Article-107[ Regarding update of my case in IHC Writ Petetion # 4588/2018]
[Case Update]
Muhammad Tariq Azhar etc
Vs
Federation of Pakistan etc
Writ Petition # 4588/2018
خدا خدا کرکے آج ۱۰ ماہ بعد میری اپنے ۳۱ پی ٹی سی ایل پنشنرز ساتھیوں کے ساتھ اسلام آباد ھائی کوڑٹ میں دائیر کردہ رٹ پٹیشن ( نمبر اوپر دے رکھا ھے) کی شنوائی ھوئی جو پی ٹی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل کے وکیل کے نہ آنے کے باعث دسمبر کے پہلے ھفتے تک ملتوی کردی گئی ۔ انکے وکیل صاحب اپنے کسی عزیز کی بیماری کے باعث تشریف نہیں لائیے اور نہ ھی بھی تک نے اسکا کوئی جواب اب تک جمع کرایا ھے ، جسکا انکو عدالت نے اپنی پہلی ھئیرنگ میں جو ۳ دسمبر ۲۰۱۸ کو ھوئی تھی ، دو ھفتوں میں میں جمع کرانے کا حکم دیا تھا ۔ جو یہ لوگ اب تک جمع نہیں کراسکے۔ ھمارے اس کیس کے جج محترم جناب جسٹس عامر فاروق ھیں ۔ مجھے آج اس کیس کی شنوائی کے لئے جانا تھا ، لیکن میں صاحب فراش ھونے کی وجہ سے نہ جاسکا ۔ گزشتہ تین ماہ سے میں اپنی بائیں ٹانگ میں فریکچر کی باعث چلنے میں دشواری ھے۔ میں نے اپنے ساتھی مسرت نواز کو جو اس کیس میں میرے ساتھ پٹیشنر بھی ھیں اور اسلام آباد میں قیام رکھتے ھیں انکو عدالت میں کیس سننے کے لئیے بھیجا تھا انھوں نے ھی مجھے یہ سب کچھ بتایا پھر میں نے وکیل صاحب سے بھی فون پر بات کی تھی انھوں نے بھی یہ ھی سب کچھ بتایا ۔ انھوں نے بتایا کے معزز جج صاحب نےریسپونڈنٹس کی طرف سے جواب جمع نہ کرانے پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور اور آئیندہ دسمبر کے پہلے ھفتے کی پیشی پر لازمن جواب جمع کرانے کا حکم دیا ھے ۔ ابھی دسمبر۲۰۱۹ کے پہلے ھفتے میں تاریخ مقرر نہیں کی گئی ھے۔
یاد رھے میں نے یہ پیٹیشن اپنے ۳۱پی ٹی سی ایل پنشنرس دوستوں کے ساتھ ، ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ کے اس حکم پر پر عمل کرنے، پر دی تھی جس میں یہ کہا گیا تھا کے پی ٹی ای ٹی ایسے تمام پی ٹی سی ایل ملازمین کو گورنمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریز دینے کی پابند ھے جو ٹی اینڈ سے کارپوریشن اور کمپنی میں ٹرانسفڑڈ ھو کر ریٹائیڑڈ ھوئیے تھے۔ اور اس حکم کے خلاف تین رکنی سپریم کوڑٹ کے بینچ نے انکی رویو پٹیشن بھی 17 مئی 2017 کو ڈسمس کردی تھی۔ انھوں نے سپریم کوڑٹ کے ۱۲ جون ۲۰۱۵ حکم کا فائیدہ ان پی ٹی سی ایل پنشنروں کو نہیں پہنچایا جو ۱۲ جون ۲۰۱۵ میں اسکے ریسپونڈنٹس نھیں تھے ، جو صریحاً سپریم کوڑٹ کے اس متعین کردہ اصول اور قانون کے خلاف ھے جو اسنے حمید اختر نیازی کیس (1996SCMR1185) میں دیا تھا کے ایک سرکاری ملازم کے حق میں آنے والے فیصلے کا فائدہ جس نے مقدمہ کیا ھو اور ایسے تمام سرکاری ملازمین کو بھی پہنچے گا چاھے انھوں نے بھی ایسا مقدمہ کیا ھو یا نا ھو ۔ اور پھر اسی سپریم کوڑٹ کے حکم کے بارے میں سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ نے انیتا تراب علی کیس [PLD 2013 S.C. 195]. جس میں عدالت نے یہ واضح کیا
“ہم نے حمید اختر نیازی بمقابلہ سکریٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن (1996 ایس سی ایم آر 1185) کے عنوان سے اس قانون میں قانون کے ایک اصول کو تسلیم کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس عدالت نے اس فیصلے پر ایک فیصلہ دیا ہے۔ نقطہ قانون متعلقہ محکمہ جاتی عہدیداروں پر پابند ہوگا جو ایسے ہی دیگر قانونی معاملات میں اس طرح کے قانونی اصول کا اطلاق کرنے کے پابند ہوں گے اس سے قطع نظر کہ کسی سرکاری ملازم نے قانونی چارہ جوئی کی ہے یا نہیں۔ مناسب معاملات میں کسی قانونی اصول کا اطلاق کرنے میں ریاستی کارکن کی ناکامی جو ہے وہ واضح طور پر اور غیرجانبداری سے کسی معاملے کی طرف راغب ہے ، اسے آئین کے آرٹیکل 204 (2) (a) کے تحت کارروائی کے لئے بے نقاب کرسکتا ہے۔ یہ مضمون ، اسے واپس بلایا جاسکتا ہے ، اس عدالت کو کسی بھی فرد کو "عدالت کے کسی حکم کی نافرمانی کرنے" کی توہین کرنے کی سزا دینے کا اختیار فراہم کیا گیا ہے۔”
تو اسی بنیاد پر یہ پٹیشن داخل کی گئی ھے کے نا صرف اس کیس کے پٹیشنروں کو سپریم کوڑٹ کے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے فیصلے کے مطابق پنشن گورنمنٹ پنشن انکریز یکم جولائی ۲۰۱۰ سے دی جائیے بلکے جو نان پٹیشنرس تمام پی ٹی سی ایل پنشرس ھیں انکو یہ انکریز نہ دینے کا عمل ، غیر قانونی قرار دیا جائیے تاکے یہ انکو بھی سپریم کوڑٹ کے مروجہ اصول اور قانون کے مطابق اسکا فائیدہ پہنچایا جائیے جو اسنے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے حکم میں دیا ھے جو چھ معزز سپریم کوڑٹ کے ججوں نے دیا ۔ [ دو ججوں کا ۱۵ فروری ۲۰۱۸ کا فیصلہ جو جوانھوں نے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے فیصلے کو ایک طرح سے تبدیل کرکے جسکی رویو پٹیشن بھی خارج ھو چکی تھی ۔ وہ ناقابل عمل اور غلط ھے اسکی اس ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے فیصلے کے آگے کوئی حیثیت نہیں ھے جس میں تمام ریٹائیڑڈ ملازمین کو ( چاھے وہ کیسے بھی طرح سے ریٹائیڑڈ ھوئیے ھوں) گورنمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریز دینے کا حکم دیا گیا ھے]
واسلام
طارق
۲۲ اکتوبر ۲۰۱۹
Comments