Special Article [ Regarding HSCP opinion under Article -186 on President)s questioners in regarding disqualification per mentally under Article 63-A]
اسپیشل آڑٹیکل
آئین کے آڑٹیکل 186 کے تحت صدارتی ریفرنس پر سپریم کوڑٹ کی رائیے کا معاملہ
عزیز ساتھیو
اسلام وعلیکم
یہ بات سب کو اچھی طرح معلوم ھونی چاھئیے کے سپریم کوڑٹ کا حالیہ منحرف ارکان لے ووٹ کو شمار نہ کرنے کا فیصلہ انکی کوئی ڈائیریکشن نھیں بلکے یہ صرف انکی رائیے ھے۔ اور حکومت انکی اس رائیے پر عمل کرنے پر کوئی پابند نہیں ھے ۔ یعنی حکومت کی مرضی ھے اس ہر عمل کرے یا نہ کرے۔ سپریم کوڑٹ کو یہ رائیے دینے کا اختیار اسکو مشاورتی اختیار (advisory jurisdiction) کے تحت آئین کے آڑٹیکل 186 کے تحت حاصل ھے ۔ جبکے کوئی حکم یا ڈائیریکشن دینے کا اختیار اسکو اپنے ابتدائی سماعت اختیار ( original jurisdiction) کے تحت حاصل ھے جس پر عمل کرنا لازمی ھوتا ھے۔ یہ اختیار اسکو آئین کے آڑٹیکل 184 کے تحت حاصل ھے۔
زیر زکر ریفرنس ، صدر پاکستان نے عدالت عظمی کے اس مشاورتی سماعت ( advisory jurisdiction ) میں اسکے اختیارات آئین آڑٹیکل (1)186 کو بروئیے کار لاتے ھوئیے جو مارچ 22 میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کے بعد سپریم کورٹ کو بھیجا تھا۔ اور مندرجہ زیل سوال اٹھائیے تھے
1. کیا منحرف ارکان پارلیمنٹ کو ووٹ ڈالنے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟
۲. کیا منحرف ارکان پارلیمنٹ کے ووٹ کو مساوی وزن دیا جائے گا؟
۳. کیا منحرف ارکان اسمبلی تاحیات نااہل ہو سکتے ہیں؟
۴. ووٹوں کی خرید و فروخت کو روکنے کے لیے دیگر اقدامات کیا جا سکتے ہیں؟
سپریم کوڑٹ کے پانچ رکنی بینچ نے ریفرنس میں اٹھائے گئے پہلے اور دوسرے سوالات کے اپنے اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ منحرف ارکان پارلیمنٹ کے ووٹوں کا شمار نہیں ھونا چاھئیے اور تیسرے سوال پر بغیر کوئی غور کئے ھوئیے واپس بھیج دیا کے ایسے منحرف رکن کینااہلی مدت کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی ۔ارکان کی نااہلی سے متعلق تیسرے سوال کا یہ جواب دیتے ھوئیے سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے منحرف ارکان اسمبلی کو مستقل طور پر ناہل ھونے سے بچا لیا۔
سپریم کوڑٹ نے جو یہ رائیے دی کہ منحرف ارکان پارلیمنٹ کے ووٹوں کا شمار نہیں ھونا چاھئیے وہ آئین کی شق 63A میں میں تبدیلی کے مترادف ھے۔ جو اسکے دائیرہ اختیار میں نہیں آتا ۔یہ سمجھنے کے لئیے کے یہ عدالت کی رائیے ھے یا ڈائیریکشن ۔ ھمیں اسکا جائزہ لینا ھوگا کے اسنے اس میں کیا لکھا گیا ھےھے۔ عدالت نے اس ریفرنس کے جواب میں اپنے جواب کے پیرا نمبر ۳ میں لکھا ھے ( اسکی ھائی لائیٹڈ کاپی زیر پیسٹ ھے ) :-
“ھم دوسرے سوال کی طرف آتے ھیں پہلے سوال کے جواب کو اپنے زھین میں رکھتے ھوئیے کے ھمارے خیال میں اگر کوئی پاڑٹی ممبر ( جو رکن اسمبلی ھو) اپنی پارلیمانی پاڑٹی کی ھدایت کے برخلاف ووٹ دے جو اسکو آڑٹیکل 63 اے کی سب کلاز 1 کے پیرا بی کے تحت دی گئی ھوں تو اسکا ووٹ شمار نھیں کیا جاسکتا اور اسکو نظر انداز کرنا چاھئیے اس بات سے قطع نظر کے پاڑٹی سربراہ اسکے ووٹ ڈالنے کے بعد اسکے خلاف کاروائی کرکے منحرف قرار دیا جائیے”
تو یہاں آپ نے دیکھا کے معزز تین ججوں نے شروع میں یہ لکھا کے “ھمارے خیال میں. . . . اور آخر میں لکھا “اسکا ووٹ شمار نھیں کیا جاسکتا اور اسکو نظر انداز کرنا چاھئیے”۔ تو اس سے یہ صاف ظاھر ھے کے یہ انکی رائیے (opinion) یعنی ایک تجویز (suggestion ) ھے ۔ اب حکومت کا یہ استحقاق ھے کے وہ انکی اسکی اس تجویز پر عمل کرے یا نہ کرے۔ تو جو لوگ یہ بار بار یہ بات کررھے ھیں کے یہ سپریم کوڑٹ کا حکم ھے کے منحرف ارکان کا ووٹ شمار نھیں ھوگا بلکل غلط ھے ۔ ایسے ووٹ کو شمار نہ کرنے کے عدالتی مشورے پر عمل کرنے کی صورت میں حکومت کو پہلے آئین کی اس آڑٹیکل 63 اے میں ترمیم کرنی پڑے گی [ آئینی ترمیم پارلیمنٹ کی دو تہائی ممبرز کی منظوری سے ھوتی ھے ۔ جو فی الحال اس موجودہ حکومت کے پاس نھیں ھے ] جسمیں یہ سب کچھ کرنے کے لئیے اسکا میکینزم بھی بتانا ھو گا کے ایسی ووٹنگ ھونے کی صورت میں پریزائیڈنگ آفیسر کیسے اور کسطرح یہ اعلان کرے گا کے کس کس منحرف ممبر کے ووٹ مسترد کئیے جاتے ھیں ۔ جبکے آڑٹیکل 63 اے کی سب کلاز 1 کے پیرا بی یہ کہتی ھے کے ایسا رکن اسمبلی اسوقت منحرف قرار دیا جائیگا اور اسکو ڈی سیٹ کردیا جائیے گا [ یعنی اسکی اسمبلی کی سیٹ خالی قرار دے دی جائیگی ] جب وہ اپنی پاڑٹی کی ڈائیریکشن کے خلاف ووٹ دے گا یا وہ ووٹ ڈالنے کے وقت غیر حاضر ھو گا [اسی آڑٹیکل 63 اے میں اسکو ڈی سیٹ کرنے کا میکینیزم بھی دیا گیا ھے کے اسے کیسے ڈی سیٹ کیا جائگا] اب سوچنے کی بات ھی کون بے وقوف ھوگا جو یہ چاھے گا کے اس کا ووٹ بھی شمار نہ ھو اور اسکو منحرف بھی قرار دے کر ڈی سیٹ کردیا جائیے ؟۔
ایک دوسری بات اگر یہ آئینی ترمیم ھوجاتی ھے تو اسکا اطلاق مستقبل سے ھو گا نہ کے ماضی میں کسی ایسے اقدام سے نہیں ھوگا۔ ماضی سے اسکا اقدام تو ویسے ھی ٹیکنیکلی نا ممکن ھے .
اگر آپ لوگوں کسی کو اسکے بارے میں اور کوئی وضاحت چاھئیے ھے تو مجھ سے کمنٹ میں لکھ کر پوچھ سکتے ھیں۔شکریہ
واسلام
محمد طارق اظہر
۲۳ مئی ۲۰۲۲
Comments