Article-160[ Regarding HSCP order of dated 6th October 2022 on the appeal of VSS Non Pensioners, which has been dismissed ]
Article-160[ Regarding HSCP order of dated 6th October 2022 on the appeal of VSS Non Pensioners, which has been dismissed ]
[Attention all such VSS Retired Non Pensioners ، appointed in T&T Department or in PTC ]
موضوع : وی ایس ایس نان پنشنرز اپیلنٹس کے خلاف سپریم کوڑٹ کے ۶ اکتوبر ۲۰۲۲ کےفیصلے کا معاملہ جو مسترد کردی گئیی. . . . . ایک نہایت ھی غلط فیصلہ
عزیز دوستو
اسلام و علیکم
آج سے تقریبن ۲ ماہ قبل ۳ نومبر ۲۰۲۲ ڈیڑھ بجے دوپہر کے قریب مجھے واٹس ایپس پر جناب خالد شیرازی صاحب، سابق ڈویژنل انجینئیر ہی ٹی سی ایل ، جو خو دبھی ایک وی ایس ایس -۲۰۰۸ نان پینشنر ھیں ، کی طرف سپریم کوڑٹ کے اپیلنٹس نان پنشنرس وی ایس ایس ریٹائیڑڈ پی ٹی سی ایل ملازمین کے خلاف 6 اکتوبر 2022 فیصلے کی پی ڈی ایف کاپی موصول ھوئی[ اس فیصلے کی کاپیوں کے اسکرین شاٹس میں نے نیچے پیسٹ کردئیے ھیں ] اور اسکے ساتھ انکا ایک آئیڈیو میسیج بھی ملا۔ جس میں انھوں نے مجھ سے گزارش کی کے میں اس فیصلے پر اپنی رائیے دوں کے کیا اسکے خلاف رویو اپیل کی جاسکتی ھے یا نھیں اور اگر کی جاسکتی ھے تو اسکے کیا گراؤنڈ ھونے چاھئیں؟.میں نے 6 اکتوبر 2022 کا یہ سپریم کوڑٹ کا فیصلہ بڑے غور سے تفصیل کے ساتھ پڑھکر انکو آئیڈیو میسیج کے ھی زریعے انکو بتایا کے اس فیصلے میں جو اپیلنٹس خلاف دیا گیا ھے بظاھر تو اس فیصلے نہ تو کوئی ایسی غلطی نظر نھیں آتی ھے جسکو انگلش میں flouting error کہتے ھیں ، نہ ھی کوئی typing mistake اور نہ کوئی ایسا بظاھر کوئی نکتہ نظر آتا ھے جسکو اپیلنٹس نے اپنی اپیل میں تو شامل کیا ھو اور عدالت میں بھی discuss کیا گیا ھو اور اپیلننٹس کے وکلاء نے بھی ان پر بحث بھی کی ھو لیکن عدالت نے اسکو بلکل ignore کردیا ھو اور اسکا جواب عدالت نے اپنے اس فیصلے میں نہ دیا ھو اور مجھے اس میں ایسا بظاھر کوئی ماضی کے عدالتی فیصلوں کا کوئی ایسا غلط ریفرنس نظر نہیں آتا جسکو کو quote کرکے معزز عدالت کو اپیلنٹس کی یہ اپیلیں مسترد کرنا پڑیں ۔ تو میں یہ سمجھتا ھوں کے جب اس عدالتی فیصلے میں ایسی کوئی بھی اغلاط شامل نہیں ، تو اس فیصلے کے خلاف رویو پٹیشن فائیل کرنا سود مند ثابت نہیں ھوگا کیونکے رویو پٹیشن دائیر کرنے کے لئیے اپیلنٹس کو کن وجوھات ( grounds) کا سحارا لینا پڑے گا . ھاں اگر اپیلنٹس یہ سمجھتے ھیں کےانھوں نے اپنی ان اپیلوں میں کسی اھم نکتے/ پوئینٹ کی نشاندھی کی تھی جو انھوں نے پہلے اپنی پٹیشنوں میں سندھ ھائی کوڑٹ میں 2017 میں دائیر کی تھیں [ یاد رھے ان اپیلنٹس کی تمام پٹیشنیں سندھ ھائی کوڑٹ نے 19 دسمبر 2019 خارج کردی تھیں جب ھی تو انھوں نے یہ اپیلیں اس سندھ ھائی کوڑٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کوڑٹ میں جنوری 2020 میں دائیر کی تھیں ] مگر سندھ ھائی کوڑٹ نے اس پر کوئی بھی اپنی رائیے / جواب نھیں دیا اور انھوں وھی نکات/پوئینٹس اپنی اپنی سپریم کوڑٹ میں دائیر کردہ اپیلوں میں اٹھائیے تھے اور اسپر کافی انکے وکلاء نے بحث بھی کی مگر سپریم کوڑٹ نے بھی اس پر اپنی کوئی رائیے نھیں دی کے وہ اس سے متفق ھیں یا نہیں اگر متفق نھیں ھیں تو اسکی وجوھات کیا ھیں ؟. تو وہ ضرور رویو اپیل دائیر کریں کیونکے انصاف کا تقاضہ تو یہ ھی تھا کے عدالت عظمی کو ان اھم نکات پر بھی غور کرنے کے بعد ھی اپیلیں مسترد یا نہ مسترد کرنے کا فیصلہ کرنا چاھئیے تھا. اگر اپیلنٹس ایسا سمجھتے ھیں ، تو وہ یہ وجوھات باقاعدہ ثبوتوں کے ساتھ اپنی اپیلوں میں بیان کی تھیں اور انکے وکلاء نے بحث بھی کی تھی لیکن عدالت نے اسپر کوئی غور نہیں کیا تو ضرور بضرور رویو پٹیشنس دائیر کریں بغیر مزید کوئی دیر کئیے ھوئیے ضرورکریں .یہ سوچتے ھوئیے کی اسکی بابت تمام وی ایس ایس نان پنشنرز کو اسکے مطابق تفصیل سے آگاہ کیا جائیے کے جن وی ایس نان پنشنرز نے اپیلیں دائیر کر رکھی ھیں مگر انکے وکلاء ایےک خاض نکتے پر عدالت میں بحث کرنے سے کتراتے ھیں جو پٹیشنرز کے حق میں جاتا ھے ، ان سے انکو آگاہ کیا جائیے ، تو میں نے اس سلسلے میں یہ ایک طویل آڑٹیکل لکھنے کا منصوبہ بنایا جسکا آغاز تو میں نے 6 نومبر 2022 کو کردیا تھا مگر پھر اپنی گو نگو مصروفیات ، عبادات اور ٹی -20 وڑڈ کرکٹ کے میچیز ، فٹبال وڑڈ کپدیکھنے کی دلچسپی میں اسکو جلد پائیہ تکمیل تک نہ پہنچا اور دوسرے موڈ نہ بننے کی وجہ سے سست روی کا شکار رھا . مگر تھوڑا بہت تو کبھی لکھ لیتا تھا جب موڈ اور موقع ملتا. آج 26 دسمبر 2022 کو خدا خدا کرکے اسکو پائیہ تکمیل تک پہنچا رھوں ۔ اپنی اس کوتاھی دیر پر معزرت خواہ ھوں . میرے ان تمام وی ایس ایس -2008 نان پنشنرس سے درخواست کے وہ اس میرے طویل مضمون کو ضرور غور پڑھیں ۔یہ انکے فائیدے کے لئیے اھم معلومات کا مضمون ھے ٹھیک ھے ایک نشست میں نہ پڑھیں بلکے نشستوں میں پڑھیں اور سمجھیں اور کوئی بھی مزید اسکے متعلق سمجھنا ھو تو ریمارکس میں اسکے متعلق لکھیں میں فورن ھی جواب دینے کی کوشش کرونگا۔ جو سوال ھو اسی کے متعلق ھو اور کوئی غیر متعلق سوال ھوا تو میں بلکل جواب نھیں دوں گا.
مجھے سپریم کوڑٹ کے اس 6 اکتوبر 2022 کے فیصلے سے بیحد اختلاف ھے ۔ یہ دو رکنی بینچ سپریم کوڑٹ کا فیصلہ ھے ، جسکے سربراہ معزز جج جسٹس سید منصور علی شاہ ھیں اور دوسری جج نئی خاتون معزز جج جسٹس محترمہ عائیشہ اے ملک صاحبہ تھیں جنھوں نے یہ فیصلہ لکھا انھوں اپیلنٹس یعنی نان پنشنرز وی ایس ایس آپٹڈ ریٹائیڑڈ پی ٹی سی ایل ملازمین کی تمام اپیلیں ڈسمس کردیں اور انکو گورمنٹ کے پنشنری بینیفٹس کا حقدار نھیں ٹہرایا. اسکے لئیے جو وجوھات عدالت نے اپنے فیصلے میں بیان کی ھیں وہ زیر پیش ھیں
۱. عدالت کا کہنا تھا اپیلنٹس نے وی ایس ایس پیکج کو اپنی مرضی کے ساتھ قبول کیا یعنی علیحدگی کی تنخواہ (severance pay)علیحدگی بونس ( separation bonus ) طبی فوائد (medical benefits )چھٹیوں کی نقدی (leave encashment ) اور ہاؤسنگ الاؤنس جو انکی سروس کی لمبائی کی بنیاد پر جیسا کہ وی ایس ایس کی بنیاد شمار کیا گیا۔انکو یہ ادئیگیاں وی ایس ایس قبول کرنے کی وجہ سے ایک معاھدے کے تحت دی گئیں. اور مزید اسمیں ادئیگیاں دینا یعنی گورمنٹ پنشنری بینیفٹس ، جو معاھدہ کا حصہ نہیں تھیں , کیسے دی جاسکتی ھیں ؟
۲. عدالت کا کہنا تھا کےوہ یہ معاھدہ(contract) کے تحت تمام بینیفٹس لینے کےبعد وہ پنشنری بینیفٹس بھی لینے کی خواہش نہیں کرسکتے. مزید یہ کے انکے grievances گورمنٹ والے پنشنری بینیفٹس لینا انکا حق ھے یا ٹریننگ کا پیرئڈ کو بھی انکی سروس کی مدت میں شامل کرکے کیلکولیشن کی جانے کا ھے ، یہ سب انکی بعد کی سوچ (afterthoughts) ھیں . جب وہ وی ایس ایس لینے کی ٹرمز اینڈ کنڈیشنس پر رضامند ھوکر وی ایس ایس لینے پر آمادہ ھوئیے تھے تو انکے یہ علم میں تھا کے انکو نہ تو پنشنری بینیفٹس دئیے جائیے گے اور نہ ھی انکا ٹریننگ پیرئیڈ انکی سروس کی مدت میں شمار کرکے کیلکولیٹ کیا جائیے گا
۳.عدالت کا کہنا تھا حقیقت تو یہ ھے جب اپیلنٹس نے وی ایس ایس لینا قبول کیا تو وہ پنشنری بینیفٹس لینے کی اھلیت ( eligible ) سے محروم ھوگئیے تھے اور انکا یہ کہنا کے انسے امتیازی سلوک برتا جارھا ھے بطور ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ ٹرانسفڑڈ ایمپلائیز انکا پنشنری بینفٹس لینا حق تھا،کوئی مطابقت نہیں رکھتا کیونکے وہ وی ایس ایس قبول کرکے پی ٹی سی ایل کے ملازم بن چکے تھے اسلئیے انکا یہ کلیم بطور ٹی اینڈ ٹی ٹرانسفڑڈ ایمپلائیز پنشنری بینیفٹس لینے کا حق ، قابل قبول نہیں جو انکو نھیں دیا جاسکتا.
معزز عدالت نے اپیلنٹس کو گورمنٹ والے پنشنری بینیفٹس نہ د ینے کے لئیے جو وجوھات پیش کئیے میری نظر میں وہ بلکل صحیح نہیں ھیں اور میں اس سے بلکل بھی اتفاق نہیں کرتا معزز عدالت نے یہ سب کچھ لکھتے ھوئیے خود اپنے ھی ان فیصلوں کی نفی کردی ھے جو اسنے ایسے پی ٹی سی ایل میں کام کرنے والے سابقہ ٹی اینڈ ٹی اور سابقہ پی ٹی سی کے ملازمین کے حق میں دی تھیں ۔ یعنی2012SCMR152, 2016SCMR1362 ، 2015SCMR1472 اور 2015SCMR1783 کے میں تحریر کئیے گئیے فیصلوں میں . جن کا خلاصہ یہ ھے کے “ کارپوریشن (پی ٹی سی ) سے یکم جنوری 1996 کو کمپنی ( پی ٹی سی ایل ) میں ٹرانسفڑڈ ھونے والے تمام ملازمین پی ٹی سی ایل کے ملازمین کہلائیں گے [ یاد رھے ان میں وہ ٹی اینڈ ٹی کے میں کام کرنے والے وہ سرکاری ملازمین بھی شامل تھے جو پی ٹی سی ایکٹ 1991 کی شق (۱)۹ کے تحت دسمبر 1991 میں انھی سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس پر کاپوریشن میں ٹرانسفڑڈ ھوکر آئیے تھے جو اس ٹرانسفڑڈ سے فورن پہلے ٹی اینڈ ٹی میں ، انپر لاگو تھے اور وہ ملازمین بھی شامل تھے جو پی ٹی سی میں دسمبر 1995 تک ریگولر پوسٹ پر اپائنٹ ھوئیے تھے اور وہ بھی کارپوریشن میں انھی گورمنٹ کے سروس اینڈ ٹرمز کنڈیشن پر کام کررھے تھے۔ کیونکے کارپوریشن نے اپنے نئیے قوانین بننے تک ٹی اینڈ ٹی والے ھی سول سرونٹ والے قوانین کو فروری 1992 میں اپنا لیا تھا یعنی adopt کرلیا تھا] . اور انپر گورمنٹ آف پاکستان کے ان statuary rules کا اطلاق ھوگا جو سول سرونٹ ایکٹ 1973 سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس میں سیکشن 3 سے سیکشن 22 تک دئیے گئیے انکے ان ٹرمز اینڈ کنڈیشنس میں کسی بھی قسم کی منفی تبدیلی کا نہ تو پی ٹی سی ایل اور نہ ھی حکومت کو اختیار ھوگا جن سے ان ٹرانسفڑڈ ملازمین کوئی فائیدہ نہ ھو۔ پی ٹی سی ایل انکو گورمنٹ والی تنخواہ , جو گورمنٹ اپنے سرکاری ملازمین دیتی ھے , وھی دینے کی پابند ھوگا اور انکی ریٹائیرمنٹ پر ٹرسٹ (پی ٹی ای ٹی ) انکو وھی گورمنٹ والی ھی پنشن ھی دینے کا لازمن پابند ھوگا جسکا اعلان گورمنٹ اپنے سرکاری ریٹائیڑڈ ملازمین کے لئیے گاھے بگاھے کرتی رھتی ھے“. تو معزز سپریم کوڑٹ کے دو رکنی معزز بینچ نے جو یہ فیصلہ دیا وہ سپریم کوڑٹ کے ان فیصلو ں سے بلکل بھی مماثلت نہیں رکھتا ھے اور میرے اس پر شدید تحفظات ھیں ۔
اس سے پہلے میں اپنی رائیے سے آگاہ کروں کے انکے اس فیصلے سے مجھے کیوں اختلاف ھے اور یہ کیوں صحیح نہیں ھیں ، میں آپ سبکو مختصرن اسکا پہلے بیک گراؤنڈ بتا نا چاھتا ھوں پھر ھی آپکو اسکی سمجھ آئیگی میں کیوں اس فیصلے ک غلط قرار دے رھا ھوں .
جب جون 2007 میں پی ٹی سی ایل کے 26 % شئیرز خر ید کر یو اے ای کی کمپنی ایتصلات نے پی ٹی سی ایل کا انتظامی کنٹرول اپنے ھاتھ میں لیا تو اسنے سب سے پہلے پی ٹی سی ایل میں کام کرنے سرپلس سٹاف کو نکالنے کے لئیے جسمیں سے بڑی تعداد ٹیلیفون آپریٹرز کی تھی اور ان سٹاف کی تھی جن کی ضرور ت کمپنی کے ڈیجیٹلائیزیشن کی وجہ سے نھیں رھی تھی یعنی کلرکس، کلینرس، وائیرمینس ، بیٹری مینز اور وہ انڈور وہ انجئینئرنگ سپروائیزر ٹیکنشئینس جنکو ڈیجیٹل سسٹم پر کام کرنے کا تجربہ نھیں تھا۔ پی ٹی سی ایل میں کام کرنے والے تمام سٹاف میں سے تقریبن 90 % سٹاف کا تعلق سابقہ ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ سے تھا جہاں وہ بھرتی ھوئیے تھے اور ان پر گورمنٹ آف پاکستان کے سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے ھی قوانین نافظ تھے .تقریبن 10 % سٹاف کا تعلق کارپوریشن یعنی پی ٹی سی سے تھا ، جو بھی گورمنٹ کے انھیں گورمنٹ کے سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے قوانین کے ھی تابع تھے [جب یہ سب لوگ یکم جنوری 1996 کو کارپوریشن سے کمپنی یعنی پی ٹی سی ایل ٹرانسفڑڈ ھوکر تو وہ اگرچہ کمپنی کے ملازم بن چکے تھے مگر ان انھیں سرکاری قوانین کا اطلاق ھورھا تھا جو ان پر ٹی اینڈ ٹی اور پی ٹی سی میں ھورھا تھا بمطابق پی ٹی سی ایکٹ 1991 کی سیکشن 9 اور
پی ٹی ( ری آرگنائیزیشن ) ایکٹ 1996 کے سیکشن (2)35 اور سیکشن 36 کی سب سیکشن (1) اور (2) کے تحت . انکو گورمنٹ کے اسکیلز کے مطابق ھی جون 2005 تک تنخواہ ملتی رھی کمپنی کی طرف سے اور ریٹئیڑڈ ھونے والے ملازمین کو چاھے وہ ٹی اینڈ ٹی ، کارپوریشن یا کمپنی میں ریٹئیڑڈ ھوئیے ھوں ] ان سبکو کو جولائی 2010 تک ٹرسٹ ( پی ٹی ای ٹی) , گورمنٹ آف پاکستان کی اپنے سرکاری ریٹائیڑڈ ملازمین کو اعلان کردہ پنشن دیتا رھے ۔ اس ٹرسٹ کی تشکیل یکم جنوری 1996 سے اسی مقصد کے لئیے ھوئی تھی۔ اور ٹرسٹ کے بوڑڈ آف ٹرسٹیز گورمنٹ سول سرونٹ کے پنشن رولز کے تحت ھی انکو گورمنٹ کی ھی اعلان کردہ پنشن گریڈ وائیز دینے کا پابند تھا جو اسنے یکم جولائی 2010 سے دینا بند کردیا تھا]. پی ٹی س ایل نے ان سرپلس سٹاف کو نکالنے کے 15نومبر 2007 والئینٹری سیپریشن سکیم (VSS) لانچ کی [ حا لانکے ان کا یہ اقدام گورمنٹ سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے سیکشن 11A بعنوان "Absorption of civil servant rendered surplus"( یہ نئی سیکشن Ord XX of 2001 کے تحت 14 اپریل 2001 کو سول سرونٹ ایکٹ 1973 میں شامل کی گئی تھی) پی ٹی سی ایل کو یہ قانونی اختیار ھی نھیں تھا کے سرپلس سٹاف کو کو اسطرح وی ایس ایس پیکیج دے کر فارغ کرتے] انھوں نے جو 2008-2007 وی ایس ایس پیکیج جو ٹرمز اینڈ کنڈیشنس بنائیں وہ ایسی بنائیں کے کے وہ زیادہ سے زیادہ سرپلس سٹاف کو نکال سکیں اور کم سے کم رقم خرچ ھو۔ ھر ایک پی ٹی سی ایل ایمپلائی کو اسوقت کے ای وی پی ایچ آر جناب اسمعیٰل طٰہ کی جانب سے بتاریخ 15 نومبر 2007 کا ایک لیٹر جاری کیاگیا جسمیں اس وی ایس ایس کی آفر قبول کرنے کا کہا گیا اور early retirement لینے پر انکو جو معاوضہ یعنی پیکیج دینے کی بابت بتایا ۔ اپنے اس خط کے ساتھ ای وی پی ایچ آر پی ٹی سی ایل جناب اسمعیٰل طٰہ نے تقریبن 10 صفحات کی کی attachments لگائی تھیں جسمیں وی ایس ایس کیلکولیشن ورک شیٹ کے مطابق ، کیا تقریبن رقم ملے گی وی ایس ایس لینے کی صورت میں اور وی ایس لینے کے لئیے کیا اسکی ٹرمز اینڈ کنڈیشنس ھونگی وغیرہ وغیرہ. کیلکولیشن ورک شیٹ میں بتایا گیا تھا کے قبل ازوقت ریٹائیرمنٹ لینے کی صورت میں کیا پیکیج دیا جائیے گا. کیلکولیشن ورک شیٹ پر ماھانہ estimated پنشن رقم صرف ان ایمپلائیز لئیے لکھی گئی تھی جن ایمپلائی کی پرسنل انفارمیشن کالم میں بیس سال یا یا اس سے زیادہ کی کولیفائیڈ سروس لکھی ھوئی تھی . یہ بات نوٹ کرنے کی ھے کے بیس سال یا اس سے زیادہ کوالیفائیڈ پر ھی ماھانہ پنشن دینے کی شرط نہ تو وی ایس ایس لینے کی ٹرمز اینڈ کنڈیشنس ( پیکیج کا پیرا V ) میں لکھی گئیں تھیں اور نہ ھی کسی اور جگہ بلکے صرف یہ اور کسی جگہ بھی یہ نہیں لکھا تھا . بلکے ایک جگہ یعنی صفحہ نمبر ۳/۱۱یہ لکھا تھا وہ ملازمین جنکی کی کولیفائینگ سروس کم ازکم 20 سال ھو وہ ھی قبل از وقت ریٹائرمنٹ کے فوائد حاصل کرنے کے اہل ہیں، بشمول بڑھی ھوئی پنشن . اور دوسرا جگہ صفحہ ۸/۱۱ کے پیرا F میں کم از کم 20 کوالیفائنگ سروس کے ساتھ ریگولر اسٹیٹس کے ملازمین قبل از وقت ریٹائیرمنٹ لینے اہل ہیں. ایک بات یاد رکھنی چاھئیے ریٹائیرمنٹ پر پنشن لینا ایک سرکاری ملازم کا بنیادی حق ھے چاھے وہ قبل ازوقت لی جائیے یا ریٹائیرمنٹ کی عمر میں یعنی ساٹھ سال کی عمر میں ۔ مگر پی ٹی سی ایل نے صرف بیس سال یا اسے زیادہ کوالیفائیڈ سروس رکھنے والے پی ٹی سی ایل ملازمین پر جن پر گورمنٹ سول سرونٹ ایکٹ 1973 کا اطلاق ھوتا ھے، کو انکو وی ایس ایس کے زریعے قبل ازوقت ریٹائیرمنٹ لینے پر پنشن دینے کا حقدار ٹہرایا جو بلکل اور غیر قانونی تھا . فیڈرل گورمنٹ کے پنشن رولز میں پنشن کی تعریف یہ کی گئی ھے کے” ایک سرکاری ملازم کی طرف سے ماضی کی خدمت کے مدنظر حکومت کی طرف سے کی جانے والی متواتر ادائیگی “. عدالتیں اپنے متعددہ فیصلوں میں کہہ چکی ھیں “کےپنشن ایک حق ہے کوئی انعام نہیں ( Pension is right not bounty) چاھے ریٹائیرمنٹ کیسے ھی طریقے کیوں نہ کی جائیے، پنشن ھر حال میں دی جائیے گی چاھے اپنے وقت پر ھو یا قبل ازوقت چاھے جبری ریٹائیرمنٹ ھو یا گولڈن شیک ھینڈ لینے یا والئینٹری ریٹائیرمنٹ لینے کی صورت یا دوران سروس فوت ھونے کی صورت میں اسکے شریک حیات ( spouse) اس پنشن کے حقدار ھو جاتا ھے. [ھاں یہ ضرور یہ پیمانہ ضروربنا دیا گیا ھے کے کم ازکم دس سال کی کوالیفائیڈ سروس یا اس سے زیادہ سے زیادہ کولیفائیڈ سروس ھونے پر ریٹائیرمنٹ پر پنشن دی جائیگی ورنہ گریجئوٹی، جو پانچ سال یا اس زیادہ کوالیفائیڈ سروس پر دی جائیگی. سول سرونٹ ایکٹ 1973کے سیکشن (1)19 کے تحت پنشن لینا سرکاری ریٹائیڑڈ کا بنیادی اور قانونی حق ھے ۔ اور اسکو اس سے بلکل بھی محروم نھیں کیا جاسکتا .گورمنٹ سروس رولز(G S R) کے Section 474-AA جو فیڈرل پنشن رولز 1972 میں بیان کیا گیا ھے کے کم از کم دس سال یا اس سے زیادہ کوالیفائنگ سروس پر ایک ریٹائیڑڈ سرکاری ملازم پنشن کا حقدار ھو جاتا ھے اگر کسی سرکاری ریٹائڑڈ ملازم کی ریٹائیرمنٹ کے وقت کوالیفائیڈ سروس نو سال چھ ماہ ھو یا اس سے زیادہ تو وہ خود بخود گورمنٹ سروس رولز (G S R) کے سیکشن (1)423 کے تحت دس سال کاؤنٹ ھوگی اگر نوسال چھ ماہ سے کم اور صرف نوسال ھو تو گورمنٹ سروس رولز (G S R) سیکشن (2)423 کے تحت مجاز اتھاڑٹی کو یہ اختیار ھوگا کے ایک سال کی کولیفائیڈ سروس کی کمی کو دور کرکے اسکو دس سال کردے تاکے ایسے ریٹائیڑڈ سرکاری ملازم کو پنشن دی جاسکے]. ھاں اگر ایک سرکاری ملازمین کو نوکری سے ڈس مس کریا جاتا ھے تو اسک پنشن نھیں ملے گی چاھے اسکی کولیفائیڈ سروس دس سال ھو یا اس سے بھی کتنی زیادہ کیوں نہ ھو . مگر اسطرح سے نوکری سے ڈسمس ھونے والے سرکاری ملازمین کو ایک compensation کی رقم دی جاتی ھے . مگر ان کمبختوں نے 20 ھزار سے زیادہ وی ایس ایس قبول کرکے قبل ازوقت ریٹائیرمنٹ والے ملازمین جنکی کولیفائیڈ سروس 20 سال سے زرا سا بھی کم تھی انکو بغیر پنشن دئیے فارغ کردیا. نوکری سے ڈسمس کرنے والی سزا دی اور انکو صرف قبل از وقت ریٹائیرمنٹ لینے کا معاوضہ دیا گیا جو وی ایس ایس پیکیج میں دیا گیا تھا. جبکے 1997-1998 کے وی ایسے ھی پیکیج میں نہ صرف وی ایس ایس قبول کرکے دس سال یا اس سے زیادہ کولیفائیڈ سروس رکھنے والوں کو پنش دی گئی تھیں بلکے انکو بھی ادا کی گئیں جن کی کوالیفائیڈ سروس نو سال یا اس سے زیادہ تھی مگر دس سال سے کم [ قانون اوپر بتا چکا ھوں ] . انھوں نے بہت بڑا غیر قانونی کام کیا. ایک تو انھوں اپنے تئیں گورمنٹ کے پنشن لینے کی کم از کم مدت ۱۰ سال کی کوالیفائیڈ سروس میں دس سال کا اضافہ کرکے بیس سال یا اس سے زیادہ کیا اور دوسرے اس بیس سالہ یا اس سے زیادہ کوالیفائیڈ سروس رکھنے پر ھی پنشن دینے کی شرط وی ایس ایس لینے کے ٹرمز اینڈ کنڈیشن میں نہ رکھ کر وی ایس ایس قبول کرنے والوں کو دھوکہ دیا جو لوگ یہ سمجھ رھے کے قانونی طور پر تو پنشن کے انکو تو ملنی ھی ھے کیونکے انکی کوالیفائیڈ سروس ۱۰ سال یا اس زیادہ۔ اگر وہ یہ شرط لکھ دیتے مبادہ لوگ پنشن نہ ملنے کی وجہ سے یہ وی ایس ایس 2008 کی آفر ھی قبول نہ کرتے۔ دوسرا دھوکہ انھوں نے یہ دیا کے انھوں ان وی ایس ایس لینے کے ٹرمز اینڈ کنڈیشن میں یہ لکھ دیا کے کوالیفائیڈ سروس کی length میں ٹریننگ پیریڈس اور غیر معمولی چھٹیاں شامل نہیں ھوگی مگر جو انھوں نے کیلکولیشن ورک شیٹ پر کی اوراس ملازم کی کوالیفائیڈ سروس کیلکولیٹ جو ۲۰ سال یا اس سے زیادہ تھی اس ٹریننگ پیرئڈز اور دیگر غیر معمولی چھٹیاں بھی شامل کرلی تھیں . تو اسطرح ھزاروں ایسے ملازمین نے پنشن بھی ملنے کی وجہ سے وی ایس ایس 2008 کی آفر قبول کرلیں مگر پی ٹی سی ایل نے ایسے ھزاروں لوگوں کو وی ایس ایس وی ایس ایس کے پیکج دینے کی رقم تو دے دی مگر انکو پنشن دینے سے کہہ کر انکار کردیا کے انکی بیس سال کی کوالیفائیڈ سرو س بنتی ھی نھیں کیونکے اس میں سے انکے ٹریننگ پیریڈس،یا غیر معمولی چھٹیاں لینے کی وجہ سے کم ھوگئیں .زیادتی انھوں نے انھوں نے یہ کی ، کے ایسے لوگوں کی پہلے پنشن دینا قبول کی اور ان سے پنشن کے لئیے ڈیکومنٹس جمع کرانے کو کہا اور نہ صرف انکا پی پی او نمبر تک جاری کردیا اور پنشن بک بھی ایشو کردی اور انکو پوسٹ آفس سے پنشن ڈرا کرنے کا حکم بھی جاری کردیا . لیکن جب یہ لوگ پنش لینے پوسٹ آفسسس پہنچے تو انکو پوسٹ آفس حکام نے پنش دینے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کے انکی ماھانہ پنشن کی رقم واپس منگالی گئی ھے کیونکے انکی بیس سال کی کولیفائیڈ سروس پوری نھیں ھے کیونکے ٹریننگ پیرئیڈز کی مدت نکال لی گئی ھے. اس سے سب سے زیادہ ٹیلی فون آپریٹرز متاثر ھوئیے . پی ٹی سی ایل والوں کا یہ دھوکہ دھی عمل ان وی ایس ایس آپٹ کرنے والوں کے لئیے ایک دھماکے سے کم نہ تھا جنھوں نے اس بنا پر ھی و ی ایس ایس لینا قبول کیا تھا کے انکو پنشن بھی ملے گی کیونکے کیلکولیشن ورک شیٹ پر انکی کیلکولیٹڈ کولیفائیڈ سروس بیس سال یا اس سے زیادہ دکھائی گئی تھی اس پنشن نہ ملنے کی وجہ سے کافی لوگ سکتے میں آگئیے تھے تین ایسے لوگوں کا تو پوسٹ آفس میں ھی یہ سنتے ھی صدمے سے حرکت قلب بند ھونے کی وجہ سے انتقال ھو گیا تھا. ایسے کچھ لوگوں نے پی ٹی سی ایل کی اس دھوکہ دھی کے خلاف ھائی کوڑٹوں کا رخ کیا اور پٹیشنیں داخل کرنی شروع کردیں سب سے زیادہ پٹیشنیں سندھ ھائی کوڑٹ میں داخل کی گئیں. مگر جو پٹیشنروں کے وکلاء تھے وہ اندرونی خانہ پی ٹی سی ایل سے ملے ھوئیے تھے. پی ٹی سی ایل کے وکلاء جن میں پیش سابق جج سندھ ھائی کوڑٹ شاھد انور باجواہ صاحب تھے انھوں نے اپنا اثر و رسوخ اور دوستی استعمال کرتے ھوئیے، سندھ ھائی کوڑٹ سے یہ تمام پٹیشنیں خارج کرادیں جو 300 سے زیادہ تھیں . مگر جن ایسے لوگوں نے یہ پٹیشنیں لاھور ھائی کوڑٹ، اسلام آباد ھائی کوڑٹ اور پشاور ھائی کوڑٹ میں دائیر کی تھیں انکو تو ریلیف مل گیا تھا. پشاور ھائی کوڑٹ نے تو اظہر علی بابر اور دیگران کیس میں پی ٹی سی ایل کی اپیل خارج کرکے NIRC Double Bench Peshawar کا فیصلہ بحال رکھا اور اور انکی کوالیفائیڈ سروس میں انکی ٹیلیفون آپریٹر ٹریننگ کی مدت شمار کرکے بیس سال سے بھی زیادہ کولیفائیڈ سروس ھوجانے کی وجہ سے انکو اور انکے ایسے ساتھی پٹیشنرس پنشن دینے کا حکم میں دیا.[ یہ پشاور ھائی کوٹ کا فیصلہ 2013 PLC345 میں درج ھے اظھر علی بابر سابقہ ٹیلی فون آپریٹر جو آجکل خود بھی ایک وکیل ھیں انھوں نے 2008 کا وی ایس ایس اسلئیے قبول کیا تھا کے انکی کولیفائیڈ سروس بیس سے زیادہ دکھا ئی گئی تھی جس سے وہ پنشن لینے کے حقدار بن گئیے تھے. تو انھوں نے اس وجہ سے وی ایس ایس آفر کو قبول کرکے قبل ازوقت رٹئیرمنٹ لینے کا فیصلہ کیا انکی پنشن بھی منظور ھوگئی تھی مگر آخر وقت میں انکی آپریٹرمگر انکو پنشن صرف اسلئیے نھیں دی گئی کے انکی ٹیلی فون آپریٹر کی ٹرینننگ پیرئیڈ کی مدت کو منہا کردیا گیا جس سے انکی کم ازکم مدت پنشن لینے کی بیس سالہ کولیفائیڈ سروس سے ھوگئی اور انکو جسکی وجہ سے انکو پنشن کے حق سے محروم کردیا گیا . اظہر علی بابر نے جو اسوقت وکالت پڑھ رھے تھے انھوں نے اپنی وکلا لت مکمل کرتے ھی پہلے یہ کیس اپنے ایسے ساتھیوں کے ساتھ NIRC Peshawar میں 2010 میں کیا وھاں سے وہ سے کیس جیت گئیے اور عدالت نے انکی کوالیفائیڈ سروس میں اسکی ٹیلیفون آپریٹر ٹریننگ کی مدت شمار کرکے بیس سال سے بھی زیادہ کولیفائیڈ سروس ھوجانے کی وجہ سے انکو اور انکے ایسے ساتھی پٹیشنرس پنشن دینے کا حکم دیا گیا . پی ٹی سی ایل نے انکے خلاف NIRC Double Bench Peshawar میں اپیل کردی جو وھاں سے خارج خارج تو پھر پی ٹی سی ایل نے پشاور ھائی کوڑٹ میں اسکے خلاف اپیل کردی جو عدالت عالیہ 11 ستمبر 2012 کو خارج کردی ۔ اور انکی اپیلیں خارج کرنے کا جو جواز لکھا وہ ریسپونڈنٹس کے ساتھ پی ٹی سی ایل کا امتیازی سلوک انکی سروس کی لمبائی بغیر کسی وجہ کے کاٹ کر انکو پنشن کے حق سے محروم کردیا گیا۔
عدالت نے اپنے اس فیصلے مختلف اعلی عدالتوں کے فیصلوں کی نزیر بناتے ھوئیے لکھا کے اعلی عدالتوں نے پنشن دینے کے غرض سے ایڈھاک پیریڈز حتی کے ڈیلی ویجز کے پیرئیڈز کو بھی سروس میں شمار کیا ھے تاکے پنشن دی جائیے . ٹریننگ پیرئیڈز نوکری کا ھی حصہ ھوتے ھیں اسلئیے اسکو لازمن سروس میں شمار کیا جانا ضروری ھوتا ھے ]. مگر نان پنشنرز وی ایس ایس ریٹائیڑڈ پی ٹی سی ایل ملازمین جنکو پنش صرف اس وجہ سے نہ دی گئی کے انکی کولیفائیڈ سروس پی ٹی سی ایل کی طرف سے مقرر کردہ بیس سالہ کوالیفائیڈ سروس سے کم تھی، انھوں نے عدالت سے رجوع نھیں کیا کے پی ٹی سی ایل نے کس قانون کے تحت گورمنٹ کے پنشن قوانین کے مطابق پنشن کا حقدار ھونے کی کم ازکم مدت کو دس سال کی کوالیفائیڈ سروس کو کم ازکم بیس سال یا اس سے زیادہ کولیفائیڈ سروس کیا. ما سوائیے ایک کے اور ایسے کسی وی ایس ایس نان پنشنر کو اسکا ادراک ھی نہیں تھا کے کے اسکے ساتھ کتنی بڑی زیادتی اور نا انصافی کی گئی ھے اور اسکے لئیے اسکو عدالت عالیہ سے فورن رجوع کرنا چاھئیے . عامر لطیف لون نان پنشنر وی ایس ایس ریٹائیڑڈ جنکا تعلق لاھور سے تھا انھوں نے لاھور ھائی کوڑٹ میں اس وی ایس ایس لے کر قبل ازوقت ریٹائیرمنٹ ھونے کے فورن بعد ھی 2008 رٹ پٹیشن نمبر W .P. No 15027/2008 دائیر کردی وکیل ایم ایم عالم ایڈوکیٹ کے تواست سے دائیر کی (ایم ایم عالم ایڈوکیٹ پی ٹی سی ایل کے سابقہ اسٹنٹ جنرل منیجر ایل ٹی آر رہ چکے ھیں). انھوں نے اس پٹیشن میں پی ٹی سی ایل کی طرف سے پی ٹی ( ری آرگنئزیشن ) ایکٹ 1996 کی شق 35 اور 36 کی نہ صرف خلاف ورزی کی بلکے پٹیشنر کو پنشن نہ دے کر discrimination کی کیونکے پٹیشنر کی کولیفائیڈ سروس دس سال سے بھی زیادہ ھے اور سول سروس ریگولیشن گورمنٹ آف پاکستان کے آڑٹیکل 474AA پنشن کا حقدار ھونے کی کم ازکم مدت دس سال ھے. اور پی ٹی سی ایل 1998-1997 کی وی ایس ایس سکیم میں دس سال یا اس سے زیادہ کولیفائیڈ سروس رکھنے والوں کو پنشن دے چکی ھے جنھوں نے وی ایس ایس لے کر قبل از وقت ریٹائیرمنٹ قبول کی تھی. اس کیس کی پہلی ھئیرنگ 31 اکتوبر 2008 کو اسوقت لاھور ھائی کوڑٹ کے جج جسٹس عمر عطا بندیال ( موجودہ چیف جسٹس پاکستان ) نے کی اور ریسپونڈنٹس جی ایم (ایچ آر اینڈ ایڈمن) پی ٹی سی ایل، پریزیڈنٹ پی ٹی سی ایل اور فیڈریشن آف پاکستان کو نوٹسس جاری کرتے ھوئیے دو ھفتے میں پیرا وائیس کمنٹس طلب کرلئیے۔ مگر کسی نے بھی مقررہ وقت تک کمنٹس نھیں جمع کرائیے دو مرتبہ انکو ریمائینڈز بھی انکو عدالت ایشو کرائیے گئیے مگر انھوں نے پھر بھی کوئی جواب نھیں دیا . در اصل انکے پاس اسکا کوئی جواب نھیں تھا. کیس یونہی چلتا رھا کبھی انکے وکیل نہیں آتے اور کبھی پٹیشنر کے وکیل ایم ایم عالم . اس وکیل نے پٹیشنر عامر لطیف لون کو بہت دھوکہ دیا وہ اندرونی خانہ پی ٹی سی ایل والوں کے ساتھ مل چکا تھا اور اسکو وھاں سے اچھی خاصی رقم مل رھی تھی . اس دوران پٹیشنر عامر لطیف لون کا ایک خطرناک ایکسیڈنٹ ھو جاتا ھے اور وہ چھ مہینے ھسپتال میں زیر علاج رھے اور جب بھی یہ کیس لگتا تو یہ پٹیشنر کے وکیل موصوف کبھی جاتے ھی نہیں تھے اور آخر کار عدالت نے یہ کیس non prosecution میں خارج کردیا. تو کسی اور بھی ایسے وی ایس ایس ریٹائیڑڈ نان پنشنر نے کبھی ایسا کیس نھیں کیا . وہ حقیقتن یہ سمجھ بیٹھے تھے کے چونکے انکی کولیفائیڈ سروس بیس سے کم تھی اسلئے انکو کبھی پنشن ملنے کا سوال ھی پیدا ھی نہیں ھو سکتا ۔ مگر جب معزز سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ نے 7 اکتوبر 2011 مسعود بھٹی کیس [2012SCMR152] میں یہ واضح بیان کیا کے جو ٹی اینڈ ٹی اور پی ٹی سی کے ملازمین یکم جنوری 1996 کو پی ٹی سی سے ٹرانسفڑڈ ھوکر پی ٹی سی ایل میں آئیے تھے اور وہ پی ٹی سی ایل کے ملازمین تو ھو گئیے تھے مگر انپر گورمنٹ آف پاکستان کے Statuary Rules ھی apply ھونگے(یہ وھی رولز ھیں جو سول سرونٹ ایکٹ 1973 میں دئیے گئیے ھیں ) جو انپر بطور سول سرونٹ گورمنٹ کے ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ میں لاگو تھے۔ اور یہ بھی کلئر کردیا کے پی ٹی سی ایل یا حکومت انکے گورمنٹ والے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس میں جو سول سرونٹ ایکٹ 1973 میں دئیے گئیے ھیں کوئی بھی ایسی منفی تبدیلی نہیں کرسکتی جس سے انکو فائیدہ نہ ھو۔ اور پھر جب سپریم کوڑٹ کے پانچ رکنی بینچ نے اس مسعود بھٹی کیس یعنی [2012SCMR152] کے خلاف انکی رویو پٹیشن 19 فروری 2016 کو خارج کی جو 2016SCMR1362 میں درج ھے اس میں پھر یہ واضح کردیا ٹی اینڈ ٹی سے کارپوریشن میں ٹرانسفڑڈ ھونے والے ملازمین اور کارپوریشن سے کمپنی میں ٹرانسفڑڈ ھونے والے ملازمین کو سول سرونٹ نہیں کہا جاسکتا بلکے یہ سب کمپنی کے ملازمین ھی کہلائیں گے مگر ان پر سول سرونٹ ایکٹ 1973 انکے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس میں دئیے گئیے ھوئیے “سیکشن 1 سے لیکر سیکشن 22 تک دئیے گئیے ھیں وھی استعمال ھونگے۔ اگر پی ٹی سی ایل انکی کوئی خلاف ورزی کرتی ھے تو ایسے aggrieved پی ٹی سی ایل ملازمین وہ ھائی کوڑٹوں سے رجوع کریں [یاد رھے ھائی کوڑٹوں سے رجوع کرنے کا اختیار ھوگا ۔ یاد رھےصرف سول سرونٹس کو ھی ھائی کوڑٹوں سے آئین پاکستان کے آڑٹیکل ۱۹۹۹ کے تحت اختیار حاصل ھوتا ھے اورکسی بھی کمپنی ، کارپوریشن کے ملازمین اور ان اداروں کے ملازمین جو سول سرونٹ کے زمرے میں نہیں آتے انکو اپنے grievances دور کروانے کے لئیے ھائی کوڑٹوں سے رجوع کرنے کا اختیار بلکل نہیں ھوتا ۔ انکے لئیے الگ فورم اور عدالتیں ھیں] تو ان پر یہ بھید کھلا کے انکے ساتھ بہت ظلم ، نانصافی اور امتیازی سلوک کیا۔ میں نے 22 فوری 2016 کو اپنے پہلے آڑٹیکل میں ایسے سب لوگوں کو motivate کیا اور انکو اس ناانصافی اور زیادتی کی توجہ دلائی کے وہ سب ایک ۱۵ دن کا نوٹس دے کر انکو انکی قانونی پنشن دینے کا کا کہا جائیے کیونکے جب انھوں نے وی ایس ایس کے زریعے قبل ازوقت ریٹائیرمنٹ لی تھی تو انکی سروس دس سال یا اس سے بھی زیادہ تھی اسلئیے وہ گورمنٹ کے قانون کے تحت پنشن لینے کے حقدار تھے۔ ایسے وی ایس ایس نان پنشنرس نے انکو نوٹسس دینے کی بہتات کردی . اور پھر ھائی کوڑٹوں میں رٹ پٹیشنیں داخل کردی گئیں سب سے زیادہ سندھ ھائی کوڑٹ میں لوگوں نے وکیل انصار زیدی کی وساطت سے داخل کردیں . سندھ ھائی کوڑٹ نے یہ تمام رٹ پٹیشنیں خارج کردیں. وکیل موصوف ٹھیک طریقے عدالت کو اس بات پر قائیل ھی نہ کرسکے کے پنشن دینے کی کم ازکم مدت ملازمت میں دس سال سے بیس سال کرنا ، پی ٹی سی ایل کا ایک غیر قانونی عمل تھا . لاھور ھائی کوڑٹ میں جو بھی ایسی رٹ پٹیشنیں داخل کی گئیں ان سب کو ، ایم ڈی پی ٹی ای ٹی ای ٹی اور پریزیڈنٹ پی ٹی سی ایل کو یہ احکامات دے کر ڈسپوزڈ کردیا گیا کے وہ ان تمام درخواستوں /نوٹسس پر جو پٹیشنروں نے عدالت سے رجوع کرنے سے پہلے قانون کے مطابق انکو بھیجیں تھیں اس پر دو مہینے میں فیصلہ کرکے عدالت کو رپوڑٹ کریں . مگر انھوں نے یہ حرکت کی کے ایسے پٹیشنروں کو بلاکر انکو پنشن دینا شروع کردی مگر انکو متنبہ کردیا گیا کے اسکے بارے میں کسی اور بلکل خبر نہ دیں ورنہ یہ نظیر بن جائیے گی اور پھر اور لوگوں کو بھی دینا پڑے گی [ یہ بات میں کیوں کررھا ھوں ان میں بیش تر مجھ سے انٹچ تھے اور ھر بات مجھ سے پوچھ کر اور میری گائیڈ لائین لے کر کرتے تھے۔ جب لاھور ھائی کوڑٹ کا یہ فیصلہ آیا تو انھوں نے مجھ سے مشورہ مانگا تو انکو میں نے یہ بتایا کے اگر یہ لوگ تمھاری درخواستوں پر کوئی مثبت فیصلہ نہیں کرتے تو تم کو پھر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑے گا مجھے امید ھے اب عدات تمھارے حق میں ھی فیصلہ دے گی . تم لوگ دو مہینے کے بعد ھی مجھ سے رجوع کرنا میں تمھارے لئیے اسکے مطابق ھی رٹ پٹیشن بنا کردوں گا جو تم نے اپنے وکیل کے وساطت سے داخل کرانی ھوگی . مگر حیرت انگیز طور پر مجھے اسکے بعد کسی نے بھی مشورے کے لئیے کبھی بھی رجوع نھیں کیا. وہ تو سب ایسے غائیب ھوئیے جیسے گدھے کے سر سے سینگ . دو مہینے کے بعد کسی نے بھی لاھور ھائی کوڑٹ سے رجوع نہیں کیا . کچھ عرصے کے بعد مجھے معلوم ھو کے ایسے بہت بہت سے پٹیشنرز کو پنشن دے دی گئی اس شرط پر کے وہ اسکو کسی اور اسکی بابت ڈس کلوز نھیں کریں گے. مجھے ان میں سے دو تین کے نام تو معلوم ھوگئیے تھے۔ ان میں ایک لیڈیز ٹیلیفون آپریٹر تھی. یہ وہ لوگ تھے جو مجھ سے مسلسل رابطے میں رھتے تھےاور مشورہ کرتے رھتے اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئیے . مجھ سے ان لوگوں کا دوبارا مشورہ نہ لینا اور نہ کیس کرنا اس بات عمازی کرتا ھے کے ان کو پنشن سے نواز دیا گیاھے۔ کیونکے اگر ان کو پنشن نہ دی جاتی تو یقینن یہ لوگ دوبارہ کیس کرتے اور عدالت سے لازمن اس نکتے کی وجہ سے ریلیف حاصل کرلیتے کے ان کی پنشن لینے کی کو لیفائیڈ سروس میں دس سال سے بیس سال تک کا اضافہ کرنا، پی ٹی سی ایل کا ایک نہایت ھی غیر قانونی عمل تھا جسکو اسکو بلکل بھی اختیار نھیں تھا پی ٹی ( ری آرگنائزیشن) ایکٹ 1996 سیکشن (1)36 کے تحت جسکو 8 اکتوبر 2011سپریم کوڑٹ نے مسعود بھٹی کیس 2012SCMR152 کے فیصلے میں ری کنفرم کیا ھے . میں نے اسی نکتے کے بنیاد پر ایسے وی ایس ایس نان پنشنروں ، جو سب ٹیلیفون آپریٹر تھے جنکا تعلق پنجاب اور بلوچستان سے تھا ، اسلام آباد ھائی کو ڑٹ میں مئی 2016 میں مقدمہ کرایا تھا یعنی (Ghulam Sarwar & others Vs FoP &others. ) جو چارسال تک چلتا رھا ۔ جناب جسٹس میاں گل اورنگزیب کی عدالت میں . انھوں پہلے دو مرتبہ اسکی مکمل ھئیرنگ کی اور اسکا فیصلہ بھی محفوظ کرلیا مگر پھر تیسری بار تھوڑی سی ھئیرنگ کرنے کے بعد , 13 فروری 2020 کو یہ کیس ٹائیم باڑد کی بنیاد پر ڈسمس کردیا اور خود ھی یہ بیان لکھ دیا کے وہ اس فیصلے کو میرٹ پر دینے سے اجتناب کر رھے ھیں ۔ جسکا مطلب یہ ھی نکلتا ھے۔ کے اگر اس مقدمے کا فیصلہ میرٹ کی بنیاد پر ھی کرتے جو یقینن وہ پٹیشنروں کے حق میں ھی نکلتا کیوں یہ بہت ھی اھم نکتہ تھا کے پی ٹی سی ایل گورمنٹ کے پنشن قوانین کو تبدیل کرکے پنشن کے حقدار ھونے والی مدت یعنی دس سال کی کولیفائیڈ سروس میں بیس سال تھا کا اضافہ کرکے، پنشن کے جائیز حقدار سرکاری ریٹائیڑڈ ملازمین کو اس سے محروم نھیں کر سکتے تھے۔ پنشن ایک سرکاری ریٹائیڑڈ ملازم کا جائیز حق ھوتا ھے اسکو کسی اور بینیفٹ میں شمار نھیں کیا جاسکتا. جیسا کے یہ لوگ عدالتوں کو یہ جواز پیش کرکے مس گائیڈ کررھے رھے ھیں کے یہ وی ایس ایس کے بینفٹس لینے کے بعد اب پنشنری بینفٹس کا بھی مطالبہ کر رھے ھیں جو انکا حق نھیں ھے کیونکے انکی کم ازک کولیفائیڈ سروس پنشن لینے کے لئیے بیس سال سے کم ھے۔ ] . بحر حال کسی بھی ھائی کوڑٹ نے اس نکتہ پر ، اگر اٹھایا گیا کوئی فیصلہ دیا ھو کے کیسے ایک ریٹئیڑڈ سرکاری ملازم کو پنشن کے حق سے محروم کیا جاسکتا ھے جسکی کولیفائیڈ سروس دس سال یا اس سے زیادہ ھو مگر بیس سال سے کم . پی ٹی سی ایل کے وکیل شاھد انور باجواہ کی یہ ھی ھمیشہ کوشش رھی کے کسی طرح بھی یہ اھم پوائنٹ عدالت میں نہ اٹھایا جائیے ورنہ انکے پاس کوئی اسکا جواب نھیں ھوگا کے پی ٹی سی ایل انتظامیہ کو یہ کس نے اختیار دیا تھا کے وہ گورمنٹ کے پنش قوانین میں دئیے گئیے گورمنٹ سروس رولز کے سیکشن 474AA میں ایک طرح کی ترمیم کرکے پنش کے حقدار ھونے کی کم از کم کوالیفائیڈ سروس جو دس سال ھوتی ھے اس میں دس سال کا اضافہ کرے۔ انھوں تو اسکو وی ایس ایس 2008 کے پیکیج میں شامل تو کیا مگر اسکو وی ایس ایس 2008 دینے کی ٹرمز اینڈ کنڈیشنس کا حصہ نہیں بنایا اور وی ایس ایس قبول کرنے والے لوگ ، جن کی کولیفائیڈ سروس 10 سال یا اس سے زیادہ تھی اسی مغالطے میں رھے انکو تو پنشن بحر حال ملنا ھی ھے کیونکے یہ انکا حق ھے جیسا کے1998-1997 کے وی ایس ایس ھر ایسے دس سال یا اس سے زیادہ کولیفائیڈ سروس رکھنے والے کو وی ایس ایس لینے کے بینیفٹس کے ساتھ الگ سے دی گئی تھی . [ میں ایک اھم بات سے آپ سب لوگوں کو آگاہ کرنا چاھتا ھوں کے اس وی ایس ایس
2008-2007 نوٹیفیکیشن پیکیج جو 15 نومبر 2007 کو ایشو کیا گیا تھا اسکے صفحہ نمبر9/111 پر سیریل نمبر IV پر جو وی ایس ایس سکیم کی 21 کے قریب ٹرمز اینڈ کنڈیشنس دی گئی ھیں ان میں کہیں بھی اسکا زکر نہیں کے پنشن ۲۰ سال کی کوالیفائیڈ سروس ھونے پر ھی دی جائیگی . جبکے Option Election form میں یہ صاف صاف لکھا ھے کے
“ I have decided to opt for the Voluntary as per terms and conditions of the notification package 15 November 2007 and confirm and agree . . . . .“
تو یہ بات صاف ظاھر ھوگئی ھے جن لوگوں کی کولیفائیڈ سروس بیس سال سے کم تھی مگر دس سال یا اس سے زیادہ ، انکے مد نظر ایسی کوئی بات ھی نہیں تھی کے انکو پنشن نہیں دی جائیگی کیونکے ایسی کوئی شرط بھی ان وی ایس ایس 2007 کے سکیم پیکیج میں تحریر کندہ شرائیط میں شامل ھی نہیں تھی . اگر ھوتی تو کیونکر یہ آفر قبول کرتے؟؟]
جیسا کے میں نے اوپر شروع میں بیان کیا تھا کے جو یہ تین رکنی سپریم کوڑٹ نے فیصلہ دیا ھے وہ سپریم کوڑٹ کی پہلی خاتون نئی جج جسٹس محترمہ عائیشہ اے ملک صاحبہ نے تحریر کیا انھوں نے اس سلسلے میں پی ٹی سی ایل میں کام کرنے والے سابقہ ٹی اینڈ ٹی اور سابقہ پی ٹی سی کے ملازمین کے حق میں دئیے گئیے عدالت عظمی کے فیصلوں کو جو سپریم کوڑٹ کے ان فیصلوں یعنی2012SCMR152, 2016SCMR1362 ، 2015SCMR1472 اور 2015SCMR1783 میں دئیے گئیے , انکو بادئیانظر میں بلکل بھی مد نظر نھیں رکھا اور اپیلنٹس پی ٹی سی ایل وی ایس نان پنشنرز کی اپیلیں مسترد کردیں . میں یہ سمجھتا ھوں انھوں نے بیحد نا انصافی کی ھے . انکے اس فیصلوں بہت ھی اختلافات ھیں جسکو میں ایک ایک کرکے نیچے بیان کرتا ھوں .
۱. عدالت کا کہنا تھا اپیلنٹس نے وی ایس ایس پیکج کو اپنی مرضی کے ساتھ قبول کیا یعنی علیحدگی کی تنخواہ (severance pay)علیحدگی بونس ( separation bonus ) طبی فوائد (medical benefits )چھٹیوں کی نقدی (leave encashment ) اور ہاؤسنگ الاؤنس جو انکی سروس کی لمبائی کی بنیاد پر جیسا کہ وی ایس ایس کی بنیاد شمار کیا گیا۔انکو یہ ادئیگیاں وی ایس ایس قبول کرنے کی وجہ سے ایک معاھدے کے تحت دی گئیں. اور مزید اسمیں اور ادئیگیاں دینا جیسے گورمنٹ پنشنری بینیفٹس ، جو معاھدہ کا حصہ نہیں تھیں , وہ کیسے دی جاسکتی ھیں ؟ عدالت کے اس دلیل سے یہ ظاھر ھوتا ھے کے عدالت یہ سمجھتی ھے کے پنشنری بینیفٹس بھی دینا وی ایس ایس کے معاھدے کا ایک حصہ ھونا چاھئیے تھا ۔ پنشنری بینیفٹس دینا اگر پیکیج کا حصہ نھیں بھی تھے جب بھی ، دس سال یا اس زیادہ کوالیفائیڈ رکھنے والے وی ایس ایس آپٹڈ ایسے پی ٹی سی ایل ملازمین کو انکی قانونی پنشن دینا ، پی ٹی ای ٹی کی پرائیم زمہ داری تھی کیونکے 1998-1997 کے وی ایس ایس آپٹیز کو جنکی کولیفئیڈ سروس دس سال یا اس سے زیادہ تھی ، بطور حق دی جاچکی تھی۔ پنشنری بینیفٹس لینا ایک سرکاری ریٹائیڑڈ ملازم( اب جیسے بھی کسی بھی طریقے اسے ریٹائیڑڈ کی گیا ھو) کا ایک بنیادی حق ھوتا ھے ناکے کوئی انعام یا بونس وغیرہ یہ تو اسکو اس کی اس نوکری کا ثمر دیا جاتا ھے جو اسنے ریٹائیرمنٹ سے پہلے انجام دی ھوتی ھیں اسکی بقیہ ریٹائیرمنٹ کے بعد کی زندگی آرام سے بغیر کسی معاشی پریشانی سے گزرے . گورمنٹ سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے سیکشن (1)19 میں صاف طور پر لکھا ھوا ھے سروس سے ریٹائیرمنٹ پر ایک سول سرونٹ کا اس پنشن یا گریجویٹی لینا ایک حق بن جاتا ھے جو اسکے لئیے مقرر کی گئی ھوتی ھے جبکے اسی ایکٹ کے سیکشن (2)19 میں لکھا گیا ھے سول سرونٹ کی وفات کی صورت میں چاھے وہ سروس کے دوران ھو یا اسکے سروس سے ریٹائیرمنٹ کے بعد ، اسکی فیملی اس پنشن یا گریجویٹی کی حقدار بن جاتی ھے جو اسکے لئیے مقرر کی گئی ھوگی [ یہاں ایک بات یاد رکھنی چاھئیے پی ٹی سی ایل میں کام کرنے والے تمام ٹرانسفڑڈ ملازمین جو یکم جنوری 1996 پی ٹی سی ایل کا حصہ بن کر پی ٹی سی ایل کے ملازم کہلانے لگے تھے مگر ان پر پی ٹی سی ایل کے ماسٹر اینڈ سرونٹ رولز استعمال نہیں ھورھے تھے بلکے انپر پی ٹی ( ری -آرگنئزیشن) ایکٹ 1996 کے سیکشن 35 اور 36 اور سپریم کوڑٹ کے پی ٹی سی ایل وز مسعود بھٹی ودیگر کیس 2016SCMR1362 کے تحت گورمنٹ کے سول سرونٹ ایکٹ 1973 سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس میں دئیے گئیے سیکشن 3 سے سیکشن 22 تک کے قوانین ھی نافظ عمل تھے ] سول سرونٹ سرکاری ملازم کا حق ھوتی ھے.دوسری بات پی ٹی سی ایل کو بیس سال سے کم کولیفائیڈ سروس والوں کو پنشن نہ دینا مقصود ھوتی تو انکو اسکا معاھدے کا حصہ ضرور بنایا ھوتا اور اور اسکو وی ایس ایس 2007 کے پیکیج میں دئیے گئیے وی ایس ایس لینے کی ٹرمز اینڈ کنڈیشنس میں ضرور شامل کرنا چاھئیے تھا جسطرح انھوں نے انھوں کوالیفائیڈ سروس length میں ٹریننگ پیرئڈز اور extraordinary leave کے پئیریڈز کو حصہ بنانے کی شرط لگائی اور پھر اپنی طرف سے پنشن لینے کے لئیے کم ازکم کولیفائیڈ سروس بیس سال منعقد کرکے اس میں یہ ٹریننگ پیرئیڈز کاٹ کر کم کرکے انکو پنشن سے محروم کردیا ، جنھوں نے صرف اس بیس سال کی کوالیفائیڈ سروس یا اس سے زیادہ کوالیفائیڈ سروس ھونے وجہ سے وی ایس ایس لینا قبول کیا تھا کے انکو پیکیج کے بینیفٹس کے ساتھ پنشنری بینیفٹس بھی ملیں گے . ایک تو انھوں نے گورمنٹ کے پنشن قوانین کے مطابق دس سال یا اس سے زیادہ کولیفائیڈ سروس رکھنے والے ریٹئیڑڈ سرکاری ملازم کی اس کم ازکم مدت دس سال میں دس سال کا اضافہ بیس سال کرکے ایک ایک غیر قانونی عمل کیا جسکا انکو بلکل اختیار ھی نھیں تھا اور دوسرے انھوں نے اپنے اس غیر قانونی عمل کو وی ایس ایس لینے کی شرائیط کا حصہ بھی نہیں بنایا یعنی اسکو وی ایس ایس کی ٹرمز اینڈ کنڈیشنس میں شامل نھیں کیا. انھوں نے جان بوجھ کر یہ شامل نہیں کیا کیونکے بیس سال سے کم کولیفئیاڈ سروس رکھنے والے کبھی بھی یہ وی ایس ایس 2008-2007 کا پیکیج ھی قبول نھیں کریں .
۲. عدالت کا یہ کہنا کے معاھدہ(contract) کے تحت تمام بینیفٹس لینے کےبعد ، اپیلنٹس کا پنشنری بینیفٹس بھی لینے کی خواہش ظاھر کرنا کے یہ پنشنری بینیفٹس لینا انکا حق ھے اور ٹریننگ پئیریڈ کو بھی انکی سروس میں شامل کرنے کا حق ھے ، یہ سب انکی بعد کی سوچ (afterthoughts) ھے . جب وہ وی ایس ایس لینے کی ٹرمز اینڈ کنڈیشنس پر رضامند ھوکر وی ایس ایس لینے پر آمادہ ھوئیے تھے کیا انکے یہ علم میں یہ نہیں تھا کے انکو نہ ھی پنشنری بینیفٹس دئیے جائیے گے اور نہ ھی انکا ٹریننگ پیرئیڈ انکی سروس کی مدت میں شمار کرکے کیلکولیٹ کیا جائیے گا. جیسے کے میں نے پہلے بتایا کے کم ازکم بیس سال یا اس سے زیادہ کوالیفائیڈ سروس کو ھی صرف پنشنری بینیفٹس دینا انکا مقصود ھوتا تو انکو اسکو معاھدے میں ضرور شامل کرنا چاھئیے تھا اور اسکو وی ایس ایس کی ٹرمز اینڈ کنڈیشنس کا حصہ بنانا چاھئیے تھا. چونکے انھوں اسکو ان وی ایس ایس لینے کی ٹرمز اینڈ کنڈیشنس میں شامل نہیں کیا، تو یہ اس چیز کی عمازی کرتے ھیں جو بھی یہ وی ایس آپٹ کرے گا تو اسکو ریٹائیرمنٹ پر لازمن پنشن قانون کے مطابق پنشن دی جائیگی اگر اسکی کولیفئیڈ سروس دس سال یا اس سے زیادہ ھو گی . تو عدالت کا یہ اعتراض غلط ھے کے چونکے معاھدے میں پنشنری بینیفٹس دینا شامل نھیں تھا اور بعد میں اسکے لینے کی خواہش کا اظھار کرنا ، یہ سب انکی بعد کی سوچ ھے جس پر عمل نھیں کیا جاسکتا ھے. جہاں تک عدالت کا یہ کہنا کے کے چونکے یہ معاھدے میں یہ شامل تھا کے کے ٹریننگ پیرئیڈ کو سروس کے پیرئڈ کو شامل نھیں کیا جاسکتا اور اپیلنٹس کا اس خواہش کا اظھار کرنا کے انکے ٹریننگ پیرئیڈز کو بھی شامل کیا جائیے ، بلکل صحیح تھا . کیونکے پشاور ھائی کوڑٹ نے اظہر علی بابر کیس جسکا ریفرنس اوپر دے چکا ھوں یعنی [2013 PLC345] جس میں صاف طور پر صاف طور پر تحریر کیا ھے کے پنشن لینے کے لئیے کولیفائیڈ سروس نہ صرف ٹرینننگ پئیرئیڈز بلکے ایڈھاک اور ڈیلی ویجز پیرئیڈ بھی کاؤنٹ ھوں گے. تو پشاور ھائیکوڑٹ کے اظہر علی بابر فیصلے کی رو سے ، عدالت عظمی کا یہ فیصلہ کے چونکے معاھدے میں یہ شامل تھا ٹریننگ پئیریڈ کو کولیفائیڈ سروس میں شامل نہیں کیا جائیے گا ، صحیح نظر نہیں آتا ھے
۳۔ عدالت کا کہنا بلکل صحیح نہیں کے چونکے اپیلنٹس نے وی ایس ایس لینا قبول کیا تو وہ پنشنری بینیفٹس لینے کی اھلیت ( eligible ) سے محروم ھوگئیے کیونکے وہ وی ایس ایس قبول کرنے کے بعد پی ٹی سی ایل کے ملازمین بن گئیے اسلئیے وہ بطور ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ ٹرانسفڑڈ ایمپلائیز پنشنری بینفٹس لینے کے حق کو کھو چکے ھیں اسلئیے انکا انکا یہ کلیم بطور ٹی اینڈ ٹی ٹرانسفڑڈ ایمپلائیز پنشنری بینیفٹس لینے کا حق ، قابل قبول نہیں جو انکو نھیں دیا جاسکتا. اور انکے ساتھ کوئی بھی امتیازی سلوک برتا نھیں کیا گیا۔ مجھے عدالت کے اس فیصلے بیحد اختلاف ھے جسمیں عدالت نے کہا جنھوں نے وی ایس ایس قبول کیا وہ کمپنی کے ملازم بن گئیے اسلئیے وہ ٹی اینڈ کے ایمپلائی کے ناطے یہ پنشن کلیم نہیں کرسکتے ھیں. کیونکے جن لوگوں نے وی ایس ایس قبول کیا ھے وہ پی ٹی سی ایل کے ملازمین بن گئیے . یہ تو صحیح ھے ٹی اینڈ ٹی اور کارپوریشن کے سابقہ ملازمین جب یکم جنوری 1996 کو کاپوریشن سے ٹرانسفڑڈ ھوکر کمپنی یعنی پی ٹی سی ایل وہ اسکے ملازم تو ضرور بن گئیے تھے مگر سپریم کوڑٹ کے مسعود بھٹی ودیگر وز فیڈرل گورمنٹ ودیگر جو 2012SCMR152 کے احکامات کے مطابق ایسے ٹرانسفڑ ملازمین جو یکم جنوری 1996 جو پی ٹی سی ایل مگر انپر گورمنٹ کے سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے ھی قوانین لاگو تھے تو اس لحاظ اسی ایکٹ 1973 کی شق (1)19 تحت وہ ریٹائیرمنٹ پر پنشن کے مکمل حقدار ھیں. بے شک وہ پی ٹی سی ایل کے کیوں ھی نہ ملازم بن گئیے تھے جبکے فیڈرل پنشن رولز میں صاف صاف لکھا تھا کے کم از کم دس سال یا اس سے زیادہ کولیفائیڈ سروس ھونے پر ریٹائیڑڈ سرکاری ملازم پنشن کا حقدار بن جاتا ھے اب وہ کیسے ھی کیوں نہ ریٹائڑڈ ھوا ھو.جبکے PTET Rules 2012 کے سیکشن (iv)(j)2 کے تحت جو ملازمین یکم جنوری 1996 کے بعد کمپنی میں ملازمت اختیار کی ھوگی وہ سب پنشن لینے ممبروں میں شمار نہ ھونگے یعنی انکو پنشن نہیں دی جائیگی [ پی ٹی ای ٹی نے یہ نئیے پنشن رولز 2012 پی ٹی ای ٹی میں اگرچہ فیڈرل پنشن رولز کے مطابق بنائیے تھے مگر اسمیں کچھ فیڈرل پنشن رولز میں ردوبدل کردیا گیا تھا مثلاً پنشنروں کی پنشن میں سالانہ انکریز بوڑڈ آف ٹرسٹیز کی منظوری کے مطابق نہ کے گورمنٹ کے اعلان کردہ کے مطابق ھوگا . فیملی پنشن ، وفات شدہ ملازم کی پنشن کا 50 % جبکے گورمنٹ نے یکم جولائی 2010 سے 75% کردیا تھا. چونکے ان نئیے پی ٹی ای ٹی رولز میں فیڈرل پنشن رولز کے مطابق کافی تضاد تھا، اسلئیے یہ پی ٹی ای ٹی رولز 2012 ، کو پشاور ھائی کوڑٹ میں مرحوم یوسف آفریدی ریٹئیڑڈ جنرل منیجر پشاور نے اپنی رٹ پٹیشن نمبر WP-2657/2012 میں بھی چیلنج کردیا جس میں انھوں نے گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریز ز کی pray کی تھی .
3 جولائی 2014 پشاور ھائی کوڑٹ نے انکی اپیل منظور کرتے ھوئیے جہاں انھیں انکو گورمنٹ کی ھی اعلان کردہ پنشن انکریز دینے کا حکم دیا وھاں یہ بھی حکم دیا کے ان پی ٹی ای ٹی رولز 2012 کا اطلاق پٹیشنرس پر نھیں ھوگا بلکے صرف ان پر ھوگا جنھوں نے یکم جنوری 1996 کے بعد پی ٹی سی ایل میں ملازمت اختیار ھوگی ۔ پی ٹی ای ٹی نے اس پشاور ھائی کوڑٹ کے 3 جولائی 2014 کے فیصلے کے خلاف سپریم کوڑٹ میں اپیل جو سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ نے اور ایسے ھی بہت سے کیسوں کے ساتھ 12 جون 2015 کو مسترد کردی
(یہ 2015SCMR1472 میں درج ھے ) اور پھر انکی اس فیصلے کے خلاف رویو اپیل بھی 17 مئی 2017 کو مسترد کردی گئی ].
دوسرے میں، عدالت کے اس فیصلے سے یوں بھی اتفاق نھیں کرسکتا جسمیں عدالت نے یہ کہا کے " چونکے اپیلنٹس نے وی ایس ایس لینا قبول کیا تو وہ پنشنری بینیفٹس لینے کی اھلیت ( eligible ) سے محروم ھوگئیے کیونکے وہ وی ایس ایس قبول کرنے کے بعد پی ٹی سی ایل کے ملازمین بن گئیے اسلئیے وہ بطور ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ ٹرانسفڑڈ ایمپلائیز پنشنری بینفٹس لینے کے حق کو کھو چکے ھیں اسلئیے انکا انکا یہ کلیم بطور ٹی اینڈ ٹی ٹرانسفڑڈ ایمپلائیز پنشنری بینیفٹس لینے کا حق ، قابل قبول نہیں جو انکو نھیں دیا جاسکتا" تو سوال یہ پیدا ھوتا ھے ھے کے ان وی ایس ایس 2008-2007 قبول کرنے والے وہ ریٹاءیڑڈ ملازمیں جن کی کولیفائڈ سروس بیس سال یا اس سے زیادہ تھی اور جنکو پنشن بھی دی گئی تو کیا انھوں بطور ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ ٹرانسفڑڈ ایمپلائیز پنشنری بینفٹس لینے کے حق نہیں کھویا تھا ؟ تو کیوں انکو پنشن دی گئی . کیا پنشنری بینفٹس نہ لینے کا حق ان ٹی اینڈ ٹی ٹرانسفڑڈ ایمپلائیز کے لئیے نھیں تھا جنھوں جن کی کوالیفائیڈ سروس بیس سال سے کم تھی اور ایسے وی ایس ایس لینے والے یہ کلیم کرنے کے حق سے محروم ھوگئیے . یہ کیا عجیب عدالت کی منتق ھوئی جو ناقابل قبول ھے بلکے آئین اسلامی جمھوریہ کے آڑٹیکلز 4 اور 27 کی صریحن خلاف ورزی ھے تو اب تو یہ ھو ھی نھیں سکتا جن وی ایس ایس ریٹائیڑڈ پی ٹی سی ایل ملازمین کی کولیفائیڈ سروس بیس سال سے کم ھو وہ وہ بطور ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ ٹرانسفڑڈ ایمپلائیز پنشنری بینفٹس لینے کے حق کو کھو چکے ھیں اور جنکی کوالیفائیڈ سروس بیس سال ھو یا اس سے زیادہ وہ بطور ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ ٹرانسفڑڈ ایمپلائیز پنشنری بینفٹس لینے کا حق رکھتے ھوں .یہ کیا منطق ھے عدالت کی سمجھ سے بالا تر ھے ۔ جبکے گورمنٹ سول سرونٹ ایکٹ کی شق (۱)۱۹ کہتی ھے کے ھر ریٹائیڑڈ سول سرونٹ کو پنشن یا گریجویٹی دی جائیگی.
میں زاتی طور پر یہ سمجھتا ھوں کے وی ایس نان پنشنرز جنکی کوالیفائیڈ سروس بیس سال سے کم تھی انکو پنشن کا حق نہ دے کر، جسکی وہ مجاز بلکل بھی نہیں تھی، پی ٹی سی ایل نے بہت زیادتی اور
نا انصافی کی ھے. اور اس پر حکومت بھی خاموش جبکے گورمنٹ سروس رولز (GSR) کے سیکشن 474AA کے تحت، جنکی کولیفائیڈ سروس دس سال یا اس سے زیادہ تھی ، یہ پنشن لینا انکا بنیادی حق تھا۔ کیا پی ٹی سی ایل نے 1998-1997 کے وی ایس پیکج کے تحت دئیے ھوئیے معاضے کے علاوہ ، دس سال یا اس زیادہ کولیفائڈ سروس رکھنے والے کو پنشن نہیں دی تھی۔ بلکے اسوقت انھوں نے اسوقت نو سال چھ مہنے کی یا اس سے زیادہ مگر دس سال سے کم کولیفائیڈ سروس رکھنے والو ں کو بلکے نو سال یا اس سے اوپر مگر نوسال چھ ماہ سے کم کولیفائیڈ سروس رکھنے والوں کو سروس رولز (G S R) کے سیکشن (1)423 یا سروس رولز (G S R) سیکشن (2)423 کے تحت پنشن نھیں دی تھیں۔ مجھے دکھ اور افسوس اس بات کا ھے کے کوئی بھی پی ٹی سی ایل نان پنشنرز کا عدالت کو کبھی بھی اس بات پر قائیل نھیں کرسکا کے جن لوگوں کو صرف بیس سال کی کم ازکم کولیفائیڈ سروس پر پنشن کا حق دے رھی ھے وہ کسی بھی گورمنٹ کے قانین میں شامل نھیں ۔ عدالت اسی وجہ دے یہ متعین کر بیٹھی ھے کے کم از کم بیس سال کی ھی کوالیفائیڈ سروس پر انکا پنشن لینے کا حق بنتا ھے. جو بہت ھی غلط بات ھے۔ یاد رکھیں دس سال کی ھی کولیفائیڈ سروس پر ھی پنشن کا حقدار ھونے کا حق کا قانون صرف پاکستان کا ھی نہیں بلکے تقریبن دنیا کے ھر ملک میں بھی یہی ھے۔ ھندوستان میں بھی یہ ھی ھے۔ بلکے وھاں تو ایسی اسکیم کو جسکو والینٹرلئیر اسکیم (VRS) کہا جاتا ھے کا اطلاق ایسے ملازم پر ہوتا ہے جس نے 10 سال کی سروس مکمل کر لی ہو یا اس کی عمر 40 سال سے زیادہ ہو۔ 10 سال کی سروس مکمل کرنے پر ھی اس والینٹرلئیر اسکیم (VRS) کرنے کا اطلاق صرف اسلئیے ھے تاکے جو لوگ یہ اسکیم قبول کریں انکو پنشن دی جائیے ۔ اور ایک ھمارے ملک میں پی ٹی سی ایل غیر قانونی طور یہ سہولت صرف انکو مہئیا کررھی ھے جن کی کوالیفئیڈ سروس بیس سال ھے۔کسی بھی ریٹائیڑڈ سرکاری ملازم کو اسکی ریٹائیرمنٹ پر پنشن یا گریجویٹی نہ دینا ایک جرم ھے۔ پنش صرف ان سرکاری ملازمین کو نھیں دی جاتی جن کو نوکری سے ڈسمس کردیا گیا ھو چاھے انکی کوالیفائیڈ سروس کتنی زیادہ ھی کیوں نہ ھو. انکو گورمنٹ سول سرونٹ ایکٹ 1973 کی شق (۳)۱۹ کے تحت نھیں دی جاتی. تاھم ایسے برطرف سرکای ملازم کو ایک compassionate allowance سیکشن کیا جاسکتا ھے لیکن اسکی اماؤنٹ اسکی بنےوالی پنشن کی دو تھائی سے زیادہ نھیں ھونی چاھئیے۔ تقریبن ۲۰ ھزار ایسے پی ٹی سی ایل ملازمین صرف اس وجہ سے پنش سے محروم کردینا کے انکی کوالیفئیڈ سروس ، پی ٹی سی ایل کی طرف سے بنائی ھوئی بیس سال کی کوالیفائیاڈ سے کم ھے، انکو ڈسمسل فرام سروس کی سزا کے مترادف ھے۔ جو نہایت ظالمانہ اقدام ھے اور انصاف کا خون ھے
ایک اور بات مجھے بہت کھلتی ھے کے وی ایس ایس نان پنشنر کا اپنا کوئی پلیٹ فارم نھیں ھے جسکے زریعے یہ اپنا قانونی حق یعنی پنشن لینے کے لئیے قانونی طور اور دوسرے طریقوں سے جدو جہد کریں جسطرح اور رجسٹڑڈ پنشن ایکشن کمیٹیاں جدو جہد کررھی ھیں ۔ جنکا مطالبہ صرف ان لوگوں کو گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن دلوانا ھے. چاھے وہ نارملی ریٹائیڑڈ ھوئیے ھوں یا وی ایس ایس آپٹ کر کے .
ایک اور بڑے دکھ کی بات ھے کے وی ایس ایس نان پنشنروں میں بلکل اتفاق نھیں ھے . جیسا کے میں نے اوپر بتایا کے لاھور ھائی کوڑٹ نے ایسے نان پنشرز کی اپیلوں کے متعدد فیصلوں میں یہ حکم دیا کے وہ پہلے پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای کی مجاز اتھاڑٹیوں سے اپنی ان اپیلوں پر فیصلہ دو مہنے کے اندر لیں جنکے پاس انکی درخواستیں پینڈنگ پڑی ھیں ۔ پی ٹی سی ایل نے ایسے تمام پٹیشنروں و اپنے پاس بلا کر مک مکا کرلیا اور انکو پنشن اور اسکے واجبات کردئیے اس کنڈیشنس پر کے اسکو کسی اور سے اور پر آشکارا نھیں کریں ھے. کسی بھی پٹیشنر نے عدالت سے رجوع نہیں کیا کے انکی درخواستیں پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای کی مجاز اتھاڑٹیوں نے مسترد کردیں ھیں اور اب عدالت ھی اس پر فیصلہ دے ۔ جن لوگوں سے مک مکا کیا گیا وہ غائیب ھو چکے ھیں کسی نےیہ زحمت ھی گوارا ھی نھیں کی اپنے اور ایسے ساتھیوں کی مدد کریں انکو ریفرنس دیں تاکے وہ عدالت کے زریعے یہ ھی کچھ حاصل کرسکیں۔ جو وہ حاصل کر چکے ھیں صد افسوس . . . . صد افسوس
اب صرف ضروری یہ ھے کے تمام وی ایس ایس نان پنشنرز مل کر اپنا الگ پلیٹ فارم بنائیں اسکو باقاعدہ رجسٹڑڈ کرائیں . اچھے ایماندر وکلاء کا انتخاب کریں اور انکو اس پر کنوینس کریں , جو میں نے تفصیل س اوپر بیان کیا ھے یعنی اول یہ کے انھوں نے کس اتھاڑٹی سے گورمنٹ کے قانوں میں ترمیم کرکے دس سال کی کم ازکم کولیفائیڈ سروس پر پنشن کے حق کو بیس سال کیا جسکا انکو اختیار ھی نھیں تھااور دوم یہ کے وی ایس ایس 2007-2008 کے پیکیج میں دی گئی ٹرمز اینڈ کنڈیشن میں یہ شرط لکھی ھی نھیں گئی تھی کے کے بیس سال یا اس سے زیادہ کوالیفائیڈ سروس ھونے پر ھی پنشن دی جائیگی وغیرہ وغیرہ تو انھوں بیس سال سے کم کولیفائیڈ سروس پر پنشن کیوں نھیں دی ۔ کیونکے ایسی شرط کا نہ لکھنا یہ ظاھر کرتا ھے کے دس سال کی کولیفائیڈ سروس یا اس سے زیادہ پر لینا ایک جو fandanental قانون ھے جو اسکا بنیادی حق ھے چاھے ریٹائیرمنٹ کسی بھی طریقے سے کیوں ھی نہ ھوئی ھو.
واسلام
محمد طارق اظہر
ریٹائیڑڈ جنرل منیجر (آپس) پی ٹی سی ایل
راولپنڈی
بتاریخ 27 دسمبر 2022
بروز منگل
Comments