Article-153[Regarding controversial order in respect of VSS optees retired , of IHC single bench of dated 14th October 2021]
Article-153
نوٹ :۔ 2008 اور 2012 میں وی ایس ایس آپٹ کرکے ریٹائیڑڈ ھونے والے ، وہ پی ٹی سی ایل ملازمین خصوصی طور پر متوجہ ھوں جو یکم جنوری 1996 کو کاپوریشن سے ٹرانسفڑڈ ھوکر کمپنی میں آئیے تھے۔
موضوع:- 14 اکتوبر 2021 کو اسلام آباد ھائی کوڑٹ کے سنگل بینچ کے معزز جج جسٹس بابر ستار صاحب نے پٹیشنر وسیم احمد کی رٹ پٹیشن نمبر WP-3757/2020 پر فیصلہ دیتے ھوئیے اس میں کٹیگری 3 می شامل وی ایس ایس 2007 آپٹ کرکے ریٹائیڑڈ ھونے والے پی ٹی سی ایل ملازمین کی رٹ پٹیشنیں، ناقابل عمل non maintainable قراردے کر مسترد کردیں ۔جبکے اسی اسلام آباد ھائیکوڑٹ کے سنگل بینچ کے سابقہ جج معزز چیف جسٹس اقبال رحیم صاحب نے , 21 دسمبر 2011 کو محمد عارف و دیگران کی رٹ پٹیشن نمبر WP-148/2011 پر فیصلہ دیتے ھوئیے اس میں شامل اسی طرح کے و ی ایس ایس آپٹ 2007 کرکے ریٹائیڑڈ ھونے والے پی ٹی سی ایل ریٹئیڑڈ ملازمین پٹیشنرز کی تین رٹ پٹیشنیں نہ صرف قابل عمل قرار دیں اور انکی سماعت کی ، بلکے انکا ڈیمانڈ کیا ھوا ریلیف ، یعنی گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریزز یکم جولائی 2010 سے بمعہ بقایا جات وغیرہ ادا کرنے کا حکم بھی دیا. جسکے خلاف پی اٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کی انٹرا کوڑٹ اپیلیں 17 مارچ 2014 کو پہلے مسترد ھوئیں اور بعد میں اسکے خلاف سپریم کوڑٹ میں اپیلیں 12 جون 2015 کو مسترد ھوئیں اور پھر انکی اسکے رویو پٹیشنیں بھی 17 مئی 2017 کو مسترد ھوگئیں . اسلئیے اسلام ھائی کوڑٹ کے سنگل بینچ کا 14 اکتوبر 2021 کا یہ فیصلہ ایسے ھی پی ٹی سی ایل پنشنرز پٹیشنرز کے خلاف جو وی ایس ایس -2007آپٹ کرکے ریٹائیڑڈ ھوئیے تھے، بادئیانظر میں سراسر غلط ھے کیونکے اس میں بہت قانونی سقم موجود ھے
عزیز پی ٹی سی ایل ساتھیو
اسلام و علیکم
جیسا کے آپ لوگ کے علم میں آگیا ھوگا 14 اکتوبر 2021 کو اسلام آباد ھائی کوڑٹ کے سنگل بینچ کے جج جناب محترم بابر ستار نے نارملی یعنی ساٹھ سال کی عمر میں ریٹائیڑڈ ھونے والے پی ٹی سی ایل پنشنرس پٹیشنرز کی پٹیشنیں منظور کیں اور انکو کلیم کیا ھوا گورمنٹ کا اعلان کردہ پنشن انکریز دینے کا حکم دیا جبکے وی ایس ایس آپٹ کرکے ریٹائیڑڈ ھونے والے پی ٹی سی ایل پنشنروں کی اپیلیں خارج کردیں ۔ انکا یہ حکم وی ایس ایس آپٹ کرکے ریٹائیڑڈ ھونے والے پی ٹی سی ایل پنشنرز پٹیشنروں کی پٹیشنیں نا قابل عمل قرار دے خارج کرنے کا فیصلہ صریحن نہ صرف سپریم کوڑٹ آف پاکستان کے 12 جون 2015 کے فیصلے کے خلاف ھے بلکے آئین پاکستان کے آڑٹیکل 4 کے بھی خلاف ھے جو ھر ایک کے ساتھ یکساں قانونی سلوک کا حکم دیتا ھے ۔انھیں سب چیزوں کا احاطہ کرکے میں نے اس آڑٹیکل میں قانون اور عدالتی فیصلوں کو مد نظر رکھتےکے یہ ثابت کیا ھے کے معزز جج کا ان وی ایس آپٹیز پٹیشنروں کی پٹیشنیں ناقابل عمل قرار دے خارج کرنا سراسر غلط ھے ۔ اسکے ثبوت کے لئے میں نے کافی حقائق بمعہ ریفرنسس بمعہ ڈیکومنٹس بیان کئیے اسلئیے یہ آڑٹیکل کچھ طویل ھوگیا ھے ۔ آپ پڑھنے والوں سے التماس ھے اس آڑٹیکل کی طوالت سے نہ گھبرائیں اور اسکو بڑے تحمل اور غور سے پڑھیں ۔اس میں آپکو بیحد اھم معلومات حاصل ھونگی ۔ یہ نہ ھو اسکی طوالت کی وجہ سے اسکو پڑھے بغیر یا درمیان میں پڑھکر چھوڑدیں۔ شکریہ ۔
مجھے 15 اکتوبر 2021 کو واٹس ایپس ان کیسس کے فیصلے کی مکمل پی ڈی ایف کاپی ملی تھی اسکے کل 46 صفحات ھیں ۔ اس پر فیصلہ ھائیکوڑٹ کے سنگل بینچ کے معزز نئیے جج جناب جسٹس بابر ستار صاحب نے لکھا جو اسلام آباد ھائی کوڑٹ میں کچھ عرصے پہلے ھی جج مقرر ھوئیے ھیں انھوں نے اس فیصلے تقریبن وھی طریقہ اختیار کیا جو 3 مارچ 2020 میں دئیے گئیے ھوئیےاسلام ھائی کوڑٹ کے سنگل بینچ کے جج میاں گل حسن
اورنگ زیب نے اختیار کیا تھا ۔ جناب جسٹس گل حسن اورنگ زیب نے رسول خان اور دیگران کی رٹ پٹیشن نمبر 523/2012 کے ساتھ 28 رٹ پٹیشنیں کلب کردی تھیں [ اس میں میری بھی پٹیشن نمبر 4588/2018 بمعہ 29 پٹیشران ساتھیوں کےشامل تھی جو سیریل نمبر 22 پر کلب تھی ]۔
محترم جج صاحب نے رسول خان و دیگران کی اس پٹیشن یعنی 523/2012 پر تفصیلی فیصلے دیتے صرف ان پی ٹی سی ایل پنشنرز پٹیشنرز کی پٹیشنیں قبول کیں اور انکو انکا ڈیمانڈ کیا ھوا ریلیف دیا جو دسمبر 1991 میں پی ٹی سی ایکٹ 1991 کے نفاز سے پہلے ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی ھوئیے تھے اور پھر کارپوریشن یا کمپنی سے نارملی ریٹائیڑڈ ھوئیے تھے ۔ اور ان تمام وی ایس آپٹ کرکے ریٹائیڑڈ ھونے والے پی ٹی سی ایل پنشنروں کی پٹیشنیں خارج کردیں تھیں جو وی ایس 2007 کو آپٹ کرکے مارچ 2008 تک ریٹائیڑڈ ھوئیے تھے چاھے وہ دسمبر 1991 میں کاپوریشن کی تشکیل سے پہلے پ ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی کیوں نہ ھوئیے تھے
[یہ فیصلہ 2021PLC(cs)14 میں درج ھے اور گوگل نیٹ پر بھی موجود ھے۔ آپ لوگ پڑھ سکتے ھیں .میری رٹ پٹیشن نمر 4588/2018 میں ، میرے سمیت 20 پٹیشنرز نارملی ریٹائیڑڈ تھے یعنی وہ جو ساٹھ سال کی عمر پر پہنچنے کی پر ریٹائیڑڈ ھوئیے تھے۔ اور باقی 10 وہ پنشنرز تھے جنھوں نے وی ایس ایس 2007 آپٹ کیا تھا اور مارچ 2008 میں ریٹائیڑڈ ھوگئیے تھے۔ جب ان کیسسز کی 14 فروری 2020 کو آخری شنوائی ھورھی تھی ، تو جج صاحب نے متعلقہ پٹیشنروں کے وکلاء کو یہ حکم دیا تھا کے وہ ان پٹیشنوں میں سے وی ایس ایس آپٹ کرکے ریٹائیڑڈ ھونے والے تمام پی ٹی سی ایل پنشنروں کی پٹیشنیں withdraw کر لیں یعنی واپس لے لیں ورنہ وہ ابھی ان کیسس فیصلہ نہیں کریں گے بلکے گرمیوں کی عدالت کی چھٹیوں کے بعد سوچیں گے۔ تو میرے وکیل نے مجھ سے پوچھ کر رٹ پٹیشن 4588/2018 میں شامل 10 ایسے وی ایس 2007 آپٹ کرکے ریٹائیڑڈ ھونے والے پٹیشنروں پٹیشنیں واپس لے لیں ۔ اس سے یہ صاف ظاھر تھا کے معزز جج صاحب وی ایس ایس آپٹ کرکے ریٹائیڑڈ ھونے والے پی ٹی سی ایل پنشنروں کی اپیلیں ڈسمس کرنا چاھتے تھے , پی ٹی سی ایل کے وکیل شاھد انور باجواہ کی ایما پر کیونکے انکے پاس اسکو ڈسمس کرنے کا اور کوئی بھی قانونی جواز نہیں تھا ] ۔
معزز جج جناب جسٹس بابر ستار صاحب نے بھی اسی طرح وسیم احمد کی رٹ پٹیشن نمبر 3757/2020 پر تفصیلی تحریر کیا ۔ انھوں اسکے ساتھ تقریبن ایسی 76 پٹیشنوں کو تین کیٹیگریز میں تقسیم کیا
1) کٹیگری “1 “ میں جو رٹ پٹیشنیں وہ ان پی ٹی سی ایل پنشنرز پٹیشنرز کی تھیں جو ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی ھوئیے تھے اور نارملی ریٹائیڑڈ ھوئیے
2) کٹیگری “2 “ انکی تھیں جو پی ٹی سی میں بھرتی ھوئیے تھے اور نارملی ریٹائیڑڈ ھوئیے تھے ۔ اور
3) کٹیگری “3 “ میں انکی پی ٹی سی ایل پنشنرز کی تھیں وہ چاھے وہ ٹی اینڈ میں یا پی ٹی سی میں بھرتی ھوئیے ھو ئیے ھوں مگر وی ایس ایس آپٹ کرنے پیکیجز کی ٹرمز اینڈ کنڈیشنس قبول کرکے ریٹائیڑڈ ھوئیے تھے ۔ اس کٹیگری 3 میں کل ایسی 5 رٹ پٹیشنیں شامل تھیں ۔
کٹیگری 1 اور کٹیگری 2 میں کل ملا کر 71 رٹ پٹیشنیں تھیں ۔ معزز سنگل بینچ کے جج نے کٹیگری 1 اور 2 میں شامل رٹ پٹیشنوں کے پی ٹی سی ایل پٹیشنرز کی پٹیشنیں تو قبول کرلیں اور انکو انکاڈیمناڈ کیا ھوا کلیم ادا کرنے کا حکم دے دیا لیکن کٹیگری 3 شامل وی ایس ایس آپٹیز کی پٹیشنیں ناقابل عمل ( non maintainable) قرار دے کر مسترد کردیں ۔ انکا یہ وی ایس ایس آپٹیز ریٹائریز پٹیشنرز کی پٹیشنوں کو ناقابل عمل یعنی non maintainable قرار دے کر ڈسمس کرنے کا فیصلہ، معزز سپریم کوڑٹ کے اس تاریخی فیصلے کے بلکل نفی ھے جو معزز سپریم کوڑٹ کے تین رکنی کے بینچ نے ، جسکے سربراہ سابق چیف جسٹس ایس اے خواجہ تھے ، 7 اکتوبر 2011 کو مسعود بھٹی ، سید دل آویز اور نصیرالدین غوری کی اپیلوں پر دیا تھا ۔اور انکی رٹ پٹیشنوں کے خارج کرنے کے سندھ ھائی کوڑٹ کے دو رکنی بینچ کے 3 جون 2010 کے فیصلے کو کلعدم قرار دے دیا تھا
[ یاد رھے سندھ ھائی کوڑٹ کے دو رکنی بینچ کے ممبرز جج جناب جسٹس گلزار احمد صاحب موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان اور جج جسٹس شاھد انور باجوہ موجودہ وکیل پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی تھے۔ جنھوں نے فیصلہ انھوں نے لکھا تھا اور توثیق جناب جسٹس گلزار احمد نے کی تھی ] ۔ سپریم کوڑٹ کے اس فیصلے میں انھوں نے پہلے پی ٹی سی ایکٹ 1991 کی کلاز (1)9 اور پی ٹی ( ری آرگنائیزیشن ) ایکٹ 1996 کی کلازز 35 اور 36 تشریح کرکے یہ قرار دیا کے یکم جنوری 1996 کو کارپوریشن سے کمپنی میں آنے والے ان اپیلنٹس پر گورمنٹ کے سرکاری قوانین کا اطلاق ھوگا جو گورمنٹ نے سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے میں دئیے گئیے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس کے سیکشن 3 سے لیکر سیکشن 22 میں دئیے گئیے قوانین کے مطابق کے بنائیے ھیں ، اسلئے انکے ان سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس میں نہ تو پی ٹی سی ایل اور نہ ھی حکومت ایسی کوئی منفی تبدیلی کرسکتی تھی جن سے انکو فائیدہ نہ ھو ۔ اور اگر پی ٹی سی ایل یا پی ٹی ای ٹی کی طرف اسکی کی خلاف ورزی ھوتی ھے ، تو ایسے پی ٹی سی ایل ملازمین کو اختیار ھے کے وہ ھائی کوڑٹوں سے آئین کے آڑٹیکل 199 کے تحت رجوع کریں ۔ یہ تاریخی فیصلہ 2012SCMR152 میں درج ھے ۔ اس فیصلہ کے خلاف
پی ٹی سی ایل کی رویو پٹیشن بھی سپریم کوڑٹ کے پانچ رکنی بینچ نے 19 فروری 2016 کو مسترد کردی تھی جو 2016SCMR1362 میں درج ھے ۔اور اپنے اس فیصلے میں اپیلنٹ مسعود بھٹی سابق ڈائیریکٹر (بی -۱۹ )
پی ٹی سی ایل کراچی ، جو مارچ 2008 میں وی ایس ایس 2007 آپٹ کرکے ریٹائڑڈ ھوئیے تھے ، انکو یہ باور کرایا کے وہ اپنے grievances دور کرنے کے لئیے سندھ ھائی کوڑٹ سے رجوع کریں ۔ وہ یہ سمجھیں انکی جو پٹیشن D-520/2009 سندھ ھائی کوڑٹ کے دو رکنی بینچ نے non maintainable قرار دے کر خارج کردی تھی ، وہ ابھی تک وھیں پینڈنگ پڑی ھوئی ھے۔ یہ بات آپ سبکو معلوم ھونی چاھئیے کے صرف سول سرونٹس گورمنٹ آف پاکستان ، جن پر سول سرونٹ ایکٹ 1973 کا اطلاق ھوتا ھے صرف انکو اس کا آئنی اختیار حاصل ھے کے وہ اپنے grievances دور کرنے آئین کے آڑٹیکل 199 کے تحت ھائی کوڑٹوں سے رجوع کرسکتے ھیں ۔ کسی بھی کمپنی ، کاپوریشن یا پرائیویٹ ادارے کے ملازمین کو یہ اختیار حاصل نھیں ھوتا۔ اگرچہ اپیلنٹ مسعود بھٹی سول سرونٹ تو نھیں تھے اور کمپنی کے ملازم تھے مگر انکو اسوقت پی ٹی سی ایکٹ 1991 کی کلاز (1)9 اور پی ٹی ( ری آرگنائیزیشن ) ایکٹ 1996 کی کلازز 35 اور 36 تحت سول سرونٹ ایکٹ 1973 کا تحفظ حاصل تھا جسکی تشریح سپریم کوڑٹ اپنے 7 اکتوبر 2011 کے فیصلے میں کردی تھی جو اوپر بیان کیا جا چکا ھے ۔تو ایسے تمام ریٹائیڑڈ پی ٹی سی ایل ملازمین جو ٹی اینڈ ٹی سے کارپوریشن اور کمپنی میں ٹرانسفڑڈ ھو کر ریٹائیڑد ھوئے ھوں اور انکی ریٹائیرمنٹ کسی وجہ سے کیوں ھی نہ ھو انکو یہ آئینی تحفظ حاصل ھے اور کسی بھی ھائی کوڑٹ کو یہ اختیار نھیں کے وہ انکی رٹ پٹیشنیں no maintainable یعنی ناقابل عمل قرار دے کر خارج کردے ۔
گورمنٹ نے سال 2011-2010 میں یکم جولائی 2010 اپنے سول سرونٹ پنشنروں کو 15% پنشن انکریز دینے کا اعلان کیا تھا جبکے پی ٹی ای ٹی کے بوڑڈ آف ٹرسٹیز نے 8% منظور کیا جسکا انکو کوئی بھی قانونی اختیار نہیں تھا ۔اسکے خلاف اسلام آباد ھائی کوڑٹ میں پہلی رٹ پٹیشن جنوری 2011 میں دائیر کی گئی جسکا نمبر WP-148/2011 تھا ۔ یہ ان 34 پی ٹی سی ایل پنشنران کی تھیں جو ساٹھ سال ریٹائیرمنٹ کی عمر میں پہنچ کر ریٹائیڑڈ ھوئیے تھے ۔ جو ریٹائیڑڈ ڈائیریکٹر جنرل ڈیویلوپمنٹ جناب محمد عارف صاحب اپنے ایسے 33 ساتھیوں پی ٹی سی ایل آفیسران (گریڈ 19 سے گریڈ 21 تک کے) کے ساتھ مل کر دائر کی تھی ۔یہ پٹیشن انھی کے نام و دیگران بنام فیڈریشن آف پاکستان و دیگران کے نام سے کہلاتی ھے ۔ پھر اسی سال 2011 میں وی ایس 2007 آپٹیز ریٹائڑڈ پی ٹی سی ایل پنشنرز نے بھی تین رٹ پٹیشنیں داخل کیں جو یہ تھیں ۱) رٹ پٹیشن نمبر WP-522/2011 ٹائیٹل فدا حسین و دیگران بنام فیڈریشن آف پاکستان و دیگران ۲) رٹ پٹیشن نمبر WP-2372/2011 ٹائیٹل محمد شاھد انور و دیگران بنام فیڈریشن آف پاکستان و دیگران اور ۳) رٹ پٹیشن نمبر WP-984/2011 ٹائیٹل فضل مالک و دیگران بنام چئیرمین پی ٹی سی ایل و دیگران شامل تھیں ۔اسوقت کے چیف جسٹس اسلام آباد ھائی کوڑٹ معزز جسٹس اقبال رحیم صاحب بطور سنگل بینچ ان تما م رٹ پٹیشنوں کی سماعت کی۔ ان رٹ پٹیشنوں میں پٹیشنروں نے گورمنٹ کی اعلان کردہ اپنے سول ملازم پنشنروں دینے والی 15 % یکم جولائی 2010 سے دینے کی استدعا کی تھی کی تھی اس سے پہلے جو پنشن انکو ماھانہ دی جارھی تھی وہ گورمنٹ کے اعلان کردہ سالانہ پنشن انکریز کے مطابق ھی دی جارھی تھی جو انکو 2010-2009 تک دی گئی تھی اور جسکو پی ٹی ای ٹی کے بوڑڈ آف ٹرسٹیز نے اپنے فرائیض اور اختیارات کی خلاف ورزی کرتے ھوئیے 2011-2010 کا سالانہ پنشن انکریز یکم جولائی 2010 سے پی ٹی سی ایل کی ایما پر غیر قانونی طور گورمنٹ کی اعلان کردہ 15% پنشن کے بجائیے 8% کردی تھی ۔ ان رٹ پٹیشنوں کے جواب میں ریسپونڈنٹس یعنی پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی نے وی ایس ایس لے کر ریٹائیڑڈ ھونے پی ٹی سی ایل پنشنرز پٹیشنرز کو یہ گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریز دینے کی سخت مخالفت کی جن کو وہ پہلے ھی گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریزز دیتے چلے آرھے تھے [یاد رھے ایسے تمام وی ایس ایس آپٹ کرنے والے پی ٹی سی ایل ملازمین 31 مارچ 2008 تک premature ریٹائڑڈ کر دئیے گئیے تھے اور انکو 2009-2008 اور 2010-2009 میں گورمنٹ کی ھی اعلان کردہ پنشن انکریزز یکم جولائی 2008 اور یکم جولائی 2009 بالترتیب 20% اور 15% ھی اد کی گئی تھی ] ریسپونڈنٹس پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی نے عدالت کو بتایا تھا کے وی ایس ایس 2007 آپٹ والے 29783 پی ٹی سی ایل ملازمین نے premature retirement لی تھی ۔ اور اگر انکو یہ گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریز دینے پڑتے ھیں تو انکو ایک بہت بڑی اماؤنٹ تقریبن 46 بلین روپے کی رقم ادا کرنے ھونگے جو کمپنی ادا نہیں کرسکتی کیونکے اتنی بڑی رقم ادا کرنے کی وجہ سے کمپنی دیوالیہ ھو جائیگی۔ لیکن عدالت نے انکا یہ عزر مسترد کردیا اور یہ واضح کردیا کے اگر کمپنی دیوالیہ ھوتی ھے تو گورمنٹ کو یہ رقم ادا کرنی پڑے گی ۔ ساتھ عدالت نے پی ٹی ای ٹی کے بوڑڈ آف ٹرسٹیز کو تنبیہ کی کے وہ کمپنی کے مفاد میں کام کرنے سے باز رھے ۔ اسکا یہ فرض ھے وہ بغیر کسی حمایت خوف و خطر اور اقرباپروری (nepotism) کے قانون کے مطابق کام کرے . [ یہ پڑھئیے اس کیس کے فیصلے کے پیراز نمبرز 19 اور 26 پر ۔ اس کیس کا فیصلہ بتاریخ 21 دسمبر 2011 محمد عارف صاحب کی رٹ پٹیشن نمبر WP-148/2011 پر لکھا گیا ھے ۔ کاپیز پیسٹڈ]۔
21 دسمبر 2011 کو اسلام آباد ھائی کوڑٹ کے سنگل بینچ کے معزز جج سابقہ چیف جسٹس اقبال رحیم صاحب نے ان رٹ پٹیشنوں پر فیصلہ صادر فرماتے ھوئیے وی ایس ایس آپٹ کرنیوالوں کی پٹیشنیں non maintainable قرار دے کر ڈسمس نھیں کی تھیں بلکے انھیں قبول کرکے ، ریسپونڈنٹس کو ڈائیریکٹ کیا کے ان تمام پٹیشنروں کو گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریزز یکم جولائی 2010 سے بمعہ بقایا جات وغیرہ کے ساتھ ادا کی جائیں جیسا کے اوپر بتایا جاچکا ھے۔ پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی نے الگ الگ ان چار رٹ پٹیشنوں [ایک رٹ پٹیشن محمد عارف صاحب کی WP-148/2011 اور تین وی ایس ایس -2008 والوں کی یعنی پہلی WP-522/2011 دوسری WP-984/2011 اور تیسری WP-2372/2011] پر دئیے گئیے فیصلے کے خلاف کل 8 انٹرا کوڑٹ اپیلیں دائر کیں ۔ جسکو اسلام آباد ھائی کوڑٹ کے ڈبل بینچ نے 14 مارچ 2014 کو with cost مسترد کردیں ۔ اس ڈبل بینچ کے جج ممبرز اسوقت کے اسلام آباد ھائی کوڑٹ کے معزز ججز جسٹس ریاض احمد خان اور جسٹس نورالحق این قریشی تھے۔ انھوں نے فاضل ملک اور دیگران کے خلاف پی ٹی سی ایل کی انٹرا کوڑٹ اپیل نمبر ICA NO 08 of 2012 پر وہ فیصلہ لکھا تھا [ میں نے اس فیصلے کے پہلے دو صفحات اور آخری صفحے کی کاپیاں نیچے پیسٹ کردیں ھیں ۔ اس سے آپ کو معلوم ھو جائیے گا آٹھ انٹرا کوڑٹ اپیلوں کے نمبرز کیا تھے اور کیا فیصلہ تھا ] ۔ ان انٹرا کوڑٹ اپیلوں کی پیروی کے لئیے پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی نامور وکیل اعتزاز احسن ایڈوکیٹ کو ڈیڑھ کڑوڑ کی فیس پر انگیج کیا ،اور جو دوسرے وکلا۶ بھی انکی طرف سے تھے جس میں سے ایک اور مشہور وکیل نعیم بخاری ایڈوکیٹ بھی تھے ۔ پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای انکے اپنی یہ انٹرا کوڑٹ اپیلیں مسترد ھونے خلاف سپریم کوڑ ٹ میں اپیلیں داخل کردیں ۔ سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ جسکے سربراہ سابق چیف جسٹس ناصرالملک تھے اور دیگران ممبران میں جسٹس گلزار احمد اور جسٹس مشیر عالم صاحب تھے، اسکی سماعت کی اس بینچ نے اسکے ساتھ اور اسطرح کی
پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کی اور اپیلیں جو پشاور ھائی کوڑٹ کے ڈبل بینچ نے مرحوم یوسف آفریدی (نارملی ریٹائیڑڈ جنرل منیجر پی ٹی سی ایل) اور صادق علی اور دیگران ( وی ایس ایس 2008 آپٹیز ریٹائڑی) حق میں دئیے گئیے فیصلے کے خلاف دائیر کی تھیں شامل کرلیں تھیں ۔[ مرحوم یوسف آفریدی صاحب ریٹائڑڈ جنرل منیجر B-20 جو عرصہ دراز سے زیر عتاب یعنی ویٹنگ پر تھے، اور غالبن اگست 2012 میں اسی حالت میں ریٹائیڑڈ ھوئیے تھے ۔ انھوں نے پشاور ھائی کوڑٹ میں رٹ پٹیشن نمبر 2657/2012 دائیر کی جسمیں پی ٹی ای ٹی کی طرف طرف سے 8 % پنشن انکریز دینے کے خلاف جو گورمنٹ کے اعلان کردہ انکریز سے کم تھی اسکو چیلنج کیا اور اسکے ساتھ پی ٹی ای ٹی نیو پنشن رولز 2012 جو 22 مئی 2012 کو جاری کیا گیا تھا ، اسکو بھی چیلنج کیا گیا تھا۔ کیونکے یہ پی ای ٹی نیو پنشن رولز 2012 ، گورمنٹ کے ان پنشن رولز کے بلکل خلاف تھے جو ریٹائیڑڈ سول سرونٹ پر لاگو ھوتے ھیں - صادق علی سابقہ ٹیلی کام ٹیکنیشین جو وی ایس ایس 2008 آپٹ کرکے مارچ 2008 میں ریٹائیڑڈ ھوئیے تھے انھوں نے پہلے ھی سے گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن سے کم یعنی8% پنشن انکریز ز
پی ٹی ای ٹی کی جانب سے دینے کے خلاف رٹ پٹیشن نمبر 762/2011 سال 2011 میں دائیر کر رکھی تھی ۔ پشاور ھائی کوڑٹ کے ڈبل بینچ ممبرز معززججز سابقہ چیف جسٹس پشاور ھائی کوڑٹ جناب مظہر عالم خان اور جسٹس نثار احمد خان نے مرحوم یوسف آفریدی کی رٹ پٹیشن نمبر 2657/2012 کے ساتھ صادق علی کے رٹ پٹیشن نمبر 762/2011 بھی شامل کرلی تھی۔ 3 جولائی 2014 کو مرحوم یوسف آفریدی کی رٹ پٹیشن نمبر 2657/2012 پر فیصلہ دیا اور اسے قبول کرتے ھوئی پٹیشنر مرحوم یوسف آفریدی کو گورمنٹ کی اعلان کردہ سالان پنشن انکریز دینے کا حکم دیا اور پی ٹی ای ٹی کے نیو پنشن رولز 2012 کا اطلاق صرف پی ٹی سی ایل کے ان ملازمین پر ھونے کا حکم دیا جنھوں نے یکم جنوری 1996 کے بعد پی ٹی سی ایل میں ملازمت اختیار کی ھوگی ۔صادق علی وی ایس ایس آپٹیز ریٹائیڑڈ کی بھی پٹیشن بھی 3 جولائی 2014 کو ھی منظور کرلی گئے اور اس کے لئیے بھی ریسپونڈنٹ کو پٹیشنر صادق علی اور دیگران کو گورمنٹ کی اعلان کردہ سالان پنشن انکریز دینے کا حکم دیا۔ اس فیصلے کی بنیاد، مرحوم یوسف آفریدی کی رٹ پٹیشن نمبر 2657/2012 پر دیا گیا ھوا فیصلہ تھا۔ پی ٹی ای ٹی نیو پنشن رولز 2012 اطلاق پی ٹی سی ایل میں کام کرنے ٹرانسفڑڈ ملازمین پر نہ ھونے کا یہ پشاور ھائی کوڑٹ کا فیصلہ اسوقت فائینل ھوگیا اور قانون بن گیا جب سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ نے 17 مئی 2017 کو اسکے خلاف انکی رویو پٹیشن بھی مسترد کردی تھی]۔ اور ان سبکو 12 جون 2015 کو ڈسمس کردیں اور ریسپونڈنٹس کو گورمنٹ کی ھی اعلان کردہ پنشن انکریزز ادا کرنے کا حکم دیا ۔ اسکا فیصلہ جناب جسٹس گلزار صاحب، نے تحریر کیا تھا جو آجکل چیف جسٹس پاکستان ھیں ۔ انکے اس فیصلے کے آخری پیرے 20 ترجمعہ نیچے پیش کررھا ھوں جو غور طلب ھے
“وہ وجوھات جو اوپر بیان کی گئیں ھیں ، ھم اس نتیجے پر پہنچے ھیں کے ریسپونڈنٹس جو ٹی اینڈ ایمپلائیز تھے اور کارپوریشن اور کمپنی میں ٹرانسفڑڈ ھوکر ریٹائیڑڈ ھوئیے تھے وہ اسی پنشن کے حقدار ھیں جسکا اعلان
گورمنٹ آف پاکستان کرتی ھے۔ اور بوڑڈ آف ٹرسٹیز اس پر لازم ھے وہ گورمنٹ کے اس اعلان پر عمل کرے جو ایسے ملازمین کے لئیے ھیں ۔ اسکے نتیجے یہ پٹیشنیں مسترد کی جاتی ھیں
دستخط :- ناصرالملک معزز چیف جسٹس
دستخط:-گلزار احمد جج
دستخط:- مشیر عالم جج
نوٹ:- اس فیصلے کے مندرجہ بالا پیرے 20 میں 2 باتیں نوٹ کرنے کی ھیں انھوں نے شروع میں جو لفظ “ ریسپونڈنٹس “ لکھا اسلئیے تمام ریسپونڈنٹس پی ٹی سی ایل پنشنرز شامل ھوگئیے چاھے وہ نارمل ریٹائیڑڈ ھوئیے ھوں یا وی ایس ایس آپٹ کرکے۔ اور آخری پیرے میں انھوں نے لفظ “ایسے ریسپونڈنٹس “ نھیں لکھا” بلکے لفظ “ایسے ملازمین “ لکھا۔ جسکا مطلب تو یہ ھی نکلتا ھے کے اسکا اطلاق تمام ایسے تمام پی ٹی سی ایل پنشنرز پر بھی ھوگا۔ جو اس مقدمے کا حصہ نھیں تھے ۔یاد رکھئیے عدالتی فیصلے میں ھر لفظ کی بڑی ھی قیمت ھوتی ھے چاھے وہ فل اسٹاپ یا کاما ھی کیوں نہ ھو۔
محترم جسٹس گلزار صاحب جو اس تین رکنی بینچ کے ایک ممبر تھے۔ اور انکے اس فیصلے سے یہ بات بھی کلئر ھوگئی ھےجسمیں انھوں نے نارملی ریٹائیڑڈ پی ٹی سی ایل ملازمین اور وی ایس ایس 2007 آپٹ کرکے ریٹائیڑڈ ھونے والے ملازمین کو یکساں قرار دیا اور یہ واضح کردیا کے وی ایس ایس 2007 آپٹ کرکے ریٹائیڑڈ ھونے والے ملازمین کا سٹیٹس بھی گورمنٹ سرونٹ والا ھی ھے اور اسکے لئیے انکو اختیار حاصل ھے وہ اپنے grievances دور کرنے ھائی کوڑٹوں سے رجوع کرسکتے ھیں جسطرح سول سرونٹس کو یہ اختیار حاصل ھے ۔ اس 12 جون 2015 کے فیصلے کے خلاف پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کی رویو پٹیشنیں بھی جج گلزار صاحب کی سربراہی تین رکنی سپریم کوڑٹ نے 17 مئی 2017 کو خارج کردی تھی۔ اور اسکا فیصلہ بھی جسٹس گلزار صاحب نے لکھا تھا ۔
[ یہ الگ بات ھے کے انھوں نے اسوقت پی ٹی ای ٹی کے وکیل خالد انور کی استدلال پر کے جو ریسپونڈنٹس پی ٹی سی ایل پنشنرز وی ایس ایس آپٹ کرکے ریٹائڑڈ ھوئیے ھیں انکے سروس کے ٹرمز اینڈ کنڈیشنس تبدیل ھوگئیے ھیں اور وہ کمپنی کے ملازم بن گئیے تھے۔ اور انکا یہ اختیار ھی ختم ھوگیا تھا کے وہ ھائی کوڑٹوں سے آئین کے آڑٹیکل 199 کے تحت رجوع کرتے ، مگر ان وی ایس ایس لینے والے ریسپونڈنٹس نے اسلام آباد ھائی کوڑٹ اور پشاور ھائی کوڑٹ سے فراڈلی فائیدے اختیار حاصل کر لئیے ان عدالتوں کو اندھیرے میں رکھ کر۔ اسلئیے ضروری ھے انکے خلاف انھی عدالتوں یعنی اسلام آباد ھائی کوڑٹ اور پشاور ھائی کوڑٹ میں (c)(2)12 کے تحت مقدمات دائیر کرنے کا حکم دیا جائیے اور یہ تمام مانگا ریلیف واپس لیا جائیے ، خالد انور ایڈوکیٹ کی ایما پر اسکا اجازت دے دی۔ انکا یہ حکم بیحد غلط تھا ۔ کیونکے مسعود بھٹی کیس 2012SCMR152، عدالت عظمی اپیلنٹ مسعود بھٹی جو مارچ 2008 میں وی ایس ایس 2007 لیکر ریٹائڑڈ ھوئیے تھے ، انکو سول سرونٹ کے سٹیٹس کا حامل قرار دے کر انکو یہ اختیار دیا کے تھا کے وہ سندھ ھائی کوڑٹ سے اپنے grievances دور کرنے کے لئے رجوع کرسکتے ھیں اور وہ یہ تصور کریں کے انکی پٹیشن سندھ ھائی کوڑٹ ابھی تک پینڈنگ ھی ھے( میں ان سب کی تفصیل اوپر بتا چکا ھوں ) ۔پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل نے اسلام آباد انکے اس حکم کے مطابق اسلام آباد ھائی کوڑ ٹ اور پشاور ھائی کوڑٹ میں (c)(2)12 تحت دائیر کردیں جو دونوں جگہ سے 2018 میں خارج ھوگئیں ۔ پھر انھوں نے ان فیصلوں کے خلاف سپریم کوڑٹ میں اپیلیں دائیر کردیں ۔ چیف جسٹس گلزار صاحب کی سربراہی میں تین رکنی بینچ اسکی سماعت کررھا ھے۔ شائید دو یا تین سماعتیں ھوئی ھونگی ۔ آخری سماعت 19 مارچ 2019 میں ھوئی تھی اور کیس اب تک پینڈنگ ھی ھے۔ اب جب بھی کسی بھی ھائی کوڑٹ میں وی ایس ایس آپٹ کرکے ریٹائیڑڈ ھونے والو ں کیس لگتے ھیں انکے وکیل انور شاھد باجواہ کوڑٹ کو یہ کہہ کر کیسس کو ملتوی کرا دیتے ھیں کے وی ایس ایس والوں کے خلاف انکا کیس سپریم کواڑٹ میں پینڈنگ ھے۔ بس بہانے بازی ]
محترم جسٹس گلزار صاحب نے دو رکنی بینچ کے سربراہ کی حیثیت سے ، 15 فروری 2018 کو صادق علی اور اور نسیم وھرہ کی توھین عدالت کی کریمنل اپیلوں پر [ جن کے نمبرز 53/2015 اور 54/2015 جو انھوں نے 12 جون 2015 کے فیصلے پر عمل درآمد نہ ھونے کی وجہ سے کی تھیں ] ماسوائیے وی ایس ایس آپٹ کرکے ریٹائیڑڈ ھونے والے پٹیشنروں صرف نارملی ریٹائڑڈ ھونے والے پی ٹی سی ایل پٹیشنروں کو گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریزز دینے کا حکم دیا ۔ انھوں نے ایسا حکم پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کے وکیل انور شاھد باجواہ کی ایما پر پر دیا جو اس سپریم کوڑٹ کے 12 جون 2015 میں اس تین رکنی بینچ کے فیصلے سے بلکل ھی مختلف تھا جسکے وہ خو بھی ممبر تھے اور انھوں نے ھی خود فیصلہ تحریر کیا تھا جس میں وہ سب تمام ریسپونڈنٹس جن میں یہ وی ایس ایس آپٹ کرکے ریٹائیڑڈ ھونے والے پنشنرز بھی شامل تھے ،ان سبکو گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریزز دینے کا حکم دیا تھا ۔ انکا بطور سربراہ دورکنی بینچ سپریم کوڑٹ بینچ کا یہ 15 فروری 2018 کا دیا ھو حکم وہ ناقابل عمل (ultra -vires ) تھا ۔ کیونکے سپریم کوڑٹ کے دو رکنی بینچ کو یہ اختیار ھی حاصل نھیں تھا کے وہ تین رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف زرا سا بھی منفی فیصلہ کرتے ، پھر کسطرح انھوں نے اور کس قانون کے تحت وی ایس ایس آپٹ کرکے ریٹائیڑڈ ھونے والے پی ٹی سی ایل پنشنرز پٹیشنرز کو انکے وکیل شاھد انور باجواہ کی بات مان کر گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریزز نہ دینے کا حکم دیا ۔ پی ٹی ای ٹی نے صرف ایسے ھی 343 پٹیشنرز کو یہ گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریزز ، یکم جولائی 2010 سے بمعہ بقایا جات ، ادا کئیے ۔ ان میں وہ تمام 34 پی ٹی سی ایل پنشنرز بھی شامل تھے جنکی اپیل پر یعنی محمد عارف و دیگران بنام فیڈریشن آف پاکستان کی رٹ پٹیشن نمبر WP-148/2011 پر اسلام آباد کے ھائی کوڑٹ نے انکے حق میں فیصلہ دیا تھا اور اس رٹ پٹیشن کے ساتھ کلب کی ھوئی وی ایس ایس 2007 لینے والوں کی بھی تین رٹ پٹیشنیںوں کے پٹیشنرز کے حق میں بھی [ جسکی تفصیل شروع میں بتا چکا ھوں ] مگر وی ایس ایس آپٹیز ریٹائیڑڈ پٹیشنرز انکو یہ ریلیف نھیں دیا گیا۔
اسلام آباد ھائی کوڑٹ کے سنگل بینچ کے جج محترم جناب بابر ستار صاحب 14 اکتوبر 2014 کو دیا گیا یہ فیصلہ کٹیگری 3 میں شامل وی ایس ایس آپٹ کرکے ریٹائیڑڈ ھونے والے پی ٹی سی ایل ملازمین کی پانچ رٹ پٹیشنیوں کو non maintainable کو قرار دے کر ڈسمس کرنے کا، بادئیانظر میں صحیح نہیں ۔کیونکے اس میں کافی قانونی سقم ھے ۔انکو ایسا فیصلہ نھیں دینا چاھئیے تھا بلکے ، متزکرہ اسلام آباد ھائی کوڑٹ اور سپریم کوڑٹ کے وی ایس ایس آپٹیز ریٹائیڑڈ کے حق میں آئیے ھوئیے فیصلوں پر پہلے غور کرنا چاھئیے تھا ۔ لگتا یہ ھے کٹیگری 3 میں شامل پٹیشران کے وکلاء جن میں ایک چوھدری اشتیاق حسین ایڈوکیٹ اور دوسرے وکیل خلیل الرحمان عباسی ایڈوکیٹ بھی تھے انھوں نے شائید اس بابت عدالت کو آگاہ نہیں کیا۔ انکا یہ فرض تھا کے وہ اس سے عدالت کو ان حقائق سے مکمل آگاہ کرتے جن کا زکر میں اوپر کرچکا ھوں۔ وکیل خلیل الرحمان عباسی ایڈوکیٹ تو پی ٹی سی ایل پنشنروں کے بطور پٹیشنرز اور ریسپونڈنٹس وکیل رہ چکے تھے جنکا زکر اوپر کیا گیا ھے اور وہ ھر حقیقت سے پوری طرح آگاہ تھے ۔ مگر بتایا جاتا ھے کے موصوف وکیل تو اس دن عدالت سے ھی غیر حاظر تھے جس دن ان کیسز کی آخری ھئیرنگ تھی (غالبن 30 ستمبر 2021 بروز جمعرات) ۔ انھوں نے تو اس دن کیس کی adjournment کرنے کی درخواست آفس میں جمع کرا رکھی تھی کے وہ اپنے کیسس سپریم کوڑٹ میں لگنے کی وجہ حاظر نہیں ھوسکتے ۔ مگر جج محترم جناب بابر ستار صاحب نے کاروائی کو adjourned کرنے سے انکار کردیا اور یہ حکم دیا کے وہ دن تین بجے تک وکیل موصوف کا انتظار کریں گے اور انکے نہ آنے پر جمع کرائیے ھوئیے ڈکومنٹس کی بنیاد پر فیصلہ دیں گے۔ لیکن اس دن خلیل الرحمان عباسی ایڈوکیٹ اسوقت تک عدالت میں حاظر نہ ھو سکے۔ اور اپنے ان کلائینٹس کی pleading نہ کرسکے۔اور یہ کیس ھار گئیے
اب میں آپکو عدالت کے اس حکم کی طرف آتا ھوں جو اسنے وی ایس وی ایس آپٹیز ریٹائڑڈ کے خلاف دئیے جنکی 5 رٹ پٹیشنیں کٹیگری 3 میں شامل تھیں ۔ میں آپ لوگوں کی توجہ اس فیصلے کے پیرے 43 میں دئیے گئیے کی طرف معزول کرانا چاھتا ھو ں جسکے contents کا اردو ترجمعہ نیچے پیسٹ کیا ھے ۔ اسے برائیے مہربانی ضرور غور سے پڑھیں
پیرا 43
“ان مذکورہ وجوہات کی بناء پر ، یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ پی ٹی سی ایل کے ملازمین کی کیٹیگری III (یعنی جنہوں نے خود ھی وی ایس ایس سے فائدہ اٹھایا تھا)انکی درخواستیں ناقابل عمل ھیں۔ ان ٹرانسفڑڈ شدہ ملازمین خود ھی رضاکارانہ طور ٹیلی کام ایکٹ 1996 کے سیکشن 36 کے تحت دی گئی پروٹیکشن سے اب انکے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشن اور پنشنرس فائدے وی ایس ایس کے ان وی ایس آپٹ کرنے کے ان شرائیط کے ماتحت ھیں جنکو قبول کرکے انھوں نے VSS کو آپٹ کیا اب انکو دئیے جانے والے پنشنری فائیدے VSS کے انھیں شرائط کے ماتحت آتے ھیں کیونکے یہ دئیے ھوئیے شرائط معاہدہ نوعیت کی ہیں۔ اور اس سلسلے میں کٹیگری 3 میں آنے والے درخواستگار کی شکایات پی ٹی سی ایل کے خلاف ایکشن لینے کی پی ٹی سی ایل قانون کی خلاف ورزی ہے ، اور اس کے نتیجے میں ، ایسی درخواستیں قابل عمل نہیں ہیں جو VSS حاصل کرنے والے ٹرانسفرڈ ملازمین کی طرف سے دائر کی گئی ھیں ۔ درخواستیں اس وجہ سے خارج کی جاتی ہیں۔”
اس پیرے 43 دئیے گئیے contents سے یہ صاف ظاھر ھوتا ھے جن وی ایس آپٹ کرنے والوں نے پی ٹی سی ایل کے ساتھ کسی معاھدے کے تحت وی ایس ایس آپٹ کیا انکی پٹیشنیں ناقابل سماعت ھیں ۔ آپکو یاد ھوگا کے 2014 اور 2016 جو وی ایس ایس پیکیجز آئیے تھے ان کی ٹرمز اینڈ کنڈیشنس میں آپشن دئیے گئیے تھے لیکن جو وی ایس ایس 2007 اور وی ایس ایس 2012 آپٹ کرکے ریٹائیڑڈ ھوئیے ان کے پیکیجز کے وی ایس ایس آپٹ کرنے کی ٹرمز اینڈ کنڈیشنس میں ایسے کوئی آپشنس شامل نہیں تھے [ میں نے وی ایس ایس 2007, وی ایس ایس 2012 اور وی ایس ایس 2014 ان وی ایس ایس پیکیجز میں اسکی ٹرمز اینڈ کنڈیشنس کی کاپیاں نیچے پیسٹ کردیں ۔ تاھم 2016 وی ایس ایس پیکج میں دی گئیں وی ایس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس مجھے کسی کی طرف سے نھیں ملیں جو میں نہیں لگا سکا۔آپ وی ایس ایس 2007 اور 2012 کے پیکیجز میں دی گئی انگلش ٹرمز اینڈ کنڈیشنس میں یہ تین آپشن نظر نہیں آئیے جبکے وی ایس ایس 2014 میں اردو میں دئیے گئیے ٹرمز اینڈ کنڈیشن یہ نظر آئینگے ۔ اس میں پنشن لینے کی کوالیفائیڈ سروس 18 سال اس سے زیادہ تحریر کی جبکے وی ایس ایس 2007 اور 2012 ایسی کسی کولیفائیڈ سروس پنشن لینے کا زکر نھیں ۔ مگر انھوں نے بیس سال سے کم کولیفائیڈ سروس والے وی ایس ایس آپٹ کرکے ریٹائیڑڈ ھونے والوں کو پنشن بلکل نھیں دی جبکے گورمنٹ کے پنشن رولز کے مطابق دس سالہ کوالیفائیڈ سروس پر ریٹائیڑڈ ھونے والا سرکاری ملازم پنشن کا حقدار ھو جاتا ھے ] -
2014 اور 2016 وی ایس ایس پیکیجز کی ٹرمز اینڈ کنڈیشنس تین آپشنس دئیے گئیے تھے ۔ وہ اسطرح کے تھے
۱) جو بغیر کسی پنشن اور ریٹائیرمنٹ کے بعد بغیر کسی میڈیکل سہولیات کے وی ایس ایس آپٹ کریں گے انکو سب سے زیادہ معاوضہ پی ٹی سی ایل سے الگ ھونے کی وجہ سے دیا جائیے گا۔
۲) جو پنشن کے ساتھ اور ریٹائیرمنٹ کے بعد بغیر کسی میڈیکل سہولیات کے وی ایس ایس آپٹ لینا قبول کریں گے انکو ۱) سے کم معاوضہ پی ٹی سی ایل سے الگ ھونے کی وجہ سے دیا جائیے گا۔
۳)۔ جو پنشن اور ریٹائیرمنٹ کے بعد میڈیکل سہولیات کے ساتھ وی ایس لینا قبول کرینگے انکو ۱) اور ۲) بھی سے کم معاوضہ ، پی ٹی سی ایل سے الگ ھونے کی وجہ سے دیا جائیے گا ۔
اب یہ معلوم نہیں کے آیا کٹیگری 3 میں شامل تمام پانچ رٹ پٹیشنیں ان وی ایس آپٹیز پنشنر پٹیشنرز کی ھیں جو 2014 یا 2016 کے وی ایس ایس پیکیجز کی ٹرمز اینڈ کنڈیشنس کے تحت کوئی ایک ایک آپشن قبول کرکے ریٹائیڑڈ ھوئیے تھے یا یہ ان کی ھیں جو 2007 اور 2012 کے وی ایس ایس پیکیجز کی ٹرمز کنڈیشنس قبول کرکے ریٹائیڑڈ ھوئیے تھے جس میں کوئی بھی ایسا آپشن نہیں دیا گیا تھا ۔ اتنا تو مجھے معلوم کے کٹیگری 3 میں سیریل نمبر 1 پر دی گئ رٹ پٹیشن نمبر WP-1657/2019 اور سریل نمبر 3 پر دی گئی رٹ پٹیشن نمبر WP-1354/2020 مسرت نواز و دیگران کی تھیں ۔ ان دونوں پٹیشنوں کے پٹیشنرز، مارچ 2008 میں وی ایس ایس 2007 آپٹ کرکے ریٹائڑڈ ھوئیے تھے [کٹیگری 3 میں رٹ پٹیشن نمبر سریل نمبر 3 پر مسرت نواز و دیگران بنام فیڈریشن آف پاکستان و دیگران کی رٹ پٹیشن نمبر WP-1354 /2020 تو میرے ساتھ میری رٹ پٹیشن نمبر 4588/2018 میں شامل تھے ان دس پٹیشنروں کی تھیں جو وی ایس ایس 2007 کو آپٹ کرکے مارچ 2008 میں ریٹائڑڈ ھوئیے تھے ، انکی رٹ پٹیشنیں جج صاحب صاحب کے حکم پر with draw کرلی گئیں تھیں تفصیل اوپر بتا چکا ھوں]۔
تو کٹیگری 3 می سب پٹیشنروں کی پٹیشن کو ڈسمس کرنا ، بغیر یہ جانچے ھوئیے کے کتنے پٹیشنرس پی ٹی سی ایل سے ان وی ایس ایس 2014 اور 2016 دئیے گئے آپشنس میں سے کسی ایک آپشن کو قبول کرکے ریٹائیڑڈ ھوئیے تھے۔ اور کتنے 2007 اور 2012 والے تھے جنکے کے لئیے کوئی بھی آپشن نھی دیا گیا تھا، اسطرح کا فیصلہ کرنا ،اور انکو ناقابل عمل یعنی non maintainable کراکر ڈسمس کرنا، بادئیانظر میں مجھے صحیح نظر نہیں آتا ھے ۔ایسے تمام پٹیشنروں کو چاھئیے کے فورن اسکے خلاف انٹرا کوڑٹ اپیلیں داخل کریں اور جو حقائق میں نے اوپر بیان کئیے ھیں انکو اپنا گراؤنڈ بنائیں ۔ اور صرف ایک نکتہ ھونا چاھئیے کے “ جب سپریم کوڑٹ کے لیول تک اس کی تصدیق کی جاچکی ھے کے جو ٹی اینڈ کے ملازمین سے کارپوریشن اور کمپنیمیں ٹرانسفر ھوکر ریٹائیڑڈ (چاھے کسی طرح ھوئیے ھوں) وہ گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریزز لینے کے مکمل حقدار ھیں . اس لحاظ سے سنگل بینچ کا یہ 14 اکتوبر کا فیصلہ وی ایس ایس آپٹیز 2007 یا 2012 ریٹائڑڈ کے لئیے صحیح نھیں ھے اس میں کافی قانونی سقم ھے ۔
کوئی اچھا وکیل کرنے کے بارے میں میرا تو مشورہ یہ کے کسی ایسے اچھے وکیل کو انگیج کریں جو ان امور کا بہترین ماھر ھو ۔ کبھی کسی ایسے مشھور وکیل کا کبھی بھی انتخاب نہ کریں جو ایسے آئنی امور اور سروس میٹرز کیسس کا تجربہ نہیں رکھتا ھو۔ جیسا کے میں نے اوپر بتایا کے پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی نو جو انٹرا کوڑٹ اپیلیں اسلام آباد ھائی کوڑٹ کے 21 دسمبر 2011 فیصلے کے خلاف دائیر کی تھیں اسکے لئیے انھوں نے اعتزاز حسین جیسے وکیل کو ڈیڑھ کڑوڑ فیس پر انگیج کیا تھا لیکن انھوں نے وہ صرف اس کیس کو بار بار ڈیلے کرانے کے اور کچھ نھیں کیا اور اسکا فیصلہ تقریبن تین سال میں آیا جو انکے خلاف تھا۔ تو اپنی انٹرا کوڑٹوں اپیلوں پیروی کے لئیے کوئی اچھا قابل بھروسہ وکیل کریں ، میرا مشورہ تو یہ ھی ھوگا سے کے وہ ان 3 میں سے کسی کو وکیل انگیج کریں ۔ چودھری مشتاق حسین ایڈوکیٹ جو اسلام آباد ھائی کوڑٹ کے 21 دسمبر 2011 فیصلے کے خلاف دائیر کردہ انٹرا کوڑٹ اپیلوں پر ریسپونڈنٹس کے ایک وکیل تھے یا اشتیاق احمد چودھری ایڈوکیٹ یا حسن محمد رانا ایڈوکیٹ کو۔ کیونکے یہ سب بیحد منجھے ھوئیے وکیل ھیں اور وی ایس ایس والے کیسسز پر انکی گرفت بھی بیحد مضبوط ھے ۔ جو حقائیق اور گراؤنڈز میں نے اوپر بیان کئیے ھیں یہ سب ان سے بہت بخوبی واقف ھیں ۔ اور یہ لوگ فیس بھی مناسب لیتے ھیں ۔
میں نے متعلقہ کچھ دستاویزات کی اھم کاپیاں، ھائ لائٹ کرکے نیچے پیسٹ کردیں ھیں ۔ میرے اس آڑٹیکل کو پڑھنے کے بعد آپکے زھین میں کوئی بھی سوال ابھرتا ھو یا آپ کو کوئی پوائینٹ سمجھ نہیں آرھا ھو اور اسکی آپ مزید وضاحت چاھتے ھوں تو فیس بک میں کمنٹ کے زریعے یا میرے واٹس ایپ نمبر 9525902-0314 اپنا نام لکھ کر میسیج بھی کرسکتے ھیں ۔ میں اسکا جواب انشاللہ ضرور دوں گا۔ لیکن جنکا میسیج بغیر نام کے آئیگا انکو جواب نھیں دیا جاسکے گا۔شکریہ
واسلام
محمد طارق اظہر
ریٹائیڑ جنرل منیجر (آپس) پی ٹی سی ایل
راولپنڈی
Dated 28th October 2021
اٹیچڈ دستاویزات دیکھنے کے لئیے یہا کلک کری
https://www.facebook.com/1218137701/posts/10228079083301864/
Comments