پاکستان کی عدلیہ سے انصاف کی امید رکھنا ، ایک دیوانے کا خواب نظر آتا ھے

 یہ آڑٹیکل ۱۰۹ میں نے  اٹاوہ کنیڈا سے 14 جنوری 2020 کو لکھا تھا۔ اسکو دوباہ آپ لوگوں  کی خدمت میں پیش کررھا ھوں ۔ اس میں ، میں نے نہ صرف اس عدالتی کھوکھلے نظام کا زکر کیا بلکے اس کھوکھلے عدالتی نظام کی وجہ سے پی ٹی سی ایل پٹیشنرز پنشنرز اور پٹیشنرز کے ساتھ جو زیادتی پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی نے کی اور جسطح ھماری عدلیہ نے انکا ساتھ دیا اور پی ٹی سی ایل پٹیشنرز کے ساتھ ناانصافی کی ھے  اسکا بھی زکر کیا ھے جو نہایت ھی قابل شرم ھے  سارے معاملے حالت جوں کے توں  ھی ھیں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی ۔ عدلیہ ان پی ٹی سی ایل پٹیشنرز پنشنروں کے ساتھ جو سوتیلی ماں کا سلوک کررھی ھے وہ نہایت دکھ اور تکلیف کی بات ھے.اس عدلیہ سے یہ بلکل بھی توقع نھیں کی جاسکتی کے ھم کو انصاف دے سکے   

(طارق)


Article-109


ھمارے ملک کا کھوکھلا عدالتی نظام ۔ جہاں کے  عدالت عظمی  تک کے  ججوں سے بھی  سے یہ امید رکھنا کے وہ جلد اور صحیح انصاف کریں گے ۔  ۔ ۔ ۔ ایک دیوانے کا خواب  نظر آتا ھے ؟؟؟؟؟؟؟


بد قسمتی سے ھم لوگ ایک ایسے ملک کے باشندے ھیں جہاں کا عدالتی نظام کھوکھلا ھوچکا ھے۔ جہاں عدالتوں کی طرف سے جلد اور دیرپا انصاف کے فیصلے فقدان کا شکار ھیں جہاں کے اعلی عدالتوں کے ججوں کے فیصلے بھی دباؤ اور کسی چمک کے آشکار نظر آتے ھیں ۔ جہاں عدالت عظمی کے فیصلوں کی کوئی توقیر نہیں کی جاتی اور وہ اپنے ھی فیصلوں پر عمل درآمد کرانے میں بے بس نظر آتی ھے ۔ جہاں انصاف اور جلد انصاف ناپید ھوچکا ھے ۔ ۹۰% سے زیادہ لوگ کو اپنی عدالتوں اور انکے فیصلوں پر بلکل اعتماد نہیں کرتے ۔ زرا سے زرا فیصلہ بھی تاخیر پر تاخیر کا شکار ھوتا رھتا ھے ۔ تاریخوں پر تاریخیں پڑتی رھتی ھیں اور جب کاروائی مکمل ھوجاتی ھے تو فیصلوں کو محفوظ کر لیا جاتا ھے ۔ اور ان محفوظ کئیے ھوئیے فیصلوں کا اتنی دیر سے اعلان کیا جاتا ھے مقدمہ کرنے والا ھی مر جاتا ھے فیصلے کا انتظار کرتے نچلی عدالتوں میں یہ تو بہت عام ھے مگر اعلی عدلیہ میں بھی یھی بہت رجحان بڑھ رھا ھے ۔ اور لوگ کہنے پر مجبور ھوتے ھیں کے انھیں عمر نوح چاھئیے اپنے اپنے مقدموں پر عدالتی فیصلے حاصل کرنے کے لئیے ۔ جہاں چمک اور دباؤ سے فیصلے ایک دن اور عدالتی چھٹیوں کے دن بھی ھو جاتے ھیں جہاں کے ججوں میں خوف خدا ختم ھوچکا ھے ۔ وہ اللہ اور اسکے رسول کے احکامات بھول چکے ھیں۔وہ فیصلے جلد اور انصاف سے کرنے کے بجائیے بادئی انظر میں یہ دیکھتے کے کون کتنا مضبوط اور طاقتور ھے اور پھر انکو فیصلوں میں بھی اسکا اثر نظر آتا ھے۔اور وھی صحیح اور انصاف سے فیصلے نہیں کرتے۔فرمان باری تعالی ہے، ترجمہ: ’’ اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو۔ اللہ تمہیں بہت خوب نصیحت کرتا ہے۔ بے شک اللہ سنتا (اور) دیکھتا ہے۔‘‘ (سورۃ النساء: آیت 58 پارہ 5 )۔اور امام کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’ سات طرح کے انسانوں کو (قیامت کے دن) اللہ تعالیٰ اپنے سایے میں جگہ دے گا جب کہ اس کے سایے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہوگا ان میں ایک امام عادل (یعنی انصاف کرنے والا حکم ران یا قاضی ہے)۔‘‘ (صحیح بخاری)عدل کے معنی حق دار کو اس کا پورا حق ادا کر دینا ہے۔ اسلام میں عدل و انصاف پر بہت زور دیا گیا ہے چوں کہ یہ وہ وصف ہے جسے اپنانے والی اقوام سربلندی و سرفرازی سے ہم کنار ہوتی ہیں اور جن معاشروں میں اس گوہر گراں مایہ سے محرومی پائی جاتی ہے وہ رُو بہ زوال ہو کر تباہی و بربادی سے دوچار ہوجاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں عدل و انصاف کے قیام پر بے انتہا زور دیا گیا ہے۔ یہی نہیں کہ صرف اللہ نے انصاف کرنے کا حکم دیا ہے بلکہ انصاف کے حقیقی معنوں کی وضاحت کرتے ہوئے کسی قسم کی رو رعایت نہ کرنے اور نفع و نقصان کو خاطر میں نہ لانے کی ہدایت بھی کی ہے ۔ ایک اور جگہ سورہ المائدہ آیت نمبر 8 میں اللہ فرماتا ہے:(اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف چھوڑ دو)۔جو لوگ فیصلے کرتے وقت ان احکامات سے رو گردانی کرتے ہیں اللہ نے انہیں کافر،ظالم اور فاسق کہا ہے۔ اب اس شخص سے زیادہ بد بخت کون ہوگا جو فاسقوں ،فاجروں اور ظالموں کے زمرے میں شمار ہونا پسند کرے گا۔ بہ حیثیت مسلمان ہم پر لازم ہے کہ ہم اللہ رب العالمین کے احکامات اور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات عالیہ پر کماحقہ عمل پیرا ہوں اور جب اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کسی بات میں فیصلہ کر دیں تو انہیں بے چوں و چرا تسلیم کرلیں اور انہی احکامات کی روشنی میں اپنے معاشرے میں صحیح معنوں میں عدل و انصاف کو جاری کریں۔ مالک کائنات نے اہل ایمان کو تاکیداً فرمایا کہ جب بھی لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے لگو تو عدل و انصاف سے فیصلہ کیا کرو یعنی اگر کوئی حکم راں ہے یا منصب قضا پر فائز ہے یا پنچایت کا سربراہ‘ اسی طرح برادری کا بڑا ہو علیٰ ہذالقیاس کوئی بھی شخص کسی بھی لحاظ سے انصاف کرنے کی پوزیشن میں ہو تو اسے چاہیے کہ وہ فریقین کے دلائل‘ حالات و واقعات اور شہادتوں یا اقرار کی صورت میں ٹھیک ٹھیک عدل کرے اور مظلوم کو اس کا پورا حق دلائے اور ظالم و غاصب کے خلاف قرآن و سنت کی روشنی میں تادیبی کارروائی کرے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہٗ الکریم کا انصاف کے حوالے سے قول معروف اورچشم کشا بھی ہے،فرمایا کفر کا معاشرہ چل سکتا ہے ظلم کا نہیں،ظلم انصاف کی ضد ہے۔انصاف ہی کے حوالے سے جنگ کے دوران برطانوی وزیراعظم چرچل کا وہ بیانیہ بھی مشہور ہوا کہ اگر عدالتوں میں انصاف ہورہا ہے تو برطانیہ کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔انصاف ناپید ہوجائے تویہ ظلم ہی کا معاشرہ ہوگا۔انصاف وہ جو بلا امتیاز اور بلا تاخیر معاشرے کے ہر فرد کو میسر ہو۔انصاف کی کارفرمائی میں بلا وجہ تاخیر بھی ناانصافی کے مصداق ہے بدقسمتی سے ھمارے ملک کے منصفین یہ اللہ کے احکامات سب بھلا بیٹھے ھیں ۔اور انکا کوئی فیصلہ شادر اور ناظر اس معیار پر پورا اترتا ھو ۔انکے فیصلے اب جو کچھ اعلی عدلیہ کررھی ھے ھے وہ سب کے سامنے ھے ۔اگر میں اس کی تفصیل میں چلاگیا تو یہ مضمون بیحد طویل ھوجائیے گا ۔ لیکن میں یہ بات ضرور کہوں گا کے ھمارا ملک آج جس نحج پر پہنچا ھے اس کو اس پر پہنچانے پر عدلیہ کا سب سے بڑا ھاتھ ھے ۔ اگر ھمارے اعلی عدلیہ کےُججز خوف خدا رکھتے اور کسی کا دباؤ نہ لیتے تو اس ملک میں شروع سے ھی جمہوریت پنپ چکی ھوتی ۔ ڈیکٹیٹر شپ کا نام و نشان تک نہ ھوتا ۔ اور ملک ترقی کررھا ھوتا ۔ پاکستان بنے کے بعد سب سے بڑا زک جمہوریت کو اسوقت سپریم کوڑٹ کے جج جسٹس منیر نے پہنچایا جسنے فالج زدہ گورنر جنرل غلام محمد کی خواجہ نظام الدین کی وزارت اور آئنی اسمبلی کو برطرفی کے حکم کو جو اسنے  انڈین ایکٹ ۱۹۳۵ میں دئیے گئیے گورنر جنرل کو دئیے ھوئیے اختیارات کے کو بروئیے کار لاتے ھوئیے دیا، اسکو جائیز اور صحیح قرار دیا ۔ [یہ کیس اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیزالدین نے سندھ ھائی کوڑٹ میں کیا تھا اور سندھ ھائی کوڑٹ نے انکی اپیل منظور کرتے گورنر جنرل غلام محمد کا حکم منسوخ کردیا اور اسمبلی اور وزارت بحال کردی جسکے خلاف گورنر جنرل غلام محمد نے اسوقت کی فیڈرل کوڑٹ یعنی سپریم کوڑٹ میں اپیل کردی جو اسوقت کے چیف جسٹس جسٹس منیر کے منظور کرلی اور سندھ ھائی کوڑٹ کا فیصلہ منسوخ کردیا ] اور یوں ڈکٹیٹر شپ اور نظریہ ضرورت کی بنیاد رکھی ۔ پھر جب اسوقت آرمی کے سربراہ جنرل ایوب نے 1956 کے آئین کے مطابق سکندر مرزا کی آئینی حکومت کو برطرف کرکے مارشل لا لگادیا 7اکتوبر 1958 . جسکو اسوقت سپریم کوڑٹ نے سٹیٹ وز ڈوسہ کیس  میں جائیز قرار دیکر ایک بار پھر جمہوریت کے کے راستے بند کردئیے۔ اور اسی ایوب خان نے اس جسٹس منیر ملک کو ملک کاوزیر قانون بنا دیا، جسکے ایک غلط فیصلے نے ملک کو ڈکٹیٹر شپ  کے مہیب کھائی میں ڈال دیا تھا اور جمہوریت ختم کردی ۔ ایوب خان نے ۱۱ سال ڈکٹر شپ کی اور جب عوامی اجتجاج پر مستعفی ھوتے ھوئیے بجائیے الیکشن کرانے کے ملک کی قیادت ایک شرابی جنرل  یحیی خان کے حوالے کر گیا۔ جس نے ملک کا بیڑا غرق کردیا اور دو ٹکڑے کرا دئیے ۔ لیکن اسوقت سپریم کوڑٹ کی ھمت نہ ھوئی کے اسکے خلاف ایکشن لیتی اور اسکی حکومت کو نااہل قرار دیتی لیکن اسکے اقتدار حکومت چھوڑنے کے بعد عاصمہ جیلانی کیس میں اسکو غاصب قرار دیا اور اسکے مارشل لاء کو غیر قانونی۔ جب 5 جولائی 1977 کو اسوقت کے آرمی چیف جنرل ضیاالحق کی مارشل لاء لگایا اور بھٹو کی حکومت کو برطرف کیا اور ۹۰ دن میں الیکشن کرانے کا وعدہ کیا۔ اور جب بیگم  نصرت علی بھٹو نے اس غیر قانونی مارشل لاء کے خلاف آئینی پٹیشن  سپریم کوڑٹ میں داخل کی اور اسوقت کے چیف جسٹس  یعقوب خان نے اسکو سماعت کے لئیے منظور  کیا تو ضیا صاحب بہت ہی سیخ پا ھوئیے تو اسی دن انھوں نے مارشل لاء آڑڈڑ کے زریعے چیف جسٹس آف پاکستان کی ریٹائیڑمنٹ کی عمر میں کمی کرکے یعقوب خان کو فورن چلتا کردیا اور جسٹس انوارالحق کو چیف جسٹس آف پاکستان لگادیا [ یہ وہ ھی چیف جسٹس پاکستان تھے جنھوں ذوالفقار علی بھٹو کو لاھور ھائی کوڑٹ   کی طرف سے دی گئی پھانسی کی سزا کو مہر ثبت کی اور انکی اپیل مسترد  کی ۔ اس جسٹس انوارالحق نے ھی بھٹو کی    اپیل ڈسمس کرنے کے فیصلے لکھا تھا ۔ یاد رھے کے لاھور ھائی کوڑٹ کے بدنام زمانہ چیف جسٹس  مولوی مشتاق حسین نے  بھٹو صاحب کی پھانسی کا حکم دیا تھا اور فیصلہ بھی خود لکھا تھا ۔ اس زلیل   چیف جسٹس  مولوی مشتاق نے یہ سب بھٹو کی دشمنی میں کیا تھا کیونکے بھٹو صاحب نے اسکو لاھور کوڑٹ کا چیف جسٹس نہیں بنایا تھا۔ ضیاء کو یہ بات معلوم تھی اسلئیے اسنے اسکو چیف جسٹس لاھور ھائی کوڑٹ بنایا تاکے وہ بھٹو صاحب کے خلاف  سخت فیصلہ کرے اور انکو سزائے موت دے]۔ تو ان چیف جسٹس پاکستان جسٹس انوارالحق نے آرمی چیف جنرل ضیاالحق کے لگائیے ھوئیے مارشل لاء کو نظریہ ضرورت کے تحت جائیز قرار دے کر پھر ڈکٹیٹر شپ کو فوقیت دی ۔ آرمی چیف جنرل ضیاالحق  گیارہ سال یہ ڈکٹیٹر شپ کی ۔وہ اگست ۱۹۸۸ میں طیارے کے حادثے میں ھلاک ھوا۔ اکتوبر ۱۹۹۹ کو آرمی چیف جنرل  پرویز مشرف نے پھرایک جمہوری حکومت کو برطرف کے ایک مارشل لاء کی طرز کی چیز نافظ کردی اور آئین معطل کردیا۔  انکے اس عمل جو اسوقت  کے چیف جسٹس  جسٹس ارشاد نے اک بار پھر نظریہ ضرورت کے تحت  اسکو جائیز قرار دیا ۔ بدلے میں مشرف نے    جسٹس ارشاد  کو چئیرمین الیکشن  کمیشن مقرر کردیا انکی ریٹائیرمنٹ  کے بعد اور اسکی اسطرح حکومت 2007 تک چلتی  رھی ۔ 

تو آپ نے دیکھا ان عدالت عظمی کے چیف جسٹسوں فیصلوں کی وجہ سے ھی اس ملک میں جمہوریت نہ پنپ سکی اور ڈکٹیٹر شپ کا راج رھا ۔ اگر شروع میں جسٹس منیر صحیح فیصلہ دے دیتا تو یہ ملک اس ڈکٹیٹر شپ کی گہری کھائی میں نہ گرتا اور اسطرح برباد نہ ھوتا جسطرح اب برباد ھورھاھے۔ ھمارے ملک میں انصاف ناپید ھو چکا ھے۔  بہت کم ججز ھیں جو انصاف سے فیصلے کرتے ھیں اور وہ بھی جلد ۔ جو اعلی عدالتوں کے ججز ھیں وہ خلائی مخلوق کے دباؤ کا حد سے زیاد شکار نظر آتے ھیں وہ انکے خلاف کیسے جاسکتے ھیں وہ انکو فنا نھیں کردیں گے ۔ جناب جسٹس شوکت عزیز اسلام آباد ھائی کوڑٹ  کا انجام تو آپ لوگ دیکھ چکے ھیں۔ انھوں قسم دیکر اک حق کی بات کی تھی اور انکا کیس فورن جوڈیشنل بھیجا اور انکو فورن برطرف کردیا ۔ اب آپ خو د بتائیں کے یہ ججز کیسے خود سے دبنگ فیصلے کرسکتے ھیں ۔ ان پچھلے تین سالوں سپریم کوڑٹ اور ھائی کوڑٹوں کے ججوں نے کیسے کیسے یک طرفہ فیصلے ، اپنے ضمیر کے خلاف کئیے۔  کیا کوئی اپیلنٹ کوڑٹ اور بھی سپریم کوڑٹ نے ٹرائیل کوڑٹ کا کام کرسکتی ھے ؟۔  مگر نواز شریف کیس میں اسنے کیا ۔ جو ایک بہت غلط مثال قائیم ھوگئی۔ اگر سپریم کوڑٹ ٹرائیل کوڑٹ کا کام کرے گی تو اسکے فیصلے کے خلاف اپیل کہاں کی جا سکتی ھے ۔ ھائیکوڑٹ اور سپریم کوڑٹ اپیلنٹ کوڑٹ ھوتی ھیں جو سیشن اور سول کوڑٹوں کے فیصلو کے خلاف اپیلیں سنتی ھیں بالترتیب ۔ مگر یہاں تو آوے کا آوا ھی نرالا ہے ۔ تو کون ایسے ججز پر اعتماد کرسکتا ھے ۔ جنکے فیصلے دباؤ یا کسی چمک کے شکار ھوں ۔ ‏یہ نہیں کے ھمارے ملک میں سب ھی جج ایسے ھی تھے جو صرف طاقتور کے دباؤ کے تحت ھی کام کرتے اور انصاف سے فیصلے کرنے سے قاصر تھے، مگر ایسے بھی دبنگ ججز تھے جو کسی بھی طاقت کے دباؤ کو بھی خاطر نہ لاتے اور انصاف اور قانون سے فیصلے کرتے ان قابل فخر ججز میں جسٹس اےآر کارلینئس،فخرالدین جی ابراہیم،بھگوان داس،دراب پٹیل اور سجاد علی شاہ کے نام قابل زکر ھیں ۔ اور موجودہ دور کے کچھ ججز جیسے جسٹس شوکت صدیقی، قاضی فائزعیسی اور چیف جسٹس پشاور وقار احمد ۔ اگر ان  جیسے چند نام اعلی عدلیہ سے نکال دئیے جائیں تو ہماری عدالتی تاریخ انتہائی تاریک ہے اور عدلیہ نے ہمیشہ اپنا وزن طاقتور کے پلڑے میں ڈالاہے۔ اور کمزور اور غریبوں کو جلد اور انصاف دینے سے محروم رکھا۔جسکی وجہ سے ھمارا یہ عدالتی نظام بلکل کھوکھلا ھو چکا ھے۔ اللہ اس ملک پر رحم کرے۔ آمین

خود اپنے پی ٹی سی ایل  پنشنروں اور نان پنشنروں کے کیسس دیکھ لیں ۔ ساڑھے نو سال سے زیادہ عرصہ ھوچکا ھے مگر پی ٹی سی ایل پنشنرز انھیں عدالتوں کے رحم وکرم پر ھیں ۔ اور ابھی تک اپنی مراد نہیں پاسکے ھیں اور در در کی ٹھوکریں کھا رھے ھیں۔ پورے پاکستان میں ھائی کوڑٹوں میں پی ٹی سی ایل ملازمین اور پنشنرس کے کیسسوں کا جال بچھا ھواھے اور سپریم کوڑٹ میں کیسس کا جائیزہ لیں تو اتنے کیسز کئیے ھوئیے ھیں کے شائید اور کسی نے نہیں کئیے ھوں ۔ مگر ابھی تک انصاف سے محروم ھیں ۔ اتنے کیسز ھیں کے اسکے لئیے پی ٹی سی ایل ھیڈ کواڑٹڑ میں الگ یونٹ ای وی پی  لیگل کی سربراہی میں بنانا پڑا۔ جس کافی وکلاء رکھے گئیے ھیں جنکا کا کام صرف ان کیسسوں کو ڈیل کرنا ھے ۔ یہ لوگ یہ سمجھتے ھیں کے  جو ھائی کوڑٹوں اور سپریم کوڑٹ نے ان پی ٹی سی ایل پنشنروں کے حق میں فیصلے کئیے ھیں جو ٹی اینڈ ٹی سے  کارپوریشن اور کمپنی میں  ٹرانسفڑڈ  ھوکر ریٹائیڑڈ ھو گئیے تھے  انکو گورنمنٹ کی اعلان کردہ پنشن جو سپریم کوڑٹ  نے اپنے ۱۲ جون ۲۰۱۵  کو دیا تھا اور جسکے خلاف انکی رویو پٹیشن بھی  17 مئی 2017 خارج ھوگئی تھی  اور جو فائینل ھو چکا ھے ، اسکو تو تبدیل یا ختم تو کراسکتے  ھی نہیں بس ایک چارا رہ گیا ھے کے اسکی عملدرآمد  میں رکاوٹ ڈالی جائیے کے  یہ تمام پنشنرس ھی مرجائیں ۔ اور طرح طرح کے حیلوں بہانے سے ، جس میں یہ عدالتیں بھی انکا پورا پورا ساتھ دے رھی ھیں  یہ لوگ اس پر عمل کرنے سے قاصر ھیں ۔ 

 جسطرح  ھائی کوڑٹیں  اور سپریم کوڑٹ پی ٹی سی ایل پنشنروں اور ملازمین کے کیسوں کے ساتھ سرد مہری کا مظاہرہ کررھی ھیں وہ بہت ھی افسوسناک ھے ۔ گزشدہ ساڑھے نو  سال سے پی ٹی سی ایل پنشنرز ایک کرب میں مبتلا ھیں ان عدالتوں کے طرز عمل کی وجہ سے ۔ باوجود انکے حق میں آنے فیصلوں کے ان پر عملدرآمد اسکی روح کے مطابق عمل کرانے پر عدالت عظمی یعنی سپریم کوڑٹ بے بس نظر آتی ھے اور مصلحت کا شکار ھے ۔ جب عدالت عظمی ھی اپنے احکامات پر عمل درآمد کرانے میں  قاصر ھے یا وہ کرانا ھی نہیں چاھتی  تو اب یہ بیچارے پی ٹی سی ایل پنشنرز کہاں جائیں  ؟۔ کیونکے عدالت عظمی سے بڑی عدالت تو ھو ھی نہیں سکتی ۔ اکثر بہت سے پی ٹی سی ایل پنشنروں کو اس بات کا صحیح طرح سے علم نہیں کے ان عدالتوں سے کیا وجہ ھے اور یہ کیسے اپنی طرف داری کا مظاہرہ پی ٹی ای  ٹی اور پی ٹی سی ایل سے کررھی ھیں اور انسے نہیں ۔ میں اس سلسلے میں اپنے پڑھنے والوں کے لئیے سپریم کوڑٹ کے اس کیس کے متعلق بتاؤں گا جسکا فیصلہ ۱۲ جون ۲۰۱۵ کو  پی ٹی سی ایل پنشنروں کے حق میں آیا اور جس پر اسکی روح کے مطابق ابتک عمل تمام پی ٹی سی ایل پنشنروں پر نہ ھو سکا باوجود اسکے اس پر عمل نہ کرنے کی توھین عدالت کی درخواست دینے کے بعد بھی ۔ 

جب گورنمنٹ آف پاکستان نے یکم جولائی ۲۰۱۰ سے سرکاری ملازمین پنشنرس کی پنشن میں 20% اضافہ کیا اور انکی کرنٹ پنشن میں ۵ % میڈیکل الاؤنس کا اضافہ کیا اور اسکو  فریز کردیا  کردیا تو پی ٹی ای ٹی نے ڈائیریکٹر جنرل پوسٹ آفس کو پی ٹی سی ایل پنشنروں کی پنشن انکریز گورنمنٹ کی اعلان کردہ یکم جولائی ۲۰۱۰ سے ۲۰%  دینے سے منع کردیا اور لکھا انکی پنشن میں اضافہ پی ٹی ای ٹی بوڑڈ آف ٹرسٹیز کی اپروول سے ھوگا نہ کے گورنمنٹ کے اعلان کے مطابق جو اسنے یکم جولائی ۲۰۱۰ سے سرکاری ملازمین پنشنرز کو دینے کے لئیے کیا ھے ۔ یاد رھے پہلے یہ ھوتا تھا یعنی ۲۰۰۹ تک پی ٹی سی ایل پنشنروں کو بھی  پنشن پوسٹ آفس سے ملتی تھی  جسطرح   دوسرے سرکاری گورنمنٹ ڈیپاڑٹمنٹ   کے ریٹائیڑڈ ملازمین کو ملتی تھی ۔ اور گورنمنٹ جب کبھی پنشن میں اضافہ کا اعلان کرتی تھی تو ڈائیریکٹر جنرل پوسٹ آفس کے حکم پر تمام پوسٹ آفس سے پنشن لینے والے سرکاری ملازمین کی پنشن میں گورنمنٹ کے اعلان کے مطابق پنشن بڑھا دی جاتی تھی ۔ جو پی ٹی سی ایل پنشنر مارچ ۲۰۰۸ میں وی ایس ایس لے کر  ریٹائیڑڈ ھوئیے تھے تھے انکی ۲۰۰۸-۲۰۰۹ اور ۲۰۰۹-۲۰۱۰  کی پنشن انکریز یکم جولائی سے گورنمنٹ کے اعلان کے مطابق ھی ھوئی تھی اور وہ پنشن انکو بھی پوسٹ آفس سے ھی ملی تھی ۔ تو اس لیٹر کے خلاف جو پی ٹی ای ٹی ڈائیریکٹر جنرل کو لکھا تھا کے پی ٹی سی ایل پنشنروں کی پنشن انکے بوڑڈ آف ٹرسٹی کی اپروول سے اعلان کردہ پنشن انکریز کے مطابق ھی کی جائیگی اور اسکے بعد جنوری ۲۰۱۱ میں پی ٹی ای ٹی ایک نوٹیفیکیشن کے زریعے پی ٹی سی ایل پنشنروں کی پنشن میں یکم جولائی 2010 سے صرف 

8 % دینے کا اعلان کیا تو اس کے خلاف  عارف صاحب سابق ڈائیریکٹر جنرل ڈیویلوپمنٹ نے ۳۰ ایسے پی ٹی سی ایل پنشنرز ساتھیوں کے ساتھ اسلام آباد ھائی کو ڑٹ میں جنوری ۲۰۱۱ میں رٹ پٹیشن داخل کی جس پر اسوقت کی چیف جسٹس محترم اقبال رحیم ۲۱ دسمبر ۲۰۱۱ کو پی ٹی سی ایل پینشنرز پٹیشنرز کے حق میں فیصلہ دیا اور انکو گورنمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریز بمعہ بقایا جات دینے کا حکم دیا ، تو پہلے بجائیے انٹرا کوڑٹ اپیل دائیر کرنے کے پی ٹی ای ٹی نے دو مہینے کے بعد سپریم کوڑٹ میں اپیل دائیر کردی  ۔ یاد رھے ھائیکوڑٹ سنگل بینچ کے فیصلے کے خلاف انٹرا کوڑٹ اپیل کا ٹائیم فیصلہ آنے کے بعد ساٹھ دن کا ھوتا ھے ۔ لیکن انھوں نے جان بوجھکر وقت پر انٹرا کوڑٹ اپیل داخل نہ کرائی در اصل وہ اسکو زیادہ سے زیادہ طویل دینا چاھتے تھے کیونکے انکو معلوم تھا کے اسلام آباد ھائی کوڑٹ کے ۲۱ دسمبر ۲۰۱۱  فیصلے کو ختم کرانے کے لئیے انکے پاس کوئی صحیح جواز نہیں تھا ۔ جب انھوں ساٹھ دن  سے بھی زیادہ  سپریم کوڑٹ میں اپیل جمع کرئی تو سپریم کوڑٹ نے لینے سے انکار کردیا۔ پھر انھوں نے سپریم کوڑٹ میں اپیل کی کے اسلام آباد ھائی کوڑٹ کو انکی انٹرا کوڑٹ  اپیل سننے کا  کا حکم دیا جائیے چونکہ ساٹھ دن  سے زیادہ ھو چکے ھیں اور ھائی کوڑٹ یہ انٹرا کوڑٹ سننے کے لئے قبول نہیں کرے گی اور سپریم کوڑٹ نے  اسلام آباد ھائی کوڑٹ کو انکی انٹرا اپیل سننے کے لئیے حکم دیا ۔ جو میں سمجھتا ھوں صحیح نہیں تھا سپریم کوڑٹ کو ایسا حکم نہیں دینا چاھئیے تھا جو ھائی کوڑٹ کے اپنے رولز کے خلاف تھا ۔ اگر سپریم کوڑٹ اسوقت ایسا حکم نہیں دیتی تو اسلام آباد ھائی کو ڑٹ کا ۲۱ دسمبر ۲۰۱۱ کو پی ٹی سی ایل پنشنروں کے حق میں کب کا فائنل ھو چکا ھوتا ۔  بحر حال یہ انٹرا کوڑٹ اپیل ڈھائی سال بعد اپریل 2014 میں اسلام آباد کے دو رکنی بینچ نے خارج کردی ۔ پھر انھوں نے اسکے خلاف سپریم کوڑٹ میں اپیل کردی ۔ جہاں پہلے سے ھی اسطرح کی پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کی  اپیلیں پینڈنگ پڑی ھوئی تھیں  سپریم کوڑٹ نے انکی اس اپیل کو انکے ساتھ کلب کردیا اور اس اپیل پر ھئیرنگ تین رکنی  بینچ نے کی جس کے سربراہ اسوقت کے چیف جسٹس محترم ناصرالملک  تھے اور دیگر دو ججز محترم مشیر عالم صاحب اور محترم گلزار صاحب ( موجودہ چیف جسٹس پاکستان ) تھے۔ھئیرنگ کی کاروائی  مکمل ھونے کے بعد اس پر فیصلہ 2 دسمبر 2014 کو محفوظ کرلیا ۔ جو سات ماہ تک محفوظ ھی رھا اور پھر اس پر فیصلہ ۱۲ جون ۲۰۱۵ کو پی ٹی سی ایل پنشنروں کے حق میں آیا اور پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل کی تمام اپیلیں  مسترد کردیں گئیں اور پی ٹی ای ٹی کا بوڑڈ آف ٹرسٹی   کو یہ  حکم جاری کیا کے وہ ملازمین جو ٹی اینڈ ٹی کے ملازمین تھے اور کارپوریشن اور کمپنی میں ٹرانسفڑڈ ھوکر ریٹائیڑڈ ھوئیے وہ اسی پی پنشن کے حقدار ھونگے جسکا اعلان گورنمنٹ آف پاکستان کرتی ھے اور ٹرسٹ کا بوڑڈ آف ٹرسٹی گورنمنٹ کی اس اعلان کردہ پنشن کو ایسے ملازمین پر فالو کرنے کا سختی سے پابند ھے۔ یہ فیصلہ موجودہ چیف جسٹس پاکستان محترم جسٹس گلزار احمد صاحب نے لکھا تھا ان کے اس فیصلے اور دیگر دو محترم ججوں   نے  تائید کی  تو یہ فیصلہ تین سپریم کوڑٹ کے محترم ججوں کا متفقانہ فیصلہ تھا  ۔ پھر اسی فیصلے کے خلاف انکی جو رویو پٹیشن  داخل کی گئی اس پر فیصلہ دو سال میں آیا ۔ عمومن رویو پٹیشنس پر فیصلے دو یا تین ماہ میں ھی جاتے ھیں مگر اس فیصلہ آنے میں دو سال لگے ۔  اس رویو اپیل کی شنوائی میں جان بوجھ کر ایسے اقدامات کئی گئیے جن سے اس رویو پٹیشن کی شنوائی میں  پہ دیر پے دیر  ھوتی رھی ۔ سپریم کوڑٹ کے رویو پٹیشن سننے کے قوانین سے ھٹ کر کام کیا گیا  اور پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل کو فائیدہ پہنچانے کی کوشش کی گئی ۔ رویو پٹیشن سننے والے پہلے بینچ کے سربراہ جناب جسٹس ثاقب نثار نے کھل کر  پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی  سی ایل کی حمایت کی اور نکی پہلی ھی پیشی انکی ایما پر جناب خالد انور ایڈوکیٹ    کو انکی درخواست پر رویو پٹیشن میں پیروی کرنے کی اجازت دے ۔ جو سراسر سپریم کوڑٹ  کے قوانین کی رویو پٹیشن سننے کے قوانین کی خلاف ورزی تھی کیونکے رویو پٹیشن کا دائیرہ کار بہت محدود ھوتا ھے ۔ رویو پٹیشن سننے کے کے لئیے انھی ججوں  کا ھونا جنھوں نے آریجنل مقدمہ  سنا ھو انکا ھونا ضروری اور اسی وکیل کا ھونا بھی ضروری ھوتا ھے جسنے اسکی پہلے پیروی کی تھی ۔ تاھم اگر کوئی ایساجج   یا ججز ریٹائیڑڈ  ھوجائیں  یا وفات پا چکے ھوں تو انکی جگہ تو رویو پٹیشن میں اور ججز تو لئیے جاسکتے ھیں جیسے انکی رویو پٹیشن میں جسٹس ناصرالملک اور مشیر عالم کی جگہ دو جج لئیے گئیے تھے اور تیسرے جج گلزار صاحب تو وھی تھے جو آریجنل اپیل (جسکا فیصلہ ۱۲ جون ۲۰۱۵  کو آیا تھا) ، حصہ تھے ۔اس آریجنل اپیل میں پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل کے وکیل ضیاالحق مخدوم اور دیگر وکلاء تھے ۔ جو  رویو پیٹیشن میں شامل نہ تھے ھیں جانے کیوں سپریم کوڑٹ نے کیوں خالد انور کو یہ موقع  فراھم کیا۔ جبکے اسکا عقدہ رویو پٹیشن کے فیصلے سے کھلا ۔ اگرچہ یہ رویو پٹیشن تین  رکنی بینچ نے متفقانہ طور پر مسترد کی تھی جسکے سربراہ موجودہ چیف جسٹس پاکستان محترم جسٹس گلزار احمد صاحب  تھے ، جنھوں نے اسکا بھی فیصلہ لکھا تھا رویو پٹیشن بغیر کسی ترمیم کے ڈسپوزڈ آف کردی تھی لیکن اس میں ایک  غلط  آڑڈڑ  بھی کرگئیےجو میں سمجھتا ھوں انکو نہیں کرنا چاھئیے تھا کیونکے انکا یہ حکم میری نظر میں سپریم کوڑٹ کے مسعود بھٹی کیس میں پی ٹی سی ایل میں کام کرنے والے ٹی اینڈ ٹی  پی ٹی سی میں بھرتی ھونے والوں پی ٹی سی ایل ملازمین کے بارے میں حکم کی بلکل خلاف ورزی تھی۔ جس میں وہ ایسے پی ٹی سی ایل ملازمین کو جو 2008 میں  وی ایس ایس لے کر ریٹائیڑڈ ھونے والوں کو متنازعہ بنا گئیے  ۔ یہ بات بتانا ضروری ہے کے مسعود بھٹی کیس 2012SCMR152 میں  سپریم کوڑٹ   نے حکم دیا تھا کے وہ پی ٹی سی ایل ملازمین  کے  جو کارپوریشن یعنی پی ٹی سی   سے یکم جنوری 1996 کو کمپنی یعنی پی ٹی سی ایل  ، میں ٹرانسفڑڈ ھوکر اسکے ملازم بن گئیے تھے ان پر گورنمنٹ آف پاکستان کے سرکاری قوانین statuary rules ھی استعمال  اور پی ٹی سی ایل  کو اس کابلکل اختیار نہیں  کے وہ ان سرکاری قوانین  میں انکے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس میں کوئی ایسی تبدیلی کریں جن سے انکو فائیدہ نہ ھو۔اور حکومت کو بھی ایسا کرنے کی ممانعت ھے ۔ تو جب خالد انور نے یہ دلیل دی کے جن لوگوں نے وی ایس ایس ایس لے لیا تو انکے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشن  تبدیل ھوگئیے اور وہ کمپنی کے ملازم بن گئیے جو سراسر اس سپریم کوڑٹ کے حکم کی خلاف ورزی تھی ۔ بھلا ایسے ملازمین کی سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس کیسے تبدیل ھو سکتی ھیں جبکے سپریم کوڑٹ نے پی ٹی سی ایل کو ایسا کرنے کا اختیار ھی نھیں دیا ۔ اور اسکی ممانعت کردی کے آپ کوئی بھی ایسی ترمیم نہیں کرسکتے جن سے انکو نقصان ھو ۔ اور جب پی ٹی سی ایل نے انکو وی ایس ایس 2008  میں دیا تو کیا انھوں نے ایسی کوئی شرط نہیں رکھی تھی کے جو وی ایس ایس لے گا وہ کمپنی کا ملازم بن جائیے گا ۔ انھوں نے تو انکو گورنمنٹ کا سرکاری ملازم ھی تصور کیا اور انکو وی ایس ایس لینے کے بعد 2009-2008 اور 2010-2009 میں گورنمنٹ کی اعلان کردہ ھی پنشن انکریز ھی  دی جو ریکاڑڈ پر ھے ۔ انھوں نے جو انکی پنشن اپروو کی  انکی تو وہ گورنمنٹ آف پاکستان  کے پنشن کے قوانین کے تحت کی ۔ اگر وہ کمپنی کے ملازم بن گئیے تھے تو انکو پنشن کیوں دی  کیوں کے کیونکے کمپنی تو پنشن دیتی ھی نھیں   تو بقول خالد انور کے وہ کمپنی کے ملازم بن گئیے تھے تو انکی پنشن گورنمنٹ کے پنشن قوانین کے تحت کیوں  بنائی ؟؟  ۔ تو خالد انور نے یہ دلیل دی کے ایسے وی ایس لے کر ریٹائیڑڈ ھونے والے پی ٹی سی ایل کے ملازمین کو جو کمپنی کے ملازم بن گئیے تھے دیا اسلئیے انکو اس  کا بلکل اختیار نہیں تھا کے وہ اپنے grievances دور کرنے کے لئیےھائی کوڑٹوں سے رجوع کرتے اور   ان سے مراعات لیتے ۔ انکا یہ اقدام  غیر قانونی تھا انھوں نے اپنی حیثیت ھائی کوڑٹوں پر نہ آشکارا کرکے اور انسے مراعات لے کر ان عدالتوں سے فراڈ کیا ۔تو خالد انور صاحب کی  اس دلیل پر ، محترمُ جناب جسٹس گلزار نے اس رویو پٹیشن  کو ڈسپوزڈ کرتے ھوئیے یہ حکم بھی جاری کردیا کے اگر خالد انور صاحب یہ سمجھتے ھیں انھوں نے ھائی کوڑٹوں سے  فراڈ کیا ھے تو بھی انھی عدالتوں  سے رجوع کریں اور انکے سی پی سی (۲)۱۲ کے تحت مقدمہ کریں [انھوں نے اسکے تحت اسلام آباد اور پشاور ھائی کوڑٹ  میں مقدمات سی پی سی (۲)۱۲ کے ایسے وی ایس ایس لے کر ریٹائیڑڈ ھونے والوں کے خلاف پٹیشنیں داخل کیں جو سب سب کی سب مسترد ھو گئیں جنکے خلاف اب انھوں نے سپریم کوڑٹ میں اپیلیں کر رکھی ھیں ۔  جو سپریم کوڑٹ نے سماعت کے لئیے منظور کرلیں ھیں اور انکی منظوری بھی  انھی سپریم کوڑٹ کے جج جسٹس گلزار صاحب نے دی ۔ میں سمجھتا ھوں انکو اسکی سماعت کی منظوری نھیں دینی چاھئیے تھے اور اسکو ڈسمس کردینا چاھئیے تھا ۔ کیونکے اس  میں سپریم کوڑٹ کے آٹھ معزز ججوں کا حکم  مسعود بھٹی کیس اور اسکی رویو پٹیشن کو ڈسمس کرنے میں صاف طور پر کلئیرڈ  ھے کے یکم جنوری 1996 کارپوریشن سے کمپنی میں ٹرانسفڑڈ ھونے والے پی ٹی سی ایل ملازمین  کے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس جس سے انکو فائیدہ نہ ھو  تبدیل نہیں کئیے جاسکتے۔ پھر انھی محترم جناب جسٹس گلزار صاحب نے صادق علی اور نسیم وہرہ  کے توھین عدالت کے ، جو 12 جون 2015 کے فیصلے  پر پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل کی طرف سے عمل نہ کرنے ی وجہ سے دائیر کی تھی ایک بہت ھی controversial فیصلہ ۱۵فروری ۲۰۱۸کو دیاجب وہ دو رکنی بینچ کے سربراہ تھے جو یہ توھین عدالت کا کیس سن رھا تھا ۔ حیرت انگیز طور  محترم جناب جسٹس گلزار صاحب نے پی ٹی ای ٹی  اور پی ٹی سی ایل کے وکیل شاھد انور باجوہ کی ایما پر ماسوائیے وی ایس ایس کے کر ریٹائیڑڈ ھونے والے پی ٹی سی ایل پنشنروں کے صرف نارملی ریٹائیڑڈ ھونے والے پی ٹی سی ایل پٹیشنرز پنشنروں کو گورنمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریز دینے کا حکم دیا۔ یہ فیصلہ   ناقابل عمل (ultra-varies تھا )   کیونکے یہ فیصلہ ان تین رکنی بینچ کے فیصلے کی نفی تھا جو اسنے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کو دیا جس میں یہ محترم جج جسٹس گلزار صاحب بھی شامل تھے جنھوں نے یہ فیصلہ لکھا تھا ۔ اور پھر اس فیصلے خلاف انکی رویو پٹیشن  بھی ۔مئی17 , 2017 کو جس تین رکنی بینچ بے ڈسپوزڈ آف کی اس تین رکنی بینچ کے سربراہ بھی محترم جج جسٹس گلزار صاحب ھی تھے ۔ انھوں نے اپنے دونوں ھی فیصلوں میں کبھی نہیں لکھا کے وی ایس لے ریٹائیڑڈ ھونے والے پی ٹی سی ایل پنشرس پٹیشنرز اس گورنمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریز کے حقدار نھیں ۔  تو یہ کیسے ممکن ھوا کے انھوں نے  اپنے ھی فیصلے کے خلاف  ۱۵ فروری ۲۰۱۸ کو جب وہ توھین عدالت کیس سنے والے دو رکنی بینچ کے سربراہ  تھے ، اس فیصلے میں ترمیم کردی ۔یہ بات سمجھ میں نہیں آتی انھوں نے چھ ججوں کے فیصلے کی ترمیم کس اختیار کے ساتھ کی جبکے انکو یہ قانونن اختیار نہیں تھا بطور  دو رکنی بینچ کے ممبر کے۔ ان چھ  ججوں کے فیصلےکو دو جج کیسے ترمیم کرسکتے تھے ؟؟؟ 

اس ۱۵ فروری ۲۰۱۸ کے فیصلے کے خلاف بھی صادق علی اور نسیم وہرہ صاحبان نے پھر توھین عدالت کے کیسسز کردئیے جو ابھی تک  زیرسماعت ھیں۔  21 اگست 2019 ان کیسسز کی سماعت کے دوران جب    پٹیشنرز کے صادق علی صاحب وکلاء جناب سید افتخار حسین گیلانی اور جناب توفیق آصف  نے یہ بات کہی کے تین ججوں کے فیصلے پر جو انھوں نے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کو دیا ، ۱۵ فروری ۲۰۱۸ کے فیصلے کو کیسے فوقیت دی جاسکتی  ؟۔اس پر محترم گلزار صاحب نے عدالت میں ارشاد کیا  کے وہ اسکو حل کرنے کے لئیے ایک لارجر  بینچ بنادیتے جو صحیح فیصلہ کرے گا ۔افسوس سے کہنا  پڑتا ھے محترم جسٹس گلزار صاحب اپنے  اس ارشاد کو عملی جامہ پہنا نہ سکے اور اس دن کی عدالتی  کاروائی  کی یعنی 21 اگست 2019  کی  آڑڈڑ شیٹ میں ایسا کوئی بھی  حکم تحریر نہیں کیا اور صرف سی پی سی (۲)۱۲ کے کیسس لارجر بینچ کے حوالے کرنے کا حکم دے کر کیسسز گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد لگانے کے حکم دیا۔ 

اتنے معزز جج جو آجکل چیف جسٹس آف پاکستان ھیں انکے اس طرز عمل پر آپ لوگ کیا کہیں  گے؟ ۔ یہی کے انکی ساری ھمدردیاں  دوسری طرف ھیں نہ کے ان پی ٹی سی ایل پنشنروں اور انکی بیواؤں کی طرف ۔ اور وہ پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کو فائیدہ پہچانا چاھتے ھیں ۔ بظاھر تو یہ ھی نظر آرھا ھے۔   اور آج اس کا مظاہرہ ایک بار پھر ھوگیا یہ کیس آج 14 جنوری 2020 بروز منگل  ۲ مہینے کے بعد چیف جسٹس پاکستان  محترم جناب جسٹس گلزار احمد صاحب کی سربراہی۔ میں تین رکنی بینچ   سپریم کوڑٹ آف پاکستان میں لگا تھا ۔ لیکن  پھر وھی ھوا - جج حضرات نے اس کیس کے سلسلے میں پٹیشنوں کو یکجا کرنے کا حکم دیا - کیونکے آج وہ پہلے اور کیسوں اتنی کاروائی کرنے کے بہت تھک گئے تھے اسلئے انہوں نے بقیہ کاروائی دو ہفتے کیلئے موخر کر دی  -پچھلے دس سالوں سے وکیلوں اور ججوں کا گٹھ جوڑ ان پی ٹی سی ایک پنشنرز کے کیسوں کے ساتھ یہی کچھ کر رہا ہے - لعنت ھو ایسے نظام عدل پر ۔ اب تک ان دس سالوں میں تین ھزار سے زیادہ ایسے پی ٹی سی ایل پنشنرز اور انکی بیوائیں وفات پاچکے ھیں  ، اسی انتظار میں عدالتیں انکی داد رسی کریں گی جلد انکے حق میں فیصلے کریں گی   اور انکو معاشی پریشانیوں سے نجات دلائیں گی ۔ ھمارے پڑوسی ملک کی عدالت عظمی نے یہ عدالتوں کو حکم دے رکھا ھے کے پنشنروں اور بیواؤں کے کیسس کے جلد فیصلے کرنے پر سب دوسرے عام  کیسس  پر ترجیحات  دی جائیں اور انکے مسائیل فوری طور پر حل کرنے کی کوشش کی جائیے ۔ میں نے ایسے بہت سے کیسس پڑھے ھیں اور یہ  پڑھ کر حیران ھو گیا ۹۰ % کیسس اکثر پنشنروں  اور بیواؤں کے حق میں ھی دئیے گئیے۔ جن اداروں نے پنشنروں کو پنشن سیکشن کرنے یا ان کو وقت پر ادا نہ کرنے   زرا سا بھی تساھل سے کام لیا تو عدالتوں نے انکی خوب گو شمالی کی اور جرمانے کئیے۔ ھمارے ملک میں ایسے بدبخت ججز ھیں جو جو جان بوجھ کر پینشنروں اور بیواؤں کے کیسس سے رو گردانی کرتےھیں اور انکے مسائیل جلد حل کرنے میں  زرا سی بھی دلچسپی  نھیں لیتے ۔ معاشرہ ججوں سے توقع رکھتا ہے کہ وہ ایسے فیصلے کرتے وقت انصاف سے کام لیں جن سے دوسرے لوگوں کی زندگی مثاتر نہ ھو ہے اور اپنے فیصلے صرف جلد ان شواہد کی بنیاد پر کریں جو ان کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں۔لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہر انسان کی اپنی پسند ناپسند ہوتی ہے جو ان کے فیصلوں پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ جس طرح محترم  جسٹس گلزار صاحب کے طرز عمل سے معلوم ھوتا ھے ، جو غریب پی ٹی سی ایل پنشنروں  کے ساتھ یہ ناانصافیاں کررھے ھیں ۔ پی ٹی سی ایل پنشنروں کے کیسس آئنے کے طرح صاف ھیں اور یہ موصوف خود بھی پی ٹی سی ایل پنشنروں کے حق میں ھی ۱۲ جون ۲۰۱۵ کو فیصلہ لکھ چکے ھیں اور پھر انکی رویو پٹیشن کو بھی 17 مئی 2017 نے  اسکو ری کنفرم کرچکے ھیں پھر ناجانے کیوں اسکی implementation کرانے میں دلچسپی نہیں لے رھے ھیں ۔ خدا کی پناہ آج پانچ سال ھونے کو آئیے اور عدالت عظمی اپنے ھی حکم پر ٹرسٹ سے عمل درآمد کرانے میں ناکام ھے ۔ آجکل جو صورت ھماری عدلیہ کی  ھے جسطرح یہ عدلیہ کام کررھی ھیں جج انصاف پر مبنی فیصلے تو کجا ۔ صرف  دباؤ  کے تحت ھی فیصلے کرنے پر مجبور نظر آتے ھیں اور غیرمرئی قوتوں  کی  پسند کے فیصلے کرکے اپنی عاقبت خراب کررھے ھیں اور عوام کی نظروں میں گررھےھیں ، وہ بہت ھی دکھ اور افسوس کی بات  ھے ۔ یہ ملک عدلیہ کی طرف سے جس ڈگر پر چل رھا ھے ، اس  سے بہت ھی خوف آتا ھے ۔ اور بار بار میرے زھین میں سر ونسٹن چرچل کا یہ ھی قول آتا ھے کے ملک جنگ سے تباہ نھیں ھوتے بلکے اس وقت تباہ ھوجاتےھیں جب اس ملک کی عدالتیں  صحیح عدل سے کام نہ کررھی ھو ں اور ججز انصاف نہ دے رھے ھوں۔

واسلام

محمد طارق اظہر

منگل ۔14 جنوری 2020

اٹاوہ۔ کنیڈا

Comments

Popular posts from this blog

.....آہ ماں۔

Article-173 Part-2 [Draft for non VSS-2008 optees PTCL retired employees]

‏Article-99[Regarding clerification about the registration of the Ex-PTC employees of any capacity with EOBI by PTCL]