ختم نبوت تحریک : 7 ستمبر 1974 کو قادیانیوں کو آئین پاکستان میں غیر مسلم قرار دینے کی مکمل روداد
تحفظ ختم نبوت تحریک
نوٹ :
یہ زیر پیش تحریر کردہ تحفظ ختم نبوت پر مضموں ، انٹر نیٹ میں اسکے متعلق دئیے گئیے مواد اور یو ٹیوب پر مولانا شاہ احمد نوارنی صاحب کے 29 جون 1997 کو مسجد میں دئیے گئیے ھوئیے ایک خطاب اور جناب مفتی محمود کے اس بارے میں دئیے گئیے اقتباصات سے استفادہ کرکے تیار کیا گیا ھے ۔ آپ تمام دوستوں سے پر زور التماس ھے اس مضمون کو آخیر تک دل لگا کر پڑھیں اور پڑھنے کے بعد ایک دفعہ درود ابراھیمی پڑھ کر اپنے دوستوں اور عزیز رشتہ داروں کو ضرور شئیر کریں ۔ بہت بہت شکریہ
(طارق)
تحفظ ختم نبوت تحریک : 7 ستمبر 1974 کو قادیانیوں کو آئین پاکستان میں غیر مسلم قرار دینے کی مکمل روداد
اسلام و علیکم
میں نے اپنے پچھلے 11 ستمبر 2023 کو تحریر کردہ مضمون بعنوان "مقدمہ بہاولپور جس میں پہلی مرتبہ قادیانی غیر مسلم قرار دئیے گئیے تھا" کے متعلق بتایا تھا. یہ فیصلہ 7فروری 1935 میں بہاولپور ریاست کی عدالت کے جج اکبر خان نے دیا تھا۔ اس تایخ ساز فیصلے کے بعد پوری دنیا کے سامنے قادیانیوں کے عقیدے آشکار ھونے لگے اور قادیانیوں کی ساکھ روز بروز گرنے لگی ۔ اس مقدمہ کے فیصلے میں علما ، مشائیخ اور جج صاحبان کی جو کاوشیں ھیں وہ سنہرے حروف میں لکھی جانے کے قابل ھیں . بالا آخر تاریخ نے پھر سے اپنے کو دھرایا۔ایک ایسا واقعہ ھوا جسکی وجہ سے اس تحریک نے ایک بار پھر جنم لئیا۔ ھوا یوں کچھ کے 22 مئی1974ء کو نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلبہ کا ایک گروپ سیروتفریح کی غرض سے چناب ایکسپریس سے پشاور جا رہا تھا۔ جب ٹرین ربوہ ( اب اسکا نام چناب نگر ھے) پہنچی تو قادیانیوں نے اپنے معمول کے مطابق مرزا قادیانی کی خرافات پر مبنی لٹریچر تقسیم کرنا شروع کردیا۔نوجوان طلبہ اس سے مشتعل ہوگئے اور انہوں نے ختم نبوت زندہ باد اور قادیانیت مردہ باد کے نعرے لگائے۔طلبہ جب پشاور سے واپسی پر 29مئی 1974 کو ربوہ پہنچے تو قادیانی دیسی ہتھیاروں سے مسلح ہوکر طلبہ پر ٹوٹ پڑے اورطلبہ کو نہایت بے دردی سے مارنا پیٹنا شروع کردیا، انہیں لہولہان کردیااوران کا سامان لوٹ لیا۔۔جس وقت یہ خبر فیصل آباد پہنچی تھی تو مجلس تحفظ ختم نبوت کے مقامی رہنما مولانا تاج محمود ایک بہت بڑا جلوس لے کر فیصل آبادا سٹیشن پر پہنچ گئے . مسلمانوں نے اس کھلی غنڈہ گردی پر زبردست احتجاج کیا اور زخمی طلبہ کی مرہم پٹی کرائی گئی۔ اگلے روز یہ خبر پورے ملک میں پھیل گئی اور جگہ جگہ مظاہروں کاایک طوفان اُمڈ پڑا۔پنجاب اسمبلی میں قائد ِ حزب اختلاف علامہ رحمت اللہ ارشد نے اس واقعہ پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا:"ختم نبوت کی دینی حیثیت کے متعلق تمام مسالک کے علماء متفق ہیں کہ قادیانی دائرئہ اسلام سے خارج ہیں۔"مجلس تحفظ ِختم نبوت کے اُس وقت کے امیر مولانا سید محمدیوسف بنوری کی دعوت پر تمام طبقات نے لبیک کہا اور کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت تشکیل پائی جس کا امیر بھی مولانا یوسف بنوری کو بنایا گیا۔ 9جون1974ء کولاہور میں اس مجلس کا پہلااجلاس منعقد ہوا،جس میں قادیانیت کے خلاف ایک بھرپور تحریک چلانے کا اعلان کیا گیا۔اس تحریک کا بس ایک ہی نعرہ تھا کہمرزائیت کو غیر مسلم قرار دیا جائے۔اس حوالے سے مجلس عمل کے قائدین نے پورے ملک کے طوفانی دورے کیے اور قادیانیت کے خلاف محاذ پر تمام مکاتب فکر کو متحدکیا۔ اخبارات،دینی جرائد اور طلبہ تنظیموں نے اس تحریک میں ایک جوش کی روح پھونک دی۔قادیانی اس تحریک سے بلبلا اٹھے اور مسلمانوں کو تشدد کے ذریعے ہراساں کرنے کے لیے کئی جگہ دستی بموں سے حملے بھی کئیے۔حکومت نے ابتدائی طور پر تحریک کو ختم کرنے کی بھر پور کوشش کی اورتحریک ختم نبوت کے قائدین کی اکثریت تحفظ ناموس رسالت کے مطالبے کی پاداش میں جیل کی نذر ہوگئی ،مگر ان تمام معاملات نے تحریک کو ایک نئی جلا بخشی اور تحریک آگ کی طرح پورے ملک پھیلتی چلی گئی۔بالآخر حکومت نے قوم کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹونے سانحہ ربوہ اور قادیانی مسئلے پر سفارشات مرتب کرنے کے لیے پوری قومی اسمبلی کو خصوصی کمیٹی قرار دیا۔ جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ مولانا شاہ احمد نورانی نے اپوزیشن کی طرف سے ایک قرارداد پیش کی کے قادیانیوں کو یہ ایوان غیر مسلم قرار دے [اس قرارداد پر37معزز و محترم اراکین اسمبلی کے دستخط موجود تھے ۔مولانا شاہ احمد نورانی نے ان ارکان دستخطوں لینے کے سلسلے میں ایک واقعہ پیش کیا . ان کا کہنا تھا کے نیشنل عوامی پاڑٹی کا سربراہ خان عبدل ولی خان ایک سیکولر زھین رکھتے تھے اور یہ خدشہ تھا کے شائید وہ اس قرار داد پر دستخط نہ کریں ۔ تو میں انکے گھر گیا اور انسے پہلے قرار داد پر دستخط کرنے بارے میں کچھ بھی نھیں کہا ۔ بس انسے میں نے یہ سوال کیا کے کیا وہ ختم نبوت یقین رکھتے ھیں اور یہ مانتے ھیں حضرت محمد ( ص) آخری رسول ھیں اور انکے بعد کوئی نبی نھیں آۓ گا۔ جس پر خان عبدل ولی خان نے جواب دیا کیوں نھیں میں تو ختم نبوت پر مکمل یقین رکھتا ھوں ، تو میں نے جھٹ سے وہ قرار داد کا مسودہ نکالا انکی طرف بڑھاتے ھوئیے کہا تو پھر اس پر دستخط کردیں ۔ خان عبدل ولی خان تھوڑے جز بجز ھوئیے اور پھر دستخط کردئیے] اور حکومت کی طرف سے وزیر قانون عبد الحفیظ پیرزادہ نے قومی اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی ۔ قادیانی گروہ کے سربراہ مرزا ناصر احمد ( غلام احمد قادیانی کا پوتا ) نے اسپیکر غلام فاروق کو ٹیلیگرام دے کر ان سے استدعا کی کے انکے گروپ کو بھی اپنا نقطۂ نظر قومی اسمبلی میں پیش کرنے کی اجازت دی جائیے جسپر اسپیکر نے ایوان سے منظوری انکو اجازت دے دی یہ ایک انتہائی مدبرانہ فیصلہ تھا جس نے قادیانی مسئلہ کو فرقہ وارانہ دائرے سے نکال کر قومی مسئلہ کی شکل دے دی اور پارلیمنٹ کے لیے اس کے بارے میں فیصلہ کرنا آسان ہوگیا. اس پر قومی اسمبلی میں بحث شروع ہوگئی۔بحث دوماہ کے طویل عرصہ تک جاری رہی۔ان دو ماہ میں قومی اسمبلی کے28اجلاس اور68نشستیں منعقد ہوئیں۔گیارہ روز تک لاہور ی گروپ کے مرزا ناصر اور نو روز تک قادیانی گروپ کے نمائندوں پر جرح ہوتی رہی۔ اس جرح پر اُن کا سانس پھول جاتا،انہیں پسینے آجاتے اور وہ باربار پانی مانگتے۔ اور اس دوران قادیانی گروہ کے سربراہ مرزا ناصر احمد ( غلام احمد قادیانی کا پوتا ) اور قادیانیوں کے لاہوری گروپ کے راہ نما صدر الدین لاہوری، مسعود بیگ اور عبد المنان لاہوری نے مجموعی طور پر تیرہ دن تک اس فورم پر اپنے عقائد اور موقف کی وضاحت کرتے ہوئے سوالات کے جوابات دیے۔ کل ۱۸۰ سوالات تیار کئیے گئیے تھے. خصوصی کمیٹی ہر رکن کو سوال کرنے کا حق تھا جس کا طریقِ کار یہ تھا کہ اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار خصوصی کمیٹی کی طرف سے وکیل تھے، سوال ان کے پاس آتا تھا اور وہ اسے پیش کر کے کمیٹی کے سامنے ان حضرات سے جواب حاصل کرتے تھے۔اکیس دن کی کاروائی میں تیرہ دن تک ان حضرات سے سوال و جواب ہوتے رہے جبکہ باقی ایام میں کمیٹی نے اپنے طور پر اس مسئلہ کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا۔ اس دوران کل جماعتی مجلس تحفظ ختم نبوت کے سربراہ مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ کی راہ نمائی میں مسلمانوں کا متفقہ موقف اسمبلی کے سامنے پیش کرنے کے لیے مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا سمیع الحق، مولانا محمد حیاتؒ ، مولانا تاج محمودؒ ، مولانا عبد الرحیم اشعرؒ اور مولانا محمد شریف جالندھریؒ پر مشتمل علماء کرام کا گروپ اس موقف کا مسودہ مرتب کرنے کے کام میں مصروف رہا، جبکہ مولانا مفتی محمودؒ ، مولانا شاہ احمد نورانیؒ ، مولانا ظفر احمد انصاریؒ ، پروفیسر غفور احمدؒ اور چودھری ظہور الٰہیؒ اس کام کی نگرانی کرتے رہے۔ قومی اسمبلی میں یہ موقف ''ملت اسلامیہ کا متفقہ موقف'' کے عنوان سے مولانا مفتی محمودؒ نے اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے دو روز مسلسل پڑھ کر سنایا، جبکہ مولانا غلام غوث ہزارویؒ نے اپنی طرف سے ایک تفصیلی عرضداشت پیش کی جو ان کے رفیق کار مولانا عبد الحکیمؒ نے ایوان میں پڑھ کر سنائی۔قومی اسمبلی کے اسپیکر صاحبزادہ فاروق علی خان خصوصی کمیٹی کے بھی چیئرمین تھے اور یہ ساری کاروائی ان کی صدارت میں انجام پائی۔ خصوصی کمیٹی نے اکیس دن تک جبکہ قومی اسمبلی نے کم و بیش تین ماہ تک اس مسئلہ پر غور کیا اور کمیٹی کی اکیس روزہ کاروائی کے نچوڑ کے طور پر وزیر قانون جناب عبد الحفیظ پیرزادہ نے کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: ''ہم گزشتہ تین ماہ سے اس موضوع پر بات کر رہے ہیں۔ مجھے اس نقطۂ نظر سے اپنے عدم علم کا اعتراف کرنا ہے کہ میں اس مسئلہ کو اتنا گہرائی سے نہیں جانتا جتنا کچھ دوسرے ارکان جانتے ہیں، پوری تفصیل کے ساتھ اس مسئلے کو سننے کے بعد اب ہم محسوس کر سکتے ہیں کہ ایک مسلمان اس مسئلہ سے متعلق اتنا گہرا اور جذباتی رد عمل کیوں ظاہر کرتا ہے؟ ہماری ان نشستوں، مباحث اور غور و فکر کا حاصل یہ ہے کہ ختم نبوت جیسا کہ جمہور مسلمانوں کا بھی عقیدہ ہے، تمام مسلمانوں کے ایمان کا جزء ہے اور خواہ کچھ بھی وہ جائے مسلمان کسی بھی حوالے سے ختم نبوت کے اس بنیادی عقیدے کے معاملہ میں لچک کے روادار نہیں ہو سکتے۔ جناب والا! اس لیے میں نے کہا کہ یہ حکومت یا حزب مخالف کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہمیں اسے ایک قومی مسئلہ کے طور پر لینا چاہیے۔ قوم اس بات کی متحمل نہیں ہو سکتی کہ اتنے سنگین مسئلے پر تقسیم ہو جائے اور اس لیے قائد حکومت جناب وزیر اعظم پاکستان کے ذریعہ حکومت اور اس ایوان میں براجمان تمام رفقاء کی یہی کوشش رہی ہے کہ اتفاق رائے تک پہنچا جائے۔ یہ میرے لیے ایک اعزاز ہے کہ میں اکثریتی پارٹی اور اپنے دوستوں جنہوں نے مجھے یہ ذمہ داری سونپی ہے، ان کی جانب سے اس معزز کمیٹی کے سامنے یہ قرارداد پیش کروں کہ ہم اتفاق رائے تک پہنچ چکے ہیں، اور یہ قرارداد میں اپنی طرف سے اور مولانا مفتی محمودؒ ، مولانا شاہ احمد نورانی صدیقیؒ ، پروفیسر غفور احمدؒ ، جناب غلام فاروقؒ ، چودھری ظہور الٰہیؒ اور سردار مولانا بخش سومروؒ کی جانب سے پیش کرتا ہوں۔'' جناب عبد الحفیظ پیرزادہ کے اس تفصیلی خطاب کا حصہ ہے جو انہوں نے وزیر قانون کی حیثیت سے کمیٹی کے اختتامی سیشن میں کیا اور جو قرارداد انہوں نے مذکورہ بالا رفقاء کی طرف سے پیش کی وہ یہ ہے کہ: میں اپنی طرف سے اور اپنے دوستوں کی جانب سے جن دستوری ترامیم کی سفارش کرتا ہوں وہ دو ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ دستوری ترمیم کے ذریعہ اس شخص کی تعریف متعین کر دی جائے جو مسلمان نہیں ہے۔ یہ تعریف آرٹیکل 260 میں ایک شق کے اضافے کی صورت میں ہوگی، آئین کے آرٹیکل 260 کی دو شقیں ہیں، یہ آرٹیکل تعریف سے متعلق ہے اور ہم اس آرٹیکل میں شق نمبر 3 کے اضافے کے ذریعہ غیر مسلم کی حسب ذیل تعریف کا اضافہ کریں گے: ''ایسا شخص جو خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حتمی اور غیر مشروط ختم نبوت کو نہیں مانتا، یا لفظ کے کسی بھی مفہوم اور وضاحت میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبی ہونے کا دعوٰی کرتا ہے یا ایسے دعویدار کو نبی یا مذہبی مصلح مانتا ہے، اس آئین یا قانون کے مقاصد کے لحاظ سے وہ مسلمان نہیں ہے۔'' اس کے ساتھ ہی دوسری ترمیم کا ذکر ہے جس کے تحت اسمبلیوں میں غیر مسلم اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں کے حوالہ سے قادیانیوں کے دونوں گروہوں کا ذکر بھی شامل کیا گیا ہے۔ 5, 6 ستمبر 1974 کو اٹارنی جنرل آف پاکستان یحییٰ بختیار نے بحث کو سمیٹتے ہوئے دو روز تک اراکین قومی اسمبلی کے سامنے اپنا مفصل بیان پیش کیا۔7ستمبر کو فیصلے کے دن حالات بہت خراب ہوگئے۔بھٹو صاحب بیرونی دباوٴ کی وجہ سے اس آئینی ترمیم پر دستخط سے انکاری تھے، اس لیے بڑے بڑے شہروں میں فوج تعینات کردی گئی اور تحریک ختم نبو ت کے قائدین اور کارکنوں کی لسٹ بنا لی گئی، جنہیں رات کو گرفتا رکرنا تھا۔مگر خالق کائنات مسلمانوں کے حق میں فیصلہ لکھ چکا تھا ۔ ایک حدیث کے مطابق تمام انسانوں کے دل اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں اور وہ ان کو جیسے چاہتا ہے پھیر دیتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بھٹو صاحب کے دل کو پھیر دیا اور مفتی محمود صاحب کے ان کو منانے کے بعد بالآخر وہ مبارک گھڑی آئی جب 7ستمبر1974ء کو4 بج کر35 منٹ پر قادیانیوں کے دونوں گروپوں (مرزائی اور لاہوری گروپ) کو قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے قائد ایوان کی حیثیت سے خصوصی خطاب کیااور عبدالحفیظ پیر زادہ نے آئینی ترمیم کا تاریخی بل پیش کیا۔یہ بل متفقہ رائے سے منظور کیا گیا تو حزبِ اختلاف اور حزبِ اقتدار کے ارکان فرطِ مسرت سے آپس میں بغل گیر ہو گئے۔پورے ملک میں اسلامیانِ پاکستان نے گھی کے چراغ جلائے۔اس تاریخ ساز فیصلے کے بعد اکثر اسلامی ممالک نے یکے بعد دیگرے قادیانیوں کو غیرمسلم قراردیا۔یہ یقینا بہت بڑی کام یابی تھی۔ قومی اسمبلی میں بحث کے دوران اپوزیشن لیڈر محترم جناب مفتی محمود صاحب ( مولانا فضل الرحمان کے والد ) کا ملعون مرزا ناصر قادیانی سے مکلالمہ اور سوال وجواب دیدنی اور سننے کے قابل تھا۔جب قومی اسمبلی میں فیصلہ ہوا کہ قادیانیت کو موقع دیا جائےکہ وہ اپنا موقف اور دلائل دینے قومی اسمبلی میں آئیں تو.مرزا ناصر قادیانی سفید شلوار کرتےمیں ملبوس طرے دار پگڑی باندھ کر آیا اور متشرع سفید داڑهی کے ساتھ ۔ وہ قرآن کی آیتیں بهی پڑھ رھا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اسم مبارک زبان پر لاتا تو پورے ادب کیساتھ درودشریف بهی پڑھتا تھا. ایسے میں ارکان اسمبلی کےذہنوں کو تبدیل کرنا کوئی آسان کام نہیں تها۔مولانا مفتی صاحب اس صورت حال کے متعلق ماھنامہ الحق اکوڑہ خٹک کے شمارہ جنوری 1975 کے صفحہ نمبر 41 پر فرماتے ھیں "مرزا کی اس حالت میں ارکان اسمبلی کے زھنوں کو تبدیل کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا" .یہ مسلہ بہت بڑا اور مشکل تها. اللہ کی شان کہ پورےایوان کی طرف سے مفتی محمود صاحب پورے ایوان کی تر جمانی کا شرف ملا.اب مولانا مفتی صاحب کے سامنے پوری امت کے عقیدے کا مسعلہ آن پڑا. تو انھوں جاگ جاگ کر مرزا غلام قادیانی کی کتابوں کا مطالعہ کیا . اور حوالے نوٹ کئیے ۔ اور سوالات ترتیب دئیے .اسی کا نتیجہ تها کہ مرزا طاہرقادیانی کےطویل بیان کے بعد جب جرح کا آغاز ہوا تو اسی الحق رسالے میں مولانا مفتی محمود صاحب فرماتے کے ھمارا کام پہلے ھی دن بن گیا تھا. جرح کا مطلب یہ تھا کے سوال مولانا مفتی محمود صاحب کریں گے اور جواب مرزا ناصراور قادیانی دے گا. یہ سوال اور جواب آپلوگوں کی خدمت میں زیر پیش ھیں👇. 1. سوال۔مرزا غلام احمد کےبارےمیں آپکا کیا عقیدہ ہے؟ جواب۔ ( اکڑ کر دیا ) وہ امتی نبی تهے. امتی نبی کا معنی یہ کہ امت محمدیہ کا فرد جو آپکےکامل اتباع کیوجہ سے نبوت کا مقام حاصل کرلے سوال۔اس پر وحی آتی تهی؟ جواب۔آتی تهی سوال۔(اس میں) کیا کوئی خطا کا کوئی احتمال؟ جواب۔بالکل نہیں سوال۔مرزا قادیانی نےلکهاھےجو شخص مجھ پر ایمان نہیں لاتا" خواہ اسکو میرا نام نہ پہنچا ہو تو وہ کافر ہے۔پکا کافر۔دائرہ اسلام سےخارج ہے۔اس عبارت سےتو ستر کروڑ مسلمان سب کافر ہیں؟ جواب ۔کافر تو ہیں۔لیکن چهوٹے کافر ہیں"جیسا کہ امام بخاری نے اپنےصحیح میں"کفردون کفر" کی روایت درج ھے سوال۔ مگر آگے تو مرزا نے لکها ہے "پکا کافر" ؟ جواب۔اسکا مطلب ہے اپنے کفر میں پکےہیں۔ سوال۔( زور دیتے ھوئیے کہا ) مگر مرزا نے کہا ھے " دائرہ اسلام سے خارج ہے۔"حالانکہ چهوٹا کفر ملت سےخارج ہونےکا سبب نہیں بنتا ہے؟ جواب۔( بوٹیاں بدلتے ھوئیے کہا) دراصل دائرہ اسلام کےکئی کٹیگریاں ہیں۔اگر بعض سےنکلا ہے تو بعض سےنہیں نکلاھے سوال - مگر ایک جگہ اس نے لکها ہے کہ جہنمی بهی ہیں؟ (یہاں مولانا مفتی صاحب فرماتےہیں جب قوی اسمبلی کےممبران نے جب یہ سنا تو سب کےکان کهڑے ہوگئےاچها ہم جہنمی ہیں اس سےممبروں کو دهچکا لگا) اسی موقع پر دوسرا سوال کیا کہ مرزا قادیانی سے پہلے کوئی نبی آیاھےجو امتی نبی ہو؟کیا صدیق اکبر ؓ یا حضرت عمر فاروق ؓ امتی نبی تهے؟ جواب۔ نہیں تھے۔ اس جواب پرمولانا مفتی صاحب کہنے پهرتو مرزا قادیانی کے مرنے کے بعد آپ کا ہمارا عقیدہ ایک ہوگیا۔بس فرق یہ ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد نبوت ختم سمجهتےہیں۔تم مرزا غلام قادیانی کیبعد نبوت ختم سمجهتے ہو۔تو گویا تمہارا خاتم النبیین مرزا غلام قادیانی ہے۔اور ہمارے خاتم النبیین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ جواب۔وہ فنا فی الرسول تهے۔یہ انکا اپنا کمال تها۔وہ عین محمد ہوگئے تهے (معاز اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی اس سے زیادہ توہین کیا ہوسکتی تهی توبہ استغفار) اب مولانا مفتی صاحب نے آخری پتہ پھینکتے ھوئیے کہا کہ مرزا غلام قادیانی نے اپنی کتابوں کے بارے میں لکها ہے کے ہر مسلم محبت و مودت کی آنکھ سے دیکھ لیتا ہے۔اور ان کے معارف سے نفع اٹهاتاھے۔ مجهے قبول کرتا ہے۔اور میرے دعوے کی تصدیق کرتا ہے۔مگر "ذزیتہ البغایا " یعنی بدکار عورتوں کی اولاد وہ لوگ جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگا رکهی ہے۔وہ مجهے قبول نہیں کرتے۔؟ جواب۔بغایا کہ معنی سرکشوں کے ہیں۔ سوال۔بغایا کا لفظ قرآن پاک میں آیاھے"و ما کانت امک بغیا" سورہ مریم) ترجمہ ہے ۔تیری ماں بدکارہ نہ تهی" جواب۔ ( اکتا کر کہا ) قرآن میں "بغیا " لکھا ھے "بغایا" نھیں مولانا مفتی محمود صاحب اسکے اس بے تکے جواب میں فرمایا کہ صرف مفرد اور جمع کا فرق ہے۔نیز جامع ترمذی شریف میں اس مفہوم میں لفظ بغایا بهی مذکور ہے یعنی "البغایا للاتی ینکحن انفسهن بغیر بینه" (پھر جوش سےکہا) میں تمہیں چیلنج کرتا ہوں کہ تم اس لفظ بغیه کا استعمال اس معنی (بدکارہ) کے علاوہ کسی دوسرے معنی میں ہر گز نہیں کر کے دکها سکتے۔!!! اور یہ سن کر تو مرزا طاہر قادیانی جیسے سانپ سوکھ گیا اور وہ مولانا مفتی محمود صاحب اس بات پر لاجواب ھوگیا اور خاموش ھوگیا [یہاں میں ایک نہایت اھم بات آپلوگوں گوش گزار کرنا چاھتا ھوں جو مولانا شاہ احمد نوارنی صاحب اپنے ایک جمعہ کے خطاب میں جو غالبن انھوں نے 29 جون 1997 کو اس ختم نبوت کی قرار داد قومی اسمبلی میں پیش اور اس پر بحث اور پاس ھونے مراحل کے بارے میں دیا تھا ۔ انھوں نے فرمایا کے " اور بحث ختم ھورھی تھی جو آخری مرحلے میں تھی۔ قومی اسمبلی کی جو چھت تھی ۔اللہ اللہ کیا معجزہ تھا ۔ اسمبلی کے ممبر اسکے گواہ ھیں ۔ ھوا یوں جب آخری سوال ختم ھوا ، اور مرزا غلام احمد ناصر اپنا پسینہ اور منہ صاف کررھا تھا۔ مرزا غلام احمد ناصر قادیانی اسپیکر کے آگے بیٹھا ھوا تھا کے یکایک اسکے چہرے پر گندگی اور غلاظت اوپر چھت سے گرنے لگی ۔ اوپر چھت ھر طرف سے بند تھی معلوم ھوتا تھا کے کوئی پرندہ یا چڑیا اس پر یہ غلازت ڈال رھا تھا۔ مرزا غلام احمد ناصر قادیانی چیخا اور انگلش میں اسپیکر سے کہا کے یہ کیا ھورھا ھے ۔ یہ ایک معجزہ تھا . کچھ لوگ اٹھے اور کہنے کے اللہ تعالی اسکا منہ کالا کرھا ھے اور اس پر ھمیں یقین ھوگیا کے فتح ھماری ھی ھوگی] 13 دن کے سوال جواب کے بعد جب فیصلہ کی گهڑی آئی تو22 اگست1974 کو اپوزیشن کی طرف سے6 افراد پرمشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی۔جن میں یہ لوگ شامل تھے 1.مفتی_محمود_صاحب 2. مولانا_شاہ_احمدنورانی 3.پروفیسر_غفور_احمد چودہری ظہور الہی"مسٹر غلام فاروق"سردار مولا بخش سومرو اور حکومت کیطرف سے وزیرقانون عبدالحفیظ پیرزادہ انکے ذمہ یہ کام لگایا گیا کہ یہ آئینی و قانون طور پر اسکا حل نکالیں۔تاکہ آئین پاکستان میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے انکے کفر کو درج کردیا جائےلیکن اس موقع پر ایک اور مناظرہ منتظر تها۔کفرِ قادیانیت و لاہوری گروپ پر قومی اسمبلی میں جرح تیرہ روز تک جاری رہی اور گیارہ دن ربوہ گروپ پر اور دو دن لاہوری گروپ پر بھی ۔ ہرروز آٹھ گھنٹے جرح ہوئی۔اس طویل جرح و تنقید نے قادیانیت کےبھیانک چہرے کو بےنقاب کر کے رکھ دیا.اسکےبعد ایک اور مناظرہ ذولفقار علی بھٹو کی حکومت سےشروع ہوا کہ آئین پاکستان میں اس مقدمہ کا "حاصل مغز"کیسے لکھاجائے؟. کمیٹی کوئی فیصلہ ہی نہ کرسکی۔چنانچہ6 ستمبر کو وزیراعظم بهٹو نےنورانی صاحب سمیت پوری کمیٹی کےارکان کو پرائم منسٹر ہاوس بلایا۔لیکن یہاں بهی بحث و مباحثہ کا نتیجہ صفر نکلا۔حکومت کی کوشش تهی کہ آئین کی شق 106 میں ترمیم کا مسلہ رہنے دیاجائے جبکہ مولانا مفتی محمود اور دیگر کمیٹی کےارکان. سمجهتے تهےکہ اسکے بغیر حل ادهورا رہےگا بڑے بحث و مباحثہ کے بعد بهٹو صاحب نےکہا کہ میں سوچوں گا.عصر کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا۔وزیرقانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے مولانا نورانی صاحب اور دیگر کمیٹی ارکان کو اسپیکر کےکمرے میں بلایا۔ نورانی صاحب اور کمیٹی نے وہاں بهی اپنے اسی موقف کو دهرایا کہ آئین کی شق 106 میں دیگر اقلیتوں کیساتھ مرزائیوں کا نام لکها اور اسکی تصریح کیجائے اور بریکٹ میں قادیانی اور لاہوری گروپ لکها جائے. پیرزادہ صاحب نےکہا کہ وہ اپنے آپکو مرزائی نہیں کہتے،احمدی کہتےہیں. مولانا مفتی محمود نےکہا کہ احمدی تو ہم ہیں۔ہم انکو احمدی تسلیم نہیں کرتے پهر کہا کہ چلو مرزا غلام احمد کے پیرو کار لکھ دو۔اس موقع پر وزیرقانون پیرزادہ صاحب لاجواب ہو کر کہنےلگے۔ چلو ایسا لکھ دو جو اپنےآپکو احمدی کہلاتےہیں۔ نورانی صاحب نےکہا بریکٹ بند ثانوی درجہ کی حیثیت رکهتاھے صرف وضاحت کیلئےہوتاھےلہذا یوں لکھ دو قادیانی گروپ اور لاھوری گروپ جو اپنے کو احمدی کہلاتے ہیں۔اور پهر الحمدللہ اس پر فیصلہ ہوگیا۔ تاریخی فیصلہ 7 ستمبر 1974 ہمارے ملک پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا وہ یادگار دن تها جب 1953 اور 74 کےشہیدانِ ختم نبوت کا خون رنگ لایا۔اور ہماری قومی اسمبلی نےملی امنگوں کی ترجمانی کی اور عقیدہ ختم نبوت کو آئینی تحفظ دے کر قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا۔ دستور کی دفعہ 260 میں اس تاریخی شق کا اضافہ یوں ہوا ہے۔ "جو شخص خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی ختم نبوت پر مکمل اور غیرمشروط ایمان نہ رکهتا ہو۔اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کیبعد کسی بهی معنی و مطلب یا کسی بهی تشریح کے لحاظ سے پیغمبر ہونےکا دعویٰ کرنےوالےکو پیغمبر یا مذہبی مصلح مانتا ہو۔وہ آئین یا قانون کےمقاصد کےضمن میں مسلمان نہیں۔" اور دفعہ 106 کی نئی شکل کچھ یوں بنی۔۔ "بلوچستان پنجاب سرحد اور سندھ کےصوبوں کی صوبائی اسمبلیوں میں ایسےافراد کیلئے مخصوص نشستیں ہونگی جو عیسائی۔ہندو سکھ۔بدھ اور پارسی فرقوں اور قادیانیوں گروہ یا لاہوری افراد( جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں ) یا شیڈول کاسٹس سے تعلق رکهتے ہیں۔ان کی بلوچستان میں ایک۔سرحد میں ایک۔پنجاب میں تین۔اور سندھ میں دو سیٹیں ہونگی یہ بات اسمبلی کےریکارڈ پر ہے۔کہ اس ترمیم کے حق میں میں 130 ووٹ آئے اور مخالفت میں ایک بهی ووٹ نہیں آیا ۔ اس موقع پر اس مقدمہ کے قائد مولانا شاہ احمد نورانی رحمہ اللہ نے فرمایا۔اس فیصلے پر پوری قوم مبارک باد کی مستحق ہے اس پر نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام میں اطمینان کا اظہار کیا جائےگا. میرے خیال میں مرزائیوں کو بهی اس فیصلہ کو خوش دلی سے قبول کرنا چاہیئے۔کیونکہ اب انہیں غیر مسلم کے جائز حقوق ملیں گے۔اور پهر فرمایا کہ سیاسی طور پر تو میں یہی کہہ سکتا ہوں (ملک کے) الجھے ہوئے مسائل کا حل بندوق کی گولی میں نہیں۔بلکہ مذاکرات کی میز پر ملتے ہیں ۔اس تاریخ ساز فیصلے کے بعد اکثر اسلامی ممالک نے یکے بعد دیگرے قادیانیوں کو بھی غیرمسلم قراردیا۔ یہ یقینا بہت بڑی کام کامیابی تھی جسکا سہرا ذوالفقار علی بھٹو کی طرف ھی جاتا ھے اگر وہ انکا یہ عزم نہ ھوتا تو کبھی بھی قادیانیوں کے خلاف یہ آئینی ترمیم نہ ھوتی۔ یہ سب کرنا انکے لئیے آساں نھیں تھا۔ ایک مرتبہ ذوالفقار علی بھٹو شورش کاشمیری کو کہنے لگے جب ختم نبوت کی تحریک زورں پر تھی تو سری لنکن صدر مسز بندرانائکے پاکستا آئں اور امریکی صد جمی کارٹڑ کا پیغام دیا کے "ذوالفقار علی بھٹو یا پاکستان نے قادیانیو کو چھیڑا تو امریکہ ناراض ھو جائیے گا۔ اور وہ کچھ پاکستان کے خلاف کردے گا جو نھیں ھونا چاھئیے ۔ مگر ذوالفقار علی بھٹو نے علمی طاقتوں کی ان دھمکیوں کے باوجود قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے میں دیر نہ کی۔ حالانکے وہ جانتے تھے وہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلواکر اپنے موت کے پروانے پر دستخط کررھے ھیں جسکا اظہار انھوں نے اپنی پھانسی سے قبل لکھے جانی والی کتاب "اگر مجھے قتل کیا گیا. . ." میں برملا کیا تھا فرماتے ھیں کے "مسٹر زیڈ اے فاروقی کے بیانات وائیٹ پیپر میں جگہ جگہ شامل ھیں ۔ یہ اتفاق ھے مسٹر زیڈ اے فاروقی، مسٹر این اے فارقی کے بھتیجے بھی ھیں جن کی بیوی میرے مقدمے میں وعدہ معاف گواہ مسعود محمود کی بہن ھے ۔اور مسٹر این اے فاروقی قادیانی ھے . انھوں نے مجھ سے بات کا بدلہ لیا ھے کے میں نے قادیانیوں کو غیر مسلم کیوں قرار دیا تھا"۔ کرنل رفیع الدین جو کے اس دور میں جیل میں سپیشل سکیورٹی سپرڈنٹ جیل کے فرائیض انجام دے رھے تھے وہ اپنی کتاب بھٹو کے آخیر 323 دن میں فرماتے ھیں بھٹو صاحب نے ایک دن فرمایا تھا " میں تو کال کوٹھری میں مجھے معلوم نھیں باھر کیا ھورھا ھے۔ مگرمجھے قادیانی بڑے خوش معلوم ھوتے لگتے ھیں ۔ وہ سمجھتے ھیں کے میری اس قید اور پھانسی کے پیچھے میرا وہ اقدام ھے جو میں نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوایا تھا ۔ مگر مجھے اپنے اس کارنامے پر بہت فخر ھے ۔ شائید میرا یہ اقدام اللہ کے آگے میری نجات کا زریعہ بن جائیے ". بلا شبہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا یہ انکا عظیم کارنامہ تھا۔ اس پر وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹوؒ کو سچا عاشق رسول ﷺ قرار دیا گیا تھا اور اس واقعہ کو ان کی نجات کا ذریعہ بھی بیان کیا گیا تھا۔ کورٹ میں چیلنج اس قانون کے پاس ہوتے ہی احمدیوں نے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اس قانونی ترمیم کو چیلنج کیا، مسلمانوں کی طرف سے ڈاکٹر سید ریاض الحسن گیلانی اور احمدیوں کی طرف سے فخرالدین جی ابراہیم نے اس کیس کی پیروی کی، لیکن مرزا غلام احمد کی تصانیف میں لکھی ہوئی اسلام مخالف باتیں دلائل قاطعہ ثابت ہوئیں اور احمدی کورٹس میں بھی خود کو مسلمان ثابت نہ کر سکے.
استدعا
آپ سب سے بس مودبانہ درخواست ہےکہ ختم نبوت کی اس آگاہی مہم میں ساتھ دیں۔اور اسے زیادہ سے زیادہ شیئر کریں، یہ ہمارے بڑوں کی جہدوجہد ہے۔جسے ہم اپنی نئی نسل تک ٹکڑوں ٹکڑوں میں سہی لیکن پہنچا ضرور دیں اپنے وال پر اس تاریح ساز الفاظ کو پوسٹ کریں ـ فالو اور شیئر کریں ۔ شکریہ
🙏🙏🙏
واسلام
محمد طارق اظہر جنرل منیجر آپس ( ریٹائیڑڈ) پی ٹی سی ایل
اٹاوہ - کنیڈا
بتاریخ 17 ستمبر 2023
Comments