مقدمہ مرزائیہ بہاولپور : جب پہلی مرتبہ ریاست بہاولپور کی عدالت نے7 فروری 1935ء کو مرزائیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا تھا
مقدمہ بہاولپور: جب پہلی مرتبہ ریاست بہاولپور کی عدالت نے7 فروری 1935ء کو
مرزائیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا تھا ـ
نوٹ : پاکستان کی قومی اسمبلی نے قادیانیوں کو 7 ستمبر 1974 ء کو غیر مسلم قرار دیا تھا ، لیکن متحدہ ھندوستان کی اسلامی فلاحی ریاست بہاولپور نے میں تو 1935 ء میں ہی قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا تھا ……
پڑھئے مقدمہ بہاولپور کی مختصر روداد ـ جب ریاست بہاولپور کی عدالت نے 7 فروری 1935 میں ہی مرزائیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا تھا ـ
آغاز
اسلامی تصور حیات میں توحید کے بعد سب سے بڑی اہمیت عقیدہ ختم نبوت کو حاصل ہے اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہی وہ اصل بنیاد ہے جس کی وجہ سے اسلام دوسرے الہامی مذاہب سے ممتاز ہے اللہ تعالیٰ نے کسی گزشتہ دین کے متعلق یہ نہیں فرمایا کہ اس کی تکمیل ہو چکی ہے اور اس کی حفاظت کا میں ذمہ دار ہو ں اور نہ ہی سابقہ آسمانی کتب وصحائف کے متعلق یہ فرمایاکہ یہ خدا کا آخر ی پیغام ہے اور نہ ہی یہ فرمایااس کو پیش کرنے والا آخری نبی ہے کہ جس کا ہر قول و فعل قیامت تک لوگوں کے لیے نجات کا ذریعہ ہو مگر محمد رسول اللہ(ص) کا پیغام آخری پیغام ہے اور اپنے بعد کسی اور کے نہ آنے کا پیغام دیتاہے اللہ تعالیٰ نے جس طرح دین محمدی کے متعلق (اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا) (المائدہ :٣) ارشاد فرمایا اسی طرح رسول اللہ کے متعلق بھی کہا کہ 'مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَ لٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَا(الاحزاب :٤٠) حضور نے بھی اس مضمون کو مختلف الفاظ سے بیان فرمایا جس کی تفصیل کتب احادیث میں موجود ہے۔ اسلامی تاریخ میں بہت سے گمراہ فرقے اور فتنے پیدا ہوئے مگر ختم نبوت ،تحفظ ناموس رسالت اور جہاد من الکفار جیسے بنیادی مسائل پر سب متفق رہے اور امت محمدیہ میں سب سے پہلے جس مسئلہ پر اجماع ہوا وہ یہ تھاکہ آنحضرت خا تم انبیاء کے بعد مدعی نبوت واجب القتل اور اس پر یقین کرنے والے مرتد اور دائر ہئ اسلام سے خارج ہیں۔ انیسویں صدی کے اخر میں جب سلطنت برطانیہ کا ستارہئ اقبال پورے آب وتاب کے ساتھ کرہئ ارض پرچمک رہاتھا تو انگریز نے جہاں دین اسلام کے خلاف اور بے شمار سازشیں کیں وہاں برصغیر پا ک وہند میں اپنے ناپاک منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے ایک نبی پیدا کرکے مندرجہ بالا متفق علیہ مسائل کو متنازعہ بنانے کی کوششیں کیں مگر اس نے یہ کام اپنے کسی ہم وطن کی بجائے مسلمانان ہند میں سے ہی ایک ایسے ایمان فروش سے کرایا جس نے بے پناہ دولت کے عوض زندیق کا کردار اداکیا۔ مرزا غلام احمد قادیانی کے اعلانِ نبوت کے ساتھ ہی تمام اسلامی ممالک او رخصوصاً ہندوستان میں اس کا شدید رد عمل ہو ا پورے عالم اسلام کے علماء کرام اور قضاء نے مرزا قادیان اور اس کے ہم خیالوں کے خلاف ارتداد اور تکفیر کے فیصلے اور فتاوی جاری کئے۔تمام مکاتب فکر کے علماء نے اپنی ذمہ داری کا بر وقت احساس کرتے اپنے تمام تر فروعی اختلافات کو پس پشت ڈال کر ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن اس فتنہ کا سد باب کیا جس کی مثال اسلامی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ مرزا قادیانی کے کافر ہونے کا سب سے پہلے فیصلہ بہاولپور کی عدالت نے جاری کیا۔یہ فیصلہ مسماۃ عائشہ بی بی کا ایک قادیانی شخص عبدالرزاق مرزائی کے ساتھ نکاح کی صورت میں صادر ہوا۔ بہاولپور ایک اسلامی ریاست تھی، اس کے والی نواب جناب صادق محمد خاں خامس عباسی مرحوم ایک سچے مسلمان اور عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ خواجہ غلام فرید رحمۃ اللہ علیہ بہاولپور کے معروف بزرگ کے عقیدت مند تھے۔ خواجہ غلام فرید رحمۃ اللہ علیہ کے تمام خلفاء کو اس مقدمہ میں گہری دلچسپی تھی۔ اس وقت جامعہ عباسیہ بہاولپور کے شیخ الجامعہ مولانا غلا م محمد گھوٹوی مرحوم تھے جو حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ کے ارادت مند تھے۔ ھوا یوں ، جو علامہ غلام محمد گھوٹوی نے بیان کیا ھے کہ تحصیل احمد پور شرقیہ ریاست بہاولپور میں ایک شخص مسمی عبدالرزاق مرزائی ہو کر مرتد ہوگیا اس کی منکوحہ غلام عائشہ بنت مولوی الٰہی بخش نے سن بلوغ کو پہنچ کر 24جولائی 1926ء کو فسخ نکاح کا دعویٰ احمد پور شرقیہ کی مقامی عدالت میں دائر کردیا . دوسری طرف اسکا مرتد قادیانی شوھر بھی حرکت میں آیا اور اس نے بھی اپنی منکوحہ کو حاصل کرنے کے لیے عدالت میں مقدمہ دائرکردیا ۔ اسکے ساتھ قادیان کے کے مشھور پیروکار بھی متحرک ھوئیے ۔مگر وہ عورت لاچار اور غریب تھی اسکی بس میں نھیں تھا کے ملک کے مشھور علماء کو اپنے مقدمے کے لئیے پیروی کے لئیے رابطہ کرسکے مگر قدرت نے اسکے لئیے ایسے علماء کا اسکے کیس کی پیروی کے لئیے خود بخود انتظام کردیا تھا ۔یہ مقدمہ جو 24جولائی 1926ء بہاولپور کی ایک مقامی عدالت میں دائیر کیا گیا تھا جو 1931ء تک ابتدائی مراحل طے کر کے پھر 1932ء میں ڈسٹرکٹ جج بہاول پور کی عدالت میں بغرض شرعی تحقیق واپس ہوا۔ تو اس مقدمہ کے جج محمد اکبر نے اسوقت کے جئید علماء سے مدد مانگی اور اسکی پیروی کرنے کی گزاش کی۔ اس مقدمہ کی پیروی اور امت محمدیہ کی طرف سے نمائندگی کے لئے سب کی نگاہ انتخاب دیو بند کے فرزند شیخ الاسلام حضرت مولانا انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ پر پڑی. وہ مولانا غلام محمد صاحب کی دعوت پر اپنے تمام تر پروگرام منسوخ کر کے وہ جب بہاولپور تشریف لائے تو فرمایا کہ جب یہاں سے بلاوا آیا تو میں ڈابھیل کے لے بارکاب تھا مگر میں یہ سوچ کر یہاں چلا آیا کہ ہمارا نامہ اعمال تو سیاہ ہے ہی شاید یہی بات مغفرت کا سبب بن جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جانبدار بن کر بہاولپور آیا تھا، اگر ہم ختم نبوت کی حفاظت کا کام نہ کریں تو گلی کا کتا بھی ہم سے اچھا ہے۔ ان کے تشریف لانے سے پورے ہندوستان کی توجہ اس مقدمہ کی طرف مبذول ہوگئی، بہاولپور میں علم کی موسم بہار شروع ہوگئی۔ اس سے مرزائیت کو بڑی پریشانی لاحق ہوئی۔انہوں نے بھی ان حضرات علماء کی آ ہنی گرفت اور احتسابی شکنجے سے بچنے کیلئے ہزاروں جتن کئے۔ مولانا غلام محمد گھوٹوی، مولانا محمد حسین کولوتارڑوی، مولانا مفتی محمد شفیع، مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوری، مولانا نجم الدین، مولانا ابو الوفاشاہ جہان پوری اور مولانا محمد انور شاہ کشمیری رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم و شکراللہ سعیہم کے ایمان افروز اور کفر شکن بیانات ہوئے۔ مرزائیت بوکھلا اٹھی۔ ان دنوں مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ پر اللہ رب العزت کے جلال اور حضور سرور کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ و علیٰ آلہ واصحابہ وبارک وسلم کے جمال کا خاص پر تو تھا۔ وہ جلال و جمال کا حسین امتزاج تھے، جمال میں آکر قرآن و سنت کے دلائل دیتے تو عدالت کے درودیوارجھوم اٹھتے اور جلال میں آکر مرزائیت کو للکارتے تو کفر کے ا یوانوں میں زلزلہ طاری ہوجاتا، مولانا ابوالوفا شاہ جہان پوری نے اس مقدمہ میں مختار مدعیہ کے طور پر کام کیا۔ایک دن عدالت میں مولانا محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے جلال الدین شمس مرزائی کو للکار کر فرمایا کہ "اگر چاہو تو میں عدالت میں یہیں کھڑے ہو کر دکھاسکتا ہوں کہ مرزا قادیانی جہنم میں جل رہا ہے "مرزائی کانپ اٹھے۔ مسلمانوں کے چہروں پر بشاشت چھاگئی اور اہل دل نے گواہی دی کہ عدالت میں انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نہیں بلکہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا وکیل اور نمائندہ بول رہا ہے۔علمائے کرام کے بیانات مکمل ہوئے، نواب صاحب مرحوم پر گورنمنٹ برطانیہ کا دباؤ بڑھا۔ اس سلسلہ میں مجاہد ملت مولانا محمد علی جالندھری مرحوم نے بیان کیا کہ خضرحیات ٹوانہ کے والد نواب سر عمر حیات ٹوانہ لندن گئے ہوئے تھے۔ نواب آف بہاولپور مرحوم بھی گرمیاں اکثر لندن گزارا کرتے تھے۔ نواب مرحوم سر عمر حیات ٹوانہ لندن میں ملے اور مشورہ طلب کیا کہ انگریز گورنمنٹ کا مجھ پر دباؤ ہے کہ ریاست بہاولپور سے اس مقدمہ کو ختم کرادیں تو اب مجھے کیا کرنا چاہیے۔ سر عمر حیات ٹوانہ نے کہا کہ ہم انگریز کے وفادار ضرور ہیں مگر اپنا دین، ایمان اور عشق رسالت مآب کا توان سے سودا نہیں کیا، آپ ڈٹ جائیں اور ان سے کہیں کہ عدالت جو چاہے فیصلہ کرے میں حق و انصاف کے سلسلہ میں اس پر دباؤ نہیں ڈالنا چاہتا۔ بالا آخیر ان جئید علماء کے دلائیل سامنے رکھتے ھوئیے ، جج محمد اکبر خان نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا پہلا عظیم فیصلہ 7 فروری 1935 کو صادر فرمایا اور عائشہ بی بی کا اس قادیانی شخص کے ساتھ نکاح کو فسخ قرار دیا ۔ بعد ازاں اس خاتون کا نکاح محدث العصر مولاناسلطان محمود جلالپوری کے ساتھ کر دیا گیا ہے۔ مولانا محمد علی جالندھری نے یہ واقعہ بیان کر کے ارشاد فرمایا کہ ان دونوں کی نجات کے لئے اتنی بات کافی ہے۔ جناب محمد اکبر جج مرحوم کو ترغیب و تحریص کے دام تزویر میں پھنسانے کی مرزائیوں نے کوشش کی لیکن ان کی تمام تدابیر غلط ثابت ہوئیں، مولانا سید محمد انور شاہ کشمیر ی رحمۃ اللہ علیہ اس فیصلہ کے لیے اتنے بے تاب تھے کہ بیانات کی تکمیل کے بعد جب بہاولپور سے جانے لگے تو مولانا محمد صادق مرحوم سے فرمایا کہ اگر زندہ رہا تو فیصلہ خود سن لوں گا اور اگر فوت ہوجاؤں تو میری قبر پر آکر یہ فیصلہ سنا دیا جائے۔ چنانچہ مولانا محمد صادق نے آپ کی وصیت کو پورا کیا۔ آپ نے آخری ایام علالت میں دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ و طلبہ اور دیگر بہت سے علماء کے مجمع میں تقریر فرمائی تھی، جس میں نہایت درد مندی و دل سوزی سے فرمایا تھا۔ وہ تمام حضرات جن کو مجھ سے بلا واسطہ یا بالواسطہ تلمذ کا تعلق ہے اور جن پر میرا حق ہے کہ میں ان کو خصوصی وصیت اور تاکید کرتا ہوں کہ وہ عقیدہ ختم نبوت کی حفاظت و پاسبانی اورفتنہ قادیانیت کے قلع قمع کو اپنا خصوصی کام بنائیں اور جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی شفاعت فرمائیں، ان کو لازم ہے کہ ختم نبوت کی پاسبانی کا کام کریں۔ یہ مقدمہ حق و باطل کا عظیم معرکہ تھا۔ جب7 فروری 1935ء کو فیصلہ صادر ہوا تو مرزائیت کے صحیح خدوخال آشکارا ہوگئے۔ بلاشبہ پوری امت جناب محمدا کبر خان جج صاحب مرحوم کی مرہون منت ہے کہ انہوں نے کمال عدل و انصاف محنت و عرق ریزی سے ایسافیصلہ لکھا کہ اس کا ایک ایک حرف قادیانیت کے تابوت میں کیل ثابت ہوا۔ قادیانیوں نے اپنے نام نہاد خلیفہ مرزا بشیر کی سربراہی میں سرظفراللہ مرتد سمیت جمع ہو کر اس فیصلہ کے خلاف اپیل کرنے کی سوچ و بچار کی لیکن آخر کار اس نتیجہ پر پہنچے کہ فیصلہ اتنی مضبوط اور ٹھوس بنیادوں پر صادر ہوا کہ اپیل بھی ہمارے خلاف جائے گی۔ اللہ رب العزت کی قدرت کے قربان جائیں، کفر ہار گیا، اسلام جیت گیا۔ ایک دفعہ پھرجاء الحق وزھق الباطل کی عملی تفسیر اس فیصلہ کی شکل میں امت کے سامنے آگئی اور مرزائی فبھت الذی کفر کا مصداق ہوگئے، اس تاریخ سازفیصلہ نے چار دانگ عالم میں تہلکہ مچا دیا۔مرزائیوں کی ساکھ روز بروز گرنا شروع ہوگئی۔ اس مقدمہ کے حوالے سے جہاں علماء کرام ومشائخ عظام اور جج صاحب کی کاوشیں سنہری حروف سے لکھی جانے کے قابل ہیں ،وہیں غلام عائشہ اور ان کے والد گرامی مولوی الٰہی بخش کا بھی پوری اُمت مسلمہ پر عظیم احسان ہے کہ انہوں نے ایک مرزائی کے خلاف فسخ ِنکاح کے دعویٰ کیا، جو ردِّ قادیانیت کے لیے پیش خیمہ ثابت ہوا۔
تحریر محمد طارق اظہر
اٹاوہ - کنیڈا
بتاریخ 11 ستمبر 2023
نوٹ: اس مضمون کو زیر تحریر لانے کے لئیے انٹرنیٹ پر مقدمہ بہاولپور کے بارے میں دئیے گئیے ھوئیے مواد سے استفادہ کیا گیا ھے
Comments