Tribute to my fast friend late Hassan Irfan
TRIBUTE
دل سے خیال دوست بھلایا نہ جائیے گا
سینے میں داغ ھے کہ مٹایا نہ جائیگا
آہ میرے پیارے دوست حسن عرفان!!!
عجب ہوتا ہے ایسے ۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے ۔۔۔۔۔۔ جیسے کوئی دل سینے سے نکال کر کھینچ کر لے جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ ۔۔۔۔۔۔آپ اس نکالنے والے کے ہاتھ تک نہ پکڑ سکیں ۔۔۔۔ نہ جانے والے کو روک سکیں ۔۔۔۔۔ اپنے ہی ہاتھوں سے اس پیارے کو تنہا ۔۔۔۔۔۔ منوں مٹی کے حوالے کر آئیں ۔۔۔۔۔۔ جس کو شاید کبھی اندھیرے میں سونے کی عادت بھی نہیں تھی..... یقین و بے یقینی کے سفر میں...... گزرے وقت کو کسی کاش کی آرزو میں...... اس جاں لیوا لمحے کو ......واپس لے آنے کی جستجو میں......اور پھر تھک کر......حقیقت کو دیکھنے میں کیسا لگتا ہے...کیسا لگتا ہے ......جب اس شخص کا چہرہ... اسکی باتیں... اس کے ساتھ گزارے گئے لمحے... سب آنکھوں میں واپس بار بار آئیں...ہر آہٹ میں اسکی آہٹ کا گمان ہو ...ہر آواز اس کی آواز لگے.. بہت مشکل ہوتا ہے ...بہت مشکل... یہ احساس...کہ اب وہ کبھی و اپس نہیں آئے گا .. یہ بے بسی... ..بھرے مجمعے میں جب اچانک کوئی یاد آپ کو تنہا کر دے.... کہ آنسو روکنا مشکل ہو جائیں، اور آپ ......خود پر کنٹرول کیئے ......خود کو صبر کی تلقین کیئے...... گھٹ گھٹ سانس لیں.. کیسا لگتا ہے .. مجھے یہ ھی احساس اسوقت ھورھا تھا, جب مجھے بروز پیر 27 جون 2022 دن گیارہ بجے کے قریب اپنے سب سے بچپن کے عزیز دوست حسن عرفان کے واٹس ایپس نمبر سے میسیج ٹون کی گھنٹی بجی . . . نہ جانے کیا بات تھی کے میں نے فورن ھی موبائل اٹھا لیا ورنہ اکثر میں کبھی بھی اتنی جلدی میسیج سننے کے لئیے موبائیل نھیں اٹھاتا ھوں ۔ ۔ میسیج پڑھتے ھی میرے دل پر بجلیاں گرنا شروع ھوگئیں او ایک لمحے کے لئے میسیج پڑھکر بھونچکا سا رہ گیا اور میری آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھانے لگا ۔ میسج میں انگلش میں لکھا تھا “ اسلام و علیکم انکل میں عروج ھوں او آپ کو بس یہ بتانا چاھتی ھوں پاپا بروز جمعہ اس دار فانی سے کوچ کرگئیے ھیں آپ انکی مغفرت کے لئیے دعا کریں کے اللہ انکو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائیے“۔ - -۔ دل میں کہا یہ کون عروج ھے یہ کس کا میسیج دے رھی ھے کہیں یہ عرفان کی بیٹی تو نھیں جو عرفان کے واٹس ایپس نمبر سے یہ پیغام دے رھی ھے ۔ ۔ ۔ اسی وقت فورن اپنے کانپتے ھاتھوں سے اسکو اسی واٹس نمبر پر کال کی ۔ مجھے یہ سمجھ ھی نہیں آرھا تھا کے وہ عرفانی ( حسن عرفان کو میں عرفانی کہا کرتا تھا) کی بیٹی ھے . . جیسے ھی کال ملی فورن میں نے یہ پوچھا کیا تم عرفانی کی بیٹی بول رھی ھو ۔ ۔ ۔ جی انکل اس نے جواب دیا ۔ ۔ ۔ کیا ھوا کیا ھوا عرفانی کو ۔ ۔ ۔ اسنے جواب دیا انکل انکا تو اس جمعہ ( یعنی 24 جون ) کو انتقال ھو گیا ۔اوہ یہ کیسے ۔ ۔ ۔ اور میں یہ سن کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔ اس سے بات بھی بڑی مشکل سے میری بات ھوئی ۔ ۔ اس نے بتایا کے وہ کافی دن سے بیمار تھے انکو جگر کا عارضہ ھوگیا تھا دو دن آئی سی یو میں رھے ۔ عرفانی کی اس بوقت موت کی خبر سن کر میری جو حالت ھوئی وہ بیان سے باھر ھے . . . اور اسکے ساتھ بیتے ھوئیے دنوں کی یادیں اور اسکے ساتھ گزرے لمحات میرے زھین میں ایک فلم کی طرح چلنا شروع ھوگئیے
لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں
اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں
میرا پیا را عرفانی. . . میرا بہت جگری اور بچپن کا دوست تھا۔ ھم دونوں بچپن سے لیکر جوانی تک ساتھ اسکو ل اور یونیورسٹی میں پڑھتے رھے تھے۔ وہ دن مجھے اچھی طرح یاد ھے کے جب ھم دونوں نے ایک ساتھ مارچ یا شائید اپریل 1962 کی بات ھے ,کے جب ھم دونوں گورمنٹ ھائی اسکول پشاور کینٹ ( جو بعد میں یہ گورمنٹ ھائی اسکول نمبر ون پشاور کینٹ بن گیا جسکا آجکل نام گورمنٹ شہید حسین شاہ آفریدی ھائیر سیکنڈری اسکول پشاور کینٹ ھے ) میں پانچویں کلاس میں داخلے کے لئیے ٹیسٹ دیا تھا ۔ عرفان اپنے والد صاحب ظہور انکل کے ساتھ اور میں اپنے پاپا اظہر احمد خان صاحب کے ساتھ آیا تھا ۔ اسوقت میری عمر دس سال کے قریب تھی اور عرفان کی نوسال سکے قریب تھی ۔ وہ گورمنٹ اسکولوں کی یونیفارم کے مطابق ملئشیا کی نیکر اور سر پر نیلی ٹوپی میں تھا اور مییں ملئیشیا کی شلوار و قمیض اور سر پر نیلی ٹوپی میں تھا ۔اس وقت معلوم ھوا کے اسکے والد ظہور صاحب اور میرے والد اظہر احمد خان دونوں ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے تھے اور دوست تھے کیو دونوں ھی کوئٹہ میں ملٹری اکاؤنٹ ایم ای ایس میں ملازم رہ چکے تھے ۔ عرفان کے والد ھائیر پوسٹ پر تھے اور میرے والد لوئیر پوسٹ پر تھے ۔ زبانی ٹیسٹ تھا جو ھم نے فورن پاس کرلیا پھر ھم کو گورمنٹ مڈل اسکول پشاور کینٹ پانچویں کلاس میں بیٹھنے کے لئئے بھیج دیا گیا ۔ جو اس ھائی اسکول پشاور بلکل قریب ھی تھا ( آجکل اسکا نام گورمنٹ شہید ثاقب غنی ھائی اسکول نمبر 2 پشاور کینٹ ھے ) ۔ ھم لوگوں نے بہت لیٹ داخلہ لیا تھا ۔ 1962 کا تعلیمی سیشن شروع ھو چکا تھا ا جس پانچویں کلاس میں ھم دونوں کو داخلہ ملا تھا اس میں پہلے سے ھی کافی بچے موجود تھے اور سب چٹائیوں پر بیٹھے ھوئیے تھے ڈیسک اور کرسی کا انتظام نہیں تھا اور نہ ھی کسی پنکھےکا ۔ بس پانی پینے کے لئے دو مٹی کے گھڑے رکھے ھوئیے تھے ۔ ھم دونوں کی یہ حالت دیکھکر طبیعت بہت ھی مکدر ھوئی ۔ اس سے پہلے میں نے چوتھی جماعت تک تعلیم انگلش میڈییم کی سٹینڈرڈ ھائی اسکول پشاور شہر میں حاصل کی تھی جو ایک پرائویٹ اسکول تھا اور اس گورمنٹ اسکول اور پرائیویٹ میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ اسی طرح عرفانی نے بھی اچھے پرائیویٹ اسکول میں پڑھا تھا۔ خوبئی قسمت سے عرفانی کا گھر اسی مڈل اسکول کے ساتھ ملا ھوا تھا اور گھنٹی بجتے ھی اسکول پہنچ جایا کرتا تھا۔ میں اور عرفانی ھمیشہ کلاس میں ایک ساتھ بیٹھا کرتے تھے۔
عرافانی کو کہانیاں پڑھنے کا بہت شوق تھا اور مجھے بھی ۔ جب ھم پانچویں کلاس میں تھے تو وہ مجھے تقریبن روزانہ ھی ایک کہانی کی کتاب لاکر پڑھنے کے لئیے دیا کرتا تھا جو میں کلاس میں پڑھکر اسکو واپس کردیا کرتا تھا ۔ ایک دفعہ اس وجہ سے مجھے کلا س میں بہت مارپڑی اور میں نے عرفانی کو بھی مار پڑوادی تھی ۔ ھوا یو ں کے معاشرتی علوم کا پیریڈ تھا ۔ استاد اسکاف صاحب ( نام کچھ اور تھا لیکن سب انکو اسکاف صاحب کہتے تھے) ھر ایک کو تھوڑا تھوڑا مضمون کھڑے ھوکر بلند آواز پڑھا کر سن رھے تھے ۔ جب ایک تھوڑا مضمون پڑھ لیتا تو وہ اپنے پچھلے والے کو دیتا جسوقت اسطرح جب ایک مضمون بلند آواز پڑھتا تو دوسرا باری والا اسکو لازمن دھیان سے سنتا تھا کے اسکو اسکے آگے کیا اور کب پڑھنا ھے مگر میں اس دن کہانی پڑھنے میں مگن تھا مجھے یہ احساس ھی نھیں ھوا کے میری پڑھنے کی باری آنے ولی ھے جیسے میری باری آئی تو استاد کی کڑاکے دار آواز آئی “ طارق آگے پڑھو “ یہ سنا تھا میں گھبرا کر کھڑا ھوگیا اور میرے ھاتھ سے کہانی کی کتاب چھوٹ گئی اور نیچے گر پڑی جو استاد صاحب نے دیکھ لی اور چیخ مجھے اپنے پاس کتاب لیکر آنے کو کہا اور پہلے تو انھوں نے وہ کتاب پھاڑی اور میری خوب ٹھکائی کی اور ھتھیلیوں پر خوب ڈنڈا برسایا۔ اور ڈانٹ کر پوچھا یہ کس کی کتاب ھے میں نے روتے ھوئیے کہا حسن عرفان کی پھر انھوں نے عرفانی کو بلایا اور اسکی بھی پٹائی کردی اور تنبیہ کی وہ کہانی کی کتابیں آئیندہ کبھی اسکول لیکر نہ آئیے ۔ عرفانی مجھ سے بیحد ناراض ھوگیا اور بولنا چھوڑدیا تھا۔ بڑی مشکل سے اس نے بول چال شروع کی تھی۔
کچھ عرصے کے بعد ھمیں پھر دوسرے اسکول سنھری مسجد سے متصل سلوان مڈل اسکول میں شفٹ کردیا گیا۔ جو پرائمری سے مڈل تک یعنی آٹھویں تک تھا ۔ آجکل اسکا نام گورمنٹ شہید وہاب الدین ھائی اسکول سلوان پشاور کینٹ ھے ۔ اسی اسکول میں چھٹی جماعت میں ھمارے ساتھ دوست کا اضافہ ھو یعنی میرے دوسرا پیارا جگری دوست سلیم اختر ( یہ میرا لیسکو واپڈا کا ریٹائیڑڈ سی ای او ھے اور آجکل لاھور میں قیام پزیر ھے )۔ھم تینوں ایک ساتھ ھی کلاس میں ایک ھی بینچ ایک ساتھ بیٹھا کرتے تھے ۔ اور ایک ساتھ ھے پھرا کرتے تھے جب ھم نے آٹھویں کا امتحان دے لیا تو ھم کو پھر گورمنٹ ھائی اسکول نمبر ون پشاور کینٹ میں شفٹ کردیا گیا ۔ یہ مارچ 1966 کی بات ھے ۔ ھم تینوں نے محکمہ تعلیم پشاور کی طرف سے لیا گیا آٹھویں جماعت کا امتحان بہت ھی نمایاں حیثیت میں فرسٹ ڈویژن اپریل 1966 میں پاس کیا ۔ ھم تینوں نے اس میں اسکالرشپس حاصل کیا جو اسوقت ۵ روپے ماھوار ھوتا تھا ۔ پھر ھم تینوں نے 1968 میں گورمنٹ ھائی اسکول پشاور کینٹ سے میٹرک کا امتحان پشاور بوڑڈ سے نہایت ھی نمایاں فرسٹ ڈویژن پوزیشن میں پاس کیا اور اسکالر شپس حاصل کئیے۔ حسن عرفان بوڑڈ میں پورے صوبے میں دوسری پوزیشن حاصل کی تھی ۔ مگر عرفان اس سے خوش نھیں تھا اسکو فرسٹ پوزیشن پورے صوبے میں آنے کی امید تھی ۔ اور ھونی بھی چاھئیے تھی ۔ کیونکے مجھے معلوم اسنے کتنی محنت کی تھی ۔ وہ کسقدر پھوٹ پھوٹ کر مجھ سے لپٹ کر رویا تھا۔ حقیقت یہ تھی اسکی ھی فرسٹ پوزیشن تھی ۔ مگر ھماری کلاس میں ایک لڑکا جسکا نام سھیل یونس اوپل تھا اسکے والد ، اسی محکمہ تعلیم پشاور میں کسی بہت اچھے عہدے پر تھے ۔ اور یہ زبان عام تھا کے انھوں نے اپنے بیٹے کو ڈوب ے بھر میں فرسٹ پوزیشن دلانے کے لئیے عرفان کے نمبروں میں میں کمی کرادی ۔ عرفان کے میٹرک نمبر 795 تھے جبکے سہیل یونس اوپل کے 802 نمبرز تھے۔ اس سال گورمنٹ ھائی اسکول نمبر ون پشاور کینٹ نے پورے صوبہ سرحد میں اوّل پوزیشن حاصل کی تھی اور ایک ایسا ریکاڑڈ قائیم کیا تھا کیا تھا جو آج تک کوئی نہیں توڑ سکا اسکا میٹرک بوڑڈ کا رزلٹ 1968 میں 100% آیا تھا ۔ بوڑڈ کے اس امتحان صوبہ بھر میں پہلی پانچ پوزشنیں اسی اسکول کے طلباء کی تھیں جنکا تعلق ھماری کلاس دھم سیکشن A سے ھی تھا ۔ اس کلاس کے تمام طلبا۶ نے فرسٹ ڈویژن حاصل کی تھیں اور آدھے سے زیادہ طلباء نے اسکالر شپس حاصل کئیے جن میں میں بھی شامل تھا ھماری اس کلاس کے 17 کے 700 سے زیادہ کے نمبر تھے جو کل 900 نمبرز میں سے ھوتے تھے ۔ اس شاندار ریکاڑڈ کی بنیاد اس اسکول کے پرنسپل حسنین نقوی صاحب کو پروموشن دی گئی اور نیا گریڈ دیا گیا مگر انھوں نے پروموشن لے کر کسی اور ڈپٹی سیکریٹری کی پوسٹ پر جانے سے انکار کردیا تو حکومت نے انکے اس اپ گریڈ میں ریٹائیرمنٹ تک کے لئیے انکا اس کا پرنسپل بنادیا اور وہ وھیں سے 60 سال کی ریٹائیرمنٹ عمر میں ریٹائیڑڈ ھوئیے تھے ۔ انکو اس شاندار رزلٹ پر صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا اور مشرقی پاکستان ( آج کا بنگلہ دیش ) کی بھی سیر کرائی گئیی تھی ۔
حسن عرفان میرا پیارا دوست ایک بہت ھی زیرک اور ذھین انسان تھا ۔ اسکے ذہانت کے سب ھی معترف تھے ۔ وہ ھمیشہ اپنی کلاس میں اوّل آتا تھا۔ جب کبھی اسکول تقریری مقابلے ھوتے ، میں نے ھمیشہ ھی عرفان کو اوّل آتے دیکھا ھے ۔ انجئینرنگ کالج میں اسکا میگزین میں لکھا ھوا لکھا مضمون چاھے انگلش میں ھو یا اردو ھمیشہ اوّل نمبر ھوتا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات جب ھم انجینرنگ کالج پشاور یونیورسٹی میں میں ایک ساتھ پڑھتے تھے 1970 سے 1974 کے درمیان ۔ عرفان ھر کام آئیڈیل کے طور پر کرنا چاھتا تھا اس کی تحریر چاھے وہ انگلش میں ھو یا اردو میں ، اتنی خوبصورت ھوتی تھی کے جیسے کسی نے خوبصورت موتی پروئیے ھوئیے ھوں ۔ وہ ایک زبردست آڑٹسٹ بھی تھا۔ پنسل اتنی خوبصورتی سے تصویریں ڈرا کرتا تھا کے ناقابل بیان ھیں ۔ اسنے قائید اعظم لیاقت علی خان اسٹالن اور چو این لائی وغیرہ تصاویر پنسل سے بناکر اپنے کمرے لٹکا رکھیں تھیں ۔ اسنے میری بھی بہت ھی اچھی تصویر پنسل سے بنائی تھی اسکو موسیقی کے فن سے بہت شوق تھا وہ بینجو بڑا ھی خوبصورت بجا تا تھا۔ اور بانسری بھی ۔ وہ نہایت ھی ملنسار اور اصول پرست انسان تھا ۔ وہ اپنا ھر کام نہایت صفائی اور سلیقے سے کرنے کا عادی تھا ۔ اسکو بے ڈھنگہ بلکل پسند نہیں تھا ۔ ۔ بچپن سے ھی اسکو انگلش ایڈونچرز فلمیں دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ اسکے والد کو اسکے اس شوق خود اسکو انگلش فلم دکھانے لے جاتے تھے۔ عرفان کا گھر مین صدر ھزار میں گرلز اسکول کے ساتھ تھا جسکو آجکل باڑہ بازار کہتے ھیں اور صدر میں دو ھی سینما ھاؤس تھے ایک کا نام فلک سیر تھا اور دوسرے کا کیپیٹل ۔وھاں شام چھ سے نو بجے تک انگلش فلم کے شو ھوتے تھے باقی دوپہر اور رات کو اردو کے شو ھوتے تھے۔ اسکے والد اسکو اکثر یہیں لے جاتے تھے۔ اور جب کبھی بھی اپنے والد کے ساتھ فلم دیکھ کر آتا تو صبح اسکول یا کالج میں خالی پیریڈ میں اسکی پوری کہانی مجھے سنانا اسکا فرض ھوتا تھا ۔ اور جب کبھی اسکے والد سرکاری ٹور کی وجہ سے شہر سے باھر ھوتے تو یہ مجھے گھر سے آکر فلم دکھانے لیجاتا ۔ میرا گھر اسوقت باڑہ لائین پشاور کینٹ جہاں سے عرفان کے گھر تک کا پیدل فاصلہ تقریبن پندرہ یا بیس منٹ کا تھا۔ میں اکثر شام کو اسکے گھر پہنچ جاتا تھا ۔ پھر ھم دونوں پشاور صدر میں خوب گھومتے ۔ اسکو مجھ سے چٹکلے اور لطائف خاصکر پٹھانوں اور سکھوں کے ، سننے کا بہت شوق تھا۔ اور میں ھی اسکو خوب مستی سے سناتا تھا ۔ بس یہ سب سن کر مسکرا دیا کرتا اور مسکراتا رھتا تھا۔ میں نے کبھی بھی اسکو قہقہے مار کر ھنستے ھوئیے نھیں دیکھا۔ مئی 1973 جب اسکے سب سے چھوٹے بھائی کا انتقال ھوا اسکو میں نے نہایت ھی مغموم اور نھایت ڈسٹڑب دیکھا ۔ لیڈی ریڈنگ کے ڈاکٹروں کی لا پرواھی اور بے حسی کی وجہ سے اسکے چھوٹے بھائی کا انتقال ھوگیا تھا ۔ اسکے چھوٹے بھائی کو اپینڈکس کی تکلیف تھی اسلئے اسکے آپریشن کے لئیے اسکو لیڈی ریڈنگ پشاور شہر میں داخل کرایا گیا تھا ۔ حالانکے یہ ایک بہت ھی معمولی آپریشن ھوتا ، مگر معلوم نہیں ڈاکٹرز کیا غلط آپریشن کرگئیے جس سے اسکی موت واقع ھوگئی ۔ اسی دوران اسکے چھوٹے بھائی کے انتقال کے بعد ، جب میں اس سے ملنے اسکے ایک دن اسکے گھر گیا تو اسنے روتے ھوئیے مجھے ایک خط دکھایا جو یہ اسوقت کے وزیراعظم ذلفقار علی بھٹو کے نام انگلش میں لکھا تھا جس میں اسنے ان ڈاکٹروں کی شکایت کی اور انکے خلاف سخت ایکشن لینے کی گزارش کی تھی جن کی ناھلی کی وجہ سے اسکے چھوٹے بھائی کی موت واقع ھوئی تھی۔ میں نے عرفان سے کہا ایسے لیٹر لکھنے سے کوئی فائیدہ نہیں ۔ کوئی کچھ نھیں سنے گا۔ بحر اسنے وہ لیٹر تو وزیر اعظم کو بھیج دیا مگر کچھ ھوا نہیں ۔ عرفان اسکے بعد بیحد مغموم رھنے لگا اور شام کو اکثر میرے گھر پہنچ جاتا اس کو میں بہت دلاسہ دیتا اور سمجھاتا رھتا ۔انجئینرنگ کے تیسرے سال کے امتحان کی ٹھیک طرح تیاری بھی نہ کرسکا جو اگست 1973 ھوا تھا۔ اور اسکے اس سال اتنے اچھے نمبرز بھی نھیں آئے ۔ جس پر اسکو اور قلق ھوا تھا۔
میٹرک پاس کرنے کے بعد عرفان نے ایڈو ڑڈ کالج پشاور میں داخلہ لے لیا تھا ۔اسکی بڑی وجہ یہ تھی وھا ں ان لڑکوں کو جو میٹرک کے امتحان 700/900 یا اس سے زیادہ نمبر لیتے تھے بوڑڈ کے میٹرک کے امتحان میں انکو کالج گورمنٹ اسکالرشپ سے ڈبل اسکالر شپ دیتا تھا گورمنٹ اسکالر شپ 15 روپے ماھوار تھا جبکے ایڈو ڑڈ کالج پشاور 30 روپے ماھوار دیتا تھا اور شائید ماھانہ فیس بھی انکو معاف تھی ۔ میں نے اور سلیم اختر نے اسلامیہ کالج پشاور یونیورسٹی داخلہ لے لیا تھا۔ حالانکے سلیم اختر کے 700 سے بھی زیادہ نمبر میٹرک کے امتحان میں آئیے تھے اور ایڈو ڑڈ کالج پشاور بڑی آسانی سے داخلہ لے سکتا تھا مگر اسنے اسلامیہ کالج کو ترجیح دی اسکا اسلامیہ کالج میں میرٹ کے لحاظ سے پہلا نمبر تھا اور میرا پانچواں ۔ جون 1970 کو ھم تینوں نے ایف ایس سی کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کرکے ، انجینئیرنگ کالج پشاور یونیورسٹی میں سیٹ پکی کرلی تھی ۔ اس زمانے میں ایف اس سی کا بوڑڈ کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کرنا جوئیے شیر لانے کے مترادف ھوتا تھا ۔ جو بھی 60% نمبرز یا اس سے زیادہ لیکر پاس ھوتا تھا اسکو فرسٹ ڈویژن مل جاتی تھی ۔ اس زمانے میں داخلے کے لئیے کوئی ٹیسٹ وغیرہ نہیں ھوتے تھے ۔ ھمارے ایف ایس سی میں نمبرز اتنے اچھے تھے کے ھم تینوں کو الیکٹریکل برانچ میں داخلہ بڑی آسانی سے مل گیا جو پہلے نمبر پر اسوقت ھوتی تھے دوسرے پر مکینیکل ، تیسرے پر سول اور چوتھے پر ایگریکلچر ھوتی تھی - پھر ھم تینوں دوست ایک ساتھ انجینئیرنگ کالج پشاور یونیورسٹی ایک ساتھ اور ایک ھی کلاس میں ھوگئیے۔ انجیرنگ میں چار سالہ کورس تھا اور ھر سال امتحان ھوتے تھے لیکن ڈگری ملنے کی بنیاد آخری سال کے امتحان کی رزلٹ کی بنیاد پر ھوتی تھی ۔ اگر آپ نے تینوں سال کم سے کم نمبر بھی لئے ھوں تو کاؤنٹ نھیں ھوتے تھے۔ آخری سال کا رزلٹ ھی ڈگری کی بنیاد ھوتا تھا۔مییں نے پہلے تین سالوں میں اتنی زیادہ محنت نھیں کی تھی تو نمبرز بھی اچھے نھیں آئیے عرفان نے ماسوائیے تیسرے سال کے ھر سال بڑے اچھے نمبرز لئیے اور کیس میں ٹوپ کیا۔ آخری سال ھم تینوں نے بڑی ھی محنت کی ۔ اور فائینل بی ایس سی ( الیکٹریکل) فرسٹ ڈویژن اعزاز کے ساتھ پاس کیا۔ فائینل امتحان میں 850/1200 یا اس سے اوپر نمبر لینے والوں کی ڈگری پر نام کے بعد لکھا جاتا تھا کے اس نےبی ایس سی ( انجئینرنگ ) کا امتحان First Division (With Honour) میں پاس کیا۔ تو میں نے ، سلیم نے اور عرفان اسی طرح کی بی ایس سی ( الیکٹریکل ) کی ڈگری حاصل کی۔ عرفان نے تو پورے کالج میں ٹاپ کیا تھا اور گولڈ میڈل بھی حاصل کیا تھا اسنے 1000 سے بھی زیادہ نمبرز لیکر ایک ریکاڑڈ بھی قائیم کیا تھا۔
دسمبر 1974 میں یہ انجئینرنگ رزلٹ آیا تھا۔ عرفان کو تو فورن ھی کالج میں ( ان دونو ں یہ انجینئیرنگ یونیورسٹی پشاور نہ تھا بلکے انجینئرنگ کالج پشاور یونیورسٹی تھا)۔ لیکچرر شپ کی ملازمت مل گئی۔ عرفان نے کچھ عرصے کالج میں لیکچرر شپ کی ۔ جو میرے پی ٹی سی ایل آفیسران دوست 1975 میں اس کالج میں الیکٹریکل انجینئرنگ برانچ زیر تعلیم تھے وہ عرفان کو ضرور جانتے ھوں گے کے وہ کتنا زبردست لیکچرر تھا۔عرفان نومبر 1975 میں فلپس کمپنی کی طرف سے اسکالرشپ پر ھالینڈ چلاگیا ۔ اور واپسی پر فلپس کمپنی کراچی میں میں ملازمت اختیار کرلی اور وھاں ۔ اسنے اچھی پوسٹ پر 25 سال کام کرنے کے بعد اس کمپنی کو خیر آباد کردیا ۔ پھر وہ گورمنٹ کی سکییورٹی پرنٹنگ پریس میں بمپ پوسٹ ڈائیریکٹر ٹیکنیک تعینات ھوگیا ۔ جہاں سے وہ ریٹائیرمنٹ کی 60 سال عمر تک کام کرتا رھا اور اسکے بعد وہ ایک کیبل مینفیکچر فیکٹری میں ملازمت کرتا رھا ۔ اسنے وہ کمپنی بھی اپنے انتقال سے کچھ عرصے پہلے ھی چھوڑدی تھی ۔ عرفان قابل تو بہت تھا اسلئیے ھاتھوں ھاتھ نوکری میں لے لیا جاتا تھا۔ مجھے بھی دسمبر 1974 میں رزلٹ کے بعد دو مھینے اندر پی ٹی وی انجئینئیر کی ملازمت مل گئی جہاں میں نے نے ڈھائی سال کام کیا اور پھر جولائی 1977 کو فیڈرل پبلک کمیشن کا امتحان پاس کرکے گورمنٹ ٹیلی گراف اینڈ ٹیلی فون ڈیپاڑٹمنٹ میں بطور اسسٹنٹ ڈویژنل انجینیئر گریڈ 17 تعینات ھوا اور وھاں سے 14 جنوری 2012 میں بطور جنرل منیجر (آپس) پی ٹی سی ایل مقررہ ریٹائیرمنٹ کی عمر یعنی ساٹھ سال میں ریٹائیڑڈ ھو۔ ادھر سلیم اختر نے کو بھی جلد ھی واپڈا میں گریڈ سترہ کی کی پوسٹ پر ملازمت مل گئی کرلیا اور وہ وھاں سے ستمبر 2011 میں بطور سی ای او ھیڈ آف لیسکو واپڈا ریٹائیڑڈ ھوا۔
عرفانی ھمیشہ کراچی میں ھی رھا جبکے میری جگہ بجگہ پاکستان پوسٹنگ ھوتی رھی تھی ۔ لیکن اس سے میرا رابطہ ھمیشہ رھتا تھا۔ دسمبر 1985 میری بھی پوسٹنگ کوئٹہ سے کراچی ھوگئی جہا ں میں گزشتہ چار سال سے ڈی ای فون کوئیٹہ کی اکلوتی پوسٹ پر کام کررھا تھا۔ اور پھر اسطرح عرفان کے ساتھ مکمل میرا رابطہ بحال ھوگیا۔ اسکو میرے کراچی آنے پر بیحد خوشی ھوئی تھی اور مجھے بھی اسکے ساتھ ھونے کی بڑی خوشی ھوئی ۔ستمبر 2011 میں میں ایل پی آر پر چلاگیا اور پر مستقل طور پر راولپنڈی شفٹ ھوگیا فیملی کے ساتھ اور یوں ایک بار پھر میرا اسکےرابطہ چھوٹ گیا ۔ میری اس سے آخری بار ملاقات ھوئی تھی جب وہ میری والدہ کے انتقال پر ستمبر 2010 پر مجھ ملنے ھمارے گھر نارتھ کراچی میں آیا تھا۔ وہ فیملی کے ساتھ ڈیفینس کراچی میں رھتا تھا جہاں اسنے اپنا گھر خریدا تھا ۔ میں اپنی بیگم کے ھمراہ اس سے اسکی والدہ کے انتقال تعزیت کے لئیے اسکے گھر جاچکا تھا ۔ اسکی والدہ کا انتقال لاھور میں ھوا تھا۔ اس وقت مجھے وہ سن اور تاریخ یاد نہیں آرھی۔ راولپنڈی آنے کے بعد میرا اس سے صرف فون پر رابطہ رھتا تھا ۔ کوئی چارسال یا اس سے زیادہ پہلے میرا اس سے بلکل رابطہ ختم ھوگیا تھا۔ میں نے جب معلوم کرنے کی کوشش کی تو مجھے معلوم ھوا کے وہ اپنی بیگم کے ساتھ لندن شفٹ ھو گیا ھے ۔ جہان اسکی دونوں بیٹیاں شادی کے بعد چلی گئیں ھیں ۔ وہ مستقل تو شفٹ نھیں ھوا بلکے اکثر پانچ یا چھ مہینے کے وھاں چلاجاتا تھا۔
یہ 19 دسمبر 2021 کی بات ھے کے مجھکو اچانک اسکی واٹس ایپس کال موصول ھوتی ھے۔ وہ بہت گھبرایا ھوا لگتا تھا۔ کہنے لگا طارق تم خیریت سے تو ھو۔ میں نے تمھارے متعلق بڑی بری خبر سنی جو مجھے دوست سبطین نے بتائی تھی کے تمھارا انتقال ھو چکا ھے ۔ میں نے ھنس کر جواب دیا نھیں عرفان ایسی کوئی بات میں بلکل خیریت سے ھوں زندہ ھوں جبھی تو تم سے بات کررھا ھوں ۔اسوقت مجھے کیا معلوم تھا کے یہ میرا پیارا دوست جو مجھ سے کلام کررھا ھے اور میری خیریت معلوم کرر ھا ھے ۔ خود مجھے عنقریب چھوڑ کر ھمیشہ کے لئیے چلا جائیگا ۔ آف . . آف ۔۔ آف یہ کیا ھوگیا!!!!!. اس دن ھم نے کھل کر بہت دیر تک واٹس ایپس پر ویڈیو چاٹ کی۔ اسی نے یہ مجھے سب کچھ بتایا کے وہ لوگ زیادہ تر لندن میں رھتے ھیں جہاں انکی دونوں بیٹیاں بیاہ کر گئی ھیں ۔ اسنے اپنا کلفٹن والا بڑا مکان بھی بیچ دیا اور اپنے سالے کے گلشن اقبال میں فلیٹ کے ساتھ ھی ایک فلیٹ خرید لیا ھے۔ ھم تو اکثر لندن میں ھی رھتے ھیں ۔ اس نے یہ بھی بتایا کے سکیورٹی پرنٹنگ پریس میں دس سال نوکری کرنے کے بعد وہ ریٹائیڑڈ ھوگیا تھا اور اسنے پھر کر ی ایک کیبل مینفیکچر کمپنی جائین کرلی تھی۔ میرا پھر اس سے واٹس ایپس پر ایک دوسرے کو میسیج اور چٹکلے بھیجنے کا سلسلہ شروع ھوگیا تھا ۔ وہ اس سے بڑا محظوظ ھوتا اور ضرور ریپلائی کرتا تھا۔ 20 فروری 2022 کو جب میں پشاور اپنے ایک دست کی بیٹے کے ولیمے میں اپنے چھوٹے بھائی خالد کے ساتھ اسکی کار میں جب پشاور گیا تو اپنے سفر کی مکمل ویڈیو بنائیے خاصکر پشاور شہر اور کینٹ کی۔ میں نے سنہری مسجد روڈ پر واقع ان تینوں اسکولوں کی بھی فوٹو کھینچیں اور ویڈیو بھی بنائیں جنکا تزکرہ میں شروع میں اوپر کرچکا ھوں۔ میں نے وھی ویڈیوز اور فوٹو ز عرفان اور سلیم سے بھی شئیرز کیں ۔ عرفان انکو دیکھ کر بہت خوش ھوا اور فورن ریسپونس کیا اور میرا بہت بہت شکریہ ادا کیا اتنی سنہری خوبصورت پرانیں یادیں شئیرز کرنے پڑ ۔ یہ میسیج اسکا 23 فروری کو آیا تھا اور یہ ھی اسکا آخری میسیج تھا۔ کیونکے اسکے بعد جتنے بھی میں نے اسکو میسیج بھیجے اسنے کبھی بھی کسی پر کوئی ریسپونس یا ریپلائی نھیں دیا۔ حتی کے جو میں نے مئی میں عید سعید کے موقع پر ایک بہت ھی خوبصورت تھنیتی مبارکبادی کا پیغام بھیجا تھا اسنے اسکا بھی کوئی بھی ریپلائی یا ریسپونس نھیں دیا۔ میں نے یہ ھی سمجھا کے مبادا کے عرفان لندن نہ چلاگیا ھو بیٹیوں کے پاس اور وھاں مصروفیات کی وجہ سے واٹس ایپس نہ دیکھ سکا ھو۔ اس دوران میں نے دو تین مرتبہ اسکو واٹس ایپس کالز بھی کیں مگر کسی کا بھی مجھے اسکی طرف ریسپونس نھیں ملا۔ میں نے یہ ھی سوچ کر اپنے دل کو تسلی دے رکھی تھی کے وہ شائید پھر لندن چلاگیا اور اپنی کسی نہ کسی مصروفیات کی وجہ سے واٹس ایپس پر ریسپونس نہیں دے رھا۔ بس دل میں یہ ھی دعا کرتا تھا کے جہاں بھی ھو وہ اللہ کے کرم سے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ خیریت سے رھے آمین۔ مگر میرا یار اسطرح اچانک مجھ سے ھمیشہ کے لئیے بچھڑ جائیے گا ۔ میرے لئیے اسکے اس اچانک جانے کا غم سوہان روح بنا ھواھے
بچھڑا کچھ اس ادا سے کے رت ھی بدل گئی
ایک شخص سارے شھر کو ویران کرگیا
آج میں اپنے بہتے آنسوؤں کے سات اسکے لئیے بیحد دعا گا ھوں کے اے اللہ ۔ اے اللہ میرے دوست کے تمام صغیرہ و کبیرہ گناہ فرمائیے اور اسکو قبر اور جہنم کے عذاب سے بچائیے ۔ اے اللہ اسکے اہل خانہ اور خاصکر مجھے صبر وجمیل عطا فرمائیے آمین کیونکے میرا دل اسکی جدائی غم سے پھٹا جارھا ھے ۔ کتنا پیارا وہ شخض تھا وہ جوئی میرے دل سے پوچھے
آج میرا یہ پیارا دوست منوں مٹی کے نیچے ابدی سو رھا ھے اس سے بے خبر کے اسکے اس دوست پر اسکی جدائی وجہ سے کیا بیت رھی ھے۔ عرفان کے اھل خانہ کو بے انتہا آسانیاں فرما دے جو اپنے پیارے شوھر اور پاپا کو تیری امانت، تجھے سونپنے کے بعد اپنے درد سے نبرد آزما ہیں! ، وہ امانت جو تیری تھی اسکو بہت اور بہت محبت سے اپنی آغوش رحمت میں بھر لے، یہ سمجھنے کی توفیق دے کہ ہم بھی تیرے سفر کے راہی ہیں!ہمارے ہجر کے زخموں پر اپنے صبر، اپنی محبت کا مرہم رکھ دے اللہ! ہمیں اس کی آشنائی اور اس کی تیاری کی توفیق دے، جسے لے لیا وہ تیرا تھا جسے چھوڑ دیا وہ بھی تیرا ہی ہے، اس دل کے ٹکڑے کی محبت بھی تو نے ہی دل میں رکھی ، اور جو درد دیا وہ بھی تیرا ہی ہے ، یہ درد سنبھالنے والا بھی تو ہی ہے .. جب سب تو ہی ہے تو بس اب تو ہی آسانی کر دے، صبر بھر دے، رحم کر دے، آنکھوں میں مچلتے ان آنسوووں کے بدلے دل میں اپنا سکوں بھر دے، تجھ تک واپس پلٹنے کا ہمارا سفر بھی آسان کر دے،یا ارحم الرحمین یا اللہ تو ہی سب کے لئے کافی ہے تو ہی سب کے لئے کافی و شافی ہو جا۔الحمد للہ سمجھنے والوں کے لیئے انا للہ وانا الیہ راجعون کے مطلب میں زندگی کی حقیقت، اسکی قدر و امانت اس کی جوابدہی کا راز نہاں ہے۔ جلد یا بدیر ایک دن ہم سب مر جائیں گے اللہ پاک مرنے سے پہلے ہم سب پر زندگی کی حقیقت اس کا راز منکشف کر دیں اور ہمیں توفیق دیں کہ ہم اس عطا کو مکمل دیانتداری اور محبت سے نبھائیں۔اور دل کی گہرائیوں سے میں یہ بھی دعاگو ھوں کے اے میرے پیارے اللہ میرے پیارے عرفانی کو غریق رحمت کرے اور اسکو جنت میں عالی مقام عطا فرمائیے
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزہ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
میں اپنے ان تمام عزیز رشتے داروں ، فیس بک دوستوں اور میری یہ تحریر پڑھنے والے اپنے بلاگ دوستوں سے گزارش کرتا ھوں کے وہ میرے اس دوست کے لئے ضرور فاتحہ ودرود پڑھکر اسکو بخشیں ۔ اور مجھے اور اسکے اھل خانہ کے لئیے صبروجمیل عطا کرنے کی دعا کریں۔ نہایت ھی مشکو ر ھوں گا۔
نیازمند
غمگسار محمد طارق اظہر
جمعہ بتاریخ یکم جولائی 2022
حسن عرفان( مرحوم)
(1953-2022)
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
Comments