Article-119[ Regarding filling of ICAs by PTET ]

فیس بک آڑٹیکل نمبر119
بلاگ سائیٹ آئٹم نمبر 275

بعنوان:- پی ٹی ای ٹی کے بوڑڈ آف ٹرسٹیز کا پی ٹی سی ایل پنشنروں سے سنگدلی , بغض اور متعصبانہ رویہ۔  ۔ ۔ ۔ اسلام آباد ھائی کوڑٹ کے 3 مارچ 2020 کو پی ٹی سی ایل پنشنرز پٹیشنروں انکے حق میں آئیے ھوئیے فیصلے کے خلاف  انکا انٹرا کوڑٹ اپیلیں دائیر کرنے کا یہ عمل  ، انکے اس منفی کردار کا واضح ثبوت ھے ؟؟؟؟؟
عزیز پی ٹی سی ایل ساتھیو
اسلام و علیکم
یہ بڑے افسوس اور دکھ کا مقام  ھے کے پی ٹی ای ٹی بوڑڈ کے ناخداؤں نے ایک بار پھر پی ٹی سی ایل پنشنروں سے بغض ، سنگدلی متعصبانہ رویہ  کا مظاھرہ کرتے ھوئیے،   انکی  35 پٹیشنوں پر ، انکے حق میں آئیے ھوئیے اسلام آباد ھائیکوڑٹ کے سنگل بینچ کے 3 مارچ 2020 کے فیصلے کے خلاف ، 24 اپریل 2020 کو انٹرا کوڑٹ اپیلیں داخل کردیں اور حکم امتنائی  یعنی سٹے آڑڈڑ مانگا ۔ مگر اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ھے ، کے عدالت عالیہ کے ڈبل بینچ نے ، جسکی سربراہی چیف جسٹس محترم جناب عزت ماآب جسٹس اطہر من اللہ کررھے تھے ، پی ٹی ای ٹی کے وکیل شاھد انور باجواہ کے بار بار گڑگڑآنے کے باوجود بھی  انکو اس پر حکم امتناہی یعنی سٹے آڑڈڑ جاری نہیں کیا اور اس پر نوٹس کا حکم دیتے ھوءے مزید کاروائی عید کے بعد  تک کے لئیےملتوی کردی ۔
 پی ٹی ای ٹی کے بوڑڈ آف ٹرسٹیز نے یہ سنگدلانہ عمل کرکے ایک بار پھر پی ٹی سی ایل پنشنروں کے پیٹ میں  چھرا گھونپنے کے مترادف ھے ۔مجھے اس بات پر حیرانگی ھے انھوں میری  پٹیشن نمبر4588/2018  پر عدالت کے  مثبت فیصلے کے خلاف بھی انٹرا کوڑٹ اپیل دائیر کردی ۔ یہ پٹیشن میں نے اپنے ایسے 31 ساتھی پٹیشنروں کے ساتھ 3 دسمبر2018 کو داخل کی تھی اور صرف گورنمنٹ کی یکم جولائی 2010 سے پنشن انکریز کی ھی ادائیگی کا مطالبہ , اپنی prayers میں کیا تھا کے ھم پٹیشنروں کو گورنمنٹ کا اعلان کردہ پنشن انکریز سپریم کوڑٹ کے  12 جون 2015  کے فیصلے  [جو سپریم کوڑٹ کی ماھانہ رپورٹ پی ٹی ای ٹی بنام محمد عارف 2015 ایس سی ایم آر 1472 میں درج ھے]  کے مطابق سپریم کوڑٹ کے اس وضح کردہ قانون اور اصول کے مطابق ادا کی جائیے جسکا حکم اسنے حمید اختر نیازی اور انیتا تراب علی کیسس  میں دیا تھا  [یاد رھے  حمید اختر نیازی کیس  یعنی  حمید اختر مقدمہ بنام سیکٹری اسٹیبلشمنٹ  1996 ایس سے ایم آر 1185 میں سپریم کوڑٹ کے دو رکنی بینچ نے یہ رولنگ دی تھی کے فیڈرل سروس ٹریونل  یا سپریم کوڑٹ  کے کسی سرکاری ملازم  ، جس نے مقدمہ کیا ھو ، کے حق میں آیا ھوا فیصلہ،  جو اسکے سروس اور ٹرمز میں قانونی نکات پر دیا ھو ، اسکا فائیدہ اور ایسے تمام سرکاری ملازمین کو بھی  پہنچایا جائیے چاھے  انھوں نے مقدمہ کیا ھو یا نا ھو  یا وہ مقدمے میں پاڑٹی ھوں یا نہ ھوں بجائیے ان سے کہا جائیے کے وہ بھی عدالت سے  کسی قانونی  فورم سے رجوع کریں ۔ جبکے تین رکنی سپریم کوڑٹ کے بینچ نے انیتا تراب علی کیس  یعنی سید محمود اختر نقوی اور دیگران کےُ مقدمہ بنام فیڈریشن آف پاکستان پی ایل ڈی 2013 ایس سی 195 میں اسی حمید اختر نیازی کیس کا اعادہ کرتے ھوئیے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کے سپریم کوڑٹ نے حمید اختر نیازی کیس  میں ایک اصول  اور قانون واضح کر دیا ھے کے کسی بھی سرکاری ملازم کے حق میں آئے  ھوئیے فیصلے کا فائدہ ایسے دوسرے سرکاری ملازمین کو بھی پہنچایا جائیے بجائیے ان سے کہا جائیے کے وہ بھی مقدمہ کریں اور جو کوئی ادارہ یا سرکاری افسر سپریمُ اس احکامات کی خلاف ورزی کرے گا تو انکے خلاف آئین  کے آڑٹیکل (a)(2)204 توھین عدالت عدالت کی کاروائی کی جاسکتی ہے ]۔
ھماری اس پٹیشن میں  کوئی بھی ایسا disputed matter نہیں تھا جس پر عدالت میں بحث کی جاتی ، ھم نے وہی کچھ مانگا تھا یعنی صرف گورنمنٹ پنشن انکریزز ، جو ٹرسٹ پہلے ھی 343 پٹیشنروں کو ، سپریم کوڑٹ کے 15 فروری 2018 کے حکم  پر عمل کرتے ھوئیے مارچ 2018 میں دے چکا ھے ۔محترم جج جسٹس  میاں گل  حسن اورنگ زیب صاحب نے ھماری  اس پٹیشن پر فیصلہ سپریمُ کوڑٹ کے انھیں احکامات کو مد نظر رکھے ھوئیے کیا اور اور اس شامل ان تمام پٹیشنروں کو جو ڈیپاڑٹمنٹل اییملائیز تھے اور کارپوریشن  اور کمپنی میں ٹرانسفڑڈ ھوکر ریٹائیڑڈ ھوئیے تھے ، ان سبکو گورنمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریزز  کیلکولیٹ کرکے ساٹھ دنوں میں پیمنٹ کرنے کا حکم دیا۔  ھم نے یہ پٹیشن 4588/2018,  3 دسمبر 2018 کو اسلام آباد کے محترم جج جناب جسٹس عامر فاروق کی عدالت میں دائیر کی تھی  ، جنھوں نے اسپر پی ٹی سی ایل کو پندرہ دن میں جواب جمع کرانے کا حکم دیا تھا جو پی ٹی ای ٹی نے ایک سال تک بھی جمع نہیں کرایا ۔ 5 دسمبر 2019  یہ پٹیشن محترم جج جسٹس گل حسن اورنگ زیب کو مارک کردی گئی ،  جو پہلے ھی اسطرح کی بہت سی نئی اور پرانی پٹیشنوں کی ھئیرنگ کررھے تھے انھوں نے اسکو رسول خان صاحب کی  ، 2012 میں دائیر کی ھوئی پٹیشن نمبر 523/2012 کے ساتھ اور ایسی اور پٹیشنوں کے ساتھ کلب کردیا ۔ اور 13 جنوری 2020 ان پٹیشنوں کی ھئیرنگ کے دوران جب یہ پٹیشن انکے روبرو پیش کی گئی تو انھوں نے بغیر کسی arguments کے  یہ کہتے ھوئیے فیصلے کے لئیے محفوظ کرلیا کے it is a case of implement if court’s order . اب اس فیصلے خلاف پی ٹی ای ٹی کا انٹرا کوڑٹ اپیل داخل کرنا ، ریفرڈ کئیے ھوئیے سپریم کوڑٹ کے پی ٹی سی ایل  پنشنروں  کے حق میں دئیے گئیے احکامات میں نقص نکالنا ، سمجھ سے بالا تر ھے کیونکے محترم جج صاحب نے اسی کی بنیاد پر تو فیصلہ دیا اور انکے ایسے فیصلے میں کیا نقص ھو سکتا ھے کے پی ٹی ای  ٹی کو یہ انٹرا کوڑٹ اپیل دائر کرنی پڑی ۔ ھم نے تو تہیہ کرلیا ھے۔ کے جب  اسکا نوٹس ملے گا تو اسکے جواب صرف یہ ھی بات لکھی جائیگی کے انکی یہ انٹرا کوڑٹ اپیل انکی بدنیتی کردار پر مبنی ھے انھوں سپریم کوڑٹ کے ان فیصلوں میں نقص نکالنے کی کوشش کی ہے جس پر وہ پہلے ھی عمل کرچکے ھیں اور تقریبن 343 ایسے پٹیشنروں کو عدالتی 12 جون 2015 کے حکم کے مطابق پیمنٹ کر چکے ھیں ، اب اس حکم میں انکو کیا نقص نظر آگیا  یا ان سپریم کوڑٹ کے ان احکامات میں جو اسنے نے حمید اختر نیازی کیس میں دیا ، جسکی روشنی میں ان سے 12 جون 2015 کے عدالتی حکم پر ، اس کیس کے ایسے پٹیشنروں پر عمل کرانے کی استدعا کی گئی تھی ۔ اور ساتھ  عدالت عالیہ سے یہ بھی گزارش کی جائیے گی  کے انکی انٹرا کوڑٹ اپیل جرمانے کے ساتھ نہ صرف ڈسمس کی جائیے بلکے انکے خلاف توھین عدالت کی کاروائی کا  عمل بھ شروع کیا جائیے۔
کتنے افسوس اور دکھ کی بات ھے کے جس ادارے کی تشکیل حکومت پاکستان نے صرف اسلئیے  کی تھی کے  ڈیپاڑٹمنٹل ایپمپلائیز جو کارپوریشن اور کمپنی میں  ٹرانسفڑڈ ھوکر ریٹائیڑڈ ھوگئیے تھے ، انکو  صرف  گورنمنٹ کی مقررر کردہ  ھی پنشن ،  انکے لئیے ٹرسٹ کو پی ٹی سی سے تقویز کئیے ھوئیے پنشن فنڈ سے گورنمنٹ کے پنشن کے قوانین کے مطابق ادا کرے گا اور یہ ھی اسکے بوڑڈ آف ٹرسٹیز کا منڈیٹ تھا ۔جس پر یہ اب کام نھیں کررھے۔ اب تو یہ صرف کمپنی پی ٹی سی ایل کے مفاد میں کام کر رھا ھے نہ کے پی ٹی سی ایل پنشنروں کے مفاد میں ۔ سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن نے اپنی اسپیشل رپوڑٹ میں صاف طور پر لکھا ھے کے ٹرسٹ پی ٹی سی ایل کمپنی کے دباؤ میں کام کررھا ھے اور ٹرسٹ کے ان اقدامات سے حکومت پاکستان کی قیمت پر کمپنی کو فائدہ پہنچے گا جو ٹرسٹ  کے اثاثوں سے فائدہ اٹھارہے  جو ھزاروں پنشنرس کے فائیدے کے لئے ھیں  ۔ یہ ٹرسٹ اپنے قیام  یعنی یکم جنوری  1996 جون 2010 سے بلکل صحیح طور پر کام کررھا تھا اور ان تمام پی ٹی سی ایل پنشنروں کو باقاعدگی  سے گورنمنٹ کی ھی مقرر کردہ ھی پنشن ھر ماہ ادا کرر رھا تھا ۔ اس ٹرسٹ کے بوڑڈ آف ٹرسٹیز ھر سال گورنمنٹ کی ھی کی اعلان کردہ پنشن  بڑھاتے تھے۔ مگر یکایک یکم جولائی 2010 انھوں نے گورنمنٹ  مفاد کو چھوڑااور پی ٹی سی ایل کے مفاد میں کام کرنا شروع کردیا ، تاکے  پی ٹی سی ایل کی 26 % شئیر ھولڈر ایتصلات کمپنی کو فائیدہ پہنچے۔ انھوں کمپنی  کی ایما پر سال 2011-2010   کو گورنمنٹ کے اعلان کردہ انکریز 15%  کی بجائیے اپنی منظور کردہ  پنشن 8% انکریز دینے  کا فیصلہ کیا  ، اور اسکے بعد ھرسال اسی عمل پر پیرا رھے اور اب تک ھیں ۔ گورنمنٹ کے اعلانُ کردہ پنشن انکریز  نہ دینا اور بلکے اپنی طرف سے دینا وہ بھی گورنمنٹ کے مقابلے بہت ھی کم ، اسکا مقصد صرف ایک یہ ھی تھا کے کمپنی کو پنشن فنڈ میں اپنی سالانہ کنٹری بیوشن کی رقم بھی کم سی کم دینا پڑے بہ لحاظ شئیر ھولڈر ۔ اور جب سپریم کوڑٹ نے اپنے 12 جون 2015 کے فیصلے میں انکو یہ حکم دیا کے ان پنشنروں کو گورنمنٹ کی ھی اعلان کردہ پنشن انکریز دینے کے پابند ھیں  تو انھوں نے تو انھوں نے نہیں ادا کی ۔ انکے اس عمل کے خلاف ان پٹیشنروں انکے خلاف توھین عدالت کی  درخواستیں دائیر کردیں  ۔ انھوں نے شروع ھی سے اسلام آباد ھائی کوڑٹ کے پی ٹی سی ایل پنشنروں کے حق میں 21 دسمبر 2011 فیصلے کے خلاف litigations شروع کردیں جو اب تک جاری ھیں ۔ اور اپنے اس غلط عمل کا دفاع کرنے کے لئیے اس پنشن فنڈ کا بیدریغ استعمال کیا جسکو یہ ایسا کرنے کے بلکل بھی قانونی  طور پر مجاز نہیں تھے ۔ انکی اسطرح  سے پنشن فنڈ دوسرے کاموں ادئیگی پر سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن نے اپنی اسپیشل رپوڑٹ میں بھی بہت اعتراض کیا ھے اور انھوں نے  اسکو سنگین بیقائدگی [serious anomaly ]قرار دیا اور رپوڑٹ میں تحریر کیا کے
‏“Beneficiaries (the pensioners) are praying to justice system for restoring their legal rights as per Act .The trust is defending its wrong  doings by the beneficiaries moneys and too in the name of Federal Government.”
یعنی فائدہ اٹھانے والے (پنشنرز) ایکٹ کے مطابق اپنے  قانونی حقوق کی بحالی کے لئیے نظام انصاف سے طلبگار ھیں اور یہ ٹرسٹ اپنے غلط کاموں کا دفاع کر رھا ھے ، فائیدہ اٹھانے والوں کی رقم سے اور وہ بھی فیڈرل
گورنمنٹ کے نام پر۔ اسلا م آباد ھائی کوڑٹ کے سنگل بینچ کے جج محترم جسٹس گل اورنگ  صاحب   نے 28 صفحات پر  مشتمل رسول خان صاحب کی پرانی پٹیشن 523/2012 پر تفصیلی فیصلہ  دیتے ھوئیے اسکے ساتھ تمام اٹیچڈ ایسی رٹ پٹیشنیں ، ایسے تمام پی ٹی سی ایل پنشنر پٹیشنرز کو انکے مدعا ( prayed) کئیے گئیے گورنمنٹ ریلیفس دینے کا حکم  دے کر نمٹادیں یعنی disposed off کردیں اور پی ٹی سی ایکٹ 1991 کے اجراء سے پہلے بھرتی ھوئیے تھے یعنی  وھی  جو ڈیپاڑٹمنٹل ایمپلائیز کہلاتے تھے یعنی ٹی اینڈ ٹی گورنمنٹ آف پاکستان کے ملازمین تھے  .ان کو ھی گورنمنٹ ریلیفس میں  ایسے پٹیشنروں کو گورنمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریزز کے بقایا جات ، جو ان ٹرسٹیز  نے یکم جولائی 2010 سے دینا ختم  کردئیے تھے اسکو دینے کا حکم اور یکم جولائی 2010 سے گورنمنٹ نے سرکاری پنشنروں کو پنشن کے ساتھ 5% میڈیکل دیا تھا جو یہ ٹرسٹ نہیں دے رھا تھا  اس کا دینے کا حکم اگر وہ بھی prayed کیا ھو، بیواؤں کی پنشن میں انکے مرحوم شوھروں کی پنشن کا 75%  انکریز یکم جولائی 2010 سے دینے کا حکم جو یہ ٹرسٹ والے نھیں دے رھے تھے اور بوڑھے پنشنروں  کمیوٹڈ پنشن  کو بحال کرنے کا حکم  ، ان پٹیشنروں کو  جنکو اس کی مطلوبہ عمر کو پہنچے ھوئیے کافی عرصہ گزگیا تھا اور یہ ظالم اور جابر ٹرسٹ والے انکی کمیوٹڈ پنشن بحال نہیں کررھے تھے  ، ان گریڈ 20 سے اور اس سے اوپر کے گریڈ رکھنے والے ریٹائیڑڈ پی ٹی سی ایل آفیسران پٹیشنرس  کو گورنمنٹ کا اعلان کردہ اردلی انکریز الاؤنس ، جو یہ ٹرسٹ والے نھیں دے رھے تھے جان بوجھ کر ، ان سب کو انکی prayer  کے مطابق ادا کرنے کا حکم دیا ۔
میں نے یہ تفصیلی فیصلہ بڑی ھی باریک بینی سے پڑھا اور اس بات سے آشکارا ھوا کے محترم جج صاحب نے  جو یہ ججمنٹ لکھی  اور پی ٹی سی ایل پنشنرس پٹیشنروں کے حق میں مندرجہ بالا احکامات جاری کئے ، انکا محور مندرجہ زیل سپریم کوڑٹ کیسس ھیں یعنی انھوں نے ان کیسس کے فیصلوں کو اپن
ججمنٹ کا بنیاد بنایا۔
‏PTCL vs Masood Bhattie (2016SCMR1362),
‏PTET vs Muhammad Arif ( 2015SCMR1472),
‏Muhammad Riaz vs Federation of Pakistan ( 2015SC1783)
انھوں نے اپنی ججمنٹ کے آغاز میں ھی یہ تحریر کیا کے معزز سپریم کوڑٹ نے ان مندرجہ بالا کیسس میں جو پٹیشنروں کے لئیے قوانین وضح کئیے ھیں، ان پر نہ صرف یہ عدالت بلکے پی ٹی ای ای ٹی اور پی ٹی سی ایل،  آئین کے آڑٹیکل  189 اور آڑٹیکل 190 کے مطابق اس پر عمل کرنے کے  پابند ھیں کے وہ ایسے  تمام ڈیپاڑٹمنٹل ایمپلائیز کو  وھی بینیفٹس دیں جو انھوں نے  ان  جیسے  ڈیپاڑٹمنٹل ایمپلائیز کو دئیے جو
‏PTET vs Muhammad Arif( supra)
اور
‏Muhammad Riaz vs Federation of (supra)  
میں پاڑٹی تھے یعنی جنھوں نے مقدمہ بازی کی تھی ۔ انھوں نے مزید  تحریر کیا  کے یہ پٹیشنرس بھی ویسے ھی ھیں اور انکی وجوھات بھی ویسی ھی ھیں جو ان ڈیپاڑٹمنٹل ایمپلائیز کی تھیں جنکو عدالت نے انکی پٹیشنوں پر انکا مدعا کیا ھوا گورنمنٹ ریلیفس دیا۔ اسلئیے پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل کو بھی یہ ھی ریلیفس انکو دینا چاھئیے اور انسے بغزی مقدمہ بازی نہیں کرنی چاھئیے۔ محترم جج صاحبنے مندرجہ زیل سپریم کوڑٹ  فیصلوں کے ریفرنسس دئیے جسمیں عدالت   نے مقدمہ بازی نہ کرنے والے ایسے سرکاری ملازمین کو  بھی وھی فائدہ پہنچانے کا حکم دیا تھا جو مقدمہ بازی کرنے والے سرکاری ملازم یا  ملازمین کو دیا گیا تھا ۔
‏1.Hameed Akhtar Niazi versus The Secretary Establishment Division (1996 SCMR 1185)
‏2.Wapda Vs Abdul Ghaffar
‏ [2018 SCMR 380]
‏3.Federation of Pakistan Vs Ghulam Mustafa [2013 SCMR 1914]
‏4.Tara Chand Vs Karachi Water Sewerage Board [ 2005 SCMR 499]
‏5. Abdul Hameed Nasir Vs National Bank of Pakistan [2003 SCMR 1030]
‏6.Government of Punjab Vs Samina Perveen[ 2009 SCMR 1]
محترم جج صاحب کے دئیے ھوئیے سپریم کوڑٹ کے مندجہ بالا ریفرنسس کو یہاں   لکھنے کا مقصد میرا ایک یہ بھی ھے، کے پی ٹی ای ٹی کے وکیل نے ، جو یہ انٹرا کوڑٹ اپیلیں دائیر کی  ھیں ان میں اس ایک یہ بڑا موقف یہ لیا گیا کے جج صاحب نے راجہ ریاض کیس Muhammad Riaz vs Federation of Pakistan ( 2015SC1783) کا حوالہ دے کر پٹیشنروں کو وھی ریلیف دیا جیسا سپریم
کو ڑٹ نے  راجہ ریاض کو دیا تھا لیکن ساتھ یہ بھی کہا تھا کے عدالت کے اس حکم کو کسی اور کیس میں مثال نہ بنایا جائیے ۔ مطلب یہ ھوا کے محترم جج صاحب نے یہ اس کیس کی مثال دے کر پٹیشنروں کو فائیدہ پہنچایا  جبکے کے اس کی مثال دینے کی ممانعت  تھی اسلئیے محترم جج صاحب نے عدالت کی حکم عدولی کی  ۔ میں سمجھتا ھوں  پی ٹی ای ٹی کے وکیلوں کا یہ استدلال/ دعوہ  بلکل غلط ھے پہلی بات تو یہ ھے کے محترم جج صاحب جن سپریم کوڑٹ کیسس کے ریفرنسس quote کئیے ھیں انمیں یہ راجہ ریا ض کیس یعنی Muhammad Riaz vs Federation of Pakistan ( 2015SC1783)  شامل ھی نہیں ھے دوسری بات یہ راجہ ریاض کے حق میں آئیے ھوئیے سپریم کوڑٹ کے اس کیس یعنی Muhammad Riaz vs Federation of Pakistan ( 2015SC1783)  کے فیصلے میں یہ شرط کہیں بھی  لکھی ھی نہیں گئی ھے  کے “اس فیصلے کو کسی اور کیس کے لئیے مثال نہ بنایا جائیے “۔ تو پھر محترم جج صاحب کو کیسے معلوم ھوتا کے اسکا ریفرنس دینا ممنوع ھے ۔ محترم جج صاحب نے اس کیس دوسرے ایسے کیسس ( اوپر زکر کرچکا ھوں ) کے ساتھ شامل کرکے صرف یہ بات لکھی ھے ان میں دئیے گئیے فیصلوں پر عمل درآمد کرانے کی زمہ داری،  آئین کے آڑٹیکل 189 کے تحت صرف عدالت کی ھی نھیں بلکے آئین کے آڑٹیکل 190 کے تحت پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کی بھی ھے ۔ جس سپریم  کوڑٹ کے فیصلے مںں یہ بات لکھی گئی تھی کے “مثال نہ بنایا” جائیے وہ  تو راجہ ریاض کے سپریم کوڑٹ میں دائیر کردہ توھین عدالت کا کیس تھا جسکا نمبر Crl. org 63/2015 تھا  اس میں یہ سب کچھ لکھا تھا کجا 5 جولائی 2015 والے مزکورہ راجہ ریاض کے کیس کے فیصلےمیں ۔   توھین عدالت کا  یہ فیصلہ  27 اکتوبر 2017 کو سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ نے دیا تھا ۔ اور یہ فیصلہ عدالت کا بزات خود نھیں تھا اگر ھوتا تو عدالت کو اسکی پہلے باقاعدہ توجیہہ دینی پڑتی کے کیوں مثال نہ بنایا جائیے ۔  وہ تو جب انکے وکیل شاھد انور باجواہ کے راجہ ریاض کو گورنمنٹ والی تنخواہ اور پنشن ادا کرنے پر رضامندی ظاھر کی اور یہ کہا کے اسکو کسی اور کیس میں مثال نہ بنایا جائیے ، تو عدالت انکی یہ ھی بات تحریر میں لاتے ھوئیے اور اپنی طرف سے کوئی آڑڈڑ پاس کئیے ھوئیے ، وہ توھین عدالت کی درخواست نمٹادی یعنی disposed  off کردی
پی ٹی سی ٹی کے وکیل کو اگر ایسا ریفرنس دینا ھی تھا تو یہ 27 اکتوبر 2017 کا توھین عدالت والا ریفرنس دینا چاھئیے تھا وہ بھی آریجنل پٹیشن کے جواب میں مگر نہ ھی انھوں نے اپنے جواب میں اس کا زکر کیا   اور نہ ھی arguments کے دوران اسکا زکر کیا ۔ اگر وہ ایسا کرتے تو یقینن محترم جج صاحب اپنی اس  ججمنٹ میں  اسکا زکر ضرور  کرتے اور جواب بھی دیتے ۔ اب انٹرا کوڑٹ میں یہ سب کچھ
انکا اب یہ لکھنا چہہ معنی دارد؟؟؟
راجہ ریاض کے اس مزکورہ  ریفرنس یعنی
‏Muhammad Riaz vs Federation of Pakistan ( 2015SC1783)
کی بنیاد پر تو فیصلہ میں محترم جسٹس شوکت صدیقی صاحب ، سابق جج اسلام ھائی کوڑٹ نے 18 جنوری 2017 کو “ نورولی اور دیگران کی رٹ پٹیشن نمبر1875/2016 ہر دیا تھا  [ یہ کل چار پٹیشنر تھے اور انکا تعلق کے پی کے پی ٹی سی ایل سے تھا ۔ انھوں نے گورنمنٹ والی تنخواہ اور سکیلز کا مدعا کیا تھا جسطرح راجہ ریاض نے کیا تھا ] اور انکو پندرہ دن کے اندر ان پٹیشنروں کو گورنمنٹ کے اسکیل اور تنخواہ کے بقایا جات دینے کا حکم دیا  ۔پی ٹی سی ایل نے اسکے خلاف بھی انٹرا کوڑٹ اپیل ICA-34/2017 دائیر کی تھی جو بھی 17 دسمبر 2018 کو ڈسمس کردی گئی ۔ اب سنا ھے انھوں نے سپریم کوڑٹ میں اپیل کر رکھی ھے ۔وہاں سے بھی ڈسمس ھوجائیگی اس میں کسی کو شک نہیں ھونا چاھئیے ۔
تو یہ جو انٹرا کوڑٹ اپیلیں انھوں نے اس 3 مارچ 2020 تقریبن 35 پٹیشنوں میں انکے پٹیشنرس کے حق میں آئیے ھوئیے فیصلے کے خلاف کی ھیں اور سب کو ایک ھی لاٹھی سے ھانک رھے ھیں ان سے انکو کچھ نہیں ملنے والا بس انکے وکیل شاھد انور باجوہ کو بہت کچھ ملے گا جو  اسپر کڑوڑوں روپے کی فیس وصول  کرلیں گے ۔ جو پی ٹی ای ٹی  پی ٹی سی ایل پنشنرس کے “ پنشن فنڈ “ سے ادا کی جائیگی ۔  پنشن فنڈ  سے ، پنشن دینے کے علاوہ کسی اور مد میں رقم خرچ کرنا غیر قانونی ھے  یہ ٹرسٹ والے بہت ھی ڈھیٹ واقع ھوۓ ھیں انھو نے اس پنشن فنڈ سے اپنے غلط کاموں کا دفاع کرنے کیلئے وکیلوں کی فیسوں کی مد نہ جانے کتنے ارب یا کڑوڑ روپے خرچ کئیے ھیں لیکن آج تک انھوں کسی بھی کیس میں کامیابی نہیں ھوئی ھے۔  انکے وکیلوں نے عدالتوں میں ایڑی چوٹی کا زور لگادیا کے کسی طرح سپریم کوڑٹ کے مسعود بھٹی کیس میں تین رکنی بینچ  7 اکتوبر 2011 کے اس فیصلے کو کسی نہ کسی طرح ختم کرالیا جائیے کے کمپنی میں ٹرانسفڑڈ ھونے والے کارپوریشن کے ملازمین ، سرکاری ملازم نھیں ھیں اور کمپنی کے ملازم ھیں اور ان ہر صرف ماسٹر اینڈ سرونٹ کا ھی قانون ھی لاگو ھوتا ۔ مگر ایسا نہیں ھوا۔ اور ھو بھی کیسے سکتا اس تین رکنی بینچ کے فیصلے کو مزید پانچ رکنی بینچ نے 19 فروری 2016 مہر تصدیق مزید ثبت کردی اور انکی رویو پٹیشن ڈسمس کردی اور یہ  فیصلہ فائینل ھوگیا اور قانونی شکل اختیار کرگیا ۔ اس فیصلےسے ایک بات تو عدالت نے واضح کردی ھے کے یہ کمپنی میں کام کرنے والے ٹی اینڈ ٹی اور کارپوریشن کے ملازم سول سرونٹ نہیں کہلائیں گے بلکے ان پر سول سرونٹ ایکٹ 1973 سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشن میں سیکشن 3 سے سیکشن 22 میں دئیے گئیے ھوئیے قوانین کا اطلاق ھوگا اور اسکی پی ٹی سی ایل کی طرف سے خلاف ورزی پر ، ایسے ملازمین کو یہ حق ھوگا کے ھائی کوڑٹوں سے آئین کے آڑٹیکل 199 کی رو سے رجوع کریں ۔  محترم جج گل اورنگ زیب صاحب نے اپنے فیصلے اس بات کو  تحریر کیا کے پی ٹی ای ٹی کے وکیل کا یہ بار بار اصرار کرنا کے چونکے یہ پٹیشنرس سول سرونٹ نھیں ھیں تو انپر کمپنی میں ماسٹر اینڈ سرونٹ کا ھی اطلاق ھوگا ۔ جس سے محترم جج صاحب نے بلکل اتفاق نھیں کیا بلکے اس  19 فروری 2016 کے پانچ رکنی بینچ کے کیس  PTCL vs Masood Bhattie (2016SCMR1362), فیصلے کا ریفرنس دے کر لکھا ، کے یہ پٹیشنرس تو سول سرونٹ نہیں مگر یہ سول سرونٹ کے بینیفٹس کا حق رکھتے ھیں
انکو اپنی ان انٹرا کوڑٹس اپیلوں پر کوئی بھی سٹے آڑڈڑ نہیں ملا جسکے یہ بیحد خواہاں تھے کیونکے کا یہ ھی انکی موقع واردات ھوتی ھی کے کسی طرح سٹے لے لیا جائیے اور پھر اسکے فیصلے آنے میں مختلف حیلے پہانے سے تاخیر پہ تاخیر کی جائیے اور جب فیصلہ آئیے ، جو انکے حق میں کبھی نہیں آتا پھر یہ اپیلیں کرنے اور اس میں سٹے پر سٹے اور تاخیر پر تاخیر مختلف بہانوں سے کرتے رھتے ۔ 21 دسمبر 2011 کو جو پہلا فیصلہ  جو محمد عارف اور دیگران کی پٹیشن WP-148/2011  پر انکے حق میں اسلام آباد ھائی کوڑٹ نے دیا تھا ، مارچ 2018 میں جاکر کہیں انھوں نے اس فیصلے پر عمل کیا وہ بھی partially . کس طرح یہ کیس چلا اور کیا کیا اور کیسے کیسے اس میں تاخیر ھوتی رھی ، یہ سب آپ لوگوں کے سامنے ھے ۔ لیکن انشاللہ اب ھم ایسا نہیں ھونے دیں گے ۔ اگر انھوں نے مقررہ وقت تک عدالتی حکم مطابق پیمنٹس وغیرہ نھیں کیں تو انکے خلاف فورن توھین عدالت کے کیسس دائر کئیے جائیں گے اور پوری کوشش کی جائیگی تمام پی ٹی سی ایل پنشنروں کو انکا  جائیز ملُ جائی  مزید کسی litigation میں  پڑے ھوئیے انشاللہ ۔ بس اللہ سے دعا کریں ۔
شکریہ
واسلام
 (محمد طارق اظہر)
راولپنڈی
تکمیل مضمون
بتاریخ 7 مئی 2020
بروز جمعرات شب 2:45

Comments

Popular posts from this blog

.....آہ ماں۔

Article-173 Part-2 [Draft for non VSS-2008 optees PTCL retired employees]

‏Article-99[Regarding clerification about the registration of the Ex-PTC employees of any capacity with EOBI by PTCL]