جنگل کی شہزادی

 جنگل کی شہزادی

نوٹ:- جوش مرحوم کی مشہور نظم “جنگل کی شہزادی” جو میری والدہ
ماجدہ مرحومہ کو زبانی آخری وقت تک  یاد تھی اور انکو بیحد پسند تھی . وہ اکثر ھمیں اپنی خش کن  آواز میں بڑے ھی پیارے انداز میں  ھمار فرماءیش پر ترنم کے ساتھ سنایا کرتی تھیں۔ یہ نظم جوش ملیح آبادی نے ایک خوبصورت لڑکی کے حسن کی تعریف میں لکھی تھی۔ کے وہ اپنے اس ریل  کے سفر کی تصویر کھینچتے ھوئیے لکھتے ھیں کے وہ اجمیر سے سے جے پور جارھے تھے یکایک انکی ریل جنگل میں رک گئی انھوں جب باھر جھانک کر دیکھا تو انھوں نے وھاں ایک نہایت خوبصورت لڑکی کو دیکھا ۔وہ ریل سے اتر آئیے اور اس لڑکی کے حسن میں کھو گئیے اور انھوں  نے اسکی  حسن کی تعریف میں جو نقشہ کھینچا وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ھے۔ نظم کے آخر میں وہ لکھتے ھیں  کے جب وہ لڑکی جھکا کر روانہ ھونے لگی تو ان کو ھوش آیا اور جو انھوں نے مڑ کر دیکھا لڑکی جاچکی تھی۔ اور ریل بھی چلی گئی تھی صرف ریل کی پٹری چمک رھی تھی۔
(طارق)

"جنگل کی شہزادی"

پیوست ہے جو دل میں، وہ تیر کھینچتا ہوں
اک ریل کے سفر کی تصویر کھینچتا ہوں

گاڑی میں گنگناتا مسرور جا رہا تھا
اجمیر کی طرف سے جے پور جا رہا تھا

تیزی سے جنگلوں میں یوں ریل جا رہی تھی
لیلیٰ ستار اپنا گویا بجا رہی تھی

خورشید چھپ رہا تھا رنگیں پہاڑیوں میں
طاؤس پر سمیٹے بیٹھے تھے جھاڑیوں میں

اک موجِ کیف پرور دل سے گزر رہی تھی
ہر چیز دلبری سے یوں رقص کر رہی تھی

تھیں رخصتی کرن سے سب وادیاں سنہری
ناگاہ چلتے چلتے جنگل میں ریل ٹھہری

کانٹوں پہ خوبصورت اک بانسری پڑی ہے
دیکھا کہ ایک لڑکی میدان میں کھڑی ہے

زاہد فریب، گل رخ، کافر، دراز مژگاں
سیمیں بدن، پری رخ، نوخیز، حشر ساماں

چہرے پہ رنگِ تمکیں، آنکھوں میں بے قراری
ایمائے سینہ کوبی، فرمانِ بادہ خواری

لوہا تپانے والی جلووں کی ضوفشانی
سکّے بٹھانی والی اٹھتی ہوئی جوانی

ڈوبے ہوئے سب اعضا حُسنِ مناسبت میں
پالی ہوئی گلوں کے آغوشِ تربیت میں

حُسنِ ازل ہے غلطاں شاداب پنکھڑی میں
یا جان پڑ گئی ہے جنگل کی تازگی میں

حوریں ہزار دل سے قربان ہو گئی ہیں
رنگینیاں سمٹ کر 'انسان' ہو گئی ہیں

ہر چیز پر نگاہیں حیرت سے ڈالتی ہے
رہ رہ کے اڑنے والی چادر سنبھالتی ہے

آنچل سنبھالنے میں یوں بل سے کھا رہی ہے
گویا ٹھہر ٹھہر کر انگڑائی آ رہی ہے

کچھ دیر تک تو میں نے اُس کو بغور دیکھا
غش کھا رہی تھی عقبیٰ، چکرا رہی تھی دنیا

گاڑی سے پھر اتر کر اُس کے قریب آیا
طوفانِ بے خودی میں پھر یہ زباں سے نکلا

اے روحِ صنفِ نازک، اے شمعِ بزمِ عالم
اے صبحِ روئے خنداں، اے شامِ زلفِ برہم

بستی میں تُو جو آئے، اک حشر سا بپا ہو
آبادیوں میں ہلچل، شہروں میں غلغلہ ہو

رندانِ بادہ کش کے ہاتوں سے جام چھوٹیں
تسبیحِ شیخ الجھے، توبہ کے عزم ٹوٹیں

نظروں سے اتِّقا کے رسم و رواج اتریں
زہّاد کے عمامے، شاہوں کے تاج اتریں

اس سادگی کے آگے نکلیں دلوں سے آہیں
جھک جائیں دلبروں کی خود ساختہ نگاہیں

تیری ادا کے آگے شرما کے منہ چھپائیں
ناپے ہوئے کرشمے، تولی ہوئی ادائیں

کتنی ہی قسمتوں کے بدلے فلک نوشتے
خوں اور دوستی کے کٹ جائیں کتنے رشتے

تصنیف ہوں ہزاروں چبھتے ہوئے فسانے
اِن انکھڑیوں کی زد پر کانپیں شراب خانے

تیرے پجاریوں میں میرا بھی نام ہوتا
اے کاش جنگلوں میں میرا قیام ہوتا

یہ بَن، یہ گل، یہ چشمے، مجھ سے قریب ہوتے
شاعر کے زیرِ فرماں یہ سب رقیب ہوتے

کیوں، میری گفتگو سے حیرت فروش کیوں ہے؟
اے زمزموں کی دیوی اتنی خموش کیوں ہے؟

یوں چپ ہے، مجھ سے گویا کچھ کام ہی نہیں ہے
یہ وہ ادا ہے جس کا کچھ نام ہی نہیں ہے

سننا تھا یہ کہ ظالم اِس طرح مسکرائی
فریاد کی نظر نے، ارماں نے دی دُہائی

عشوہ، جبیں پہ لے کر دل کی امنگ آیا
چہرے پہ خون دوڑا، آنکھوں میں رنگ آیا

شرما کے آنکھ اٹھائی، زلفوں پہ ہات پھیرا
اتنے میں رفتہ رفتہ چھانے لگا اندھیرا

چمکا دیا حیا نے ہر نقشِ دلبری کو
دانتوں میں یوں دبایا چاندی کی آرسی کو

سُن کر مری مچلتی آنکھوں کی داستانیں
اُس کی نگاہ میں بھی غلطاں ہوئی زبانیں

شرما کے پھر دوبارہ زلفوں پہ ہات پھیرا
دیکھا تو چھا چکا تھا میدان پر اندھیرا

کچھ جسم کو چُرایا، کچھ سانس کو سنبھالا
کاندھے پہ نرم آنچل انگڑائی لے کے ڈالا

تاریک کر کے، میری آنکھوں میں اک زمانہ
جنگل سے سر جھکا کر ہونے لگی روانہ

ہونے لگی روانہ، ارماں نے سر جھکایا
دل کی مثال کانپا رہ رہ کے بن کا سایا

بے ہوش ہو چلا میں، سینے سے آہ نکلی
اتنے میں رات لے کر قندیلِ ماہ نکلی

مڑ کر جو میں نے دیکھا، امید مر چکی تھی
پٹری چمک رہی تھی، گاڑی گزر چکی تھی

(جوش ملیح آبادی)

Comments

Popular posts from this blog

.....آہ ماں۔

Article-173 Part-2 [Draft for non VSS-2008 optees PTCL retired employees]

‏Article-99[Regarding clerification about the registration of the Ex-PTC employees of any capacity with EOBI by PTCL]