Pakistan's justice system is the worst justice system in the world
تین تاریخی فیصلے !!
جج خود نہیں بولتے، ان کے فیصلے بولتے ہیں۔ یہ ایک پرانی کہاوت ہے۔ مگریہ کہاوت آج دنیا بھر کی عدلیہ کا ایک مسلمہ اصول ہے۔ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں گنتی کے چند فیصلے ایسے ہوں گے جن کو تاریخ ہمیشہ سنہری حروف میں یاد کرتی ہے ، یہ وہ فیصلے ہیں جنکو ہمارے سلیبس کا حصہ ہونا چاہیے ، لیکن یہاں تو سیلبس بھی سچ اور حقائق پڑھانے کی بجائے اپنے مفادات کے تحفظ کو مد نظر رکھ کر بنایا جاتا ہے !�کیونکہ ہماری عدالتی تاریخ بھیانک فیصلوں سے بھری پڑی ہے، جیسے چیف جسٹس منیر کا فیصلہ ، بھٹو قتل کیس ، نوازشریف نااہلی کیس ، لاپتہ افراد کیسز، تمام مارشل لاز کو قانونی چھتری مہیا کرنا مطلب نظریہ ضرورت ہمیشہ ہمارے عدالتی نظام پر قابض رہا جس وجہ سے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا!
مولوی تمیز الدین کیس !
مولوی تمیزالدین کیس کا فیصلہ پاکستان کی آئینی، سیاسی اور عدالتی تاریخ کا اہم ترین فیصلہ ہے۔ اس فیصلے نے پاکستان کی تاریخ کا رخ بدل کر رکھ دیا۔ اس کہانی کا آغاز 1953سے ہوتا ہے، جب گورنر جنرل غلام محمد نے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو ہٹا کر محمد علی بوگرہ کووزیر اعظم بنا دیا۔ خواجہ ناظم الدین کو اسمبلی کا اعتماد حاصل تھا، مگر اس کے باوجود ان کو ہٹا دیا گیا، آئندہ کسی ایسی صورت حال سے بچنے کے لیے اس قانون ساز اسمبلی نے گورنر جنرل کے اختیارات کو محدود کرنے کے لیے ترمیمی بل پیش کیا۔ اس بل کے تحت گورنر جنرل کے اختیارات کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی۔ گورنر جنرل غلام محمد نے قانون ساز اسمبلی کو ہی برطرف کر دیا۔ مولوی تمیز الدین اس وقت اس اسمبلی کے سپیکر تھے۔ انہوں نے اس فیصلے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی۔ سندھ ہائی کورٹ نے مولوی تمیزالدین کے حق میں ایک جاندار اور خوبصورت فیصلہ دیا اور گورنر کے اقدام کو غیر آئینی قرار دے دیا۔ اس فیصلے کے خلاف فیڈرل کورٹ میں اپیل دائر کر دی گئی۔ جسٹس منیر اس وقت فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس تھے۔ ان کی سربراہی میں کیس کی سماعت ہوئی ۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کر دیا گیا اور گورنر جنرل کی طرف سے قانون ساز اسمبلی کو تحلیل کرنے کے فیصلے کو درست قرار دیا گیا۔ یہ وہ فیصلہ تھا جس نے پاکستان کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں، فیصلے کے حق میں جسٹس منیر کی دلیل یہ تھی کہ پاکستان ابھی تک ایک مکمل آزاد ریاست نہیں، بلکہ ڈومینین ہے۔�چنانچہ اقتدار اعلی، تاج برطانیہ کے پاس ہے۔ اس لیے قانون ساز اسمبلی کے پاس اقتدار اعلی نہیں، بلکہ گورنر جنرل کے پاس ہے ، جو کراؤن کا نمائندہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس قانون ساز اسمبلی کے اراکین یہ سمجھتے ہیں کہ اقتدار اعلی ان کے پاس ہے، تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ فیصلے کے لیے جسٹس منیر نے قدیم رومن ، انگلش اور کامن لاء کے اصولوں کو استعمال کیا۔ ان میں بریکٹن میکسم یعنی اصول سر فہرست تھا۔ اس اصول کے مطابق جو کچھ قانونی نہیں ہے ، وہ ضرورت کے وقت قانونی ہو سکتا ہے۔ ا س کا مطلب یہ ہے کہ گورنر کے اقدام کو نظریہ ضرورت کے مطابق قانونی سمجھا جا سکتا ہے۔ اس فیصلے سے پاکستان میں نظریہ ضرورت کا آغاز با قاعد قانونی اصول کے طور پر ہوا ، جوآنے والے بر سوں میں تسلسل سے جمہوریت کے خلاف اور آمریت کے حق میں استعمال ہوتا رہا۔ اس فیصلے کے صرف تین سال بعد ایوب خان کے مارشل لاء کو اس قانون کے تحت درست قرار دیا گیا۔ اس کیس میں جسٹس منیر کو ہی دوبارہ نظریہ ضرورت اور اس کی تشریح کا موقع میسر آیا۔ اس میں انہوں نے مزید واضح کیا کہ ایک کامیاب اندرونی بغاوت آئین کو بدلنے کا قانونی طریقہ ہے۔ اس کے بعد جب جنرل ضیا الحق نے ذولفقار علی بھٹو کا تختہ الٹا، تو اسی اصول اور نظیریےکے تحت جنرل ضیا کے اقدام کو جائز قرار دیا گیا۔ بعد ازاں جنرل مشرف کے مارشل لا ء میں بھی یہی نظریہ ضرورت کام آیا۔ جج جسٹس منیر کے ایک فیصلے نے پاکستان کے اقتدار پر نوکر شاہی کے قبضہ کی راہ ہموار کی اور عدالتوں کو بھی غیر آئینی اور غیر جمہوری حکومتوں کے حق میں فیصلے کرنے کا جواز مل گیا۔ اور نظریہ ضررورت کئی بار نہ صرف پاکستان بلکہ بنگلہ دیش میں بھی جمہوریت کے قتل کے لیے استعمال کیا گیا۔�
پرویز مشرف غداری کیس !�
17دسمبر 2019 کو پاکستان کی خصوصی عدالت نے آئین پاکستان سے سنگین غداری کیس میں اپنا تاریخی فیصلہ سنایا جس میں متعبر جج اور تین رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس شاہد کریم نے سزائے موت کا فیصلہ دیا جب کہ جسٹس نذر اکبر نے فیصلے سے اختلاف کیا، یہ مقدمہ 2013 میں مسلم لیگ نواز کی حکومت نے قائم کیا تھا،�جسٹس وقار سیٹھ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ جنرل (ر) پرویزمشرف پر آئین پاکستان توڑنے کا جرم ثابت ہوچکا ہے لہذا مجرم کو پانچ بار سزائے موت دی جائے اور انہیں اس وقت تک لٹکایا جائے جب تک اسکی موت نہ ہو جائے ، جسٹس وقار سیٹھ نے فیصلے میں لکھا کہ پھانسی سے قبل پرویز مشرف اگرفوت ہو جاتے ہیں تو اسکی لاش پانچ دن ڈی چوک پر لٹکائی جائے، اس تاریخی فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ کے ذریعے فیصلہ سنانے والی عدالت کو ہی غیر قانونی قرار دلوا کر ختم کر دیا گیا کیونکہ یہ فیصلہ طاقت کے مرکز کے سابقہ چیف کے خلاف تھا !
فیض آباد دھرنا کیس فیصلہ !!�
نوازشریف کو نااہل کروانے کے بعد جب منصوبہ سازوں کو یقین ہو گیا کہ اگلے الیکشن میں کٹھ پتلی کی کامیابی ممکن نہیں تو انہوں نے مذہب کارڈ کھیلا اور اپنے پالتو مولوی خادم رضوی کو اسلام آباد کے داخلی راستے پر بٹھا دیا، یہ دھرنا کیس مایہ ناز اصول پسند جسٹس قاضی فائز عیسی نے سنا اور تحریر کیا جو 43 صفحات پرمشتمل تھا، انہوں نے اپنے فیصلے میں وزارت دفاع کے توسط سے آرمی چیف سمیت افواج پاکستان کے سربراہان کو حکم دیا کہ وہ اپنے ان ماتحت اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کریں جنھوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی امور میں مداخلت کی، فیصلے میں درج ہے کہ آئین فوج کو سیاسی سرگرمیوں کا حصہ بننے سے روکتا ہے، فوج کسی سیاسی جماعت یا شخصیت کی حمایت نہیں کرسکتی۔ وزارتِ دفاع، افواج کے سربراہان حلف کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کریں۔ سرکاری ملازم ملک کے حکمران نہیں خادم ہیں، فیصلے میں آرمی چیف کو ہدایت کی گئی تھی کہ افواج پاکستان اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کو اپنی آئینی حدود میں رکھا جائے یہ وہ تاریخی فیصلہ تھا جس پر آج تک عمل نہیں کیا گیا ، بلکہ اب تک سات نظرثانی کی درخواستیں جمع کروائی جا چکی ہیں ، قارئین یہ وہ فیصلہ تھا جو خاکی والوں کو پسند نہیں آیا اور وہ قاضی فائز عیسی کےخلاف من گھڑت بے بنیاد کٹھ پتلی صدر سے ریفرنس دستخط کروا کر سپریم جوڈیشل کونسل پہنچ گئے !
(ماخوز)
Comments