Article-40 [ detaa hain ye baziger dhoka khula????????

Article- 40[دیتے ھیں یہ دھوکہ کیسے یہ بازی گر کھلا. . . ]

نوٹ:-  کراچی اور سندھ سے تعلق رکھنے والے  وی ایس
ایس  ریٹآئڑڈ نان پینشنرز متؤجہ ھوں

دیتے ھیں یہ دھوکہ کیسے یہ بازی گر کھلا. . .

سندھ ھائی کوڑٹ نے اپنے 22 مارچ 2017 کے فیصلے میں جناب سید انصار حسین زیدی ایڈوکیٹ کی پی ٹی سی ایل کے خلاف دآئر کردہ توھین عدالت کی درخواست خارج کردی. ( فیصلے کی کاپی کی فوٹو کاپی نیچے اٹیچ کی ھوئی ھے)  یہ درخواست جناب سید انصار حسین زیدی نے اپنی درخواست CMA No 6792/2017 (Contempt اپنی پھلی سے دآئر کردہ آئینی پٹیشن D-5357 of 2014 میں داخل کی تھی جو اسی عدالت عالیہ کی 2016-05-16 کے دئیے گۓ حکم پر   دئیے ھوۓ وقت پر پی ٹی سی ایل کے عمل درآمد نہ کرنے کی وجہ سے دآئر کی گئی تھی . مجھے اس توھین عدالت کی درخواست کے خارج ھونے پر زرا سی بھی حیرانی نہیں ھوئی. مگر دکھ ضرور ھوآ. جب مجھے پہلے یہ بتایا گیا تھا کے انصار صاحب یہ توھین عدالت کی درخواست دائیر کردی ھے تو میں نے بتانے والوں کو اسی وقت بتا دیا تھا ایسی درخواست کا کچھ بھی فائیدہ نہیں ھوگا یہ خارج ھوجائیگی کیونکے جس آڈر پر وقت پر عمل درآمد نہ کرنے کا کہا جا رھا ھے وہ تو پی ٹی سی ایل نے کرلیا ھےاور ویسے ھی کیا جیسا آڈر دیا گیا تھا صرف سوال یہ ھے جو کرنے کا کا ایک مقررہ وقت دیا ھے اس میں کیا یا نہیں. میں نے یہ بات اسلئیے کہی تھی کیونکے میرے علم میں تھا ان پٹیشنروں کے ساتھ گیم ھوگیا تھا. وہ کیسے آئیے آپ کو بتاتا ھوں کے اس 2016-05-16 کے عدالت کے آڈر میں کیا کہا گیا تھا(اس آڈر کی فوٹوکاپی بھی اٹیچ کی ھے ).عدالت نے تحریر کیا تھا کہ:-
"A joint statement has been filed Mr Ansar H Zaidi for the petitioners, Mr Ziaul Haq Makhdoom council for Respondents No 2 and 3 in C. P No D-3993, 3994 and 3995 of 2013 which is taken in record.In the statement , it is stated the Respondents No 1/PTCL shall consider the cases of the petitioners and decide the same within four month.
In view above statement, Respondent No I/ PTCL to consider the case of the petitioners and decide the same within a period of four months strictly in accordance with law, rules and regulations.

All these petitions stand disposed of accordingly
-Sd-          -Sd-
Judge.       Judge "
یہ جو اوپر دیا گیا ھوا فیصلہ ( operative part)  ھے اور جو سندھ ھائی کوڑٹ نے دیا وہ انصار زیدی صاحب ایڈوکیٹ  کے اس Statement کے مطابق دیا جو انھوں نے D-335 of 2015 کی پٹیشن پر کوڑٹ 16 مئی 2016 کو دیا تھا (اسکی فوٹو کاپی نیچے پیسٹ ھے)  جس میں انھوں نے عدالت سے استدعا کی تھی . .  " کے پی ٹی سی ایل اس پٹیشنر کے کیسسز پر قانون ، رولز اینڈ ریگولیشنس کے مطابق چار مہینے کے اندر اندر غور کرے. اور یہ پٹیشن اور اس طرح کی اور پٹیشنس بھی اسی کے مطابق ڈسپوز کی جائیں"   . . .
انصار زیدی صاحب کا یہ عدالت کو دیا گیا ھواStatement  یہ ظاہر کرتا ھے کے انھوں نے عدالت سے پٹیشنرز کی اپیلوں کا  فیصلہ کرنے کا اختیار پی ٹی سی ایل کو قانون کے مطابق چار ماہ کے اندر کرنے کو کہا اور ساتھ یہ تمام پٹیشنریں  ڈسپوز کرنے کو کہا. اور عدالت نے ایسا ھی حکم جاری کیا اور تمام ایسی پٹیشنريں جو تقریبن تین سو سے زیادہ تھیں ڈسپوزڈ کردیں گئیں . پی ٹی سی ایل نے بھی اس حکم کا خوب فائدہ اٹھایا اور ان پٹیشنروں کی تمام درخواستیں پنشن نہ دینے کی اپنے قانون کے مطابق فیصلہ کرکے خارج کردیں جو اگرجہ چارمہینے کے اندر نھیں کیں. انصار صاحب کے اس غلط Statement کی وجہ سے پی ٹی سی ایل کو بہت فائدہ ھوا اور انھوں نے اپنے بنائے ھوئے قانون کے مطابق ان پٹیشنروں کو پنشن نہ دینے کا فیصلہ دیا جبکے ان پٹیشنروں پر جو پی ٹی سی ایل میں ٹرانسفڑڈ ملازمین تھے اور ان پر فیڈرل گورنمنٹ کے پنشنس رولز استعمال ھونے تھے جو پی ٹی سی ایل نے انپر اسلئۓ استعمال نہیں  کئیے  کیونکے کے عدالت نے " صرف قانون کے " مطابق فیصلہ کرنے کا انکو کہا تھا یہ نہیں کہا تھا کے "کس قانون کے مطابق کرنا ھے. اور اسی بات کا فائدہ پی ٹی سی ایل نے اٹھایا
مئی 2016 میں جب مجھے اس سندھ ھائی کوڑٹ کےاس آڈر کے بارے  میں معلوم ھوا تھا جو  مجھے کراچی سے چند ایسے  پٹیشنروں  (یعنی پی ٹی سی ایل نان  پنشنرز جنھوں نے کیس کر رکھا تھا ) نےزبانی  طور بتایا تھا، جو بقول انکے وہ  انکےحق میں آیا تھا اور وہ بہت خوش تھےکے عدالت نے حکم دیا ھے کے ان  "پٹیشنروں کے کیسز میں پی ٹی سی ایل انپر  چار مہینے کے اندر قانون کے مطابق غور کرے " اسلئےاب پی ٹی سی ایل اس عدالت کے اس حکم کی وجہ سے انکو پنشن وغیرہ ادا کرنی پڑے گی .مگر میں اس بات پر بلکل بھی مطمعن نہیں تھا کیونکے میں جانتا تھا پی ٹی سی ایل والے اتنے تو اچھے نہیں ھیں کے وہ فورن ھی اس حکم پر عمل کردیں گے اور انکو پنشن کی ادئیگی کر دیں گے. میرا ماتھا فورن ٹھنکا اور میں نے  ان بتانے والوں سے پوچھا کے عدالت نے اپنے حکم میں  کیا لکھا ھے تو انھوں نے بتایا یہ لکھا ھے کے پٹیشنروں کے مطالبے پر "چار ماہ  میں قانون  کے تحت  عمل کیا جائے" . لیکن جب میں نے یہ سندھ ھائی کوڑٹ آڈرز [16مئی 2016 اور  22 مارچ 2017 کے جو مجھے اسلم صاحب نے مجھے واٹس ایپس پر  کچھ دن پہلے بھیجے تھے]    جب میں نے تفصیلن پڑھے تو بیحد افسوس ھوا .اور دل میں نے کہا کے ان بیچاروں کے ساتھ ھاتھ ھوگیا . کیسے؟؟؟ اسکی  وجہ بھی اوپر بیان کرچکا ھوں .  عدالت نے یہ حکم دے کر ایسی تمام پٹیشنیں  یعنی ایک وہ جو ان پٹیشنروں کی تھیں جن کو بیس سال کی کوالیفائنگ سروس کے باوجود پنشن نھیں دی گئیں . پی ٹی سی ایل نے یہ بیس سال کی  کم از کولیفائنگ سروس  پر پنشن دینے کا قانون  بنایا تھا.  ایسی تمام پٹیشنیں ۲۰۰۹ سے ۲۰۱۵ سے انصار حسین صاحب ايڈوکیٹ کے وساطت سے سندھ ھآئی کوڑٹ میں دائر کی گئی تھیں  . اور وہ تمام  ابھی سندھ ھائی کوڑٹ  میں زیر سماعت تھیں .  2016 میں ، پی ٹی سی ایل کی ریو پٹیشن مسعود بھٹی کیس کے فیصلے کے خلاف 19 فروری 2016 کو خارج ھوئیں تو کراچی اور سندھ سے تعلق رکھنے والے ,ایسے وی ایس ایس  ۲۰۰۸ میں ریٹائر ھونے ملازمین جن کو پنشن سے صرف اسلئے محروم کردیا گیا تھا کے انکی کوالیفائنگ سروس بیس سال سے کم تھی (جو پی ٹی سی ایل نے اپنے تئیں مقرر کی تھی جسکے کے وہ مجاز نہ تھے)، تو ان ریٹائڑڈ ملازمین نے سندھ ھائی کوڑٹ میں ایڈوکیٹ انصار زیدی کی وساطت سے اپیلیں داخل کیں اور انصار زیدی نے ان  کی تمام اپیلوں کو اپنی ان پھلے سے داخل کی ھوئی اپیلوں میں شامل کرادیا ، یعنی ان اپیلوں کے ساتھ جو انھوں نے بیس سال کی  سروس پر مقرر کردہ  پنشن ھونے کے باوجود ایسے وی ایس ایس میں  ریٹائڑڈ  ھونے والے پی ٹی سی ایل کے ملازمین کو پنشنس نہیں دی تھیں  . اور ان سب اپیلوں پر سندھ ھائی کوڑٹ نے اپنے 16مئی 2016 کے حکم  میں ان سب کو ڈسپوز کردیا اور جو حکم دیا اسکا تفصیلن زکر اوپر کرچکا ھوں. جب پی ٹی سی ایل والے چار ماہ کے اندر اندر عدالت کے حکم کے مطابق عمل نہ کرسکے تو پی ٹی سی ایل  کے خلاف انصار زیدی صاحب  توھین عدالت کی درخواست کی جو  سندھ ھائی کوڑٹ نے 2017-03-22 کو یہ فیصلہ دے کر خارج کردی  کے "پی ٹی سی ایل نے انکے حکم کے خلاف کوئی ورزی نہيں کی جو 16مئی 2016  کو اپنے ججمنٹ میں  ، عدالت نے دی تھی اسی کے مطابق عمل کیا اور پٹیشنروں کا کلیم رولز اور ریگولیشنس کے تحت رد  یعنی declined کردیا گیا .اور انکے کیسز کا یہ فیصلہ عدالت کے دئے ھوۓ وقت یعنی چارماہ میں پی ٹی سی ایل میں نہ کرسکے اسکی وجہ بہت کافی کیسز تھے جو مقررہ وقت پر نہ ھوسکا. سندھ ھائی کوڑٹ نے پی ٹی سی ایل کے خلاف توھین عدالت کا کیس خارج کرتے ھوئے یہ پٹیشنروں کو یہ ضرور مشورہ دیا کے اگر وہ ان وجوھات اور جواز سے ناخوش ھیں جنکی وجہ سے پی ٹی سی ایل نے انکے کلیم ( یعنی پنشن لینے کے کلیم)    خارج، یعنی declined کردئے تو وہ اسکو پراپر فورم پر چیلنج  کرسکتے ھیں . اسکا مطلب یہ ھوا کے وہ یہ چیلنج کرسکتے ھیں کے پی ٹی سی ایل نے غیر قانونی طور جس کا پی ٹی ٹی سی ایل کو بالکل بھی اختیار نھیں کے ان پٹیشنروں کے کلیم اپنے یعنی کمپنی کے بنائے ھوئے قوانین کے تحت خارج کئے جبکے ان تمام پٹیشنروں جو پی ٹی سی ایل میں ٹرانسفڑڈ ملازمین تھے یعنی جو یکم جنوری 1996 کو پی ٹی سی سے ٹرانسفر ھوکر پی ٹی سی ایل کے ملازمین بن چکے تھے اور انپر سپریم کوڑٹ کے تاریخی فیصلے یعنی مسعود بھٹی بنام فیڈریشن آف پاکستان جو 2012SCMR152 میں درج ھے ، کے تحت ان پٹیشنروں پر گورنمنٹ آف پاکستان کے Statutory Rules یعنی سرکاری قوانین استعمال ھوتے ھیں اور ان سرکاری قوانین کے تحت ھر ایک پٹیشنر کا پنشن لینے  کا حق بنتاھے جن کی کولیفائنگ سروس  دس سال یا اس سے زیادہ ھو اور پی ٹی سی ایل کویا اسکے بوڑڈ کو اس بات کا بالکل بھی قانونی اختیار یا ایسی پاور کے وہ اس پنشن لینے کی کولیفائنگ سروس دس سال سے زیادہ کرے اور ان سرکاری ملازمین جیسا اختیار رکھنے والوں کو پنشن لینے کے حق سے محروم کردے .
بحرحال اب کیا ھوتا ھے . بہت ھی غلط طریقہ کار سے ان بیچاروں کا کیس لڑا گیا جسکا یہ رزلٹ آیا. میرا ایسے تمام کراچی اور سندھ کے پٹیشنروں کو جن کی اپیلیں مسترد ھوگئیں ھیں صرف ایک مشورہ ھے کے  انکو پریشانی اور دل برداشتہ ھونے کی ضرورت نہيں انکو چاھئے ، کے جیسا عدالت نے اپنے اس   22 مارچ 2017  کے حکم میں کہا ھے جس میں توھین عدالت کی درخواست خارج کی گئی ھے ( اسکی فوٹو کاپی نیچے پیسٹ ھے)  کے " پٹیشنروں کا جو کلیم  پی ٹی سی ایل نے declined  (یعنی پنشن دینے سے انکارکیا)  ھے اور وہ اس سے شاکی ھیں تو وہ اس کو مجاز عدالت میں  چیلنج کرسکتے ھیں " ، تو انکو چاھئے کے وہ اور کسی اچھے اہلیت کے حامل ، با اعتماد اوراچھے فیس ولیو یعنی شہرت رکھنے والے  ایک  منجھے ھوئے experienced   وکیل جو ایسے کیسز کے ماھر ھوں ، انکو مقرر کرکے  ھائی کوڑٹ میں ایک آئنی پٹیشن بغیر وقت ضائیع کئیے ھوئے داخل کریں کے پی ٹی سی ایل نے جو انکے پنشن لینے کے کلم صرف اس وجہ سے مسترد کئے کے انھوں نے انکا فیصلہ اپنے بناۓ ھوئے پنشن دینے کے قوانین کے مطابق کیا جسکے وہ بالکل بھی مجاز نہ تھے کیونکے یہ ان تمام پٹیشنرز کا تعلق پی ٹی سی ایل میں کام کرنے والے ان ٹرانسفڑڈ ملازمین سے تھا جن پر مسعود بھٹی کیس 2012SCMR152 کے فیصلے کے تحت ان پر فیڈرل گورنمنٹ کے پنشن قوانین کا اطلاق ھوتا ھے اور پی ٹی سی ایل کو انکے قوانین کو ردوبدل کرنے یا کوئی  انکے خلاف نیا قوانین بنانے جن سے انکو نقصان پہنچے ، اسکا بالکل بھی اختیار نھیں تھا اور نہ ھے کے انکو پنشن کا حق رکھتے ھوئے اس حق سے محروم رکھنا انکے ساتھ صریحن ، پی ٹی سی ایل کی انکے ساتھ بہت بڑی زیادتی ھے اور  وہ آئین پاکستان  کے آڑٹیکل ۲۵  اور  سپریم کوڑٹ کے مسعود بھٹی کیس می دئیے گۓ حکم کی ، زبردست خلاف ورزی کے کے مرتکب ھوۓ ھیں لہازا نہ صرف انکو انکا جائز حق یعنی پنشن اسی تاریخ سے  (جب سے انکو ریٹائیر کیا گیا تھا وی ایس وی ایس میں)  گورنمنٹ پاکستان کے سرکاری ملازموں کی طرح دی ھوئی پنشن دلائی جائے اور سپریم کوڑٹ اور آئین کی خلاف ورزی پر پی ٹی سی کے  خلاف قانونی ایکشن بھی لیا جائے.
ان کیسز کے لئے ایک اچھا اور پر اعتبار وکیل کرنا ایک بڑی شرط ھے .یقینن ایسے وکیل کی فیس بہت زیادہ ھوتی ھے لیکن اگر تین سو یا اس سے زیادہ  لوگ مل کر یہ کیسسز کریں گے تو ایسے وکیل کو اسکی حسب منشا فیس دینا مشکل نہ ھوگا . ان سب  کےلئےمیرا انکو ایک اور مشورہ بھی ھےکے  سندھ ھائی کوڑٹ میں کیس نہ کریں بہتر ھوگا اسلام آباد ھائی کوڑٹ میں کیس کریں جہاں اسی طرح کے اور کیسز یعنی  بلوچستان ، کے پی کے اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایسے پٹیشنروں کے  کیسز چل رھے ھیں جنکی انکے حق میں ھونے کی بیحد امید ھے انشاللہ .
مزید اس سلسلے میں آپ لوگوں  کو میرا کوئی بھی مزید مشورہ درکار ھو تو میں حاظر ھوں کیونکے میرا مستقل قیام راولپنڈی میں ھے .
واسلام
محمد طارق اظہر
جنرل منیجر ( آپس) ریٹائڑڈ پی ٹی سی ایل
راولپنڈی
0300-8249598
(26-04-2017),

Comments

Popular posts from this blog

.....آہ ماں۔

Article-173 Part-2 [Draft for non VSS-2008 optees PTCL retired employees]

‏Article-99[Regarding clerification about the registration of the Ex-PTC employees of any capacity with EOBI by PTCL]