Republish of Article -148 on Workman issue
Workman Issue
Article - 148
تجزیہ :۔ کیا پاکستان ٹیلگراف و ٹیلیفون ڈیپاڑٹمنٹ میں کام کرنے والے نون گزیٹڈ( گریڈ 1 سے لیکر گریڈ 15 تک کے کام کرنے والے سرکاری ملازمین ) ، گورمنٹ کے سول سرونٹ کی کٹیگری میں نہیں آتے ھیں یا نہیں ؟؟. . . . 24 جون 2021 کو انٹرا کوڑٹ اپیلوں کی سماعت کے دوران پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کے وکیل انور شاھد باجواہ نے یہ ایک نیا ایشو کھڑا کردیا اور کہا کے اسلئیے ایسے نون گزیٹڈ جو ورک مین تھے وہ پہلے کارپوریشن اور پھر کمپنی میں ٹرانسفڑڈ ھو کر آئیے ھیں ، وہ گورمنٹ کی اعلان کردہ تنخواہ ، پنشن اور اس سے متعلقہ دیگر مراعات کے بلکل حقدار نہیں ھیں . . . بادئیانظر میں محترم جناب جسٹس اطہر من اللہ چیف جسٹس صاحب اسلام ھائی کوڑٹ اسپر قائیل ھوتے نظر آتے ھیں ؟؟؟؟؟؟؟؟
عزیز پی ٹی سی ایل ساتھیو
اسلام وعلیکم
اس سے قبل میں نے اپنے اردو آڑٹیکل -147 میں ، 24 جون 2021 کو اسلام آباد ھائی کوڑٹ میں چیف جسٹس کی عدالت کمرہ نمبر 1 میں ھونے والی پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کی طرف سے دائیر کردہ انٹرا کوڑٹ اپیلوں پر سماعت کے بارے میں ایک طویل مضمون لکھا تھا میں نے اس مضمون کے آخر میں یہ تحریر کیا تھا
“اب اس دن ھونی والی کاروائی کا مکمل تجزئیہ اور اس پر تبصرہ آپکو اپنے اگلے آڑٹیکل 148 میں بتاؤں گا ۔ اور یہ بتاؤں گا کے چیف جسٹس صاحب آج کے ھونے والے ریسپونڈنٹ کے وکیل کے دلائیل سے کیوں مطمئن نظر نھیں آرھے تھے ۔ انھوں نے یہ بات کیوں کہی کے Law کے زریعے یہ ثابت کرنا ، کے ٹی اینڈ میں ایسے ملازم کام کرنے والے جو ورک مین کی کٹیگری میں آتے تھے وہ ورک مین نہیں بلکے سول سرونٹ تھے ، جس کو ثابت کرنا ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کے مترادف ھوگا ۔اور اب اسکو ریسپونڈنٹس کے وکلاء کیسے ثابت کریں گے ۔ اور کیا جواب اسکی اگلی پیشی پر جمع کرائیں گے ؟۔ ایک بات تو صاف ظاھر لگ رھی ھے کے محترم چیف جسٹس صاحب سپریم کوڑٹ کے مسعود بھٹی کیسس اور چند ایسے ھی سپریم کوڑٹ کے دیگر کیسس کے حوالے سے یہ بات ماننے کے لئیے بلکل بھی تیار نھیں نظر آتے تھے کے چونکے سپریم کوڑٹ نے اپنے فیصلوں قرار دیا یہ
ٹی اینڈ ٹی میں کام کرنے والے سارے ملازمین ، ڈیپاڑٹمنٹل ایپملائیز کہلاتے تھے اور سپریم کوڑٹ نے انھی ٹرانسفڑڈ ڈیپاڑٹمنٹل ایمپلائیز کی بابت یہ کہا کے کمپنی میں ان پر وھی سرکاری قوانین جو گورمنٹ کے جو سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے تحت بنائیے گئیے ھیں ان کا ھی اطلاق ھوگا کیونکے یہ سب ٹی اینڈ ٹی میں سول سرونٹ ھی تھے اور جب یہ کارپوریشن اور پھر کمپنی میں ٹرانسفڑڈ ھوئیے تو , پی ٹی سی ایکٹ 1991 کی شق (1)9 اور پی ٹی ایکٹ 1996 کی شق 35 اور 36 کے تحت انکو سول سرونٹ ایکٹ 1973 کی تحت ان بنائیے گئیے قوانین کا تحفظ حاصل تھا اور یہ اسلئے آئین کے آڑٹیکل 199 کے تحت ھائی کوڑٹوں سے اپنے grievances دور کرانے کے لئے ان سے رجوع کرنے کے مجاز تھے۔ پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کے وکیل کا تو سب سے بڑا یہ ھی اعتراض تھا کے جب گریڈ 1 سے لے کر گریڈ 15 تک ملازمین کا ورک مین کے زمرے میں آنے کی وجہ سے وہ ٹی اینڈ ٹی میں سول سرونٹ تھے ھی نہی ، تو کسطرح اور کیوں کر انھوں نے ھائی کوڑٹ سے رجوع کرکے یہ گورمنٹ کی پنشن اور دیگر گورمنٹ کے الاؤنس حاصل کر لئیے ۔ اسی بات پر تو چیف جسٹس صاحب نے مسکرا کر ان سے کہا تھا تو آپ یہ بات مان گئیے جو ریسپونڈنٹس سول سرونٹس تھے ، انکے حق میں دیا گیا ھو عدالت کا حکم صحیح ھے ۔ اس پر وکیل شاھد انور باجوہ صاحب خاموش رھے تھے ۔”
میں اپنے آڑٹیکل 147 میں یہ بھی بتا چکا ھوں جب یہ ایشو وکیل شاھد باجواہ صاحب نے اٹھایا تو چیف جسٹس صاحب نے کس رد عمل کا اظہار کیا تھا میں نے لکھا تھا
“اس دن مجھے چیف جسٹس صاحب مجھے بلکل مختلف نظر آئیے اور وہ مجھے بادئیانظر میں اپیلنٹ کے وکیل شاھد انور باجواہ کے زیادہ ھمدرد دکھائی دئیے ،کیونکے 2 جون 2021 کی سماعت میں جب ایسی طرح کا اعتراض وکیل شاھد انور باجواہ نےجب یہ اٹھایا تھا کے چونکے ٹی اینڈ ٹی سے ٹرانسفڑڈ ھوکر کارپوریشن کے ملازمین پی ٹی سی ایکٹ 1991 کی شق (1)9 کے تحت ٹرانسفڑڈ ھوکر آئیے تھے جس میں کہا گیا تھا ان کے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس وھی رھیں گے جو انکے ٹرانسفڑڈ ھونے سے پہلے فورن پہلے تھے ، اسلئے یہ لوگ بعد میں کسی گورمنٹ کی تنخواہ اور پنشن میں اضافے کے حقدار نہیں ھیں ۔ اس پر اسوقت چیف صاجب نے انسے یہ کہا تھا کے آپ نے آج تک یہ ایشو کبھی بھی کسی عدالت میں نہیں اٹھایا اور سپریم کوڑٹ میں مسعود بھٹی کیس کی ھئیرنگ کے دوران بھی ۔ اب تو ھم اسی کو فالو کریں گے جو کچھ معزز سپریم کوڑ ٹ نے مسعود بھٹی کیس کے فیصلے میں کہا ھے۔ ھم اپنے فیصلے میں صرف آپ کا یہ اعتراض ضرور لکھ دیں گے [ میں یہ سب کچھ اپنے 4 جون 2021 کے آڑٹیکل 143 بتا چکا ھوں ] تو جب وکیل شاھد انور باجواہ صاحب نے چوہدری مشتاق حسن کے دلائیل دینے کے دوران ، درمیان میں یہ گریڈ 1 سے لیکر گریڈ 15 تک کے ملازمین کا بوجہ ورک مین ھونے کے ، سول سرونٹ نہ ھونے کا ایشو اٹھایا تو چیف جسٹس کو اسکو فورن قانون کے مطابق over ruled کردینا چاھئیے تھا ۔ مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا بلکے یہ کہا عدالتیں فیصلے قانون کی تشریح کرکے ھی دیتی ھیں نہ کے قانون عدالتی فیصلوں پر بنتے ھیں۔ انکا شائید یہ مقصد یہ تھا کے سپریم کوڑٹ نے اپنے مسعود کیس میں تمام ٹرانسفڑڈ ملازمین کے لئیے یہ کہنا کے پی ٹی سی ایل میں انپر گورمنٹ کے سرکاری قوانین یعنی statutory rules کا استعمال ھوگا کیونکے یہ سب سول سرونٹ تھے ، صحیح نہیں تھا انکو کٹیگری وائز کے مطابق ھی ایسا حکم دینا چاھئیے تھا یعنی جو لوگ سول سرونٹ کی کٹیگری میں نہیں آتے اور ورک مین تھے ، تو انکا پی ٹی سی اور بعد میں پی ٹی سی ایل میں آنے کے بعد گورمنٹ کے ان قوانین یعنی statutory rules کا اطلاق نہیں ھونا چاھئیے تھا تو اسطرح انکو گورمنٹ کی تنخواہ اور پنشن نہیں ملنی چاھئیے تھی وغیرہ وغیرہ۔ اور یہ سب کمپنی کی مرضی سے ھونا چاھئیے ۔ دوسرے لفظوں میں انکا شائید یہ مطلب تھا جو نون گزیٹڈ ملازمین یعنی گریڈ 1 سے لیکر گریڈ 15 تک کے ٹرانسفڑڈ ملازمین تھے وہ تو ورک مین تھے کیونکے انکی یونین ھوتی ھے اسلئیے وہ سول سرونٹ کے زمرے میں نہیں آتے انکا اسطرح کا گورمنٹ کی تنخواہ اور پنشن لینے کا حق نہیں رکھتے ۔
جب معزز چیف جسٹس صاحب وہ بار بار چودھری مشتاق حسین ایڈوکیٹ سے بار بار یہ سوال کررھے تھے کے آپ law میں سے یہ provision نکال کر کیسے ثابت کریں کے یہ اس کٹیگری کے لوگ سول سرونٹ تھے نا کے ورک مین ۔ انھوں نے یہاں تک کہا یہ قانون سے نکالنا اور ثابت کرنا ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کے مترادف ھوگا ۔”
تو یہ ثابت کرنے کے لئیے کے آیا ٹی اینڈ ٹی میں کام کرنے والے کے ایسے گریڈ 1 سے لیکر گریڈ 15 تک کے ملازمین واقعی ورک مین کے اس زمرے میں آتے تھے یا نہیں ، جسکی تعریف فیکٹری ایکٹ 1934 اور ورک مین کمپنسیشن ایکٹ 1923 میں کی گئی ھے، اسکو ثابت کرنے سپریم کوڑٹ نے ان ملازمین کے حق میں دئیے گئیے ان فیصلوں کے ریفرینس سے کام بلکل نہیں چلے گا ۔ یہ سب چیف جسٹس صاحب واضح کرچکے ھیں اور بقول انکے یہ ثابت کرنا کے ورک مین سول سرونٹ تھے ، ایک ماؤنٹ سر کرنے کے کے مترادف ھوگا ۔
اس دن ریسپونڈنٹ کے وکیل چودھری مشتاق حسین کے دلائیل کے دینے دوران ، جب اپیلنٹ کے وکیل یہ اعتراض اٹھایا تھا محترم چیف جسٹس صاحب نے بجائیے ریسپونڈنٹ کے وکیل کے دلائیل سنتے انھوں نے اپیلنٹ کے وکیل انور شاھد باجواہ کے اس موقف بعد میں انھوں نے اس دن کی سماعت ختم کردی اور تمام ریسپونڈنٹس کے وکلاء کو یہ حکم دیا تھا کے وہ اگلی پیشی یعنی 14 جولائی 2021 کو اسکا جواب بنا کرائیں کے کیا ٹی اینڈ ٹی میں کام کرنے والے ایسے ملازمین کیسے سول سرونٹ کی کٹیگری میں آسکتے جب کے وہ قانون کے مطابق ورک میں کی کٹیگری میں آتے تھے ۔ اس سلسلے میں میری نظروں سے چودھری مشتاق حسین کا جواب گزرا ھے جو انھوں نے عدالت میں جمع کردیا ھے ، جس میں انھوں وھی سپریم کوڑٹ مسعود بھٹی کیس ، راجہ ریاض کیس اور 12 جون 2015 کے کیسسز کا حوالہ دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ھے ۔ کے یہ سب نون گزیٹڈ ملازمین ٹی اینڈ ٹی سول سرونٹ تھے ۔ میں سمجھتا ھوں محترم چیف جسٹس صاحب اس جواب کو قبول نہیں کریں گے اور رد کردیں گے ۔ کیونکے انکے دماغ میں کچھ اور ھی ھے ۔ اور کہیں ایسا نہ ھو وہ اس کٹیگری کے ملازمین کے متعلق کوئی adverse آڑڈر پاس نہ کردیں ۔ کیونکے بقول انکے یہ مسعلہ کبھی بھی کسی عدالت میں زیر بحث ھی نہیںُ آیا چاھے کسی نے اٹھایا ھو یا نہ ھو اور انکے بقول عدالت قانون کی تشریح کرکے ہی فیصلہ دیتی ھے عدالتوں کے آڈر سے کوئی قوانین نہیں بنتے ۔ لہازا اب ھم کو قانون کے زریعے اس کو ثابت کرنا ھوگا کے یہ سب ایسے ملازمین سول سرونٹ ھی تھے نا کہ ورک مین اسلئیے ھم کو پہلے ان قوانین کا بڑی باریک بینی سے جائیزہ لینا ھوگا یعنی فیکٹری ایکٹ 1934 اور ورک مین کمپنسیشن ایکٹ 1923 کا جائیزہ لینا ھو گا کیونکے سرونٹ ایکٹ 1973 کی تعریف شق (iii)(b)2 میں یہ دی گئی ھے
(بی) "سرکاری ملازم" سے مراد وہ شخص ہے جو پاکستان سروس کا ممبر ہے یا فیڈریشن کی سول سروس کا ، یا فیڈریشن کے امور کے سلسلے میں کسی سول عہدے پر فائز ہے ، بشمول ایسی کسی بھی پوسٹ سے۔ دفاع سے، لیکن وہ شامل نہیں ھیں جو
(i) وہ شخص جو کسی بھی صوبے یا دیگر اتھارٹی سے فیڈریشن کے لئے ڈیپوٹیشن پر ہے۔
(ii) وہ شخص جو معاہدے پر ، یا کام سے چارج شدہ بنیاد پر ملازم ہے یا ہنگامی حالات سے ادائیگی کی جاتی ہے۔ یا
(iii) وہ شخص جو فیکٹریز ایکٹ ، (1934 کا XXV) ، یا ورک مین معاوضہ ایکٹ ، 1923 (1923 کا VIII) میں بیان کردہ "کارکن" یا "مزدور" ہے:
یعنی اگر کوئی شخص فیکٹریز ایکٹ ، (1934 کا XXV) ، یا ورک مین معاوضہ ایکٹ ، 1923 (1923 کا VIII) میں آتا ھے وہ گورمنٹ ادارے میں کام کرنے کے باوجود سول سرونٹ نہیں کہا جا سکتا ھے ۔اب یہ دیکھا جائیے فیکٹریز ایکٹ ، (1934 کا XXV) ، یا ورک مین معاوضہ ایکٹ ، 1923 (1923 کا VIII) میں ورک مین کی کیا تعریف کی گئی ھے اور آیا اس تعریف کے حامل ملازمین
ٹی اینڈ ٹی میں کام کررھے تھے یا نہیں ۔ فیکٹریز ایکٹ ، (1934 کا XXV) کا تو فیکٹریز کے ملازمین کے لئیے تھا اسمیں کہیں بھی ٹی اینڈ ٹی میں کام کرنے والے ملازمین کا زکر تک نہیں ھے انھی ملازمین کا تفصیل سے زکر ھے جو فیکٹریز وغیرہ میں کام کرتے ھیں ۔ مگر ورک مین کمپنسیشن ایکٹ ، 1923 (1923 کا VIII) اس کا زکر جسمیں ورک مین کی تعریف کرکے بتایا گیا ، ٹیلی گراف ڈیپاڑٹمنٹ آؤٹ ڈور کام کرنے والے اس میں آتے ھیں جو کام کے دوران کسی انجری کے دوران معاوضہ کے حقدار ھوں گے یا انکی موت کی صورت انکے وارث اس معاوضہ کے حقدار ھونگے ۔
پہلے یہ دیکھا جاتا ھے کے ورک مین کمپنسیشن ایکٹ ، 1923 (1923 کا VIII) میں ورک مین کی کیا تعریف کی گئی ھے جو اسکے سیکشن (n)(1)2 میں دی گئی ھے ۔ اس کا اردو ترجمع زیر پیش ھے
سیکشن (n)(1)2
ورک مین کا مطلب ہے کوئی بھی شخص (اس شخص کے علاوہ جس کی ملازمت معمولی نوعیت کی ہو اور جو آجر کے کاروبار یا کاروبار کے مقاصد کے علاوہ ملازمت میں ملازم ہو) جو ہے-
(i) ریلوے کا ایک ملازم جو ریلوے ایکٹ ، 1890 [17] کے سیکشن 3 میں بیان ہوا ہے ، ریلوے کے کسی انتظامی ، ضلعی یا سب ڈویژن دفتر میں مستقل طور پر ملازم نہیں ہے اور ایسی صلاحیت میں ملازم نہیں ہے جیسا کہ شیڈول ۲ میں درج ھے
اور پھر شیڈول 2 کے سیریل (xiii) اس تعریف کے حامل ورک مین اشخاض جو پوسٹ اینڈ ٹیلیگراف کے بیرونی کام کرتے ھیں تاکے انکو کسی انجری کی صورت میں یا موت کی صورت میں انکے وارثوں کو معاوضہ دیا جائیے ۔
شیڈول ۔۲
[سیکشن 2 (1) (n) ملاحظہ کریں]
ایسے افراد کی فہرست
مندرجہ ذیل افراد سیکشن 2 (1) (این) کے معنی میں کام کرنے والے ہیں اور اس سیکشن کی دفعات کے تابع ہیں ، جس کا کہنا ہے کہ ، جو بھی شخص
[173] [(i) ملازمت ، بصورت دیگر [174] [* * *] ریلوے پر ،
(xii) سیکشن 3 کی شق (4) ، اور سیکشن کے سبیکشن (1) میں بیان کردہ ریلوے پر ملازم ہے
کسی شخص کے ذریعہ ، براہ راست یا سب ٹھیکیدار کے توسط سے ، ریلوے ایکٹ ، 1890 [190] کا 148
ریلوے انتظامیہ کے ساتھ معاہدہ پورا کرنا؛ یا
(xiii) ریلوے میل سروس میں بطور انسپکٹر ، میل گارڈ ، سارٹر یا وین پیون ، یا
[191] [* * *] پوسٹس اور ٹیلی گراف محکمہ میں عام طور پر بیرونی کاموں میں ملوث کسی بھی پیشے میں ملازم؛
تو اس شیڈول ٹو سیریل ۱۳ کے مطابق انھوں نے پوسٹ اینڈ ٹییگراف کے بیرونی کاموں ( out door) میں کسی بھی پیشے میں میں کام کرنے والے ملازمین۔ کو شامل کرلیا تا کے اسکو کام کے دوران زخمی یا یا مرنے کی صورت میں اسکے لواحقین کو معاوضہ دیا جاسکے ۔ اس میں دیکھئیے اس بات کا زکر بلکل نھہیں کے وہ کس گریڈ کا ملازم ھونا چاھئیے
اگرچہ اس ورک کمپنسیشن ایکٹ ۱۹۲۳ دی گئی ورک مین کی تعریف کے حامل افراد بادئیانظر میں ٹیلیفون اینڈ ٹیلی گراف ڈیپاڑٹمنٹ میں ملازمت کرتے نظر آتے ھیں لیکن جو اسکے شیڈول ۲ میں سیریل ۱۳ ، جسمیں یہ کہا گیا پوسٹس اور ٹیلی گراف محکمہ میں عام طور پر بیرونی کاموں میں ملوث کسی بھی پیشے میں ملازم؛اسکا مطلب یہ ھوا ، جو میں سمجھتا ھوں یہ کے ٹیلی گراف اینڈ ٹیلی فون ڈیپاڑٹمنٹ کے بیرونی شعبے یعنی فیلڈ میں کام کرنے والے وہ ملازمین یعنی لائین مین ، ٹیکنیشین ، وائیرمین اور کیبل جائینٹر وغیرہ وغیرہ ورک مین کی تعریف میں آتے ھیں جنکو کام کے دوران کسی انجری کی صورت میں یا انکی موت کی صورت میں انکے dependents کو معاوضہ یعنی compensation دیا جائیے بحیثیت ورک مین تصور کرکے۔
اس سلسلے میں آپلوگوں اسٹیبلیشمنٹ ڈویژن گورمنٹ آف پاکستان راولپنڈی کی طرف سے یکم جنوری 1989 کے اس یو او نوٹ یعنی
U.O No 3/2/78-R, 2 Dated 1-1-1989
کا ریفرنس دوں گا جو انھوں نے ڈائیریکٹر جنرل ٹی ایڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ کی طرف 10 دسمبر 1988 کے اس یو او نوٹ ، کے جواب میں دیا تھا، جسکا عنوان تھا
“Clarification Civil Servant Act 1973 , Factories Act 134 and Workmen Compensation Act 1923
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن گورمنٹ آف پاکستان نے انپر یہ بات واضح کی تھی کے “ جن ملازمین کی کٹیگری ملازمین کا انھوں مزکورہ یو او نوٹ میں زکر کیا ھے وہ ورک مین / ورکر کی اس تعریف کے احاطے میں آتے ھیں جسکا زکر
Workmen Compensation Act 1923 میں کیا گیا ھے اسلئیے یہ سول سرونٹ ایکٹ 1973 کی شق (iii)(b)2 کے انڈر آتے ھیں اسلئیے وہ سول سرونٹ ایکٹ 1973 اور اس کے تحت بنائیے ھوئیے قوانین ھیں جیسے سول سرونٹ ( ای اینڈ ڈی) رولز 1973 بھی شامل ھے ، اسکے دائرہ کار ( jurisdiction) سے باھر ھوجاتے ھیں ۔ اگرچہ اس کٹیگری کے ملازمین سول سرونٹ نہیں ھوتے ، انکو سرکاری ملازم قرار دیا جاسکتا ھے کیونکے یہ گورمنٹ ڈیپاڑٹمنٹ میں کام کر رھے ھوتے ھیں ۔ مگر سرکاری ملازمین کے ناطے یہ سرکاری قوانین کے تحت ھی کام کرسکتے جیسے گورنمنٹ سروس رولز 1960 وغیرہ ، جو عام طور پر دوسرے ایسے سرکاری ملازمین پر لاگو ہوتے ہیں۔ اپنی فیلڈ ڈیوٹیز کی دوران آؤٹ ڈور کام کرتے ھوئیے ، موت ، اعضاء کو نقصان یا زخمی ھونے کی صورت میں یہ صرف کمپنسیشن ورک مین کمپنسیشن ایکٹ 1923 لینے کے حقدار ھیں “
Comments