Tribute to my late father Azhar Ahmed Khan
! ! ! آہ میرے پیارے پاپا اس صبح کی حدت میرے دل سے نھیں جاتی جس صبح تیرا سایہ میرے سر سے اٹھا تھا آج 4 ستمبر 2024 ھے اور میرے پیارے عظیم پاپا کو ھم سب سے بچھڑے ھوئیے 18 برس بیت گئیے ھیں - میرے والد محترم اظہر احمد خان 4 ستمبر 2006 بروز پیر ھی صبح پانچ بجے کراچی کےلیاقت نیشنل میں انتقال فرما گئے تھے۔ اناللله وانا علىه راجعون. اپنے پیارے پاپا کی یاد کبھی بھی میرے دل سے نہیں جاتی ۔ وقت تو گزر جاتا ھے اور گزر رھا ھے لیکن میں اپنے پیارے پاپا کو ھمیشہ اپنے قریب ھی پاتا ھوں انکی دعا کرتا رھتا ھوں میرے پیارے پا پا کو اللہ غریق رحمت کرے اور کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے آمین ! ثمی آمین! کچھ لمحات ایسے ہوتے ہیں، جو زندگی میں آنا ضروری ہوتے ہیں۔اور وہی لمحات انسانی ذہین پر انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔اگر قدرت نے اس جہان میں ، امید ،صبر کی نعمت اور خوشیوں کی جھلک نہ رکھی ہوتی تو شاید دنیا کا نام جہنم پڑجاتا۔دنیا اگر چہ جہنم تو نہیں کہلاتی ، مگر میں اتنا ضرور کہوں گا کہ دنیا بہت ظالم ہے، یہی دنیا کی گردش دوراں انسان سے بہت کچھ چھین لیتی ہے، انسان کے خون کا آخری قطرہ اس کی امیدوں کا واحد محور اور اس کا آخری سہارا ، سب کچھ اسی ستم ظریف کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔نظام قدرت ہے کہ انسان کو درد اسی وقت ہوتی ہے جب اسے چوٹ لگ جاتی ہے، اور درد اسی کو ہوتی ہے ، جس کو چوٹ لگتی ہے، اور پھر یہ درد اس وقت تک باقی رھتا ہے، جب تک انسان زندہ رہتا ہے۔ کچھ لمحات اور مخصوص مواقع ایسے بھی آتے ہیں، جب زندگی کے زخموں پر پڑی ہوئی گرد کو جھاڑ کر زخموں کو پھر تازہ کر دیتے ہیں۔اور ھر 4 ستمبر کادن جب بھی آتا ھے تو پا پا کے اس جہان فانی سے جہان ابدی جانے کا زخم تازہ ھو جاتا ھے ان کی یادیں اور ان کی جدائی کا درد آج بھی تازہ ہے۔ آج بھی میرا دل نوحہ کناں ہے، آج بھی اشک اور آہیں تنہائی کے لمحوں میں صبرو اتقامت کے بندتوڑ کر بہہ نکلتے ہیں۔آج بھی ان کی نصیحتیں میرے کانوں میں گونج اٹھتی ہیں۔آج بھی ان کا عکس میر ی تر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔اور آج بھی مجھے ان کی یاد خوب رلاتی رھتی ہے۔میرے پاپا کس قدر عظیم انسان تھے یہ کوئی میرے دل سے پوچھے . جنھوں نے ایک کلرک کی معمولی سی نوکری کے باوجود اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے میں کسی قسم کمی کبھی محسوس نہیں ھونے دی - ھم سب کو تعلیم کی بیش قیمت سے نوزا . جن کا خواب تھا کے میں ایک انجینئر بنوں انھوں نے اپنی اس خواھش کو پورا کرنے کے لئے دن رات محنت کی آفس س آنے کے بعد شام کو اپنی سائیکل پر بٹوے پرس ، بیگز اور دوسرا متفرق سامان بازار بیچنے نکل جاتے پشاور شہر اور صدر میں دوکانوں پر وہ یہ سپلائی کرتے اور پھر بعد میں ھر دوکان میں جا جا کر وہ رقم وصول کرتے . جب میں نے دسمبر 1974 انجینئرنگ کالج پشاور یونورسٹی سے بی ایس سی انجینئرنگ الیکٹریکل کا امتحان بیحد امتیازی نمبرز فرسٹ ڈویژن "With Honour "کے ساتھ پاس کیا تو انکی خوشی دیدنی تھی . اور وہ اس رزلٹ والے دن مجھ سے لپٹ کر خوشی میں پھوٹ پھوٹ کر روئیے اور مجھےلپٹا کر بیحد پیار کرتے جاتے۔ کچھ دنو ں بعد انھوں نے مجھے چارسو روپے اپنی ڈبڈبائی آنکھوں سے دیتے ھوئے کہا " بیٹا یہ میرے پاس اسوقت کل پونجی ھے یہ رقم میں نے الگ جمع صرف اسلئے جمع کی تھی کے میں تم کو دوں گا تاکے تم اپنے لئے ایک نیاسوٹ بنوالو جسکی تمھیں اب انٹرویوز میں ضرورت پڑے گی" . مجھے رزلٹ کے ایک مہینے بعد ھی پی ٹی وی میں بہت اچھی ایک بیحد اچھی تنخواہ پر نوکری مل گئی پھر میں نے ایک سال کے بعد فیڈرل پبلک سروس کا امتحان پاس کرلیا اور مجھے ٹی اینڈ ٹی میں 31 جولائی 1977کو فرسٹ کلاس گڑٹڈ آفیسر گریڈ 17 بطور اسٹنٹ ڈویژنل انجنئیر کی نوکری مل گئی اور یوں میرے پا پا کا خواب شرمندہ تعبیر ھوا جنکی خواھش تھی کے میں گورنمنٹ کی سول سروس اختیار کروں . پھر میں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور آگے ھی بڑھتا گیا . میں نے پا پا وقت سے پہلے ریٹائڑ کروادیا تاکے جو انھوں نے میرے لئے دن رات محنت کی تھی وہ اس کے ثمر سے مستفید ھوں .انسے میں نے کہا آپ نے جو مجنت کی اور مجھے اس قابل بنایا ھے اسلئے اب آپ آرام کریں اور جو بیج آپنے بویا تھا اب اسکےپھل کے ثمر سے لطف اندوز ھونے کا وقت آیا ھے .مجھے اس بات پر بیحد فخر ھے کے میں نے اپنے والدین کا بڑھاپا بڑے پرسکون انداز میں گزروایا . یہ میرے والدین کی دعائیں ھی تھیں کے جس نے مجھے اس مقام تک پہنچایا اور اللہ نے مجھے ھر اس نعمت اور عزت سے نوزا جسکی میں خواھش رکھتا تھا . میں اپنے رب کا جس قدر بھی شکر ادا کروں کم ھے . میرے پاپا اکثر بڑے فخریہ انداز میں یہ کہتے تھے کے انکا بڑھاپا بڑے سکون سے گزر رھا ھے اور جو انھوں نے محنت کی تھی اسکا ثمر انکو بڑے اچھے طریقے سے مل رھا ھے. وہ پیکرتھا وفاوں کا، محبت کا خدا تھا وە شخص میرے لیےسارے زمانے سے جدا تھا چاھت کے خزانے تھےہر لفظ میں اس کے دامن کو میرےاس نے دعاوں سے بھرا تھا اس صبح کی حدت مرے دل سے نہیں جاتی جس صبح تراسایہ میرے سر سے اٹھا تھا پرانا سال جانے پر نیا اک سال آنے پر گزشتہ برسوں سے مجھے تم یاد بہت آتے ہو پاپا! ہمیشہ یاد آؤ گے۔۔۔! یاد سے تیری دلِ درد آشنا معمور ہےجیسے کعبے میں دعائوں سے فضا معمور ہے میری تمام فیس بک ، واٹس ایپس دوستوں اور احباب و رشتہ داروں سے التماس ہے میرے والد صاحب کے لئے فاتحہ اور درودِ پاک پڑھکر ایصال ثواب فرمائیں۔ان سب کی عین نوازش ھو گی.شکریہ نیازمند محمد طارق اظہر بروز بدھ 4 ستمبر 2024 راولپنڈی میرے پیارے پاپا اظہر احمد خان (مرحوم) (1922-2006) 
Sent from Rawalpindi Pakistan via iPad
Comments