Special Article :- [ A Great Tribute to Muhammad Waliullah Khan (Tamgha Imtiaz, Tamgha Pakistan & Satara-e- Pakistan ) , a Renowned Archaeologist, Ex-Director Archeological & Conservation, Department of Archeology Government of Punjab Pakistan]


        مرحوم نانا  جناب محمد ولی اللہ خان  صدر پاکستان جنرل ضیاالحق مرحوم  سے ستارا امتیاز  پاکستان موصول کرتے ھوئیے
                          
نوٹ:-  میں  نے  اپنے  عظیم مرحوم نانا  جناب محمد ولی اللہ خان ، ایک عظیم شخضیت اور معروف ماھر آثار  قدیمہ کے بارے میں   8 ستمبر 2022   کو ایک  آڑٹیکل تحریر کیا تھا جن میں انکے  مختصرن کار ھائیے نمایاں بیان کئیے تھے ۔ اب یہ اسپیشل آڑٹیکل میں انکو خراج تحسین پیش کرنے کے لئیے تحریر کررھا ھوں   انکے  عظیم کردار اور پاکستان میں آثار قدیمہ کے تحفظ کے  لئیے انکی  بہت سی ناقابل فراموش کاوشیں اور کار ھائیے نمایاں  کو اجاگر کررھا ھوں جو میرے علم میں  لائی گئیں ھیں اور  ساتھ ساتھ انکی ایک  مختصر سوانح حیات  ( biography) اور  اپنے ساتھ کی انکے  بیتے ھوئیے لمحات   ، کی یادیں اور باتیں بھی  قلمبند کررھا ھوں ، جو میرے لئیے ایک سرمایہ کی حیثیت رکھتی ھیں ۔  پڑھنے والے تمام فیس بک فرینڈز سے  ایک میری زاتی درخواست ھے وہ  میرے اس اسپیشل  طویل   آڑٹیکل کو  ضرور  مکمل پڑھیں ۔ نہایت ھی مشکور ھونگا۔
شکریہ 
( طارق) 

 زیر عنوان   :- عظیم خراج تحسین . . .  “مرحوم جناب محمد ولی اللہ خان ( تمغہ امتیاز، تمغہ پاکستان ، ستارا پاکستان سابق ڈائریکٹر کنزرویشن اینڈ آرکیالوجی گورنمنٹ آف پنجاب پاکستان  کو . . جو ایک عہد ساز  اور ھمہ گیر شضیت  . . . معروف ماھر پاکستان آثار قدیمہ   ، جنھوں  نے  پاکستان تہذیبی اور ثقافتی ورثے  کے تحفظ اور فروغ میں گراں قدر کار ھائیے نمایاں انجام دئیے ۔”

ھزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ھے
 بڑی مشکل سے ھوتا ھے چمن میں دیدہ ور پیدا

اسلام و علیکم 
محترم جناب  محمد  ولی اللہ خان  مرحوم میرے  نانا ( میری  مرحومہ والدہ کے ماموں )   تھے جو پاکستان کی ایک  بیحد اھم مقتدر  اور ھمہ گیر شضیحت تھے  جن پر ھمارا خاندان بہت ھی فخر کرتا ھے۔ انکو نئیے دور  کے   بہت ھی کم  لوگ ، شائید  ھی جانتے ھوں گے  ۔وہ  پاکستان کے معروف ماھر پاکستان آثار قدیمہ   تھے انھوں نے تہذیبی اور ثقافتی ورثے  تھے کے تحفظ اور فروغ میں گراں قدر کام کیا تھا ۔ مرحوم  محمد ولی اللہ خان  قدیم عمارتوں کی بحالی اور تحفظ  کے فن میں خصوصی مہارت رکھتے تھے ۔ انھوں نے موہنجوداڑو، ھڑپہ اور مردان سے حاصل ھونے والے نوادر کے تحفظ کے سلسلے میں میں نہایت قابل قدر کام کیا تھا۔ ملک کے طول و عرض واقع آثار قدیمہ آثار قدیمہ خصوصن مغلیہ دور کی عمارتوں کی  مرمت  اور بحالی میں شبانہ روز  محنت کرکے انھیں آئندہ نسلوں کے لئیے محفوظ کرنے کے سلسلے میں بہت ھی کام کیا تھا۔ ان عمارتوں میں شاھی مسجد  ، ٹھٹھہ کی قدیم عمارتیں شہنشاہ جہانگیر ، ملکہ نورجہاں  اور آصف خان کے مقبرے ، باشاھی مسجد لاھور ، قلعہ شاھی لاھور اور شالیمار باغ  خاص طور پر قابل زکر  ھیں ۔  انھوں نے بہت سی آثار قدیمہ کی عمارتیں اور مقبرات دریافت کئیے ۔ انھوں نے چاکر اعظم  ، بلوچوں کے عظیم سردار  کا مقبرہ جو لاھور سے اوکاڑہ جاتے ھوئیے ایک مقام ستگراں میں  مدفون تھا ، انھوں نے  ھی دریافت کیا تھا جو نھایت ھی مخدوش حالت میں تھا ۔جسکی بعد میں مرمت حکومت پاکستان نے کرائی تھی ۔ حکومت پاکستان نے  اس انکی گراں خدمت کے اعتراف میں  انکو  1962 میں تمغہ امتیاز،  1971  میں تمغہ پاکستان  اور 1983 میں ستارہ امتیاز  سے  بھی نوازا تھا ۔  انکو  ستارہ امتیاز  23 مارچ 1996 کو اسوقت کے پاکستان کے صدر جنرل محمد ضیا الحق  نے عطا کیا تھا [ اس کی  یادگار تصویر  میں نے اوپر پیسٹ کردی گئی ھے ]۔ملتان میں تغلق دور کی یادگار عمارت مزار حضرت شاہ رکن مکمل بحالی اسی قدیم طرز  کی، انکا ایک نمایاں کارنامہ تھا۔ اس کے صلے میں انکو 1983 میں  آغا خان بین الاقومی ایوارڈ  برائیے فن تعمیر ( آثار قدیمہ ) دیا گیا تھا اور انکو  1986 میں لوک ورثہ طلائی تمغہ بی دیا گیا تھا
انھوں  نے پاکستان کے آثار قدیمہ کافی  تحقیقی کتابیں بھی  تصنیف جنھیں علمی حلقوں میں بڑی قدرو منزلت حاصل ھوئی تھی ۔  انکی ایک اسی طرح کی تحقیقی کتاب کا جاپانی ترجمع بھی ھوا تھا جو غالبن  پشاور میں  آثار قدیمہ بدھ مت کے بارے میں تھی ۔میرے علم  انکی تنصیف کردہ مندرجہ زیل  صرف تین کتابیں اب تک آئی ھیں ۔ 
 1.Lahore and Its Important Monuments
     Authored by Muhammad Wali Ullah Khan
      1st Published in 1st January 1961
2. Governor’s House Lahore 
      Authored by Muhammad Wali Ullah Khan
      Published in 1983
3. Ancient  Pakistan Vol 1 1964
    (Sikhs Shrines in West Pakistan)
   Authored by Muhammad Wali Ullah Khan
 [نوٹ :- پہلی کتاب Lahore and Its Important Monuments ایموزون ( Amazon) پر آن لائین آج بھی دستیاب ھے ۔ جسکی قیمت 36 USD   ھے ۔ اور دوسری کتابیں بھی آن لائین دستیاب ھیں  ]
انھوں نے  شاھی قلعے  لاھور میں مہاراجہ رنجیت سنگھ   مشہور حکمران پنجاب  کی نسبت سے میوزیم  1965 میں قائیم کرایا ۔ جسمیں انھوں نے اسکے  زمانے    والے استعمال ھونے جنگی ھتھیار ، تلواریں ، تیر، بندوقیں وغیرہ وغیرہ اور دیگر مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زیر استعمال ھونے والی  قیمتی اشیاء    بیڈ ،  صوفے کرسیاں اور ڈھول ، باجے   اور دیگر اسکے زیر استعمال ھونے والی دیگر اشئیاء رکھی تھیں  ۔ نانا نے کا اسمیں ایک بڑا کارنامہ یہ تھا کے انھوں نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سب سے محبوب سفید گھوڑی   جسکا نام “اسپ لیلی”  تھا ، کی طرح ایک گھوڑی بڑی مشکل سے تلاش کی اور اسکو مروا کر   سٹف کرکے  میوزیم میں ایک شیشے کے  شو کیس میں کھڑا کردیا  ۔ اور اس گھوڑے  اسی طرز کے سونے زیورات  و آرائیش سے آراستہ کیا  اس   میوزیم  کے قیام پر   تقریبن دنیا بھر کی  سب سکھ کمیونٹی  نے اس بہت  ھی سرا ھا تھا ۔   مہا راجہ رنجیت سنگھ کی پوتی ، نے جو اسوقت حیات تھی  ، اور اس  کے پاس کے مہا راجہ رنجیت سنگھ کی محبوب گھوڑی اسپ لیلی پر آراستہ کئیے ھوئیے تمام سونے کے زیورات موجود تھے   اس نے یہ  سب  سونے کےزیورات   اور آرائیشیں نانا کو بھجوائیے تھے ۔ لیکن نانا  ولی اللہ خان صاحب نے وہ تمام  سونے کے زیورات،  کے کہیں یہ چوری نہ ھوجائیں وھیں سیف میں  احتیاط سے لاک کرکے رکھ دئیے  تھے اور اسی طرز کے  سونے کے آڑٹیفیشئیل زیورات   اس سفید سٹف گھوڑی   کو پہنا دئیے [ مہاراجہ رنجیت سنگھ اس گھوڑی “اسپ لیلی “ پر سوار تصویر  اور  میوزیم میں شو کیس  میں موجود اس طرز کی گھوڑی   سٹف کی تصویر ، میں نے والی آخیر میں نیچے پیسٹ کردی ھیں اس  ایمیزنگ میوزیم کے میں جس میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی اس محبوبہ گھوڑی اور مہاراجہ کی نایاب چیزیں موجود ھیں اسکے  بارے میں  یو ٹیوب پر بھی سات منٹ کی ویڈیو موجود ھے جسکا لنک ھے   
https://youtu.be/xdueHSB8CAc . 
مہاراجہ رنجیت سنگھ  کی اس محبوب گھوڑی اسپ لیلی  کی کہانی بھی بڑی عجیب ھے . مہاراجہ رنجیت سنگھ  نے اسکے حصول کے لئیے  اس نے ۱۲ ھزار  لوگوں کی قربانی اور اس زمانے کی ساٹھ لاکھ رقم خطیر  خرچ کی تھی ۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ   خوبصورت عورتوں اور خوبصورت گھوڑوں کا بیحد شوقین  اور دلدادا تھا جہاں اسکے حرم  میں اپنی کئی کئی خوبصورت بیویاں  تھیں اور  انکے ساتھ لاھورکی کئی کئی  خوبصورت طوائیفیں  بھی رھتی   تھیں وھیں  اس کے اصطبل میں  بیش بہا خوبصورت  قیمتی گھوڑے موجود ھوتے تھے ۔ایک دفعہ اسکو دربار میں  یورپ سے  آنے  ایک  فوجی افسر چارلز ھیگل  کی زبانی معلوم ھوا کے پشاور کے حاکم یار محمد بارگزئی کے پاس ایک  شیریں نامی نہایت نایاب اور خوبصورت گھوڑی ھے ، مہاراجہ نے اپنے وزیر کے زریعے  یار محمد بارگزئی کو یہ پیغام بھجوایا  کے وہ گھوڑی اسکے حوالے کردی جائیے مگر  یار محمد بارگزئی  صاف مکر گیا کے اسکے پاس ایسی کوئی گھوڑی ھے۔ مگر مہاراجہ کے دل سے اس گھوڑی کا خیال بلکل نھیں نکلا بلکے اس کے دل میں اسکے طلب کا  اشتہا بڑھتی گئی ۔ اس نے چند اپنے خاص مخبر  پشاور بھیج دئیے جنھوں نے اس گھوڑی کی ،پشاور کے حاکم یار محمد بارگزئی کے پاس ھونے کی موجودگی کی اطلاع دی ۔مہاراجہ رنجیت سنگھ اپنےایک  خاص فوجی جنرل کو ھزاروں فوجیوں کا دستہ دے کر پشاور روانہ کیا اور اسکو حکم دیا کے وہ ھر قیمت پر  وہ گھوڑی  حاکم یار محمد بارگزئی سے  لیکر آئیں چاھے جنگ ھی کیوں نہ کرنا پڑے ۔ حاکم یار محمد بارگزئی نے گھوڑی دینے سے صاف انکار کردیا جسکی وجہ سے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوج  کو اس سے  سخت جنگ لڑنا پڑی  جسمیں 12000 فوجی مارے گئیے  حاکم یار محمد بارگزئی کو شرمناک شکست ھوئی  ۔تب مجبوراً اس کو یہ گھوڑی مہاراجہ رنجیت سنگھ کے حوالے کرنا پڑی  تھی ۔  کہا جاتا ھے حاکم یار محمد بارگزئی جو اس گھوڑی سے بیحد محبت کرتا تھا اس نے اپنا خوبصورت بیٹا اس گھوڑی کے بدلے مہاراجہ رنجیت سنگھ کو دینے کی پیشکش کی تھی۔ ]۔جس  سفید گھوڑی کا سٹف تیار کیا گیا تھا  اسے   بڑی تگ و دو   کے بعد تلاش کیاگیا تھا تاکے اسی طرز کی سفید گھوڑی مل سکے جس طرح مہاراجہ رنجیت سنگھ کے پاس تھی ۔ جب اس ملنے ولی ایسی گھوڑی کو مار کر اسکا سٹف تیار کیا گیا تھا  تو  اسوقت محکمہ انسداد تحفظ جنگلی حیات   اور فشریز پنجاب نے نانا ولی اللہ  خان کے خلاف کریمنل کیس  بھی کردیا تھا ۔ جس سے نانا بہت پریشانی کا شکار ھوگئیے تھے۔ مگر خدا کا شکر ھے  محکمہ نے خود ھی کیس واپس لے لیا تھا۔
 نانا محمد ولی اللہ خان  نے اہرام مصر  کے بارے میں طرز معلومات دینے کے طریقہ  کار  جو وھاں رائیج ھے ، اسی کو اپنایا اور ویسا ھی شاھی قلعے  لاھور میں شروع کروایا۔ نانا کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کے جو آثار قدیمہ کی عمارت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ھوجاتی وہ اسی طرز کا اور تقریبن اسی طرح کا میٹریل  کا انتظام کرکے  اسی طرز  کا چاھے وہ باشاھی مسجد کی مرمت ھو یا شالیمار باغ  میں فواروں کے اطراف میں چہل قدمی کی جگہ ھو یا کوئی مقبرہ ھو ۔  ملتان میں تغلق دور کی یادگار عمارت مزار حضرت شاہ رکن  کی مرمت انھوں نے بلکل ویسے ھی کروائی تھی جیسے وہ پہلے تھی  اور اسی طرز کی اینٹیں وغیرہ لگوائیں تھیں ۔ اور سارا کام اپنی نگرانی میں  کروایا تھا ۔ وہ  اس کام کو  چیک کرنے کے لئیے ھر ھفتے   لاھور سے  ملتان جایا کرتے تھے ۔ اس مزار کی  مرمت  1979  میں شروع ھوئی تھی اور تکمیل  1980میں ھوئی  تھی۔یہ بتایا جاتا ھے   اس مزار  کے Tomb کی مرمت ھورھی تھی  تو وہ خو د ، ضعیفی کے  عالم میں  اس Tomb  پر  اکثر چڑھ جایا کرتے تھے اور ھر ایک  ایک چیز  کا  بڑی ھی باریک بینی سے معائینہ کرتے  زرا سا بھی کوئی فرق پچھلے دور سے ، محسوس کرتے اسکو دوبارہ  بنواتے۔ ملتان میں تغلق دور کی  اس تاریخی یادگار عمارت مزار حضرت شاہ رکن مکمل بحالی اسی قدیم طرز  کی، انکا ایک نمایاں  اھم کارنامہ تھا۔ اس کے صلے میں انکو آغا خان بین الاقومی ایوارڈ  برائیے فن تعمیر ( آثار قدیمہ ) سے بھی نوازا گیا تھا[میں اس ایوارڈ کے متعلق اوپر آغاز میں پہلے ھی بتا چکا ھوں ] انھوں بھٹو کے دور داتا دربار شریف میں ایک سونے کا بڑا دروازہ  مغل طرز کابھی لگوایا تھا  جو دیکھنے سے تعلق رکھتا ھے ۔ 
نانا محترم ولی اللہ خان صاحب  کو نہ  صرف اپنے ملک میں پائیے جانے والے آثار قدیمہ  اور اسکی کا مکمل  تاریخی علمی عبور  حاصل تھا  بلکے دنیا کے بیشتر   ممالک کے آثار قدیمہ اور اسکی تاریخی حیثیت کے بارے میں مکمل علم حاصل تھا۔ خاصکر ترکی اور مصر کے آثار قدیمہ کے متعلق پورا علم تھا ۔ انکو ترکی کی حکومت نے ایوڑڈ سے  بھی نوازا تھا ۔انکو اسلامی  مکمل تاریخ اور قرون اولہ کے مسلمانوں  کے بارے مکمل علم حاصل تھا   میری نظر میں محترم  نانا آثار قدیمہ کی معلومات رکھنے والے چلتے پھرتے انسائکلوپیڈیا تھے۔ میں نہیں سمجھتا ان جیسے معروف آثار قدیمہ کا ماھر اب کوئی بھی پاکستان میں موجود ھو ۔اور جو انھوں نے  پاکستان  تہذیبی اور ثقافتی ورثے  تھے کے تحفظ اور فروغ میں  جو گراں قدر کام کیا ھے وہ کوئی اور سرانجام دے سکے  جو  نہایت ھی قابل ستائش  ھے۔  جب ھی حکومت پاکستان نے  انھیں کبھی ریٹائیرمنٹ نہیں دی اور وہ آخیر اپنی وفات  تک گورمنٹ سروس کرتے رھے . اور انکو وھی  گورمنٹ کی مراعات حاصل رھیں جو گریڈ 22 کے گورمنٹ آفیسر کو حاصل ھوتی ھیں ۔ انکی وفات تقریبن نوے برس کی عمر میں 29  فروری 1992  کو لاھور  ھی میں ھوئی اور وہ میانی قبرستان میں میں مدفون ھوئے .
نانا محمد  مرحوم ولی اللہ خان نے  1903 شاھجہانپور  گاؤں  ضلع میرٹھ یو پی انڈیا میں جنم لیا تھا۔ وہ دلا زاک پٹھان تھے   [  اس گاؤں کی  زمین  کا قطعہ سن 1600 ء  میں مسلمان مغل بادشاہ شاہجہان نے اپنے   بہادر  پشتون دلا زاک پٹھان  بہادر سپاہ سالار  محمد عباس خان  کو عطا کیا تھا ۔ جب ھی تو اسکا نام شاہجہانپور  رکھا گیا تھا۔  اس گاؤں کی تعمیر 1632 میں شروع ھوئی تھی  اب بھی اس  گاؤں میں بیشتر  دادا محمد عباس خان کی ھی اولادیں آباد ھیں ۔ ان میں سے کافی  ھجرت کرکے پاکستان آگئیے تھے  جن میں سے بیشتر کراچی  میں اور کم تعداد میں پشاور ، لاھور   راولپنڈی اور ملتان میں  سکونت پزیر ھیں ۔  چونکے میرے آباؤ اجداد بھی دلا زاک پٹھان تھے  اسلئیے ھم بھی دلا زاک پٹھان  ھی کہلاتے ھیں ۔ میرے  مرحوم والد  صاحب پہلے کوئیٹہ ، پشاور میں نوکری کی وجہ سے  وھاں رھائیش پزیر تھے لیکن ریٹائیرمنٹ کے بعد مستقل طور پر کراچی  آکر آباد ھوگئے تھے ]۔ نانا محمد  مرحوم ولی اللہ خان نے 25  سال کی عمر میں ، بھارت  کے قدیم انجئینرنگ  کالج  ڑوڑکی سے سول انجینئیرنگ میں  ڈپلومہ حاصل کیا تھا۔ یہ  روڑکی کا مشھور قدیم  انجئینرنگ  کالج  ، ایشیا کا پہلا انجئینرنگ کالج تھا جو 1853 میں قائیم ھوا تھا ۔ روڑکی شہر بھارت کے صوبے اتھرا کنڈھ  ، ضلع ھری ڈیوار میں واقع ھے ۔ نانا برٹش گورمنٹ کے آثار قدیمہ کے ڈیپاڑٹمنٹ  میں بطور سپروائیزر بھرتی ھوئیے تھے۔ اور  1928 میں انکی پوسٹنگ پشاور ھوگئی تھی وہ انھی علاقوں میں پوسٹ رھے  جو آج پاکستان میں شامل ھیں اسوقت اسکو مغربی پاکستان کہتے تھے ۔ نانا محمد ولی اللہ  خان کے کوئی اولاد نھیں تھی ۔ ان کے بھتیجے خانزادہ انعام اللہ خان ، جو انکے بڑے بھائی حکیم اللہ خان کے بیٹے تھے جو خود تو ھندوستان میں رہ گئیے تھے ان کے بڑے بیٹے   خانزادہ انعام اللہ پاکستان آگئیے تھے اور پاکستان ائیر فورس کے شروع میں پائیلٹ گئیے  سیلیکٹ ھوگئیے تھے اور بعد انھوں دوسال  کے بعد ائیر فورس  سے استعفے دے دیا اور اپنا کاروبار شروع کردیا ۔  نانا محمد ولی خان نے انکی بہت ھی مدد کی  اور انکی کفالت کی ۔    بطور سگے بھتیجے پاکستان میں وہ نانا محمد ولی خان کی وفات  فروری 1992 کے بعد وھی انکی جائیداد کے وارث بنے ۔  ماموں خانزادہ انعام اللہ خان کا انتقال دسمبر 1996 میں جب ھوا تو اسکے بعد انکے تین بیٹے خانزادہ عظمت اللہ خان   ،  خانزادہ رحمت  اللہ خان    خانزادہ حشمت  اللہ خان  نانا محمد ولی خان کی جائیداد کے وارثین بنے۔  نانا محمد ولی اللہ خان  نے اپنے ھم زلف عبدل واحد خان [ جو میری والدہ کے بھانجے ] کی بیٹی شبنم کو بچپن سے ھی گود لے لیا تھا جب وہ بہت چھوٹی تھی  اور اسکی پرورش نانا اور نانی نے کی ( نانی ، شبنم بہن کی سگی خالہ تھیں ) ۔ انھوں نے شبنم  بہن کو ، جو رشتے میں میری بھانجی لگتی ھیں ، پا لا پوسا  بڑا کیا اور  پہت ھی اچھی جگہ شادی کی۔  مرحوم نانا کے متعلق تقریبن جتنی باتیں ، جن میں سے کچھ اوپر بیان کرچکا ھوں سب انھوں نے ھی مجھے بتائیں جو میں زیر تحریر لایا  ھوں ۔ شبنم  بہن ایک نہایت  اچھی ، نیک  اور نہایت ھی خلوص طبیعت  کی مالک ھیں۔  مرحوم نانا  محمد ولی اللہ خان  انکو بے حد  ھی چاھتے تھے ۔ وہ نانا کے لئیے ایک سرمایہ حیات تھیں۔
 نانا  محمد ولی اللہ خان بیشتر ملازمت کا  حصہ پشاور صوبہ سرحد  (آج کا خیبر پختون خواہ ) میں گزرا  تھا ۔ چونکے انکا محکمہ آثار قدیمہ اسوقت سنٹرل گورمنٹ کے اندر تھا  اسلئیے  اس محکمےکے زمے  ان تمام علاقوں ، جو مغربی پاکستان ( آج کا پاکستان)  میں کھدائی کے زریعے نمودار  آثار قدیمہ کی عمارتیں اور کھنڈرات کی حفاظت اور مزید ان پر تحقیق  اور  مزید کھدائیاں  وغیرہ  کرکے   انکو حاصل کرنا تھا ۔پشاور  جو ایک بہت ھی قدیمی شہر تھا ، نانا بتاتے تھے کے انکے دور میں کھدائی کے زریعے پشاور  اور ٹیکسیلا اور  اسکے گرد و نواہ سے  کافی اھم  آثار قدیمہ کی چیزیں  اور نوادرات دریافت ھوئیں  تھیں جن میں عمارتیں ، کنویں سڑکیں اور  مقبرے شامل تھے اور بہت سے قیمتی نودرات  جو کھدائی کے زریعے ملے  تھے وہ  پشاور  اور ٹیکسیلا میوزیم   رکھ دئیے گئیے تھے اب بھی موجود ھیں  ۔  ٹیکسیلا  سے جو  نودرات کھدائی میں ملے ان میں بدھ مت کے اثرات کافی نمایاں تھے ۔انھوں نے اس ہر بہت ریسرچ کی تحقیقات کیں  اور انکے ریسرچ کردہ نوادرات، انکی تحریر کردہ description کے  ساتھ پشاور میوزیم اور ٹیکسیلا میوزیم  میں موجود ھیں  [ ٹیکسیلا میوزیم  میں ڈسپلے بوڑڈ پر انکی اس علاقے پوسٹنگ کی  مدت 1928 تا 1954 ، دوسرے نمبر پر لکھی ھوئی ھے  ]۔ نانا  مرحوم محمد ولی اللہ خان پشاور کے گندھارا  آڑٹ پر  بہت تحقیقات کی اور آکے متعلق ایک کتاب بھی تنصیف کی ( نا نا نے اس تنصیف کے بارے میں مجھے بتایا تھا مگر کتاب کا نام نہیں بتایا ، یا شائید وہ بتانا بھول گئیے ھوں )۔ 
16 نومبر 1978 کو وہ جب میری شادی میں  وہ اور نانی شرکت کے لئیے پشاور آئیے تھے ، جو میرے لئیے بڑی ھی اعزاز کی بات تھی ،  تو پشاور سے راولپنڈی تک راستے میں جو بھی آثار قدیمہ کے کھنڈرات نظر آتے اسکے بارے مکمل معلومات دیتے رھے ۔ ایسے  بیشتر آثار قدیمہ  پشاور ، خیر آباد، اٹک  ٹیکسیلا  میں سڑک کے اطراف نظر آئیے تھے 
  14 اگست 1947 کو پاکستان کے قیام کے بعد  1954 میں نانا محمد  مرحوم ولی اللہ خان کی تبادلہ  پشاور سے  لاھور ھوگیا تھا۔ وہ 
سپر ٹینڈنٹ ویسٹ پاکستان سرکل آرکیالوجی ڈیپاڑٹمنٹ لاھور   کی پوسٹ پر تعینات ھوئیے تھے ۔وہ   اسلام پورہ لاھور ( کرشن نگر )   میں کلیم میں ملی ھوئی  26 ھیرن روڈ ہر کوٹھی میں رھائیش پزیر ھوئیے ۔ انکی اس کوٹھی پر دلا زاک منزل  پر نام کا کتبہ لگا ھوا  ھے  اس پر  نا نا کا نام  بمعہ انکو دئیے گئیے تمغات اور ایوارڈ  کنندہ ھیں ۔ اسکی بھی تصویر میں نے نیچے پیسٹ کر رکھی ھے۔  [انکی اس کوٹھی کے سامنے  مسجدظل نبی ھے جسکو بیشتر نانا نے ھی بنوایا تھا اور اسکا نام ظل نبی اسلئیے رکھا گیا کے خواب میں اس مسجد  میں حضرت محمد صلی و علیہ وسلم کو نماز پڑھتا دیکھا گیا تھا ] .نا نا  محترم  محمد  مرحوم ولی اللہ خان صاحب کو یہ شرف حاصل تھا  کے  حکومت  پاکستان  نے انکو ھر غیر ملکی سربراہان کے لاھور کے دورے پر انکو لاہور میں قائیم قدیمی  یادگاروں کی سیر کرانے کے لئیے کی میزبانی کے لئیے مقرر کر رکھا تھا  تاکے  انکو اسکی تاریخ کے بارے مکمل  تفصیل کے ساتھ روشناس کراسکیں  ان میں  اکثر  باشاھی مسجد لاھور ، قلعہ شاھی لاھور اور شالیمار باغ شامل  ھی ھوتے تھے [میں نے نانا محمد  مرحوم ولی اللہ خان صاحب کے ساتھ چند  غیر ملکی سربراہان کے ساتھ بادشاہی مسجد کی سیر کرتے ھوئیے کی فوٹو گرداس نیچے پیسٹ کردئیے ھیں ، جن  میں نہرو اسوقت کے وزیراعظم بھارت، چانسلر جرمنی،  اسوقت کے امریکی صدر جان  ایف کنیڈی کی وائیف کے 1962 کے دورے پاکستان  اور ریٹائیڑڈ امریکی صدر جمی کارٹر، اور  ، جنھوں نے 1961 میں پاکستان کا دورہ کیا تھا ، شامل ھیں ۔ ان بیشتر دوروں میں اسوقت کے صدر فیلڈ مارشل ایوب خان بھی شامل تھے ۔ ملکہ برطانیہ کی فوٹو  نانا محمد  مرحوم ولی اللہ خان صاحب سے ھاتھ ملانے کی بھی موجود ھے جسمیں  اسوقت کے صدر فیلڈ مارشل ایوب خان بھی موجود ھیں ] ۔ ملکہ پرطانیہ الزبتھ دوم ،  نانا محمد  مرحوم ولی اللہ خان صاحب کے علم اور آثار قدیمہ کی معلومات سے بیحد متائثر ھوئیں  تھیں ۔ انھو ں برطانیہ واپس جاکر  نانا  کو ایک تعریفی خط  اور اسکے  ساتھ اپنی اور اپنے شوھر ڈیوک آف ایڈنبرا کے پورٹریٹ فوٹو بھیجی تھی [ اس تعریفی لیٹر کی کاپی اور پورٹریٹ  فوٹو کی کاپی بھی میں نے نیچے پیسٹ کردی ھے ۔ دراصل  نانا  مرحوم محمد  ولی اللہ خان صاحب کو خراج تحسین پیش کرنا کا یہ خیال مجھے ابھی  ملکہ پرطانیہ الزبتھ دوم کی 8 ستمبر 2022 کو انتقال کی وجہ سے آیا ھے ۔ جسکو  میں نے  8 ستمبر   کو 2022 کو رقم کیا تھا ]۔نانا نے ان سب غیر ملکی سربراہان  اور دیگر اھم شخصیات کے باشاھی مسجد  میں جانے کے لئیے ریکسین اور چمڑے کے  بڑے  بڑے جوتے  بنوائیے تھے تاکے وہ  وہ لوگ اپنے جوتو ں سمیت یہ جوتے پہن کر مسجد میں داخل ھوں   تاکے مسجد کا تقدس برقرار رھے۔ انکے بہت سے غیر ملکی حکمرانوں سے زاتی دوستی بھی ھوگئی تھی ۔  سعودی عرب کے  بادشاہ  شھید شاہ فیصل سے انکی اچھی خاصی دوستی تھی ۔ مجھے اچھی طرح یاد ھے جب 25 مارچ 1975  کو شاہ فیصل کو شہید کیا گیا تو نانا مرحوم  ولی اللہ خان صاحب نے  مسجد ظل نبی میں ، مغرب کی نماز کے بعد شاہ فیصل کی شہادت کا اعلان روتے ھوئیے کیا تھا اور کہا تھا کے “آج عالم  اسلام   کا  بہت بڑا نقصان   ھوا  ھے جو  ایک عظیم ھستی سے محروم ھوگیا اور خصوصن  پاکستان  کا جو ایک عظیم اسلام پسند دوست سے محروم ھوگیا۔  شاہ فیصل شہید پاکستان سے بیحد گہری محبت کرتے تھے اپنے دور میں انھوں نے پاکستان کی مدد کی تھی ۔1973 عرب اسرائیل جنگ  میں بھٹو صاحب کے کہنے پر انھوں نے سعودی عرب کی امریکہ اور یورپ میں تیل کی مکمل بندش کردی تھی جس سے پوری  دنیا میں بلے بلے پڑ گئی تھے  ۔
نانا مرحوم  ولی اللہ خان صاحب نہایت بردبار،  غرور اور تکبر سے بلکل پاک  درویش صفت  نفیس انسان تھے ۔ وہ اپنے خاندان کے لوگوں سے پہت محبت کرتے تھے خاصکر وہ لوگ جو ھندوستان سے ھجرت کرکے پاکستان آگئیے تھے ۔ انھوں ایسے بہت سے آنے والے لوگوں کی   کفالت کی   اور انکو بسنے میں مدد فرمائی تھے۔  انکی بہت خواہش تھے کے خاندان کے جو لوگ ھجرت کرکے پاکستان آئیں ھیں  ۔ انکی پاکستان میں پیدا ھونے والی اولادیں ، بہت پڑھیں لکھیں اور ایک مقام پیدا کریں ۔ وہ میری تعلیمی  کئیرئر،  قابلیت اور ھر امتحان کو امتیازی حیثیت سے پاس  کرنے پر بیحد خوش تھے ۔ وہ میرا بہت ھی regard کرتے تھے۔ اپریل 1970 میں جب میں نے پشاور بوڑڈ سے ایف ایس سی ( پری انجئینرنگ )  امتیازی حیثیت سے فرسٹ ڈویژن میں پاس  کیا اور انکو خط لکھ کر اطلاع دی مجھے اس کامیابی  انھوں نے جو ابن مجھے فورن خط لکھا [جو آج تک میرے پاس محفوظ ھے ] اور اس میں اپنی خوشی کا اظھار کرتے مجھ پر بیحد فخر کیا اور نصیحت کی میرے لئیے اب انجئینرنگ کی ڈگری حاصل کرنے کے ، انجئینرنگ کے دروازے کھل جائیں گے  [اس زمانے میں جو بھی ایف ایس سی چاھے پر ی انجینئرنگ  ھو یا پری میڈیکل ، فرسٹ ڈویژن سے پاس کر لیتا اس کو انجئنئیرنگ کالج یا میڈیکل کالج میں داخلہ ملنا یقینی ھوتا تھا تھا ۔ داخلے کے لئیے کوئی بھی انٹری ٹیسٹ وغیرہ نھیں ھوتے تھے ۔ فرسٹ  ڈویژن کا مطلب 60% یا اس سے زیادہ  نمبرز لینا ھوتے تھے]  اور لکھا کے مجھے امید ھے کے تم اپنا یہ حدف بھی  اپنی اس انتھک محنت سے حاصل کرلو گے  اور مجھے تم پر ھمیشہ فخر رھے گا اسلئیے میں بڑی محنت اور جانفشانی  سے اپنا مقصد حاصل کرنا پڑے گا اور اسی طرح کامیابی حاصل کرنی پڑے گی  جسطرح میں ھمیشہ سے  تم حاصل کرتے آئیے ھو۔  جب دسمبر 1974 کو میں نے بی ایس سی انجئینئرنگ ( الیکٹریکل )  ڈگری کا فائنل امتحان فرسٹ ڈویژن اعزاز کے ساتھ پاس کیا   [فرسٹ ڈویژن 60% نمبرز یا اس سے زیادہ لینے پر حاصل ھوتی تھی جبکے  80%  نمبرز یا اس سے زیادہ   حاصل ھونے پر  ڈگری پر فرسٹ ڈویژن  اعزاز سے پاس کرنا لکھا جاتا ھے( First Division with Honour’s )] او انکو آگاہ کیا تو نانا بےحد خوش ھوئیے اور انھوں نے اپنی بے پناہ دعائیں دیتے ھوئیے مجھے اور میرے والدین کو مبارکباد دیں اور خاندان کے لئیے قابل فخر قرار دیا تھا۔ اور مجھے گورمنٹ سروس جائین کرنے کی نصیحت کی ۔ [اور میں نے انھی کی نصیحت پر   عمل کرتے ھوئیے ، 1976 کا فیڈرل پبلک کا امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کرکے میرٹ پر 1977  میں پاکستان ٹیلی ٹیلیگراف اینڈ ٹیلیفون ڈیپاڑٹمنٹ میں فرسٹ کلاس گریڈ 17   کے آفیسر اسسٹنٹ ڈویژنل انجینئر کی پوسٹ پر تعینات ھوا۔ حالانکے اس  سے پہلے جنوری 1975 سے پاکستان ٹیلی ویژن میں بطور ٹی وی انجئینیر کام کررھا تھا اور میری پوسٹنگ 
پشاور ٹیلی ویژن سینٹر  میں تھی جہاں  پر میری تنخواہ گورمنٹ کی 17 گریڈ کی پوسٹ کی تنخواہ سے تقریبن دوگنی تھی  ]
۱۵ مارچ ۱۹۸۱ کو نانی کے انتقال کے بعد نانا ولی اللہ  خان وہ بلکل  ٹوٹ پھوٹ کر رہ گئیے تھے۔ انکو اپنی جیون ساتھی  کے  جس سے وہ 
بے پناہ محبت کرتے تھے، انکے جدا ھونے کا  انکو بہت ھی شدید صدمہ تھا اور وہ نہایت ھی افسردہ  اور غمگین رھنے لگے تھے ۔ وہ روزانہ  صبح آفس جاتے ھوئیے نانی کی مرقد  [ جو میانی صاحب قبرستان میں ھے۔ نانا نے اپنے اور نانی کی قبروں کے لئیے   پہلے سے ھی ایک جگہ  مختص کرا رکھی تھی  جو قبرستان میں ایک  چھوٹے احاطے کے اندر تھی   اور اس احاطے کے اوپر  پر چھت بھی تھی۔ یہ احاطہ میانی صاحب قبرستان کے  درمیان میں بلکل شروع میں  ، لب سڑک ھے   یہ وھی   سڑک  چو برجی  س مژنگ  چورنگی  کو  ملاتی ھے   ]  ضرور رکتے  اور  قرآن شریف ایک پارہ  پڑھکر انکو   لازمن  بخشتے تھے ۔ آندھی ھو طوفان یا  بارش ھو یا اور کوئی وجہ بھی ھو انکا اسی طرح  نانی کی مرقد پر  روزانہ جاکر فاتحہ اور ایک پارہ پڑھنا انکا لازمی امر تھا۔ [ ایک دفعہ  اسی قبرستان کے  ایک گورکن کا اخبار میں ایک بیان آیا تھا جسنے بتایا  کے لوگ اپنے پیاروں کی قبروں پر فاتحہ پڑھنے اکثر  عید اور شب  برات پر ھی  آتے ھیں لیکن میں گزشتہ پانچ سالو ں  دیکھ رھا ھوں دو لوگ  ایک عورت اور اپنے شوھر کی قبر پر اور  ایک میرے نانا  ، نانی  قبر پر بلا ناغہ روزانہ  آتے  تھے فاتحہ اور قرآن شریف پڑھتے تھے]   ۔نانا کبھی دوپہر یا شام کو جب انکا دل گھبراتا تھا تو وہ  دوبارہ نانی   کی مرقد پر فاتحہ پڑھنے  چلے جاتے  کئی دفعہ ایسا ھوا کے اگر انکو شام کو  یا اور کسی وقت نانی کی قبر پر فاتحہ پڑھنے جانا ھو او کار یا اسکا  ڈرائیور  موجود نہ ھو ڈرائیور  ھو تو مجھے فون کرکے بلالیتے اور انکو میں اپنے ویسپا سکو ٹر پر پیچھے بٹھا کر  قبرستان لے جاتا تھا، اور پھر واپس گھر لی آتا تھا۔ [ ان دنوں میں نواں کوٹ سمن آباد میں رھائیش پزیر تھا۔ میری پہلی پوسٹنگ  یکم اگست 1979 اسسٹنٹ ڈویژنل انجینئر فون ( جنرل )  سینٹرل ایکسچینج لاھور ھوئی تھی ۔  میرا لاھور میں قیام جون 1982 تک رھا۔ 6 جولائی 1982 میرا ٹرانسفر بطور ڈویژنل انجینئر فون  کوئیٹہ کردیا گیا تھا ۔ کوئیٹہ میں میرا قیام دسمبر 1985 تک رھا اور پھر میرا ٹرانسفر ڈی ای ٹیسٹنگ کراچی اور پھر مارچ 1986 میں کنٹرولر   ٹیلگراف سٹور کراچی ھوگیا تھا ] ۔ کوئیٹہ میں رھائیش کے دوران میرا بہت  کم لاھور جانا  ھوا . ایک یا شائید دو بار گیا تھا۔لیکن جب بھی گیا انکے آفس جاکر انکو سلام کرنا نھیں بھولتا تھا۔ لیکن  جب میں کراچی میں کنٹرولر ٹیلیگراف پوسٹ  ھوا تو مجھے  اکثر دو تین مہینوں  میں سرکاری کام سے لاھور  یا اسلام آباد جانا ھوتا تھا، جب بھی میں  لاھور جاتا چاھے ایک دن کے لئیے بھی ،  انکے  آفس جاکر  انکی قدم بوسی کرنا اپنا اولین فرض سمجھتا تھا ۔ وہ بہت  ھی خوش ھوتے  اور دعائیں دیتے تھے ۔ انکے انتقال سے  تقریبن ڈیڑھ مہینے پہلے  [ انکا انتقال 29 فروری 1992 کو تقریبن نوے برس کی عمر میں ھوا تھا]۔ جنوری  1992 کے دوسرے ھفتے میرا تین دن کے لئیے , سرکاری کام کے سلسلے میں جب میرا کراچی سے لاھور جانا ھوا ۔ تو میں میٹنگ سے فارغ ھوکر سیدھا انکے پاس انکے آفس شام تین بجے  کے قریب چلاگیا [ غالبن 15 یا 16 جنوری کی تاریخ تھی ]۔ مجھے معلوم تھا کے نانا اسوقت آفس میں ضرور بیٹھے ھوں گے اور کام کررھے ھونگے۔ وہ آفس میں دیر تک بیٹھا کرتے تھے۔ کام اور کام کرنا انکا بیحد شوقین  مشغلہ تھا[ایک دفعہ جب میں سرکاری دورے پر  کوئیٹہ سے لاھور آیا تھا اور  حسب عادت انسے ملنے انکے آفس گیا تھا تو انسے میں نے یہ ھی درخواست کی تھی کے نانا اب آپ آرام کریں , یہ نوکری چھوڑ دیں ، آپ بہت ضعیف ھوچکے ھیں ۔ وہ میری بات سن کر پہلے  تو وہ مسکرائے اور پھر مسکرا کر ھی کہنے لگے  میں تو کمبل کو چھوڑنا چاھتا ھوں لیکن کمبخت یہ کمبل مجھے  چھوڑتا ھی نہیں . پھر کچھ دیر بعد خود ھی  مسکرا کر فرمانے لگے بیٹا اسی کام کرنے کی وجہ سے میں اب تک زندہ ھوں ۔ کام ھی میری خوراک ھے جس دن میں نے کام کرنا چھوڑ دیا اس دن میں  مر جاؤں گا]. جب میں انکے آفس میں داخل ھوا تو میں نے دیکھا کے بڑے ھی انہماک سے سرجھکائیے بائیں ھاتھ میں محدب عدسہ اور دائیں ھاتھ میں قلم پکڑے ھوئے ایک کاغز پر کچھ تصیح کررھے تھے ۔ انکے ھاتھ میں پہت رعشہ تھا اور وہ ھاتھ لکھتے ھوئیے کافی ہل رھا تھا۔ انکے ساتھ ھی سکا اسٹنٹ ساتھ سرجھکائیے کھڑا اس کاغز کو دیکھا جارھا تھا جو اسنے ھی ٹائیپ کرکے انکے پاس لایا۔ میں نے اور پہنچتے ھی انکو سلام کیا انھوں نے فورن سر اٹھا کر دیکھااور اپنا سارا کام روک کر اپنے اسسٹنٹ کو کاغز دے  چلتا کردیا اور خود فورن کھڑے ھوگئیے اور مجھ کو گلے لگاتے ھوئیے بولے بیٹا تم کب آئیے . . اس بار کافی عرصے کے بعد آئیے ھو۔ میں نے عزر بیان کرتے ھوئیے انکو بتایا کے میرا 
اسلام آباد   آنا جانا اب کافی ھوتا ھے اور لاھور بہت کم . اب میں سٹور کے متعلق میٹنگ کے سلسلے میں آیا ھوا ھوں کل میری واپسی ھے۔ انسے اس دن پھر  میں نے گزارش کی نانا پلیز آپ  اب آرام کیا کریں ۔  لیکن انھوں نے بڑی زو معنی بات کہی  میں جلد ھی مکمل آرام پر جانے والا ھو ں[جسکو میں اسوقت سمجھ نہ سکا۔ کیونکے ٹھیک اس دن سے ڈیڑھ مہینے بعد  ھی انکا انتقال 29 فروری 1992 کو ھوگیا اور وہ مکمل آرام پر چلے گئیے تھے] ۔ میں اس دن  آدھا گھنٹہ انکے پاس بیٹھا ھونگا اور انسے رخصت کی اجازت مانگی وہ مجھے اپنے آفس کے کمرے سے باھر تک چھوڑنے آئیے . درمیان میں انھوں نے ضرور یہ مجھ سے کہا کے بیٹے  کیا گاڑی تم کو  چاھئیے۔ میں نے انکا شکریہ ادا کرتے ھوئیے کہا کے نہیں نانا میرے پاس سرکاری گاڑی اپنے ڈیپاڑٹمنٹ کے سزوکی کیری ھے  اور ڈرائیور بھی ھے [یہاں آپ لوگوں کو بتاتا چلوں کے جب بھی پرائیویٹلی طور پر لاھور جانا ھوتا می لاھور میں اپنے کاموں کے سلسلے میں انسے سرکاری  گاڑی مانگ لیا کرتا تھا اور وہ ھمیشہ مجھے سرکاری گاڑی ڈرائیور کے ساتھ دے دیا کرتے۔ وہ ھی ھمیشہ اس سورت میں مجھے اپنی اس سرکاری گاڑی میں ائیر پوڑٹ یا ریلوے اسٹیشن ڈراپ کرواتے] ۔ مجھے نھیں معلوم تھا میں اس دن نانا سے آخری بار مل رھا ھوں ۔ نہ جانے کیوں اس دن میری آنکھیں نم ھوگئیں اور میں بڑے ھی بوجھل دل سے انسے رخصت ھوا۔
۲۹ فروری ۱۹۹۲ بروز اتوار  صبح ساڑھے آٹھ بجے قریب  مجھے لاھور سے  فون پر نانا محمد ولی اللہ خان کے انتقال کی خبر ملتی ھے ۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ، اور بتایا جاتا ھے  ظہر کی نماز کے بعد انکی تدفین کی جائیگی ۔ اسوقت میں آفس جانے کے لئیے تیاری کررھا تھا[یاد رھے ان دنوں ھفتہ وار آفس سے چھٹی جمعہ کو ھوتی تھی . ] میں فورن اپنے ڈائیریکٹر اسٹور کراچی کو انکے گھر پر فون  کو اسکی اطلاع دے کر بتاتا ھوں میں لاھور جارھا ھوں مجھ ایمرجنسی کی تین دن کی چھٹی دی جائیے اور سٹیشن چھوڑنے کی اجازت بھی ڈائیریکٹر صاحب میری عرض فورن ھی منظور کرلیتے ھیں اور مجھے لاھور جانے کی اجازت دے دیتے ھیں ۔ میری خواہش تھی کے مجھے کسطرح  دس بجے صبح کی  پی آئی ای  لاھور جانے والی فلائیٹ مل جائیے ۔ میرے گھر سے کراچی ائیرپوڑٹ کا فاصلہ کوئی شاہ فیصل روڈ سے  چالیس منٹ کا تھا۔ لیکن اس دن میں صبح کے رش کی وجہ سے  میں ائیر پوڑٹ 50 منٹ میں نو بجکر 45 ہر پہنچتا ھوں۔ اسوقت تک پی آئی کے کاؤنٹر بند ھوچکے تھے اور فلائیٹ دس بجے روانہ ھونے والی تھی ۔ سخت کوفت اور دکھ ھوتا ھے ۔ پھر مجھے ایک نجی ائیر لئیے کی 12:30 بجے دوپہر کی  فلائیٹ ملتی ھے ۔ شائید ائیرو ایشیا تھی یا کوئی اور مجھے ٹھیک طرح سے یاد نھیں ۔ وہ فلائیٹ تقریبن پونے دو بجے دوپہر لاھور ائیر پوڑٹ پر لینڈ کرتی  ھے ۔ میں دل میں میں اندازہ کر چکا تھا کے ا ب مجھے نماز جنازہ نھیں مل سکے گا اسلئیے میں ٹیکسی سے سیدھا میانی صاحب قبرستان  کے لئیے روانہ ھوتا ھوں  کے شائید مجھے نانا کی مرقد پر مٹی  ھی ڈالنے کا موقع مل جائیے ۔ کوئی 25 یا تیس منٹ میں میانی صاحب قبرستان   پہنچ جاتا ھوں ۔ وہ جگہ تو مجھے معلوم تھی جہاں نانا کو انھوں نے دفنانا تھا ۔ نانا دفنا دئیے جا چکے تھے اور وہ اپنی شریک حجت، جن سے وہ بے پناہ محبت کرتے تھے انکے پہلو میں ابدی نیند سو رھے تھے۔ مجھے اس کا بھی سخت قلق ھوتا ھے  کے یہاں بھی میں لیٹ پہنچا اور وہ لوگ نانا کو دفنا کر جا چکے تھے ۔ انکی کی قبر کی مٹی گیلی تھی اور اسپر گلاب کے پھولوں کے ھار پڑے ھوئیے۔ میری آنکھ میں آنسو آجاتے ھیں یہ سوچ کر کے نا تو میں انکی نمازہ جنازہ پڑھ سکا ، نہ ھی  انکا آخری دیدار  کرسکا اور نھی انکو دفناتے  وقت  مٹی  بھی نہ ڈال سکا۔ میں نانا کی قبر  کے سامنے سرجھکائیے کھڑا آنکھیں بند کئیے ھوئیے پہلے کچھ کلام پاک کی سورتیں پڑھتا ھوں پھر فاتحہ اور درود شریف پڑھ کر بہتے آنسوؤں کے ساتھ انکی  بخشش کے لئیے دعا کرتا ھو ں کے اللہ انکو اپنی جوار رحمت میں جگہ دے اور کروٹ کروٹ جنت عطا فرمائیے آمین۔ اور ساتھ یہ علام اقبال کی اپنی والدہ مرحومہ لئیے انکی نظم کے آخری اشعا ر سے انمیں بند کئیے بار بار پڑھنے لگتا ھوں 
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے 
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کر ے

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے 
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کر ے. . . . . . . 

اسوقت جب  فاتحہ درود پڑھکر کر بند آنکھوں کے ساتھ مندجہ بالا اشعار  ھلکی آواز میں بار بار پڑھے جارھا تھا تو ایک واقعہ میرے ساتھ پیش آیا ۔ اس واقعہ کا زکر میں نے کبھی کسی سے  آج  تک نہیں کیا شائید میرے زھین سے نکل گیا ھو یا مجھے بلکل یاد ھی نہیں رھا۔ آج جب میں جب یہ تفصیل لکھ رھا ھوں  تو مجھے یہ  سب کچھ یاد آگیا۔ ھوا یوں کے جب میں سرجھکائیے آنکھوں  میں آنسوؤں کے ساتھ یہ سب کچھ پڑھ رھا تھا کہ  تو مجھے اپنے پیچھے سے حق اللہ ، حق اللہ کی زوردار آواز  سنائی  دیتی ھے ، پیچھے مڑ کر دیکھتا ھوں تو مجھے ایک بابا جی نظر آتے ھیں جن کے سر پر  پھٹی پرانی سبز رنگ کی ایک ٹوپی ، پیوند لگا ھوا  لمبا کرتا ، گلے میں موٹے موٹے دانوں کی ایک مالا سرمئی رنگ کی ، ھاتھ کی ھر انگلی میں موٹی موٹی انگھوٹیاں  اور بائیں ھاتھ میں ایک بڑا سا کالے رنگ کا کشکول ۔ وہ  مجھ کو مخاطب ھوکر پنجابی میں کہتے ھیں “ پتر روداں  کیوں  اے۔  اے بوت وڈا آدمی سی ، ولی اللہ سی ، اللہ نوں بوت پیارا سی  تے اب اللہ کولوں چلاگیا” [ بیٹا روتے کیوں ھو ۔یہ بہت بڑا آدمی تھا ، ولی اللہ  تھا ، اللہ کو  بہت پیارا تھا اب اللہ کے پاس چلاگیا]. میں  اس بابا جی کی باتیں  سن کر کچھ مسکرایا اور پھر نیچے مڑ کر اپنا بٹوا نکالنے لگا  اور اس میں سے سرجھکائیے کر پیسے نکالے اور بابا جی کو دینے کے لئیے سر کو  اٹھایا ، تو  حیرت کی انتہا نہ رھی کے وہ با با جی وھا ں پر موجود ھی نہیں  تھے ۔ پتہ نھیں بٹوے سے پیسے نکالنے کے عمل کے دوران کہاں غائیب ھو گئیےتھے  مجھے بہت حیرت ھوئی تھی مگر میرے زھین میں اسکی یہ بات  بار بار گوجنے لگی  کے “نانا بہت ھی بڑے آدمی تھے ، ولی تھے” ۔اس میں کوئی شک نھیں نانا بہت بڑے آدمی تھے اور ولی تھے انکا نام ھی  جب ھی ولی اللہ خان تھا  تو وہ کیسے ولی نہ ھوتے ؟؟؟ مگر مجھے بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ھے کے کچھ انکے اپنے   سگے لوگ  بھی انکی اتنی قدر  اور خدمت  نہ کرسکے جسکے وہ حقیقتن حقدار تھے کیونکے انکی کوئی اپنی اولاد نھیں تھی [ وہ زندگی میں  یہ بات بڑی ھی اچھی طرح سمجھتے تھے اور انکو  اس بات کا بیحد دکھ تھا ۔ مجھے کئی بار انکی باتوں اسکا  اندازہ ھوجاتا تھا  ۔ وہ مجھ سے بڑے کھل کر بات کرتے تھے ۔ میرا لاھور میں  قیام بسلسلہ ملازمت جولائی 1979 جون 1982 تک رھا اور جولائی 1982 میرا  کوئیٹہ بحیثیت ڈویژنل انجئینئر فون کوئیٹہ ٹرانسفر ھوگیا تھا . تو ان تین سالوں کے دوران میرا نانا محمد ولی اللہ خان  سے بہت قرب  رھا تھا  جس دوران مجھے یہ  سب   اندازہ ھوا تھا ۔اس سے پہلے مجھے کچھ اندازہ  تو  بہت پہلے  1977 میں ھی ھوچکا تھا.  یہ دسمبر   1977 کی بات ھے  ان دنوں  میں ٹی اینڈ ٹی ھریپور  ٹریننگ کالج کی طرف  سٹیڈی ٹور پر  گروپ کے ھمراہ لاھور آیا ھوا تھا  ۔  سٹیڈی ٹور کے سلسلے میں پشاور اور کراچی بھی جانا تھا۔ ھمارے گروپ کا پہلے لاھور جانے اور اسکے بعد کراچی اور اور پشاور جانے کا پروگرام دیا گیا تھا   میرا قیام اپنے گروپ کے ساتھیوں کے ھمراہ لاھور کے ایک ھوٹل میں تھا ۔ سارا سفر  اور قیام کا خرچہ گورمنٹ کی   طرف سے تھا. ھمارا قیام لاھور میں پانچ دن کا تھا ۔ اس دوران میری کوشش ھوتی کے میں روزانہ نانا محمد ولی اللہ خان سے انکے کوٹھی میں جاکر مل کر آؤں اور انکی قدم بوسی کروں ۔ ان پانچ دنوں  کے ٹور میں میں چار دن لازمن گیا تھا جہاں تک مجھے یاد پڑتا ھے۔ ایک شام میں جب میں انسے ملنے پہنچا تو میں نے دیکھا کے وہ اپنے بڑے کمرے میں صوفے پر بیٹھے کچھ سی رھے ھیں ۔ میں نے انکو سلام کیا اور پوچھا نانا کیا کررھے ھیں ۔ میری طرف دیکھ سلام کا جواب دے کر  مسکرائے بولے بیٹا میں اپنا اور تمھاری نانی کے پاسپوڑٹوں کا پارسل بنا رھا ھوں  جو میں نے آج ھی پی آئی کی فلائیٹ سے کراچی اپنے دوست کو بھجوانے ھیں جو مجھے  وھاں سے سعودی عرب کی ایمبسی سے عمرے کا ویزا لگوا کر بھجوائیے گا  ۔ میں نے کہا یہ پارسل آپ خود کیوں بنارھے ھیں ۔ ھنسنے لگے کہنے لگے میرا کون ھے جو میری مدد کرے ۔ سارے  اپنے کام مجھ   تو خود ھی کرنے پڑتے ھوں ۔ اولاد  بڑھاپے کا سہارا ھوتی ھے  اور  بدقسمتی سے میں اس نعمت سے محروم ھوں  ۔ میں نے دیکھا یہ کہتے ھوئیے انکی آنکھیں کچھ نم سی ھو گئیں ۔ پھر کہنے لگے اب مجھے اسکو  پی آئی کارگو آفس  جو ائیرپوڑٹ پر ھے لے  جانا پڑے گا تاکے آج دس بجے رات کی پی آئی کی کراچی جانے والی فلائیٹ سے  نکل جائیے( اس زمانے میں  پارسل اور دستاویزات کم وقت میں بھیجنیں والی کمپنیاں جیسے آجکل ٹی سی ایس اور  اسی طرح کی دیگر کمپنیاں  ھیں،  نھیں تھیں)۔ تمھاری نانی  اپنی بہن کے ساتھ ڈرائیور کے ساتھ کسی سے ملنے گئیں ھوئیں ھیں  ۔ وہ آجائیں تو میں پھر میں ڈرائیور  کے ساتھ ائیر پوڑٹ جاؤں گا  “. میں یہ سن کر فورن بول پڑا  نانا  نھیں  . . نھیں  ۔ آپ نہ جائیں   یہ پارسل مجھےدیں میں اسکو پی آئی اے کارگو آفس لے کر جاکر ڈ سپیچ کرواؤں گا  ۔ میں نے دیکھا وہ میری بات سن کر بہت خوش ھوئیے  اور بولے بیٹا ٹھیک ھے گاڑی آ لینے دو تو پھر تم ڈرائیور کے ساتھ چلے جانا . میں نے کہا نھیں نانا پتہ نھیں نانی کب آتی ھیں اور ایسا نہ ھو دیر ھوجائیے  اور فلائیٹ نکل جائیے ۔میں رکشے سے جاکر  ڈسپیچ کر آؤں گا ۔ نانا نے مجھے اسکے فیس کے پیسے دئیے اور میں رکشے پارسل لیکر روانہ ھوا اور تیس منٹ میں   اسلام پورہ ( کرشن نگر ) سے لاھور ائیرپوڑٹ پہنچ گیا جو آجکل پرانا ائیر پوڑٹ  کہلاتا ھے ۔کارگو آفس والوں نے اس پارسل کو کھول کر پاسپوڑٹ دکھانے کا کہا جو میں نے بڑی مشکل سے کھولا    اور انکو دکھایا پھر اسکو ری پیک کیا اور انکے حوالے کیا انھوں  نے اسکی فیس لیکر مجھے رسید تھی ۔ میں ائیر پوڑٹ سے بس کے زریعے واپس اسلام پورہ نانا کے پاس آیا اور انکو رسید دی۔ نانا بہت خوش ھوئیے اور بہت دعائیں دیں ۔ اسوقت تک نانی نھیں آئی تھیں اور میرا  پارسل پہلے لیجانا بہت سود مند ثابت ھوا اور اسی رات کی پی آئی کی کراچی کی فلائٹ سے نکل گیا ]. مجھے یہ انکشاف کرنا پڑ رھا ھے کے نانا محمد ولی اللہ خان اپنی زندگی میں ھی وہ اپنے ان وارثین سے بہت شاکی اور ناراض نظر آتے تھے ، جن کا زکر اوپر کرچکا ھوں کیونکے ان لوگوں نے انکی زات سے تو بہت فائیدہ اٹھایا مگر وہ انکی خدمت اور عزت اسطرح نہ کرسکے جسکے نانا  حقیقتن حقدار تھے اور انسے اسی طرح کی امید رکھتے تھے۔ یہ وارثین جو آج انکی جائیداد پر آج عیش کررھے ھیں   انکو تو اتنی بھی توفیق  تک نہیں ھوئی کے کم ازکم  کے وہ نانا مرحوم ولی اللہ خان  کی ان اھم تصانیف کے مکمل  مسودوں کو پرنٹ کر  کتابی شکل میں ھی پبلش کروا دیتے  جو نانا اپنی زندگی میں نہ  کرواسکے تھے .ان اھم تصانیف کا عوام کو بیحد فائیدہ ھوتا اور اھم معلومات آشکارا ھوتیں جنکی وجہ سے نانا  مرحوم ولی اللہ خان قدرو منزلت کا  میں اور بھی اضافہ ھوتا[  جہاں تک میرے علم ھے دو اھم مسودے تو مکمل  ھوچکے تھے ایک  شائید مکمل ھونا رہ گیا تھا،  جسکا زکر اوپر کر چکا ھوں جب میں آخری بار انسے  جنوری 1992  انکے آفس میں ملا تھا  ، وہ اسی پر کام کررھے تھے ]۔ 
میں اپنے اس مضمون کا اختتام نانا مرحوم ولی اللہ خان کے لئیے   ان مشہور شاعران امیر مینائی  اور  غالب کے ان مندجہ زیل اشعار پر کرتا ھوں اور   ساتھ ھی آپ سب لوگوں سے در خواست کرتا ھوں کے وہ مرحوم کے لئیے فاتحہ اور درود کریں اور دعا کریں کے اللہ تعالی نانا مرحوم ولی اللہ خان  کو غریق رحمت کرے اور کروٹ کروٹ جنت الفردوس عطا فرمائیے آمین!

ھوئیے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

سب کہاں کچھ لالہ وگل نمایاں ھوگئیں 
خاک میں کیا سورتیں ھوں گی کہ پنہا ھو گئیں

واسلام
 محمد طارق اظہر
ریٹائیڑڈ جنرل منیجر ( آپس) پی ٹی سی ایل
راولپنڈی
آغاز  مضمون  :- بتاریخ 27 ستمبر 2022  بمقام اٹاوہ کنیڈا
اختتام مضمون :-بتاریخ 31 اکتوبر 2022 بمقام   راولپنڈی 

To see attached Photos , Pl click the following



Comments

Popular posts from this blog

.....آہ ماں۔

Article-173 Part-2 [Draft for non VSS-2008 optees PTCL retired employees]

‏Article-99[Regarding clerification about the registration of the Ex-PTC employees of any capacity with EOBI by PTCL]