Article-157[ Regarding filling of appeals by VSS’s retired PTCL Pensioners in HSCP]

 


Article -157 [Regarding filling of appeals by the VSS Pensioners Petitioners in HSCP to whom’s Writ Petitions were dismissed by Single Bench of IHC on the 3rd March 2020 and also by DB on 2nd Nov 2021]


نوٹ : - تمام وہ وی ایس ایس آپٹ کرکے ریٹائڑڈ ھونے والے پی ٹی سی ایل پنشنرز  اور   خصوصن  وہ متوجہ ھوں ، جنھوں نے نارملی ریٹائڑڈ پی ٹی سی ایل پنشنرس پٹیشنرس کے ساتھ ملکر اسلام آباد ھائی کوڑٹ میں پٹیشنیں نے داخل کی تھیں اور صرف انکی یہ پٹیشنیں  سنگل بینچ کے جج  اسلام آباد ھائی کوڑٹ نے 3 مارچ 2020 کو مسترد کردیں تھیں ۔اور انکو گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریزز کا حقدار نہیں ٹہرایا اور  پھر اسلام آباد ھائی کوڑٹ کے دورکنی بینچ نے  بھی 2 نومبر 2021  انکے خلاف  پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل کی دائیر کردہ انٹرا کوڑٹ اپیلوں میں اسی فیصلے کو بحال رکھا۔ 


عزیز  پی ٹی سی ایل دوستو 

اسلام و علیکم


میرا یہ تفصیلی آڑٹیکل لکھنے کا مقصد صرف یہ ھے کے میں وی ایس ایس آپٹ کرکے ریٹائیڑڈ ھونے والے پی ٹی سی ایل پنشنرز  ( وی ایس ایس 2008 اور 2012  آپٹ کرنے والے) کو یہ باور کرانا چاھتا ھو ں سپریم کوڑٹ نے اپنے 12 جون 2015  کے فیصلے ( 2016SCMR1472) میں یہ کہیں  بھی یہ قدغن نھیں لگائی کے وی ایس ایس آپٹ کرکے ریٹائڑڈ  ھونے والے  وہ پی ٹی سی ایل  ملازمین   جو ٹی اینڈ ٹی  سے  کارپوریشن اور کمپنی میں ٹرانسفڑڈ ھوکر آئیے تھے، وہ گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریز کے حقدار نھیں  ھیں ( اسکے وجوھات نیچے پیش کررھا ھوں ) اس فیصلے کے خلاف انکی رویو پٹیشنیں بھی 17 مئی 2017 کو مسترد کردی گئیں مگراسلام آباد ھائی کوڑٹ  کے سنگل بینچ اور ڈبل بینچ نے س فیصلے سے  روگردانی غلط فیصلے دئیے اور انکو گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریزز سے نا حقدار قرار دیا۔ اسلئیے اب ایسے aggrieved وی ایس ایس آپٹیز پٹیشنرز کا یہ فرض ھے کے سپریم کوڑٹ میں اپیلیں فورن داخل کریں اور یہ ھی نکتہ اٹھائیں کے جب سپریم کوڑٹ نے ایسی کوئی قدغن نہیں لگائی تو ھائی کوڑٹ کیوں لگا رھی ھے؟؟

   اسلام آباد ھائی کوڑٹ کے  سنگل بینچ  کے جج محترم جناب جسٹس میاں گل حسین صاحب نے 3 مارچ 2020  کو  تقریبن  30 رٹ پٹیشنوں پر فیصلہ دیتے ھوئیے صرف ان پی ٹی سی ایل پنشنرز پٹیشنروں کو انکا مانگا ریلیف ادا کرنے کا حکم  دیا جو ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی ھوئیے اور بعد میں کارپوریشن اور کمپنی میں ٹرانسفڑڈ ھوکر  نارملی ریٹائیڑڈ ھوئیے تھے ۔ انھوں نے وی ایس ایس لیکر ریٹائیڑڈ ھونے والے تمام ایسے پی ٹی سی ایل پنشنرز  پٹیشنرز اپیلیں مسترد کردیں  اور انکو گورمنٹ کے اعلان کردہ پنشن انکریز دینے کے حق سے محروم کردیا, بیشک وہ ٹی اینڈ ٹی میں ھی کیوں نہ  بھرتی ھوئیے ھوں ۔ انکا یہ ایسا حکم اسی ھائی کوڑٹ کے سنگل بینچ سابق چیف جسٹس اقبال حمید الرحمان کے اس فیصلے کے بلکل خلاف  ھے جو انھوں نے محمد عارف اور دیگران کی رٹ پٹیشن نمبر WP-148/2011 پر  21 دسمبر 2021 کو صادر فرمایا تھا جسمیں   انھوں نے تمام پٹیشنروں کو  گورمنٹ کی اعلان کردہ  پنشن انکریزز بمعہ بقایا جات ادا کرنے کا حکم دیا تھا ۔  اسمیں  وی ایس ایس 2008 آپٹ کرکے ریٹائیڑڈ  ھونے پٹیشنرز بھی شامل تھے کیونکے  انھوں نے  محمد عارف و دیگران کی رٹ پپٹیشن WP-148/2011 پر ، جسمیں انھوں نے تفصیلی فیصلہ لکھا اس میں انھوں نے  نے وی ایس ایس 2008 آپٹ کرکے ریٹائیڑڈ ھونے والے پٹیشنیں بھی شامل کرلی تھیں  جسمیں فدا حسین و دیگران کی رٹ پٹیشن نمبر WP-522/2011 ,    انور شاھد  و دیگران کی پٹیشن نمبر WP-2372/2011 اور فضل مالک و دیگران کی پٹیشن نمبر 984/2011 شامل تھیں  [یاد رھے جب 5 جولائی 2010 گورمنٹ آف پاکستان نے اپنے  تمام ریٹائیڑڈ کو 15 % پنشن انکریزز اور 5% میڈیکل الاؤنس دینے کا نوٹیفیکیشن نکالا تو  پی ٹی ای ٹی  بوڑڈ نے  اپنے 

8 اگست 2010 کے  اپنے ایک مراسلے کے زریعے  ملک کے تمام پوسٹ ماسٹرز  کو یہ تنبیہ کی  تھی کے وہ یہ گورمنٹ کا اعلان کردہ پنشن انکریزز اور میڈیکل الاؤنس پی ٹی سی ایل پنشنروں کو اسوقت تک نہ دیں جب تک اسکی منظوری پی ٹی ای بوڑڈ آف ٹرسٹیز سے نہ آئیے ۔ تو اس کے خلاف پی  ٹی سی ایل  کے 34 نارملی ریٹائیڑڈ آفیسران  ( سابق ڈائریکٹر ڈیویلوپمنٹ محمد عارف اور دیگران )  نے بوڑڈ کے اس فیصلے خلاف اسلام آباد ھائی کوڑٹ میں رٹ پٹیشنیں  جنوری 2011 داخل کی تھیں  جسکا نمبر WP-148/2011 جس میں  انھوں  اس  پہلے انھو ں نے پی ٹی ای ٹی  کے اس 8 اگست 2010  کے اس نوٹیفیکیشن  کے کو چیلنج کردیا جو غیر قانونی تھا  اور پھر جب پی ٹی ای ٹی نے اپنے 27 جنوری 2011 کے نوٹیفیکیشن کے زریعے صرف  بوڑڈ آف ٹرسٹیز کا  منظور کردہ 8%  پنشن انکریزز دینے کا نوٹیفیکیشن نکالا تو ،اسکو بھی  ٹی سی ایل پنشنرز پٹیشران   نے 4 فروری 2011 کو چیلنج  کردیا اور اپنی رٹ پٹیشن WP-148/2011 میں تبدیلی کردی ۔ جسکو پی ٹی ای ٹی نے چیلنج بھی کیا جسکو عدالت نے مسترد کردیا تھا۔ جہاں نارملی ریٹائیڑڈ پی ٹی سی ایل  نے یہ اپیلیں کیں وھاں وی ایس ایس  - 2008 آپٹ کرکے  ریٹائیڑڈ ھونے والے پی ٹی سی ایل پنشنرز نے بھی کی تھیں جسکا زکر اوپر کیا گیا ھے ۔ پی ٹی ای ٹی اور 

پی ٹی سی ایل نے ان سب کے خلاف انٹرا کوڑٹ اپیلیں دائیر کردیں پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل نے محمد عارف اور دیگران کے خلاف جو انٹرا کوڑٹ اپیلیں دائیر انکے ICA Nos  ترتیب وار  9/2012 اور648/2013 تھے - اور جو پی ٹی سی ایل  اور پی ٹی ای ٹی  نے وی ایس ایس -2008 آپٹیز  نے جو انٹرا کوڑٹ اپیلیں دائیر کی تھیں انکے ICA Nos بالترتیب  فضل مالک و دیگران کے خلاف 8/2012 & 10/2012 ,  محمد شاھد و دیگران کے خلاف 12/2012 & 13/2012 اور فدا حسین و دیگران کے خلاف 16/2012 & 11/2012 تھے ۔اسلام آباد ھائی کو ڈویژن بینچ  جسکے ممبران اسوقت کے  ججز محترم جناب جسٹس ریاض  احمد خان اور محترم جسٹس نورلحق این قریشی تھے ، انھوں نے 17 مارچ  2014  کو یہ تمام انکی انٹرا کوڑٹ اپیلیں مسترد کردیں ۔ ان اپیلوں کی پیروی کے لئیے پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی نے مشہور وکیل اعتزاز حسن کو  بھی دو کڑوڑ روپے فیس پر انگیج کیا تھا ۔ لیکن یہ  پھر بھی کیس ھارگئیے ۔پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل نے اس فیصلے کے  خلاف  انھوں سپریم کوڑٹ میں میں اپیلیں اپریل 2014 دائیر کردیں ۔ معزز عدالت عُظمہ نے اسکے  ساتھ اور ایسی پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کی  اور پہلے سے دائیر کردیں اپیلیں کلب کردیں ۔انھوں  نے یہ اپیلیں پشاور ھائی کوڑٹ اور اسلام آباد ھائی کوڑٹ کے ان فیصلوں کے خلاف دائیر کی تھیں جسمیں ھائی کوڑٹوں نے نہ صرف نارملی ریٹائیڑد پی ٹی سی ایل ملازمین پٹیشنرس کو بلکے وی ایس ایس- 2008 کرکے ریٹائیڑد ھونے والے ملازمین پٹیشنرس کو بھی گورمنٹ  کی ھی اعلان کردہ پنشن انکریز دینے کا حکم دیا [ ان میں صادق علی وی ایس ایس ریٹئائیڑ پی ٹی سی ایل ملازم بھی شامل تھے جو وی ایس ایس 2008 آپٹ کرکے ریٹائیڑد ھوئیے تھے پشاور ھائی کوڑٹ نے انکی پٹیشن۔  WP-765/2012  پر 

3 جولائی 2014 کو انکو گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریز ادا کرنے کا حکم دیا تھا ]۔ سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ جسکے سربراہ ثابق چیف جسٹس ناصرالملک تھے  اور 2 دیگر ممبرز اسوقت کے جج جسٹس گلزار   صاحب اور جج جسٹس مشیر عالم صاحب تھے ۔  ان کیسسز کی شنوائی 2 دسمبر 2014 کو مکمل ھوئی اور فیصلہ محفوظ کرلیا گیا جسکا اعلان 12 جون 2015 اور پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کی تمام اپیلیں مسترد کردی گئیں ( جو تقریبن 18 تھیں ) اور پی ٹی ای ای ٹی کے بوڑڈ آف ٹرسٹیز کو یہ حکم دیا گیا کے وہ ان تمام ریسپونڈنٹس جو ٹی اینڈ ٹی سے کارپوریشن اور کمپنی میں ٹرانسفڑڈ ھوکر ریٹائیڑد ھوئیے انکو گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریزز ادا کرنے کی لازمن پابند ھے اور پھر اسکے خلاف انکی رویو پٹیشن بغیر کسی ترمیم یا موڈیفیکیشن کے ، 17 مئی 2017 کوڈسمس کردی گئی۔ یعنی انکی رویو پٹیشن بھی مسترد ھوگئی جو تین رکنی بینچ نے کی جسکے سربراہ اسوقت کے جج جسٹس گلزار صاحب تھے۔ اب اسکا مطلب یہ ھی نکلتا ھے کے سابقہ ٹی اینڈ ٹی کے ملازمین جو پہلے کارپوریشن اور پھر کمپنی میں آکر کسی بھی زریعے ریٹائیڑد ھوئیے ھیں وہ تمام ھی گورمنٹ کی پنشن کے حقدار ھیں ۔چاھے وہ نارملی ریٹائیڑد ھوئیے ھوں یا جبری، یا گولڈن شیک ھینڈ لیکر یا وی ایس ایس لیکر وہ سبھی گورمنٹ کی اعلان کردہ انکریزز 100% حقدار ھیں۔ 

جب پی ٹی ای ٹی نے سپریم کوڑٹ کے 12 جون 2015  پر عمل نہیں کیا تو محمد عارف اور دیگران او رنسیم وہرہ و دیگران  جو نارملی ریٹائیڑد ریسپونڈنٹس اور صادق علی وی ایس  ایس 2008 آپٹڈ ریٹائیڑڈ   ریسپونڈنٹ تھے انھوں پی ٹی ای ٹی کے خلاف توھین عدالت کے کیسس سپریم کوڑٹ میں دائیر کردئیے گئیے ھیں۔ مگر  ۱۵ فروری ۲۰۱۸ کو سپریم کوڑٹ کے دورکنی بینچ ،  جسکے سربراہ جسٹس گلزار صاحب ھی تھے ، بجائیے  ان درخواستوں پر توھین عدالت پر کاروائی کرنے کے، کے پی ٹی ای ٹی سپریم کوڑٹ کے فیصلے پر عمل کیوں نہیں کیا ،پی ٹی ای ٹی کے وکیل شاھد انور باجواہ کی ایما پر ، ماسوائیے وی ایس ایس لیکر   ریٹائیڑڈ  ھونے پی ٹی سی ایل پنشنرس پٹیشنروں کے ، دوسرے  تمام نارملی ریٹائیڑڈ  پی ٹی سی  ایل پنشنرس پٹیشنرس کو گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریزز دینے کا حکم دے دیا ۔ انکا یہ حکم  سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ کے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے فیصلے خلاف تھا جسکے خلاف پی ٹی ای ٹی کی رویوپٹیشن بھی تین رکنی بینچ 17 مئی 2017 کو خارج کردی تھی اور  یہ فیصلہ ایک قانون بن گیا تھا۔ مگر دورکنی بینچ سپریم کوڑٹ  کے معزز ججز 15 فروری 2018 اس فیصلے کی نفی کرتے ھوئیے صرف ان ریٹائیڑڈ پٹیشنرز ( جو ۱۲ جون ۲۰۱۵ میں ریسپونڈنٹس تھے) کو ھی صرف گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریز دینے کا حکم دیا اور ان وی ایس ایس آپٹیز ریٹائیڑڈ  (جو ۱۲ جون ۲۰۱۵ میں ریسپونڈنٹس  بھی تھے) انکو دینے سے منع کردیا ۔  اس دو رکنی سپریم کوڑٹ  کا 15 فروری 2018 کا فیصلہ ناقابل عمل (ultra-varies) تھا۔ کیونکے  چھ معزز ججوں کے فیصلے (  3 ججوں نے 12 جون 2015 ریسپونڈنٹس کے حق میں فیصلہ دیا اور پھر 3 ھی معزز ججوں نے 17 مئی کو  اسکے خلاف پی ٹی ای ٹی کی رویو پٹیشن خارج کرکے اسکو کنفرم کیا ) تو اسکے خلاف  صرف 2 معزز جج کیسے جاسکتے  تھے  اس میں کوئی ترمیم کرسکتے تھے۔ مگر  2 معزز ججز نے ایسا کرکے بادئی انظر میں بڑا غیر قانونی کام کیا۔تو  ۱۲ جون ۲۰۱۵  کے اس سپریم کوڑٹ کے فیصلے ( جو 2015SCMR1472  میں در ج ھے ) ایک بات بلکل ھی واضح ھو چکی ھے کے نارملی ریٹائیڑڈ اور وی ایس ایس آپٹیز ریٹائیڑڈ پی ٹی سی ایل پنشنروں میں کوئی بھی فرق نھیں ھے، جسکا اظہار ھائی کوڑٹوں کے فیصلوں میں نظر نھیں  آتا ھے۔ 3 مارچ 2020  کے فیصلے میں جہاں  سنگل بینچ اسلام  آباد ھائی  کے موصوف معزز جج  جہاں پہلے لکھتے کے تمام وی ایس  ایس آپٹیشنرز کی پٹیشنیں انکے واپس ھونے کی وجہ سے ڈسمس کی جاتی ھیں اور پھر آگے ھی لکھتے ھیں یہ پٹیشنیں not maintainable کی وجہ سے خارج کی جاتی ھیں ۔ بات سمجھ  میں نھیں آئی کے پہلے جب وہ یہ کہہ چکے ھیں کے یہ پٹیشنیں انکے واپس لئیے کی وجہ سے ڈسمس کی جاتی ھیں اور پھر یہ کہنا چونکے یہ not maintainable ھیں اسکی وجہ سے ڈسمس کی جاتی ھیں ۔ معزز جج صاحب اسی معزز عدالت کے سنگل بینچ کے جج سابق چیف جسٹس اقبال رحیم کا 21 دسمبر 2011  کا فیصلہ مد نظر نہیں رکھا جنھوں نے ایسے ھی وی ایس ایس آپٹیز ریٹائیڑڈ پٹیشنر پٹیشنوں پر وھی حکم دیا جو انھوں نے نارملی ریٹائیڑڈ پی ٹی سی ایل پٹیشنروں کے حق میں دیا اور جن پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل انکے خلاف انٹرا کوڑٹ اپیلیں وہ بھی   مارچ  14 , 2014 کو مسترد کردی گئیں تھیں (میں اسکی تفصیلات اوپر بیان کر چکا ھوں ۔ مزے کی بات یہ ھے  ان تمام انٹرا کوڑٹ کی اپیلوں کا تفصیلی فیصلہ  جس میں یہ سب ڈسمس کردی گئیں ، وہ وی ایس ایس آپٹیز ریٹائیڑڈ ریسپونڈنٹ فضل مالک و دیگران کے خلاف پی ٹی سی ایل کی انٹرا کوڑٹ اپیل  نمبر ICA -08/2012  پر دورکنی بینچ  کے سربراہ محترم جناب جسٹس ریاض  احمد خان  نے تحریر کیا  تھااور دوسرے ممبر جج  محترم جسٹس نورلحق این قریشی نے توثیق کی)۔ پھر ایسی فیصلے کے خلاف پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل نے سپریم کوڑٹ میں اپیلیں داخل کیں جو سب کی سب مسترد کردی گئی (اسکی تفصیل بھی اوپر بیان کرچکا ھوں ) ۔

پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی  نے 3 مارچ 2020 کے  اسلام آباد ھائی سنگل بینچ کے ان فیصلوں خلاف تمام پٹیشنروں کے خلاف انٹرا کوڑٹ اپیلیں اپریل 2020 داخل کردیں یہ دیکھے بغیر کس کے خلاف انٹرا کوڑٹ اپیلیں بنتی ھیں جسکے یا نہیں ۔ انکو تو صرف ان پٹیشنروں کے خلاف ھی انٹرا کوڑٹ اپیلیں دائیر کرنی چاھئیے تھیں جن پٹیشنرس کو اس  3 مارچ 2020 کے فیصلے میں ریلیف دیا گیا تھا۔ اور جن وی ایس ایس آپٹڈ ریٹائیڑڈ پٹیشنرس نے عدالت کے حکم پر اپنی پٹیشنیں واپس لے لیں اور عدالت نے انکے واپس لینے کی وجہ سے  انکی تمام پٹیشنیں  ڈسمس کردیں تھیں ، انکے خلاف بھی انٹرا کوڑٹ اپیلیں دائیر کردیں  ۔مثلاً میری دائیر کردہ رٹ پٹیشن نمبر WP-4588/2018 میں مجھ سمیت کل  32 پٹیشنرس تھے جن میں صرف 12 پٹیشنرس وہ تھے جو  وی ایس ایس آپٹڈ ریٹائیڑڈ تھے اور انھوں  نے اپنی  اپنی پٹیشنیں  عدالت کے کہنے پر واپس لے لیں تھیں اور اس بنا پر عدالت نے ڈسمس کردیں ( اوپر واضح کرچکا ھوں )۔ اسطرح جتنی اور پٹیشنیں  داخل کی تھیں اس میں ھر ایک میں  اسی طرح وی ایس ایس آپٹڈ ریٹائیڑڈ پی ٹی سی ایل پنشنرس  پٹیشنرس بھی شامل تھے۔ چونکے عدالتی فیصلہ  صرف ان پٹیشنرس کے حق میں آیا تھا جو ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی ھوئیے اور نارملی یعنی بغیر کوئی وی ایس ایس آپٹ کرکے ریٹائیڑڈ ھوئیے تھے۔ تو انھوں نے اس فیصلے پر پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل   کے عمل نہ کرنے کی وجہ سے انکے خلاف توھین عدالت کے کیسس کردئیے ۔ میں نے بھی اپنے ۱۹ پٹیشنر ساتھیوں  مل توھین عدالت کا کیس کردیا ۔ اور جن وی ایس ایس آپٹڈ ریٹائیڑڈ پی ٹی سی ایل پنشنرس  پٹیشنروں نے اپنی پٹیشنیں  عدالت کے کہنے پر واپس لے لیں تھیں ، ان سب نے  الگ سے فریش رٹ پٹیشنیں اسلام آباد ھائی کو ڑٹ میں داخل کردیں ۔مگر پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل سب کے ھی خلاف انٹرا کوڑٹ اپیلیں دائیر کردیں یہ سوچے بغیر کن کے خلاف انکا انٹرا کوڑٹ اپیل کرنا بنتا ھے اور کن کا نہیں ۔ ظاھر بات ھے انکا تو وی ایس ایس آپٹڈ ریٹائیڑڈ پی ٹی سی ایل پنشنرس  پٹیشنرس کے خلاف تو بنتا ھی نھیں تھا ۔ پی ٹی ای ٹی نے جو انٹرا کوڑٹ اپیل یعنی ICA-98/2020    اور پی ٹی سی ایل نے جو کی یعنی  ICA-149/2020 ، وہ انھوں نے ھماری دائر کردہ اپیل WP-4588/2018  پر میں سب 32 پٹیشنروں  کے خلاف کردیں ۔ جبکے حقیقت میں انکو ان میں سے صرف  ان 20 پٹیشنرس کے خلاف ھی کرنا چاھئیے تھیں جن کے حق میں عدالت نے 3 مارچ 2020 کو دیا تھا۔ اس انٹرا کوڑٹ اپیلوں کا جواب بھی صرف انھی 20 پٹیشنرس نے دیا تھا ۔ ان انٹرا کوڑٹ اپیلوں کا فیصلہ 2 نومبر 2021 کو آیا اور اسلام آباد  ھائی کوڑٹ کے دو رکنی بینچ نے صرف ان ریسپونڈنٹس کو گورمنٹ کی پنشن انکریزز کا حق ٹھرایا جو ٹی اینڈ ٹی کے ملازم تھے اور سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے سیکشن  “ٹو ون بی “ کی تعریف میں آتے ھیں اور بغیر وی ایس ایس آپٹ کئیے ھوئیے نارملی ریٹائیڑڈ ھوئیے ھوں ۔ اور ایسے ریسپونڈنٹس  کو ، اسلام آباد ھائی کوڑٹ کے 3 مارچ 2020  کی طرف سے انکی مانگی ھوئی دیگر ڈیمانڈ مثلاً آڑڈ لی الاؤنس ، میڈیکل الاؤنس و دیگر دینے کے اس حکم کے خلاف فیصلہ دیتے ھوئیے یہ تمام دیگر یہ گورمنٹ والی مراعات دینے سے منع کردیا اور ساتھ ایسے وی ایس ایس آپٹ  کرکے ریٹئاڑڈ ھونے والے  پی ٹی سی ایل پنشنرس  ریسپونڈنٹس کو بھی اس گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریز کا حقدار  بھی نہیں ٹہرایا ۔ 

جن ریسپونڈنٹس کے حق میں فیصلہ نھیں آیا ، انکا یہ حق بن گیا کے وہ اسکے خلاف سپریم کوڑٹ میں اپیل کرتے ۔ اسلئیے ایسے تمام ریسپونڈنٹس نے ان فیصلوں کے خلاف اپیلیں کردیں اور ساتھ کچھ  وی ایس ایس آپٹ  کرکے ریٹئاڑڈ ھونے  والوں نے بھی اپیلیں کردیں (جن کی پٹیشنیں  ، اسلام ھائی کوڑٹ کے واپس لینے کی بنا پر ڈسمس کردیں گئی تھیں , 3 مارچ 2020 کے فیصلے کے تحت  ) ۔ادھر  ان سب کے  ھی خلاف ھی پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل نے بھی سپریم کوڑٹ میں اپیلیں ایڈوکیٹ شاھد انور باجواہ کی وساطت  اپیلیں  دائیر کردیں ھے ، یہ دیکھے بغیر کے انھوں نے کس کے خلاف یہ اپیلیں کرنی چاھئیں یا نھیں ۔ ایڈوکیٹ آن ریکاڑڈ سپریم کوڑٹ نے تمام ریسپونڈنٹس کو  نوٹسس جاری کردئیے جنھوں نیں اپنی رٹ پٹیشنیں اسلام آباد ھائی کوڑٹ میں داخل کی تھیں ( جس پر فیصلہ 3 مارچ 2020 کو آیا تھا) جس میں انکے خلاف پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل کی طرف سے  سپریم کوڑٹ انکے خلاف دائر کی جانے والی اپیلوں کی intimation دی ( یہ سپریم کوڑٹ میں اپیلیں دائیر کرنے کا طریقہ کار ھے۔ اپیلیں پاڑٹی ایڈوکیٹ آن ریکاڑڈ  سپریم کوڑٹ کے زریعے  ھی سپریم کوڑٹ میں دائیر کرتی ھیں اور ایڈوکیٹ آن ریکاڑڈ  دائیر کرنے سے پہلے تمام ریسپونڈنٹس کو اطلاعات فراھم کرنے کا پابند ھوتا ھے) ۔ تو اسی طرح میری رٹ پٹیشن نمبر WP-4588/2018  میں شامل تمام  32 پٹیشنروں کو نوٹسس بھیج دئیے گئیے۔ جو  12 وی ایس آپٹڈ ریٹائیڑڈ پٹیشنرس  اس میں شامل تھے انکو میں نے مشورہ دیا کے وہ بھی ، 2 نومبر 2021 میں ڈبل بینچ کے اس فیصلے کے خلاف جو اسکے پیرا (vi)19 میں دیا گیا ھے جسمیں وی ایس ایس آپٹ کرکے ریٹائیڑڈ ریسپونڈنٹس  پی ٹی سی ایل پنشنرس کو گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریز کا حقدار نھیں ٹھرایا  اسکے خلاف  سپریم کوڑٹ میں  اپیلیں  دائیر کریں ۔ تو ان میں سے 10 نے (  کیونکے ایک کا تو کرونہ سے انتقال ھو چکا ھے اور ایک دوسرے کا پتہ نھیں چل سکا وہ کہاں ھے) اپیلیں دائیر کردی ھیں ۔


میرا یہ اتنا تفصیلی آڑٹیکل لکھنے کا لب لباب یہ ھے کے ایسے  تمام وی ایس ایس آپٹیز ریٹائیڑڈ  کو سمجھانا ھے ، جنھوں نے اسلام آباد ھائی کوڑٹ میں نارملی ریٹائڑڈ پی ٹی سی ایل پنشنروں کے ساتھ مل کر اپنی رٹ پٹیشنیں دائیر کی تھیں اور انکے خلاف  2 نومبر 2021  کے دورکنی بینچ اسلام آباد ھائی کوڑٹ نے فیصلہ دیا،  اگر انھوں نے ابتک اس فیصلے کے خلاف سپریم کوڑٹ میں اپیلیں دائیر نہیں ، وہ بغیر وقت ضائیع کئیے فورن اپیلیں دائیر کریں ۔ وہ اکیلے اب فریش اپیلیں تو نہیں دائیر کرسکتے  کیونکے اسطرح دائیر کرنے کا وقت ختم ھو چکا ھے مگر وہ ضرور ان اپیلنٹس کے ساتھ شامل ھو سکتے ھیں جنھوں نے ایسی اپیلیں سپریم کوڑٹ میں دائیر کر رکھی ھیں ۔ ان سے میرا مخلصانہ مشورہ ھے کے وہ اس سلسلے میں ایڈوکیٹ رعنا حسن ( سیل اور واٹس ایپس نمبر 4225333-333-92+) سے  فورن رابطہ کریں ۔ اور پہلے سے لگے ھوئیے ایسے کیسسز میں شامل ھو جائیں ۔ کیسسز کی پیروی انکے ساتھ ایڈوکیٹ اشتیاق چوھدری کریں گے جو ایک نہایت ھی دبنگ ایڈوکیٹ ھیں ۔ میرے ساتھ شامل ایسے دس  وی ایس ایس آپٹیز پٹیشنروں نے  جناب  ایڈوکیٹ رعنا حسن  سے رابطہ کرکے انھیں  ایڈوکیٹ اشتیاق چوھدری صاحب  کو انگیج  کیا ھے۔

اس سلسلے میزں اگر آپ لوگ کوئی اور کلئریفیکیشن چاھتے ھیں تو مجھ سے ضرور رابطہ کریں یا اس بارے میں نیچے کمنٹس میں لکھ کر پوچھیں۔ شکریہ

واسلام

محمد طارق اظہر

ریٹائیڑڈ جنرل منیجر( آپس) پی ٹی سی ایل

راولپنڈی

Date:- 24th March 2022

Comments

Popular posts from this blog

.....آہ ماں۔

Article-173 Part-2 [Draft for non VSS-2008 optees PTCL retired employees]

‏Article-99[Regarding clerification about the registration of the Ex-PTC employees of any capacity with EOBI by PTCL]