A great tribute to my dearest father-in -law late Khter Zaman khan
آہ میرے پیارے ابا میاں!!!
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ھوگئیں
خاک میں کیا ھوں گی صورتیں ، جو پنہاں ھوگئیں
خراج عقیدت !!!
دل کی گہرائیوں سے خراج عقیدت اپنے عظیم سسر اختر زمان خان ، ایک جلیل القدر بزرگ ھستی کو ،جن کو ھم سب ابا میں کہتے تھے ، انکی آج یعنی ۱۹ اپریل ۲۰۲۳ کو ۱۵ویں برسی ھے- اللہ تعالی انکو غریق رحمت کرے اور اپنی جوار رحمت میں جگہ دے-آمین!
میں اپنے آپ کو اس لحاظ سے بیحد خوش قسمت تصور کرتا ھوں اور فخر بھی کرتا ھوں کے میں ایسے بزرگ ھستی کی فرزندی میں تھا جن کو ھمیشہ اللہ تعلٰی کی عبادت میں مصروف پایا۔ وہ ایک بہت پہنچے ھوئیے بزرگ تھے لیکن یہ بات ھر کسی کو آشکارا نہ تھی۔اگرچہ ابا میاں بلکل بھی پیری مریدی کے قائیل نہ تھے۔ جو بھی اپنی کوئی پریشانی لے کر ان کے پاس حاظر ںھوتا تو وہ صرف اسکو پڑھنے کے لئیے بتاتے کے اسکو کیا پڑھنا چاھئیے تاکے اسکی پریشانی ختم ھو۔ نماز باقاعدہ پڑھنے کی سختی سے تاکید کرتے اور درود شریف کا ورد مسلسل جاری رکھنے کے لئیے کہتے۔ انکا کہنا تھا درود شریف پڑھنے اور اسکے وسیلے سے دعا مانگنے سے اللہ تعلٰی انسان کے مصائیب اور مشکلات ختم کر دیتا ھے کے وہ کس قدر پہنچے ھوئیے بزرگ تھے اسکا اندازہ آپ اس بات سے کرسکتے ھیں،یہ کافی عرصے کی بات ھے ، سویڈن میں مستقل مقیم ایک پاکستانی کو کو بڑی سخت پریشانی لاحق ھوئی اور وہ اسکو دور کرنے کے لئیے اللہ تعلٰی سے دعا کرتا رھا۔ ایک رات اسکو ایک بزرگ ھستی کا دیدار ھوا اور یہ بشارت ملی کے اس شخص سے جاکر ملو جو راولپنڈی پاکستان میں رھتا ھے۔ تو وہ پاکستانی راولپنڈی آتا ھے اور ھر مسجد میں جاکر انکی تلاش شروع کردیتا ھے ۔ تلاش کرتے کرتے وہ مسجد شریف آباد سٹیلائیٹ ٹاؤن راولپنڈی پہنچ جاتا ھے اور وھاں مسجد کے امام سے اس جیسے حلئیے کے شخض کے بارے میں معلوم کرتا ھے ۔ مسجد کے امام وہ حلیہ سن کر اندازہ لگا کر اسکو بتاتے ھیں کے اس حلئیہ کے بزرگ شخص اسی شریف آباد کی مسجد میں روزانہ پانچوں وقت کی نماز پڑھنے آتے ھیں۔ تم انتظار کرو وہ اب ظہر کی نماز پڑھنے آتے ھوئیے اور جیسے وہ بزرگ شخض تشریف لاتے ھیں وہ انکو پہنچان لیتا ھے کے یہ تو وھی بزرگ ھیں جن کو اس نے خواب میں دیکھا تھا ۔ وہ بزرگ ھستی ھمارے یہ ابا میاں تھے۔ وہ پاکستانی انکی قدم بوسی کرتا ھے اور اپنی پریشانی بیان کرتا ھے۔ ابا میاں اسکو کچھ پڑھنے کے لئیے بتاتے ھیں اور اس شخض کی بعد میں پریشانیاں دور ھوجاتی ھیں اور وہ پاکستانی سویڈن چھوڑ کر مستقل پاکستان آجاتا ھے اور ابا میاں کی صحبت میں آجاتا ھے اور انکے ھاتھ بیعت کر لیتا ھے۔ وہ ابا میاں کے مرید ، آجکل اب اسلام آباد میں رھتے ھیں دوکان وغیرہ کر لی ھے۔ ابا میاں میرے والد مرحوم کے بہت گہرے دوست تھے جس ملٹری اکاؤنٹ ڈیپاڑٹمنٹ میں انڈیا میں ابا میاں ملازم تھے وھیں پر میرے والد بھی ملازم تھے ۔ دونوں نے پاکستان کو آپٹ کیا تھا اور دونوں ھی بحری جہاز میں بمبئی سے کراچی 1948 میں آئیے تھے۔ پھر دونوں کا وہاں سے کوئٹہ تبادلہ کردیا گیا تھا۔ میرے والد بتاتے تھے کے انھوں نے اپنی زندگی میں ، جوانی میں اس قدر عبادت گزار آدمی نھیں دیکھا جو پانچوں وقت کی نماز مسجد میں ھمیشہ پڑھتا ھو اور تہجد گزار ھو۔ والد صاحب فرماتے تھے کے ابا میاں کوئیٹہ کی سخت سردی اور برف باری میں بھی فجر کی پانچوں وقت کی نمازیں مسجد میں پڑھنے جایا کرتے تھے۔ سخت سردی جب یہ فجر کی نماز پڑھکر آتے تھے تو انکی کالی داڑھی بلکل ٹھنڈ سے اکڑی ھوئی ھوتی تھی ۔ ابا میاں کی فیملی بزریعہ ٹرین لاھور پاکستان آئیے تھے۔ اس ٹرین پر ھندوں بلوائیوں نے حملہ کردیا تھا کافی مسلمانوں کو شھید کردیا تھا ۔ اس میں ابا میاں کا بڑا بیٹا جسکی عمر اس وقت سات سال تھی شھید ھوگیا اور چھوٹی بیٹی بھی۔ والد صاحب نے بتایا تھا کے ابا میاں نے یہ بات کسی کو وھاں اسوقت نہیں بتائی تھی لیکن والد صاحب اور انکے کچھ دوستوں کو کسی طرح سے معلوم ھی ھوگئی۔ وہ لوگ جب ابا میاں کے پاس تعزیت کرنے گئیے تو صرف انھوں نے اتنا کہا جو اللہ کی مرضی۔ جس وقت اپریل 1977 میری والدہ مرحومہ ,کسی کے بتانے پر ابا میاں کے گھر میری شادی کے لئیے لڑکی دیکھنے گئیں تو انکو یہ بات بلکل بھی معلوم نہیں تھی کے ابا میاں میرے والد کے دیرینہ دوست ھیں۔ وہ تو جب لڑکی پسند کرکے آئیں اور والد صاحب کو بتایا تو وہ چونک پڑے "ارے یہ تو میرے دیرینہ دوست اختر زمان خان صاحب ھیں"۔ ابا میاں کا تو ایک سال کے بعد ھی تبادلہ کراچی ھوگیا تھا ۔ اور میرے والد صاحب وھیں کوئیٹہ میں رھے اور انکا تبادلہ اکتوبر 1958 میں ، انکی ایما پر پشاور کردیا گیا تھا۔ پھر ھم لوگ پشاور ھی میں رھے اور والد صاحب 1983 میں وھا سے ریٹائیڑڈ ھوکر کراچی آگئیے تھے۔
ابا میاں زولفقار علی بھٹو کو بیحد پسند کرتے تھے اور انکو ضیاالحق سے سخت نفرت تھی۔ وہ اسلئیے بھٹو دور میں ، 1974 میں انکو ریٹائیڑمنٹ پر دوبارا ملٹری اکاؤنٹ راولپنڈی میں ملازم کنٹریکٹ پر رکھ لیا گیا تھا۔ اور ضیا کے آتے ھی انکو فارغ کردیا گیا تھا۔ دوبارہ رکھنے کی وجہ ابا میاں کا نہایت شاندار آفس ریکاڑڈ تھا۔ انھوں نے علیگڑھ یونیورسٹی سے ایم اے انگلش میں کیا تھا۔زولفقار علی بھٹو کی پھانسی پر ابا میاں کو بہت صدمہ ھوا تھا۔ اور انھوں نے اخبار پڑھنا چھوڑ دیا تھا۔ انھوں نے تو لیاقت علی کی شہادت کے بعد بھی اخبار پڑھنا بلکل چھوڑ دیا تھا اور ذوالفقار بھٹو کے آنے پر پڑھنا شروع کیا۔ اور دوبارا پھر بے نظیر بھٹو کے آنے پر شروع کیا تھا۔وہ بہت ھی بے نظیر بھٹو کی تعریف کرتے تھے کے بہت بہادر لڑکی ھے۔ جس وقت 27 دسمبر 2007 بے نظیر بھٹو کی شہادت ھوئی اس وقت یہ شدید علیل تھے۔ ھم نے انکو بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بارے میں بلکل بھی نہیں بتایا تھا کے سن کر انکی طبیعت مزید خراب نہ ھو جائیے۔ آپ یقین جانئیے کے بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد کئی ھفتے تک ھر صبح سو کر اٹھ کر وہ یہ ھی بات ھمیشہ کہتے تھے کے " نہ جانے یہ کون لڑکی ھے جو مجھے بار بار آکر کہتی ھے کے مجھے میرے بچوں کے باپ نے مروادیا"۔ ابا میاں کو بعض باتوں کا پہلے سے علم ھوجاتا تھا۔ 16 فروری 2007 کو مجھے برین ھیمرج ھوا اور مجھے ایمرجنسی میں لیاقت نیشنل ھسپتال کراچی لے جایا گیا اور 17 فروری 2007 کی صبح ایمرجنسی میں میرے دماغ کا آپریشن ھونا تھا [ میرے اس اچانک ایمر جنسی والے آپریشن پر کراچی میں پی ٹی سی ایل کا عملہ امنڈ ، کیا میرے دوست احباب اور پی ٹی سی ایل کے سارے دوست سب ھی پریشان ھو گئیے تھے اور دُعاؤں میں لگ گئیے تھے ۔ انھیں کی دوعاؤں کی بدولت اللہ نے مجھے نئی زندگی عطا فرمائی . میں اپنے ان ھمدرد دوستوں کا بیحد مشکور ھوں اور اللہ کا کا شکر ادا کرتا ھوں۔ مجھے اس بات کا علم بلکل نہیں تھا کے کتنے صبح سے شام میری عیادت کے لئے آتے رھے ]۔ میرے سارے خاندان والے لوگ بیحد پریشان تھے اور پی ٹی سی ایل کالونی والے بھی ۔ اور رات ھی سے آئیت کریمہ کا ختم شروع کریا گیا تھا ۔ ابا میاں کو میرے اس آپریشن کا بلکل بھی نھیں بتایا گیا تھا۔ جس صبح میرا آپریشن ھونا تھا اسی دن صبح کو اٹھتے ھی انھوں نے کہا کے طارق کی خیریت معلوم کرو۔ پھر جب میرا آپریشن ھوگیا۔اور دوسرے دن صبح اٹھتے ھی انھوں نے کہا کے جنگ اخبار میں خبر آئی ھے کے طارق کا آپریشن کامیاب ھوگیا ھے۔
ابا میاں کو، لگتا ھے اپنی موت کا اور وقت کا پہلے سے علم ھوگیا تھا۔ موت سے ایک مہینے پہلے وہ یہ ھی بات کہا کرتے تھے ۔ " میرا پاسپورٹ بن گیا ھے اور ویزا بھی آگیا ھے ھے اب میں بہت جلد جانے والا ھوں اور موت سے ایک ھفتے پہلے رات کو صرف یہ ھی بار بار پکارا کرتے تھے کے پونے گیارہ بج گئیے یا نھیں - - - اور پھر , ھم سب نے دیکھا کے 19 اپریل 2008 کو ٹھیک رات پونے گیارہ بجے انھوں نے داعی عجل کو لبیک کہا انا للّٰہ وانا علیہ راجعون- انکو 20 اپریل 2008 کو نماز ظہر کے بعد گڑھی شریف اٹک میں، انکے آبائی قبرستان میں دفن کیا گیا۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے�سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
تمام فیس بک فرینڈز اور احباب و رشتہ دار سے التماس ہے میرے ابا میاں کے لئے مغفرت اور فاتحہ اور درودِ پاک پڑھیں اور ایصال ثواب فرمائین۔بیحد مشکور ھونگا . شکریہ
نیازمند
محمد طارق اظہر
راولپنڈی
۱۹اپریل ۲۰۲۳
بروز بدھ
-- Sent from Rawalpindi Pakistan via iPad
Comments