Article-182 [ Regarding controversial of IHC order of dated 2nd Nov 2021]

 


موضوع : عنوان: اسلام آباد ہائی کورٹ کا 2 نومبر 2021 کا متنازعہ فیصلہ . . . ایک تجزیاتی قانونی تنقید


عزیز پی ٹی سی ایل ساتھیو

اسلام وعلیکم


ھو سکتا ھے   کے لوگوں کے علم میں ھو   یا نہ ھو کے اسلام آباد ھائی کوڑٹ کے ڈویژن  بینچ کا ، پی ٹی آئی اور پی ٹی سی ایل کی انٹرا کوڑٹوں پر 2 نومبر 2021 فیصلہ نہایت ھی متنازعہ ( controversial )  تھا ۔ عدلیہ کا کردار، قانون کی تشریح اور اُس کے نفاذ میں، معاشرتی نظام اور شہریوں کے درمیان انصاف کی حالت کو مستحکم رکھنے کے لئے ناگزیر ہے۔ عدالتوں کا فیصلہ نہ صرف موجودہ مقدمات کے لئے بھرپور اثر رکھتا ہے، بلکہ آئیندہ آنے والے واقعات اور قانون سازی پر ایک فیصلہ کن اثر ڈالتا ہے۔ بالخصوص، اسلام آباد ہائی کورٹ کا یہ 2 نومبر 2021 کا فیصلہ ایک منفرد مثال ہے جس کی تنقیدی جائزہ لینا نہایت ضروری ہے۔

یہ فیصلہ متنازعہ اس لئے ہوا کیونکہ اس سے متعلق حقوق، آزادیوں، اور قانون کی حکمرانی کے بنیادی اصولوں کی تشریح اور تطبیق میں نئے سوالات کی ابتدا ہوئی۔ اس فیصلے کی باریکیوں میں جائزہ لینے کا مقصد اِن سوالات کی چھان بین کرنا اور اِس بحث کو فروغ دینا ہے کہ آیا اس فیصلے کی بنیادیں قانونی اصولوں پر مضبوطی سے استوار ہیں یا نہیں۔

اس تجزیہ میں، میں اُن قانونی نکات، شواہد، اور تفسیرات پر غور کرونگا جو اِس فیصلے کو خصوصیت دیتے ہیں


2 نومبر 2021 کو اسلام آباد ھائی کوڑٹ کے ڈویژن بنچ نے جو فیصلہ سنایا جسے اس کے بعد سے پی ٹی سی ایل ملازمین کے پنشن فوائد سے متعلق حقوق اور مراعات کی تشریح کے لیے انتہائی متنازعہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے جواب میں، میں نے 26 دسمبر 2021 کو ایک تفصیلی مضمون طویل آڑٹیکل نمبر 154 بتاریخ 26 دسمبر 2021  تحریر کیا تھا اور کھل کر اس فیصلے کے ھر پیرے پر بحث کی تھی کے اس میں کیا خامیاں ھیں اور یہ کیوں متنازعہ ھے [میں نے یہ آڑٹیکل 154 دوبارا 19 جولائی 2024 کو اپنے بلگ سائیٹ پر اپلوڈ کردیا ھے اسکا لنک یہ ھے

Republish of Article -154 dated 26-12-2021, regarding controversial order 

of IHC dated the 2nd Nov 2021    ]

یہ فیصلہ جو معزز جج  جسٹس عامر فاروق  کا تحریر کیا ھے انھوں  نے اس کو اس تناظر پر  لکھا ھے  کے 7 اکتوبر  سپریم کوڑٹ  کا مسعود بھٹی و دیگران کے کیس میں جو فیصلہ دیا گیا اسکے اپیلنٹس  سول سرونٹ تھے  کیونکے انکا تعلق  گریڈ 17 اور اس سے اوپر کی پوسٹوں سے تھا ۔ اس وجہ سے سابقہ ٹی اینڈ ٹی میں کام کرنے والے صرف  گریڈ 17 یا اس سے اوپر کے ملازمین ھی سول سرونٹ کے زمرے میں آتے ھیں اسلئیے ایسے تمام ملازمین پہلے یکم جنوری 1991 کارپوریشن میں آنے کے بعد اور پھر یکم جنوری 1996 کو کمپنی میں آنے کے بعد  ریٹئیڑڈ ھونے پر وہ   اسی گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشنری بینیفٹس میں اضافے جات لینے کے حقدار ھیں  جو گورمنٹ اپنے  ریٹائیڑڈ سرکاری ملازمین کو ادا کرتی ھے بشرطیہ کے ان کی ریٹائیر منٹ نارملی طریقے ھوئی ھو یعنی بغیر وی ایس ایس آپٹ کرنے کے ۔ 

معزز   جج جسٹس عامر فاروق  اس فیصلے کے پیرا نمبر 4 میں لکھتے ھیں کے پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل کے  learned وکیل( شاھد انور باجواہ  نے  عدالت میں یہ بیان دیا تھا کے سابقہ ٹیلیفون ڈیپاڑٹمنٹ کے  تمام ملازمین کو  سپریم کورٹ نے سرونٹ اسلئیے ڈکلئیڑڈ  کیا تھا کیونکے اس کیس میں جو  اپیلنٹس تھے وہ تمام کے تمام سول سرونٹ تھے   اور اسی لئے اس مسئلے کو   ان  ملازمین میں کچھ ملازمین ورکمین تھے یا ایسے تھے جو سول سرونٹ کی تعریف میں آتے ھی نھیں تھے عدالت کے سامنے اٹھایا ھی نھیں گیا تھا [عدالت نے اسکے لئیے اس فیصلے کا ریفرنس دیا تو جو پانچ رکنی سپریم کورٹ   19 فروری 2016 میں دیا گیا ھے جو پی ٹی سی ایل اور دیگران بنام مسعود بھٹی و دیگران ( 2016SCMR1362) میں درج ھے۔ ] ۔  اسلام آباد ھائی کوڑٹ کے ڈبل بینچ  کے سامنے انکے وکیل شاھد انور باجواہ کا یہ بیان بلکل جھوٹا تھا کیونکے ان تین اپیلنٹس میں ایک اپیلنٹ سید محمد دل آویز گریڈ 5 کا ملازم تھا. وکیل شاھد انور باجواہ نے عدالت کو یہ بتایا تھا کے   سابقہ ٹیلیفون ڈیپاڑٹمنٹ میں کام کرنے والے تمام وہ ملازمین جو گریڈ 1 سے لیکر گریڈ 16 تک میں کام کرتے تھے وہ ورکمین کہلاتے تھے انکو کو ھم اسلئیے سول سرونٹ نھیں کہہ سکتے  کیونکے وہ سول سرونٹ کی تعریف میں آتے ھی نھیں تھے اسلئیے  یکم جنوری 1991 کو کارپوریشن  میں آنے کے بعد وہ تو گورمنٹ کی اس پینشنری بینیفٹس کے حقدار ھی نھیں جو وہ اپنے ریٹائیڑڈ ملازمین کو دیتی ھے انکو تو وھی پنشن دی جائگی جو کمپنی انکے لئیے منظور کریںگی ۔ اسلئیے عدالت نے اس بنیاد پر اس اس ججمنٹ کے پیرا 19 جو نتائج اخز کئیے ھیں   وہ تمام کا تمام متنازعہ ھو جاتے ھیں  اب یئ سوال یہ کے یہ کیوں ھیں اسکے جواب یہ ھیں 

ججمنٹ کے پیرا (i)19 کے میں عدالت یہ کہہ رھی ھے   سابقہ ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ وہ ملازمین جو سول سرونٹ ایکٹ 1973 کی شق(b)(1)2 کے تحت سول سرونٹ کی تعریف میں آتے ھیں اور جنکو اس ایکٹ 1973 کے سیکشن 3 سے لیکر  سیکشن 22 میں دئیے گئیے ھوئیے قوانین کی  Statutory Protection  حاصل ھے  انکو ان پینشنری بینفٹس میں اضافہ جات لینے کا حق حاصل ھے جو گورمنٹ کے سرکاری ملازمین لے رھے ھیں ما سو آئیے وہ جو وی ایس ایس آپٹ کرکے ریٹائیڑڈ ھوئیے  ھوں  اور جبکے پیرا   (ii)19  میں کہا کہا گیا ھے  کے  وہ   سابقہ ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ کے ملازمین جو سول سرونٹ ایکٹ 1973 کی شق(b)(1)2 کے تحت سول سرونٹ کی تعریف میں نھیں  آتے ھیں اور جنکو اس ایکٹ 1973 کے سیکشن 3 سے لیکر statuory prtection حاصل نھیں ھے  ، وہ اس گورمنٹ کے پینشنری بینفٹس میں اضافہ جات لینے کا حقدار نھیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ھو رھا ھے کے عدالت اس پیرا (ii)19  میں کن   سابقہ ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ کے ملازمین کو سول سرونٹ نھیں گردان رھی ھے ۔ یہ لامحالہ انکو  ھی گردان رھی  ھے جنکے لئیے پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل کے وکیل شاھد انور باجواہ یہ عدالت سے یہ جھوٹ بولا تھاکہ  گریڈ 1 سے گریڈ 16 تک ، سابقہ ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ  ملازمین  سول سرونٹ کے زمرے میں نھیں آتے کیونکے انکی یونین ھوتی ھے ۔

موصوف وکیل شاہد انور باجواہ  کا عدالت کے سامنے دیا گیا ھوا یہ بیان بلکل جھوٹا اٹھا کیونکہ مسعود بھٹی ودیگران بنام فیڈریشن آف پاکستان و دیگران کے کیس  ( 2012SCMR152) میں دو  اپیلنٹس یعنی مسعود بھٹی اور نصیرالدین غوری گریڈ 19 اور گریڈ  17 کے بالترتیب آفیسر تھے جبکے ایک  اپیلنٹ   سید محمد دل آویز  گریڈ 5  کا ملازم  تھا ۔

پی ٹی سی ایکٹ   1991 کے تحت  ظہور پزیر ھونے والی کاپوریشن سے پہلے ، ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ میں  کام کرنے والے سارے ملازمین سول سرونٹ کے  زمرے میں آتے تھے ۔ سول سرونٹ ایکٹ 1973 کا نفاذ تو ستمبر 1973 میں ھوا تھا اس سے پہلے ٹی اینڈ میں کام کرنے والے تمام ملازمین  گورمنٹ کے بی ملازم کہلائیے جاتے تھے   سول سرونٹ ایکٹ 1973  کے نفاذ کے کے بعد وہ جن  قوانین کے تحت وہ کام کررھے تھے وہ سب کے سب سرکاری قوانین ( Statutory Rules)  تھے جو سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے تحت گورمنٹ نے بنائیے  گئیے تھے جیسا کے سول سرونٹ (ای اینڈ ڈی) رولز 1973 ،سول سرونٹ (اپائینٹمنٹ، پروموشن اور ٹرانسفڑڈ) رولز 1973 وغیرہ وغیرہ اور بغیر کسی شک اور شبہ کے جو سرکاری قوانین انپر کاپوریشن میں لاگو تھے وہ بھی یہ ھی  گورمنٹ سرکاری قوانین تھے۔ یہ وضاحت مسعود بھٹی کیس ( 2012SCMR152) کے فیصلے کے پیرا نمبر 7 سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ نے کردی تھی ۔ اور پھر  سپریم کوڑٹ پانچ رکنی بینچ نے 19 فروری 2016  نے انکی رویو پٹیشن (  2016SCMR1362) پٹیشن خارج کر کے ، اپنے اس فیصلے کے پیرا نمبر 6 میں یہ کنفرم کردیا   کے کمپنی میں  کام کرنے والے  سابقہ ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ اور سابقہ کاپوریشن کے کے ملازمین کو سول سرونٹ نھیں کہا جا سکتا ھے مگر انپرسول سرونٹ   ایکٹ 1973 کے سیکشن 3 سے لیکر  سیکشن 22 میں دئیے گئیے ھوئیے قوانین کی  Statutory Protection حاصل رھے گی۔ اور ان قوانین کی خلاف ورزی پر متاثر ملازمین ھائی کوڑٹوں سے آئین کے آڑٹیکل 199 کے تحت رجوع کرسکتے ھیں ۔ یاد رھے یہ سہولت صرف گورمنٹ کے سرکاری ملازمین کو  ھی حاصل ھوتی ھے ۔  سپریم کوڑٹ نیں یہاں بھی کوئی تفریق نھیں کی کے کسکو یہ Statutory Protection حاصل تھی اور کسکو نھیں 

عدالت کے  2 نومبر 2021 کی ججمنٹ کے پیرا (iii)19  میں کہا گیا ھے کے وہ سابقہ ٹی اینڈ ٹی کے ملازمین جو ورکمین کمپنسیشن ایکٹ 1923 یا فیکٹری ایکٹ 1934 ورکر یا ورکمین کی تعریف میں آتے ھیں وہ سول سرونٹ نھیں ھوتے اسلئیے وہ  ان پینشنری بینیفٹس میں اضافے جات کے حقدار نھیں ھو سکتے جو گورمنٹ اپنے سرکاری ملازمین کو دیتی ھے۔ 

اور ھمارے جی ایم پی ٹی ای ٹی موصوف تمام گریڈ 1 لیکر گریڈ 16 تک کی پوسٹوں پر کام کرنے والے پی ٹی سی ایل پٹیشنروں کو خطوط بھیج کر اور اس پیرے  (iii)19   کو بھی تحریر کرکے بتا رھے ھیں کے ان  پینشنری بینیفٹس میں اضافے جات کے حقدار نھیں ھیں  جو گورمنٹ اپنے سرکاری ملازمین کو دیتی ھے۔ موصوف یہ سمجھ رھے ھیں ورکمین کمپنسیشن ایکٹ 1923 یا فیکٹری ایکٹ 1934 ورکر یا ورکمین کی تعریف جو دی گئی ھے وہ یہ ھی گریڈ 1 لیکر گریڈ 16 تک میں کرنے والے پٹیشنرز ھیں ۔ انکو چاھئیے تھا کے کم از کم  پہلے کمپنسیشن ایکٹ 1923 یا فیکٹری ایکٹ 1934  میں دی  ھوئی ورکر یا ورکمین تعریف تو پڑھ لیتے اور پھر ھی ایسے خطوط بھیجتے ۔ جیسا کے  میں نے اپنے آڑٹیکل 176 میں نے یہ بتایا تھا کے ورکمین کمپنسیشن ایکٹ 1923 کی  شق (ii)(n)(1)2 میں بیان کئیے گئیے Schedule-II  کے سیکشن (xiii) میں بتایا گیا ھے ٹیلیگراف اور ٹیلی فون ڈیپارٹمنٹ میں آؤٹ ڈور کرنے والے وہ ملازمین ورکر یا ورکمین کہلاتے ھیں جنکو ملازم رکھا گیا ھو   ریگولر یا عارضی  کسی کسی بھی ٹیلی گراف یا ٹیلیفون لائن یا پوسٹ یا کسی بھی اوور ہیڈ الیکٹرک لائن یا کیبل یا پوسٹ یا معیار کو قائم کرنے ، مرمت کرنے ، برقرار رکھنے یا نیچے اتارنے والے کاموں کے لئیے . تو اسکے تحت تو ٹی اینڈ ڈیپاڑٹمنٹ میں ایسے کاموں کے لئیے رکھے ھوئیے وہ ملازم آتے جنکو ڈیلی ویجز مسٹر رول پر رکھا گیا ھوں یا کسی کنٹریکٹ ایسے کاموں کے لئیے عارضی طور پر رکھا گیا ھو ۔ [ میں نے اس سلسلے میں  اسکی بڑی تفصیل اپنے آڑٹیکل نمبر 176 بتاریخ 3 جولائی 2024 میں بیان کی ھے۔ جو میرے بلاگ سائیٹ پر موجود ھے جسکا لنک یہ ھے

Article-176 [ Regarding Controversial Order of IHC of dated 02-11-2021] ]

 اس ججمنٹ کے پیرا (iv)19میں  بتایا گیا ھے کے سابقہ ٹی اینڈ ٹی کے  ملازمین کو جنکو گورمنٹ والی  سروس ٹرمز اینڈ  کنڈیشنس کا اس ایکٹ 1973 کی سیکشن 3  سے 22 تک کا  تحفظ یعنی پروٹیکشن حاصل نہیں تھا  اور سروس ٹرمز  قانونی یعنی statutory نہیں تھے ، انکی پٹیشنیں آئین کے آڑٹیکل 199 کے تحت ناقابل  عمل non maintainable ھیں ۔ مجھے اس فیصلے سے بھی اختلاف ھے کیونکے یہ میری سمجھ سے بالا تر ھے کے کن ملازمین کے لئیے فرمایا جا رھا ھے   انکو  گورمنٹ والی  سروس ٹرمز اینڈ  کنڈیشنس کا اس ایکٹ 1973 کی سیکشن 3  سے 22 تک کا  تحفظ یعنی پروٹیکشن حاصل نہیں تھا [ میں یہ سمجھتا ھوں کے انکا اشارہ پھر گریڈ 1 سے لیکر گریڈ 16 تک کے  سابقہ ٹی اینڈ ٹی کے ملازمین کی طرف ھے۔ کیونکے جو ورکمین کی تعریف میں آتے تھے انکے لئے الگ سے پیرا نمبر (iii) میں بیان گیا تھا] جبکے  سپریم کوڑٹ کے پانچ رکنی ممبر ججز نے، انکی مسعود بھٹی کیس 2012SCMR152 کے خلاف 19 فروری 2016 انکی رویو پٹیشن کے خارج ھونے والے تفصیلی فیصلے یعنی 2016SCMR1362  میں یہ بات  پوری طرح کلئیر کردی  تھی ایسے کمپنی میں کاپوریشن سے  ٹرانسفڑڈ ھونے والے ملازمین کا سٹیٹس کیا تھا جو اب کمپنی کے ملازم کہلاتے تھے۔ تفصیل اوپر بیان کرچکا ھوں 

اس ججمنٹ کے پیرا(v)19 میں کہا گیا ھے جو ملازمین پی ٹی سی ایکٹ 1991 کے بعد یعنی کارپوریشن میں بھرتی ھوئیے انپر لاگو قانون  سرکاری نھیں تھے جسطرح سابقہ ٹی اینڈ ٹی۔ ملازمین  کے تھے   جو سول سرونٹ  کی تعریف میں آتے تھے۔ اسلئیے انکی بھی درخواستیں آئین کے آڑٹیکل 199 کے تحت ھائی کوڑٹ میں ناقابل عمل یعنی non maintainable  ھیں ۔ مجھے  عدالت کی اس توجیح پر بھی بیحد اختلاف ھے کیونکے یہ سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ کی اس کی بھرپور طریقے سے وضاحت مسعود بھٹی کیس(2012SCMR152)  کے پیرا نمبر  15 میں کردی ھے   “ کے جب اپیلننٹس نے کاپوریشن کی ملازمت ختم کردی اور پی ٹی سی ایل کے  ملازم بن گئیے تو ان پر انھیں گورمنٹ  قوانین (Statutory Rules) کی  کا اطلاق ھونے جسکی پروٹیکشن میں وہ کاپوریشن میں پی ٹی سی ایکٹ 1991  تحت تھے “۔ [یاد رھے جب ٹی اینڈ ٹی کے تمام ملازمین یکم جنوری  1991 کو نئی کارپوریشن کے  ملازم بن گئیے تو انپر پی ٹی سی ایکٹ 1991 کی شق (1)9 کے تحت انھی قوانین کا اطلاق کاپوریشن میں ھوگیا جو انکی کارپوریشن میں ٹرانسفڑڈ ھونے سے فورن پہلے ھی تھا۔ یعنی کاپوریشن میں بھی وہ انھیں گورمنٹ قوانین کا اطلاق ھو رھا تھا۔ تو عدالت کا اس پیرے (v)19 میں یہ لکھنا کے   جو ملازمین پی ٹی سی ایکٹ 1991 کے بعد یعنی کارپوریشن میں بھرتی ھوئیے انپر لاگو قانون  سرکاری نھیں تھے, صحیح نھیں ھے.سپریم کوڑٹ نے مسعود بھٹی کیس(2012SCMR152) کے  اس فیصلے کے پیرا نمبر 15 میں یہ بھی واضح کردیا تھا   پی ٹی سی ایل میں بھی  انھی گورمنٹ  قوانین (Statutory Rules)  کا اطلاق ان اپیلنٹس پر ھوگا اور   پی ٹی سی ایل  کو  یہ بلکل بھی اختیار نھی ھے کے وہ اس میں کوئی ایسی تبدیلی کریں جن سے انکو فائیدہ نہ ھو۔ اور گورمنٹ کو بھی اسکی ممانعت ھے پی ٹی ( ری آرگنائزیشن ) ایکٹ کے سیکشن 35 کے تحت ۔اسی بارے میں  اسلام آباد کوڑٹ کے سنگل بینچ کے جج محترم جسٹس بابر ستار نے وسیم احمد کی رٹ پٹیشن نمبر 3757/2020 بنام فیڈریشن آف پاکستان پر  14 اکتوبر 2021 تفصیلی فیصلہ دیتے   ھوئیے ، کٹیگری 2  میں شامل ان پی ٹی سی ایل کے ریٹائیڑڈ ملازمین پٹیشنروں  کو جو پی ٹی سی میں ایکٹ 1991 کے نفاز کے بعد  کاپوریشن میں بھرتی ھوئیے ، انھیں statutory rules کا حامل قرار دیا جسطرح  کٹیگری  1 میں شامل  سابقہ ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ کو وہ ریٹائیڑڈ ملازمین پٹیشنرز شامل تھے جن پر انھی سرکاری قوانین یعنی statutory rules کا اطلاق ھوتا تھا ۔ اسلئیے  انکو بھی آئین کے آڑٹیکل 199 کے تحت ھائی کوڑٹ سے رجوع کرنے اختیار بھی  حاصل تھا۔

 پیرا(vi)19 میں  کہا گیا ھے کے سابقہ ٹی اینڈ ٹی کے وہ ملازمین  جنھوں نے اپنی رضامندی سے  اس وی ایس ایس  کو قبول کیا اور معاوضہ لیا جسکی وجہ سے سے انکی سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس تبدیل ھوگئیے اسلئی وہ گورمنٹ کی اس اعلان کردہ پنشن انکریز کے حقدار نھیں ۔مجھے اس فیصلے سے بھی بیحد اختلاف ھے۔  1998-1997  میں وی ایس ایس آپٹ کرنے والوں کو گورمنٹ  کے جو پنشنری بینیفٹس دئیے  گئیے تھے  وہ تو اس سے کہیں زیادہ تھے جو گورمنٹ اپنے سرکاری ریٹائیڑڈ ملازمین کو اس وقت دے رھی تھی۔  ان وی ای ایس ایس آپٹ کرنے والوں کو جو سالانہ پنشن میں اضافہ جات دیا جاتا تھا وہ بھی گورمنٹ کے اعلان کردہ اضافے جات کے مطابق ھی  یہ ٹرسٹ  ھر مہینے ادا کرتا تھا جسکو اس نے یکم جولائی 2010 سے دینا بند کردیا اور اور اپنی طرف سے بورڈ آف ٹرسٹیز نے، پی ٹی سی ایل کی ایما نے دینا شروع کردیا جسکا بورڈ آف ٹرسٹیز کو قانون کے مطابق بلکل بھی اختیار نھیں وہ تو صرف گورمنٹ کے اعلان کردہ ھی پنشن انکریز ز دینے کا اختیار رکھتا تھے یہ ھی وضاحت سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ نے 12 جون 2015 کی ججمنٹ میں کردی جو  2015SCMR1462 میں درج ھے یہ حکم تمام ریسپونڈنٹس  جن میں گریڈ 1 سے گریڈ 21 تک ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی بوئیے ملازمین شامل تھے جن میں اکثر   وی ایس ایس آپٹ کرکے ریٹائیڑڈ ھوئیے تھے۔ مگر ٹرسٹ نے ، سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کے 15 فروری 2018 کے احکامات کے مطابق صرف 343 ایسے پٹیشنرز کو ھی گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن اضافہ جات کے بقایا جات ادا کئیے جو صرف نارملی ریٹائیڑڈ ھوئیے تھے یعنی بغیر وی ایس آپٹ کئے ھوئیے ۔ سپریم کورٹ کے  کا دو رکنی بینچ کے 15 فروری 2018  کے یہ حکم ناقبل عمل (ultra virues) تھا کیونکے سپریم کورٹ کے  کا دو رکنی بینچ ، سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ کے 12 جون 2015 کے خلاف کیسے جاسکتا تھا جسنے تمام ریسپونڈنٹس پی ٹی سی ایل پنشنرس کو جسمیں وی ایس ایس آپٹیز بھی شامل تھے ، س کو گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن اضافہ جات دینے کا حکم دیا جو وہ اپنے ایسے ریٹائیڑڈ ملازمین کو دیتی ھے

 اس ججمنٹ کے پیرا (vii)19اس پیرے  میں  کہا گیا کے   پی ٹی سی ایکٹ 1991 کی شق (1)9 کے تحت سابقہ ٹی اینڈ ٹی سے کارپوریشن میں  ٹرانسفڑڈ ھونے والے سول سرونٹ کے زمرے میں آنے والے ملازمین وہ اس الاؤنس  اور بینفٹس کے حقدار نہیں ھیں جو  کارپوریشن میں ٹرانسفڑڈ کے وقت شامل نہیں تھے ۔ مطلب یہ ھوا انکی اس ٹرانسفڑڈ کے بعد گورمنٹ کے سول سرونٹ کو ملنے والے ان الاؤنسس  اور بینیفٹس کے حقدار نھیں ھیں جو گورمنٹ کے دیگر ڈیپاڑٹمنٹ میں کام کرنے والے سول سرونٹ کو دئیے جارھے ھیں ۔ میں سمجھتا ھوں یہ صحیح نھیں ھے کیونکے پی ٹی سی ایکٹ 1991 کی شق (1)9 کا تعلق  ان ھی سروس ٹرمز  اور کنڈیشنس کےمتعلق ,   کارپوریشن میں آنے سے فورن پہلے  انکا تھا مثلاً   The Civil Servant (E&D)rules 1973, the Civil Servants ( Appointment, Promotion and Transfer) Rules etc. جہاں تک تنخواہ اور اسکے ساتھ الاؤنسس دینے کا تھا وہ تو انکو وھی مل رھی تھیں جو انکے ٹرانسفر سے فورن پہلے انکو مل رھیں تھیں اور جو دیگر گور منٹ ڈیپاڑٹمنٹ کے سول سرونٹ لے رھے تھے اور جب بھی گورمنٹ نے انکے تنخواھوں میں اضافہ کیا اور کوئی نئیے الاؤنسس یا ایڈھاک الاؤنس دینے کا اعلان کارپوریشن میں ٹرانسفڑڈ ھوکر آنے والے ان سابقہ ٹی اینڈ ٹی میں کام کرنے والے ملازمین کو بھی ضرور دیا گیا۔ جیسے جب 1994 گورمنٹ نے اپنے سول سرونٹ کے تنخواھوں کے اسکیل ریوائیزڈ کئیے تو کارپوریشن میں کام کرنے والے ان سابقہ ٹی اینڈ ٹی کے ملازمین کے تنخواھوں کے اسکیلز ، جو گورمنٹ کے سول سرونٹ کی ھی طرح تھے ، وہ بھی ریوائیزڈ اسی طرح کردئیے گئیے ۔ جب یہ کارپوریشن کے ملازمین یکم جنوری 1996 کو کمپنی یعنی پی ٹی سی ایل میں ٹرانسفڑڈ ھوئیے اور اسکے ملازم بن گئیے تو پی ٹی سی ایل میں بھی ان کے گورمنٹ والے پے سکیلز  یکم دسمبر 2001 سے ریوائیزڈ کردئیے گئیے گورمنٹ کے اعلان کے مطابق . مگر پی ٹی سی  ایل  نے یکم جولائی 2005  گورمنٹ کے اعلان کردہ  ریوائزڈ پے اسکیلز نھیں دئیے اور اپنی طرف سے اس میں الاؤنسس لگا دئیے ۔ پی ٹی سی ایل میں موجودہ   کام کرنے والے ایسے ملازمین کو  وہ گورمنٹ کی اپنے سول سرونٹ کو دینے تنخواھیں اور متعلقہ الاؤنسس نھیں مل رھے جو گورمنٹ کے سول سرونٹ کو مل رھے ھیں ۔ جو ٹی اینڈ ٹی  کے ملازمین ، ایکٹ 1991 کے نفاذ سے پہلے  ھی ریٹائڑڈ  ھو چکے تھے انکو گورمنٹ کے پنشن فنڈ سے پنشن مل رھی تھی ، لیکن ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ کی تحلیل  ھونے کے بعد  اور کارپوریشن کی تشکیل ھونے پر  جب یہ سوال پیدا ھوا کے ان پہلے سے  ٹی اینڈ ٹی میں ریٹائڑڈ ھونے والوں کو کہاں سے پنشن دی جائیے ۔ تو حکومت نے کارپوریشن میں ایک “پنشن فنڈ “ قائیم کیا اور اسکا ٹرسٹیز کارپوریشن کے چئیرمین  اور دیگر اسکے  پانچ سنئیر ترین آفیسران کو بنایا گیا اور 2 اپریل 1994 کو ایک ٹرسٹ ڈیڈ سائین کیا گیا ۔ اس ٹرسٹ ڈیڈ کے مطابق ٹرسٹیز  یعنی کارپوریشن ان ٹی اینڈ میں ریٹائیڑڈ ھونے والے تمام ملازمین کو اور جو آئندہ  مستقبل میں ریٹائیڑڈ ھونگے انکو فیڈرل گورمنٹ کے پنشن قوانین کے مطابق حقدار ریٹائیڑڈ ملازم   کو پنشن ادا کریگا ۔ ایک اھم شرط اس ٹرسٹ ڈیڈ میں دی گئیی  ھوئی جو اسکے  preamble کے سیکشن 2 گئی ھے

مجھے یہ بات سمجھ میں نھیں  آتی کے اس 2 نومبر 2021 کی ججمنٹ میں  کیوں صرف انھی  پی ٹی سی ایل  ہنشنرس پٹیشنرس کو گورمنٹ کی اعلان کردہ  پینشنری بینیفٹس کا حقدار ٹھہرایا گیا جو ٹی اینڈ ٹی میں بطور سول سرونٹ بھرتی ھوئیے اور جن کی ریٹائیرمنٹ نارملی طریقے سے ھوئی ھو ں اور باقیوں کو کیوں ان  گورمنٹ پنشنری بینیفٹس ، اور دیگر گورمنٹ کی پنشنری بینیفٹس کی مراعات سے محروم کردیا گیا یعنی ان پٹیشنروں کو جو 

ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ  میں بطور سول سرونٹ کام تو کر رھے تھے مگر پی ٹی سی ایل  میں آنے کے بعد وی ایس آپٹ کرکے ریٹائیڑڈ ھوئیے تھے۔ ایسے پٹیشنرز بھی  جو کارپوریشن میں بھرتی ھوئی مگر انکی ریٹائیرمنٹ پی ٹی سی ایل میں آنے کے بعد نارملی یا وی ایس ایس آپٹ کرنے  کی وجہ سے ھوئی ھو ۔ سپریم کورٹ نے ابتک جو فیصلے پی ٹی سی ایل پٹیشنرز کے حق میں کئے ھیں جسکا اطلاق   کمپنی میں ایسے تمام سابقہ ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ اور کارپوریشن تمام  کام کرنے  یا ریٹائیڑڈ  پی ٹی سی ایل ملازمین پر جو یا ٹی اینڈ ٹی ڈیپڑٹمنٹ میں بھرتی ھوئیے ھوں ۔ اگر ھم  ایسے پی ٹی سی ایل ملازمین اور ریٹائیڑڈ ملازمین پٹیشنرس کے حق میں آنے والے سپریم کوڑٹ کے ان مندرجہ زیل فیصلوں کا ایک طائرانہ جائیزہ لیں ، تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ھو جاتی کے پی ٹی سی ایل میں کام کرنے والے سابقہ ٹی اینڈ ٹی اور سابقہ کارپوریشن کے ملازمین اگرچہ کمپنی کے ملازمین تھے مگر ان پر سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے قوانین کا ھی اطلاق ھورھا تھا  وہ گورمنٹ کی اعلان کردہ تنخواہ   ، پنشن اور پنشنری بینیفٹس کے  اضافے جات میں اسی طرح کے حقدار تھے  جس طرح  گورمنٹ کے سول سرونٹ حقدار تھے۔ وی ایس ایس آپٹ کرکے  ریٹئیرمنٹ کی صورت میں نہ تو انکی حیثیت بدل جاتی اور وہ کمپنی کے ملازم بن جاتے اور نہ وہ گورمنٹ کی اعلان کردہ بی پنشن لینے کے حق سے محروم ھو جاتے ۔ 

1. Masood Bhattie & Etc vs FoP& Etc  ( 2012SCMR152)

2. PTCL & Etc vs Masood Bhattie & etc  (2016SCMR1362), 

3. ‏PTET & others vs Muhammad Arif & others( 2015SCMR1472),

4. ‏Muhammad Riaz vs Federation of Pakistan ( 2015SC1783)

 

تو جو منفی فیصلہ ھائی کورٹس نے کچھ  پٹیشنروں کے خلاف دیا ھے جو ٹی اینڈ میں بھرتی ھوئیے مگر نارملی نھیں ریٹئیڑڈ ھوئیے اور کچھ وہ جو کارپوریشن میں بھرتی ھوئیے اور نارملی ریٹئیڑڑ ھوئیے ، قانون کے لحاظ سے صحیح نھیں ھے ۔ پھر ان سب کو  گورمنٹ کی اعلان کردہ ھر پینشنری بینفٹس میں دی گئی مراعات سے محروم کرنا اور ان کی کمیوٹڈ پنشن کو نہ بحال کرنا اور دوسرے دیگر الاؤنس سے محروم کرنا گورمنٹ کے مطابق ، سرا سر زیادتی ھے۔ کیونکہ  سپریم کوڑٹوں کے کسی بھی فیصلے میں اس طرح کا اظہار نھیں کیا گیا

2 نومبر 2021 کو اسلام آباد ھائی کوڑٹ  کا یہ فیصلہ اس کے نتیجے میں قانونی تنازعہ کی ایک مثال کے طور پر کھڑا ہے جس کی مکمل جانچ پڑتال کی ضرورت ہے۔ ایک گہری قانونی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ نہ صرف سپریم کورٹ کے قائم کردہ نظیر سے ہٹتا ہے بلکہ پی ٹی سی ایل کے ملازمین کے درمیان غیر مساوی سلوک کی بنیاد بھی رکھتا ہے، جو ممکنہ طور پر ایک غیر قانونی اور اخلاقی نظیر قائم کرتا ہے۔ یکساں قانون کے اطلاق کی اہمیت کو تسلیم کرنا، جیسا کہ برقرار رکھا گیا ہے. 

لہٰذا، یہ تجزیہ اسلام آباد ھائی کوڑٹ کے فیصلے کی قانونی بنیادوں اور مضمرات پر ایک تنقیدی نظر ڈالنے کی ضرورت کو ظاہر کرتا ہے، جو سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے متعین کردہ نظیر کے مطابق تمام PTCL ملازمین پر قوانین اور حقوق کے یکساں اطلاق کی وکالت کرتا ہے۔لہٰذا، یہ تجزیہ اسلام آباد ھائی کوڑٹ کے فیصلے کی قانونی بنیادوں اور مضمرات پر ایک تنقیدی نظر ڈالنے کی ضرورت کو ظاہر کرتا ہے، جو سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے متعین کردہ نظیر کے مطابق تمام PTCL ملازمین پر قوانین اور حقوق کے یکساں اطلاق کی وکالت کرتا ہے۔

مندجہ بالا بیان کئیے گئیے سپریم کوڑٹ کے  فیصلو ں ایک ھی بات مشترکہ نظر آئی کے کمپنی میں کام کرنے والے سابقہ ٹی اینڈ ٹی اور سابقہ کارپوریشن کے ملازمین سول سرونٹس کا  سٹیٹس تو نہیں رکھتے تھے  مگر وہ تمام گورمنٹ کی ، اپنے سرکاری ملازمین اور ریٹائیڑڈ ملازمین کو تںخواہ، پنشن اور اس میں دینے والی گائے بگاھے مراعات کے بلکل حقدار ھیں ۔ اور سول سرونٹ کی طرح  وہ بھی اپنے grievances دور  کرانے کے لئیے ھائی کوڑٹوں سے بھی رجوع کرنے کا  مکمل آئینی اختیار رکھتے تھے 

واسلام

محمد طارق اظہر

جنرل منیجر (ر) آپس پی ٹی سی ایل

راولپنڈی

بتاریخ 30 جولائی 2024



 

Comments

Popular posts from this blog

Article-173 Part-2 [Draft for non VSS-2008 optees PTCL retired employees]

.....آہ ماں۔

Article-170[ Regarding Article -137 Part -1 in English]