Tribute to my Late mother Tahira Khatoon
مرحومہ والدہ ماجدہ طاھرہ خاتون [1931-2010]
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
Tribute
آہ میری پیاری ماں!!!!
سب کی طرح میری بھی ایک ماں تھی .. . میری جان سے پیاری امی جان جو آج سے ٹھیک 14سال پہلے یعنی ۱۹ستمبر ۲۰۱۰ علی الصبح بروز اتوار , میری زندگی کی سب سے عظیم ہستی اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔اناللله وانا علىه راجعون . اور یہ راقم اکیلا رہ گیا میری والدہ محترمہ ایک عظیم شخصیت کی مالک اور نماز روزے کی انتہائی پابند تھیں۔ ماں تو سب کو پیاری ھوتی ھیں کیونکے یہ وہ عظیم ھستی ھوتی ھیں جن کے پاؤں کے نیچے اللہ تعالی نے جنت رکھی ھے . . میری ماں بھی ایک اسی طرح کی عظیم ھستی تھیں جہاں وہ ایک طرف اپنے شوھر کی خدمت کرنے والی بےلوث بیوی تو دوسری طرف اپنی اولاد سے بیحد محبت کرنے والی اور انکی تربیت کرنے والی بہترین ماں تھیں .مجھے یہ میری ماں ایک غیر معمولی صلاحیت کی مالک اور بہت قابل عورت تھیں اگرچہ وہ پرانے زمانے کی صرف ساتویں جماعت پاس تھیں مگر اپنی قابلیت کی بنا پر اچھے سے اچھوں سے مقابلہ کرنے کا ھنر رکھتی تھیں جہاں وہ ایک بہترین امور خانہ داری کی ماہر تھیں وہاں دوسری ایک بیحد قابل خاتون تھیں. ایسی کےھر ایک انکی تعلیمی قابلیت سے متعرف تھا. وہ اردو ادب، تاریخی اور اسلامی معلومات میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھیں یہ بات مجھے بتاتے ھوۓ فخر محسوس ھورھا ھے کے میری ماں بیحد قابل عورت تھیں .مجھے اچھی طرح یاد ھے انھوں نے اپنے خالہ زاد بہن کو جو 1964 میں ایم اے اردو پرائیٹولی پشاور یونیورسٹی سے ایم اے اردو کرنے ھمارے گھر پشاور آئی ھوئی تھیں ، ان کو میری والدہ پڑھایا کرتی تھیں اور انکی ان خالہ زاد بہن نے ایم اے اردو امتیازی نمبروں سے پاس کیا . میری والدہ جہاں تاریخی اور اسلامی تاریخ بیحد آشکارا تھیں وھیں وہ اردو شاعری سے بیحد رغبت رکھتی تھیں انکو تقریبن اردو کے تمام بڑے بڑے شاعروں کے حالت زند گی اور انکی شاعری سے بیحد واقف تھیں .انکو شاعروں میں علامہ اقبال، جوش، حالی اور حفیظ جالندھری میں بیحد پسند تھے. انکو حالی کی مسدس حالی، علامہ اقبال کا شکوہ جواب شکوہ، حفیظ جالندھری کا شاہنامہ اسلام اور خاصکر جوش کی نظم "اے ھٹلر اعظم تجھے سلام ( اس نظم پر جوش کو جیل ھوگئی تھی) اور جوش کی ہی ایک مشھور نظم "جنگل کی شہزادی . . " زبانی یاد تھیں بلکے آخری بڑھاپے تک یاد تھیں . میری ابتدائی تعلیم میں انکا بہت ھی بڑا حصہ ھے .میں چونکے اولاد اکبر تھا تو انھوں نے مجھے ہر طرح کے اسلامی نمود اور اسلامی تعلیمات معلومات سے آگاہ کیا.میں بہت ہی چھوٹی عمر میں ان اسلامی معلومات سے آشکارا ھوچکا تھا .مجھے یاد نہیں کے میں نے اردو پڑھنا کب سیکھی ھے جو مجھے میری والدہ نے سکھائی تھی بس اتنا دھندلا سا یاد ھے شائید چار یا پانچ سال کی عمر سے جب میں اردو اخبار انجام میں روزانہ ابن حسن نگار کی روزانہ لکھی ھوئی قسط وار کہانی پڑھتا تھا .میری والدہ نے ھی مجھے شروع سے اردو گرائمر اور مضمون اور کہانی اور مضمون لکھنے کے اسلوب سکھاۓ تھے . انھی کی محنت کی وجہ سے میں نے چھ سال کی عمر میں قرآن شریف ختم کرلیا تھا .ایف ایس سی میں اردو جو ایک لازمی مضمون تھا ، انھيں سے میں پڑھا تھا اور انھوں نے اس اردو میں شاعروں کے حالات زندگی انکی شاعری اور غزلوں کی تشریحات اس خوبصورتی او تفصیل سے بیان کئے جو مجھے ابتک یاد ھیں اور انھی کی اس محنت کا ثمر ملا کے میرے ایف ایس سی کے اردو کے پرچے میں 80% سے زیادہ نمبر آۓ تھے جس کی وجہ سے میری ڈویژن بہت اچھی آئی اور میرے ایف ایس سی میں نہایت اچھے نمبر آۓ بلکے فرسٹ ڈویژن سے اچھے نمبر تھے اور یوں مجھے بڑی آسانی سے انجینئرنگ کالج پشاور ینورسٹی میں اس وقت کی پسندیدہ برانچ الیکٹریکل میں داخلہ ملگیا. غرض یہ میری والدہ نے میری بیحد مددکی اور انھی کی محنت اور دعاؤں کی بدولت میں اس مقام تک پہنچا .انکی مجھکو سب سے بڑی نصیحت یہ تھی کے " بیٹا دل لگا کر محنت کیا کرو جتنی کرسکتے ھو کرو اور نتیجہ خدا پر چھوڑ دو اور دعا کرتے رھو .بیشک خدا اس محنت کا بیحد اچھا صلہ دیتا ھے جو تمہارے حق میں بہتر ھو. ھمیشہ اسی کی زات پر بھروسہ رکھو". جو کام کرو اصولوں اور قانون کی بنیاد پر کرو اور کبھی نہ گھبراؤ کیونکے ایسے کام کرنے پر ھمیشہ خدا تمھارے ساتھ ھوگا". اور میں نے ھمیشہ اپنی والدہ کے بتاۓ ھوئے ان اصولو ں کی بنیاد پر دبنگ ھوکر کر کام کیا.اسی وجہ سے مجھے نوکری میں بیحد مشکلات کا ساما کرنا پڑا کیونکے میں کبھی کسی کی کا دیا ھوا غلط حکم نہیں مانتا تھا اور وھی کرتا تھا جو قانون اور اصولوں کی کسوٹی پر صحیح ھوتا تھا کیونکے میں جانتا تھا میں حق پر ھوں اور میری ماں کی دعائیں میرے ساتھ ھیں. اللہ کا شکر ھے کے ماں کی انھی دعاؤں کی بدولت اللہ نے مجھے ھمیشہ سرخروکیا اور اس عظيم مقام تک پہنچایا. والدہ کے وفات کے بعد میں اپنے آپ کو بہت ھی تنہا محسوس کرتا ہوں کیونکہ مجھ سے میری ایک عزیز دوست اور محبت کرنے والی ہستی جدا ہوگئی ہے، مجھے پیار کرنے والے لب، دعاﺅں کیلئے اٹھنے والے ہاتھ اب اس دنیا میں نہیں رہے اور وہ چھتری جو ہر وقت میرے سر پر سایہ رحمت کی طرح رہتی تھی مجھ سے چھن گئی ہے
آہ . . . اے میری پیاری ماں!!! ذرد پتوں کے موسم میں جدا ہوئی تھی
اَب بھی تیری یاد ستاتی ہے مجھے
تیرے آنسوؤں کی اِک اِک فریاد نظر آتی ہے
مجھے تیرے اُن سب سجدوں کی آہٹ تیرے چہرے پہ وضو کے قطرے ہر بات تیری خوشنودی میں ڈوبی
میرے کانوں میں ابھی بھی بج اُٹھتی ہے
تسبیح سے گرتے دانوں میں حُو کی صدا تیری کروٹ بدلنے کی بے چینیاں بستر پہ پڑی سلوٹوں
میں تیری رچی ہوئی خوشبو۔۔۔۔۔۔۔ ہر پَل یاد تیری دِلاتی ہے ۔۔۔
پھر وہی یاد بہت رولاتی ہے مجھے ۔۔
تُو پلکیں بچھائے رہتی تھی میری راہوں میں
میری تو تقدیر ہی بدل ڈالی تھی
تیری دعاؤں نے جدائی کے پَل برسوں کی شاخوں پَر کبھی پھول اور کبھی کانٹے بن جاتے ہیں
تیری گود کی گرمی مگر پھر بھی چھین پاتے ہی نہیں مجھ سے ہر سال ہی یادیں اُداسیوں میں جکڑ لیتی ہیں
جدائی کے سب زخم آنکھوں میں اُتر آتے ہیں
جھونکے تیری یاد کے اے ماں ؔ کرتے ہیں ایسے مجھے اَفسردہ نہیں رُکتے پھر
اَبر چشم سے ہو جاتا ہوں پھر ایسے غمزدہ میں
آج بھی سارے لمحے تیرے نام کرتاہوں
جومحبت دی تھی تُم نے مجھ کومیں آج بھی احترام کرتا ہوں
میرے نبی کا فرماں یہی ہے ماں ؔ
خیرو رحمت کی دعا کرتا ہوں
تیری مغفرت و بخشش کی طالب ہوں
سارے غم ہجر کے ،وہ سارے آنسو جو اس برس بھی چھپا رکھے تھے
میں نے آج پھر اے ماں ؔ تجھے سُنا ڈالے میں نے
جدائی کے زخم مجھ کو رُلاتے ہی رہیں گے
زرد پتوں کے موسم ہر سال آتے رہیں گے.
میں اپنے تمام عظیم فیس بک واٹس ایپس کے دوستوں، اور اپنے عزیز رشتہ داروں احباب سے التماس کرتا ھوں کے وہ میری والدہ ماجدہ مرحومہ کے لئے فاتحہ خوانی اور درودِ پاک ایصال ثواب فرمائین۔ان سب کی عین نوازش ھو گی.
دلی مشکور ھونگا.
نيازمند محمد طارق اظہر
19 ستمبر 2024
بروز جمعرات
Sent from Rawalpindi Pakistan via iPad
Comments