Article-175 [ Regarding hearing of PTCL pensioners cases of dated 14th & 15th May 2024]

 Article-175


موضوع:-14 اور 15 مئی 2024 کو سپریم کوڑٹ میں پی ٹی سی ایل ایمپلائیز اور پنشنرز کے کیسز پر ھونے والی کاروائی پر  تبصرہ. . . . . . . اب دوبارا کاروائی کا آغاز 28 مئی 2024 سے وھیں سے کیا جائیگا  جہاں سے 15مئی 2024 کو اختتام پزیر ھوا تھا


عزیز پی ٹی سی ایل ساتھیو 

اسلام وعلیکم 

 جیسا کے آپ سب لوگ جانتے ھیں کے خدا خدا کرکے  کے سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ , جس کے سربراہ محترم جج جسٹس یحییٰ آفریدی اوردوسرے ممبران  محترم جج امین الدین خان اور محترمہ جج  جسٹس مسمات عائیشہ ملک تھیں ،  انھوں نے 29 اپریل کو کم ازکم 167 پی ٹی سی ایل پینشنروں اور ملازمین کے کیسسز کی  ھئیرنگ کا آغاز کیا تھا ۔ یہ 167 گڈمڈ کیسز تھے جن میں زیادہ PTCL اور PTET نے  PTCL پنشروں کے خلاف کئے ھیں  اور  PTCL پنشروں نے بھی انکے خلاف کیئے ھیں

  [یاد رھے  3 مارچ 2020  کو اسلام آباد ھائی کوڑٹ  کے سنگل بینچ کے جج جسٹس میاں گل اورنگزیب نے 2012 سے لیکر 2019 تک کے پینڈنگ ھوئیے پی ٹی سی ایل پنشنروں کے کیسز ڈسپوزڈ آف کرتے ھوئیے صرف انھی پی ٹی سی ایل پنشنرز پٹیشنروں کو گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریزز اور اسکے ساتھ اعلان کردہ مراعات کا حقدار ٹھرایا تھا جو ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی ھوئیے تھے اور پھر کارپوریشن اور کمپنی میں ٹرانسفڑڈ ھوکر  نارملی طریقے سے یا ساٹھ عمر کی میں ریٹائیڑڈ ھوئیے تھے۔ پی ٹی سی ایل  اور پی ٹی ای ٹی نے نے اسکے خلاف انٹرا کوڑٹ اپیلیں دائیر کردییں تو اسلام کے ڈویژن پینچ جس کے سربراہ  اسلام آباد ھائی کوڑٹ سابقہ  چیف جسٹس اطہر من اللہ اور  موجودہ چیف جسٹس عامر فاروق ایک نہایت ھی controversial  فیصلہ دیا ۔ انھوں نے صرف ان ٹی اینڈ ٹی ملازمین کو ، جو  گورمنٹ سول سرونٹ ایکٹ 1973  میں سول سرونٹ کی تعریف کے زمرے یعنی اسکی سیکشن (1)(b)2 میں آتے تھے   اور نارملی ریٹائیڑڈ ھوئیے تھے ، صرف انھی کو  گورمنٹ کی پنشن انکریزز دینے کا حقدار ٹہرایا اور دوسری پنشن کے ساتھ دینے والی مراعات، جو گورمنٹ اپنے ریٹائیڑڈ ملازمین کو پنشن کے ساتھ دینے کا اعلان کرتی ھے، اسکو دینے سے منع کردیا. تو پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی نے ان پی ٹی سی ایل پٹیشنروں کے خلاف سپریم کوڑٹ میں اپیلیں داخل کردیں جنکو گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریزز دینے کا حکم دیا گیا۔ انکا موقف یہ تھا گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریزز ٹی اینڈ ٹی سے ٹرانسفڑڈ ھوکر پہلے کارپوریشن اور پھر کمپنی میں  چونکے پروٹیکٹڈ نھیں تھیں تو وہ انکو نھیں ملنی چاھئیں انکو صرف وہ ھی ملنا چاھئیے جو کارپوریشن میں دسمبر 1991 میں آنے سے فورن پہلے پروٹیکٹڈ تھیں۔ جب کے پی ٹی سی ایل پنشنروں نے  ڈویژن بینچ اسلام آباد ھائی کوڑٹ  کے اس حکم کے خلاف اپیلیں داخل کیں جنکو پنشن کے ساتھ ملنے والی مراعات دینے سے منع کردیا جسکا حکم سنگل بینچ اسلام آباد ھائی کوڑٹ اپنے 3 مارچ 2020 کے فیصلے میں دیا تھا. اس ڈویژن بینچ اسلام آباد کے controversial آڑڈر کے بارے میں ،  میں نے 26 دسمبر  2021 کو میں ایک تفصیلی آڑٹیکل نمبر 154 لکھا تھا میں نے اسکو بلاگ سائیٹ   پر  دوبارا

 re- publish  کردیا  ھے اور اسکا لنک نیچے پیسٹ کررھا ھوں۔ آپ لوگ اگر چاھیں تو ضرور پڑھیں ۔ مکمل طور پر آشکارا ھوجائیں کے یہ فیصلہ کیوں controversial  قرار دے رھا ھوں 

Republish of Article-154 dated 26 December 2021 ]

 

اور ان  167 کیسز میں میں وی ایس ایس  آپٹیز ریٹائیڑڈ پی ٹی سی ایل کے ملازمین کے خلاف پی ٹی ای ٹی  اور پی ٹی سی ایل کی دائیر کردہ وہ اپیلیں بھی تھیں  ، جو انھوں نے   اسلام آباد ھائی کوڑٹ اور پشاور ھائی کوڑٹ  میں 12(2) CPC کے تحت دائیر  کردہ اپنی  اپیلوں،  دونوں ھائیکوڑٹوں طرف  سے ٹیکنیکلی بنیاد پر خارج کرنے کی بنیاد کی وجہ سے سپریم کوڑٹ میں دائیر کی تھیں ۔ اور ان سب کیسز   کو ، 19 اپریل 2024 کو سپریم کوڑٹ نے  ان  ھائکوڑٹوں کے سنگل بینچ کے جج و بھجوادئیے  اور حکم دیا کے   وہ اس پر اپنی فائینڈنگ تیس دن کے اندر  اندر  سپریم کوڑٹ کو بھجوائییں تاکے سپریم کوڑٹ مزید آگے بڑھ سکے ( ایسے وی ایس ایس والوں کے کیسس 11 قریب تھے)۔    اور باقی جو پی ٹی سی ایل  کے ریگولر ملازمین اور پنشنرس کے کیسس  ھئیرنگ کے لئیے  تھے،    تو عدالت نے انکے وکلاء کو دو سوالات دیتے ھوئیے  ایک جامع ( Consise)  رپوڑٹ بھی 14 مئی 2024 تک جمع کرانے کا حکم  دیا ۔میں نے اس سلسلے میں میں دو تفصیلی آڑٹیکل نمبر 171 اور 172 لکھے اور فیس بک پر  اور اپنے بلاگ سائیٹس پر بھی اپلوڈ کئئے تھے جنکے لنکا میں نیچے پیسٹ کررھا ھوں ۔آپ لوگوں کو وقت ملے تو انکو ضرور پڑھیں  ۔ خاصکر وی ایس ایس والے 

  [ https://tariqazhar.blogspot.com/2024/05/article-171-regarding-scp-directions-on.html

https://tariqazhar.blogspot.com/2024/05/article-172-detail-report-on-hearing-of.html]


میں اپنی صاحب فراشی کی وجہ سے ،  14 مئی 2024 کو کیسس کی ھئیرنگ سننے نہ جاسکا ، جسکا مجھے بہت افسوس ھے۔ تاھم ھمارے کیسز کے وکیل ایڈوکیٹ  چودھری اشتیاق صاحب  کے اسسٹنٹ ایڈوکیٹ رانا حسن ایڈوکیٹ صاحب نے واٹس ایپس پر اس دن کی ھئیرنگ کے بابت بڑی تفصیل سے مطلع کیا۔ انھوں نے بتایا کے " آج سپریم کوڑٹ میں سیریل نمبر 10 پر ھمارا کیس تھا۔انھوں نے سب سے پہلے پی ٹی سی ایل وز عمران  عزیز   و دیگران کا کیس اٹھایا  ۔ چونکے ایسے تمام کیسسز پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی نے کیئے تھے تو عدالت   پٹیشنرز کے وکیل شاھد انور باجواہ صاحب کو روسٹرم پر   آنے کو کہا کے وہ اپنا موقف بیان کریں ۔ تو جیسے ھی شاھد انور باجواہ صاحب روسٹرم پر آئیے  اور انھوں نے   arguments  دینا شروع کیئے تو عدالت نے انسے کہا کے آپ لارجر بینچ کی ججمنٹ پڑھیں [ یعنی 12 جون 2015 کی ججمنٹ جو سپریم کوڑٹ کی ماھانہ رپوڑٹ 2015SCMR1472 میں درج ھے  جس میں بوڑڈ آف ٹرسٹی کو یہ حکم دیا گیا تھا کے وہ ان تمام پی ٹی سی ایل کے ریٹئیڑڈ ملازمین کو  جو ٹی اینڈ ٹی سے ٹرانسفڑڈ ھوکر کارپوریشن میں اور پھر کمپنی میں آئیے اور وھاں سے ریٹائیڑڈ ھوئیے ان سب کو  وہ گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریزز دینے کا پابند ھے۔ اور پھر اسی عدالت کے اس فیصلے کے تحت  اور دو رکنی بینچ کے ، 15 فروری 2018  کے احکامات کے مطابق صرف ان  343 ایسے  ریٹائیڑڈ پی ٹی سی ایل ملازمین    کو گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریز کے بقایا جات دیئے گئیے تھے جن کی ریٹائیرمنٹ  نارملی یا ساٹھ سال کی عمر میں اپنے وقت پر ھوئی تھی ، اور انکی پنشن گورمنٹ کے مطابق ھی  فکس کردی اور انکو اب وھی گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریزز ملتے ھیں ، یہ سب  ، 12 جون  2015 والے کیسسس میں ریسپونڈنٹس بھی تھے ]۔ تو لب لباب یہ ھوا کے انھوں نے جب لارجر بینچ کی ججمنٹ پڑھی  اور اسکے بعد ریفرنس آگیا پنشن کا [ یعنی جو لارجر بینچ  کا conclusion تھا]۔تو عدالت اس ججمنٹ کے ریسپونڈنٹس کی طرف سے مین وکیل  ایڈوکیٹ خلیل الرحمن عباسی صاحب کو  بھی بلایا اور کہا آپ یہاں روسٹرم پر آجائیں اور ھم کو  اس ججمنٹ کے بارے میں بتائیں  یعنی 12 جون 2015 کی ، کیونکے آپ نے یہ ججمنٹ حاصل کی تھی اور اس ججمنٹ میں آپ دونوں کے arguments ھیں۔ تو جب  ایڈوکیٹ عباسی صاحب وھاں  روسٹرم پر جب پہنچے  تو عدالت نے انسے ایک بڑا سوال کیا کے وہ انکو بتائیں ٹی اینڈ ٹی کے وہ ملازمین جب ریٹائیڑڈ ھوکر  پنشنر بن جاتے ھیں تو کیا انکو گورمنٹ کی تمام چیزیں  پنشن کے ساتھ ملیں گی  جو اسوقت تک protected تھیں یا وہ بھی ملیں گی جو پروٹیکٹیڈ نھیں تھیں اور  جو گورمنٹ اپنے ریٹائیڑڈ ملازمین کو دے رھی تھی وہ بھی ملیں گی ۔مطلب جو اسوقت پنشن انکریزز مل رھے تھے وھی ملیں گے یا اسکے علاوہ اور دیگر الاؤنسس جو گورمنٹ اپنے  ریٹئیڑڈ سول سرونٹس کے لئے جاری کرتی رھی ھے وہ بھی ملیں گے یا نہیں .جبکے ایڈوکیٹ شاھد انور باجواہ صاحب کا کہنا تھا کے انکو وھی ملیں گی جو اسوقت تک پروٹیکٹڈ تھیں اور بعد والی نھیں ملیں گی جو پروٹیکٹڈ نھیں تھیں .وہ نھیں دی جاسکتیں ۔ لیکن عدالت نے کہا کے یہ کیسے ھو سکتا ھے کے بعد والی نہ ملیں ۔ تو  ایڈوکیٹ شاھد انور باجواہ صاحب نے کہا گورمنٹ والی پنشن انکریز تو ھم انکو دے رھے ھیں ۔ اور جو ھم نے انکو پیمنٹ کی ھے وہ تو اس سے بھی زیادہ ھے ( یعنی گورمنٹ والی سے) ۔تو اس پر عدالت نے ایڈوکیٹ عباسی صاحب سے کہا کے آپ بتائیں آپکا کیا بنتا ھے اور آپکی کیا کنڈیشن ھے۔  اور اسپر آپکا کیا موقف ھے پنشن کے ساتھ  جو دیگر چیزیں دی گئیں بعد میں تو کیا وہ ایسے ریٹائیڑڈ پی ٹی سی ایل پنشنروں کو ملنا چاھئیے یا نھیں ، اس پر   ایڈوکیٹ عباسی صاحب کچھ جواب نہ دے  بلکے ادھر ادھر دیکھنے لگے اور اپنے ساتھ لائیے ھوئیے ڈکومنٹس کے صفحات پھپوڑنے لگے پتہ نھیں وہ تیاری کرکے نھیں آئیے تھے  نہیں یا اور کوئی وجہ تھے کے وہ بینچ   کو کوئی جواب نہ دے سکے ، حالانکے اسی ججمنٹ کے پیرا 18 میں اسکا جواب مکمل موجود تھا [ اسی ججمنٹ کے پیرا 18   میں ایک تو یہ لکھا گیا ھے کے جو ملازمین ٹی اینڈ ٹی سے ٹرانسفڑڈ ھوکر پہلے کارپوریشن میں آئیے پھر کمپنی  میں  ، تو جو سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس اور سروس قوانین  جو ٹی اینڈ ٹی میں انپر استعمال ھورھے تھے وہ بدستور ایسے ھی کارپوریشن اور پھر کمپنی میں بھی انپر استعمال ھوتے رھیں گے۔ اور  گورمنٹ پنشن میں کسی طرح کی بھی انکریز کا اعلان  اپنے سول ریٹئیڑڈ ملازمین کے لئیے کرتی ھے ،تو اسکا اطلاق بھی انپر ھوگا۔ اور دوسری بات سپریم کوڑٹ کے دو رکنی بینچ  نے محمد ریاض کے کیس( 2015SCMR1783) میں ، اسی 12 جون 2015 کو ھی ریفرنس بناتے ھوئیے ، راجہ ریاض کو نہ صروف گورمنٹ کی اعلان کردہ تنخواہ جو  ، پی ٹی سی ایل نے یکم جولائی 2005 سے دینا بند کردی تھی ، اسکا دینے کا حکم دیا بلکے پنش کا گورمنٹ کے اعلان کے مطابق  انکریزز دینے کا حکم  بھی دیا جو ٹرسٹ نے یکم جولائی 2010 سے دینا بند کردیا تھا اور اپنی طرف سے منظور کردہ پنشن انکریزز دے رھے تھے اور راجہ ریاض کی پٹیشن کو اپیل میں تبدیل کرکے ان سبکا  دینے اعلان کیا  تھا اور راجہ ریاض کو نہ صرف تنخواھون اور پنشن کے  گورمنٹ والے بقایا جات سب ادا کئیے بلکے میڈیکل الاؤنس بھی دیا گیا جو حکومت نے اپنے سرکاری ریٹائڑڈ ملازمین اور بیواؤں کو یکم جولائی  2010 سے دینا شروع کیا تھا جو فریز کردیا گیا تھا یعنی پنشن کے ساتھ اس پر یعنی میڈیکل الاؤنس  پر  سال انکریز نھیں ملتا تھا ۔ یہ سب  اس بات کے بئین ایسا ثبوت تھا ، جو یہ ظاھر کرتا ھے ، انکے وکیل انور شاھد باجواہ کے ان دلائل میں کوئی وزن نہیں  تھا کے یہ ریسپونڈنٹس صرف انھیں پنشن اور  انکے ساتھ لاؤنسس کے حقدار ھیں جو انکے کارپوریشن میں آنے سے فورن پہلے تک انکو مل رھے تھے یعنی پروٹیکٹیڈ تھے۔ راجہ ریاض کو سپریم کوڑٹ کے حکم کے مطابق وھی تنخواہ ، پنشن اور اسکے ساتھ دیگر الاؤنسس دینا اور پھر پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کا اسکو دے  بھی دینا اس بات کا مظھر کے تمام ٹی اینڈ ٹی کے سابقہ ملازمین یکم جنوری 1996 کو کمپنی مین آنے کے بعد بھی انھی تنخواہ ، پنشن اور دیگر   مراعات اور الاؤنس کے سو فیصد لینے  اختیار  رکھتے ھیں جو گورمنٹ کے اپنے سول ملازمین اور ریٹئیڑڈ ملازمین  کے وقتن فوقتن اعلان کرتی رھتی ھے۔] ۔ تو اگر وکیل عباسی صاحب نہ صرف یہ پیرانمبر 18 پڑھ دیتے اور راجہ ریاض کیس کے حق میں آئیے ھوئی فیصلے کا صرف پیرا 5 کو کوڈ کردیتے    تو بات کلئیر ھوجاتی اور کوئی کنفیوژن کرئیٹ نہ ھوتی ۔ 


بحر حال گھبرانے کی کوئی بات نھیں  ابھی کئی  اور ایسے ھی کیسس عدالت نے سننے ھیں جسکی فہرست کافی  لمبی ھے   اور اسطرح کے کیسس کے اوروں کے وکلاء نے جواب دینا ھیں  جب دوسرے وکلاء اس طرح کی کیس اپنے دلائل دیں گے تو یقنن یہ بات کلئیر ھوجائیے گی ۔یہ واضح ھوجائیگا کے پی ٹی سی ایل  اور پی ٹی ای ٹی کے ایسے ریٹئیڑڈ ملازمین گورمنٹ کی اپنے ریٹائیڑڈ ملازمین کو پنشن انکریزز اور اسکے ساتھ دینے والی ھر مراعات کے اعلانات کے  ، وہ بھی برابر کے حقدار ھیں  ۔تمام لوگ اس دن ایڈوکیٹ عباسی صاحب کے اس طرز عمل پر بہت حیران ھوئیے اور انکے کلائینٹس کو بھی سخت مایوسی ھوئی۔ [مجھے واٹس ایپس  پر کافی ایسے دوستوں نے انکے اس طرز عمل پر اپنے غم اور غصے کا اظہار کیا ھے ایک نے  لکھ کر مجھے بھیجا کے "مجھے اس پر 100% یقین ھے کے  ایڈوکیٹ عباسی صاحب ایڈوکیٹ انور شاھد باجواہ صاحب سے ملے ھوئیے ھیں  "، ایک نے تو یہاں تک لکھ دیا انکو فورن پی ٹی سی ایل پنشنروں کے کیسز کی پیروی کرنے سے ھٹایا جائیے ورنہ یہ سب کو مروادیگا۔ ] 

اسکے بعد  اسلام آباد ھائی کوڑٹ   کے 3 مارچ 2020 کی ججمنٹ پر شاھد انور باجواہ صاحب چلے گئیے [ یاد رھے سنگل بینچ اسلام آباد کے جج جسٹس میاں گل اورنگ زیب کے 3 مارچ 2020 کے  فیصلے   میں ، انھوں  نے صرف ان پی ٹی سی ایل پٹیشنروں گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریزز اور اسکے ساتھ دیگر اعلان کردہ مراعات ، کے بقایا جات دو  مہینے کے اندر اندر دینے کا حکم دیا،  جو ریٹایڑڈ ملازمین ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی ھوئیے اور کمپنی میں  آکر نارملی یا ساٹھ سال کی عمر  میں ریٹایڑڈ  ھوئیے تھے].تو عدالت نے ایڈوکیٹ شاھد انور باجواہ صاحب سے اتنا پوچھا کے اس ججمنٹ میں تو  وی ایس ایس  والوں  کو یہ پنشن انکریزز نہ دینے کے لئیے کہا ھے اور اسکے  متعلق  جج صاب نے فائینڈنگ  بھی دے رکھی ھے تو کیا ان  کیسس میں  وی ایس ایس  ایس والے بھی مجود تھے تو اس  پر ایڈوکیٹ چودھری اشتیاق صاحب نے اٹھکر  معزز عدالت کو بتایا کے اگرچہ ان لوگوں کا وکالت نامہ توھے لیکن اس کوئی وی ایس ایس والا  موجود نھیں تھا۔  اور یہ عدالت نے خود اپنی طرف سے یہ فائینڈنگ دی ھے وی اییس ایس کے متعلق ۔ اسپر عدالت نیں کہا جب کوئی وی ایس ایس والا پٹیشبر تھا ھی نھیں  تو اسکے متعلق  معزز جج کو کوئی بھی فائینڈنگ نھیں دینی چاھئیے تھی ۔ ھم اس فائیڈنگ کو dissolve کردیتے ھیں ۔ 

[  آپ سب کی اطلاع کے لئیے  ، یہ آشکارا کر رھا ھوں کے ان  بیشتر کیسوں میں نارمل ریٹائڑڈ پنشنرس پٹیشنرس کے ساتھ وی ایس ایس آپٹیز ریٹائیڑڈ پنشنرس پٹییشنرس بھی شامل تھے ۔ مگر نہ معلوم کیوں ،جسٹس میاں گل ارنگزیب نے ھر  پٹیشنرس کے  وکیل سے کہا کے آپ  اپنے وی ایس ایس والوں پٹیشبروں سے  کہیں کے وہ اپنی پٹیشنیں واپس لے لیں جب ھی میں نارمل ریئٹائیڑڈ پٹیشنرز  کی پٹیشنوں پر کوئی فیصلہ کروں گا ورنہ نھیں۔  میری دائیر کردہ پٹیشن نمبر WP-4588/2018  میں  ، میرے سمیت کل 31 پٹیشنرس تھے جبکے بیس پٹیشنرس ساتھی وہ تھے جو نارملی ساٹھ سال کی عمر میں ریٹائیڑڈ ھوئیے تھے جبکے 11 وی ایس ایس آپٹیز ریٹائیڑڈ  پٹیشنرز تھے۔ ان میں سے مرحوم عبدل ستار صاحب وی ایس ایس 1998 لیکر ریٹائیڑڈ ھوئیے تھے باقی 10 وی ایس ایس 2008 کے تھے۔ مجھے،  ھمارے وکیل آصف محمود صاحب نے ، 14 فروری 2020 ھئیرنگ کے دوران گھر فون کرکے بتایا تھا ، اس دن میں ھئیرنگ پر نھیں گیا تھا ، کے ان   11 وی ایس ایس آپٹیز ریٹائیڑڈ  پٹیشنرز کی پٹیشنریں with draw کرنی پڑیں گی ورنہ ھمار کیس کا فیصلہ یہ جج صاحب نھیں کریں گے ، مجھے مجبورن انکی   پٹیشنیں with draw پڑی تھیں ].

اور  اسکے بعد عدالت نے فرمایا کے  باقی  جو فائینڈنگز ھیں ھم اس پر ھر ایک کیس پر بحث اب صوبے وائئز کریں گے پہلے ھم پشاور ھائی کوڑٹ کی اور بلوچستان ھائی کوڑٹ  کی اور وقت ملا تو سندھ ھائی کوڑٹ کی ھر ججمنٹ پر بحیث کریں گے ۔ اسکے بعد انھوں نے پشاور ھائی کوڑٹ کی ججمنٹ پر بحث کے لئیے انمے وکلاء کو بلایا ۔ مگر انکے وکلاء شائید تیار نھیں تھے اسلئیے پشاور والے کیسسز پر بحث نہ شروع ھو سکی ۔ اس دوران اسلام آباد ھائی کوڑٹ کے  دو کیسسز کے   وکیل ایڈوکیٹ سلمان راجہ نے کہا کے انکھ کیسز سن لیں کیونکے انھیں باھر جانا ھے اپنی بیٹی کی کنووکیشن کے  سلسلے میں۔جسپر عدالت نے کہا کے وہ انکو بھی ضرور سنیں گے مگر پہلے ان کے کیسسز سن لیں  یعنی پشاور ، بلوچستان  اور کراچی کے  اسکے بعد عدالت کی کاروئی 15 مئی 2024 تک کے لئیے ملتوی ھوگئی ۔ 

15 مئی 2024 کو میں پی ٹی سی ایل کے ملازمین کا کیس لگا [ یاد رھے پشاور ھائی کوڑٹ نے NTR-1  پی ٹی سی ایل کے ملازمین کا انکو گورمنٹ کی اعلان کردہ تنخواہ دینے کے کیسز خارج کردئیے تھے جو انھوں نے راجہ ریاض کے کیسسز کے ریفرنس سے داخل کئیے تھے۔ مجھے اس پر بے انتھا حیرت کے پشاور ھائی کوڑٹ کو دو معزز ججز سپریم کے دو معزز ججز کے اس فیصلے کے خلاف کیسے چلے گئیے۔ جو انھوں نے راجہ ریاض کے حق میں دیا جو اسسٹنٹ ڈائیریکٹر ( بی -۱۷) آئی ٹی آر  ، پی ٹی سی ایل میں تھے۔ یوں لگتا ھے کے پٹیشنرز کے وکیل نے کیس میں صحیح دلائیل نھیں دئیے ۔ مجھے بتایا گیا کے انکے وکیل نے سپریم کوڑٹ کے راجہ ریاض کے حق میں آئیے ھوئیے فیصلے کے ریفرنس سے  کسی میں  قسم کی عدالت میں  بحث ھی نھیں کی اور عدلت کو یہ بتایا ھی نھیں کے سپریم کوڑٹ کے معزز ججز نے قرار دیا کے راجہ  ریاض  گورمنٹ کی اعلان کردہ تنخواھ اور پنشن کا حقدار ھے اور اسپر کوئی قد غن نھیں ھے  ( میں اس سلسلے میں 12 جون 2015 کے فیصلے  کے پیرا نمبر 18  اور راجہ ریاض کے کیس کے پیرا نمبر5 کا ریفرنسس اوپر دے چکا ھوں )۔ تو میں  سمجھتا ھوں پٹیشنرز کے وکیل  کی نااھلی کی وجہ سے ، NTR کے یہ بیچارے ملازمین کیس ھار گئیے جنکی اپیل انھوں نے سپریم کوڑٹ میں کی تھی. جسکی ھئیرنگ ، 15 مئی کو ھورھی تھی ]۔

یہ اپیل سپریم کوڑٹ میں  سعید بھٹی اور دیگران نے کی تھی پشاور ھائی کوڑٹ کے اس فیصلے کے خلاف۔ اور انکے وکیل  ایڈوکیٹ سردار لطیف کھوسہ تھے [ایسے کیس کے لئیے جو آئینی نوعیت کا تھا، اسکے لئیے کریمنلز کیسز کے ماھر وکیل ایڈوکیٹ سردار لطیف کھوسہ کو کرنا، سمجھ سے بالا تر ھے۔ ایسے کیسز کے لئیے تو کسی آئینی ماھر اور سروس میٹرز کے کیسس کے ماھر وکیل کو انگیج کرنا چاھئیے تھا۔ایڈوکیٹ سردار لطیف کھوسہ  تو اکثر کیسس میں نہ آنے کی وجہ سے بہت مشھور ھیں۔] ۔ تو سعید بھٹی کے وکیل محترم ایڈوکیٹ سردار لطیف کھوسہ حسب سابق اس دن پھر نہیں لائیے تھے ۔ انکی جگہ انکے  بیٹے  ایڈو کیٹ شھباز کھوسہ جن کو ایک جونئیر وکیل تشریف لائیے تھے۔ PTCL کے وکلاء نے انکو بےبس کردیا تھا۔ عدالت نے انسے سوال کیا کے  جب آپکے کلائینٹس کو 1991 پہلے والی پے جو protected ھے وہ دی جارھی ھے ، تو ٹائیم ٹائیم گورمنٹ کی اعلان کردہ پے کیوں دی جائیے۔ مگر انکے وکیل ایڈو کیٹ شھباز کھوسہ کوئی بھی اسکا جواب نہ دے سکے[ عدالت کا یہ کہنا کے  اپیلنٹس کو 1991 پہلے والی پے جو protected ھے وہ ھی دی جارھی ھے تو کیوں انکو ٹائیم ٹائیم گورمنٹ کی اعلان کردہ پے دی جائیں ، بلکل غلط ھے۔ عدالت کو کسی نے مس گائیڈ کیا ھے۔ دسمبر 1991 ٹی اینڈ ٹی ملازمین ، جب کاپوریشن میں انھی سروس اور ٹرمز کنڈیشن پر ٹرانسفڑڈ ھوکر آئیے جو انکے ٹرانسفڑڈ سے فورن پہلے ٹی اینڈ ٹی میں تھیں۔ تو جب یکم جولائی 1994 سے گورمنٹ نے اپنے سرکاری ملازمین کی تنخواھوں اور الاؤنسس میں اضافہ کیا  تو کاپوریشن نے بھی وھی  اضافہ تنخواھوں  اور الاؤنسس کا  ، ان ٹرانسفڑڈ ھونے والے ملازمین کو دیا جو اب کارپوریشن کے ملازم بن چکے تھے اور پھر جب یکم دسمبر 2001 گورمنٹ نے اپنے سرکاری ملازمین  کے بیسک پے اسکیلز روائیزڈ کئیے اور  تنخواھوں اور الاؤنسس میں اضافہ کیا  تو کمپنی نے بھی  بیسک پے اسکیلز روائیزڈ کئیے اور وھی    اضافہ پے اور الاؤنسس میں کیا  ، ان ٹرانسفڑڈ ھونے والے ملازمین کو دیا ، جو اب جو یکم جنوری 1996  اسکے ملازم بن چکے تھے۔ مگر   جب یکم جولائی 2005  سے گورمنٹ نے اپنے سرکاری ملازمین کےبیسک پے اسکیلز  پھر روائیزڈ کئیے  اور تنخواھوں اور الاؤنسس میں اضافہ کیا ، تو کمپنی نے یہ بلکل   نھیں کیا ۔ بلکے کمپنی میں تو اب بھی  پے تو یکم دسمبر 2001  والے ھی   ھیں بیسک پے اسکیلز  بھی روائیزڈ والے رکھے  ھیں اور  صرف   الاؤنسز  اپنی طرف  سے لگادئیے ھیں ۔ جب ھی انکی موجودہ پے گورمنٹ کی اعلان کتدہ پے سے بہت کم ھیں ]۔

 اس دن کی کاروائی  کے  متعلق  ایڈوکیٹ حسن رانا صاحب  نے  مزید بتا یا کے جس بنیاد پر پشاور  ھائی کوڑٹ نے سعید بھٹی اور دیگران کے کیسس خارج کئیے تھے اسی بنیا د پر اسلام آباد ھائی کوڑٹ نے راجہ ریاض کی پٹیشن خارج کی تھی جسکے خلاف راجہ ریاض نے سپریم کوڑٹ میں پٹیشن داخل کی تھی اور سپریم کوڑٹ کے دو رکنی بینچ اسلام آباد ھائی کوڑٹ کے فیصلے ڈسمس کرتے ھوئیے  یہ قرار دیا تھا کے گورمنٹ کی ٹائم ٹو ٹائیم اعلان کردہ تنخواہ اور پنشن لینے کا حق راجہ ریاض کو ھے [ آپ سب کے علم کے لئیے ، راجہ ریاض نے اپنی سروس کے دوران  لوکل  ڈیپاڑٹمنٹل اپیلیں کی تھیں  کے اسکو گورمنٹ کی ھی اعلان کردہ پے  اور الاؤنسسس دئیے جائیں  جو انھوں نے مسترد کردی تو اسنے اس اپیل مسترد ھونے کے خلاف  اسلام آباد ھائی کوڑٹ میں 2012 میں ایک پٹیشن دائیر کردی جسکا نمبر  WP-1727/2012 تھا  جو اسلام آباد ھائی کوڑٹ نے 11 مارچ 2015 کو ڈسمس کردی  تو راجہ ریاض نے اسکے خلاف سول پٹیشن نمبر 797/2015 سپریم کوڑٹ دائیر  کردی  اسوقت تک وہ ریٹائیڑڈ  بھی شائید  ھوچکا تھا۔اس کے اس کیس کی ھئرنگ  سپریم کوڑٹ  میں یکم جولائی 2015  کو ھوئی اور دو رکنی بینچ ، جسکے سربراہ  جج جسٹس اعجاز احمد چودھری اور جبکے ممبر سابق چیف   جسٹس  جج اقبال  حمید الرحمان اسلام آباد ھائی کوڑٹ  تھے ، نے راجہ ریاض کی یہ پٹیشن،  اپیل میں کنوڑٹ کرتے ھوئی اسکو گورمنٹ کی اعلان کردہ تنخواہ اور پنشن ادا کرنے کا حکم دیا ۔ یہ فیصلہ 6 جولائی 2015 کو سنایا گیا تھا۔اسکے خلاف 

پی ٹی سی ایل کی رویو پٹیشن 482/2015 بھی 18 اگست 2015 کو ڈسمس کردی گئی تھی اور یو یہ فیصلہ فائینل بھی ھوگیا اور اس پر مکمل عمل بھی ھوگیا]


ایڈوکیٹ حسن رانا صاحب  نے مزید  بتایا انھوں نے اور چودھری اشتیاق نے ورکروں کی مشکلات دیکھ کر ، سعید بھٹی کو بلاکر سپریم کوڑٹ کی ججمنٹ دی اور متعلقہ پیرا بتاتے ھوئیے کہا کے جاکر یہ اپنے وکیل کو دے دیں کے وہ عدالت کے سامنے یہ پڑھیں مگر پھر بھی انکے وکیل سے یہ نہ پڑھا گیا ۔انھوں نے بتایا اسکے بعد ڈیرہ اسماعیل والے مقدمات کال کئیے گئیے۔ مگر انکا کوئی بھی وکیل پیش نہیں ھوا ۔ پھر بلوچستان کے  مقدمات کی کیسس کی جسکے وکیل  ایڈوکیٹ چودھری اشتیاق صاحب  ھی تھے [ یاد رھے کے بلوچستان ھائی کوڑٹ  نے پشاور ھائی کوڑٹ کی ججمنٹ کا سہارا لیتے ھوئیے ، ایسے 

بلو چستاذن کے پی ٹی سی ایل ملازمین کی پٹیشنیں بھی خارج کردی تھیں].مگر اسوقت وقت بہت کم تھا ایڈوکیٹ چودھری اشتیاق صاحب نے وہ متعلقہ پیرا پڑھنا شروع ھی کیا تھا کے عدالت نے کہا کے اب وقت ختم ھوگیا اب وہ  28 مئی کو ھی آکر پڑھیں ۔ اور  اسکے بعد عدالت برخاست ھوگئی تھی

مجھے آج ھی معلوم ھوا ھے کے 28 مئی 2024 کی کاز لسٹ میں ان  پی ٹی سی ایل کے کیسسز کے متعلق کوئی زکر نھیں ھے ۔ ایک صاحب نے بتایا چونکے ایک وکیل ائڈوکیٹ سلمان  راجہ صاحب آجکل کنیڈا گئیے ھوئیے ، زاتی نوعیت کے کام سے اب انکے آنے کی بعد  ھی کوئی نئ تاریخ دی جائیگی اب دیکھیں کب ، اور کب کی دی جاتی ھے. عجیب قسمت ھے ،ان  بیچارے پی ٹی سی ایل پنشنرز پٹیشنرز کی ، کے سپریم کوڑٹ میں انکے کیسس چل ھی نہ پا رھے  ھیں کسی نہ کسی وجہ سے ان کیسسز کی شنوائی میں   تاخیر پر تاخیر ھو رھی ھے ۔ اللہ ان پر اپنا کرم کرے اور سپریم کوڑٹ باقاعدگی سے انکے کیسسز کی ھئرنگ کرے۔ آمین۔

واسلام

محمد طارق اظہر

جنرل منیجر (آپس) ریٹائیڑڈ پی ٹی سی ایل 

راولپنڈی

۲۵ مئی ۲۰۲۴



 


 


Comments

Popular posts from this blog

Article-173 Part-2 [Draft for non VSS-2008 optees PTCL retired employees]

.....آہ ماں۔

Article-170[ Regarding Article -137 Part -1 in English]