Article-67 [ Honourable Justice Gulzar Sb should not proceed the cases of PTCL employees and pensioners
Article-67
كسے وكیل كریں اور كس سے منصفی چاھیں. . . معزز اور بیحد قابل احترام جج سپریم کوڑٹ محترم جناب گلزار صاحب سے مؤدبانا التماس ھے کے وہ پی ٹی سی ایل پنشنرس اور پی ٹی سی ایل میں ٹرانسفڑڈ ھونے والے ریگولر ملازمین کے کسی بھی کسی کیس کی شنوائي نہ کریں . کیوں کے بادئي النظر میں انکے کچھ فیصلوں سے انکی ھمدردیاں پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی انتظآمیہ کی طرف ھی نظر آتی ہیں.
عزيز پی ٹی سی ایل ساتھیو
اسلام عليكم
۲۵ ستمبر ۲۰۱۸ کو سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ , جسکے سبراہ محترم چيف جسٹس صاحب تھے انھوں نے راجہ ریاض پی ٹی سی ایل پنشنر اور پی ٹی سی ایل میں کام کرنے والے ریگولر ٹرانسفڑڈ ملازمین کی مختلف پٹیشنیں, محترم جج جناب گلزار صاحب کو ریفر کرديں . اب ان کیسسز کی شنوائی 16اکتوبر 2018 کو محترم جج جناب گلزار صاحب کریں گے. اس سے تمام پی ٹی سی ایل ملازمین اور پنشنرس میں ایک تشوش کی لہر دوڑ گئي . کیونکے انکو بہت کم امید ھے کے محترم جج جناب گلزار صاحب انکے کیسسز کے پٹیشنرس کے ساتھ انصاف کریں گے. مجھے اس سلسلے میں لاھور سے عبدالحمید صاحب کا یہ مندرجہ زيل پیغام فیس بک پر موصول ھوا جو حقیقتن تمام ایسے پی ٹی سی ایل ملازمین اور پنشنرس ے جزبات کی صحیح عکاسی کررھا ھے
"پی ٹی سی ایل پنشرز قانونی حق کے لئے دربدر "
پنشرز کے وفود متعدد بار کئ شہروں میں جناب چیف جسٹس پاکستان کو ملے اور اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافی سے آگاہ کیا...
چیف جسٹس صاحب نے ہر بار فوری انصاف کا یقین دلایا مگر انصاف ہم سے روٹھا رہا.. ممکن ہے چیف صاحب کی نظر میں کراچی MPA کا شہری کو تھپڑ مارنا اور دیگر سنگل کیس از جود نوٹس کے زمرے میں آتے ہوں شاید 40 ہزار مظلوم پنشرز خاندان گلی کا کچرا ہیں انکا کیس از خود نوٹس کے زمرے میں نا آتا ہو....یہی وجہ ہے کہ تمام واضح فیصلے ہمارے حق میں ہونے کا باوجود اعلی عدلیہ اپنے ہی فیصلوں پر آج تک عملدرامد نہیں کروا رہی...اب چیف جسٹس نے ایک بار پھر ہمارا کیس جسٹس گلزار کو ریفر کر دیا ہے اس پر اب فاتحہ ہی پڑھ لینی چاہئیے
پنشرز آج بھی اعلی عدالتوں میں انصاف کے لئے رولنگ سٹون بنے ہوئے ہیں....
سابقہ دو حکومتوں نے دبئی کی غیر ملکی کمپنی اتصلات کو اپنے زاتی مفادات کو تحفظ دینے کے لیے ہمیں جائز قانونی حق سے محروم کئے رکھا مگر موجودہ پی ٹی آئی کی حکومت نے بھی تمام معاملہ علم میں ہونے کے باوجودہمارے 40 ہزار مظلوم خاندانوں کی داد رسی کے لئےکوئ اقدام نہی اٹھایا.... پنشرز بھائیو اب تو اللہ ہی سے انصاف کی امید رکھو کیونکہ اعلی عدلیہ کے پاس ہمارے لئے وقت نہیں...
عبدالحمید
لاہور"
اس مندرجہ بالا نوٹ میں محترم جج گلزار صاحب کو کیسز ریفر کرنے پر جس خدشات کا اظہار کیا گيا ہے, وہ اپنے تئيں صحیح ھی نظر آتے ہیں.انصاف کا تقاضا تو اب یہی ھے کے معزز اور بیحد قابل احترام جج سپریم کوڑٹ محترم جناب گلزار صاحب پی ٹی سی ایل کے ریگولر ٹرانسفڑڈ اور پی ٹی سی ایل پنشنرس کے کسی بھی کیس کی شنوآئی نہ کریں کیونکے انسے , ان سبکو کسی بھی قسم کے انصاف کی اب بالکل توقع نہیں ھے ۔ میں یہاں اس بات پر روشنی ڈالوں گا کہ آخر کیا وجہ ھے کے پی ٹی سی ایل کے ایمپلائیز اور پنشنرس کو محترم جج گلزار صاحب پر بلکل اعتماد نھیں ھے، کے وہ ان کے حق میں انصاف پسندانا کوئی فیصلہ کریں گے۔ انکے کچھ مختلف متزاد پی ٹی سی ایل پنشنروں کے خلاف فیصلوں سے یہ بات بالکل ظاھر ھو چکی ھے کے بادئي النظر میں انکی ھمدردیاں پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی انتظآمیہ کی طرف ھی ھیں - میں یہ سمجھتا ھوں کے اسکی سب سے بڑي وجہ انکی پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کے وکیل محترم شاھد انور باجواہ سے دیرینہ مراسم اور دوستی ھے ۔ جو سندھ ھائي کوڑٹ کے سابق جج رہ چکے ھیں اور محترم گلزار صاحب بھی وہاں سابق جج رہ چکے ھیں .اسکے علاوہ مجھے اور کوئی وجہ نظر نہیں آتی - محترم جج جناب گلزار صاحب پروموٹ ھوکر سپریم کوڑٹ کے جج بن گئے اور محترم جج شاھد انور باجوہ صاحب سندھ ھائی کوڑٹ میں اپنی مدت ملازت پوری ھونے کے بعد ریٹائڑڈ ھوگئۓ اور انکو فورن پی ٹی سی ایل انتظامیہ نے بھاری فیس پر اپنا وکیل مقرر کر دیا. کیونکے وہ ایک ریٹائڑڈ جج ھائي کوڑٹ تھے اور اس وجہ سے ھائي کوڑٹوں میں , انکا اثر رسوخ ھونا ایک قدرتی بات تھا اور خاصکر سندھ ھآئي کوڑٹ میں . اسلئے سندھ ھائي کوڑٹ میں پی ٹی سی ایل کے حق میں آئے ھوئے فیصلوں کا تناسب , دیگر ھائي کوڑٹوں میں انکے حق میں آئۓ ھوئے فیصلوں کی بنسبت کہیں زيادہ ھے. یہاں تک کے ایک طرح کےکیسس کا فیصلہ اگر کسی دیگر ھائي کوڑٹ میں پی ٹی سی ایل کے خلاف ھوتا ھے اسی طرح کے کیسس کا فیصلہ سندھ ھآئي کوڑٹ میں پی ٹی سی ایل کے حق میں ھوتا ھے. میرے پاس اسکی کافی مثآلیں موجود ھیں . ۔ یہ دو سابق قابل احترام اور معزز ججز سندھ ھائي کوڑٹ میں کافی عرصے ایک ھی بنچ میں ایک ساتھ کام کرتے رھے ھیں. معزز سپریم کوڑٹ کے تین معزز جج صاحبان نےمسعود بھٹی کیس جو [2012SCMR152 ] میں رپوڑٹ، سندھ ھائي کوڑٹ کے 3 جون 2010 کے جس فیصلے کو کلعدم قرار دیا تھا وه انھی دو ججز محترم جناب گلزار صاحب اور محترم شاھد انور باجواہ صاحب پر ھی مشتمل بینچ کا دیا ھوا فیصلہ تھا.یہ فیصلہ محترم جج شاھد انور باجوہ صاحب نے لكھا تھا اور اسکی تائید اسوقت محترم جناب گلزار صاحب نے ھی كی تھی . ان دو معزز سابق قابل احترام ججز نے یہ تمام پٹیشنیں، اس ٹیکنیکل بنیاد پر خارج کردیں تھیں ، کے پٹیشنرس ، چونکے پی ٹی سی ایل کمپنی کے ملازم ہیں اور کمپنی کے ملازموں پر کیونکے گورنمنٹ کے قوانین( statutory rules ) کا اطلاق نہیں ھوتا اسلئۓ وہ آئين پاکستان کے آڑٹیکل 199 ھائي کوڑٹ سے رجوع نہیں کرسکتے ۔ یہ فیصلہ ،۸۰ کے قریب پی ٹی سی ایل میں ٹرانسفڑڈ ریگولر ملازمین کی ان آئينی پٹیشنس کے خلاف تھا جو انھوں نے سندھ ھآئيکوڑٹ میں کر رکھی تھیں . اس میں ایسے پٹیشنرس بھی تھے جنکی آئينی پٹیشنس ۲۰۰۵ اور اسکے بعد سے سے سندھ ھائي کوڑٹ میں pending پڑی ھوئي تھیں ( اس میں میری بھی آئينی پٹیشن تھی جو میں نے ۲۰ اگست ۲۰۰۵ جمع کرائي تھی۔ اس فیصلے چند فوٹو کاپیاں ملاحظہ ھوں A,A1&A2 پر۔ اسوقت همارے علم میں یہ بات آئی تھی کے لگ بھگ ۳۰۰ یا ۳۵۰ ایسی پٹیشنیں ۲۰۱۰ تک، سندھ ھائی کوڑٹ میں زیرے التوا تھیں) ۔اس مؤاخر زکر ۳ جون ۲۰۱۰ فیصلے کو سپریم کوڑٹ کے تین قابل احترام سابق ججز معزز محترم جج میاں شاکر اللہ جان, محترم جج جواد ایس خواجہ اور محترم جج سرمد جلال عثماني نے مسعود بھٹی کیس[ جو اب2012SMR152 میں ریکاڑڈ ہے ] یہ لکھ کر کلعدم قرار دے یا :-
" کہ جو وجوھات ھم نیچے تحریر کررھےھیں اسکی وجہ سے یہ ھمارے لئیے یہ ممکن نہیں کے ھم ھائي کورٹ کے ان بیحد معزز ججز کے ان وجوھات کو قبول کریں کے چونکےاپیلنٹس ( مسعود بھٹی , سید محمد دل آویز اور نصیرالدین غوری) کی ملازمت پی ٹی سی ایل ميں گورنمنٹ قوانین( statutory rules ) کے تابع نہیں تھی اسلئے وہ آئين پاکستان کے آڑٹیکل 199 کے تحت ھائي کوڑٹ سے رجوع نہیں کرسکتے"[ یہ پڑھنے کےلئیے پڑھیں اس فیصلے کا پیرا ۲. یاد رھے اس طرح ھائی کوڑٹ میں رجوع کرنے کا اختیار صرف گورنمنٹ کے سول سرونٹس کو ھی ھے جن پر سول سرونٹ ایکٹ 1973 کا اطلاق ھوتا ھے۔ اور اس ایکٹ کےتحت گورنمنٹ کے بنائۓ ھوے قوانین سرکاری قوانین کہلاتے ہیں جنکو انگریزي میں statutory rules کہتے ہيں] . اور پھر یہ تاریخی فیصلہ دیا کہ
"پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن کے وہ ملازمین جو یکم جنوری 1996 کو پی ٹی سی ایل میں ٹراسفڑڈ ھوکر پی ٹی سی ایل کے ملازمین ھو گئے تھے ، ان پر گورنمنٹ کے ھی سرکاری قوانین( statutory rules ) ھی لاگو ھوں گے اور پی ٹی سی ایل کو اس عمل کا بلکل اختیار نہیں کے ان ملازمین کی ، جو پہلے کارپوریشن کے ملازم تھے ، انکے سروس ٹرمز اینڈ کنڈيشنس میں کوئي ایسی منفی تبدیلی کریں جن سے انکو فائيدہ نہیں ہو . بلکے حکومت کو بھی ایساعمل کرنے کی ، پی ٹی ( ری آرگنائيشن ) ایکٹ 1996کی شق 35 کے تحت ممانعت ھے[ یہ پڑھنے کےلئیے پڑھیں اس سپریم کوڑٹ کے فیصلے کے پیراز14,15,16]"۔۔
۱۲جون ۲۰۱۵ کو پی ٹی سی ایل پنشنرس کے حق میں آنے والا فیصلہ محترم جج جناب گلزار صاحب نے ھی لکھاتھا . وہ اس سپریم کوڑٹ کےتین رکنی بینچ کے ممبر تھے جنھوں نے نے پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل کی ان اپیلوں کی سماعت کی تھی جو پی ٹی سی ایل پنشنرس کے حق میں آئے ھوئے مختلف ہائیکوڑٹوں فیصلوں کے خلاف تھیں . اس تین رکنی بینچ کے سربراہ اسوقت کے چیف جسٹس محترم جج جناب ناصرالملک صاحب تھے اور تیسرے ممبر محترم جج مشیر عالم صاحب تھے . اس فیصلے کو آنے میں چھ ماہ سے زیادہ عرصہ لگا .یہ فیصلہ 2دسمبر 2014 کو محفوظ کرلیا گیا تھا . مسعود بھٹی کیس میں عدالت عظمی کے تاریخی فیصلے کے بعد، اسکی بیحد امید کی جارھی اسکا فیصلہ پی ٹی سی ایل پنشنرس کے جق میں ھی انشاللہ آئے گا. لیکن اس فیصلے میں آنے کی تاخیر کی وجہ سب لوگ بیحد پریشان تھے. اور اس بات کا برملا اظہار کررھے تھے کے اس تاخیر کے پیچھے پی ٹی سی ایل کے وکیل شاھد انور باجواہ کا اثر رسوخ دکھائی دیتا ھے کیونکے انکو معلوم تھا کے فیصلہ انکے حق میں نھیں آئیگا. ان کی خواہش تھی کے اس فیصلے کے اعلان میں اتنی دیرھوجائے کے 17 اگست 2015 کی تاریخ گزر جائے کیونکے اسکے بعد اس فیصلے کا آنا ، نا ممکن ھوجائیگا وہ اسلئے اس بینچ کے سربراہ جس نے اس کیس کی شنوائی کی تھی یعنی سابق چیف جسٹس ناصرالملک کی ریٹائڑمنٹ کی تاریخ 17 اگست 2015 تھی. اور بینچ ٹوٹ جاناتھا اورپھرقانون کے مطابق دوسرے بینچ نے اس کیس کی نئے سرے سے شنوائی کرنی ھوتی. اس صورت حال کی وجہ سے ، جیسا مجھے اسوقت توقیر صاحب سیکٹری APPAC نے بتائی تھی کے کے آل پاکستان پنشن ایکشن کمیٹی کے ممبران نے اسوقت کے چیف جسٹس ناصرالملک کو اپروچ کیا اور انسے گزارش کی کے اس کیس کا فیصلہ جو عدالت عظمی میں ابھی تک محفوظ ھے ، اپنی ریٹائڑمنٹ کی تایخ سے پہلے جاری کیا جائے . جس پر انھوں نے وعدہ کیا کے ایسا ھی ھوگا اور پھر یہ ۱۲ جون ۲۰۱۵ کا فیصلہ آیا جو محترم جج گلزار نے لکھا پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کی تمام اپیلیں خارج کردی گئیں اور پی ٹی ای ٹی کو حکم دیا گیا وہ ان تمام پی ٹی سی اکل پنشنرس کو گورنمنٹ کی اعلان ردہ پنشن انارز دینے کی سختی سے پابند ھے جو ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی ھوئیے او پھر یعنی کارپوریشن اور کمپنی یعنی پی ٹی سی ایل میں پی ٹی سی ایل می ٹرانسفر ھوکر ریٹائڑڈ ھوئے . اور اسطرح پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی اس فیصلے کے خلاف پی ٹی سی ایل ، پی ٹی ای ٹی اور فیڈریشن آف پاکستان کی طرف سے نظر ثانی اپیل یعنی رویو پٹیشن کا فیصلہ ، سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ جو محترم جسٹس گلزار احمد ، محترم جسٹس باقر رضوی اور محترم جسٹس اعجازالحسن بینچ نے 17 مئی 2017 کو جاری کیا اور انکی یہ رویو پٹیشن خارج کردی . اس روو پٹیشن کو ڈسپوزڈ آف کرنے کا فیصلہ بھی محترم جسٹس گلزار احمد نے ھی لکھا تھا. مگر حیرت انگیز طورپر انھوں نے پٹیشنرس کے وکیل جناب خالد انور صاحب کی یہ دلیل قبول کرلی, کے جو respondents وہ وی ایس ایس والے فائدے لے کر ریٹائڑڈ ھوئے ایسے پنشنرس حکومت کے دئیے اعلان کردہ پنشنری مراعات کا حق نہیں رکھتے مگر انھوں نے فراڈلی طور پر ھائی کوڑٹوں سے رجوع کرکے یہ گورنمنٹ والے پنشنری فوائد حاصل کرنے کے احکامات کرالئے . جبکے یہ لوگ آئین کے آڑٹیکل ۱۹۹ کے تحت ھائی کوڑٹوں سے رجوع کرنے کا اختیار نہیں رکھتے تھے کیونکے وی ایس ایس کے benefits لے کر انکے گورنمنٹ کے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس تبدیل ھوگئے تھے اور وہ کمپنی کے ملازم بن گئے اسلئے وہ کسی بھی ھائی کوڑٹ سے آئین کے آڑٹیکل ۱۹۹ کے تحت رجوع کرنے کا اختیار کھو چکے تھے مگر انھوں نے یہ فراڈلی کیا اور ھائی کوڑٹ نے بھی انکو entertained کیا. محترم جسٹس گلزار صاحب نے جناب خالد انور ایڈوکیٹ کی یہ بات تسلیم کرتے ھوئے انکو مشورہ دیا کے کے متعلقہ ھائی کوڑٹوں میں انکے خلاف س پی سی کے سیکشن (۲)۱۲ کے تحت کیس کرسکتے ھیں . انکے اس حکم کی تائید بینچ کے دیگر معزو جج صاحبان نے کی . میں سمجھتا ھوں کے بادئ انظر میں محترم جج گلزار صاحب کو جناب خالد انور ایڈوکیٹ کی یہ عجیب دلیل قبول نہیں کرنی چاھئے تھی اور ایسا حکم نہیں دینا چاھئے تھا کیونکے جب مسعود بھٹی کیس 2012SCMR152 میں سپریم کوڑٹ کے تین قابل اجترم معزز جج صاحبان نے یہcategorically لکھ دیا تھا پی ٹی سی ایل کو اس بات کا بالکل ھی اختیار نہیں کے وہ انکے سروس ٹرمز اینڈکنڈیشنس تبدیل کرے [ تفصیلن یہ حکم اوپر شروع میں بیان کرچکا ھوں] اور اس فیصلے کو پانچ معزز سپریم کوڑٹ کے جج حضرات نے بھی re confirm کیا تھا انکی رویو اپیل 16 فروری 2016 جو مسعود بھٹی کیس میں تین رکنی بینچ کے دئے گئے ھوئے فصلے کے خلاف تھی ، خارج کردی تھی. تو جناب خالد انور صاحب ایڈوکیٹ کی اس دلیل میں کوئی بھی وزن نہیں تھا. یہ ایک مسلمہ اصول ھے کے اگرکوئی ادارہ اپنے ملازمین کو رائیٹ سائزنگ کی وجہ سے نکالنا چاھتا ھے تو اسکو انکو نکالنے کی وجہ سے ضرور compensate کرنا پڑتا ھے اور انکو اپنے ادارے کے ملازمین کو یہ آفر دینی پڑتی ھے اگر وہ اس ادارے کی نوکری گے اور جلد ریٹائڑمنٹ لے لیں گے گے تو یہ یہ مراعات اور فائدے آپکو دیں گے [. جسطرح جب پی ٹی سی ایل نے 2008-2007 یہ وی ایس ایس پی ٹی سی ایل کے ھر ایک ریگولر پی ٹی سی ایل میں ٹرانسفڑڈ ملازم کو لیٹر بھیج کر یہ آفر دی کے اگر آپ یہ وی ایس ایس کی لینے کی آفر قبول کریں گے تو اتنی زیاد رقم آپکو دیں گے اور آپکی پنشن بھی 7% بڑھا کردیں گے تو جن لوگوں نے یہ آفر قبول کی انکو نہ صرف بیش بہا رقم ملی بلکے انکو 7% زیادہ پنشن ملنا شروع ھوگئ ۔ یہ الگ بات ھے کے انکو پی ٹی ای ٹی نے یکم جولائی 2010 سے تمام پنشن لینے والوں کو گورنمنٹ کے اعلان کردہ پنشن انکریز کی بجائے اپنی طرف سے غیر قانونی طور پر پی ٹی سی ایل کے کہنے پر 8% دینا شروع کردیا ] . تو وی ایس ایس لینے والوں کو اسلئے زیادہ فائدہ ملا. تو اس فائیدے سے کسطرح اور کس قانون کے تحت ، انکے سرکاری سروس کے ٹرمز اینڈ کنڈیشنس تبدیل ھوسکتے ھیں اور دوسرے پی ٹی سی ایل نے ایسی کوئی شرط بھی نہیں رکھی تھی کے جو پی ٹی سی ایل ے ملازمین وی ایس ایس کی آفر قبول کریں گے وہ کمپنی کے ریٹائڑڈ ملازمین کہلائیں گے . اور جب کمپنی میں تو ریٹائڑمنٹ کےبعد پنشن لینے کا سسٹم ھے ھی نہیں تو انکو پنشن کیسے مل سکتی تھی . جبکے ایس تمام ۲۰۰۸ میں وی ایس ایس لے کر کر پنشن لے رھے تھے اور انکو بھی گورنمنٹ کا اعلان کردہ پنشن انکریز بھی جون ۲۰۱۰ تک ملتا ر ہا۔
بعد میں صادق علی اور نسیم وھرہ کے ۱۲جون ۲۰۱۵ میں سپریم کوڑٹ کے فیصلے پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے پی ٹی ای ٹی کے کے خلاف توھین عدالت کے کریمنل کیسس(53/2015 اور 54/2015) کی hearing کرتے ھوۓ ، دو رکنی بینچ کے سربراہ محترم جناب جسٹس گلزار صاحب نے یکم نومبر 2017 آڑڈڑ شیٹ (ملاحظ ھو اسکی فوٹو کاپیاں B اور B1 پر) میں وی ایس ایس لے ریٹائڑڈ ھونے والے پی ٹی سی ایل پٹیشنرس پینشنرس کے بارے میں لکھتے ھیں۔ "کے یہ سوال کے وی ایس ایس آپٹیز اس ینشن لینے کے حقدار ھیں يا نہیں, تو یہ سوال اس عدالت کے سامنے نہیں آيا اور نا ھی یہ ۱۲ جون ۲۰۱۵ ججمنٹ ( اس کی فوٹو کاپی ملاحظۂ ہو C پر) میں موجود ھے ۔ جو کچھ یہ محترم جج گلزار صاحب نے یہ اس یکم نومبر 2017 کی آڑڈڑ شیٹ کے پیرا 1 کے آخیرمیں لکھا، وہ بلکل قانون کے مطابق صحیح لکھا تھا مگر اپنے اس یکم نومبر 2017 کے حکم کے برخلاف انھوں نے 15 فروری 2018 کو یہ توہین عدالت کے کیسس (53/2015 اور 54/2015) یہ لکھ کر کے "توھین عدالت کےالزام لگنے والے respondents کے وکیل شاھد باجوہ کے اس صاف بیان کے بعد ، کے ماسواۓ ان پی ٹی سی ایل پٹیشنرس پنشنرس کے جو وی ایس ایس قبول کرکے ریٹائیڑڈ ھوۓ ھیں ،سب"
پی ٹی سی ایل پٹشنرس پنشنرس" کو گورنمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریز دی جائيگی. انکے اس فیصلہ کی اس دورکنی بینچ کے دوسرے ممبر جج محترم جسٹس قاضي عیسی فائيز صاحب نے بھی تا ئید کی تھی. مزید برآں یہ تو
یہ تو کریمنل توھین عدالت کا کیس تھاجو پی ٹی ای ٹی کے خلاف عدالت عظمی کے ۱۲جون ۲۰۱۵ کے فیصلے پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے کیا گیا تھا اور شروع میں اسکی hearing تین رکنی بینچ محترم جسٹس جناب ثاقب نثار صاحب ، محترم جسٹس گلزار صاحب اور محترم جسٹس شیخ نے کی تھی اور 16 مئی 2017 میں اسکی hearing کے دوران یہ حکم پاس کیا تھا " کے اس عدالت کے ۱۲جون ۲۰۱۵ کی ججمنٹ پر کوئی سٹے آڑڈر ایشو نھیں کیا گیا اور اسطرح ریسپونڈنٹ پی ٹی سی ایل پر لازم ھے کے وہ اس ججمنٹ پر عمل کرے اسلئیے اس سیاق وسباق میں اس آریجنل کریمنل پٹیشنس 53/2015 اور 54/2015 کے ریسپونڈنٹس کو نوٹس ایشو کیا جائیے کے کیوں مزکورہ بالا ججمنٹ پر عمل نہیں کیا جارھا ھے( اس آڑڈڑ کی فوٹو کاپیاں ملاحظہ ہوں E اور E1 پر۔) مطلب یہ ھوا یہ تو توھین عدالت کا کریمنل کیس تھا پی ٹی ای ٹی کے خلاف عدالت عظمی کے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے فیصلے پر نہ عمل کرنے کی وجہ سے جسکا نوٹس تو تین محترم جج انکو 16 مئی 2017 کو دیتے ھیں مگر دو محترم اسکا تو نوٹس لیتے نھیں اور انکو انکے کہنے مطابق رلیف دے دیتے ھیں اور ان کے کہنے پر عمل کرتے ھیں ان سے یہ نہیں پوچھتے کے وہ عدالت عظمی کے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے فیصلے پر عمل نہ کرکے توھین عدالت کے کیوں مرتکب ھوئے۔اس فیصلے کے مندرجہ ذات سے صاف ظاہر ھے کے یہ توھین عدالت کے مرتکب ھونے کے الزام والوں کے وکیل انور شاھد باجواہ کی ایما پر دیا گیا ھے یہ فیصلہ نہ صرف اس سپریم کوڑٹ کے اس تین رکنی بینچ کے 12 جون 2015 کے فیصلے کے متضاد ( contradictory ) تھا جسکو بھی خود پہلے محترم جسٹس گلزار صاحب نے ھی لکھا تھا, بلکے ultra vires بھی تھا یعنی انکے ناقابل
اختیا ربھی تھا . یعنی اس دو رکنی بینچ کو یہ اختیار ھی نہیں تھا کے وہ یہ 12 جون 2015 کے تین رکنی بینچ جسکے سربراہ سابق چیف جسٹس ناصرالملک صاحب تھے اس میں زرا سا بھی ردو بدل کرتے- . 12 جون 2015 کو تین رکنی بینچ کا یہ فیصلہ تھاکے تمام ان ریٹائڑڈ ٹی اینڈ ٹی کے ملازمین کو جو ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی ھوئے اور کارپوریشن اور کمپنی میں ٹرانسفر ھوکر ریٹائڑڈ ھوۓ , ان سب کو پی ٹی ای ٹی گورنمنٹ والی پنشن انکریز دینے کی پابند ھے . اس فيصلے میں یہ کہیں نہیں لکھا گیا کے ما سوائۓ ان پی ٹی سی ایل پنشنرس کے جو وی ایس ایس آپٹ کرکے ریٹائڑڈ ھوۓ اور اسی فیصلے کو مزيد سپریم کوڑٹ کا تین رکنی ممبر ججز کے بینچ نے17 مئي 2017 کو ری کنفرمڈ کیا اور پی ٹی ای ٹی کی رویو اپیل خارج کی .مزے کی بات ھے کے خود پی ٹی ای ٹی نے اپنی رویوپٹیشن میں اس ۱۲جون ۲۰۱۵ کے فیصلےکو تبدیل کرنے کے لئے یعنی اس میں قسم کیammedment کرنے کو نہیں کہا کے یہ گورنمنٹ پنشن انکريز صرف نارمل طریقے سے ھی ریٹائڑڈ ھونے پی ٹی سی ایل پنشنرس کو دیجائيگي . وہ تو یہ چاہتے تھے کےیہ ۱۲جون ۲۰۱۵ کا پورا فیصلہ ھی ختم ھو جائے-یہ رویواپیل انکے وکیل محترم خالدانور صاحب نے لکھی تھی. انھوں نے صاف طور پر يہ لکھا تھا کے پی ٹی ای ٹی اتنی huge payments نہیں کرسکتی اسلئۓ انکے خلاف کوئي adverse action نہیں لیا جاۓ. اگر وہ اسوق اس اپنی رویواپیل میں یہ لکھ دیتے کے وہ ماسواۓ وی ایس ایس لے کر ریٹائڑڈ ھونے والوں کے , ٹرسٹ یہ پیمنٹ ادا کرنے پر تیار ھے . تو شائد اب تک ایسے سبکو پیمنٹ ھوچکی هوتي اسکا مطلب یہ ھوتا کے پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل مسعود بھٹی کیس میں عدالت عظمی کے دئےھوئے اس فیصلے پر رضامند ھوگئی کے جو پی ٹی سی ایل کے ملازمین یکم جنوری ۱۹۹۶ کو کارپوریشن سے ٹرانسفڑڈ ھو کر پی ٹی سی ایل میں میں آئے انپر ، پی ٹی سی ایل میں صرف گورنمنٹ رولز ھی استعمال ھوں گے۔ اگر آپ لوگ انکی رویو اپیل پڑھیں جو خالد انور ایڈوکیٹ نے لکھی تھی ، اس میں انھوں نے یہ ھی صرف یہ ھی لکھا کے پی ٹی سی ایل پنشنرس کمپنی کے ملازم تھے اور انپر گورنمنٹ کے قوانین کا اطلاق نھیں ھوسکتا اسلئے انکو گورنمنٹ والی پنشن انکریز نہیں دی جاسکتی ۔اور اسی پواینٹ پر انھوں نے اس رویو کے کیس میں بہت ھی بحث کی جسکو عدالت نے رد کردیا تو اسکے بعد ھی انھوں نے پینترا بدلا اور وی ایس ایس آپٹ کرکے ریٹآئڑڈ ھونے والوں کے خلاف شروع ھو گئے جو میں تفصیلن اوپر بیان کر چکا ھوں۔
جو کچھ اوپر میں نے دلائل دئیے اس سے یے بات بلکل واضح ھوجاتی ھے کے محترم جسٹس گلزار احمد کی ھمدردیاں صرف پی ٹی سی ایل اور ٹرسٹ کے ساتھ ھی ھیں اور اسکی وجہ صرف اور صرف انکے پرانے دوست سابق جج سندھ ھائی کوڑٹ یعنی وکیل شاھد انور باجواہ صاحب ھی ھیں ۔ تو اب یہ محترم جسٹس گلزار احمد صاحب سے یہ امید رکھنا ،کے جو ایسے حاظر سروس پی ٹی سی ایل ملازمین کے کیسس انکے حوالے کردئیے گئے ھیں ، وہ انسے
انصا ف کرسکیں گے بھی یا نھیں، بعید النظر آتا ھے ۔ اسلئیے میرا مشورہ تو یہ ھی ھے کے انکو اس کیس کی شنوائی سے الگ کرنے کے لئیے پٹیشنرس کے وکلاء لطیف کھوسہ صاحب اور ابراھیم ستی صاحب درخواستیں دائیر کردیں ۔ یہ ایک قانونی طریقہ ھے اور انصاف کا تقاضہ بھی یھی ھے اس سے کسی جج کی توھین نھیں ھوتی ھے ۔ یہ وکلاء چاھیں اسکی وجوھات بھی مختصرن لکھ سکتے ھیں ، جو میں اوپر بیان کرچکا ھوں-
وسلام
طارق
Date 15-10-2018
Sent from Rawalpindi Pakistan via iPad
Comments