Regarding filing refrence against HCJ Atta Bendyal in JC

Attention          Attention               Attention

محترم  چیف جسٹس عطا بندیال کے خلاف ریفرنس دائیر کرنے کا معاملا. . . . وہ آئین پاکستان کی شق (a)(5)209 کے مطابق gulity of Misconduct کے مرتکب ھوئیے  ھیں جن کے خلاف کسی بھی source  سے یا صدر پاکستان کی طرف سے اسی آئین پاکستان کی شق (5)209 کے تحت جوڈیژنل کونسل کو ریفرنس بھیجا جا سکتا ھے جو انکے خلاف آئین پاکستان کی شق (6)209 کے تحت تادیبی کروائی کرکے انکو نوکری سے برطرف کرنے کی سفارش صدر پاکستان کو کرسکتا ھے اور صدر پاکستان انکو نوکری سے نکال سکتے ھیں 

عزیز دوستو 
اسلام و علیکم 
 جیسا کے آپ سب جانتے ھیں کے ھمارے ملک میں ایک عدالتی بحران آیا ھوا ھے ۔ چیف جسٹس پاکستان نے اپنی ھمدردی پی ٹی آئی کی طرف مائیل کرتے ایک ایسا اقدام کردیا ھے جس سے وہ بادئی انظر میں  guilty  of Misconduct کے مرتکب ھوئیے ھیں اب انکو اس منصب سے ھٹانے کے  جوڈیشنل کونسل  میں  ریفرنس آئین کے آڑٹیکل (5)209 کے تحت دائیر  کرنا نہ صرف صدر  پاکستان اور حکومت کا فرض ھے بلکے پاکستانی عوام کا  کوئی فرد  یا افراد بھی ایسا ریفرنس دائیر کرسکتا ھے ۔ تو میں نے فیصلہ کیا ھے کے میں بھی اسطرح کا ریفرنس ایڈوکیٹ منصف اعوان ،  چئیر میں جسٹس پاڑٹی جو یو ٹیوب ہر چلنے والے قانونی ٹی  وی کے سربرا ہ ھیں ، کی وساطت سے یہ ریفرنس دائیر کروں کیونکے انھوں نے ھی یہ پاکستانی عوام سے آفر کی ھے کے وہ اور انکے ساتھی ۱۰۰ وکلاء تو  ریفرنس دائیر ھی کررھے ھیں اور لوگ بھی سامنے آئیں وہ بھی یہ ریفرنس داخل کریں  تاکے زیادہ سے زیادہ لوگ چیف جسٹس آف پاکستان کو نوکری سے ھٹانے کے لئیے ریفرنسس داخل کرسکیں ۔ایڈوکیٹ منصف اعوان اور انکے ساتھ اور وکلاء کی ٹیم جوڈیشنل کونسل میں عوام کی طرف سے دائیر کردہ ریفرنس کی مد میں کوئی فیس نھیں لیں گے صرف عدالتی اخراجات اور کیسسز تیار کرنے کی فیس لیں گے جو دس ھزار  روپے ھوگی ، دینا ھوں گے۔ اس سے پہلے میں اس کا طریقہ کار بتاؤں  ، میں وہ تمام تفصیل  بتانا چاھوں گا کے چیف جسٹس آف پاکستان کیونکر اس مسکنڈکٹ کے مرتکب ھوئیے ھیں 
جیسا کے آپ سب جانتے ھیں عمران خان  کی حکومت کا ۹ اپریل ۲۰۲۲ کو پی ڈی ایم نے عدم اعتماد کے زریعے خاتمہ کیا ۔ جس سے عمران خان اور پاڑٹی پی ٹی آئی کو سخت دھچکہ لگا اور اسنے ٹھان لیی کے وہ کسی نہ کسی طرح اس پی ڈی ایم کی حکومٹ کا  خاتمہ کریگا اور انسے جلد الیکشن کراکر دوبارہ واپس آئیے گا  تو اسنے سب سے پہلے 25 مئی 2022 پچاس لاکھ افراد کے ساتھ ریلی نکال کر اسلام آباد پر دھاوا بولنے اور  ڈی چوک میں دھرنا دینے کا اعلان کیا ۔ اور جب اسکی ریلی پشاور سے روانہ ھوئی ھوئی ، جس میں چند ھزار ھی لوگ تھے تو حکومت نے اسلام آباد کو مکمل سیل کردیا ۔پی ٹی آئی والوں نے سپریم کوڑٹ میں راستے کھلوانے کے لئیے اپیل کی ،جو اسوقت انھی چیف جسٹس  عطا بندیال کی سربراھی  میں تین رکنی بینچ جسکے دوسرے دو ججز جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر تھے ( چیف جسٹس  عطا بندیال سمیت یہ دونوں ججز بھی عمران خان اور اسکی پاڑٹی بیحد ھمنوا جانے جاتے ھیں )۔ چیف جسٹس  صاحب نے تمام راستے کھولنے کا حکم دیا اور عمران خان کو حکم دیا کے وہ بجائیےڈی چوک  آنے کے ایف ون پارک میں جلسہ کریں  یہ پیغام عمران تک پہنچ گیا تھا اسنے اپنی تقریر میں صرف یہ زکر کیا کے سپریم کوڑٹ نےراستے کھلوادئیے ھیں مگر لوگوں بجائیے ایف ون پارک  جانے کے ڈی چوک جانے کا کہا اسے لوگ ڈی چوک کی طرف آنے لگے  جس کی بنا پولیس سے مڈبھیر ھوگئیے تو لوگ پتھراؤ پر اترآئیے انھوں نے وھاں میٹروبس اسٹینڈ اور دیگر چیزوں کی توڑ پھوڑ کی ۔ حکومت نے عمران اور انکے ساتھیوں کے خلاف  توھین عدالت کا کیس  دائر کردیا مگر ان چیف جسٹس صاحب  نے عمران کے خلاف توھین عدالت کا یہ کہہ کر خارج کردیا کے ھوسکتا ھے کے عمران تک ڈی چوک نہ جانے کا عدالتی حکم پہنچا ھی نہ ھو اور جب انکی توجہ اسطرف مبزول کرائی  کے انکی پاڑٹی کے لوگوں نے ڈی چوک پر توڑ پھوڑ کی اور درختوں میں آگ لگادی گئی تو انھی موصوف چیف جسٹس صاحب نے فرمایا ھوسکتا ھو آگ اسلئیے لگائی گئی ھو  کے آنسو گیس کا اثر زائیل ھو جائیے۔ مطلب یہ ھوا انکی اور اس بینچ  کے دوسرے  ججوں پوری کی پوری ھمدردیاں پی ٹی آئی کے ساتھ ھی رھیں۔ اسی بینچ نے آئین کی شق A-63 میں تبدیلی کردی اور پاڑٹی سربراہ کے ھدایت کے برعکس ووٹ ڈالنے والوں کے ووٹ کو کاؤنٹ نہ کرنے کا حکم دیا. جب ڈپٹی اسپیکر پنجاب ( نام زھین میں نھیں آرھا) نے وزیر اعلے پنجاب حمزہ شہباز اور پرویز الہی کے وزیر اعلی پنجاب کے الیکشن میں پاڑٹی لیڈر شجاعت کے اس حکم کے برخلاف کے پرویز الاھی کو ووٹ نہ دیا جائیے، مگر ان ۱۰ ق لیگ کے لوگوں نے پرویز الہی کوووٹ دئیے، تو ڈپٹی اسپیکر نے انکے ووٹ کاؤنٹ نھیں کئیے اور حمزہ شہباز کو  کامیاب قرار دے دیا تو پھر اسی چیف جسٹس اور اسکے دو  انھی ساتھی ججز  نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ یہ کہہ کر مسترد کردی پاڑٹی لیڈر شجاعت علی صاحب کا حکم قابل عمل نھیں بلکے ایسا عمل اگر اسمبلی میں اس پاڑٹی کا پارلیمانی لیڈر دیتا وہ قابل عمل ھوتا۔ اور اسطرح اسی سپریم کوڑٹ کے بینچ نے ، جسکا 100% جھکاؤ پی ٹی آئی کی طرف تھا حمزہ شہباز کی پنجاب میں حکومت گرادی اور پرویز الہی جسکو پی ٹی آئی کی مکمل حمایت حاصل تھی وزیر اعلے بنادیا۔ عمران خان اپنی مختلف چالیں چلتا رھا کے کسی طرح حکومت گرجائیے اور انتخابات ھو جائیں اور یہ وزیر اعظم بن جائیے۔ اسکو یہ زوم  پیداھوگیا تھا کے وہ بھت  ھی مقبول ھوگیا ھے اور اب لوگ اسکو اور اسکی پاڑٹی کو ووٹ دینگے۔ اسیلئیے اسنے جنوری 2023  اپنی دونوں حکومتیں پنجاب اور کے پی کے کی گرادیں تاکے فیڈرل گورمنٹ پریشر میں قومی اسمبلی کو ختم کرکے تمام اسمبلیوں  کے ساتھ انتخابات کرا دے مگر یہ نہ ھوسکا . پنجاب کے وزیر اعلی چودھری پرویز الہی نے بادل ناخواسطہ گورنر پنجاب اسمبلی توڑنے کا خط بھیج دیا ۔ اگر گورنر پنجاب 48 گھنٹے تک اسکی منظوری نہ دیتے تو پنجاب اسمبلی خود بخود ٹوٹ جاتی مگر گورنر پنجاب نے اسکی منظوری نھیں دی اور 48 گھنٹے میں پنجاب اسمبلی ٹوٹ گئی مگر گورنر پنجاب نے اسمبلی ٹو ٹنے کے  نوے (۹۰) اندر کرانے کی تاریخ الیکشن کمیشن کو دینے سے یہ کہکر انکار کردیا چونکے میں نے اسمبلی توڑنے کی منظوری نھیں دی لحاظہ آئین کی کلاز (3)105 کے تحت الیکشن دینے کا پابند نھیں  ۔ اور انھوں الیکشن کمیشن کو کوئی ڈیٹ نہیں دی وقت گزرتا گیا فروری ۲۰۲۳ کا مھینہ آگیا ۔ پی ٹی آئی نے لاھور ھائی کوڑٹ میں کیس کردیا کے عدالت گورنر پنجاب کو نوے دن کے اندر الیکشن کرانے کی ڈیٹ دے۔سنگل بینچ لاھور نے پی ٹی آئی والوں کی استدعا منظور کرتے ھوئیے الیکشن کمیشن کو گورنر پنجاب سے مشورہ کرکے ڈیٹ لینے کا حکم دیا گورنر پنجاب نے اس سنگل بینچ کے فیصلے کے خلاف انٹرا کوڑٹ اپیل کردی جو جب زیر سماعت تھی تو سپریم کوڑٹ کے دو ججوں کے بینچ یعنی  جسٹس اعجازالحسن اور  جسٹس  مظاھر نقوی  جو سی پی او ڈوگر کی اس اپیل کی سماعت کررھا تھا جو اسنے پنجاب گورمنٹ پنجاب  سے فیڈرل گورمنٹ میں تبادلے کے خلاف کی تھی ۔یہ دو ججز جنکا جھکاؤ ھمیشہ سے پی ٹی آئی کی طرف رھتا ھے ، انکو پتہ نھیں کیا سوجھی انھوں نے  الیکشنر کمیشن کو دوران سماعت فورن طلب کرکے استسفار کیا کے کیا وجہ ھے الکیشن کی ڈیٹ نھیں دی جارھی ھے الیکشن کمیشن نے بتا دیا کے نہ تو گورنر پنجاب  الیکشن کرانے کی ڈیٹ  دے رھے ھیں اور نہ گورنر کے پی. جنکی زمہ داری ھے . انھوں نے عدالت کو یہ بھی بتایا کے صدر پاکستان نے پنجاب اور کے پی میں 30 اپریل کی تاریخیں ھیں جو غیر قانونی ھیں کیونکے صدر پاکستان کو  قانونی طور صوبوں نوے دن کے اندر  الیکشن کرانے کے لئے کوئی اختیار نھیں۔ ان دو ججوں جنکا جھکاؤ پی ٹی آئی کے طرف رہتا ھے انھوں نے فورن چیف جسٹس عطا بندیال کو ایک نوٹ بھیجا کے وہ کے پی کے اور پنجاب میں نوے اندر الیکشن کرانے کے لئیے آئین کے آڑٹیکل (3)184 سویو موٹو ایکشن لیں جو انکا اختیار ھے۔ چیف جسٹس  عطا بند یال  فورن اپنے ھم خیال ججز کی بات مانتے ھوئیے ایکشن لے لیا اور نوٹس دے اپنے ھم خیال ججز کا بینچ بنا کر الیکشن کمیشن کو آڑڈر پاس کردیا کے وہ پرزیڈنٹ آف پاکستان سے مشورے سے الیکشن ڈیٹ اناؤنس کرے اور انھوں نے پرزیڈنٹ آف پاکستان کی  کے پی کے لئیے ڈیٹ جو مسترد کردیا اور الیکشن کمیشن کو یہ حکم دیا کے وہ گورنر کے پی کے سے مشورہ لیکر ڈیٹ مقرر کرے۔ الیکشن کمیشن نے صدر پاکستان سے مشورہ لیا تو انھوں نے پنجاب میں الیکشن کی ڈیٹ 30 اپریل 2023 دے دی . الیکشن کمیشن نے اس ڈٹ ہر الیکشن کرانے کی تیاری شروع کردی اور گورمنٹ سے الیکشن کرانے کے لئے ۲۱ ارب روپے کے فنڈ طلب کرلئیے اور منسٹری آف ڈیفینس سے فوج اور دیگر سکیوریٹی طلب کرلئیے۔ حکومت نے اتنے فنڈز دینے سے انکار جردیا اور منسٹری آف ڈیفنس نے فوج دینے سے اسوجہ سے انکار کردیا کے فوج اسوقت دہشت گردی  نبردازما ھے اور مردم شماری میں بھی اسکے لاکھوں  فوجی سول انتظامیہ کی مدد کررھے ھیں اسلئیے اتنے لاکھوں فوجی  پنجاب کے الیکش کرانے کے لئی مہئیا نھیں کئیے جاسکتے۔ الیکشن کمیشن نے اسوجہ سے 22 مارچ  2023 ان پنجاب کے الیکشن  کا ۳۰ اپریل کو کرانے کا شیڈول منسوخ کردیا اور نئی ڈیٹ 8 اکتوبر 2023 رکھ دی ۔ پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے خلاف  سپریم کوڑٹ میں الیکشن کمیشن کے خلاف توھین عدالت کا کیس دائیر کردیا چیف جسٹس عطا بندیال صاحب نے اس کیس کے سننے کے لئیے فورن ۹ رکنی بینچ بنا ڈالا اور اسمیں وہ دوجج یعنی جسٹس اعجازالحسن اور جسٹس مظاھر نقوی بھی شامل کردئیے جنھوں نے چیف جسٹس صاحب کو سویو موٹو لینے کو کہا تھا ۔ ان پر اعتراض ھوگیا کے جو لوگ پہلے الیکشن ھونے کے حق میں اپنا زھین بنا چکے ھیں . تو ان دونوں ججوں نے اپنے آپ کو علیحدہ کر لیا۔ اب سات رکنی بینچ رہ گیا اس میں سے چار ججوں  یعنی جسٹس یحیی آفریدی ، جسٹس جمال مندوخیل ،جسٹس منصور علیشاہ  اور جسٹس اطہر من اللہ نے اپنی یہ رائے دے دی کے آئین کے آڑٹیکل (3)184 کے تحت سویو موٹو تحت اٹھانے والا یہ کیس نا قابل سماعت ھے کیونکے جب پہلے سے ھی یہ کیس لاھور 
ھائی کوڑ ٹ میں چل رھا ھے تو قانون کے تحت سپریم کوڑٹ یہ کیس نھیں چل سکتا تاوقتیکے کے لاھور ھائی کوڑٹ سے انکی اپیلیں خارج ھو جاتیں اور اسکے خلاف اپیلیں سپریم کوڑٹ میں نہ آئیں۔ یہ سب لکھ کر ان چار ججز حضرات نے یہ پی ٹی آئی کی طرف سے دائیر کردہ پٹیشن مسترد کردی. تو چیف جسٹس عطا بندیال کو چاھئیے تھا کے وہ اس سات رکنی بینچ میں 4 ججز کے اختلاف کی وجہ سے اس پٹیشن کو مسترد کرنے کا 4/3 سے  عدالتی آڑڈ جاری کردیتے اور  پی ٹی آئی والوں کی یہ پٹیشن ھی خارج ھو جاتی ۔ مگر اانھوں نے ایسا نھیں کیا بلکے اس سات رکنی بینچ کو پانچ رکنی بینچ میں تبدیل کردیا اور اس پانچ رکنی بینچ میں ان ججوں کو نھیں رکھا جنھوں نے اختلافی نوٹ دیا تھا اور یہ عزر پیش کیا کے ان   میں سے تین ججز نے خود کو اس پانچ رکنی بینچ  میں شامل نہ ھونے کو کہا ھے ۔انھوں نے صرف اختلافی نوٹ دینے والے جسٹس جمال مندوخیل کو  پانچ رکنی بینچ میں رکھا اور  حیرت انگیز طور پر پھر پی ٹی کی طرف جھکاؤ رکھنے والے اس جج  جسٹس اعجازالحسن کو بھی شامل کردیا جو جنھوں نے نو رکنی بینچ میں شامل ھونے سے اپنے آپکو اسلئیے الگ کردیا تھا کیونکے انھوں نے ھی تو جسٹس 
مظاھر نقوی کے ساتھ مل کر چیف جسٹس کو نوٹ بھیجا تھا پنجاب اور کے پی میں نوے دن کے اندر الیکشن کرانے کے لئیے سویو موٹو ایکشن آئین کے آڑٹیکل (3)184 کے تحت لیا جائیے . بعد میں اس پانچ  رکنی بینچ سے پہلے 
جسٹس جمال مندوخیل ، جنھوں نے اختلافی نوٹ لکھا تھا وہ الگ ھوگئیے ۔ تو اسکے بعد دوسرے جج جسٹس امین الدین خان بھی الگ ھوگئیے کیونکے وہ جسٹس قاضی عیسے فائیز کے ساتھ انکی اس ججمنٹ میں شامل تھے جس میں کہا گیا تھا کے جب تک فل کوڑٹ  چیف جسٹس کے سویو موٹو لینے کے اختیار آئین کے آڑٹیکل (3)184 میں کوئی پروسیجرز قانون نھیں بناتی اسوقت تک ایسے تمام سویو موٹو کے تحت چلنے والے مقدمات پر کاروائی روک دی جائیے ۔ اب اس تین رکنی بینچ جسکے سربراہ چیف جسٹس 
عطا بندیال تھے اور دوسرے ججز جسٹس اعجازالحسن اور جسٹس منیب تھے ۔ اس تین رکنی بینچ نے 4 اپریل کو الیکشن کمیشن کو 14 مئی 2023 کرانے کا حکم دیا اور حکومت کو اس الیکشن کے لئیے ۲۱ ارب کے فنڈ جمع کرانے کے لئیے احکامات دئیے۔ 7 اپریل 2023 کو جسٹس اطہر من اللہ کا اپنی اختلافی رائیے کے بارے میاں تفصیلی فیصلہ جاری کہا  جسنے ایک ھلچل مچادی ۔اس میں انھوں نے یہ بتایا کے وہ پٹیشن 4/3 کے تناسب کی وجہ سے خارج ھوچکی  تھی جسپر چیف جسٹس نے 4 اپریل کو فیصلہ دیا۔  انھوں نے بتا یا میں خو د بینچ سے الگ نھیں ھوا تھا مگر مجھ سے بیان منسوب کرکے کے چیف جسٹس عطا بندیا ل نے غلط بیانی سے کام لیا ۔ انکا بینچ میں تبدیلی لانا بھی خلاف قانون تھا انھوں نے 4/3 کے تناسب سے پٹیشن مسترد ھونے کا عدالتی آڑڈر جاری کرنے کے بجائیے اس کیس کے لئے نیا بینچ بنا دیا جو غیر قانونی ھے. انھوں نے اس جج یعنی جسٹس اعجازالحسن کو شامل کرلیا جنھوں نے پہلے ھی نو رکنی بینچ سے اپنے آپ کو الگ کردیا کیونکے انکا زھین بن چکا تھا کے  پنجاب الیکشن کے نوے دن میں ھونے چاھئیں۔دیکھا جائیے  جسٹس اطہر من اللہ کا یی تفصیلی فیصلہ چیف جسٹس عطا بندیال  اور ان کے ھم خیال  ججز جسٹس اعجازالحسن اور جسٹس منیب کے خلاف  ایک چارج شیٹ ھے۔ [ محترم جسٹس اطہر من اللہ کا فیصلے کا یہ لنک پیسٹ کررھا ھوں۔آپ لوگوں سے درخواست اسکو ضرور پڑھیں .پھر آپلوگوں پر اچھی طرح آشکارا ھوجائیے

تو اب چیف جسٹس عطابندیال کے خلاف انکے اس misconduct کی بنیاد پر جوڈیشنل کونسل میں ریفرنس دائیر کرنے کا فٹ کیس بنتا ھے.  ایڈوکیٹ منصف اعوان ،  چئیر میں جسٹس پاڑٹی نے تو اپنے اور وکلاء ساتھیوں کے ساتھ تو یہ ریفرنسس داخل کردئیے ھیں اور وہ اب ھم سب سے کررھے ھیں کے ھم بھی یہ ریفرنس داخل کریں تاکے زیادہ سے زیادہ لوگ سامنے آئیں اور جس چیف جسٹس صاحب پر پریشر پڑے۔ اور وہ استعفے دینے پر مجبور ھوجائیں۔[ میں آپ لوگوں کی خدمت میں  ایڈوکیٹ منصف اعوان چئیر میں جسٹس پاڑٹی کی دو یو ٹیوب ویڈیوز کے لنکس   پیسٹ کررھا ھوں ۔ آپ لوگ اسکو ضرور دیکھیں اس سے آپ لوگوں کو ریفرنس داخل کرنے کی بڑی مدد ملے گی

کچھ لوگ ڈرتے ھیں کے وہ اگر جج کے خلاف ریفرنس داخل کریں گے تو انکو توھین عدالت کا سامنا کرنے پڑے گا۔ تو یہ بات یاد رکھنی چاھئیے کے آپ کسی جج کے "mis- conduct" کے خلاف جوڈیشنل کونسل میں شکایت کریں گے جسکے لئیے آپکے پاس ٹھوس ثبوت ھوں تاھم کسی جج کے  conduct کے خلاف جھوٹی شکایت کریں گے تو پھر تو  توھین عدالت کے مرتکب ھوں گے۔ میی نے  ایڈوکیٹ منصف اعوان ،  چئیر میں جسٹس پاڑٹی سے اس سلسلے میں بات کرلی ھے  انکے واٹس ایپس نمر پر [ انکا واٹس ایپس نمبر اور اور سیل نمر ایک ھی ھے یعنی 4725752-0300]۔ انھوں صرف عدالتی فیس اور پیپرز تیاری کی فیس دس ھزار روپے کی ڈیمانڈ کی ھے اور اپنے جاز کیش کا نمبر بھی دیا ھے اور کہا ھے کے جب انکو یہ پیسے بھیج دوں گا وہ مجھے وکالت نامہ بھیج دیں گے میں اس ہر دستخط کرکے اپنے شناختی کاڑڈ کی فوٹو کاپی کے ساتھ اپنے تمام pirtculers لکھ کر بھیج دوں گا۔ جو ریفرنس داخل کرنا چاھتے ھیں وہ  ایڈوکیٹ منصف اعوان ،  چئیر میں جسٹس پاڑٹی سے اوپر دئیے گئیے سیل نمبر پر رابطہ کریں ۔
مجھے کمنٹس میں ضرور بتائیں کے کون کون لوگ یہ ریفرنس داخل کرنا چاھتے ھیں اور  اسکے لئی کیا کررھے ھیں ۔شکریہ
واسلام 
محمد طارق اظہر 
ریٹائیڑڈ جنرل منیجر ( آپس ) پی ٹی سی ایل
راولپنڈی
Dated 12-04-2023


--
Sent from Rawalpindi Pakistan via iPad

Comments

Popular posts from this blog

.....آہ ماں۔

Article-173 Part-2 [Draft for non VSS-2008 optees PTCL retired employees]

‏Article-99[Regarding clerification about the registration of the Ex-PTC employees of any capacity with EOBI by PTCL]