A Tribute to the great national poet , creater of national anthem, Abulasar Hafeez Jalindhri




ابوالاثر حفیظ جالندھری . 
پاکستان کے ایک عظیم ، مقبول اور مقبول شاعر اور قومی ترانہ کے خالق پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے نامور مقبول رومانی شاعر اور افسانہ نگار تھے جنھوں نے پاکستان کے قومی ترانہ کے خالق کی حیثیت سے شہرتِ دوام پائی۔ ملکہ پکھراج نے ان کی نظم ابھی تو میں جوان ہوں کو گا کر شہرت دی۔
 مختصر تعارف
 ابوالاثر حفیظ جالندھری 14 جنوری، 1900 کو ہندوستان کے شہر جالندھر میں پیدا ہوئے اور آزادی کے وقت آپ لاہور منتقل ہوگئے، آپ کا قلمی نام 'ابولاثر' تھا آپ کا فنی کارنامہ اسلام کی منظوم تاریخ ہے جس کا نام 'شاہ نامۂ اسلام' ہے لیکن آپ کی وجۂ شہرت پاکستان کا قومی ترانہ ہے۔ آپ کی خدمات کے صلے میں آپ کو شاعرِ اسلام اور شاعرِ پاکستان کے خطابات سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ دیگر اعزازات میں انہیں ہلال امتیاز اور تمغۂ حسنِ کارکردگی سے بھی نوازا گیا آپ کا موضوع سخن فلسفہ اورحب الوطنی ہے آپ کی بچوں کے لیے لکھی تحریریں بھی بے حد مقبول ہیں آپ غزلیہ شاعری میں کامل ویکتا تھے، ۱۹۲۵ میں 'نغمہ زار' کے نام سے حفیظ کا پہلا مجموعہ کلام شائع ہوا۔ ملکہ پکھراج کا گایا ہوا شہرہ آفاق گیت ابھی 'تو میں جوان ہوں' بھی اسی مجموعے میں شامل تھا . بوالاثر حفیظ جالندھری صاحب کی صدر پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں بڑی ھی پزیرائی ھوئی ۔ انھوں نے نے انکو اپنا مشیر خاص بنایا تھا۔ مشھور انقلابی شاعر جناب حبیب جالب جو اپنی مشھور نظم عنوان "مشیر " سے ھے جسکے بول " اس سے میں نے یہ کہا، اس سے میں نے یہ کہا", سے شروع ھوتے ھیں ، جو لکھی تھی , وہ ان بوالاثر حفیظ جالندھری سے ایک اچانک ملاقات کے بعد ھی لکھی تھی ۔ حبیب جالب صاحب کا اس نظم لکھنے بارے میں کہنا تھا کہ یہ ھر دور میں جو ڈکٹیٹر کے جو مشیر ھوتے وہ عمومی خوشامدی لوگ ھوتے جو اسی کی تعریف میں سرگرداں رھتے ھیں اسکو خدا کا نور با شعور ھے کہتے ھیں ، تو اس نظم کا شان نزول کچھ اسطرح ھوا کے ایک دفعہ انارکلی لاھور میں میری اچانک ملاقات حفیظ جالندھری سے ھوگئی ۔ میں نے ان سے پوچھا کے حضور آجکل کیا کررھے ھیں ۔ تو انھوں نے پنجابی میں کہا " میں آجکل بڑا مصروف آں اور پھر انگلی کو اوپر اشارہ کرتے ھوئیے کہا میں اسدا ایڈوائیزر آں ۔ میں نے کہا کیا خدا کے ایڈوائیزر ھوگئیے ھیں آپ ۔کہنے لگے نئیں او تو نئیں جانداں میں توں ایوب خان دا ایڈوائیزر ھوگیا آں . . او تو نھیں جاندا۔ رات نو تین بجے بی وہ بلا لیندا اے مجے ، بتا میں حفیظ کیا کروں ۔ میرے کول فرصت ای نئیں بات کرنے دی ۔او میں نے ایوب خان نو کا اے یہ کالے کوٹ والے بلا ایں . . . انے تے ڈنڈا رکھ۔ اور ایک شاعر جو میں نئیں ماندا . . .جو میں نئیں مان دا ,جو میں . . . انے بی ڈنڈا رکھ اور انوں جیل وچ ڈال " تو اس پر میں نے یہ نظم بنالی۔ [وہ مکمل نظم زیر پیش ھے مَیں نے اس سے یہ کہا یہ جو دس کروڑ ہیں جہل کا نچوڑ ہیں ان کی فکر سو گئی ہر اُمید کی کِرن ظلمتوں میں کھو گئی یہ خبر درست ہے ان کی موت ہو گئی بے شعور لوگ ہیں زندگی کا روگ ہیں اور تیرے پاس ہے ان کے درد کی دوا میں نے اس سے یہ کہا تو خدا کا نور ہے عقل ہے شعور ہے قوم تیرے ساتھ ہے تیرے ہی وجود سے ملک کی نجات ہے تو ہے مہر ِصبح ِنو تیرے بعد رات ہے بولتے جو چند ہیں سب یہ شر پسند ہیں ان کی کھینچ لے زباں ان کا گھونٹ دے گلا میں نے اس سے یہ کہا جن کو تھا زباں پہ ناز چپ ہیں وہ زباں دراز چین ہے سماج میں بے مثال فرق ہے کل میں اور آج میں اپنے خرچ پر ہیں قید لوگ ،تیرے راج میں آدمی ہے وہ بڑا در پہ جو رہے پڑا جو پناہ مانگ لے اس کی بخش دے خطا میں نے اس سے یہ کہا ہر وزیر ہر سفیر بے نظیر ہے مشیر واہ کیا جواب ہے تیرے ذہن کی قسم ہر وزیر ہر سفیر بے نظیر ہے مشیر واہ کیا جواب ہے تیرے ذہن کی قسم خوب انتخاب ہے جاگتی ہے افسری قوم محو ِخواب ہے یہ ترا وزیر خاں دے رہا ہے جو بیاں پڑھ کے ان کو ہر کوئی کہہ رہا ہے مرحبا میں نے اس سے یہ کہا چین اپنا یار ہے اس پہ جاں نثار ہے پر وہاں ہے جو نظام اس طرف نہ جائیو اس کو دُور سے سلام دس کروڑ یہ گدھے جن کا نام ہے عوام کیا بنیں گے حکمراں تو ''یقیں'' ہے یہ ''گماں'' اپنی تو دعا ہے یہ صدر تُو رہے سدا میں نے اس سے یہ کہا] ابوالاثر حفیظ جالندھری کا قیام گلبرگ لاھور میں تھا۔ اہلیان لاھور انکی بیحد قدر و منزلت کرتے تھے ۔ بیشتر دوکاندار اکثرانسے کوئی بھی خریدے ھوئیے سودے کی رقم وصول ھی نھیں کرتے تھے ۔ یہ تو میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ یہ ستمبر 1980 کی بات ھے ، میں ان دنوں اسسٹنٹ ڈویژنل انجئنیر سینٹرل ٹیلی فون ایکسچینج لاھور ، جو مال روڈ پر جی پی او کے کے سامنے قائیم تھی ، وھاں پر تعنیات تھا۔ میں اسی مال روڈ کے ساتھ جی پی او سے زرا آگے قائیم گوشت مارکیٹ سے اکثر گوشت خرید ا کرتا تھا۔ ، اس دن میں مارکیٹ کی دوکان خریدنے گیا اور قصائی کو ایک کلو بکرے کے گوشت بنانے کا کہا اور اس قصائی دوکاندار نے ابھی گوشت تیار کرنا شروع کیا کے ایک صاحب کے پہچنے پر اسنے میرے آڈر والا گوشت بنانا چھوڑ دیا اور ان حضرت کے لئیے گوشت بنانا شروع کردیا جنھوں نے آتے ھی آدھے کلو کا آڈر دیا تھا ۔ مجھے بڑا عجیب لگا اور غصہ بھی آگیا ۔ تھوڑی دیر بعد اسنے ان صاحب کو گوشت بناکر لفافے میں ڈال کر بڑی عاجزی ان صاحب کو بڑے ادب سے دیا.اور ان سے کوئی پیسے بھی نہیں لئیے۔ ان صاحب کے جاتے ھی میں نے دکاندار سے پوچھا یہ کون صاحب تھے جنکے لئی تم نے میرے آڈر کو چھوڑ کر انکے کے لئیے گوشت بنانا شروع کردیا۔ اور پیسے بھی نھیں لئیے ۔ دوکاندا بولا ۔ صاب آپ انکو نھں پہہچانتے ، کے یہ کون ھیں ۔ میں نے کہا کے نھیں ۔ وہ کہنے لگا صاب یہ حفیظ جالندھری صاب ھیں ، خالق قومی ترانہ پاکستان کوئی بھی دکاندار انسے پیسے کبھی نھیں لیتا ۔ اور لوگ انکی بیحد عزت کرتے ھیں ( یہ سب باتیں دوکاندار نے مجھ سے پنجابی میں بتائیں تھیں)۔ میں دکاندار کی بات سن کر فورن انکی طرف ، انسے ملنے کے لئیے بھاگا مگر مجھے وہ کہیں اسوقت نظر نھیں آئیے۔ مجھے بیحد دکھ ھوا کے کیوں میں انکو پہچان نہ سکا پاکستانی کے یہ قومی ترانہ اور شاہنامہ اسلام کے خالق ابوالاثر حفیظ جالندھری نے ۲۱، دسمبر ۱۹۸۲ء کو لاہور پاکستان میں ۸۲ سال کی عمر میں وفات پائی۔ اور وہ مینار پاکستان کے سایہ تلے آسودہ خاک ہیں. ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے ابوالاثر حفیظ جالندھری کے کچھ منتخب اشعار بطور خراج عقیدت. کیوں ہجر کے شکوے کرتا ہے کیوں درد کے رونے روتا ہے اب عشق کیا تو صبر بھی کر اس میں تو یہی کچھ ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ایسا نہ ہو جائے ۔۔۔۔۔۔۔ جس نے اس دور کے انسان کیے ہیں پیدا وہی میرا بھی خدا ہو مجھے منظور نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ دوستوں کو بھی ملے درد کی دولت یا رب میرا اپنا ہی بھلا ہو مجھے منظور نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ کوئی دوا نہ دے سکے مشورۂ دعا دیا چارہ گروں نے اور بھی درد دل کا بڑھا دیا ۔۔۔۔۔۔۔ ہائے کوئی دوا کرو ہائے کوئی دعا کرو ہائے جگر میں درد ہے ہائے جگر کو کیا کروں ۔۔۔۔۔۔۔ ہاں میں تو لیے پھرتا ہوں اک سجدۂ بیتاب ان سے بھی تو پوچھو وہ خدا ہیں کہ نہیں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ہم ہی میں تھی نہ کوئی بات یاد نہ تم کو آ سکے تم نے ہمیں بھلا دیا ہم نہ تمہیں بھلا سکے ۔۔۔۔۔۔۔ او دل توڑ کے جانے والے دل کی بات بتاتا جا اب میں دل کو کیا سمجھاؤں مجھ کو بھی سمجھاتا جا ۔۔۔۔۔۔۔ احباب کا شکوہ کیا کیجئے خود ظاہر و باطن ایک نہیں لب اوپر اوپر ہنستے ہیں دل اندر اندر روتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ہاتھ رکھ رکھ کے وہ سینے پہ کسی کا کہنا دل سے درد اٹھتا ہے پہلے کہ جگر سے پہلے ۔۔۔۔۔۔۔ کس منہ سے کہہ رہے ہو ہمیں کچھ غرض نہیں کس منہ سے تم نے وعدہ کیا تھا نباہ کا ۔۔۔۔۔۔۔ بظاہر سادگی سے مسکرا کر دیکھنے والو کوئی کمبخت ناواقف اگر دیوانہ ہو جائے ۔۔۔۔۔۔۔ نہیں عتاب زمانہ خطاب کے قابل ترا جواب یہی ہے کہ مسکرائے جا ۔۔۔۔۔۔۔ اہل زباں تو ہیں بہت کوئی نہیں ہے اہل دل کون تری طرح حفیظ درد کے گیت گا سکے ۔۔۔۔۔۔۔ زندگی فردوس گم گشتہ کو پا سکتی نہیں موت ہی آتی ہے یہ منزل دکھانے کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔ آنے والے جانے والے ہر زمانے کے لیے آدمی مزدور ہے راہیں بنانے کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔ حفیظ اپنی بولی محبت کی بولی نہ اردو نہ ہندی نہ ہندوستانی ۔۔۔۔۔۔۔ شعر وادب کی خدمت میں جو بھی حفیظ کا حصہ ہے یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی باتیں نہیں. حفیظ جالندھری صاحب پاکستان کے قومی ترانے کے خالق، کی یہ غزل مجھے بیحد پسند ھے ہم میں ہی تھی نہ کوئی بات، یاد نہ تُم کو آ سکے​ تُم نے ہمیں بُھلا دیا، ہم نہ تمہیں بُھلا سکے​ ​ تُم ہی اگر نہ سُن سکے قصہ غم، سُنے گا کون؟​ کس کی زباں کھلے گی پھر، ہم نہ اگر سُنا سکے​ ​ ہوش میں آ چکے تھے ہم، جوش میں آ چکے تھے ہم​ بزم کا رنگ دیکھ کر سَر نہ مگر اُٹھا سکے​ ​ رونقِ بزم بن گئے، لَب پہ حکائتیں رہیں​ دل میں شکائتیں رہیں، لَب نہ مگر ہلا سکے​ ​ شوقِ وصال ہے یہاں، لَب پہ سوال ہے یہاں​ کس کی مجال ہے یہاں ہم سے نظر ملا سکے​ ​ ایسا ہو کوئی نامہ بر بات پہ کان نہ دھر سکے​ سُن کے یقین کر سکے، جا کے اُنہیں سُنا سکے​ ​ عجز سے اور بڑھ گئی برہمی مزاجِ دوست​ اب وہ کرے علاجِ دوست جس کی سمجھ میں آ سکے​ ​ اہلِ زباں تو ہیں بہت، کوئی نہیں ہے اہلِ دل​ کون تیری طرح حفیظ درد کے گیت گا سکے
​ (طارق)
20th Feb 2024


Comments

Popular posts from this blog

.....آہ ماں۔

Article-173 Part-2 [Draft for non VSS-2008 optees PTCL retired employees]

‏Article-99[Regarding clerification about the registration of the Ex-PTC employees of any capacity with EOBI by PTCL]