں بتا چکا ھوں۔اس مندرجہ زیل مضمون میں ، میں آپلوگوں کو کنیڈا کے متعلق بتاؤں گا
کنیڈا شمالی امریکہ کے شمالی حصے میں واقع ایک ترقی یافتہ سوشل ویلفئیر جمہوری ملک ہے، ۔ اسکارقبہ 9.98 اسکوئیر ملین کلومیٹر ھے جو رقبے کے لحاظ سے روس کے بعد ، دنیا کا دوسرا بڑا ملک ھے ۔اسکی آبادی 37,59 ملین ھے اور اسکے دس صوبے ھیں ۔ یہاں کی سرکاری زبان انگلش اور فرینچ ھیں ۔ کنیڈا کی اپنی جنریشن بہت کم ہے یہاں پر دنیا کی ھرطرح کی قوم لوگ آباد ھیں جو اب سب کنیڈین شہری کہلاتے ہیں ۔ یہاں منتخب حکومتیں آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے شہریوں کے لئے ہمہ وقت خدمات انجام دیتی ہیں، کینیڈا میں ادارے آزاد و خودمختار ہوتے ہیں۔ اقوامِ متّحدہ کے ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس کے مطابق ، کینیڈا دنیا کے ان پہلے دس خوشحال ممالک میں شامل ہے ، جو بلند تر معیارِ زندگی کے حامل ہیں۔ کینیڈین شہریوں کی فی کس آمدنی 50ہزار امریکی ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ کینیڈا ایک فلاحی ریاست اور کثیر الثقافت معاشرہ ہے، جہاں دنیا کے 193 ممالک کے تارکین وطن اور 40 سے زیادہ مذاہب کے پیروکار ،تمام تر نسلی و ثقافتی تنوّع کے ساتھ باہم شیرو شکر ہو کر رہتے ہیں۔ معاشرتی تنوّع ،کینیڈا کی ترقّی ، فلاح اور معاشی خوشحالی کی اساس ہے۔کینیڈا کی سلامتی اور خوشحالی کا راز کینیڈاکے عظیم فلسفہ ِ اجتماعیت، برداشت، رواداری، باہمی احترام، اور ثقافتی تنوّع میں پنہاں ہے۔ کینیڈا ایک عظیم ملک ہے۔ جِس کے تمام باشندے بلا امتیاز مذہب وعقیدہ، رنگ و نسل ، زبان اور ثقافت مساوی شہری حقوق اور لامحدود آزادیوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ ریاست کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہے۔ عوام کی حکومت ، عوام کی حکمرانی ہے۔ اشرافیہ نام کی کی کسی مخلوق کا کوئی وجود نہیں ہے۔ کینیڈا کوئی خیالی جنّت نہیں، ایک زندہ حقیقی فلاحی ریاست ہے۔ کینیڈا میں ہر شہری کو زندگی کی تمام تر بنیادی سہولتیں بلا امتیازمیسّر ہیں۔ شہریوں کے لئےمعیار زندگی کا ایک کم سے کم لیول متعیّن ہے۔ کینیڈا دنیا کا وہ عظیم ترین ملک ہے جہاں معاشرہ طبقاتی طور پر تقسیم نہیں ہے، کینیڈا میں دولت اور وسائل کی ناہموار تقسیم کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اسکے
کینیڈین معاشرے میں امیر و غریب کی کوئی سماجی تقسیم نہیں ہے۔ یہاں امیروں اور غریبوں کے لئے الگ الگ نظام یا سہولتیں نہیں ہیں۔ غریب کا بچّہ بھی اس ہی پبلک اسکول میں پڑھتا ہے، جہاں امیر کا بچّہ پڑھتا ہے، غریب کا علاج بھی اس ہی اسپتال میں ہوتا ہے جہاں امیر کا علاج ہوتا ہے۔ ، غریب بھی اس ہی محلّے میں رہتا ہے، جہاں امیر رہتا ہے، غریب کی غربت اور امیر کی امارت کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ حکومت کی آمدنی کا انحصار ٹیکس وصولی پر ہے۔ 19 سال سے اوپر عمر کے ہر شہری کو ٹیکس ریٹرن جمع کروانا پڑتا ہے، دولتمند کو زیادہ اور غریب کو کم ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ پھر یہی ٹیکس کاروبارِ حکومت ، سوشل سیکیورٹی ، سوشل ویلفیئر، سوشل ڈیولپمنٹ ، اور انفرااسٹرکچر کی ترقّی پر خرچ ہوتا ہے۔کینیڈا کے عوام کی خوشحالی کا راز ، کینیڈا کے سوشل ڈیموکریٹک نظامِ حکومت اور فری مارکیٹ اکانومی میں پنہاں ہے۔ سوشل سیکیورٹی ، سوشل ویلفیئر، اور سوشل ڈیولپمنٹ ، کینیڈا کے نظامِ حکومت کی اساس ہے، جب کہ معیشت کی اساس فری مارکیٹ اکانومی ہے۔ کینیڈا میں نظامِ حکومت اور ادارے اتنے مضبوط ہیں کہ ہر سال پوری دنیا سے 5 لاکھ تارکین وطن کینیڈا کی معیشت اور سماج میں جذب ہوجاتے ہیں، سب کو زندگی کی بنیادی سہولتیں فراخ دلی اور عزّت و احترام سے پیش کی جاتی ہیں۔ کنیڈا کی حکومت اپنے شہریوں کی بہبودیوں کے لئیے کسطرح خیال رکھتی ھے اسکے متعلق یہاں کنیڈا میں بیس سال سے زیادہ مقیم پاکستانی نژاد کنیڈین شہری جاوید آصف صاحب کنیڈا کے بارے میں اپنے مقالاتی مضمون میں فرماتے ہیں کے وہ گذشتہ 20 سالوں سے کینیڈا کے شہری ہیں۔ انکے بچّوں نے یہیں سے ہائی اسکول مکمّل کیا، اور یہیں سے ہی یونیورسٹی کی تعلیم مکمّل کی اور یہیں ملازمتیں شروع کیں اور شادیاں کیں، یہیں گھر آباد کئے۔ وہ اور انکی بیگم بحیثیت والدین اپنے بچّوں کی سرپرستی اور کفالت کرتے رہے،۔مگر ایمانداری سے دیکھا جائے تو انکے بچّوں کو ریاست نے ہی پالا پوسا ہے۔ ریاست نے بچّوں پرورش میں مکمّل اعانت کی ہے، بچّوں کی کفالت کے لئے18 سال کی عمر تک ہر بچّے کے لئے ماں کے اکاؤنٹ میں ایک مناسب رقم حکومت ہر مہینہ فراہم کرتی رہی ہے۔ ہائی اسکول تک مفت تعلیم د یتی رہی ہے، انھوں نے بچّوں کے لئے کبھی نہ کاپی خریدی، نہ کتابیں ، نہ پنسل قلم، نہ کیلکیولیٹر، اور نہ کبھی بستہ خریدا، بچّے جب یونیورسٹی پڑھنے کے لئے گئے تو یونیورسٹی کی مہنگی تعلیم کے لئے حکومت نے معاونت کی اور بچّوں کو سٹوڈینٹ لون اور سکالر شِپ فراہم کیں، تاکہ بچّے سکون سے اپنی تعلیم مکمّل کریں اور ملازمت ملنے کے بعد قرضہ اتار دیں۔حکومت نے بچّوں کی صحت کا بہت زیادہ خیال رکھا ہے،باقاعدگی سےتمام ویکسی نیشن، سالانہ چیک اپ اور سکریننگ ٹیسٹ، بیمار پڑنے پر مکمّل علاج معالجہ مہیّا کیا، کبھی ایک ڈالر ڈاکٹر کی فیس کی مد میں خرچ نہیں کیا، دوائیں بھی ٹریلیم ڈرگ پلان کے تحت ملتی رہیں (جس میں ماں باپ کی آمدنی کے لحاظ سے ایک معمولی رقم بطورڈی ڈکٹ ایبل دینا پڑتی ہے)،بچّوں کے لئے پارک ، پلے گراؤنڈ، اسپورٹس ارینا، سوئمنگ پول، اِ نڈور اور آؤٹ ڈور کھیلوں کی سہولتیں لائبریریاں کمیونٹی سینٹر زمیں ہر طرح کی سہولتیں، سب کچھ حکومت نے مفت فراہم کیں۔حکومت نے اپنے انتظام کے تحت دورانِ تعلیم بچّوں کو جیب خرچ کمانے کے لئے جز وقتی سٹوڈینٹ جابز بھی مہیّا کیں ، سفر کرنے کے لئے پبلک ٹرانسپورٹ کے نام پر شاندار ٹرانزٹ سسٹم مہیّا کیا ، جس میں معمولی کرائے پر بس، ٹرین، سب وے، لائٹ ریل، سب کچھ شامل ہے۔ جب 20 سال پہلے وہ جب کینیڈا آئے تو شروع کے چند ماہ ایک گھر کے بیسمنٹ اپارٹمنٹ میں کرایہ دار رہے،پھر پہلے ہی سال صرف 5 فیصد ڈائون پییمنٹ دے کر اپنا پہلا گھر خرید لیا، ڈھائی لاکھ ڈالر کا گھر خریدنے کے لئے صرف انھیں 15 ہزار ڈالر کی ضرورت پڑی، باقی رقم کے لئے بنک نے مارٹگیج دے دی ، مارٹگیج کی قسط میں اصل زر اور سود دونوں شامل ہوتا تھا، ، 20 سال میں وہ رقم ادا بھی ہوگئی اور انکو پتہ بھی نہیں چلا، اور اب وہ گھر ایک ملین ڈالر مالیت کا پیڈ آف گھر ہے، ، پہلی کار بھی زیرو پرسنٹ فنانسنگ پر لی تھی
کیسے 7 ڈالر فی گھنٹہ کی جاب سے کینیڈا میں زندگی شروع کی؟، کیسے ترقّی کی؟، کیسے کینیڈا میں آسودہ حال زندگی گزاری؟ انھیں پتہ ہی نہیں چلا، زندگی کی ہر آسائش سے لطف اندوز ہوئے، کسی چیز ، کسی تفریح سے محروم نہیں رہے۔ ہر سال چھٹّیوں وہ امریکہ، یورپ، کیریبئین ممالک جاتے رہے۔ دنیا کے 176 ممالک میں کینیڈین پاسپورٹ پر ویزا کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔جب 17 سال پہلے میں وہ پہلی ملازمت سے لے آف ہوئیے تھے، تو 9 مہینے تک ایمپلائیمنٹ انشورنس کے پیسوں سے گھر چلتا رہا تھا، جب جون 2008 میں حکومت نے سیکنڈ کیرئیر پروگرام شروع کیا تو انکو خط بھیجا، جس میں انکو کسی بھی اسکل ٹریڈ کو سیکھنے کے لئے 28 ہزارڈالر فیس کی مد میں دینے کی بھی پیشکش کی گئی تھی۔ مگر اس وقت تک وہ اپنا کاروبار سیٹ کرچکے تھے، اور خوشحال زندگی گزار رھے تھے۔جب سے وہ بیمار پڑے ھیں تو انکو فیملی ڈاکٹر کے علاوہ، ذیابیطس اور گردوں کے ماہر ڈاکٹروں کی نگرانی میں شاندار علاج ڈائیگنوسٹک ، دوائیں، نرس، ڈائیٹیشن ،تھراپسٹ وغیرہ سب کچھ مفت فراہم کئے جاتے ہیں۔ ہزاروں ڈالر کے انجکشن اور دوائیں ڈرگ پلان کے ذریعے فراہم کی جا چکی ہیں۔ شدید بیماری کے زمانے میں ڈاکٹر نے جب منسٹری آف ٹرانسپورٹیشن کو میرا ڈرائیونگ لائسنس معطّل کرنے کی صلاح دی ، تو حکومت نے انکے سفر کے لئے ٹیکسی کا انتظام ،ٹرانس ہیلپ کے ذریعے کیا ۔ٹرانس ہیلپ کو وہ، بس کے کرائے کے برابر رقم ادا کرتے تھے اور وہ انکو شاندار ٹیکسی سے سفر کرواتے تھے۔ علاج کے بعد انکا ڈرائیونگ لائسنس بحال ہوگیا ہے۔ اور جب وہ 65 سال کی عمر پر پنچیں گے تو ریٹائرڈ ہوجائیں گے اور بقیہ زندگی گھر بیٹھے پنشن اور اولڈ ایج سیکیورٹی ملتی رہے گی۔ کینیڈا دنیا کی واحد فلاحی ریاست ہے ، جہاں سوشل ڈیموکریسی اور فری مارکیٹ اکانومی ، دو نوں ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلتے ہیں۔ غریب کوئی نہیں ہوتا، محروم کوئی نہیں رہتا، لیکن اگر آپ کے پاس سرمایہ یا ہنر ہے تو آپ جتنی چاہیں دولت کما لیں، کوئی پابندی نہیں ہے، کیونکہ یہاں امیر اپنی ذات کے لئے امیر ہوتا ہے، کسی امیر کی دولت کی وجہ سے معاشرے میں بگاڑ پیدا نہیں ہوتا ہے ۔ اور یہ سب سوشل ڈیموکریسی اور فری مارکیٹ اکانومی کی برکات ہیں، جس نے کینیڈا کو ایک عظیم فلاحی ریاست بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
کنیڈا میں خواندگی کی شرح 100% ھے۔ کسی بھی ملک کی ترقی میں اسکے عوام کو خواندہ ھونا اسکی ترقی میں ایک ریڑھ کی ھڈی ثابت ھوتی ہے ۔ جو بھی ترقی یافتہ ممالک ہیں وھاں تعلیم کو بیحد اھمیت دی جاتی اور تعلیم پر ان ملکوں کا بجٹ سر فہرست ھوتا ھے۔ کیونکے جب عوام کے پاس تعلیم ھوگی تو انکو شعور بھی آئیگا اور جب ان میں شعور آئیگا تو ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں گے اور ٹیکسس دیں گے جن سے حکومت ملک ترقی کے لئیے کوشاں ھوگی ۔ ھمارے پاکستان کی میں خواندگی شرح 21% ھے ، اور ترقی کا جو حال ھے ۔ وہ سب کے سامنے ھے ۔ جرمنی اور جاپان دوسرے جنگ عظیم میں تباہ و برباد ھو گئیے تھے۔ جس وقت وھاں راکھ اور دھواں اٹھ رھا تھا اسوقت ھمارا وطن ظہور پزیر ھوا تھا ۔ اب دیکھیں کے وہ ملک ترقی کے لحاظ کہاں سے کہاں جا پہنچے ھیں اور ھم اب تک کہاں ھیں؟ ۔ اسکی وجہ جو ملک جنگ میں تباہ ھوگئیے تھے ان کے عوام میں تعلیم تھی شعور تھا انھوں نے ھمت سے کام لیا اور اپنی حکومتوں کا ساتھ دیا محنت کی ، اور آج یہ ملک جو جنگ عظیم دوئیم میں تباہ اور برباد ھوگئیے تھے ، ترقی کی کس معراج پر جا پہنچے ہیں ۔ اور ھم اب تک آزادی سے اب تک صرف ترقی پزیر ھی ھیں۔ اور اس ترقی نہ کرنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ھے کے ھم نے تعلیم کو بلکل بھی اھمیت نھیں دی۔ ھمارے حکمرانوں نے کبھی بھی بجٹ میں تعلیم کو کبھی فوقیت نہیں دی جسکا نتیجہ یہ ھے کے ھمارے ملک میں پڑھے ھوئیے لوگوں کا فقدان ھے اور آبادی کا صرف 21% پڑھا لکھا ہے ۔ یہ بہت ہی خطرناک سچوئیشن ھے جو بھی ترقی یافتہ ممالک ھیں انھوں نے تعلیم سب سے بڑی اھمیت دی ۔ یہاں کنیڈا میں سکول تک کی تعلیم مفت ھے ۔ یہاں بچے کی تعلیم پانچ سال کی عمر سے شروع ھو جاتی ۔ حکومت نے ایک ایسا سیسٹم شروع سے ھی بنا رکھا کے کوئی بھی بچہ تعلیم سے محروم نہیں کر سکتا ۔ ھر علاقے میں اسکول قائیم کر رکھے ھیں ۔ رھنے والے ھر ھر شخض کو اسی اسکول میں بچے کو داخل کرانا لازمی ھوتا ھے۔ کسی بھی علاقے میں قیام پزیر ھونے کے لئیے آنے والے کو اسی علاقے کے اسکول کی طرف سے نوٹس آجاتا ھے کے بچے کو اسکول میں داخل کریں یہاں پر بچوں سے کام لینا یا اسکو گھریلو ملازم رکھنا قانونن سخت جرم ھے۔ یہاں بچوں کی بیحد قدر کی جاتی ھے اور ایسے قانون بنائیے گئیے ھیں کے والدین اپنے بچوں صحیح پرورش رکھیں ۔ راستے میں جگہ ، جگہ آپکو الیکٹرونک ڈسپلے بوڑڈ نظر آئیں گے جس میں بچوں کا ھرطرح کا مناسب خیال کرنے کی تاکید کی جاتی ھے۔ بچے کی پیدائیش پر حکومت کی طرف سے اسکا ماھوار وظیفہ مقرر کردیا جاتا ھے ۔ [یاد رھے خلیفہ دوئیم حضرت عمر( ر ض) سب سے پہلے اسطرح کے بچوں کے لئیے بیت المال سے وظیفہ دینے کا حکم دیا تھا ]۔ اور اسکی پرورش جانچنے کے لئی کے والدین اسکی کیسے پرورش کررھے ھیں ، حکومت ک مقرر کردہ عملہ گھر جا جا کر گاھے بگھائیے جانچ کرتا رھتا ھے ۔ اور اگر وہ یہ سمجھے کے والدین بچے کی صحیح پرورش تو وہ بچہ اٹھا کر لیجاتا ھے والدین سے کہہ کر کے تم بچے کی پرورش کرنے کے قابل نہیں ۔ اب ھم کریں گے۔ میں نے یہاں ایسے بہت سے ایسے کیس سنے جب یہ عملہ صحیح طرح سے پرورش نہ کرنے والے والدین کے گھر سے بچے اٹھا کر لے گئیے۔ ہر ملازم کو اسکے بچے کی پیدائیش پر چھ ماہ کی چھٹی دی جاتی ھے چاھے وہ کہیں بھی ملازم ھو مگر اس دوران تنخواہ حکومت ادا کرتی ھے ۔ جو بچے اسکول جاتے ھیں انکا تو بہت ھی خیال رکھا جاتا اگر اسکول کی بس جو بچوں کو گھر سےاسکول اور اسکول سے گھر لے جارھی ھو تو اسکے آگے اور پیچھے گاڑیا ں بہت ھی فاصلے پر رکھتی ہیں اور اگر کہیں بس کھڑی ھو جائیے تو تمام آگے پیچھے کا ٹریفک رک جاتا کسی کو اسکول کی کھڑی بس کو کراس کرنے کا اختیار نہیں ۔ یہ نہایت بڑا جرم ھے ۔ دس ھزار ڈالر تک جا جرمانہ ھو سکتا ھے۔ یہاں بوڑھے یعنی سینئیر سٹیزن لوگوں بیحد عزت اور خیال رکھا جاتا ھے ۔ سینئر سٹیزن کے لئے کافی مراعات ہیں ۔ بوڑھے پن کی 65 سال عمر پر پہنچ کر حکومت کی طرف سے اولڈ ایج بینیفٹ کا ماھوار وظیفہ دینا شروع ھوجاتا ھے [یاد رھے خلیفہ دوئیم حضرت عمر( ر ض) سب سے پہلے اسطرح کے بوڑھوں کے لئیے بیت المال سے ماھوار وظیفہ دینے کا حکم دیا تھا ]۔ پچھلے بار جب میں جون 2014 میں ٹورنٹو کنیڈا آیا تھا تو میری ایک تقریب میں میں ایک ریٹائیڑڈ اسسٹنٹ انجینر پی ٹی سی ایل سے سے ملاقات ھوئی تھی ۔ جو سی ٹی ایچ ایکسچینج کراچی میں کام کرتے تھے ۔ مجھے دیکھ کر میرے پاس خود ملاقات کرنے آئیے تھے ۔ میں تو انکو جانتا تھا لیکن وہ مجھ سے واقف تھے کیونکے میں ڈی جی ایم ایس ٹی آر ٹو کراچی کام کر چکا تھا ، انھوں نے نے بتایا کے وہ ۲۰۰۸۔ میں نارمل طور پر ریٹائڑڈ ھوئیے تھے اور پھر وہ کنیڈا شفٹ ھوگئیے تھے کیوں کے انکا فرزند یہا ں کافی عرصے سے قیام پزیر تھا اور انکو کنیڈا کی شہیریت بھی مل گئی تھی ۔ انھوں نے مجھے بتایا انکو کنیڈا کے قانون اولڈ ایج بینیفٹ کی ماھانہ 1200 کنیڈا ڈالرز ( آجکل پاکستانی رقم تقریبن ایک لاکھ 42 روپے بنتے ھیں ) ملتے ھیں ۔ میں نے انکی پاکستانی پنشن کے بارے میں
پو چھا تو وہ ھنس پڑے کہنے لگے “سر ملتی تھی جو یہاں کے مقابلے میں بہت کم تھی ۔ میں اب لاکھوں روپے کا ٹکٹ خرید کر اس پنشن کو پاکستان جاکر ، لانے سے تورھا۔ میرے سمدھی انور بھائی مرحوم [انور بھائ 2001 سے میسیسی ساگا، ٹورنٹو میں مقیم تھے اور کنیڈا کے شہری تھے ۔ انکا 13 اگست 2018 کو انتقال ھوگیا تھا ] ، جب 2015 پاکستان آئیے تھے انھوں نے مجھے کنیڈا میں سنئیر سٹیزن کی قدر کے بارے میں بتایا تھا کے وہاں کسطرح انکا خیال رکھا جاتا ھے اور مراعات دی جاتی ہیں ۔ انھوں نے بتایا کے انھوں نے وھیں ٹورنٹو میں اپنا زاتی اکاؤنٹ کھول رکھا تھا اور اسمیں گاھے بھاگے رقم بھی جمع کراتے رھتے ۔ ایک کوئی پانچ سال کے بعد جب انھوں کچھ زیادہ رقم نکالنے وھاں بنک گئیے پہلے تو بنک والوں نے انکو بتایا کے اتنی رقم پڑی ھے ۔ مگر تھوڑی دیر ان سے معزرت کرتے ھوئیے اسمیں تین سو ڈالر جمع کرتے ھوئیے انکو بتایا کے وہ چونکہ ایک سینئر سٹیزن ھیں ان پر بنک کی سالانہ فیس معاف ھے اور جو انھوں نے گزشتہ تین سالوں میں انکی بنک کی فیس کی جو رقم غلطی سے کاٹ لی تھی وہ انھوں نے اسکو ریفنڈ کر کے انکے اکاؤنٹ میں جمع کرادی۔ ۔ بقول انور بھائی مرحوم کے انکو اس بارے میں پہلے سے کچھ بھی پتہ نہ تھا اور اگر وہ ریفنڈ نا بھی دیتے تو کیا ھوتا میرے علمُ میں تو یہ بات ھی نہیں ۔
میں جب بھی کنیڈا آتا ھوں تو مجھے ایسا لگتا ھے کے پتھروں کے زمانے کے دیس سے آیاھوں۔ مجھے یہاں نہ تو ٹریفک کا بیھنگم شور شرابہ، ھارنوں کی کان پڑی آوازیں، اور ناں ھی رکشہ موٹر سائیکلوں کان پھاڑنے ولی پھٹپھٹاھٹ کی آوازیں سنائیں دیتیں ھیں۔ مجھے کسی بھی ٹریفک سگنلز یا چوک پر کوئی بھی ٹریفک پولیس والا نظر نہیں آتا۔ مجھے فٹ ہاتھ پر کوئی بھی چھابڑی والا یا دوکان سجانے والا نظر نہیں آیا کے جس لوگوں کو فٹ پاتھ پر چلنے میں دشواری ھو، مجھے دیواروں پر لکھے اشتہار ، جگہ جگہ کوڑا کرکٹ نظر نہیں آتا اور بازاروں میں شور شرابا آوازیں نہیں سنائیں دیتیں ھیں۔ مجھے یہاں کے لوگوں میں جو یہ کام کرتے ڈسپلن نظر آتا ھے جو انتھا پر جو بھی کام کرتے ھیں ان میں ڈسپلن ھی ڈسپلن نظر آتا ھے چھوٹی سی چھوٹی جگہ پر چاھے وہ پیمنٹ کرنے کا معاملہ ھو ، ٹکٹ لینے کا ھو یا اور کسی جگہ پر آپکو ھر جگہ قطار بنی نظر آئیگی ۔ کوئی اپنی باری سے آگے بڑھنے کی کبھی کوشش نہیں کرے گا۔ کوئی تقریب شادی ،بیاہ یا جہاں کھانے کا احتمام لوگ فورن خود ھی قطار بنالیتے ھیں اور بڑے سکون سے اپنی باری میں کھانا اتارتے ھیں ۔ ھماری طرح نہیں کے ایک ھبڑ دبڑ مچادیتے ھیں سب کی یہ ھی کوشش ھوتی کے وہ جلد کھانا اتار لے اور زیادہ سے زیادہ بھرلے ، نامعلوم بعد میں موقع ملے یا نہیں ۔ یہاں پر آپ کو جگہ جگہ دکانیں نظر نھیں آئیں گی ھیں جس طرح ھمارے ملک میں ھوتی ھیں ۔ یہاں بڑے بڑے والٹ مارٹ جیسے شاپنگ سینٹرز ھوتے ھیں جیسے تھوک کا سامان خریدنے کے لئیے الگ ، دواؤں کے لئیے ، خوراک ، اور گھریلو چیزوں کے لئے الگ وغیرہ وغیرہ۔ سب وھیں سے شاپنگ کرتے ھیں ۔ کسی بھی شاپنگ سینٹر میں داخل ھو تو اکثر وھاں دروازے پے کھڑے ھوئیے انکے ملازمین بڑی خندہ پیشانی سے پہلے استقبال کرتے ھیں ۔ آپ جو بھی چیز شاپنگ کرکے آئیں اور وہ آپ کو پسند نہیں آتی تو آپ اسکو رسید میں گئیے ھوئیے ٹائیم کے مطابق واپس کرسکتے ھیں ۔ اور اگر رسید گم بھی ھوجائیے اور آپ انکو بتادیں تو وہ جب آپکا ان کے شاپنگ سینٹر سے خریدا ھو ، تبدیل کردیں گے ۔ یہ ھی اگر آپ اپنا مال اسی کی کسی اور شاپنگ سینٹر میں جاکر تبدیل کرائیں گے ۔ تو ان کے کسٹم کئیر سینٹر والے بغیر کسی سوال کے بغیر تبدیل کردیں گے اور ساتھ معزرت بھی کریں گے ۔ میرے بیٹے سجاد نے ستمبر ۱۹ کےمہینے کمرے میں کھڑکیوں لگانے کے لئیے ایک تھوک مال شاپنگ سینٹر جسکو شائید ھم ٹاؤن کہتے ھیں ،اپنے نئے گھر کے لئیے پردے خریدے تھے جو ڈبے میں پیک تھے ۔ اسکو ھمارے وھاں آنے تک وہ نہ لگا سکا ۔ ھم لوگوں کے آنے پر اسنے اسکو نکالا۔ ڈبے کھولنے ہر اسکو اسکے کلر پسند نہ آئیے ۔ مجھ سے کہنے لگا ابو میں اسے واپس کرکے دوسرے پردے لے کر آؤں گا ۔ اگرچہ دو مہینے سے زیادہ، اسکو خریدے ھوئیے ھوگئیے ھیں اور میرے پاس رسید بھی کھو گئی ھے ، لیکن مجھے امید ہے کے وہ اسکو تبدیل کرلیں گے ۔ میں بھی اسکے ساتھ اسی شاپنگ سینٹر چلا گیا ۔ سجاد نے کسٹم کئیر کاؤنٹر ساری بات بتادی کے اس سے رسید کھو چکی ھے اور یہ پردے لئیے دو مھینے سے زیادہ ھو چکے ھیں جبکے تبدیلی کا ٹائیم ایک ماہ تک کا ۔ تو انھوں نے کہا آپ ان پردوں کو اب تبدیل نہیں کرسکتے لیکن ھم اسکو واپس لے لیتے ھیں اور اسکا ریفنڈ آپ کو دے دیتے ھیں اسنے اسی وقت سجاد کو اسی قیمت کا 58 ڈالرز کا ڈیبٹ کاڑڈ بناکر دے دیا اور کہاں آپ ان سے اسی شاپنگ سینٹر سے اسی اماؤنٹ تک کی شاپنگ کرسکتے ھیں ۔ ھم نے پردے کے علاوہ اور چیزیں نھیں خریدں اور گھر واپس ھوئیے ۔ اسی سلسلے میں آپ کو ایک اور قصہ بتانا چاھتا ھوں انکی ایمانداری کا ۔ جو مجھے میرے مرحوم سمدھی انور بھائی نے بتایا تھا ۔ کرسمس کے آنے سے پہلے یہاں ھر ایک چیزیں 50% تک بھی کم کردی جاتی ھیں۔ ھماری طرح نھیں جب رمضان اور عید سے پہلے ھر چیز کی قیمت بڑھادی جاتی ہے۔ انور بھائی نے کرسمس کے دوران ڈسکاؤنٹڈ ریٹ پر ایک اچھی گرم لیدر کی جیکٹ خریدی تھی اور اسکو پہنتے بھی رھے تھے باوجود وہ انکو تنگ تھی کوئی دو مہینے کے بعد گھر والوں نے مشورہ دیا کے جاکر اسکو تبدیل کراکر اس سے بڑی لے آئیں پہلے تو وہ اسکو تبدیل کرنے بیحد ھچکچائیے کے کافی عرصہ ھوگیا اور اسکا ٹائیم پیریڈ بھی ختم ھو چکا ھے اور دوسرے یہ کے یہ انھوں نے کرسمس کی وجہ سے کم ریٹ پر دی تھی اب وہ کیسے واپس لیں گے ۔ بحر حال وہ گھر والوں کے اصرار پر وہ جیکٹ واپس کرنے چلے گئیے ۔ وھاں پر انھوں نہ صرف وہ جیکٹ تبدیل کرکے انکی ساییز کی نئی جیکٹ دی بلکے انکو ساتھ میں 70 ڈالرز بھی دے دئیے اور بہت معزرت کی ۔ اور انکو بتایا کے انھوں نے جب وہ جیکٹ دسمبر میں کرسمس کے دواران خریدی تھی وہ انکو کم ریٹ پر سیل مین کو انکو دینی چاھئیے تھی لیکن وہ سیل مین چونکہ نیا تھا اسنے غلطی فل قیمت چارج کرلی تھی تو یہ وہ رقم ھے جو اسنے زیادہ چارج کرلی تھی ۔ آپ لوگ کیا ایسا تصور بھی کرسکتے ہیں کے پاکستان میں ایسا بھی ھو سکتا ھے ۔ پاکستان آپ اگر خریدا ھوا مال ایک گھنٹے بعد بھی تبدیل کرانا چاھیں تو وہ فورن آپکو بوڑڈ پر لکھا ھو نوٹس دکھانے گا کے “خریدہ ھو مال واپس نہیں ھوگا”۔اور دوکاندار اکھڑ مزاج ھوا تو آپ کو اتنی سُنائیے گا اور دوکان سے نکال دے گا۔ یہاں آن لائین شاپنگ کرنے کا رواج عام ھے ۔ آپ اپنے مطلوبہ آئیٹم کا آڈر آن لائین دیں ۔ کریڈٹ یا ڈیبٹ کاڑڈ سے مطلوبہ رقم ادا کریں ۔ وہ کمپنی مقررہ دئیے گئیے وقت پر وہ اسکو آپکے گھر میں ڈلیور کردیں گے اور آپ گھر میں موجود نہ بھی ھوں وہ وہ آپکے گھر سامنے چھوڑ کر چلا آئیگا ۔ اسی پر ایک بات آپ کو بتانا چاہتا ھوں کے میرے بیٹے سجاد نے اپنےگھرکے لئیے ڈائیننگ ٹیبل کا آن لائین آڑڈڑ ایمیزون کو دیا اور اسکی قاعدے کے مطابق آن لئیے اپنے ڈیبٹ کاڑڈ سے پیمنٹ بھی کردی ۔ جب وہ انکے مقررہ وقت کے مطابق وہ ٹیبل اسکے گھر پر موصول نہیں ھوئی تو اسنے انکو فون کرکے بتایا یہ ٹیبل اسے پر مقررہ وقت سے چار دن تک بھی نہیں آئی۔ اس پر بھیجنے والوں نے پہلے سجاد سے معزرت کی بتا یا کے ڈلیور کرنے والا اسے کسی غلط ایڈریس پر ڈیلیور کرآیا ھے اس لئیے انھوں انکی پیمنٹ کی اماؤنٹ اسکو ریفنڈ کردیا ھے ۔ خیر کوئی بات نہیں ۔ سجاد نے بتایا اسکے دو ھفتے بعد اتوار کو جب وہ گھر پر تھا ایک پک اپ گھر کے سامنے آکر رکی تو اسنے باہر جاکر دیکھا کے ایک بوڑھا انگریز جوڑا اسی میز کو گاڑی سے اتار رھا ھے اور انکی سانس پھولے ھوئی ھے ۔ انھوں نے بتایا یہ ڈائننگ ٹیبل انکے گھر کے دروازے پر دو ھفتے سے پڑی ھوئی تھی ۔ (انکا گھر سجاد کے گھر 40 کلومیٹر دور تھا ) ۔ ھماری سمجھ میں نہیں آرھا تھا ھم بوڑھے لوگ کس طرح اسکو اسکی اصلی جگہ پہنچائیں آخر کار آج ھم نے خود ھمت کرکے اسکو لے کر آئیے ھیں ۔ سجاد نے انکا بہت بہت شکریہ ادا کیا اور پھر فورن ھی ایمیزون والوں کو اسکا بتایا ۔ ایموزون نے سجاد کا بیحد شکریہ ادا کیا اور وہ ٹیبل اسکو 30 % ڈسکاؤنٹ پر دے دیا اور اتنی رقم اسکے ڈیبٹ کاڑڈ سے چارج کرلی ۔ میرا یہ سب کچھ آپ کو بتانےکے یہاں کتنی ایمانداری ہے ۔ آن لائین مال سپلائی کرنے والی کمپنی گھر آگے جو بھی سامان پرچیز کیا ھو ھوتا وہ ، گھر کے باہر رکھ کر چلی جاتی ہیں ۔ مجال ھے کوئی اور اسکو ھاتھ لگاتا ہے یا چوری کرتا ھو۔ یہاں پر دور دراز یا دیہی علاقوں میں آپ جائیں تو آپ کو ایسی بہت سی چھوٹی دکانیں ملیں گی جہاں کوئی بھی بیچنے والا نہیں ھو گا ۔ سامان پڑا ھوگا ۔ اور پیسہ جمع کرانے کی جگہ ۔ آپ سامان خریدیں اور اسکی قیمت اسکی اس جگہ رکھ دیں۔یہاں پر لوگ کام بڑی ایمانداری سے کرتے ھیں جو جھوٹ، دھوکہ سے بلکل پاک ۔ یہاں کوئی یہ تصور تک نہیں کرسکتا کے جھوٹ بول کر کاروبار کرے۔ اور چیزوں ملاوٹ وغیرہ کرکے بیچے۔ ھر کام نہایت اصولوں سے کیا جاتاہے ۔ اسمیں کام کسی قسم کا ردوبدل بلکل بھی برداشت نہیں کرتے ۔ یہ جون2013 کی بات جب میں یہاں دوسری مرتبہ ٹورنٹو کنیڈا آیا تھا ۔ ایک صبح ھم لوگ ناشتہ کرنے گھر کے قریب میکڈولنڈ گئیے ھم نے ناشتے کا آڑڈڑ دیا اور اسکی ایڈوانس پیمنٹ کرنے کے بعد بیٹھ کر اسکے انتظار میں بیٹھ گئیے ۔کوئی ۲۰ یا ۲۵ منٹ بعدھمارا ناشتہ تیار ہوگیا اور ھم خود جاکر کاؤنٹر سے لے آے ۔ ناشتہ کرنے بعد وہاں سے نکلے اور ھم گاڑی کی طرف جارھے تھے کے اتنے میکڈولینڈ ر کے ریسٹورانٹ سے انکا ایک ملازم دوڑا دوڑا ھمارے پاس آرہا ہے ۔ اسنے آتے ھی ھم کو دو ٹوکن دئیے اور کہا کے ایک مہینے کے اندر اندر کسی بھی میکڈولینڈ کے ریسٹورانٹ سے 50% ڈسکاؤنٹ کبھی بھی کچھ کھا سکھا سکتے ھیں ۔اور جب ھم نے اسکے یہ دینے کی وجہ پوچھی ۔تو اسنے بتایا جو ھم آپکو ابھی ناشتہ فراھم کیا وہ بیس منٹ کے بعد فراھم کیا جب کے ھم کو اصول کے مطابق ۱۵ منٹ میں سپلائی کرناچاھئیے تھا اسلئیے جو ھم سے کوتاھی ھوئی اسکے لئے پہلے تو ھم معزرت خواہ ہیں اور جو آپ کو انتظار کی زحمت برداشت کرنی پڑی اسکے اسکے کے لئیے یہ آپکو ڈسکاؤنٹڈ ٹوکن دئیے جارھے ھیں ۔ ھم سب کو خاص کر مجھےانکے انکی اصول پسندی اور ایمانداری پر بیحد خوشی ھوئی اور بہت رشک آیا کاش ھمارے ملک میں بھی ایسی ھی اصول پسندی اور ایمانداری پائی جاتی ۔ھمارے ملک کو اس جیسے ترقی اور ایسے مقام تک پہنچنے کے لئیے ابھی صدیاں چاھئیں وہ بھی اس صورت میں کے جب محب وطن حکمران مل جائیں اور قوم تعلیم سے مکمل طور پر آشکارا ھوجائیے اور اس میں شعور اور احساس اجاگر ھو جائیے ۔
میں اپنے کنیڈا پر اس مضمون کا اختتام ان الفاظ پر کرتا ھوں کے کنیڈا میں تو مسلمان تو اگرچہ بہت کم ھیں لیکن وھاں کے تمام لوگ اسلام کے زریں اصولوں پر عمل پیرا نظر آتے ھیں جبکے ھمارے ملک میں98% مسلمان تو ھیں لیکن اسلام کے ان زریں اصولوں سے بلکل بےبہرا اور جبھی تو ھمارا ملک بجائیے ترقی کے رو بزوال نظر آتا ھے ۔ اللہ اس ملک کو ھمیشہ قائم و دائیم رکھے۔ آمین
واسلام
محمد طارق اظہر
اٹاوہ۔ کنیڈا
بتاریخ ۲۵ جنوری ۲۰۲۰
اٹاوہ سٹی کے کچھ فو ٹوز
آج ھمیں کنیڈا آئیے ھوئیے دو ماہ سے زیادہ ھوگئیے ھیں ۔ ھم پچھلے سال 14 نومبر کو کنیڈا آئیے تھے تین دن ھمارا قیام ٹورنٹو میں رھا اور 17 نومبر کو ھم اٹاوہ آگئیے تھے ۔ اٹاوہ جو کنیڈا کا دارالحکومت ھے ۔ میرا بیٹا سجاد کا یہاں دو سال سے قیام ھے اس سے پہلے وہ ٹورنٹو میں قیام پزیر تھا ۔ اسکے متعلق میں یہ سب کچھ آپ لوگوں کو ۱۵ نومبر ۲۰۱۹ کو لکھنے والےمضمون “کنیڈا کا رخت سفر”
میں بتا چکا ھوں۔اس مندرجہ زیل مضمون میں ، میں آپلوگوں کو کنیڈا کے متعلق بتاؤں گا
کنیڈا شمالی امریکہ کے شمالی حصے میں واقع ایک ترقی یافتہ سوشل ویلفئیر جمہوری ملک ہے، ۔ اسکارقبہ 9.98 اسکوئیر ملین کلومیٹر ھے جو رقبے کے لحاظ سے روس کے بعد ، دنیا کا دوسرا بڑا ملک ھے ۔اسکی آبادی 37,59 ملین ھے اور اسکے دس صوبے ھیں ۔ یہاں کی سرکاری زبان انگلش اور فرینچ ھیں ۔ کنیڈا کی اپنی جنریشن بہت کم ہے یہاں پر دنیا کی ھرطرح کی قوم لوگ آباد ھیں جو اب سب کنیڈین شہری کہلاتے ہیں ۔ یہاں منتخب حکومتیں آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے شہریوں کے لئے ہمہ وقت خدمات انجام دیتی ہیں، کینیڈا میں ادارے آزاد و خودمختار ہوتے ہیں۔ اقوامِ متّحدہ کے ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس کے مطابق ، کینیڈا دنیا کے ان پہلے دس خوشحال ممالک میں شامل ہے ، جو بلند تر معیارِ زندگی کے حامل ہیں۔ کینیڈین شہریوں کی فی کس آمدنی 50ہزار امریکی ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ کینیڈا ایک فلاحی ریاست اور کثیر الثقافت معاشرہ ہے، جہاں دنیا کے 193 ممالک کے تارکین وطن اور 40 سے زیادہ مذاہب کے پیروکار ،تمام تر نسلی و ثقافتی تنوّع کے ساتھ باہم شیرو شکر ہو کر رہتے ہیں۔ معاشرتی تنوّع ،کینیڈا کی ترقّی ، فلاح اور معاشی خوشحالی کی اساس ہے۔کینیڈا کی سلامتی اور خوشحالی کا راز کینیڈاکے عظیم فلسفہ ِ اجتماعیت، برداشت، رواداری، باہمی احترام، اور ثقافتی تنوّع میں پنہاں ہے۔ کینیڈا ایک عظیم ملک ہے۔ جِس کے تمام باشندے بلا امتیاز مذہب وعقیدہ، رنگ و نسل ، زبان اور ثقافت مساوی شہری حقوق اور لامحدود آزادیوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ ریاست کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہے۔ عوام کی حکومت ، عوام کی حکمرانی ہے۔ اشرافیہ نام کی کی کسی مخلوق کا کوئی وجود نہیں ہے۔ کینیڈا کوئی خیالی جنّت نہیں، ایک زندہ حقیقی فلاحی ریاست ہے۔ کینیڈا میں ہر شہری کو زندگی کی تمام تر بنیادی سہولتیں بلا امتیازمیسّر ہیں۔ شہریوں کے لئےمعیار زندگی کا ایک کم سے کم لیول متعیّن ہے۔ کینیڈا دنیا کا وہ عظیم ترین ملک ہے جہاں معاشرہ طبقاتی طور پر تقسیم نہیں ہے، کینیڈا میں دولت اور وسائل کی ناہموار تقسیم کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اسکے
کینیڈین معاشرے میں امیر و غریب کی کوئی سماجی تقسیم نہیں ہے۔ یہاں امیروں اور غریبوں کے لئے الگ الگ نظام یا سہولتیں نہیں ہیں۔ غریب کا بچّہ بھی اس ہی پبلک اسکول میں پڑھتا ہے، جہاں امیر کا بچّہ پڑھتا ہے، غریب کا علاج بھی اس ہی اسپتال میں ہوتا ہے جہاں امیر کا علاج ہوتا ہے۔ ، غریب بھی اس ہی محلّے میں رہتا ہے، جہاں امیر رہتا ہے، غریب کی غربت اور امیر کی امارت کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ حکومت کی آمدنی کا انحصار ٹیکس وصولی پر ہے۔ 19 سال سے اوپر عمر کے ہر شہری کو ٹیکس ریٹرن جمع کروانا پڑتا ہے، دولتمند کو زیادہ اور غریب کو کم ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ پھر یہی ٹیکس کاروبارِ حکومت ، سوشل سیکیورٹی ، سوشل ویلفیئر، سوشل ڈیولپمنٹ ، اور انفرااسٹرکچر کی ترقّی پر خرچ ہوتا ہے۔کینیڈا کے عوام کی خوشحالی کا راز ، کینیڈا کے سوشل ڈیموکریٹک نظامِ حکومت اور فری مارکیٹ اکانومی میں پنہاں ہے۔ سوشل سیکیورٹی ، سوشل ویلفیئر، اور سوشل ڈیولپمنٹ ، کینیڈا کے نظامِ حکومت کی اساس ہے، جب کہ معیشت کی اساس فری مارکیٹ اکانومی ہے۔ کینیڈا میں نظامِ حکومت اور ادارے اتنے مضبوط ہیں کہ ہر سال پوری دنیا سے 5 لاکھ تارکین وطن کینیڈا کی معیشت اور سماج میں جذب ہوجاتے ہیں، سب کو زندگی کی بنیادی سہولتیں فراخ دلی اور عزّت و احترام سے پیش کی جاتی ہیں۔ کنیڈا کی حکومت اپنے شہریوں کی بہبودیوں کے لئیے کسطرح خیال رکھتی ھے اسکے متعلق یہاں کنیڈا میں بیس سال سے زیادہ مقیم پاکستانی نژاد کنیڈین شہری جاوید آصف صاحب کنیڈا کے بارے میں اپنے مقالاتی مضمون میں فرماتے ہیں کے وہ گذشتہ 20 سالوں سے کینیڈا کے شہری ہیں۔ انکے بچّوں نے یہیں سے ہائی اسکول مکمّل کیا، اور یہیں سے ہی یونیورسٹی کی تعلیم مکمّل کی اور یہیں ملازمتیں شروع کیں اور شادیاں کیں، یہیں گھر آباد کئے۔ وہ اور انکی بیگم بحیثیت والدین اپنے بچّوں کی سرپرستی اور کفالت کرتے رہے،۔مگر ایمانداری سے دیکھا جائے تو انکے بچّوں کو ریاست نے ہی پالا پوسا ہے۔ ریاست نے بچّوں پرورش میں مکمّل اعانت کی ہے، بچّوں کی کفالت کے لئے18 سال کی عمر تک ہر بچّے کے لئے ماں کے اکاؤنٹ میں ایک مناسب رقم حکومت ہر مہینہ فراہم کرتی رہی ہے۔ ہائی اسکول تک مفت تعلیم د یتی رہی ہے، انھوں نے بچّوں کے لئے کبھی نہ کاپی خریدی، نہ کتابیں ، نہ پنسل قلم، نہ کیلکیولیٹر، اور نہ کبھی بستہ خریدا، بچّے جب یونیورسٹی پڑھنے کے لئے گئے تو یونیورسٹی کی مہنگی تعلیم کے لئے حکومت نے معاونت کی اور بچّوں کو سٹوڈینٹ لون اور سکالر شِپ فراہم کیں، تاکہ بچّے سکون سے اپنی تعلیم مکمّل کریں اور ملازمت ملنے کے بعد قرضہ اتار دیں۔حکومت نے بچّوں کی صحت کا بہت زیادہ خیال رکھا ہے،باقاعدگی سےتمام ویکسی نیشن، سالانہ چیک اپ اور سکریننگ ٹیسٹ، بیمار پڑنے پر مکمّل علاج معالجہ مہیّا کیا، کبھی ایک ڈالر ڈاکٹر کی فیس کی مد میں خرچ نہیں کیا، دوائیں بھی ٹریلیم ڈرگ پلان کے تحت ملتی رہیں (جس میں ماں باپ کی آمدنی کے لحاظ سے ایک معمولی رقم بطورڈی ڈکٹ ایبل دینا پڑتی ہے)،بچّوں کے لئے پارک ، پلے گراؤنڈ، اسپورٹس ارینا، سوئمنگ پول، اِ نڈور اور آؤٹ ڈور کھیلوں کی سہولتیں لائبریریاں کمیونٹی سینٹر زمیں ہر طرح کی سہولتیں، سب کچھ حکومت نے مفت فراہم کیں۔حکومت نے اپنے انتظام کے تحت دورانِ تعلیم بچّوں کو جیب خرچ کمانے کے لئے جز وقتی سٹوڈینٹ جابز بھی مہیّا کیں ، سفر کرنے کے لئے پبلک ٹرانسپورٹ کے نام پر شاندار ٹرانزٹ سسٹم مہیّا کیا ، جس میں معمولی کرائے پر بس، ٹرین، سب وے، لائٹ ریل، سب کچھ شامل ہے۔ جب 20 سال پہلے وہ جب کینیڈا آئے تو شروع کے چند ماہ ایک گھر کے بیسمنٹ اپارٹمنٹ میں کرایہ دار رہے،پھر پہلے ہی سال صرف 5 فیصد ڈائون پییمنٹ دے کر اپنا پہلا گھر خرید لیا، ڈھائی لاکھ ڈالر کا گھر خریدنے کے لئے صرف انھیں 15 ہزار ڈالر کی ضرورت پڑی، باقی رقم کے لئے بنک نے مارٹگیج دے دی ، مارٹگیج کی قسط میں اصل زر اور سود دونوں شامل ہوتا تھا، ، 20 سال میں وہ رقم ادا بھی ہوگئی اور انکو پتہ بھی نہیں چلا، اور اب وہ گھر ایک ملین ڈالر مالیت کا پیڈ آف گھر ہے، ، پہلی کار بھی زیرو پرسنٹ فنانسنگ پر لی تھی
کیسے 7 ڈالر فی گھنٹہ کی جاب سے کینیڈا میں زندگی شروع کی؟، کیسے ترقّی کی؟، کیسے کینیڈا میں آسودہ حال زندگی گزاری؟ انھیں پتہ ہی نہیں چلا، زندگی کی ہر آسائش سے لطف اندوز ہوئے، کسی چیز ، کسی تفریح سے محروم نہیں رہے۔ ہر سال چھٹّیوں وہ امریکہ، یورپ، کیریبئین ممالک جاتے رہے۔ دنیا کے 176 ممالک میں کینیڈین پاسپورٹ پر ویزا کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔جب 17 سال پہلے میں وہ پہلی ملازمت سے لے آف ہوئیے تھے، تو 9 مہینے تک ایمپلائیمنٹ انشورنس کے پیسوں سے گھر چلتا رہا تھا، جب جون 2008 میں حکومت نے سیکنڈ کیرئیر پروگرام شروع کیا تو انکو خط بھیجا، جس میں انکو کسی بھی اسکل ٹریڈ کو سیکھنے کے لئے 28 ہزارڈالر فیس کی مد میں دینے کی بھی پیشکش کی گئی تھی۔ مگر اس وقت تک وہ اپنا کاروبار سیٹ کرچکے تھے، اور خوشحال زندگی گزار رھے تھے۔جب سے وہ بیمار پڑے ھیں تو انکو فیملی ڈاکٹر کے علاوہ، ذیابیطس اور گردوں کے ماہر ڈاکٹروں کی نگرانی میں شاندار علاج ڈائیگنوسٹک ، دوائیں، نرس، ڈائیٹیشن ،تھراپسٹ وغیرہ سب کچھ مفت فراہم کئے جاتے ہیں۔ ہزاروں ڈالر کے انجکشن اور دوائیں ڈرگ پلان کے ذریعے فراہم کی جا چکی ہیں۔ شدید بیماری کے زمانے میں ڈاکٹر نے جب منسٹری آف ٹرانسپورٹیشن کو میرا ڈرائیونگ لائسنس معطّل کرنے کی صلاح دی ، تو حکومت نے انکے سفر کے لئے ٹیکسی کا انتظام ،ٹرانس ہیلپ کے ذریعے کیا ۔ٹرانس ہیلپ کو وہ، بس کے کرائے کے برابر رقم ادا کرتے تھے اور وہ انکو شاندار ٹیکسی سے سفر کرواتے تھے۔ علاج کے بعد انکا ڈرائیونگ لائسنس بحال ہوگیا ہے۔ اور جب وہ 65 سال کی عمر پر پنچیں گے تو ریٹائرڈ ہوجائیں گے اور بقیہ زندگی گھر بیٹھے پنشن اور اولڈ ایج سیکیورٹی ملتی رہے گی۔ کینیڈا دنیا کی واحد فلاحی ریاست ہے ، جہاں سوشل ڈیموکریسی اور فری مارکیٹ اکانومی ، دو نوں ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلتے ہیں۔ غریب کوئی نہیں ہوتا، محروم کوئی نہیں رہتا، لیکن اگر آپ کے پاس سرمایہ یا ہنر ہے تو آپ جتنی چاہیں دولت کما لیں، کوئی پابندی نہیں ہے، کیونکہ یہاں امیر اپنی ذات کے لئے امیر ہوتا ہے، کسی امیر کی دولت کی وجہ سے معاشرے میں بگاڑ پیدا نہیں ہوتا ہے ۔ اور یہ سب سوشل ڈیموکریسی اور فری مارکیٹ اکانومی کی برکات ہیں، جس نے کینیڈا کو ایک عظیم فلاحی ریاست بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
کنیڈا میں خواندگی کی شرح 100% ھے۔ کسی بھی ملک کی ترقی میں اسکے عوام کو خواندہ ھونا اسکی ترقی میں ایک ریڑھ کی ھڈی ثابت ھوتی ہے ۔ جو بھی ترقی یافتہ ممالک ہیں وھاں تعلیم کو بیحد اھمیت دی جاتی اور تعلیم پر ان ملکوں کا بجٹ سر فہرست ھوتا ھے۔ کیونکے جب عوام کے پاس تعلیم ھوگی تو انکو شعور بھی آئیگا اور جب ان میں شعور آئیگا تو ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں گے اور ٹیکسس دیں گے جن سے حکومت ملک ترقی کے لئیے کوشاں ھوگی ۔ ھمارے پاکستان کی میں خواندگی شرح 21% ھے ، اور ترقی کا جو حال ھے ۔ وہ سب کے سامنے ھے ۔ جرمنی اور جاپان دوسرے جنگ عظیم میں تباہ و برباد ھو گئیے تھے۔ جس وقت وھاں راکھ اور دھواں اٹھ رھا تھا اسوقت ھمارا وطن ظہور پزیر ھوا تھا ۔ اب دیکھیں کے وہ ملک ترقی کے لحاظ کہاں سے کہاں جا پہنچے ھیں اور ھم اب تک کہاں ھیں؟ ۔ اسکی وجہ جو ملک جنگ میں تباہ ھوگئیے تھے ان کے عوام میں تعلیم تھی شعور تھا انھوں نے ھمت سے کام لیا اور اپنی حکومتوں کا ساتھ دیا محنت کی ، اور آج یہ ملک جو جنگ عظیم دوئیم میں تباہ اور برباد ھوگئیے تھے ، ترقی کی کس معراج پر جا پہنچے ہیں ۔ اور ھم اب تک آزادی سے اب تک صرف ترقی پزیر ھی ھیں۔ اور اس ترقی نہ کرنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ھے کے ھم نے تعلیم کو بلکل بھی اھمیت نھیں دی۔ ھمارے حکمرانوں نے کبھی بھی بجٹ میں تعلیم کو کبھی فوقیت نہیں دی جسکا نتیجہ یہ ھے کے ھمارے ملک میں پڑھے ھوئیے لوگوں کا فقدان ھے اور آبادی کا صرف 21% پڑھا لکھا ہے ۔ یہ بہت ہی خطرناک سچوئیشن ھے جو بھی ترقی یافتہ ممالک ھیں انھوں نے تعلیم سب سے بڑی اھمیت دی ۔ یہاں کنیڈا میں سکول تک کی تعلیم مفت ھے ۔ یہاں بچے کی تعلیم پانچ سال کی عمر سے شروع ھو جاتی ۔ حکومت نے ایک ایسا سیسٹم شروع سے ھی بنا رکھا کے کوئی بھی بچہ تعلیم سے محروم نہیں کر سکتا ۔ ھر علاقے میں اسکول قائیم کر رکھے ھیں ۔ رھنے والے ھر ھر شخض کو اسی اسکول میں بچے کو داخل کرانا لازمی ھوتا ھے۔ کسی بھی علاقے میں قیام پزیر ھونے کے لئیے آنے والے کو اسی علاقے کے اسکول کی طرف سے نوٹس آجاتا ھے کے بچے کو اسکول میں داخل کریں یہاں پر بچوں سے کام لینا یا اسکو گھریلو ملازم رکھنا قانونن سخت جرم ھے۔ یہاں بچوں کی بیحد قدر کی جاتی ھے اور ایسے قانون بنائیے گئیے ھیں کے والدین اپنے بچوں صحیح پرورش رکھیں ۔ راستے میں جگہ ، جگہ آپکو الیکٹرونک ڈسپلے بوڑڈ نظر آئیں گے جس میں بچوں کا ھرطرح کا مناسب خیال کرنے کی تاکید کی جاتی ھے۔ بچے کی پیدائیش پر حکومت کی طرف سے اسکا ماھوار وظیفہ مقرر کردیا جاتا ھے ۔ [یاد رھے خلیفہ دوئیم حضرت عمر( ر ض) سب سے پہلے اسطرح کے بچوں کے لئیے بیت المال سے وظیفہ دینے کا حکم دیا تھا ]۔ اور اسکی پرورش جانچنے کے لئی کے والدین اسکی کیسے پرورش کررھے ھیں ، حکومت ک مقرر کردہ عملہ گھر جا جا کر گاھے بگھائیے جانچ کرتا رھتا ھے ۔ اور اگر وہ یہ سمجھے کے والدین بچے کی صحیح پرورش تو وہ بچہ اٹھا کر لیجاتا ھے والدین سے کہہ کر کے تم بچے کی پرورش کرنے کے قابل نہیں ۔ اب ھم کریں گے۔ میں نے یہاں ایسے بہت سے ایسے کیس سنے جب یہ عملہ صحیح طرح سے پرورش نہ کرنے والے والدین کے گھر سے بچے اٹھا کر لے گئیے۔ ہر ملازم کو اسکے بچے کی پیدائیش پر چھ ماہ کی چھٹی دی جاتی ھے چاھے وہ کہیں بھی ملازم ھو مگر اس دوران تنخواہ حکومت ادا کرتی ھے ۔ جو بچے اسکول جاتے ھیں انکا تو بہت ھی خیال رکھا جاتا اگر اسکول کی بس جو بچوں کو گھر سےاسکول اور اسکول سے گھر لے جارھی ھو تو اسکے آگے اور پیچھے گاڑیا ں بہت ھی فاصلے پر رکھتی ہیں اور اگر کہیں بس کھڑی ھو جائیے تو تمام آگے پیچھے کا ٹریفک رک جاتا کسی کو اسکول کی کھڑی بس کو کراس کرنے کا اختیار نہیں ۔ یہ نہایت بڑا جرم ھے ۔ دس ھزار ڈالر تک جا جرمانہ ھو سکتا ھے۔ یہاں بوڑھے یعنی سینئیر سٹیزن لوگوں بیحد عزت اور خیال رکھا جاتا ھے ۔ سینئر سٹیزن کے لئے کافی مراعات ہیں ۔ بوڑھے پن کی 65 سال عمر پر پہنچ کر حکومت کی طرف سے اولڈ ایج بینیفٹ کا ماھوار وظیفہ دینا شروع ھوجاتا ھے [یاد رھے خلیفہ دوئیم حضرت عمر( ر ض) سب سے پہلے اسطرح کے بوڑھوں کے لئیے بیت المال سے ماھوار وظیفہ دینے کا حکم دیا تھا ]۔ پچھلے بار جب میں جون 2014 میں ٹورنٹو کنیڈا آیا تھا تو میری ایک تقریب میں میں ایک ریٹائیڑڈ اسسٹنٹ انجینر پی ٹی سی ایل سے سے ملاقات ھوئی تھی ۔ جو سی ٹی ایچ ایکسچینج کراچی میں کام کرتے تھے ۔ مجھے دیکھ کر میرے پاس خود ملاقات کرنے آئیے تھے ۔ میں تو انکو جانتا تھا لیکن وہ مجھ سے واقف تھے کیونکے میں ڈی جی ایم ایس ٹی آر ٹو کراچی کام کر چکا تھا ، انھوں نے نے بتایا کے وہ ۲۰۰۸۔ میں نارمل طور پر ریٹائڑڈ ھوئیے تھے اور پھر وہ کنیڈا شفٹ ھوگئیے تھے کیوں کے انکا فرزند یہا ں کافی عرصے سے قیام پزیر تھا اور انکو کنیڈا کی شہیریت بھی مل گئی تھی ۔ انھوں نے مجھے بتایا انکو کنیڈا کے قانون اولڈ ایج بینیفٹ کی ماھانہ 1200 کنیڈا ڈالرز ( آجکل پاکستانی رقم تقریبن ایک لاکھ 42 روپے بنتے ھیں ) ملتے ھیں ۔ میں نے انکی پاکستانی پنشن کے بارے میں
پو چھا تو وہ ھنس پڑے کہنے لگے “سر ملتی تھی جو یہاں کے مقابلے میں بہت کم تھی ۔ میں اب لاکھوں روپے کا ٹکٹ خرید کر اس پنشن کو پاکستان جاکر ، لانے سے تورھا۔ میرے سمدھی انور بھائی مرحوم [انور بھائ 2001 سے میسیسی ساگا، ٹورنٹو میں مقیم تھے اور کنیڈا کے شہری تھے ۔ انکا 13 اگست 2018 کو انتقال ھوگیا تھا ] ، جب 2015 پاکستان آئیے تھے انھوں نے مجھے کنیڈا میں سنئیر سٹیزن کی قدر کے بارے میں بتایا تھا کے وہاں کسطرح انکا خیال رکھا جاتا ھے اور مراعات دی جاتی ہیں ۔ انھوں نے بتایا کے انھوں نے وھیں ٹورنٹو میں اپنا زاتی اکاؤنٹ کھول رکھا تھا اور اسمیں گاھے بھاگے رقم بھی جمع کراتے رھتے ۔ ایک کوئی پانچ سال کے بعد جب انھوں کچھ زیادہ رقم نکالنے وھاں بنک گئیے پہلے تو بنک والوں نے انکو بتایا کے اتنی رقم پڑی ھے ۔ مگر تھوڑی دیر ان سے معزرت کرتے ھوئیے اسمیں تین سو ڈالر جمع کرتے ھوئیے انکو بتایا کے وہ چونکہ ایک سینئر سٹیزن ھیں ان پر بنک کی سالانہ فیس معاف ھے اور جو انھوں نے گزشتہ تین سالوں میں انکی بنک کی فیس کی جو رقم غلطی سے کاٹ لی تھی وہ انھوں نے اسکو ریفنڈ کر کے انکے اکاؤنٹ میں جمع کرادی۔ ۔ بقول انور بھائی مرحوم کے انکو اس بارے میں پہلے سے کچھ بھی پتہ نہ تھا اور اگر وہ ریفنڈ نا بھی دیتے تو کیا ھوتا میرے علمُ میں تو یہ بات ھی نہیں ۔
میں جب بھی کنیڈا آتا ھوں تو مجھے ایسا لگتا ھے کے پتھروں کے زمانے کے دیس سے آیاھوں۔ مجھے یہاں نہ تو ٹریفک کا بیھنگم شور شرابہ، ھارنوں کی کان پڑی آوازیں، اور ناں ھی رکشہ موٹر سائیکلوں کان پھاڑنے ولی پھٹپھٹاھٹ کی آوازیں سنائیں دیتیں ھیں۔ مجھے کسی بھی ٹریفک سگنلز یا چوک پر کوئی بھی ٹریفک پولیس والا نظر نہیں آتا۔ مجھے فٹ ہاتھ پر کوئی بھی چھابڑی والا یا دوکان سجانے والا نظر نہیں آیا کے جس لوگوں کو فٹ پاتھ پر چلنے میں دشواری ھو، مجھے دیواروں پر لکھے اشتہار ، جگہ جگہ کوڑا کرکٹ نظر نہیں آتا اور بازاروں میں شور شرابا آوازیں نہیں سنائیں دیتیں ھیں۔ مجھے یہاں کے لوگوں میں جو یہ کام کرتے ڈسپلن نظر آتا ھے جو انتھا پر جو بھی کام کرتے ھیں ان میں ڈسپلن ھی ڈسپلن نظر آتا ھے چھوٹی سی چھوٹی جگہ پر چاھے وہ پیمنٹ کرنے کا معاملہ ھو ، ٹکٹ لینے کا ھو یا اور کسی جگہ پر آپکو ھر جگہ قطار بنی نظر آئیگی ۔ کوئی اپنی باری سے آگے بڑھنے کی کبھی کوشش نہیں کرے گا۔ کوئی تقریب شادی ،بیاہ یا جہاں کھانے کا احتمام لوگ فورن خود ھی قطار بنالیتے ھیں اور بڑے سکون سے اپنی باری میں کھانا اتارتے ھیں ۔ ھماری طرح نہیں کے ایک ھبڑ دبڑ مچادیتے ھیں سب کی یہ ھی کوشش ھوتی کے وہ جلد کھانا اتار لے اور زیادہ سے زیادہ بھرلے ، نامعلوم بعد میں موقع ملے یا نہیں ۔ یہاں پر آپ کو جگہ جگہ دکانیں نظر نھیں آئیں گی ھیں جس طرح ھمارے ملک میں ھوتی ھیں ۔ یہاں بڑے بڑے والٹ مارٹ جیسے شاپنگ سینٹرز ھوتے ھیں جیسے تھوک کا سامان خریدنے کے لئیے الگ ، دواؤں کے لئیے ، خوراک ، اور گھریلو چیزوں کے لئے الگ وغیرہ وغیرہ۔ سب وھیں سے شاپنگ کرتے ھیں ۔ کسی بھی شاپنگ سینٹر میں داخل ھو تو اکثر وھاں دروازے پے کھڑے ھوئیے انکے ملازمین بڑی خندہ پیشانی سے پہلے استقبال کرتے ھیں ۔ آپ جو بھی چیز شاپنگ کرکے آئیں اور وہ آپ کو پسند نہیں آتی تو آپ اسکو رسید میں گئیے ھوئیے ٹائیم کے مطابق واپس کرسکتے ھیں ۔ اور اگر رسید گم بھی ھوجائیے اور آپ انکو بتادیں تو وہ جب آپکا ان کے شاپنگ سینٹر سے خریدا ھو ، تبدیل کردیں گے ۔ یہ ھی اگر آپ اپنا مال اسی کی کسی اور شاپنگ سینٹر میں جاکر تبدیل کرائیں گے ۔ تو ان کے کسٹم کئیر سینٹر والے بغیر کسی سوال کے بغیر تبدیل کردیں گے اور ساتھ معزرت بھی کریں گے ۔ میرے بیٹے سجاد نے ستمبر ۱۹ کےمہینے کمرے میں کھڑکیوں لگانے کے لئیے ایک تھوک مال شاپنگ سینٹر جسکو شائید ھم ٹاؤن کہتے ھیں ،اپنے نئے گھر کے لئیے پردے خریدے تھے جو ڈبے میں پیک تھے ۔ اسکو ھمارے وھاں آنے تک وہ نہ لگا سکا ۔ ھم لوگوں کے آنے پر اسنے اسکو نکالا۔ ڈبے کھولنے ہر اسکو اسکے کلر پسند نہ آئیے ۔ مجھ سے کہنے لگا ابو میں اسے واپس کرکے دوسرے پردے لے کر آؤں گا ۔ اگرچہ دو مہینے سے زیادہ، اسکو خریدے ھوئیے ھوگئیے ھیں اور میرے پاس رسید بھی کھو گئی ھے ، لیکن مجھے امید ہے کے وہ اسکو تبدیل کرلیں گے ۔ میں بھی اسکے ساتھ اسی شاپنگ سینٹر چلا گیا ۔ سجاد نے کسٹم کئیر کاؤنٹر ساری بات بتادی کے اس سے رسید کھو چکی ھے اور یہ پردے لئیے دو مھینے سے زیادہ ھو چکے ھیں جبکے تبدیلی کا ٹائیم ایک ماہ تک کا ۔ تو انھوں نے کہا آپ ان پردوں کو اب تبدیل نہیں کرسکتے لیکن ھم اسکو واپس لے لیتے ھیں اور اسکا ریفنڈ آپ کو دے دیتے ھیں اسنے اسی وقت سجاد کو اسی قیمت کا 58 ڈالرز کا ڈیبٹ کاڑڈ بناکر دے دیا اور کہاں آپ ان سے اسی شاپنگ سینٹر سے اسی اماؤنٹ تک کی شاپنگ کرسکتے ھیں ۔ ھم نے پردے کے علاوہ اور چیزیں نھیں خریدں اور گھر واپس ھوئیے ۔ اسی سلسلے میں آپ کو ایک اور قصہ بتانا چاھتا ھوں انکی ایمانداری کا ۔ جو مجھے میرے مرحوم سمدھی انور بھائی نے بتایا تھا ۔ کرسمس کے آنے سے پہلے یہاں ھر ایک چیزیں 50% تک بھی کم کردی جاتی ھیں۔ ھماری طرح نھیں جب رمضان اور عید سے پہلے ھر چیز کی قیمت بڑھادی جاتی ہے۔ انور بھائی نے کرسمس کے دوران ڈسکاؤنٹڈ ریٹ پر ایک اچھی گرم لیدر کی جیکٹ خریدی تھی اور اسکو پہنتے بھی رھے تھے باوجود وہ انکو تنگ تھی کوئی دو مہینے کے بعد گھر والوں نے مشورہ دیا کے جاکر اسکو تبدیل کراکر اس سے بڑی لے آئیں پہلے تو وہ اسکو تبدیل کرنے بیحد ھچکچائیے کے کافی عرصہ ھوگیا اور اسکا ٹائیم پیریڈ بھی ختم ھو چکا ھے اور دوسرے یہ کے یہ انھوں نے کرسمس کی وجہ سے کم ریٹ پر دی تھی اب وہ کیسے واپس لیں گے ۔ بحر حال وہ گھر والوں کے اصرار پر وہ جیکٹ واپس کرنے چلے گئیے ۔ وھاں پر انھوں نہ صرف وہ جیکٹ تبدیل کرکے انکی ساییز کی نئی جیکٹ دی بلکے انکو ساتھ میں 70 ڈالرز بھی دے دئیے اور بہت معزرت کی ۔ اور انکو بتایا کے انھوں نے جب وہ جیکٹ دسمبر میں کرسمس کے دواران خریدی تھی وہ انکو کم ریٹ پر سیل مین کو انکو دینی چاھئیے تھی لیکن وہ سیل مین چونکہ نیا تھا اسنے غلطی فل قیمت چارج کرلی تھی تو یہ وہ رقم ھے جو اسنے زیادہ چارج کرلی تھی ۔ آپ لوگ کیا ایسا تصور بھی کرسکتے ہیں کے پاکستان میں ایسا بھی ھو سکتا ھے ۔ پاکستان آپ اگر خریدا ھوا مال ایک گھنٹے بعد بھی تبدیل کرانا چاھیں تو وہ فورن آپکو بوڑڈ پر لکھا ھو نوٹس دکھانے گا کے “خریدہ ھو مال واپس نہیں ھوگا”۔اور دوکاندار اکھڑ مزاج ھوا تو آپ کو اتنی سُنائیے گا اور دوکان سے نکال دے گا۔ یہاں آن لائین شاپنگ کرنے کا رواج عام ھے ۔ آپ اپنے مطلوبہ آئیٹم کا آڈر آن لائین دیں ۔ کریڈٹ یا ڈیبٹ کاڑڈ سے مطلوبہ رقم ادا کریں ۔ وہ کمپنی مقررہ دئیے گئیے وقت پر وہ اسکو آپکے گھر میں ڈلیور کردیں گے اور آپ گھر میں موجود نہ بھی ھوں وہ وہ آپکے گھر سامنے چھوڑ کر چلا آئیگا ۔ اسی پر ایک بات آپ کو بتانا چاہتا ھوں کے میرے بیٹے سجاد نے اپنےگھرکے لئیے ڈائیننگ ٹیبل کا آن لائین آڑڈڑ ایمیزون کو دیا اور اسکی قاعدے کے مطابق آن لئیے اپنے ڈیبٹ کاڑڈ سے پیمنٹ بھی کردی ۔ جب وہ انکے مقررہ وقت کے مطابق وہ ٹیبل اسکے گھر پر موصول نہیں ھوئی تو اسنے انکو فون کرکے بتایا یہ ٹیبل اسے پر مقررہ وقت سے چار دن تک بھی نہیں آئی۔ اس پر بھیجنے والوں نے پہلے سجاد سے معزرت کی بتا یا کے ڈلیور کرنے والا اسے کسی غلط ایڈریس پر ڈیلیور کرآیا ھے اس لئیے انھوں انکی پیمنٹ کی اماؤنٹ اسکو ریفنڈ کردیا ھے ۔ خیر کوئی بات نہیں ۔ سجاد نے بتایا اسکے دو ھفتے بعد اتوار کو جب وہ گھر پر تھا ایک پک اپ گھر کے سامنے آکر رکی تو اسنے باہر جاکر دیکھا کے ایک بوڑھا انگریز جوڑا اسی میز کو گاڑی سے اتار رھا ھے اور انکی سانس پھولے ھوئی ھے ۔ انھوں نے بتایا یہ ڈائننگ ٹیبل انکے گھر کے دروازے پر دو ھفتے سے پڑی ھوئی تھی ۔ (انکا گھر سجاد کے گھر 40 کلومیٹر دور تھا ) ۔ ھماری سمجھ میں نہیں آرھا تھا ھم بوڑھے لوگ کس طرح اسکو اسکی اصلی جگہ پہنچائیں آخر کار آج ھم نے خود ھمت کرکے اسکو لے کر آئیے ھیں ۔ سجاد نے انکا بہت بہت شکریہ ادا کیا اور پھر فورن ھی ایمیزون والوں کو اسکا بتایا ۔ ایموزون نے سجاد کا بیحد شکریہ ادا کیا اور وہ ٹیبل اسکو 30 % ڈسکاؤنٹ پر دے دیا اور اتنی رقم اسکے ڈیبٹ کاڑڈ سے چارج کرلی ۔ میرا یہ سب کچھ آپ کو بتانےکے یہاں کتنی ایمانداری ہے ۔ آن لائین مال سپلائی کرنے والی کمپنی گھر آگے جو بھی سامان پرچیز کیا ھو ھوتا وہ ، گھر کے باہر رکھ کر چلی جاتی ہیں ۔ مجال ھے کوئی اور اسکو ھاتھ لگاتا ہے یا چوری کرتا ھو۔ یہاں پر دور دراز یا دیہی علاقوں میں آپ جائیں تو آپ کو ایسی بہت سی چھوٹی دکانیں ملیں گی جہاں کوئی بھی بیچنے والا نہیں ھو گا ۔ سامان پڑا ھوگا ۔ اور پیسہ جمع کرانے کی جگہ ۔ آپ سامان خریدیں اور اسکی قیمت اسکی اس جگہ رکھ دیں۔یہاں پر لوگ کام بڑی ایمانداری سے کرتے ھیں جو جھوٹ، دھوکہ سے بلکل پاک ۔ یہاں کوئی یہ تصور تک نہیں کرسکتا کے جھوٹ بول کر کاروبار کرے۔ اور چیزوں ملاوٹ وغیرہ کرکے بیچے۔ ھر کام نہایت اصولوں سے کیا جاتاہے ۔ اسمیں کام کسی قسم کا ردوبدل بلکل بھی برداشت نہیں کرتے ۔ یہ جون2013 کی بات جب میں یہاں دوسری مرتبہ ٹورنٹو کنیڈا آیا تھا ۔ ایک صبح ھم لوگ ناشتہ کرنے گھر کے قریب میکڈولنڈ گئیے ھم نے ناشتے کا آڑڈڑ دیا اور اسکی ایڈوانس پیمنٹ کرنے کے بعد بیٹھ کر اسکے انتظار میں بیٹھ گئیے ۔کوئی ۲۰ یا ۲۵ منٹ بعدھمارا ناشتہ تیار ہوگیا اور ھم خود جاکر کاؤنٹر سے لے آے ۔ ناشتہ کرنے بعد وہاں سے نکلے اور ھم گاڑی کی طرف جارھے تھے کے اتنے میکڈولینڈ ر کے ریسٹورانٹ سے انکا ایک ملازم دوڑا دوڑا ھمارے پاس آرہا ہے ۔ اسنے آتے ھی ھم کو دو ٹوکن دئیے اور کہا کے ایک مہینے کے اندر اندر کسی بھی میکڈولینڈ کے ریسٹورانٹ سے 50% ڈسکاؤنٹ کبھی بھی کچھ کھا سکھا سکتے ھیں ۔اور جب ھم نے اسکے یہ دینے کی وجہ پوچھی ۔تو اسنے بتایا جو ھم آپکو ابھی ناشتہ فراھم کیا وہ بیس منٹ کے بعد فراھم کیا جب کے ھم کو اصول کے مطابق ۱۵ منٹ میں سپلائی کرناچاھئیے تھا اسلئیے جو ھم سے کوتاھی ھوئی اسکے لئے پہلے تو ھم معزرت خواہ ہیں اور جو آپ کو انتظار کی زحمت برداشت کرنی پڑی اسکے اسکے کے لئیے یہ آپکو ڈسکاؤنٹڈ ٹوکن دئیے جارھے ھیں ۔ ھم سب کو خاص کر مجھےانکے انکی اصول پسندی اور ایمانداری پر بیحد خوشی ھوئی اور بہت رشک آیا کاش ھمارے ملک میں بھی ایسی ھی اصول پسندی اور ایمانداری پائی جاتی ۔ھمارے ملک کو اس جیسے ترقی اور ایسے مقام تک پہنچنے کے لئیے ابھی صدیاں چاھئیں وہ بھی اس صورت میں کے جب محب وطن حکمران مل جائیں اور قوم تعلیم سے مکمل طور پر آشکارا ھوجائیے اور اس میں شعور اور احساس اجاگر ھو جائیے ۔
میں اپنے کنیڈا پر اس مضمون کا اختتام ان الفاظ پر کرتا ھوں کے کنیڈا میں تو مسلمان تو اگرچہ بہت کم ھیں لیکن وھاں کے تمام لوگ اسلام کے زریں اصولوں پر عمل پیرا نظر آتے ھیں جبکے ھمارے ملک میں98% مسلمان تو ھیں لیکن اسلام کے ان زریں اصولوں سے بلکل بےبہرا اور جبھی تو ھمارا ملک بجائیے ترقی کے رو بزوال نظر آتا ھے ۔ اللہ اس ملک کو ھمیشہ قائم و دائیم رکھے۔ آمین
واسلام
محمد طارق اظہر
اٹاوہ۔ کنیڈا
بتاریخ ۲۵ جنوری ۲۰۲۰
اٹاوہ سٹی کے کچھ فو ٹوز
Comments