Article-122[Urdu translation of Email to MD PTET]
جناب حامد فاروق میجنگ ڈائیریکٹر ( پی ٹی ایی ٹی ) بھیجی ھوئی ای میل کا اردو ترجمعہ
عزیز پی ٹی سی ایل ساتھیو
اسلام و علیکم
کل میں نے 28 جون کو میں نے اپنی جناب حامد فاروق میجنگ ڈائیریکٹر ( پی ٹی ایی ٹی ) کو بھیجی ھوئی ای میل شئیر کی تھی ، مجھے کچھ دوستوں نے کہا کے اسکا اردو ترجمہ بھی کردیں تاکے ان لوگوں کو بھی سمجھ میں آجائیے جو انگلش سے نا واقف ھیں ، اسی کو سوچکر اس ای میل کا ترجمہ زیر پیش ھے ۔ میں اسکا تھوڑا بیک گراؤنڈ بتانا چاھتا ھوں آپ سبکو تو یہ معلوم کے سینیٹ نے ، سٹینڈنگ کمیٹی آئ ٹی ٹی کی سپیشل رپوڑٹ جو پی ٹی سی ایل پنشنروں کو پی ٹی ای ٹی سے گورمنٹ پنشن ادا کرنے کے بارے میں میں تھی ، سینیٹ نے مشترکہ طور پر یہ قرار داد منظور کی تھی اور منسٹری ( ایم او آئی ٹی ٹی) کو دو مہینے کے اندر سینیٹ کے 2012 کے بزنس قوانین 2012 کے کلاز (3)196 ، اس پر عمل دو مہینے کے اندر اندر کرنا تھا اور اگر اسپر عمل نہ کرنے کی کوئی مجبوری ھو تو اسکا ٹھوس قانونی وجوھات بنا کر سینیٹ کو بھیجنی پڑتی ھے اور اگر سینیٹ ان جواز کو قبول کرلے تو فبیحا اگر نہیں تو ، اور دو ماہ کا عرصہ بھی گزر جائیے تو پھر اس پر عمل کرنا اس ادارے پر لازم ھو جاتا ھے چاھے کتنے ھی نہ عمل کرنے جواز ھوں قانونی یا غیر قانونی ھوں ۔ آپ کو یاد ھوگا انکے جنرل منیجر پی ٹی ای ٹی نے ایک بونگی سی رپوڑٹ اسپر عمل نہ کرنے کی 6 فروری 2020 کو بھیجی تھی ، جسکو قبول نہیں کیا گیا سینیٹ کی طرف سے ، ابھی حال ھی میں ۱۱ جون کو اسی سٹینڈنگ کمیٹی کی میٹنگ اسکی کنوینیر سینیٹر محترمہ روبینہ خالد کی سربراھی میں ھوئی تھی جس میں سیکریٹری ایم او آئی ٹی ٹی اور پی ٹی ای کے میجنگ ڈائیریکٹر اور دیگر لوگ بھی شریک تھےجب کنوینیر سینیٹر محترمہ روبینہ خالد نے انسے استفسار کیا کے اب تک پی ٹی ای ٹی نے کیوں قرار داد کے مطابق پنشن نھیں دی تو ان سب کی بولتی بند ھوگئی تھی اور کوئی بھی انکو جواب دے سکا ، تو وہ بہت ھی برھم ھوئیں اور یہاں تک انکو دھمکی دی کے وہ اس ٹرسٹ کو ختم کرادیں گی اس پر سیکریٹری ایم او آئی ٹی ٹی انکو یقین دلایا کے اس قرار داد پر عمل کرایا جائیے گا ، تو یہ انکے ڈپٹی سیکریٹری (ایڈمن ) کی طرف سے 16 جون کو لکھا ھوا جانے والا خط اسی سلسلے کی کڑی تھی جس پر حامد فاروق صاحب ایم ڈی پی ٹی ای ٹی نے جو 19 جون کو جواب دیا اور اسکے اس جواب کو میں نے یہ ای میل انکو بھیجی کے جو کچھ انھوں نے لکھا اس میں جھوٹ ھے اور کوئی حقیقت ھے اسی کا جواب میں نے اس ای میل میں دیا ھے۔
جو ۱۱ جون کو سٹینڈنگ کمیٹی کی میٹنگ ھوئی اسکی پپی ٹی سی ایل پنشنروں کے بارے میں ھائی لائیٹڈ کاپی اور ڈپٹی سیکریٹری کے خط کی کاپی اور سیکٹری سٹینڈنگ کمیٹی کی طرف سے 29 جنوری 2020 کو سیکریٹری ایم او آئی ٹی ٹی کو بھیجے ھوئیے خط کی کاپی دوبارا نیچے پوسٹ کررھا ھوں تاکے آپ لوگوں اچھی طرح سمجھ میں آجائیے
واسلام
طارق
۲۹ جون ۲۰۲۰
“اردو ترجمعہ”
جناب حامد فاروق
میجنگ ڈائیریکٹر ( پی ٹی ای)
پاکستان ٹیلیکمیونیکیشن ایمپلائیز ٹرسٹ
اسلام آباد
موضوع: - ایم ڈی پی ٹی ای ٹی کا سینیٹ کی قرارداد اور اسلام آباد ھائیکوڑٹ کے فیصلوں پر عمل کرنے سے انکار .ذریعہ بھی حکم کی تعمیل نہیں۔
حوالہ جات: آپ کا خط نمبر
PTET / Cor-Min / 2020 مورخہ 19 جون 2020 ، جوائنٹ سکریٹری ایڈمن کے جواب میں) MoIT خط نمبر 2-10 / 2020-کونسل (سینیٹ) مورخہ 16 جون 2020
محترم جناب
یہ انتہائی افسوس کے ساتھ ہے کہ آپ نے 19 جون 2020 کے اپنے خط کے اوپر جو ڈپٹی سیکرٹری (ایڈمن) ایم او آئی ٹی کو مذکورہ بالا حوالہ دیا ہے اس کا جواب انتہائی غیر معقول اور صریح انکار کے ساتھ دیا ہے۔ اس کا آپ کا منفی جواب ، زمینی حقائق سے دور ہے۔ اپنے خط میں ، ڈپٹی سکریٹری (ایڈمن) ایم او آئی ٹی ٹی نے بورڈ آف ٹرسٹیز کو ہدایت کی کہ وہ تمام پی ٹی سی ایل پنشنرز کو پنشن کے بقایاجات کی ادائیگی کریں کیونکہ قرارداد کے مطابق ، اعزازی بالائی سینیٹ نے 28 جنوری 2020 کو متفقہ طور پر منظور کیا تھا اور اس کے حکم کی تعمیل بھی کی ہے۔ معزز اسلام آباد ہائیکورٹ مورخہ 3 مارچ 2020 ء کو ، حکومت کے مطلع شدہ اضافے میں ملازمین کو پنشن کی ادائیگی کے لئے۔ نوٹ کریں کہ 28 جنوری 2020 کی قرارداد کے تحت ، ٹرسٹ سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ سینیٹ ، 2012 میں کاروباری ضابطہ اخلاق اور ضابطہ اخلاق کے ضابطہ 196 (3) کی تعمیل کرے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ ایوان کے ذریعہ رپورٹ کو اپنانے کے بعد اس پر عمل درآمد کے لئے متعلقہ وزارت کو بھی آگاہ کیا جائے گا اور اگر وزارت ایوان کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے سے قاصر ہے تو وہ اس کی وجوہات کے دو ماہ کے اندر ایوان کو مطلع کرے گی۔ ، اور اگر وزارت ایسا کرنے میں ناکام ہوتی ہے تو ایوان کا فیصلہ لازمی ہوگا۔ ایم ڈی ٹرسٹ کو وزارت انفارمیشن ٹکنالوجی اور ٹیلی کام کے ڈپٹی سیکرٹری (ایڈمن) کا 16 جون 2020 کا حالیہ خط اس سے منسلک ہے۔ جس میں ٹرسٹ کو ایک انتباہ بھی جاری کیا گیا ہے کہ عمل نہ کرنے کی صورت میں ناپسندیدہ صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹکنالوجی اینڈ ٹیلی کام نے ، 7 جنوری 2020 کو پی ٹی ای ٹی کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے کام سے متعلق اپنی ایک خصوصی خصوصی رپورٹ پیش کی ، اس رپورٹ میں ، کمیٹی نے بورڈ آف ٹرسٹی کا سارا کچا چٹھا کھول دیا تھا اور وضاحت کی کہ یہ بورڈ آف ٹرسٹیز پی ٹی سی ایل کے مفاد میں کیسے کام کررہا ہے ، پی ٹی سی ایل کے پنشنرز کے مفاد میں نہیں ، جس کے لئے یہ ٹرسٹ تشکیل دیا گیا تھا۔ یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ آپ کو خصوصی رپورٹ کے ذریعے پہلے بہت اچھی طرح سے مطالعہ کرنا چاہئے تھا اور پھر اسکا پیراوئیز جواب دینا چاھئیے تھا کرنا ۔ لیکن بدقسمتی سے آپ یہ نہیں کرسکے اور ڈپٹی سکریٹری (ایڈمن) ایم او آئی ٹی کو ایک گول مول جواب دے کر اپنی خلاصی کرنے کی کوشش کی۔ اس سے قبل ، جنرل منیجر (پی ٹی ای ٹی) فاروق احمد ، نے 6 فروری 2020 کو ایم او آئی ٹی ٹی کو ایک ایسا ہی بے بنیاد اور من گھڑت جواب دیا تھا ، جس کی آپ تصدیق کر رہے ہو اور اپنے جواب کو اس کا ایڈیشن قرار دے رہے ھیں جو حیران کن بھی ہے۔ آپ ایک غیر معقول اور منحرف جواب ، ایکٹ 1996 اور عدالت کے فیصلے کو مسخ کرکے دے رھے ھیں اور جان بوجھ کر ڈپٹی سکریٹری (ایڈمن) ایم آئی ای ٹی کی آنکھوں میں دھول جھونک رھے ھیں اوربہت سے انسے اصل حقائق کو چھپانے کی کوشش کررھے ھیں، جو بہت پریشان کن ہے۔ ایک متاثرہ پی ٹی سی ایل پنشنر کی حیثیت سے ، مجھے آپ کے ڈپٹی سکریٹری (ایڈمن) ایم او آئی ٹی کے جواب کے بارے میں بہت سارے اعتراضات اور تحفظات ہیں . مجھے لگتا ہے کہ آپ نے ٹرسٹ کی جلد کو بچانے کی ناکام کوشش کی ہے۔ میرے اعتراضات اور تحفظات کی وجوہات درج ذیل ہیں:
1. آپ نے اپنے جواب کا ذکر کیا کہ ٹرسٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 3 مارچ 2020 کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلیں دائر کی ہیں ، لیکن اس چیز کا ذکر نہیں کیا کہ عدالت نے 3 مارچ 2020 کے آئی ایچ سی کے فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے کے لئے کوئی بھی ٹرسٹ کو حکم امتناعی جاری نہیں کیا۔ باوجود اسکے ان کے وکیل شاہد انور باجوہ نے عدالت سے حکم امتناعی کے لئے بار بار اپیلیں کیں اس کے برعکس ، معزز چیف جسٹس ، جناب اطہر من اللہ نے ان سے ، یعنی ٹرسٹ کے وکیل ، شاہد انور باجوہ سے پوچھا ، "جب ٹرسٹ نے بھی پہلے ہی اس طرح کے پٹیشنروں پنشن ادا کردی تھی ، تو ان پٹیشنروں پنشن انکریزز دینے میں کیا حرج ہے؟" اور جواب میں ، انکے وکیل نے بتایا کہ ٹرسٹ کو اس پر کچھ ریزرویشن ہے۔ ٹرسٹ آج تک 3 مارچ 2020 کے آئی ایچ سی کے حکم پر عمل درآمد نہیں کیا۔ اب زیادہ تر پٹیشنروں نے آپ اور بورڈ آف ٹرسٹی کے چیئرمین مظہر حسین کے خلاف توہین عدالت کے مقدمات دائر کردیئے ہیں۔
یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ان درخواست گزاروں کے حق میں عدالت کے فیصلوں میں ٹرسٹ کے کیا اعتراضات اور تحفظات تھے ، جن کی بنا پر انہوں نے ان کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلیں دائر کیں ھیں . ایسے درخواست دہندگان نے تو اپنی اپنی درخواستوں میں ، صرف سرکاری پنشن میں اضافے دینے کی مدعا کی تھی . جو یہ ٹرسٹ فروری 2018 میں ، پی ٹی سی ایل کے پینشنرس پٹیشنروں کو ، 15 فروری ، 2018 کے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق پہلے ھی ادا کرچکا ھے.
2. آپ نے اپنے جواب میں بتایا ہے کہ بورڈ آف ٹرسٹیز کو پی ٹی ایکٹ 1996 کی شق 46 (2) (a) کے تحت اور پی ٹی ای ٹی رولز 2012 تحت یہ کلی اختیار ھے کے پنشن میں سالانہ اضافے کی منظوری دے ۔ جو سرا سر غلط اور من گھڑتھے . حقیقت یہ ھے ٹی سی ایل پنشنرز کو سالانہ پنشن میں اضافہ دینے کا تعلق پی ٹی ایکٹ 1996 کے شق 46 (1) (d) سے ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ پی ٹی ای ٹی رولز 2012 ، جسکا زکر کیا ھے اموہ تو موجود ھی نہیں ، وہ تو پہلے عدالت ختم کر چکی ھے (جس کی تفصیل نیچے پیرا 3 میں دی گئی ہے)۔ پی ٹی ایکٹ 1996 کی شق 46 (2) (a) کا تعلق بورڈ آف ٹرسٹی کے خصوصی اختیارات کا تعلق صرف "پنشن" کے لئے نہیں بلکہ "پنشن فوائد" کے تعین کے معاملے کا ہے۔ "پنشن" میں اضافہ کرنے کا حق ، حکومت کا ھے جیسا کہ اسی پی ٹی ایکٹ 1996 کی شق 46 (1) (d) میں مذکور ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ٹیلی مواصلات کے ملازمین کو "پنشن" کی ادائیگی انکے حق کے مطابق ادئیگی کرنی ھے"۔ اور اس شق یعنی 46 (1) (d) کو معزز سپریم کورٹ نے 12 جون 2015 کے اپنے فیصلے کے پیراگراف 18 میں واضح طور پر بیان کیاگیا ہے۔ یہ فیصلہ 1996ایس سی ایم آر 1472 تحریر ھے . جسطرح کی تشریح آپ پی ٹی ایکٹ 1996 کی شق 46 (2) (a) کی کر رھے ھیں اگر اسطرح کی اسکی تشریح سپریم کوڑٹ کرتی تو ممکن تھا اسکا مورخہ 12 جون 2015 کے کا دیا ھوا فیصلہ پی ٹی سی ایل پنشنروں کے حق میں نہیں آتا ۔ بلکے عدالت نے اپنے فیصلے صاف طور لکھا ھے کے پی ٹی ای ٹی کا بوڑڈ آف ٹرسٹیز لازمی طور پر گورمنٹ کی ھی پنشن میں اعلان کردہ پنشن اضافہ دینے کی پابند ھے . تو یہ واضح کریں یہ بوڑڈ آف ٹرسٹیز کس قانون کے تحت ان پی ٹی سی سیل پنشنروں کی سالانہ اضافہ اپنی مرضی سے دے رھا ھے ۔ کیا انکا یہ اقدام توھین عدالت کے مترادف نھیں ھو رھا ھے؟
3. آپ نے بتایا ہے کہ بورڈ آف ٹرسٹیز کے ذریع طے شدہ سالانہ اضافے کی بنیاد پر تمام پنشنرز کو ماہانہ پنشن کی پی ٹی ای ٹی پنشن رولز ۔۲۰۱۲، جو وفاقی حکومت نے نوٹیفائیڈ کیا تھا ، اسکے زریعے بھی کی جارھی ھیں . یہاں آپ نے ایک بار پھر یہ حقیقت چھپائی اور غلط بیانی سے کام لیا ھے ۔ ان پی ٹی ای ٹی پنشن رولز 2012 کو تو معزز پشاور ہائیکورٹ نے 3 جولائی 2014 کے اپنے ، میں یوسف آفریدی اور دیگر کے ذریعہ دائر پٹیشن نمبر WP -2657/2012 کے فیصلے میں ختم کردیا تھا ، اور یہ حکم دیا تھا کہ اس طرح کے پی ٹی ای ٹی پنشن قواعد 2012 صرف ان کمپنی ملازمین پر لاگو ہوں گے ، جنھوں یکم جنوری 1996 کے بعد کمپنی میں شمولیت اختیار کی ھے . پی ٹی ای ٹی نے ، سپریم کوڑٹ میں CPs 1597 ، 1602 کے زریعے 2014 میں , اس فیصلے کے خلاف اپیلیں بھی داخل کیں جو معزز عدالت سپریم کوڑ ٹ نے اپنے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے فیصلے ڈسمس کردیں یہ 2015 ایس سی ایم آر 1472 میں رپورٹ شدہ ھیں ، اسکے خلاف انکی رویو پٹیشنیں بھی 17 مئی 2017کو مسترد کردی گئیں . ان پی ٹی ای ٹی رولز -2012 کو لاھور ھائی کوڑٹ نے بھی 4 مارچ 2016 کو مسترد کردیا تھا جیسا کہ پیرا جی (2) میں اپنی رپورٹ میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے بتایا ھے .
4. آپ کے بیان کے مطابق کہ پی ٹی ای ٹی نے سپریم کوڑٹ کے 12 جون 2012 کے حکم کی تعمیل کرکے اپنی ذمہ داری پوری کردی ہے ، پٹیشنروں کو گورنمٹ کی اعلان کردہ پنشن اضافہ جات دے کر ، حقیقت میں دیکھا جائیے پی ٹی ای ٹی نے جزوی طور پر اس کی تعمیل کی ھے۔ اگر آپ احتیاط سے مذکورہ آرڈر کو پڑھا جائیے اس میں عدالت نے تمام ایسے ملازمین پر عمل کرنے کو کہا ھے . دوسرا ، ٹرسٹ کو ، تمام نان پٹیشنروں پر بھی اس کا عمل کرنا چاھئیے تھا ، سپریم کوڑٹ کے متعین کردہ اصول اور قوانین کے مطابق جو اسنے حمید اختر نیازی کیس یعنی حمید اختر نیازی بنام سکریٹری اسٹیبلشمنٹ کے ، ایس ایس ایم آر 1185 " میں دیا ھے جس میں کہا گیا ھے ھے کے “ ایف ایس ٹی سی یا سپریم کورٹ کسی سرکاری ملازم ، جسنے مقدمہ کیا ھو ، اسکےحق میں آنے والے فیصلے کا فائدہ ان سرکاری ملازمین کو بھی پہینچایا جائیے گا جو ایسے مقدمے میں پاڑٹی نہیں تھا یا جنھوں نے مقدمہ ھی نھیں کیا تھا ، بجائیے انسے کہا جائے کے بھی اسکے لئے عدالت یا کسی متعلقہ فورم سے رجوع کریں “۔ .اور سپریم کوڑٹ نے "سید محمود اختر نقوی اور دیگر بمقابلہ بمقابلہ فیڈریشن آف پاکستان [ جو عام طور پر انیتا تراب علی کیس [پی ایل ڈی 2013 ایس سی 195] کے نام سے جانا جاتا ہے ] کے فیصلے میں اس معزز عدالت عظمی کے تین رکنی بینچ دیا کہ کے اس معزز عدالت نے کحمید اختر نیازی یعنی حمید اختر نیازی بمقابلہ سکریٹری اسٹیبلشمنٹ [1996 میں ایس سی ایم آر 1185 "] ، ایک قانون اور اصول وضح کردیا ھے اور اس پر عمل کرنا محکمہ جاتی ذمہ داروں پر پابند ہوگا جو ایسے ہی دوسرے مقدمات میں اس طرح کے قانونی اصول کا اطلاق کرنے کے پابند ہوں گے ، اس سے قطع نظر کہ کسی سرکاری ملازم نے اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی ہے یا نہیں۔ اگر ادارہ یا بیوروکریٹ اس قانونی اصول کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو ، آرٹیکل 204 (2) (a) کے تحت انکے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ھوگی ۔
آخر میں ، مجھے صرف اتنا کہنا ہے کہ ، چونکہ پی ٹی ای ٹی کا بورڈ آف ٹرسٹیز پی ٹی سی ایل پنشنرز کو بدسلوکی کررہا ہے اور ان کو ان کا مناسب حق نہیں دے رہا ہے اور اعلی عدالتوں ، سپریم کورٹ اور یہاں تک کہ ایوان بالا سینیٹ کے احکامات کو بھی نھیں مانتا ہے ، لہذا یہ صرف وزیر اعظم پاکستان اور معزز چیئرمین سینیٹ سے پی ٹی سی ایل پنشنرز کا مطالبہ ہے کہ اس ظالمانہ بورڈ آف ٹرسٹیز کو فوری طور پر تحلیل کیا جائے اور اس کے جابرانہ چیئرمین ، منیجنگ ڈائریکٹر اور جنرل منیجر کو فوری طور پر نوکری سے برخاست کردیا جائے۔ اور پنشن کی فراہمی کا کا معاملہ ، پی ٹی ایکٹ 1996 میں اسکے متعلق ، کلاز کو ترمیم کرکے، تحلیل بورڈ آف ٹرسٹیز کے تمام خصوصی اختیارات کے ساتھ اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکستان کو سونپ دی جائیں ہے۔ اور اگر ایسا کرنے میں کوئی قانونی پیچیدگی پیدا ہو رہی ھوں، تو اس کے بجائے ایک آزاد ادارہ کنٹرولر آف ملٹری اکاؤنٹس پنشن کے طرز پر تشکیل دیا جائیے اور تحلیل بورڈ آف ٹرسٹیز کے تمام ختیارات اسکو سونپ دئیے جائیں
آپ کا مخلص
(محمد طارق اظہر)
پی ٹی سی ایل پنشنر اور اہم درخواست گزار [آئی ایچ سی میں کیس WP-4588/2018]
تمام پی ٹی سی ایل پنشنرز کی جانب سے
کاپی برائیے ضروری کاروائی:-
سکریٹری (ایم او آئی ٹی)
وزارت انفارمیشن ٹکنالوجی اور ٹیلی کام
اسلام آباد۔
عزیز پی ٹی سی ایل ساتھیو
اسلام و علیکم
کل میں نے 28 جون کو میں نے اپنی جناب حامد فاروق میجنگ ڈائیریکٹر ( پی ٹی ایی ٹی ) کو بھیجی ھوئی ای میل شئیر کی تھی ، مجھے کچھ دوستوں نے کہا کے اسکا اردو ترجمہ بھی کردیں تاکے ان لوگوں کو بھی سمجھ میں آجائیے جو انگلش سے نا واقف ھیں ، اسی کو سوچکر اس ای میل کا ترجمہ زیر پیش ھے ۔ میں اسکا تھوڑا بیک گراؤنڈ بتانا چاھتا ھوں آپ سبکو تو یہ معلوم کے سینیٹ نے ، سٹینڈنگ کمیٹی آئ ٹی ٹی کی سپیشل رپوڑٹ جو پی ٹی سی ایل پنشنروں کو پی ٹی ای ٹی سے گورمنٹ پنشن ادا کرنے کے بارے میں میں تھی ، سینیٹ نے مشترکہ طور پر یہ قرار داد منظور کی تھی اور منسٹری ( ایم او آئی ٹی ٹی) کو دو مہینے کے اندر سینیٹ کے 2012 کے بزنس قوانین 2012 کے کلاز (3)196 ، اس پر عمل دو مہینے کے اندر اندر کرنا تھا اور اگر اسپر عمل نہ کرنے کی کوئی مجبوری ھو تو اسکا ٹھوس قانونی وجوھات بنا کر سینیٹ کو بھیجنی پڑتی ھے اور اگر سینیٹ ان جواز کو قبول کرلے تو فبیحا اگر نہیں تو ، اور دو ماہ کا عرصہ بھی گزر جائیے تو پھر اس پر عمل کرنا اس ادارے پر لازم ھو جاتا ھے چاھے کتنے ھی نہ عمل کرنے جواز ھوں قانونی یا غیر قانونی ھوں ۔ آپ کو یاد ھوگا انکے جنرل منیجر پی ٹی ای ٹی نے ایک بونگی سی رپوڑٹ اسپر عمل نہ کرنے کی 6 فروری 2020 کو بھیجی تھی ، جسکو قبول نہیں کیا گیا سینیٹ کی طرف سے ، ابھی حال ھی میں ۱۱ جون کو اسی سٹینڈنگ کمیٹی کی میٹنگ اسکی کنوینیر سینیٹر محترمہ روبینہ خالد کی سربراھی میں ھوئی تھی جس میں سیکریٹری ایم او آئی ٹی ٹی اور پی ٹی ای کے میجنگ ڈائیریکٹر اور دیگر لوگ بھی شریک تھےجب کنوینیر سینیٹر محترمہ روبینہ خالد نے انسے استفسار کیا کے اب تک پی ٹی ای ٹی نے کیوں قرار داد کے مطابق پنشن نھیں دی تو ان سب کی بولتی بند ھوگئی تھی اور کوئی بھی انکو جواب دے سکا ، تو وہ بہت ھی برھم ھوئیں اور یہاں تک انکو دھمکی دی کے وہ اس ٹرسٹ کو ختم کرادیں گی اس پر سیکریٹری ایم او آئی ٹی ٹی انکو یقین دلایا کے اس قرار داد پر عمل کرایا جائیے گا ، تو یہ انکے ڈپٹی سیکریٹری (ایڈمن ) کی طرف سے 16 جون کو لکھا ھوا جانے والا خط اسی سلسلے کی کڑی تھی جس پر حامد فاروق صاحب ایم ڈی پی ٹی ای ٹی نے جو 19 جون کو جواب دیا اور اسکے اس جواب کو میں نے یہ ای میل انکو بھیجی کے جو کچھ انھوں نے لکھا اس میں جھوٹ ھے اور کوئی حقیقت ھے اسی کا جواب میں نے اس ای میل میں دیا ھے۔
جو ۱۱ جون کو سٹینڈنگ کمیٹی کی میٹنگ ھوئی اسکی پپی ٹی سی ایل پنشنروں کے بارے میں ھائی لائیٹڈ کاپی اور ڈپٹی سیکریٹری کے خط کی کاپی اور سیکٹری سٹینڈنگ کمیٹی کی طرف سے 29 جنوری 2020 کو سیکریٹری ایم او آئی ٹی ٹی کو بھیجے ھوئیے خط کی کاپی دوبارا نیچے پوسٹ کررھا ھوں تاکے آپ لوگوں اچھی طرح سمجھ میں آجائیے
واسلام
طارق
۲۹ جون ۲۰۲۰
“اردو ترجمعہ”
جناب حامد فاروق
میجنگ ڈائیریکٹر ( پی ٹی ای)
پاکستان ٹیلیکمیونیکیشن ایمپلائیز ٹرسٹ
اسلام آباد
موضوع: - ایم ڈی پی ٹی ای ٹی کا سینیٹ کی قرارداد اور اسلام آباد ھائیکوڑٹ کے فیصلوں پر عمل کرنے سے انکار .ذریعہ بھی حکم کی تعمیل نہیں۔
حوالہ جات: آپ کا خط نمبر
PTET / Cor-Min / 2020 مورخہ 19 جون 2020 ، جوائنٹ سکریٹری ایڈمن کے جواب میں) MoIT خط نمبر 2-10 / 2020-کونسل (سینیٹ) مورخہ 16 جون 2020
محترم جناب
یہ انتہائی افسوس کے ساتھ ہے کہ آپ نے 19 جون 2020 کے اپنے خط کے اوپر جو ڈپٹی سیکرٹری (ایڈمن) ایم او آئی ٹی کو مذکورہ بالا حوالہ دیا ہے اس کا جواب انتہائی غیر معقول اور صریح انکار کے ساتھ دیا ہے۔ اس کا آپ کا منفی جواب ، زمینی حقائق سے دور ہے۔ اپنے خط میں ، ڈپٹی سکریٹری (ایڈمن) ایم او آئی ٹی ٹی نے بورڈ آف ٹرسٹیز کو ہدایت کی کہ وہ تمام پی ٹی سی ایل پنشنرز کو پنشن کے بقایاجات کی ادائیگی کریں کیونکہ قرارداد کے مطابق ، اعزازی بالائی سینیٹ نے 28 جنوری 2020 کو متفقہ طور پر منظور کیا تھا اور اس کے حکم کی تعمیل بھی کی ہے۔ معزز اسلام آباد ہائیکورٹ مورخہ 3 مارچ 2020 ء کو ، حکومت کے مطلع شدہ اضافے میں ملازمین کو پنشن کی ادائیگی کے لئے۔ نوٹ کریں کہ 28 جنوری 2020 کی قرارداد کے تحت ، ٹرسٹ سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ سینیٹ ، 2012 میں کاروباری ضابطہ اخلاق اور ضابطہ اخلاق کے ضابطہ 196 (3) کی تعمیل کرے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ ایوان کے ذریعہ رپورٹ کو اپنانے کے بعد اس پر عمل درآمد کے لئے متعلقہ وزارت کو بھی آگاہ کیا جائے گا اور اگر وزارت ایوان کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے سے قاصر ہے تو وہ اس کی وجوہات کے دو ماہ کے اندر ایوان کو مطلع کرے گی۔ ، اور اگر وزارت ایسا کرنے میں ناکام ہوتی ہے تو ایوان کا فیصلہ لازمی ہوگا۔ ایم ڈی ٹرسٹ کو وزارت انفارمیشن ٹکنالوجی اور ٹیلی کام کے ڈپٹی سیکرٹری (ایڈمن) کا 16 جون 2020 کا حالیہ خط اس سے منسلک ہے۔ جس میں ٹرسٹ کو ایک انتباہ بھی جاری کیا گیا ہے کہ عمل نہ کرنے کی صورت میں ناپسندیدہ صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹکنالوجی اینڈ ٹیلی کام نے ، 7 جنوری 2020 کو پی ٹی ای ٹی کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے کام سے متعلق اپنی ایک خصوصی خصوصی رپورٹ پیش کی ، اس رپورٹ میں ، کمیٹی نے بورڈ آف ٹرسٹی کا سارا کچا چٹھا کھول دیا تھا اور وضاحت کی کہ یہ بورڈ آف ٹرسٹیز پی ٹی سی ایل کے مفاد میں کیسے کام کررہا ہے ، پی ٹی سی ایل کے پنشنرز کے مفاد میں نہیں ، جس کے لئے یہ ٹرسٹ تشکیل دیا گیا تھا۔ یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ آپ کو خصوصی رپورٹ کے ذریعے پہلے بہت اچھی طرح سے مطالعہ کرنا چاہئے تھا اور پھر اسکا پیراوئیز جواب دینا چاھئیے تھا کرنا ۔ لیکن بدقسمتی سے آپ یہ نہیں کرسکے اور ڈپٹی سکریٹری (ایڈمن) ایم او آئی ٹی کو ایک گول مول جواب دے کر اپنی خلاصی کرنے کی کوشش کی۔ اس سے قبل ، جنرل منیجر (پی ٹی ای ٹی) فاروق احمد ، نے 6 فروری 2020 کو ایم او آئی ٹی ٹی کو ایک ایسا ہی بے بنیاد اور من گھڑت جواب دیا تھا ، جس کی آپ تصدیق کر رہے ہو اور اپنے جواب کو اس کا ایڈیشن قرار دے رہے ھیں جو حیران کن بھی ہے۔ آپ ایک غیر معقول اور منحرف جواب ، ایکٹ 1996 اور عدالت کے فیصلے کو مسخ کرکے دے رھے ھیں اور جان بوجھ کر ڈپٹی سکریٹری (ایڈمن) ایم آئی ای ٹی کی آنکھوں میں دھول جھونک رھے ھیں اوربہت سے انسے اصل حقائق کو چھپانے کی کوشش کررھے ھیں، جو بہت پریشان کن ہے۔ ایک متاثرہ پی ٹی سی ایل پنشنر کی حیثیت سے ، مجھے آپ کے ڈپٹی سکریٹری (ایڈمن) ایم او آئی ٹی کے جواب کے بارے میں بہت سارے اعتراضات اور تحفظات ہیں . مجھے لگتا ہے کہ آپ نے ٹرسٹ کی جلد کو بچانے کی ناکام کوشش کی ہے۔ میرے اعتراضات اور تحفظات کی وجوہات درج ذیل ہیں:
1. آپ نے اپنے جواب کا ذکر کیا کہ ٹرسٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 3 مارچ 2020 کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلیں دائر کی ہیں ، لیکن اس چیز کا ذکر نہیں کیا کہ عدالت نے 3 مارچ 2020 کے آئی ایچ سی کے فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے کے لئے کوئی بھی ٹرسٹ کو حکم امتناعی جاری نہیں کیا۔ باوجود اسکے ان کے وکیل شاہد انور باجوہ نے عدالت سے حکم امتناعی کے لئے بار بار اپیلیں کیں اس کے برعکس ، معزز چیف جسٹس ، جناب اطہر من اللہ نے ان سے ، یعنی ٹرسٹ کے وکیل ، شاہد انور باجوہ سے پوچھا ، "جب ٹرسٹ نے بھی پہلے ہی اس طرح کے پٹیشنروں پنشن ادا کردی تھی ، تو ان پٹیشنروں پنشن انکریزز دینے میں کیا حرج ہے؟" اور جواب میں ، انکے وکیل نے بتایا کہ ٹرسٹ کو اس پر کچھ ریزرویشن ہے۔ ٹرسٹ آج تک 3 مارچ 2020 کے آئی ایچ سی کے حکم پر عمل درآمد نہیں کیا۔ اب زیادہ تر پٹیشنروں نے آپ اور بورڈ آف ٹرسٹی کے چیئرمین مظہر حسین کے خلاف توہین عدالت کے مقدمات دائر کردیئے ہیں۔
یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ان درخواست گزاروں کے حق میں عدالت کے فیصلوں میں ٹرسٹ کے کیا اعتراضات اور تحفظات تھے ، جن کی بنا پر انہوں نے ان کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلیں دائر کیں ھیں . ایسے درخواست دہندگان نے تو اپنی اپنی درخواستوں میں ، صرف سرکاری پنشن میں اضافے دینے کی مدعا کی تھی . جو یہ ٹرسٹ فروری 2018 میں ، پی ٹی سی ایل کے پینشنرس پٹیشنروں کو ، 15 فروری ، 2018 کے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق پہلے ھی ادا کرچکا ھے.
2. آپ نے اپنے جواب میں بتایا ہے کہ بورڈ آف ٹرسٹیز کو پی ٹی ایکٹ 1996 کی شق 46 (2) (a) کے تحت اور پی ٹی ای ٹی رولز 2012 تحت یہ کلی اختیار ھے کے پنشن میں سالانہ اضافے کی منظوری دے ۔ جو سرا سر غلط اور من گھڑتھے . حقیقت یہ ھے ٹی سی ایل پنشنرز کو سالانہ پنشن میں اضافہ دینے کا تعلق پی ٹی ایکٹ 1996 کے شق 46 (1) (d) سے ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ پی ٹی ای ٹی رولز 2012 ، جسکا زکر کیا ھے اموہ تو موجود ھی نہیں ، وہ تو پہلے عدالت ختم کر چکی ھے (جس کی تفصیل نیچے پیرا 3 میں دی گئی ہے)۔ پی ٹی ایکٹ 1996 کی شق 46 (2) (a) کا تعلق بورڈ آف ٹرسٹی کے خصوصی اختیارات کا تعلق صرف "پنشن" کے لئے نہیں بلکہ "پنشن فوائد" کے تعین کے معاملے کا ہے۔ "پنشن" میں اضافہ کرنے کا حق ، حکومت کا ھے جیسا کہ اسی پی ٹی ایکٹ 1996 کی شق 46 (1) (d) میں مذکور ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ٹیلی مواصلات کے ملازمین کو "پنشن" کی ادائیگی انکے حق کے مطابق ادئیگی کرنی ھے"۔ اور اس شق یعنی 46 (1) (d) کو معزز سپریم کورٹ نے 12 جون 2015 کے اپنے فیصلے کے پیراگراف 18 میں واضح طور پر بیان کیاگیا ہے۔ یہ فیصلہ 1996ایس سی ایم آر 1472 تحریر ھے . جسطرح کی تشریح آپ پی ٹی ایکٹ 1996 کی شق 46 (2) (a) کی کر رھے ھیں اگر اسطرح کی اسکی تشریح سپریم کوڑٹ کرتی تو ممکن تھا اسکا مورخہ 12 جون 2015 کے کا دیا ھوا فیصلہ پی ٹی سی ایل پنشنروں کے حق میں نہیں آتا ۔ بلکے عدالت نے اپنے فیصلے صاف طور لکھا ھے کے پی ٹی ای ٹی کا بوڑڈ آف ٹرسٹیز لازمی طور پر گورمنٹ کی ھی پنشن میں اعلان کردہ پنشن اضافہ دینے کی پابند ھے . تو یہ واضح کریں یہ بوڑڈ آف ٹرسٹیز کس قانون کے تحت ان پی ٹی سی سیل پنشنروں کی سالانہ اضافہ اپنی مرضی سے دے رھا ھے ۔ کیا انکا یہ اقدام توھین عدالت کے مترادف نھیں ھو رھا ھے؟
3. آپ نے بتایا ہے کہ بورڈ آف ٹرسٹیز کے ذریع طے شدہ سالانہ اضافے کی بنیاد پر تمام پنشنرز کو ماہانہ پنشن کی پی ٹی ای ٹی پنشن رولز ۔۲۰۱۲، جو وفاقی حکومت نے نوٹیفائیڈ کیا تھا ، اسکے زریعے بھی کی جارھی ھیں . یہاں آپ نے ایک بار پھر یہ حقیقت چھپائی اور غلط بیانی سے کام لیا ھے ۔ ان پی ٹی ای ٹی پنشن رولز 2012 کو تو معزز پشاور ہائیکورٹ نے 3 جولائی 2014 کے اپنے ، میں یوسف آفریدی اور دیگر کے ذریعہ دائر پٹیشن نمبر WP -2657/2012 کے فیصلے میں ختم کردیا تھا ، اور یہ حکم دیا تھا کہ اس طرح کے پی ٹی ای ٹی پنشن قواعد 2012 صرف ان کمپنی ملازمین پر لاگو ہوں گے ، جنھوں یکم جنوری 1996 کے بعد کمپنی میں شمولیت اختیار کی ھے . پی ٹی ای ٹی نے ، سپریم کوڑٹ میں CPs 1597 ، 1602 کے زریعے 2014 میں , اس فیصلے کے خلاف اپیلیں بھی داخل کیں جو معزز عدالت سپریم کوڑ ٹ نے اپنے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے فیصلے ڈسمس کردیں یہ 2015 ایس سی ایم آر 1472 میں رپورٹ شدہ ھیں ، اسکے خلاف انکی رویو پٹیشنیں بھی 17 مئی 2017کو مسترد کردی گئیں . ان پی ٹی ای ٹی رولز -2012 کو لاھور ھائی کوڑٹ نے بھی 4 مارچ 2016 کو مسترد کردیا تھا جیسا کہ پیرا جی (2) میں اپنی رپورٹ میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے بتایا ھے .
4. آپ کے بیان کے مطابق کہ پی ٹی ای ٹی نے سپریم کوڑٹ کے 12 جون 2012 کے حکم کی تعمیل کرکے اپنی ذمہ داری پوری کردی ہے ، پٹیشنروں کو گورنمٹ کی اعلان کردہ پنشن اضافہ جات دے کر ، حقیقت میں دیکھا جائیے پی ٹی ای ٹی نے جزوی طور پر اس کی تعمیل کی ھے۔ اگر آپ احتیاط سے مذکورہ آرڈر کو پڑھا جائیے اس میں عدالت نے تمام ایسے ملازمین پر عمل کرنے کو کہا ھے . دوسرا ، ٹرسٹ کو ، تمام نان پٹیشنروں پر بھی اس کا عمل کرنا چاھئیے تھا ، سپریم کوڑٹ کے متعین کردہ اصول اور قوانین کے مطابق جو اسنے حمید اختر نیازی کیس یعنی حمید اختر نیازی بنام سکریٹری اسٹیبلشمنٹ کے ، ایس ایس ایم آر 1185 " میں دیا ھے جس میں کہا گیا ھے ھے کے “ ایف ایس ٹی سی یا سپریم کورٹ کسی سرکاری ملازم ، جسنے مقدمہ کیا ھو ، اسکےحق میں آنے والے فیصلے کا فائدہ ان سرکاری ملازمین کو بھی پہینچایا جائیے گا جو ایسے مقدمے میں پاڑٹی نہیں تھا یا جنھوں نے مقدمہ ھی نھیں کیا تھا ، بجائیے انسے کہا جائے کے بھی اسکے لئے عدالت یا کسی متعلقہ فورم سے رجوع کریں “۔ .اور سپریم کوڑٹ نے "سید محمود اختر نقوی اور دیگر بمقابلہ بمقابلہ فیڈریشن آف پاکستان [ جو عام طور پر انیتا تراب علی کیس [پی ایل ڈی 2013 ایس سی 195] کے نام سے جانا جاتا ہے ] کے فیصلے میں اس معزز عدالت عظمی کے تین رکنی بینچ دیا کہ کے اس معزز عدالت نے کحمید اختر نیازی یعنی حمید اختر نیازی بمقابلہ سکریٹری اسٹیبلشمنٹ [1996 میں ایس سی ایم آر 1185 "] ، ایک قانون اور اصول وضح کردیا ھے اور اس پر عمل کرنا محکمہ جاتی ذمہ داروں پر پابند ہوگا جو ایسے ہی دوسرے مقدمات میں اس طرح کے قانونی اصول کا اطلاق کرنے کے پابند ہوں گے ، اس سے قطع نظر کہ کسی سرکاری ملازم نے اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی ہے یا نہیں۔ اگر ادارہ یا بیوروکریٹ اس قانونی اصول کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو ، آرٹیکل 204 (2) (a) کے تحت انکے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ھوگی ۔
آخر میں ، مجھے صرف اتنا کہنا ہے کہ ، چونکہ پی ٹی ای ٹی کا بورڈ آف ٹرسٹیز پی ٹی سی ایل پنشنرز کو بدسلوکی کررہا ہے اور ان کو ان کا مناسب حق نہیں دے رہا ہے اور اعلی عدالتوں ، سپریم کورٹ اور یہاں تک کہ ایوان بالا سینیٹ کے احکامات کو بھی نھیں مانتا ہے ، لہذا یہ صرف وزیر اعظم پاکستان اور معزز چیئرمین سینیٹ سے پی ٹی سی ایل پنشنرز کا مطالبہ ہے کہ اس ظالمانہ بورڈ آف ٹرسٹیز کو فوری طور پر تحلیل کیا جائے اور اس کے جابرانہ چیئرمین ، منیجنگ ڈائریکٹر اور جنرل منیجر کو فوری طور پر نوکری سے برخاست کردیا جائے۔ اور پنشن کی فراہمی کا کا معاملہ ، پی ٹی ایکٹ 1996 میں اسکے متعلق ، کلاز کو ترمیم کرکے، تحلیل بورڈ آف ٹرسٹیز کے تمام خصوصی اختیارات کے ساتھ اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکستان کو سونپ دی جائیں ہے۔ اور اگر ایسا کرنے میں کوئی قانونی پیچیدگی پیدا ہو رہی ھوں، تو اس کے بجائے ایک آزاد ادارہ کنٹرولر آف ملٹری اکاؤنٹس پنشن کے طرز پر تشکیل دیا جائیے اور تحلیل بورڈ آف ٹرسٹیز کے تمام ختیارات اسکو سونپ دئیے جائیں
آپ کا مخلص
(محمد طارق اظہر)
پی ٹی سی ایل پنشنر اور اہم درخواست گزار [آئی ایچ سی میں کیس WP-4588/2018]
تمام پی ٹی سی ایل پنشنرز کی جانب سے
کاپی برائیے ضروری کاروائی:-
سکریٹری (ایم او آئی ٹی)
وزارت انفارمیشن ٹکنالوجی اور ٹیلی کام
اسلام آباد۔
Comments