Regarding Sweet memories of stay in Canada and return Journey to Pakistan
سفر نامہ آمد پاکستان اور کنیڈا میں گزارے ھوئیے خوبصورت لمحات اور ایام
اسلام و علیکم
ھم لوگ ٹورنٹو کنیڈا سے راولپنڈی , پی آئی ای کی فلائٹ 782 کے زریعے ہیر 3 اکتوبر کو شام سوا پانچ بجے بخیریت پہنچ گئیے تھے ۔ 13 گھنٹے 15 منٹ کی سخت تھکا دینے والی فلائیٹ تھی۔ گھر پہنچ کر جب فیس بک کھولا اور جب خلوص دوستوں کے ، میرے 2 اکتوبر کے اس میسج کو جواب میں جو میں نے اٹاوہ کنیڈا کی روانگی سے کچھ دیر پہلے اپلوڈ کیا تھا اور پاکستان خیریت سے پہنچنے کے لئیے دعاؤں کی گزارش کی تھی ، انکی بے شمار خیریت سے پہنچنے کی پر خلوص دعاؤں کے بے شمار کمنٹس دیکھیں تو یقین جانئیے دل بھر آیا اور آنکھیں پرنم ھوگئیں اور سوچنے لگا کے ان سب دوستوں کا کیسے اور کسطرح شکر ادا کروں اور اس شکرئیے کے لئے کیا الفاظ استعمال کروں ، بحر حال میں ان سب فیس بک دوستوں کا دل کی گہرائیوں سے شکر ادا کرتا ھوں جنھوں نے ھمیں دعاؤں میں یاد رکھا اور وطن خیریت سے پہنچنے کی دعا کی ۔
کافی دن سے تھکاوٹ اور جٹ لاک میں مبتلا رھا۔ یعنی دن کو نیند آتی تھی اور رات کو جاگنا پڑتا، کنیڈا میں رھنے کے عادت کے مطابق . میری خواہش تھی میں فیس بک پر جب بھی ایکٹو ھوں ، تو میں واپسی کا سفر نامہ تحریر کرکے اور اسکو پہلے اپلوڈ کروں ۔ مگر یہ میں نہ کرسکا ایک تو ٹائیم ھی نہ مل سکا اور جب ملا تو لکھنے کا موڈ بن سکا ۔ جب موڈ بنا تو کنیڈا سے آئیے ھوئیے 10 دن ھو چکے تھے ۔ 13 اکتوبر کو اس سفر نامے لکھنے کا آغاز کیا اور آج جمعہ 21 اکتوبر کو اسکو تکمیل کیا ۔ جو زیر پیش ھے
جسطرح میں نے اتوار 2 اکتوبر کی صبح دس بجے کے قریب آپ سب لوگوں کو مطلع کیا تھا کے ھم اٹاوہ سے انشاللہ گیارہ بجے نکلیں ٹورنٹو ائیرپوڑٹ کے لئیے نکلیں جہاں سے شام 7 بجے ھماری فلائیٹ پی کے 782 راولپنڈی جانی ھے۔ تو ھم لوگ ٹھیک 11 بجے صبح سجاد کی نئی امیزنگ ٹیسلا کار [ اس ایمیزنگ کار کے متعلق میں پہلے ھی تفصیلن بیان کرچکا ھوں الیکٹریکل کار ھے جو فلی کمپیوٹرائیزڈ ھے اس میں انجن نھیں ھوتا] سے راونہ ھوئیے ۔ اٹاوہ سے ٹورنٹو ائیر پوڑٹ تک کا فاصلہ چار گھنٹے میں طے ھوتا ھے۔ ھمیں ائیر پوڑٹ شام 4 بجے تک پہنچنا تھا تاکے فلائیٹ جانے سے تین گھنٹے پہلے پہنچ سکیں . ھم لوگ پانچ گھنٹے پہلے یعنی گیارہ بجے روانہ ھوئیے اسکی وجہ یہ تھی کے درمیان اس ٹیسلا کار کی بیٹری کو دوبارہ چارج کرنا تھا جو راستے میں کنزیوم ھوچکا ھوا ھو گا۔ اور اسکا چار جنگ ٹائیم 30 منٹ 45 تک کا ھوتا ھے۔ کار میں بیٹھ کر جب میں نے اسکے کمپیوٹر ٹیبلیٹ اسکرین [ اسکوanoride panel کہتے ھیں اسکے زریعے ھی یہ الیکٹریک کار آپریٹ کرتی ھے۔ اسکی اسکرین ایسی ھے ھوتی جسطرح ایک سماڑٹ فون کی ھوتی ھے جسکے زریعے یہ الیکٹریکل کار آپریٹ آپریٹ کرتی ھے۔ اسکی فوٹو نیچے پوسٹ کردی ھے ] سائین کو دیکھا تو وہ 100% چارج پر 550 کلومیٹر سفر کرنے کی انڈیکیشن دے رھی تھی یعنی 100% فل بیٹری پر یہ 550 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرے گی [یہاں بتاتا چلوں سجاد نے نے گھر کے کار گیراج میں یہ الیکٹریکل وھیکل کار چارجر ( EV Charger) لگا رکھا ھے جو کافی costly اور insured بھی ھے جس سے الیکٹریکل کار کو چارج کیا گیا تھا ۔ سجاد اسکو رات کو کار کو چارج کرنے پر لگادیا تھا ۔ کار فلی چارج ھونے کے ای سے ڈیڑھ گھنٹہ لیتی ھے ۔ فلی چارج ھونے پر خود بخود مزید چار جنگ رک جاتی ھے ] .میں نے سجاد سے کہا کے تم تو کہہ رھے تھے یہ 100% فلی چارج پر پر 450 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتی ھے مگر یہ تو 550 دکھا رھی ھے۔ سجاد ھنسا کہنے لگا، "نھیں ابو ایسی کوئی بات یہ 550 کلومیٹر ھی 100% فل بیٹری چارج پر چلتی ھے لیکن اگر بیٹری کا رینج کم کردیا جائیے تو پھر وہ اسکے مطابق فاصلہ طے کرے گی ۔ ٹیسلا کار بنانے والوں نے یہ پرویژن رکھی ھے کے آپ بیٹری کا رینج 100% سے کم جتنا چاھے رکھ سکتے ھیں تو اسی کے مطابق فاصلہ طے کرے گی ۔ یہ کرنا فائیدہ مند ھوتا ھے کیونکے اس سے بیٹری کی لائیف بڑھتی ھے۔ شہر میں چلنے کے لئیے اسکی رینج نے 85 % تک کی میں نے پہلے رکھی تھی جسپر یہ 450 کلومیٹر تک جاسکتی تھی۔اب چونکے ھم شہر سے باھر جارھے ھیں تو میں نے 100% رکھدی جسپر اب یہ 550 کلومیٹر تک جاسکتی ھے "۔ اٹاوہ سے ٹورنٹو جانیوالی ھائی وے 401 پر چڑھتے ھی سجاد نے کار کو آٹو ڈرائیونگ پر کردیا اور میکسیمم سپیڈ 130 کلومیٹر پر فی گھنٹہ پر رکھدی۔ اب گاڑی کمپیوٹر سافٹ وئیر کے زریعے جارھی تھی اور وہ مکسیمم سپیڈ سے زیادہ نھیں چل رھی تھی۔ کار اپنے آگے جانے والی گاڑی کی اس سپیڈ کے مطابق سپیڈ کم یا زیادہ رکھ رھی تھی اور دوسری گاڑی سے مناسب فاصلہ رکھے ھوئیے تھی ۔ سجاد کا ایک ھاتھ اسٹیئرنگ پر تھا ۔ آٹو ڈرائیونگ کے دوران ھاتھ صرف سٹیئرنگ پر رکھنا ضروری ھوتا ھے ورنہ گاڑی سمجھتی ھے کے کار لانے والا سوگیا ھے اور وہ پھر خود بخود رک جائیگی ۔ اسلئیے ھاتھ اسٹیرنگ پر نہ رکھنے کی صورت میں بار بار سکرین پر میسیج موصول ھورھے تھے۔ کے اسٹئیرنگ پر ھاتھ رکھیں ۔ غرض یہ کے ھم اسطرح سفر کرتے ھوئیے شہر Belleville پہنچ گئیے جہاں پر ھم نے تقریبن ایک گھنٹے سٹے کرنا تھا , کار کی بیٹری کو ری چارج کی وجہ سے ، جو صرف مزید 236 کلومیٹر تک کے سفر کی انڈیکیشن دے رھی تھی۔ جس مقام پر ھم رکے تھے وھاں پر ٹیسلا کار کو چارج کرنے کے لئیے 18 کے قریب الیکٹریکل چارجر لگے ھوئیے تھے ۔ جو ٹیسلا کار بنانےوالوں نے ھی لگوائیے تھے۔ اسوقت اس 17 ٹیسلا کاریں پہلے سے ھی کھڑی تھیں جنکی بیٹری یاں چارج ھورھی تھیں اور ایک ھی سلاٹ خالی تھا جہاں سجاد نے کار کھڑا کرکے اسمیں الیکٹریکل وھیکل چارجر لگا دیا [یہ چارجر اسی شکل کا ھوتا جسطرح پٹرول بھرنے کا ھوتا ھے فرق صرف وہ پٹرول بھرتا اور یہ کرنٹ . آپ لوگوں کو سمجھانے کے لئیے اسکی فوٹو بھی میں نے نیچے پیسٹ کردی ھے]۔ الیکٹریکل وھیکل چارجر لگانے کے بعد ھم لوگ سامنے ایک بڑے خوبصورت مال میں چلے گئیے ۔ وھاں ایک ریسٹورانٹ سبزی والے برگرز کھائیےاور وھیں ظہر اور عصر کی قصر نمازیں پڑھیں ۔ ھمیں وھاں 45 منٹ تک تو لازمن رکنا تھا تاکے ٹیسلا کار کی بیٹری فل چارج ھوجائیے ۔ میں نے سجاد سے معلوم کیا کے ھم کو یہاں بیٹھے کیسے معلوم ھو گا کے کار کی بیٹری فل چارج ھوگئی ھے یا نہیں ۔ سجاد نے فورن اپنا سماڑٹ فون نکالا اور اس میں ٹیسلا کار کی ایپس کو کھولا اس میں کار دکھائی دے رھی تھی جسکی بیٹری چارج ھورھی اور باقاعدہ نیلے رنگ کا کرنٹ جاتا ھوا نظر آرھا تھا۔ سجاد نے بتایا جب یہ کرنٹ جانا بند ھوجائیے گا تو بیٹری فل چارج ھو چکی ھوگی پھر ھم چلیں گے ۔ جب ایپس میں کار کی فل بیٹری ھونے کو انڈیکیشن ظاھر ھوگیا تو ھم لوگ پھر مال سے واپس کار کی طرف روانہ ھوئیے ، جو اس مال سے کافی فاصلے پر کھڑی تھی سجاد ھم سب کو مال کے باھر کھڑا کرکے کار لینے چلاگیا اور تھوڑی دیر میں ھی لے کر آگیا اور ھم نے اپنا سفر ٹورنٹو کی طرف شروع کیا ۔اسوقت دن کے ڈھائی بج رھے تھے اور دو گھنٹے کا ٹورنٹو کا سفر باقی رہ گیا تھا اسلئیے چار بجے ٹورنٹو ائیرپوڑٹ پہنچنا مشکل تھا، میں کچھ پریشان ھوگیا ۔ سجاد نے کہا ابو آپ پریشان نہ ھوں ھم انشاللہ ساڑھے چار بجے تک ائیر پوڑٹ ضرور پہنچ جائیں گے فلائیٹ کے جانے کا ٹائیم تو سات بجے ھے [ٹورنٹو کے قریب پہنچنے کی سفر کی میں نے 3 منٹ کی ویڈیو بنائی ھے جو نیچے اپلوڈ ھے. ضرور دیکھئیے گا]۔ مگر ھم لوگ سوا پانچ بجے ھی پہنچ سکے ۔ ٹورنٹو شہر میں ٹریفک جام ھونے کی سبب لیٹ ھوگئیے تھے۔ ائیر پوڑٹ کے ٹرمینل 3 کے قریب جہاں سے پی آئی اے کی فلائیٹ جاتی ھے ، وھاں سجاد ھم کو اور سامان کو اتار کر اور سامان کو ٹرالی پر رکھ کر کار کو پارک کرنے ائیر پوڑٹ میں بنے پارکنگ کی جگہ لے گیا اور ھم سے جاتے ھوئیے کہہ گیا میں بیس منٹ تک واپس آجاؤں گا آپ لوگ
بوڑڈ نگ کاڑڈ لینے کے لئیے قطار میں لگ جائیں ۔ تو ھم لوگ سامان والے ٹرالی لیکر پی آئی اے کاؤنٹر کے قریب کھڑی لمبی قطار میں لگ گئیے ( اسکا فوٹو بھی میں نے نیچے پیسٹ کردی ھے ). سجاد تھوڑی دیر بعد ھنستا ھوا نمودار ھوا ۔ مجھے بھی اسکو اتنی جلدی آج آنے پر حیران ھوا ۔ وہ کہنے لگا ابو انھوں نے ٹیسلا الیکٹریکل کار کی پارکنگ کے الگ سے جگہ بنائی ھوئی ھے جو پارکنگ کے بلکل شروع میں ھے اور پر کافی جگہ خالی تھی میں جہاں میں نے اپنی ٹیسلا کار پارک کردی ۔ اسنے بتایا کے وھاں پر ٹیسلا کار والوں نے اپنا الیکٹریکل کار چارجر ز بھی لگا رکھے ھیں ۔مجھے اب بڑی آسانی ھوگئی میں یہاں سے جانے سے پہلے کار کو پھر فلی چارج کرلوں گا۔ سجاد کے آنے کے بیس منٹ بعد ھی ھمارا بوڑڈنگ کاڑڈ لینے کا نمبر آگیا ۔ بوڑڈنگ کاڑڈ لینے میں کوئی دشواری نہیں آئی ۔ سامان کا وزن بلکل صحیج نکلا جسکی اجازت تھی ۔ کیونکے ھم نے وھیل چئیرز کی استدعا پہلے سے کررکھی تھی تو ھم کو دو وھیل چئیرز مہیا کردی گئیں اسلئیے ھم کو جلدی لاؤنج میں جانا پڑ گیا ۔ سجاد سے رخصت ھوتے وقت ھم دونوں کی عجیب کیفیت ھوگئی، سجاد بھی رونے لگا میں نے دلاسہ دیا بیٹے پریشان نہ ھو انشاللہ زندگی رھی تو اگلے سال اسی موسم میں پھر کنیڈا آئیں گے ۔ آنسوؤں کے ساتھ سجاد کو خدا حافظ کہہ کر روانہ ھوئیے پہلے سخت سیکیورٹی سے گزرے پھر چھوٹی گاڑی میں بیٹھ کر پی آئی اے کے ویٹنگ لاؤنج کی طرف روانہ ھوئیے جہاں سے ھمیں جہاز میں سوار ھونا تھا۔ گاڑی سے اترتے ھی پھر وھیل چئیرز آگئیے جو ھم کو جہاز کے اندر تک لے گئیں۔ وھیل چئیر والوں کو سب سے پہلے جہاز میں داخل کیا گیا تھا۔ ھماری سیٹیں بلکل آگے تھیں اسلئیے بیٹھنے میں کوئی دقّت پیش نہیں آئی ۔ جسوقت ھم جہاز میں سوار ھوئیے تھے، اسوقت جہاز کی پرواز میں بیس منٹ باقی تھے۔ ٹھیک شام سات بجے ( اسوقت پاکستان میں 3 اکتوبر کی صبح کے چار بجے تھے) سفر کی دعا کی تلاوت کے شروع ھونے کے ساتھ ھی ، جہاز نے ٹیکسی کرنا شروع کردیا اور کوئی 15 منٹ بعد جہاز نے ٹیک آف کیا اور اپنی منزل کی طرف محو پرواز ھوگیا۔ جس جہاز سے ھم آرھے تھے وہ لاھور سے فلائیٹ نمبر 798 بن کر ٹورنٹو شام چار بجے آیا تھا اور اب فلائیٹ نمبر 782 بن کر اسلام آباد کی جانب رواں دواں تھا۔ میں کچھ دیر قرآن شریف کی آئیتیں اور درود شریف ، آئیت الکرسی پڑھتا رھا اور پھر سر کو سیٹ کے اوپر والے حصے پر ٹیک لگا کر آنکھیں بند کرکے ، سجاد کے ساتھ پاکستان اور کنیڈا میں گزرے ھوئیے لمحات میں کھو گیا اور ایک فلم میرے زھین میں چلنے لگی کے کسطرح سجاد بمعہ فیملی کیسے اٹھارہ سال کے بعد کوئی عید اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ منانے 3 جولائی کو آیا تھا۔ اس سے پہلے وہ ستمبر 2018 چھوٹے بھائی عباد کی شادی میں اور اپریل 2019 سب سے چھوٹے بھائی عماد کی شادی میں بمعہ فیملی آیا تھا ۔ وہ ھم کو اپنے ساتھ واپسی پر کنیڈا لیجانے کے لئیے ٹکٹیں بک کراکر بھی لایا تھا جبکے اسکی واپسی 29 جولائی کو تھی۔[ کچھ پہلے میں آپلوگوں کو اپنے بیٹے سجاد کے متعلق بتادوں۔ سجاد میرے تین بیٹوں سب سے بڑا بیٹا ھے ۔ اللہ نے مجھے تین بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا ھے ۔ سجاد نے 2003 میں KITT گلشن معمار کراچی BSc Honours in Computing (Software Development) کی تعلیم حاصل کی جبکے اسکی ڈگری Huddersfield University UK کی طرف سے دی گئی کیونکے KITT گلشن معمار کراچی Huddersfield University UK کے ساتھ affiliated تھا ( اب یہ ادارہ یعنی KITT گلشن معمار کراچی ، اسکے بانی سینیٹر مظہر حسین کی وفات کے بعد، غالبن 2005 یا 2006 سے بند ھو چکا ھے) اس ڈگری کی بنا پر مزید اعلی تعلیم کے لئیے سجاد کو Oxford Brookes , Oxford UK میں 2004 میں داخلہ مل گیا جہا ں سے اسنے 2005 میں M S In Computer Science امتیازی حیثیت سے پاس کیا اور ڈگری حاصل کی ۔ نومبر 2005 سجاد کی شادی ، اپنی کزن سے جو کنیڈین شہریت رکھتی تھیں ، ھوئی۔ سجاد نے پاکستان میں اپنی تعلیم کے مطابق جاب حاصل کرنے کی کوشش کی مگر نہ مل سکی اسلئیے سجاد 2006 کے اوائل میں دوبارہ یو کے چلاگیا تاکے اپنی مقصد کی جاب حاصل کرسکے ۔ یو کے کے قانون کے مطابق کسی بھی یونیورسٹی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس طالب علم کو یہ اجازت ھوتی ھے وہ یو کے میں ایک سال تک جاب کرسکتا ھے۔سجاد آکسفورڈ جاکر اپنے انھیں انڈین دوستوں کے ساتھ قیام کیا جو اسکے کلاس فیلو تھے اور وہاں انکو کوئی نہ کوئی جاب مل گئی تھی۔ سجاد بھی کسی ایسی جاب کے حصول میں کوشاں رھا جسکی اسنے تعلیم حاصل کی تھیاور ساتھ فاسٹ فوڈ میں جاب بھی کرتا رھا تاکے وہاں رھنے کی گزر اسوقت ھوجائیے۔ اس دوران وھاں کی بڑی ٹریول ایجنسی گلیور ٹریولر میں اسکے مطلب کی جاب نکلی تو اسنے وھاں اپلائی کردیا ۔ اور وھاں اسکی سلیکشن بھی ھوگئی۔ وہ انکے ٹیسٹ اور انٹرویو میں پاس ھوگیا تھا۔ پہلے اسکا نام شاڑٹ لسٹ میں آیا پھر اسی کو چن لیا گیا ۔ لیکن انکے ایچ آر ڈیپاڑٹمنٹ اسکو appointment letter دینے سے انکار کردیا کے اسکے پاس پاکستانی پاسپوڑٹ ھے اور انکے ادارے بہت اسرائیلی کام کرتے ھیں ۔ سجاد اس ہر بہت ھی مایوس ھوا میں نے اسکو دلاسہ دیا کے پریشان نہ ھو اس میں بھی کوئی اللہ کی مصلحت ھو گی۔ اکتوبر 2006 اسکو اپنے انڈین کلاس فیلو دوست راج کی وساطت سے Total کمپنی کے پیٹرول پمپ آکسفورڈ میں ماھانہ 1300 پونڈ کی جاب مل گئی جو کسی حد تک کمپیوٹر کے بارے میں تھی۔ دراصل سجاد کا انڈین راج یہاں کام کرتا تھا جب راج کو اس سے اچھی جگہ جاب ملی تو اسنے استعفے دے دیا اور سجاد کو اپنی جگہ رکھواد یا۔ایک دن آکسفورڈ میں سخت آندھی اور طوفانی بارش کی وجہ سے Total پٹرول پمپ کا کمپیوٹر سسٹم بیٹھ گیا اور اسکے Software میں خرابی ھوگئی ۔ دو دن تک اسمیں خرابی اور انکی اپنی کمپیوٹر ٹھیک کرنے والی پاڑٹی اسکا فالٹ نہ دور کرسکیں پھر انھوں کسی کے مشورے سے یہ کام سجاد کے سپرد کردیا سجاد اس کا Software دوگھنٹے میں ٹھیک کردیا ۔ اس سے وہ لوگ بہت متاثر ھوئیے انھوں نے نہ صرف اسکو ایک بونس دیا بلکے تںخواہ بھی بڑھادی۔ جب سجاد کے کنیڈا جانے کے لئیے دسمبر 2006 میں امیگریشن کے پیپرز آگئیے اور وہ وھا ں سے جانے لگا تو Total والوں نے بڑی کوششش کی وہ انکی نوکری چھوڑ کر نہ جائیے بلکے بہت زیادہ تنخواہ دینے کا بھی کہا لیکن سجاد نے تو کنیڈا آنا تھا اپنی بیگم کے پاس اسلئیے اسنے صاف انکار دیا ۔ سجاد ٹورنٹو کنیڈا دسمبر 2006 میں آگیا اور یہاں ایک سال تک بیروزگار رھا۔ لیکن اس تگ و دو کرتا رھا اور مختلف قسم کی کمپیوٹر سافٹ وئیر ریلیٹڈ کنیڈا میں جابز کے متعلق تیاری کرتا رھا اور لائبریری میں روزانہ گھنٹوں جاکر پڑھتا رھا۔ اور لوگوں نے اسکو مشورہ دیا کے وھاں کوئی چھوٹی موٹی جاب کرلے ۔ مگر سجاد کی اور اس کی بیگم کی منشاء یہ ھی تھی کے جاب تعلیم کے مطابق ھی کی جائیگی۔ آخر اسکی محنت رنگ لائی اسکو بنک آف کنیڈا ( CIBC) میں Software Developer کی کنٹریکٹ پر نومبر 2007 جاب مل گئی۔کوئی چھ مہینے کے بعد CIBC نے اسکو اسکی کارکردگی دیکھتے ھوئیے اسکو پوسٹ یعنی Software Developer پر مستقل کردیا۔ اس مستقل ھونے کے مراحل میں اسکو سخت سیکیورٹی کے مراحل میں سے گزرنا ۔ اسکے بارے میں مکمل انکوائری نہ صرف پاکستان میں اسکے قیام کی جگہوں سے کرائی گئی بلکے آکسفورڈ یو کے سے بھی کرائی گئی۔ سجاد نے یہاں دس سال سے زیادہ کام کیا اورکنیڈا میں سرکاری ملازمتوں کا امتحان 2016 میں پاس کرکے کنیڈین ریونیو ایجنسی CRA [ ھمارے ملک کی CBR کے طرز پر] میں I T Consultant کی پوسٹ پر ملازمت ملی ۔ اسکا مین کام سوفٹ وئیر ڈویلپمنٹ کے CRA کے مختلف پرجیکٹ پر کام کرنا ھے۔ 9 لوگ اس پوسٹ کے لئیے شاڑٹ لسٹ کئیے گئیے تھے جنھوں نے امتحان پاس کیا تھا اور انکا پھر سب کا سخت انٹرویو لیا گیا جسمیں خدا کے فضل سے سجاد کو کامیابی ملی اور اسکو یہ زبردست پوسٹ ملی ۔ اسکا ماھانہ مشاھرہ اتنا ھے کے پاکستان میں گریڈ 22 کا سرکاری آفیسر پاکستانی روپوں میں اسکا تصور بھی نھیں کرسکتا۔ اس سلیکشن کے بعد سجاد 2017 ٹورنٹو سے اٹاوہ شفٹ ھوگیا. جہاں CRA کا ھیڈ کواڑٹر ھے۔ اٹاوہ کنیڈا کا دارلخلافہ ھے جس میں رھنے والوں کی تعداد سرکاری ملازمین کی ھے جسطرح ھمارے ملک میں اسلام آباد میں رھنے والوں کی ھوتی ھے ]۔
ھم لوگ کنیڈا 29 جولائی 2022 کو پی آئی اے کی فلائیٹ PK -781 سے آئیے تھے [ اس سفر کے متعلق میں تفصیل سے رخت سفر کنیڈا کے عنوان سے بدھ 3 اگست 2022 فیس بک پر آڑٹیکل لکھ چکا ھوں] ۔ ھم جب اٹاوہ آئیے تھے میری طبیعت اور بیگم کی طبیعت خراب تھیں ۔ بیگم کی تو بہت خراب تھی انکو شدید ڈائیریا تھا ۔ میرا تو آنے کا ارادہ بھی بیگم کی طبیعت کی وجہ سے نہیں ھورھا تھا مگر سجاد زبردستی لیکر آگیا کے وھاں کنیڈا میں امی کا علاج بہت اچھا ھوگا۔ اور واقعی ایسا ھی ھوا کوئی تین بعد بعد انکی اور میری طبیعت بھی بلکل ٹھیک ھوگئی۔ ھمارا کنیڈا میں سجاد اور مہناز کے پاس نہایت ھی اچھا وقت گزرا۔ ھماری ان دونوں نے بہت بہت قدر اور خدمت اور بہت ھی خیال رکھا۔ سجاد اور مہناز خدمت کرنے میں بچھے جاتے تھے۔ سجاد نے ھمارے لئیے گھر میں الگ کمرہ مختص کر رکھا تھا جسکا نام اسنے ابو ، امی کا کمرہ رکھا ۔ اور اس کمرے میں خاص طور پر میرے لئیے اسنے الگ سے 55 انچ کے شارپ ٹی وی کا انتظام کر رکھا تھا سجاد کا یہ اپنا زاتی مکان تھا جو بہت ھی خوبصورت تھا جو اسنے 2019 میں بنوایا تھا ۔ جو ایک نئی کالونی جو کناٹا اٹاوہ میں بنایا گیا تھا[کناٹا اسطرح اٹاوہ میں جگہ ھے جسطرح کراچی میں ناظم آباد ، گلشن اقبال وغیرہ وغیرہ ھیں گورمنٹ نے اسکو اسکے لئیے آسان قسطوں پر loan دیا تھا۔ پہلے جب نومبر 2019 میں آئیے تھے سجاد دومہینے پہلے ھی اس مکان میں شفٹ ھوا تھا اس س پہلے وہ کرائیے کے مکان میں اٹاوہ ڈاؤن میں رھتا تھا . اس نئیے مکان کے بارے میں ، اسوقت میں نے جو آڑٹیکل لکھا تھا اس میں اسکا زکر کیا تھا۔جو سجاد نے پہلے گورمنٹ کی طرف سے loan دینے پر بنایا تھا ۔اسنے 2019 میں پانچ سال کے لئیے مشھور BMW گاڑی لیز پر لی تھی جسے اسنے اس سال ستمبر میں واپس کرکے یہ نہایت قیمتی Tesla Electrical کار لی. گورمنٹ نے اس کار کی قیمت پوری ادا کی جسکی کٹوتی آسان قسطوں پر اسکی تنخواہ سے ماھانہ کی جائیگی ]۔ سجاد نے پہلے سے ھی ھم دونوں کی قیمتی ھیلتھ انشورنس وھاں قیام کے دنوں کی کرارکھی تھی ۔ تاکے کسی ایمرجنسی یا بیماری کی صورت فوری علاج ھوسکے۔ وھاں پر ویسے علاج کروانا بہت مشکل اور قیمتی ھوتا ھے ۔ وھاں ھر ایک کی انشورنس لازمی ھوتی ھے ۔ سجاد نے پورے اٹاوہ کی سیر گرین بس کے زریعے کرائی جو اس مقصد کے لئیے گورمنٹ نے بنائی تھیں جن کی چھت پر بیٹھکر باھر کا نظارہ کیا جاتا ھے یہ پس پورے شہر میں گھومتی ھے اور اھم جگہوں اور اھم پرانی عمارتیں دکھواتی ھے [ اس مکمل سیر کی ویڈیو میں پہلے ھی آپ سب سے فیس بک پر شئیر کرچکا ھوں] ۔ ھم مانٹریال بھی گئیے اور وھاں کی بھی سیر کی جو دوسرے صوبے کیوبک میں واقع ھے اٹاوہ سےڈھائی گھنٹے کی مسافرت پر ھے ۔ اس صوبے صرف فرینچ بولی جاتی ھے ۔ چلنے سے ایک ھفتے پہلے 25 ستمبر بروز اتوار سجاد نےدنیا کا اور کنیڈا کا مشھور سرکس Koozi دکھوایا جسکا اس دن آخری شو تھا ۔ حسن اتفاق سے ایک ماہ کے لئیے یہ ستمبر کے مہینے میں یہ سرکس اٹاوہ کے قریب کے کیوبک صوبے کے ایک شہر میں لگا تھا جہاں فرینچ بولی جاتی ھے۔ ھم پانچوں نے سب سے آگے بیٹھ کر یہ سرکس دیکھا، جس کا پر پرسن ٹکٹ 200 CD ( تقریبن 34 ھزار پاکستانی روپے) تھا۔ سرکس بیحد زبردست تھا۔ انکے کرتبات دیکھ کر عقل حیران ھوگئی تھی ۔وھاں کالونی میں رھنے والے اور کچھ باھر رھنے والے کچھ پاکستانی کمیونٹی کے لوگ سجاد کے دوست بن گئیے تھے اور آپس میں فیملی ٹرمز بھی ھوگئیے تھے ۔ ھر کا ایک آپس میں بہت ایکا تھا ۔ان کا تعلق اسلام آباد کراچی اور لاھور سے تھا ۔ سجاد نے سب سے ھم کو ملوایا ۔ انکی فیملیوں کے ساتھ ھم دو دفعہ اٹاوہ کے خوبصورت مقامات پر پکنک بنانے بھی گئیے بار بی کیو کا انتظام کیا گیا ۔ انھی دوستوں ایک دوست کے گھر میں ڈنر کے دوران میری 72 ویں سالگرہ بھی 17 اگست 2022 کو منائی گئی تھی ۔ ھر ایک دوست نے ھمارے وھاں سے چلنے سے پہلے ھماری دعوت کی تحائف دئیے۔ ھمارا وھاں آخری ھفتہ ، روزانہ انکی طرف سے ڈنر کھانے میں ھی گزرا۔ چلنے سے ایک دن پہلے یعنی یکم اکتوبر بروز ھفتہ یکم اکتوبر سجاد اور مہناز نے ھمیں وھاں کے ایک بہت مشھور ریسٹورنٹ میں گرینڈ ناشتہ بھی کرایا [ میں نے ان تمام occasions کی کچھ فوٹوز نیچے پوسٹ کردئیے ھیں امید ھے آپلوگوں کو پسند آئیں گے] اور آخر دوسرے دن یعنی 2 اکتوبر بروز اتوار صبح گیارہ بجے لوگ ان سب کی پر خلوص محبت اور سجاد اور مہناز اور اپنے پوتے میخائیل کے ساتھ گزارے ھوئیے حسین لمحات کی یادیں سمیٹے ھوئیے آنسوؤں کے ساتھ , پاکستان جانے کے لئیے اٹاوہ سے ٹورنٹو ائیر پوڑٹ کی طرف روانہ ھوئیے جس کے متعلق آغاز میں بتا چکا ھوں ۔ جس طرح سجاد اور مہناز نے ھمارا خیال رکھا اور خدمت کی اسمیں ھمیں بہت ھی متاثر کیا اور دل سے بے ساختہ انکے لئیے دعائیں نکلیں [ سجاد میرا بڑا بیٹا ھے اسکی اپنے بوڑھے والدین کی خدمت دیکھ دل کو بیحد خوشی اور راحت ملی ۔ پاکستان میں میرے دو بیٹے عباد اور عماد جو میرے ساتھ رھتے ھیں وہ بھی بلکل ایسے ھی ھیں ۔ نہایت خدمت گزار گھر کی ساری زمہ داری انکے ھاتھوں میں ھے اور میں بلکل نفرام ۔ ماشالللہ سےکسی قسم کا گھر کی طرف سے کوئی ٹینشن اور پریشانی نھیں . میں جب ان بچوں کو دیکھتا ھوں کے وہ کسطرح اپنے بوڑھے والدین کا رکھتے خدمت کرتے ھیں اور کوئی زرا سی بھی تکلیف نھیں ھونے دیتے تو مجھے اپنی والدہ مرحوم کی یہ بات بار بار یاد آتی ھے جو کہا کرتی تھیں کے بیٹا جسطرح تم ھماری خدمت کرتے ھو ۔ جسطرح تم نے اپنے پا پا کی مدد کی انکی ساری زمہ داری اپنے سر لی اپنے بھائیوں اور بہن کا خیال رکھا ھم کو اور اپنی بہن کو مکانات بنواکردئیے اسی طرح تمھاری اولاد بھی تمھاری خدمت کرے گی تم دیکھو گے انشاللہ ۔ اور میں بہت خوش قسمت ھوں آج میں انکی دعاؤں کا پھل پارھا ھوں ۔ فی زمانہ اگر آج دیکھا جائیے بہت کم بچے جب بڑے ھوجاتے ھیں اور اپنا گھر بسا لیتے ھیں اپنے بوڑھے والدین کا خیال نھیں رکھتے ھیں بلکے انکو ایک بوجھ سمجھتے ھیں ۔ آپکو ایسے والدین یا بیوہ ماں یا صرف والد کی درد ناک داستانیں کسی شیلٹر ھوم ، ایدھی ھوم میں ایسے رھنے والوں سے مل جائیں گی ۔ ایسے آپکو بہت لوگ مل جائیں گے جنھوں نے اپنے والدین کی بے قدری کی اور آج انکی اولاد نے انکی بے قدری کرے انکو گھر سے نکال تک دیا۔ جیسے کو تیسا بہت ] میں آنکھیں بند کئیے ھوئیے انھی یادوں میں کھویا ھوا تھا کے مجھے ایک آواز سنائی دی کے ٹیبل کھولیں ۔ آنکھیں کھولیں تو ائیر ھو سٹس کو رات کا کھانا لئیے ھوئیے کھڑی تھی ۔ میں نے فورن ٹیبل کھولی اور اسنے اسپر کھانے کی ٹرے رکھدی۔ بائیں طرف ساتھ بیٹھے ھوئیےاپنی بیگم کو دیکھا تو پہلے ھی کھانا لے چکی تھیں ۔پی آئی اے کا کھانا دیکھتے ھی میری طبیعت نہایت مکدر ھوگئی ۔ ایک باؤل کے اندر وھی ابلے ھوئی چاول اوراس کے ایک کونے میں تھوڑی سی دال مسور اور دوسرے کونے پر چکن گیریبی ۔ اس بار نہ تو کوئی اسکے ساتھ سلاد تھی اور نہ کوئی رائتہ ۔ ایک پلیٹ میں ایک چھوٹا رول پڑا ھوا تھا ۔ میری بیگم نے اسکو کھانے سے منع کردیا کیونکے جب انھوں اسکو کھانے کے لئیے کھولا اس کے درمیان میں جو ابلا ھوا مسالے دار قیمہ تھا اس میں سے بدبو آرھی تھی۔ لگتا تھا کے کافی عرصے کا تھا باسی ھو چکا تھا۔ جیسا میں پہلے بھی 29 جولائی کو کنیڈا آتے ھوئیے آڑٹیکل میں بتا چکا ھوں کے پی آئی اے سے پاکستان ن سے سے سفر کرنے صرف ایک ھی فائیدہ ھے وہ یہ کے اسکی ڈائیریکٹ فلائیٹ ٹورنٹو کنیڈا تک ھوتی ھے ۔ ورنہ اور کچھ نھیں ۔ انٹرٹینمنٹ اور دوسری چیزوں کو آپ تو بلکل بھول جائیں ۔ [ھم نے اس وقت یہ فیصلہ کرلیا کے اگلے سال جب ھم کنیڈا جائیں گے تو پی آئی اے سے نھیں جائیں گے بلکے انشااللہ قطر ائیرویز سے جائیں گے ۔ قطر ائیر ویز کی ھفتے میں ھر دوسرے دن دوھا سے مانٹریال کنیڈا تک کی فلائیٹ چلتی ھے۔ تو اسلام آباد سے دوھا جاکر پھر وھا ں کچھ گھنٹے ٹرانزٹ قیام کرکے مانٹریال جانا پڑے گا ۔ اسلام آباد سے قطرائیر ویز کی جو فلائیٹ رات 3 بجکر 35 پر چلتی ھے وہ صحیح رھتی ھے جو صبح وھاں کے وقت کے مطابق صبح پانچ بجکر پانچ منٹ پر پھنچتی ھے اور دوھا سے مانٹریال کنیڈا کے لئیے جو فلائیٹ جاتی ھے وہ وھاں کے وقت کے مطابق صبح 8 بجکر 35 منٹ ہر چلتی ھے۔ اسلئیے وھاں پر ٹرانزٹ وقت کا قیام تقریب ساڑھے تین گھنٹے ھوتا ھے ۔ دوھا سے مانٹریال تک کی فلائیٹ بھی 13 یا 14 گھنٹے کی ھوتی ھے ائیرپوڑٹ سے سے اٹاوہ سجاد کے گھر تک کا فاصلہ کار سے تقریبن ڈھائی گھنٹے کا ھے ] . میں نے آئی پیڈ پر Netflix سے کچھ ایکشن انگلش موویز اور یو ٹیوب سے کچھ انڈین اولڈ کلاسیکل موویز ڈاؤن لوڈ کرکے save کررکھی تھیں ۔ انھی کو دیکھ کر کچھ وقت پاس کیا۔ میں نے فلائیٹ کے دوران انڈین موویز پاکیزہ ، وہ کون تھی اور سلسلہ فلم دیکھیں اور ایک انگلش فلم Un known بھی دیکھی۔ سلسلہ فلم دیکھتے کوئی ڈیڑھ گھنٹے گزرے تھے کے اسوقت اسلام آباد پہنچنے کا وقت تقریبن ڈھائی گھنٹے رہ گیا تھا کے انھوں نے ناشتہ دینا شروع کردیا، حالانکے وہ وقت لنچ کا تھا ۔ ناشتہ کچھ غنیمت تھا۔ ناشتے سے فارغ ھونے کے ایک گھنٹے بعد اسلام آباد ائیر پوڑٹ پر جہاز کے لینڈ کرنے کا اعلان ھوا اور ٹھیک شام پانچ بجکر 15 منٹ جہاز نے بخیر خوبی اسلام آباد ائیر پوڑٹ کے رن وے پر لینڈ کیا۔ اور جیسے جہاز نے دھرتی ماں کو چھوا تو ایک عجیب خوشی اور مسرت کا احساس ھوا اور خیریت سے اپنے وطن پہنچنے پر اللہ کا شکر ادا کیا۔ امیگریشن میں دیر کی وجہ سے ائیرپوڑٹ سے باھر نکلنے میں کافی دیر لگی ۔ وھاں امیگریشن میں پاکستانی پاسپوڑٹ اور فارن پاسپوڑٹ رکھنے والوں الگ الگ چار چار کاؤنٹر بنائیے گے تھے ۔ لیکن ھر کاؤنٹر پر صرف ایک ھی امیگریشن آفیسر موجود تھا۔ دونوں طرف لمبی قطاریں لگی ھوئی تھیں ۔ قطار میں کھڑے کھڑے میری تو ٹانگیں شل ھونے لگی تھیں ۔ میں بڑے غور اور غصے سے سے اس امیگریشن آفیسر کو دور سے کھڑے ھوئیے دیکھے جارھا تھا جو نہایت ھی سست روی سے ھر ایک کو کلئیر کررھا تھا ۔ اسکی بھی اچانک نظر مجھ پر پڑگئی تھی . شائید و ہ سمجھ گیا تھا اسنے دور سے ھم دونوں کو آنے کا اشارہ کیا اور ھم قطار توڑ کر اسکے پاس جا پہنچے اسنے فورن ھمارے پاسپوڑٹ لئیے اور اس پر انٹری کی مہر لگا کر ھم کو فارغ کیا ۔ سامان لینے میں ھم کو مزید دیر ھوگئی ۔ کافی دیر کے بعد خدا خدا کرکے ھمارا سامان بیلٹ پر آیا اور ھم اسکو لیکر روانہ ھوئیے اور ائیر پوڑٹ سے فلائیٹ کے آنے کے ڈھائی گھنٹے بعد نکلے ۔ باھر میرا دوسرا بیٹا عباد موجود تھا جو دوگھنٹے سے آیا ھوا تھا۔ اسلام آباد سے ھمارے گھر راولپنڈی میں ، تک کا فاصلہ تقریبن 45 منٹ کا ھوتا ھے مگر اس دن ٹریفک بری طرح جام ھونے کی وجہ سے ڈھائی گھنٹے میں گھر پہنچے۔ اور اسطرح ھمارا کل 21 گھنٹے کا سفر اٹاوہ کنیڈا سے راولپنڈی گھر تک پہنچنے کا خیریت کے ساتھ اختتام پزیر ھوا، اور ھم اللہ کا شکر بجا لائیے۔
واسلام
محمد طارق اظہر
ریٹائیڑڈ جنرل منیجر ( آپس) پی ٹی سی ایل
راولپنڈی
Dated 21st October 2022
To see pics please click here
Comments