کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں؟


دنیا زندان بنی اور زندان میں تاریکی بڑھی تو خونِ دل میں انگلیاں ڈبو کر فیض نے تو برسوں پہلے یہ شعر نجانے کس ترنگ میں کہہ ڈالا تھا، لیکن اپنے ارد گرد نظریں دوڑائیں تو موجودہ صورتحال میں آج کا معاشرہ اس شعر کے قالب میں مکمل طور پر رنگا اور ڈھلا نظر آتا ہے۔ کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ فیض نے یہ شعر آج کے معاشرے اورموجودہ صورتحال کے تناظر میں ہی کہا ہوگا۔ آج معاشرے کی ہر اکائی اور ہر جزو کے ہونٹوں پراُس شاعرِ انقلاب کا بس یہی شعر متبسم دکھائی دیتا ہے۔ اور ایسا بھلا آخر کیوں نہ ہو؟ جب ڈاکٹر دکھی انسانیت کی مسیحائی کرنے کی بجائے علاج کو اپنے فیس کے ترازو میں تولیں، جب جراح زخموں پر پھاہا رکھنے کی بجائے اُنہیں ناسور بنانے کے در پر ہوں، جب اسپتالوں میں شفا کی بجائے بیماریاں پل رہی ہوں، جب حکیم ، وید، دانا اور سیانے نبض کی بجائے مریض کی جیب پر نظریں گاڑ کر بیٹھ جائیںتو بتائیے کہ ....ع
کسے وکیل کریں کس سے  منصفی چاہیں؟
جب جب ایک استاد نئی نسل کوآداب، اخلاق اور تعلیم کے زیورسے آراستہ کرنے کی بجائے اُن کی رگوں میں منافرت، منافقت، ہوس اور جہالت کا سبق اتارتا رہے گا۔۔۔ جب جب ایک مدرس تدریس کو مقدس پیشہ سمجھنے کی بجائے تعلیم کو تجارت کے ترازو میں تولتا رہے گا۔۔۔ اور جب جب تعلیمی اداروں میں روشنی کی پنیری لگانے کی بجائے تاریکی کے تناور درخت اُگتے رہیں گے۔۔۔ تب تک ابوجہل ہی مسند نشیں اور مجسمِ جہالت ہی معاشرے کے سرخیل نظر آئیں گے اور نورِ حق کے متلاشی در در کی ٹھوکریں کھاتے رہیں گے اور ہر ٹھوکر پر منہ کے بل گرنے والا اس کے سوا اور کیا کہے گا کہ....ع
کسے وکیل کریں کس سے  منصفی چاہیں؟
جب آئین کی تشریح وکلاءکی مہنگی فیسوں کی مرہون منت ہو، جب سائل قانونی موشگافیوں کے چکر میں پڑاکچہریوں میں رلتا  رہے ، جب وکلاءہاتھوں میں ڈنڈے لے کرگلیوں اور بازاروں معصوم لوگوں کو اپنے "قانون" کا سبق رٹارہے ہوں، جب قانون وکیل کے گھر کی لونڈی اور دہلیز کی باندی بن کر رہ جائے، جب قانون بنانے والا ہی قانون کو اپنے پاو¿ں تلے روند کر گزر جائے، جب سینئر وکلاءچند ٹکوں کی خاطر اپنے بنائے ہوئے قوانین کو کالعدم قرار دینے کیلئے عدالتوں میں دلیلیں، عذر اور تاویلیں پیش کرنے لگیں تو اِ سکے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ ....ع
کسے وکیل کریں کس سے  منصفی چاہیں؟
 جب مجرم سمجھے سمجھے کہ وکیل کی بجائے "جج کرناآسان ہے"اور ایسا بالکل سو فیصد درست بھی ہو،جب عدالتوں میں گواہ بکنے لگیں اور ڈیڑھ ڈیڑھ ہزار روپے کی "گواہی" پر لوگ ناکردہ گناہوں پر پھانسی کے پھندوں پر جھولنے لگیں، جب عدالتوں میں انصاف کی بولی لگتی ہو اور جج اور جج کا ریڈر کمرہ عدالت کو "دھندے "کی جگہ بنالے اور جب بیٹے کے قاتلوں کو تختہ دار پر دیکھنے کی منتظر بوڑھی ماں مسلسل انتظار کی سولی پر لٹکی رہے اور قاتل صاف چھوٹ کر اُس کے سامنے بھنگڑے ڈالنے لگیں اور جب لاپتہ افراد کے مقدموں کی پیروی کرنے والے وکلا اور سماعت کرنے والے جج خود لاپتہ ہونے لگیں تو دکھی دل سے ایک ہی دہائی نکلتی ہے کہ....ع
کسے وکیل کریں کس سے  منصفی چاہیں؟
جب شریف آدمی تھانے جانے کے نام سے ہی دہشت زدہ ہوجائے ، جب مظلوم لڑکیاں انصاف نہ ملنے پر احتجاجا تھانوں کے سامنے خودسوزیاں کرنے لگیں، جب تھانے جائے امن کی بجائے خوف، دہشت اور خطرے کی علامت بن چکے ہوں، جب تھانوں میں بدمعاش کو کرسی پر بٹھایا جاتا ہو اور شریف کو جوتوں میں جگہ ملے، جب عہد ِغلامی میں غلاموں کیلئے بنائے گئے قانون کو "آزاد" قوم پر لاگو کردیا جائے اور اس قانون کو تبدیل کرنے کی بھی کسی میں ہمت نہ ہو اور جب یہ قانون عام آدمی کیلئے تذلیل کا باعث بن جائے تو پھر اس کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ ....ع
کسے وکیل کریں کس سے  منصفی چاہیں؟
جب عوام کو روشنی دکھانے کا دعویٰ کرنے والے میڈیا کا ایک حصہ لوگوں کو مسلسل اندھیرے میں رکھ رہا ہو، جب جھوٹ کو نقرئی ورق لگاکر سچ بناکر پیش کرنے کو باقاعدہ فن سمجھا جارہا ہو، جب حقیقت کوبے تکی دلیلوں اور غلط اعدادوشمار کی آڑ میں چھپایا جارہاہو اور جب پراپیگنڈا کو میڈیا وار کا نام دے کر سب کچھ جائز سمجھا جارہا ہو ، جب پیغمبری پیشے میں دجالی شروع ہوجائے، اور جب جابر اور ظالم حکمران کے ڈر سے پورا سچ بولنا ممکن نہ رہے تو پھر صرف یہی کہنا باقی رہ جاتا ہے کہ....ع
کسے وکیل کریں کس سے  منصفی چاہیں؟
جب حکومت مہنگائی اور تنخواہوں میں اضافے کے درمیان تناسب برقرار رکھنے کی بجائے عوام کو پیٹ پر پتھر باندھنے کا مشورہ دینے لگے،جب سیاست کو کھیل کا درجہ مل جائے اور کھیل جوئے کی اوڑھنی بن جائے، جب نیپرا کی رپورٹ صاف صاف کہہ دے کہ  بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنا اور باقاعدگی سے پوری بجلی ملنا صارفین کیلئے ایک خواب ہی رہے گا، جب حکمران یہ بتانے سے گریزاں ہوں کہ انہیں کس "محبت"یا کس محنت کے صلے میں ڈیڑھ ارب ڈالر کا تحفہ ملا ہے؟ اور جب حکمران تھر میں بھوک سے مرنے والے بچوں کی لاشوں کو اپنے خلاف سازش سمجھنا شروع ہوجائیں، جب رکھوالی کیلئے رکھا گیا کتا چوروں کے ساتھ مل جائے اور جب ہر جگہ ظالم خود ہی مدعی بھی بھی بن بیٹھے اور منصف بھی بن جائے ۔۔۔ تو پھر آپ خود ہی بتائیں کہ....ع
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاھیں ؟
جب ملک کے حکمران عدالتوں کو اپنی لونڈی سمجھنے لگیں چاھے وہ عدالت عظمی ھو یا عدالت عالیہ ۔جب با با رحمتے جیسے جج ملک کی آئین سے کھلواڑ کرنیں لگیں جب نہ کچھ ملنے پر ایک اقامہ کی بنیاد پر اسکی بلیک ڈکشنری سے تشریح کرکے سزا دینے لگیں  تو پھر آپ خود ھی بتائیں کہ. . . . ع
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاھیں؟
اور 
اور
جب ملک کی سب سے بڑی عدالت کے چیف جسٹس پی ٹی سی ایل پنشنروں اور بیواؤں کو عدالت عظمی کے 12 جون 2015  کے فیصلے پر عمل نہ کرواسکیں اور ان پی ٹی سی ایل پنشنروں کو انکا حق نہ دلاسکے بلکے الٹا اسکے خلاف ھوکر پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کا ساتھ دیں اور اور انکو ھی فائدہ پہنچانے کی کوشش کریں ۔اور جب پی ٹی سی ایل پنشنروں کے حق میں آئے ھوئے عدالت عالیہ کے فیصلوں کے خلاف ان پی ٹی سی ایل  اور پی ٹی ای ٹی کی اپیلوں کی سماعت ھی نھیں کریں ۔سینکڑوں کیسس پڑے ھوئے ھیں جنکی شنوائی کا ایک سال سے زیادہ عرصہ ھوگیا ھے ,مگ موصوف چیف جسٹس انکو لگنے دیتے ھی نھیں ، تو اس صورت میں یہ غریب پنشنرز کس سے فریاد کریں اور کہاں جائںں . جب چیف جسٹس صاحب ان غریب پنشنروں کی بات سننے کی بجائے صرف انکے وکیل سابق  جج  سندھ ھائی کوڑٹ ریٹائیڑڈ جج جسٹس شاھد انور باجواہ کی ھی صرف بات سنیں  جو انکے بہت گہرے دوست ھیں ، تو پھر آپ خود ھی بتائں. . . ع
کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں؟
کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں؟
کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں؟

(طارق)
--
Sent from Rawalpindi Pakistan via iPad

Comments

Popular posts from this blog

.....آہ ماں۔

Article-173 Part-2 [Draft for non VSS-2008 optees PTCL retired employees]

‏Article-99[Regarding clerification about the registration of the Ex-PTC employees of any capacity with EOBI by PTCL]