Article-184[Regarding reply of illegal letter of GM PTET ]
Article-184
موضوع:جی ایم پی ٹی ای ٹی کا گریڈ ۱۹ گریڈ ۲۱ تک کے ریٹائیڑڈ پی ٹی سی ایل آفیسران کو غیر قانونی لیٹر بھیجنا . . . . . جو یقینن توھین عدالت ھے
عزیز پی ٹی سی ایل ساتھیو
اسلام و علیکم
مندرجہ بالا موضوع کے ریفرنس سے آپ سب کو بتانا چاھتا ھوں ، کے جی ایم پی ٹی ای ٹی کا کیا جی ایم پی ٹی ای ٹی کی عقل گھاس چرنے گئی ھوئی ھے ھے۔ جو گزیٹڈ پوسٹوں کے افسرا ن کو ورکمین قرار دے رھے ھیں۔جن معزز ریٹائیڑڈ آفیسران کو ان موصوف جی ایم پی ٹی ای ٹی نے یہ غیر قانونی لیٹرز ایشو کیئیے وہ تمام فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے زریعے اسی سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے تحت بنے ھوئیے قانون یعنی سول سرونٹ ( اپاؤمنٹ، پروموشن، ٹرانسفر) رولز 1973 کے تحت ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ میں بھرتی ھوئیے تھے۔ ان سب کی بھرتی بطور اسسٹنٹ ڈویژنل انجئینر گریڈ 17 میں کی گئی تھی۔اور پھر یہ ھی لوگ 18, 19, 20 اسی سول سرونٹ ( اپاؤمنٹ، پروموشن، ٹرانسفر) رولز 1973۔ کے تحت پروموٹ ھوئیے تھے۔ ڈویژنل انجنئیر ٹی اینڈ ٹی کا بیک بون ھوتا ھے۔ یہ executing authority ھوتا یہ ضروری نھیں ھر ڈویژنل انجئینر کسی ٹیلیفون ایکسچینج کے انٹرنل اور ایکسٹرل کا انچارج ھی اسکو اسکے علاوہ بہت کام دئیے جاتے ھیں۔ کوئی ڈویژنل انجنئیر خود اپنے ھاتھ سے کام نھیں کرتا نہ وہ ٹیلیگراف لائینز پر چڑھتا ھے اور نہ کیبل ڈالنے کے لئی خود کھڈے کھودتا ھے۔ یہ ورکمین کمپنسیشن ایکٹ 1923 صرف ایسے ورک مینوں کے لئیے بنایا گیا ھے جو ایسا کام کرتے ھیں جس میں زخمی ھونے کا ، اعضا کا ٹوٹنے کا یا مرنے کا احتمال ھوتا ھے ۔ تاکے انکو مناسب معاوضہ دیا جاسکے۔ ظاھر بات جو اپنے ھاتھ سے ایسا کام کرے گا اسکو زخمی یا مرنے کا رسک ھوتا ھے۔ ٹی اینڈ ٹی میں کام کرنے والے صرف وہ ملازمین ھی ورک مین کے زمرے میں آتے ھیں جو اسی مقصد کے لئے پر ملازم کئیے گئیے ھوں ۔کیونکے آؤٹ فیلڈ میں کھمبوں، پولز پر چڑھنے اور کیبل ڈالنے کی کھدائی میں کام کے دوران کسی حادثے ھونے کا ھے جسمیں اعضا زخمی ھونے کا احتمال ھوتا ھے اور موت بھی واقع ھوسکتی ھے اسلئیے انکو معاوضۂ (Compensation ) دینے کے لئیے یہ ایکٹ نافظ کیا گیا ھے یہ حق نہ صرف ایسے ریگولر ملازمین کا ھوتا ھے جن کی ڈیوٹی ایسا کام کرنے کی ھوتی بلکے ایسے رسک والے کاموں کے لئیے ڈیلی ویجز ، کنٹریکٹ یا مسٹر رول کے زریعے casual labours کابھی ھوتا ھے ۔
میں ورکمین کمپنسیشن ایکٹ 1923 کا وہ پورشن نیچے پیش کررھا ھوں جس میں ٹیلیگراف ڈیپاڑٹمنٹ میں کام کرنے والے کن لوگوں کو ورک میں کہا گیا ھے
Extract from Workman Compensation Act 1923
2. Definition.– (1) In this Act, unless there is anything repugnant in the subject or context,
(n) “workman” means any person (other than a person whose employment is of a casual nature and who is employed otherwise than for the purposes of the employer’s trade or business) who is–specified in Schedule II, or in any such capacity as is specified in Schedule II,
SCHEDULE II
[See section 2(1)(n)]
LIST OF PERSONS WHO, SUBJECT TO THE PROVISIONS OF SECTION 2(1)(N), ARE INCLUDED IN THE DEFINITION OF WORKMEN
(ix) employed in setting up, repairing, maintaining, or taking down any telegraph or telephone line or post or any overhead electric line or cable or post or standard for the same; or
(x) employed, [189][* * *] in the construction, working, repair or demolition of any aerial ropeway, canal pipeline, or sewer; or
(xi) employed in the service of any fire-brigade; or
شیڈول (ix)2 میں section 2(1)(n) کو واضح کردیا ھے ٹیلیگراف ڈیپاڑٹمنٹ کے وہ ملازمین جنکو کسی ٹیلیگراف گراف اور ٹیلیفون لائین یا اوور ھیڈ الیکٹرک
یا کیبل یا پوسٹ کی مرمت کے لئیے ملازم کیا گیا ۔ تو وہ ورکمین کہلائیں گے تاکے انکو کام کے دوران زخمی یا وفات کی صورت میں اس ورکمین کمپنسیشن ایکٹ 1923 کے تحت معاوضہ یعنی compensation مل سکے۔۔ تو مجھ کو جی ایم پی ٹی ای ٹی صاحب بتائیں کیا کسی ڈویژنل انجئینئر کو اسلئیے بھرتی کیا جاتا ھے کے وہ اپنے ھاتھ سے ایسے کام کرے ۔ جو ورکمینوں سے لیا جاتا ھے جسمین دوران کام حادثے کا احتمال ھوتا ھے. جی ایم پی ٹی ای ٹی نے اپنے خط میں اسلام آباد ھائی کوڑٹ کے ڈویژنل بینچ کے 2 نومبر 2021 کے فیصلے کا پیرا (iii)19 کو reproduce کرکے اس کے ریفرنس سے کے بتا رھے ھیں چونکے عدالت کے اس پیرے کے مطابق ورک مین کمپنسیشن ایکٹ 1923 تحت ورکمین کی تعریف کی میں آتے ھیں چونکے وہ جنوری ۱۹۹۱ میں بطور ڈویژنل انجینئر کام کر رھے تھے اور انکی زمے داری آؤٹ ڈور ٹیلیگراف لائینز مینٹیننس ، اور مرمت کا کام تھا اسلئیے وہ لہٰزا وہ سول سرونٹ نھی ھیں اور اسلئیے وہ گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن کے حقدارنھیں ھیں۔ وہ گورمنٹ کے پنشنری بینیفٹس کے حقدار نھیں ھوسکتے۔ لگتا ھے جی ایم پی ٹی کی مت ماری گئی ھے انکا یہ استدلال نہایت ھی غلط ھے اور قانون کے خلاف ھے یعنی جو لوگ سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے سیکشن (b)(1)2 کے تحت سول سرونٹ کی تعریف میں آتے ھیں جن کی اپاؤنٹمنٹ گورنمنٹ کے ٹیلی گراف اینڈ ٹیلفون میں فیڈرل سروس کمیشن کے زریعے ھوئی تھی ۔. اسلئیے انکی ھئیت سول سرونٹ سے ورکمین کیسے تبدیل ھوسکتی ھے۔جی ایم پی ای ٹی کا کا یہ جواز سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ کی مسعود بھٹی کیس [2012SCMR152] دئیے گئی اس رولنگ کے بلکل خلاف ھے جو اس نے اس فیصلے کے پیرا نمبر 7 میں دی ھے جسمیں لکھا گیا ھے
“ کے جیسا کے اوپر نوٹ میں کہا گیا ھے کے اس میں کوئی dispute نھیں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن کی پی ٹی سی ایکٹ 1991 کے زریعے اسٹیبلشمنٹ سے پہلے ، جو اپیلنٹ تھے وہ سول سرونٹ تھے.اور اس میں بھی کوئی تنازعہ والی بات نھیں کے 1991 سے پہلے اپیلنٹس [یعنی مسعود بھٹیی سابقہ ڈائیریکٹر (B-19) ,نصیر الدین غوری سابق اسسٹنٹ ڈویژنل انجئینر (B-17 اور سئید محمد دل آویز سابقہ کلرک (B-5)] سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے تحت، سول سرونٹس کے لئیے بنائیے ھوئیے قوانین کے ساتھ چلتے تھے جیسے سول سرونٹ( ایفئینشی اینڈ ڈسپلن ) رولز 1973 اور سول سرونٹس( اپاؤنٹمنٹ، پروموشن اینڈ ٹرانسفڑڈ) رولز وغیرہ”
تو سپریم کوڑٹ کی اس رولنگ کے بعد جی ایم پی ٹی ای ٹی کا جواز باطل ھوجاتا ھے کے کے یہ آفیسران آؤٹ ڈور کام کرنے کی وجہ سے ورکمین بن گئیے تھے۔ اس میں تو عدالت چاھے گزییٹڈ ( گریڈ 17 اور اس سے اوپر)ملازمین ھو چاھے نون گزیٹیڈ گریڈ 1 سے لیکر گریڈ 16 تک )وہ سب سول سرونٹ تھے کارپوریشن کی ان سب کی سول سرونٹ ھونے کی حیثیت کاپوریشن اور پھر کمپنی میں ٹرانسفڑڈ ھونے کے بعد ختم تو ھوگئی تھی لیکن وہ کارپوریشن اور کمپنی میں بھی انپر انھی سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے تحت بنائیے ھوئیے گورمنٹ قوانین کا اطلاق ھورھا تھا جسکا زکر اوپر کیا گیا ھے۔اس سلسلے میں سپریم کوڑٹ کے پانچ رکنی بینچ 19 فروری 2016 کو پی ٹی سی ایل کی مسعود بھٹی کیس [2012SCMR152] کے خلاف انکی میں رویو اپیل خارج کرنے کے فیصلے [2016SCMR1362] کے پیرا 6 میں عدالت نے لکھ دیا ھے کے
“سابقہ ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ کے ڈیپاڑٹمنٹل ایمپلائیز پہلے پی ٹی سی ایکٹ 1991 کے سیکشن 9 کے تحت کارپوریشن کے ملازم بن گئیے اور پھر پی ٹی ( ری- آرگنائیزیشن) ایکٹ 1996 کے سیکشن 35 کے تحت کمپنی کے ملازم بن گئیے۔ انکے سروس ٹرمز اینڈ پی ٹی سی ایکٹ 1991 کے سیکشن (2)9 اور پی ٹی ( ری- آرگنائیزیشن) ایکٹ 1996 کے سیکشن (2)35 مکمل طور مکمل طور پر پروٹیکٹڈ ھیں ۔ان میں کوئی بھی سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشن نھیں تدیل کی جاسکتی جن سے انکو فائیدہ نہ ھو اور فیڈرل گورمنٹ انکی موجودہ سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس جسمیں ٹرانسفڑڈ ایپملائیز کا گورمنٹ کے پنشری بینیفٹس کا حق بھی شامل ھے۔کیونکے اوپر بیان کی گئی دفعات کے مطابق یہ پہلے کارپریشن کے ملازم بنے اور پھر کمپنی کے ملازم بنے اسلئیے یہ مزید سول سونٹ نھیں رہ سکتے . لیکن انکی سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس جو سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے سیکشن 3 سے سیکشن 22 وہ سب پی ٹی سی ایکٹ 1991 کے سیکشن (2)9 اور پی ٹی ( ری- آرگنائیزیشن) ایکٹ 1996 کے سیکشن (2)35 ، (a)36 اور (b) کے تحت پروٹیکٹڈ ھیں . یہ سب ضروری سرکاری (statutory) ھیں۔اور انکی کسی خلاف ورزی ھائی کوڑٹوں سے رجوع کیا جاسکتا ھے ۔جس کا ان ھائی کوڑٹوں کو آئینی اختیارات ھیں”۔
اب یہ پی ٹی ای ٹی والے اس سول سرونٹ ایکٹ 1973 سیکشن (1)19 کے تحت گورمنٹ کے پنشنری بینیفٹس دینے سے انکاری ھیں اسلئے انکے خلاف توھین عدالت کا کیس کیا جاسکتا ھے.
یقینن جی ایم پی ٹی ای ٹی کے پاس یہ جواز ھو گا کے وہ یہ خطوط جو لکھ رھے ھیں وہ عدالت کے ۲ نومبر ۲۰۲۱ کے فیصلے میں پیرا (iii)19 کے مطابق دے رھے ھیں جسمیں عدالت نے کہا تھا جو ملازم ورکمین کمپنسیشن ایکٹ ۱۹۲۳ اور فیکٹری ایکٹ ۱۹۳۳ کی کے تحت ورکمین کی تعریف میں آتے ھیں وہ سول سونٹ کہلائیے جاسکتے اسلئیے وہ گورمنٹ کے پنشنری بینفٹس کے کے حقدار نھیں ھوسکتے۔ ھائی کوڑٹ کا یہ فیصلہ انکے وکیل شاھد کی غلط بیانی کی وجہ سے آیا۔اگر وہ یہ عدالت کے سامنے یہ جھوٹا بیان نہ دیتے کے مسعود بھٹی اور دیگران وز فیڈریشن آف پاکستان و دیگران (2012SCMR152) میں تینوں اپیلنٹس سول سرونٹ تھے (یعنی گریڈ 17اور اس سے اوپر ) کیونکے بقول ایڈوکیٹ شاھد انور باجواہ کے جو انھوں نے عدالت میں بیان دیا کے ٹی اینڈ میں کام کرنے والے گریڈ 17 اور اس سے اوپر کے گریڈ کے سول سرونٹ ھوتے ھیں اور گریڈ 17 سے نیچے تمام ورکمین ھوتے ھیں اسلئیے یہ گورمنٹ کے پنشنری بینیفٹس کے حقدار نھیں ھو سکتے ۔ تو بقول سپریم کوڑٹ کے اس فیصلے کا اطلاق ٹی اینڈ ٹی میں کام کرنے والے تمام گریڈ 17 اور اس سے اوپر گریڈ میں کام کرنے والے ملازمین پر ھوگیا اور صرف وھی سول سرونٹ کہلائیے۔ جبکے حقیقت یہ کے جو تینوں اپیلنٹس تھے اس میں سے دو یعنی مسعود بھٹیی سابقہ ڈائیریکٹر (B-19) اورنصیر الدین غوری سابق اسسٹنٹ ڈویژنل انجئینر (B-17 ) گریڈ 17 اور اسکے اوپر کے تھے جبکے ایک اپیلنٹ سئید محمد دل آویز سابقہ کلرک (B-5) لوئیر گریڈ کا تھا۔ تو مسعود بھٹی اور دیگران وز فیڈریشن آف پاکستان و دیگران (2012SCMR152) کے فیصلے کے مطابق کمپنی میں کام کرنے والے سابقہ ٹی اینڈ ٹی اور کارپوریشن کے ملازمین کا سول سٹیٹس تو ختم ھوگیا تھا مگر ان پر سول سرونٹ ایکٹ 1973 میں دئیے گئیے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس کا اطلاق ھوگا کمپنی کے قوانین کا نھیں۔
اسلام آباد ھائی کوڑٹ کے ڈویژن بینچ جو 2 نومبر 2021 کو جو فیصلہ دیا ھے جسکے مصنف معزز جسٹس ( حالیہ چیف جسٹس ) عامر فاروق ھیں اپنے دلائیل کا آغاز ان پوائنٹس کیا کے “ learned Council ( شاھد انور باجوہ )نے یہ pointed out کیا ھے سپریم کوڑٹ نے صرف سابقہ ٹی اینڈ ٹی کے ملازمین (یعنی گریڈ 17 یا جو اس سے اوپر کے ملازمین کو ) صرف اسلئیے سول سرونٹ اسلئیے ڈکلئڑڈ کیا کیونکے پٹیشنرز سول سرونٹ تھے (یعنی صرف گریڈ17اور اسکے اوپر کے اور جو بقول ایڈوکیٹ شاھد انور باجواہ یہ سب سول سرونٹ کی کٹیگری میں آتے ھیں ) اور یہ arguments کے کچھ ملازمین ( سابقہ ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ کے ) ورکمین ھیں جو سول سرونٹ کی تعریف میں نھیں آتے ھیں “نہ ھی معزز سپریم کوڑٹ میں اٹھایا گیا اور نہ ھی اس پر عدالت نے غور کیا گیا ۔اگر ایڈوکیٹ شاھد انور باجواہ معزز عدالت کو یہ سچ آگاہ کردیتے کے ان اپیلنٹس میں ایک اپیلنٹ گریڈ 5 کابھی تھا (سئید محمد دل آویز) جو سول سرونٹ کی کٹیگری میں نھیں آتا تھا بقول انکے تو ھائی کوڑٹ کا 2 نومبر میں دیاگیا فیصلہ کچھ اور ھوتا. تو یقینن اسکے بعد یہ عدالت سمجھ جاتی کے معزز سپریم کوڑٹ نے سابقہ ٹی اینڈ کے ھر گریڈ کے ملازم کو prior to 1991 سول سرونٹ ڈکلئر کیا ھے . تو ھائی کوڑٹ سپریم کوڑٹ کے اس فیصلے کے خلاف کیسے جاتی اور یہ سوال پیرا (iii)19 میں کیونکر اٹھاتی.کے کون ورکمین ھونے کی بنا پر سول سرونٹ نھیں ھوسکتا اور اسکو گورمنٹ کے پنشنری بینیفٹس نھیں دئیے جاسکتے؟
سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ نے 12 جون 2015 کے فیصلے (2015SCMR1472 ) میں جو احکامات دئیے ھیں اس میں صاف طور پر کہا گیا ھے ٹی اینڈ ٹی کے وہ ملازمین جو کارپوریشن اور کمپنی میں ٹرانسفڑڈ ھو کر ریٹائیڑڈ ھوئیے ھیں وہ تمام اسی گورمنٹ کی پنشن کے حقدار ھیں جو گورمنٹ اپنے سول ملازمین کے لئیے اعلان کرتی ھے اور بوڑڈ آف ٹرسٹیز پر لازم ھے وہ یہ ادا کرے۔ پی ٹی ای ٹی عدالت کے اسی حکم کے مطابق ، سپریم کوڑٹ کے دورکنی بینچ نے 15 فروری 2018 کو صرف ان پٹیشنروں کو گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن ۱۵ دن میں دینے کا حکم دیا تھا جو نارملی ریٹئیڑڈ ھوئیے تھے۔ اسطرح ٹرسٹ نے 343 ایسے پٹیشنروں گورمنٹ کے اعلان کردہ وہ مکمل پنشنری بینیفٹس دئیے جو گورمنٹ اپنے ریٹئیڑڈ سول ملازمین کو دے رھی تھی ۔ اب ان 343 ملازمین میں، ان جی ایم پی ٹی کی تھیوری کے مطابق کتنے سول سرونٹ تھے اور کتنے ورکمین یہ تو خدا ھی جانتا ھے بحر حال پی ٹی ای ٹی نے تو ان سبکو بطور ریٹائڑڈ ٹیلی کمیونیکیشن اییمپلائیز والے گورمنٹ پنشنری بینیفٹس کمیونیکیشن ( ری -آرگنائیزیشن) ایکٹ 1996 کی کلاز (d)46 کے تحت ادا کئیے جو وہ ابھی تک وصول کررھے ھیں ۔ اور اب یہ ٹرسٹ سول سرونٹ کی غلط تشریح کرکے ایسے ھی آفیسران کو گورمنٹ کے اعلان کردہ پنشنری بینیفٹس دینے سے انکاری ھیں ۔ انھیں موصوف جی ایم پی ٹی ای ٹی صاحب نے ھر ایسے پٹیشنر کو خط لکھ لکھ کر بتایا تھا کے اسکو کتنی رقم کی ادائیگی ھوگی جو گورمنٹ کے اعلان کردہ ان پنشنری بینیفٹس کے مطابق ھوگی۔
یہ بات بھی ناقبل فہم ھے کے اب جی ایم پی ٹی کو کسنے اختیار دیا ھے کے وہ لوگوں کو یہ بتائیے کے آپ ورکمین ھیں اسلئیے سول سرونٹ نھیں ھیں کہاں یہ اختیار اسکو قانون میں دیا گیا ھے اور ٹرسٹ جن ریٹائیڑڈ ملازمین کو جون 2010 تک گورمنٹ کی پنشن ادا کرتا رھا وہ نہ تو وہ ریٹائیڑڈ سول سرونٹ تھے اور نہ ھی ریٹائیڑڈ ورکمین وہ تو قانون کے مطابق سبکو بطور ریٹائیڑڈ ٹیلی کمیونیکیشن اییمپلائیز تھے اور انکی entitelment کے مطابق گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن ادا کرنا تھا جسکا وہ ابتک پابند ھے ، نہ دے کر وہ قانون اور سپریم کوڑٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کررھا ھے اور سخت توھین عدالت کا مرتکب ھورھا ھے۔ جن آفیسران کو اور آفیشیلس کو جی ایم پی ٹی کی طرف سے ایسے لیٹرز مل رھے ھیں وہ اسکو وصول کرنے کا فورن جواب دیں کیونکے اگر انھوں نے کوئی جواب نھیں تو یہ انکی نیم رضامندی اختیار کرلے گا اوراس سے انکے لئیے آگے مشکلات پیدا ھو جائیں گی تو اس غیر قانونی لیٹر کے contexts کو قبول کرنے سے انکار کرتے ھوئیے انکو فورن جواب دیں کے اس غیر قانونی لیٹر کو فورن واپس لیں ورنہ انکے خلاف توھین عدالت کا کیس کرنے کا حق محفوظ رکھتے ھیں۔ میں نے اس آڑٹیکل میں کا فی مواد فراھم کردیا ھے اگر چاھیں تو اسکے زریعے توھین عدالت کا کیس کرسکتے ھیں
مجھے کوئی ایسا لیٹر نھیں ملا کیونکے میں یکم جنوری 1991 میں کنٹرولر ٹیلیگراف سٹور کراچی کام کررھا تھا.
واسلام
محمد طارق اظہر
ریٹائیڑڈ جنرل منیجر (آپس) پی ٹی سی ایل
تاریخ : 7 نومبر 2024
Comments