My Hajj .Part-1

 حج( پاڑٹ 1)


نوٹ: پچھلے سال  جون 2024 میں میں نے اپنے  1995 میں اچانک حج پر جانے کی کی روداد بیان کی تھی ، اسپیشل آڑٹیکل کے دو پاڑٹس میں ، وھی اب دوبارا آپ لوگوں سے شئیر کرنا ھوں تاکے میرے  اسکے بعد نئے  آنے فیسبک  فرینڈز   اس سے آگاہ ھو سکیں ۔

شکریہ

( طارق)

بروزجمعہ

۷جون ۲۰۲۵

 


اسپیشل آڑٹیکل  ( پاڑٹ -1)

میرے حج پر  اچانک جانے کی روداد۔


نوٹ: مئی ۱۹۹۵ میں مجھ کو اچانک حج کرنے کی اللہ تعالی نے سعادت فرمائی.جو میرے وھم ھمان میں بھی نہیں  تھی کے مجھے  ایسا موقع اچانک حج  کرنے کا ملے گا اس لئیے میں اپنے رب کریم کا جتنا شکر ں وہ بیحد کم ھے ۔ کسطرح مجھے حج پر جانے کی اجازت ملی اور کسطح حج پر جانے سے پہلے کیا کیا مراحل آئیے اور  حج کے دوران کیا واقعات پیش آئیے کسطرح حج کیاگیا اور کسطرح میری عرفات میں مانگی ھوئی اچانک دعا کا اثر اللہ نے مجھے فورن ھی دکھادیا۔

   ان سب کی    روداد لے کر میں  آپ لوگوں کی خدمت میں  حاضر ھوا ھوں  ۔ اسکے   دو پاڑٹس میں ھے ۔ گزارش  آپ لوگ ان دونوں پاڑٹس کو  ضرور   مکمل مفصل پڑھئیے گا امید آپ لوگ ضرور محظوظ ھوں گے۔    اپنی رائیے سے  ضرور نوازئیے گا۔ شکریہ

(طارق)


عنوان :-جاتے ھیں وھی ،  آتے ھیں  جنکے بلاوے . . . 


میں ان دنوں ڈائریکٹر فون حیدرآباد کی پوسٹ پر یکم مئی ۱۹۹۴ پر گریڈ ۱۹  پر پروموشن کے بعد تعنیات تھا ، جب مجھے ۱۵ فروری ۱۹۹۵ کی شام  پی ٹی سی   ھیڈ کواٹر اسلام آباد سے میرے نام ٹیلیکس موصول ھوا اور اطلاع دی گئی کے میرا نام  فرانس  میں دو ھفتے کے کورس پر جانے کے لئیے سیلیکٹ ھو گیا ھے ۔ اور کہا  کے پاسپورٹ اور دیگر ڈیکومنٹس فورن بھیجے جائیں ۔یہ کورس  فرانس کی کمپنی Alcatel کی طرف سے ھورھا تھا ۔  جس سے پاکستان میں ڈیجیٹل ایکسچینجز لگانے کا معاھدہ ھوا تھا اور یہ  متعلقہ  کورس دو ھفتے کا پی ٹی سی کے آفیسران گریڈ ۱۹  اور انسے اوپر  یعنی  صرف ڈائیریکٹرز پی ٹی سی ایل جنرل منیجرز ، چیف انجینئیر ز    کے لئیے تھا۔جن کے لئیے وہ  متعلقہ دو ھفتوں کا کورس فرانس کے شھر Layon   کورس میں ھونا تھا، وہ  اسی معاھدے  کنڑیکٹ کی   ایک کڑی تھی ۔ میری فیملی  کراچی میں ھی  سرکاری بنگلہ پی ٹی سی ایل آفیسر کالونی   وائیرلیس کمپاؤنڈ نزد جناح ھسپتال   میں  ھی مقیم تھی اور میں  حیدرآباد خود وھاں اکیلا  پی ٹی سی ریسٹ ھاؤس میں مقیم  تھا ۔ ٹیلیکس پڑھتے ھی میں نے فورن اپنے ڈرائیور ملوک کو کراچی   دوڑایا وہ وھاں  گھر سے میرا گیریٹس پاسپورٹ (سرکاری پاسپوڑٹ ) لیکر آئیے جو گورمنٹ نے مجھے میرے مئی 1988 میں  جاپان جائیکا کے کورس پر جانے کے لئیے ایشو کیا تھا  جو چھ ماہ کے عرصے کے لئیے تھا ۔ حیدرآباد سے کراچی میرے گھر تک کا فاصلہ تقریبن ڈھائی گھنٹے کا تھا ۔ رات گئیے  ملوک ڈرائیور وہ پاسپورٹ لیکر آگیا تھا ۔ پاسپوڑٹ  تو کب کا ایکسپائیڑڈ ھو چکا تھا۔ صبح ھوتے ھی وہ پاسپوڑٹ ، اس ڈی ای فون کو بلاکر دیا جسکے حلقے  میں پاسپوڑٹ آفس تھا تاکے وہ اپنے اثر او رسوخ کی بنا پر  نیا پرائویٹ  پاسپوڑٹ جلد ایشو کراسکے ۔ وہ مجھے اپنے ساتھ لے گیا  جہاں میں نے  ارجنٹ نئیے پاسپوڑٹ کی درخواست دی  اور اسکی فیس ادا کی ۔ دوسرے دن ھی مجھے نیا پاسپوڑٹ مل گیا جو میں نے اور مطلقہ ڈیکومنٹس کے ساتھ  بزریعہ ٹی سی ایس پی ٹی سی  ھیڈ کواٹر اسلام آباد کو اسی دن   ھی بھیج دیا  ۔پاکستان بھر سے ایسے سیلیکٹ ھونے والے آفیسران  کو ICT کی لوکل   ٹریننگ کے  لئیے مارچ 1995 کے پہلے ھفتے اسلام آباد  جانا پڑا ۔    جہاں سے ھم نے  پی ٹی سی ایل  ٹریننگ کالج  اسلام آباد میں  دو ھفتے کینICT ٹریننگ کرکے 24 مارچ کو واپس آنا تھا ۔ اسلام آباد جاکر معلوم ھوا دو ھفتے کے کورسس کے لئیے 14, 14 ایسے آفیسران کے  تین گروپس بنائیے گئیے ھیں  A,B and C ھر گروپ ۔  اسلام آباد میں   تمام گروپس کے ممبران کو فرانس جانے  کا پروگرام  بتایا گیا ۔  ھمارے گروپ B کا پروگرام 14 اپریل 1995 کو  فرانس جانے  کا تھا۔  اور واپسی 26 اپریل  کو ھونا تھی۔  جبکے A گروپ کو 28 مارچ اور واپسی 14 اپریل اور گروپ C کو 27 اپریل کو واپسی 10 مئی کو ھونے کو تھی ۔اسلام آباد میں ٹریننگ کے دوران ،   جب اسکو ختم ھونے میں   صرف چند دن ھی رہ گئیے ھونگے ھم کو معلوم ھوا کے ھمارا گروپ B  اب پہلے گروپ A کی جگہ  28 مارچ کو فرانس جائیے گا اور گروپ A اب ھماری جگہ 14 اپریل کو فرانس جائیےگا ۔  اسکی وجہ یہ بنی  کے گروپ A   کے انچارج محترم خالد بٹ صاحب چیف انجئنئر (ایم اینڈ او) جو اس پروجیکٹ کے انچارج تھے انھوں نے بوجہ سرکاری مصروفیات کی زیادتی کی وجہ اپنے گروپ A کے فرانس  جانے کا پروگرام بجائیے ۲۸ مارچ کے ۱۳ اپریل رکھ لئیا ۔اور ھمارے گروپ B کا ۲۸ مارچ کو ۔جب مجھے معلوم ھوا کے ھمارے گروپ کو  اب 28 مارچ کو جانا پڑے  تو ایک دن ٹریننگ کے دوران وقت نکال کر سیدھا پی ٹی سی ھیڈکواٹر جاکر  ڈائیریکٹر کوآڑڈینیشن سرور خان صاحب   کے آفس پہنچا۔ سرور خان صاحب  میرے بیج میٹ بھی تھے ۔ وہ اس  تمام  فرانس دورے کے کوآرڈینیٹر بھی تھے  انکا کام  گروپ ممبران کے لئے ویزا اور ٹکٹیں وغیرہ ارینج کرنا تھا۔  میں نے ان سے درخواست کیا کے فرانس سے  کراچی واپسی کا ٹکٹ براستہ جدہ بنوائیں تاکے  جدہ ٹرانزٹ کے دوران  وھاں سے عمرہ کرنے کی سعادت حاصل کرسکوں جو میری بیحد دیرینہ خواہش تھی  ۔ وہ میری بات سن کر  ھنسنے لگے کہنے لگے طارق تم اب عمرہ نہیں کرسکتے کیونکے  تم کو عمرہ کا ویزہ نھیں مل سکتا کیونکے حج کا سیزن شروع ھوچکا  ھے اور فلائیٹیں  بھی  حاجیوں کو لیکر سعودی عرب  جانے لگی ھیں  ۔ یہ سن کر میں بیحد بددول  ھوا  اور میرے چہرے کا رنگ اتر گیا۔ میری صورت دیکھتے ھوئیے انھوں نے کہا ھاں البتہ تم حج کرسکتے ھو ۔میں نے  فرط حیرت سے کہا وہ کیسے . . کیا یہ ممکن ھے ۔ اب اسوقت مجھے حج کا ویزا  کسے مل سکتا  ھے پاکستان میں  جنکو کوٹے کے مطابق ملنا تھا مل چکا ھے اور وہ وھاں جانے بھی لگے ھیں ۔ یہ کیسے ممکن ھوسکتا ھے جبکے اسوقت پاکستان میں  اسوقت ویزہ ملنے کوئی چانس  نہیں ھے ۔ انھوں نے کہا یہ ٹھیک پاکستان سے تو اب تمکو ویزا ملنا ناممکنات میں سے ھے . . . ھاں مگر تم کو پیرس فرانس سے مل سکتا ھے جہاں تم لوگ جارھے ھو۔ اکثر مل جاتا ھے ۔ بس یہ سعودیوں کے موڈ پر بھی ھوتا ھے کسی کو دے دیتے ھیں اور کسی کو نہیں دیتے۔ تم اللہ کانام لیکر حج کا ارادہ کرلو میں تمھارے لئیے  ایسا ھی واپسی کا ٹکٹ بنوادوں گا ۔ میں نے سرور خان کا شکریہ ادا کیا اور حج پر جانے کی نیت کرلی۔ اس دن تاریخ شائید 21 یا 22 مارچ تھی 25 مارچ کو  سب کو وھاں سے ٹریننگ کے بعد واپس  جانا تھا۔  اور مجھے کراچی آنا تھا۔ اور صرف فرانس جانے میں تین دن ھی رہ جاتے تھے ۔ میں نے اسی دن  گھر فون کیا اور بیگم کو اسکے متعلق بتایا کے میں انشاللہ واپسی پر حج کرکے آؤں گا تم دعا کرو کے مجھے فرانس سے حج کا ویزا مل جائیے ۔ اور انکو کہا تم خالد  ( میرا چھوٹا بھائی ) سے کہکر میرے لئیے احرام کے دو جوڑے اور دیگر چیزیں جو حج پر لے جانے کے لئیے ضروری ھوتی ھیں وہ منگوالو ۔ میں 25 مارچ کو کراچی پہنچا ۔ ادھر سارے خاندان والوں اور  بھائیوں اور والدین کو  جو نارتھ کراچی  میں رھتے تھے, ان سب کو میرے حج پر جانے کی اطلاع دے دی گئی ۔ وہ تمام لوگ مجھ سے ملنے آنے لگے۔  یہ ایک قاعدہ جو حج پر جاتے ھیں تو انسے ملنے انکے رشتے دار دوست اور احباب ضرور ملنے آتے ھی ۔ مجھےمبارکباد  دینے لوگ مجھ سے ملنے آرھے تھے اور مجھے حج پر جانے کی مبارکباد دے رھے تھے ۔ مگر میرے دل میں ایک کسک تھی  . . ایک خدشہ تھا کے کیا مجھے فرانس سے  حج پر جانے کا ویزہ کیا مل سکتا ھے  ؟ یا نہیں ۔ میرا ایمان تھا کے جب تک اللہ کی طرف سے حج پر جانے کا بلاوہ  نہ آجائیے مجھے  حج کا ویزہ نہیں مل سکتا۔  اور شائید اللہ نے یہ اسباب پیدا کردئیے ھیں اسلئیے مجھے حج کا ویزہ بھی انشااللہ ضرور مل جائیے گا۔ میں امید اور نامید کی کوہ مکو میں تھا اسلئیے میں   اپنے اللہ سے دل کی گہرائیوں سے  ھر وقت یہ ھی دعا کئیے جارھا  تھا   وہ  مجھے جج کرنے کی سعادت عطا فرمادے اور  اپنے گھر بلانے مجھے حج کا ویزہ  فرانس  میں سعودی ایمبیسی سے دلا دے ۔ ۲۸  مارچ کی  صبح  4 بجے کو ھم 14 ممبران گروپ بی  ٹرکش  ائیر لائینز سے  کراچی  سےاستنبول روانہ ھوئیے ۔اور پھر وھاں ائیر فرانس کی فلائیٹ سے پیرس فرانس جانا تھا  ۔جن گروپ ممبران تعلق سے تھا وہ سب رات نوبجے کی اسلام آباد سے کراچی پی آئی اے کی فلائیٹ سے   کراچی  ائیر پوڑٹ پہنچ گئیےتھےمگر  ایک  گروپ ممبر عنایت اللہ  صاحب جو لاھور سے آرھے تھے وہ وقت ہر کراچی  پہنچ سکے تھے اور ٹھیک اسوقت پہنچے جب ھم سب لوگ جہاز میں بیٹھ چکے تھے اور فلائیٹ کی روانگی میں دس منٹ کا وقت رہ گیا تھا۔ وہ پی آئی اے کی فلائیٹ کی  

لا ھور سے لیٹ روانگی کے سبب ٹائیم پر نہ پہنچ سکے تھے۔ شکر ھے کے وہ پہنچ گئیے ورنہ ھم لوگ سمجھ رھے تھے کے عنایت اللہ صاحب رہ گئیے ھیں ۔  جیسا کے اوپر میں نے بتایا کے ھم ٹرکش ائیر لائنز سے پہلے استنبول جارھے تھے  وھاں  سے  ھم کو فرانس ائیرلائینز کی فلائیٹ سے پیرس  فرانس جانا تھا ۔ تقریبن  چھ گھنٹے کی فلائیٹ   کے بعد ھم لوگ ترکی کے وقت کے مطابق صبح  8 بجے  بوقت (پاکستانی 10 بجے )استنبول ائرپوڑٹ  پہنچے   ۔ ھم کو کراچی ھی سے ڈائیریکٹ پیرس تک کا بوڑڈنگ کاڑڈ ملا تھا ۔ استنبول میں ھمارا  سامان ائر فرانس کے  اس جہاز میں شفٹ ھونا تھا جس کے زرئعے ھم کو پیرس فرانس جانا تھا۔ استنبول ائیر پوڑٹ پر ھمارا قیام تقریبن ڈھائی گھنٹے کا تھا ۔ ھم لوگ ٹرازٹ لاؤنج میں  بیٹھے تھے  کے ایک شخض ھمارے پاس بھاگتا  ھوا آیا ۔اسکی وردی سے معلوم ھوا کے وہ ائیرلائنز فرانس کا کوئی ملازم ھے۔ اسنے آکر ھمیں بتا یا کے ھم لوگوں کا سامان کراچی سے نھیں آیا لگتا ھے ۔ جو سامان آیا ھے اسکو آکر چیک کرلیں کے اس میں آپکا سامان ھے یا نھیں کیونکے جو سامان آیا تھا اسکو انھوں نے ائیر فرانس  کے اس جہاز میں رکھنا ھے جو ھم کو پیرس فرانس لیکر جائیگا ۔جب  ھم سب نے جاکر باھر رکھا ھوا سامان چیک کیا  تو کسی کا سامان نھیں آیا تھا سوائیے میرے سامان کے جو ایک بڑی اٹیچی پر مشتمل تھا۔ میں نے اشارے سے بتا دیا جو انھوں نے فرانس ائیر لائینز کے جہاز میں رکھ دیا ۔ اور میرے دوسرے ساتھی بہت  پریشان ھوئیے کیونکے جو سامان کراچی رہ گیا تگا اس میں انکے سبکے کپڑے وغیرہ تھے اور وہ ہریشان تھے کے وہ اب کیا کپڑے پہن کر رات کو سوئیں گے کیونکے ایسا معلوم ھوتا تھا کے شائید کسی نے بھی کپڑوں کا ایک جوڑا بھی سونے کے لئیے نھیں رکھے تھے ۔میری تو ھمیشہ سے ایک عادت رھی کے جب بھی میں فلائیٹ کے زریعے کہں بھی جاتا تھا ھمیشہ میرے ھینڈ کیری میں ایک شلوار ، قمیض کا جوڑا  فالتو ضرور رکھتا تھا۔ خیر اسوقت تو میرا ھی صرف اٹیچی کیس آیا تھا.   سب حیران تھے کے میرا سامان ھی  صرف کیوں کر آیا  اور انکا کیوں نھیں جبکے سب نے اسی فلائیٹ میں میرے ساتھ  بوڑڈنگ کاڑڈ لیتے ھوئیے اپنا سامان بک کرایا اور ٹیگ بھی حاصل کیا تھا . ھمیں کراچی سے فرانس تک کا بوڑڈنگ کاڑڈ ملے تھے جس پر انھوں نے سامان کے ٹیگ فکس کردئیے تھے۔ سامان چیک کرنے  کے پراسس میں فلائیٹ کی روانگی  میں  کافی تاخیر ھوگئی   ھی  اسوجہ  پیرس کےلئییے  وہ  ائیر فرانس فلائیٹ آدھے گھینٹۓ دیر سے روانہ ھوئی۔ استنبول سے پیرس تک سفر تین گھنٹے کا تھا۔  فلائیٹ میں ھمیں صرف مشروب سے نوازا گیا تھا ۔تقریبن  دن تین بجے جہاز نے پیرس کے  مشھور ائیرپوڑٹ چارلس ڈیگال ائیر پوڑٹ پر لینڈ کیا ۔ وھاں پھنچتے ھی سب سے پہلے ان تمام ساتھیوں نے جنکے سامان کراچی سے نھیں پہنچا تھا ، انھوں نے اپنی اپنی شکائیتیں درج کرائیں ۔وھاں انکو بتایا گیا کے انکا سامان کراچی رہ گیا وہ ٹرکش ائیر لئینز کی کسی دوسری فلائیٹ سے لایا جائیےگا جو پھر فرانس ائیر لائینز کے کے زریعے کے پیرس لایا جائیگا۔اور  ان کی قیام کی جگہ ھوٹل میں پہنچا دیا جائیگا ۔ ائیر پوڑٹ سے سیدھے ھمیں ایک ریسٹورانٹ لے جایا گیا  جہاں ھمیں لنچ دیا گیا۔ پھر ھم کو اس ھوٹل میں لے جایا گیا ۔ یہ ھوٹل مشھور شازلے سٹریٹ کے بہت قریب تھا اسکا نام میرے زھین میں نھیں آرھا۔ ھوٹل میں ھم سب کے کمرے پہلے سے ھی بک تھے۔ سب ساتھیوں کو  دو ، دو کے لئیے ڈبل بیڈ والے  کمرے ملے ۔جبکے میرے حصے میں  اکیلے کے لئیے سنگل بیڈ کمرہ آیا تھا۔ ھر کمرے میں ایک چھوٹا سا کچن بھی تھا(میں گھر سے کھانے پکواکر بنس روڈ  سے پیک کر وا کرلایا تھا۔ اسلئیے کچن ھونے کی وجہ سے  اسے گرم کرکے کھانے میں  بڑی آسانی  ھوئی )۔ تھکا ھوا تھا اسلئیے  اپنے کمرے  میں پہنچتے ھی پہلے تو ساری  اس دن  کی قضا نمازیں  پڑھیں اور  بعدعشا کی سفری نماز پڑھکر سوگیا۔ ھمارا پیرس میں قیام تین دن کا تھا ۔ جہاں کچھ وزٹ تھے۔اور اسکے بعد   ھم کو  31 مارچ کی صبح فرانس کے دوسرے شہر Layon جانا تھا جہاں ھمارا کورس ھونا تھا

۲۹ مارچ کی صبح اٹھ کر میں   ان اپنے   دوستوں کے ساتھ  ، جنھوں نے  حج کرنے جانا تھا انکے ساتھ  پیرس فرانس میں پاکستان ایمبیسی  چلاگیا  تاکے  وھاں سے پاکستانی ھونے کا سڑٹیفیکیٹ لیا جائیے اور اسکو پاسپوڑٹ  کے ساتھ حج ویزے کی درخواست کے ساتھ سعودی ایمبیسی میں جمع کرایا جاسکے ۔ پاکستان ایمبیسی میں  نے    ان تین ساتھیوں   دائیریکٹر افسر علی، دائیریکٹراحسن جعفری اور  دائیریکٹر بہادر شاہ کے ساتھ اپنے اپنے پاسپوڑٹ  جمع کرادئیے جو دوسرے دن  یعنی 30 مارچ ھمکو  سڑٹیفیکٹس کے ساتھ واپس کردئیے  گئیے۔ پھر ھم ھر ایک نے 750 سعودی ریال کا پے آڑڈڑ بنوایا جو وھاں پیرس میں ایک مخصوص بنک سے بنتا تھا ۔ وہ پے آڑڈڑ بمعہ   پاکستانی ایمبیسی  فرانس کی طرف سے جاری کردہ سڑٹیفیکیٹ ، پاسپوڑٹ اور ائیر ٹکٹ کی کاپی کے ساتھ سعودی ایمبیسی فرانس میں جمع کرادئیے ۔ انھوں نے افسر علی صاحب اور اور بہادر شاہ صاحب کے پاسپوڑٹ وغیرہ واپس کردئیے   کیونکے انھوں نے فرانس سے پاکستان واپسی  کا سفر براستہ جدہ نھیں لئیا تھا۔  انسے کہا گیا وہ براستہ جدہ کا سفر بنواکر لائیں اور پھر  حج ویزے کے لئیے درخواست دائیر کریں  جبکے میرے اور احسن  جعفری نے شروع ھی سے پاکستان واپسی کا سفر فرانس سے براستہ جدہ کر رکھا تھا۔ اسلئیے انھوں نے ھمارے پاسپوڑٹ حج ویزہ دینے کے لئیے قبول کرلئیے اور دوسرے دن یعنی   کو شام چاربجے لینے کو کہا۔ دوسرے دن یعنی  ۳۱ مارچ کو   صبح کی ھم سب  کو فلائیٹ سے فرانس کے دوسرے شہر لئین (Layon)  جہاں ھمارا ایک ھفت کا  کورس ھونا تھا ۔ یہ صورت حال ھم دونوں یعنی میرے  اور احسن جعفری کے لئیے  صحیح نھیں تھی کیونکے حج ویزہ ھم کو شام کو ملنا تھا۔ اسلئیے ھم دونوں  نے اپنے فرینچ کوآڑڈینیٹر سے درخواست کی کے ھم دونوں کو شام کی فلائیٹ سے ، جو شائید چھ بجے چلتی تھی بھیجدیا جائیے ۔بڑے اچھے لوگ تھے وہ ھم کو شام کی فلائیٹ سے بھیجنے کے لئیے تیار ھوگئیے۔ پاسپوڑٹ تو حج کے ویزے کے لئیے جمع تو کرادیا تھا اور بہت امید تھے کے ویزہ بھی مل جائیے گا مگر ایک چھوٹی سی دل میں خلش تھی کے پتہ نھیں ملتا ھے بھی یا نھیں۔ کیونکے میرا ایمان تھا کے جب تک اللہ کی طرف سے حج کا بلاوہ نہ آئیے میں حج پر نھیں جاسکتا تھا۔ اپنے کمرے میں پہنچتے ھی ، اسوقت  مغرب کی نماز کا وقت ھورھا تھا ! آتے ھی فورن وضو کرکے مغرب کی نماز پڑھی اور نماز پڑھنے کے بعد اللہ کے آگے سر بسجود ھوگیا اور پھر رو رو کر اللہ سے دعا کی کے اللہ مجھے حج کرنے کی سعادت نصیب کرادے اور مجھے ویزہ مل جائیے آمین  ۔کافی دیر تک سجدے میں پڑے اللہ سے دعا کرتا رھا جب دل کو کچھ تسلی ھوئی کے اللہ مجھے ناامید نھیں کرے گا اسوقت سر سجدے سے اٹھایا۔ صبح باقی لوگ تو فلائیٹ کے زریعے شہر لئین (Lyon)  چلے گئیے ۔ میں اور احسن جعفری جو ویزہ لینے کی وجہ سے رک گئیے تھے شام چاربجے تک ادھر ادھر گھومتے رھے کبھی بازار کی سیر کی کبھی پارک میں آکر بیٹھ گئیے۔ ھم شام چاربجے سے پھلے ھی سعودی عرب ایمبیسی فرانس  پہنچ گئیے ۔ تھوڑی دیر بعد ھی ویزہ دینے والی کھڑکی کھلی سب سے پہلے ھمارا ھی نمبر تھا ۔ انھوں نے جب پاسپوڑٹ واپس ھم دونوں نے جلدی جلدی اپنے  اپنے پاسپوڑٹ  کھولے اور اسمیں حج کرنے کا ویزہ لگا دیکھ کر خوشی کی انتھا نہ رھی میرے تو آنکھوں میں خوشی کے آنسو آگئیے۔ فورن ھم لوگ ھوٹل پھنچے ۔ میں نے اپنے کمرے میں پہنچ شکرانے کے دو نوافل پڑھے اور اس کے بعد سامان  اٹھا کر  کمرے سے نکل گیا تھوڑی دیر بعد احسن جعفری صاحب بھی آگئیے اور ھم اپنے ھوٹل کی لاؤنج میں گاڑی کا انتظار کرنے لگے جسنے ھم کو ائیرپوڑٹ لے جانا تھا .کمپنی کی طرف سے گاڑی بھیجی گئی تھی جسنے ھم کو پیرس کے چالس ڈیگال ائیرپوڑٹ پر ڈراپ کیا میں وھاں سے ڈومیسٹک فلائیٹ سے شہر لئین (Lyon)  جانا تھا۔ وھاں ایک بات میں نے نوٹ کی کے فرانس میں ڈومیسٹک فلائیٹس کے لئیے فرانس کی اپنی فلائیٹس یعنی ائیر فرانس استعمال نھیں ھوتی بلکے دوسرے ملکوں کی فلائیٹس استعمال ھوتی ھیں۔ ھم لوگ برٹش ائیرویز  کی فلائیٹ   کے زریعے شہر لئین (Lyon)  گئیے۔ جس وقت  فلائیٹ چھ بجے روانہ ھوئی تو موسم بھت خراب تھا کالے بادل چھائیے ھوئیے تھے مگر جہاز  ایسے موسم میں بھی بڑے آرام سے فلائی کر گیا۔ فلائیٹ کا دورانئیہ پیرس شھر سے شہر لئین (Layon)  تک کا ایک گھنٹے کا تھا ۔ کوئیی 45 منٹ کے بعد ھی جھاز نے اترنا شروع کردیا۔ میں نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا ۔ گھٹا ٹوپ اندھیرا تھا کالے بادلوں کے  سوا کچھ نظر نھیں آرھا تھا۔جھاز انھیں بادلوں کے بیچ میں سے آھستہ آھستہ نیچے اتر رھا تھا۔نیچے ائیر پوڑٹ بلکے کوئی شئیے بھی بلکل نظر نہیں آرھی تھی ۔ مگر جھاز میں ایسے آلات لگےبھوئیے تھے جسکی مدد سے وہ با آسانی لینڈ کرگیا  ۔ ھم سمجھ رھے  تھے کے  شائیڈ جہاز جلد اپنی منزل مقصود پر پہنچ گیا ھے مگر وھاں اترنے کے بعد معلوم ھو ا کے وہ کسی اور ائرپوڑٹ پر اتر گیا ھے موسم چونکے آگے بیحد خراب تھا اسلئیے پائیلیٹ نے اس سے پہلے  ائیر پوڑٹ پر ۱۵ منٹ پہلے اترنا مناسب سمجھا۔اس ائیرپوڑٹ  کانام میرے زھین میں  اسوقت نھیں آرھاھے ۔ وھاں اتنا معلوم ھوا کے ھم سب اب پس  کے زریعے Layon شہر جائیں گے ۔ ھمیں یہ پریشانی ھورھی تھی کے پتہ نھیں یہ بس Layon میں کس جگہ ھم کو ڈراپ کرے گی اور ھمیں کوئی لینے آئیگا بھی یا نھیں ۔ کوئی آدھے گھنٹے کے بعد ھی ایک خوبصورت بڑی بس وھاں آگئی۔ تمام جہاز کے مسافروں کا سامان اس بس میں لاکر رکھ دیا گیا جس پر ٹیگ لگے ھوئیے تھے۔ اسوقت رات ھوچکی تھی ۔ بس نے ھم کو ٹھیک دو گھنٹے کے بعد ھی Layon کے ائر پوڑٹ پر exit lounge کے قریب اتارا وھاں ھمارے استقبال کے لئیے کمپنی کی طرف سے دو لڑکیاں ھم کو لینے پہلے سے ھی  موجود  تھیں ۔ انھوں پہلے  ھم سے  بہت معزرت کی  کے موسم کی خرابی کی وجہ سے جھاز کو کہیں اور لینڈ کرنا پڑا۔ انھوں خود نے ھمارا سامان اپنی کار کی ڈگی میں  رکھا ۔ کوئی ۲۰ منٹ بعد انھوں  نے   ھم کو اس ھوسٹل میں اتارا جہاں ھمارے ساتھی صبح  پہلے ھی پہنچ چکے تھے ۔ ھمارا کمرہ بک تھا اسلئیے کوئی  دقت نھیں ھوئی ۔  جس وقت ھم وھاں پہنچے تو رات کے دس بج رھے تھے۔ کھانے والا میس تو آٹھ بجے بند ھوچکا تھا۔ سخت بھوک لگی ھوئی تھی وھاں ایک کینٹین بھی تھی وہ کھلی ھوئی تھی اس سے ھم نے بند اور مکھن وغیرہ لئیے اور اسکو کھا کر اپنی بھوک مٹائی۔ صبح ھم سب کو ٹریننگ انسٹیٹیوٹ لے جائیا گیا جھاں  ایک کلاس روم میں بٹھایا گیا جہاں ھماری روزانہ شائید نو بجے سے شام چار بجے تک پڑھائی ھوتی ۔درمیان میں لنچ کے لئے بارا بجے دن ایک گھنٹے لئیے وقفہ ھوتا ۔ وھاں  پر فیکٹری میں کام کرنے والوں کے لئیے لنچ اور ڈنر کے لئیے ایک بڑا میس تھا جھاں پر ملازمین کو بہت  ھی ڈسکاؤنٹڈ ریٹ پر پر کھانا ملتا تھا۔ وھاں ھلال کھانا تو ملنے کا تو سوال ھی پیدا نھیں ھوتا ۔ ھم لوگ وھاں فش برگر اور آلو کے چپس زیادہ کھاتے تھے۔ ھمارا وھاں کورس ایک ھفتے کا تھا۔ اسکے بعد ھماری واپسی دوبارا پیرس ھوئی اور ھم اسی ھوٹل میں انھیں کمروں میں ٹھرے جہاں پہلے ٹھرے پیرس میں دوبارا قیام تین یا چار دن کا تھا جس میں ھم نے Alcatel کی اس فیکٹری کا وزٹ کرنا تھا جھاں ڈیجیٹل ایکسچینجز کے پاڑٹس بنائیے جارھے تھے جو پاکستان میں لگنی تھیں۔ یہ فیکٹری پیرس میں نھیں تھی بلکے کسی دوسرے شہر میں تھی جھا بُ بس کا فاصلہ ڈھائی یا تین گھنٹے کا بس سے تھا۔ افسر علی اور بھادر شاہ نے اپنے ٹکٹ براستہ جدہ پاکستان  وھیں layen  کے قریب ایک  دوسرے شھر سے کرالیا تھا۔ اس شہر کانام مجھے یاد نھیں بس اتنا یاد ھے کے اس شہر کی آبادی  بس دولاکھ کے قریب تھی ۔افسر علی اور بہادر شاہ نے اپنی  ۱۵ اپریل کو ائیر فرانس سے جدہ اور  حج کے بعد واپسی ۱۵ مئی کو  سعودی عرب ائیر لائنز  پاکستان  جانے کے لئیے کرا لی تھی ۔میرا ٹکٹ ایسا نھیں تھا میری فلائیٹ 14 اپریل کی ائیر فرانس سے جدہ کے اور واپسی ۱۵ مئی  کو سعودی عرب ائیر لائنز سے پاکستان کی تھی تو میں نے بھی انکے ساتھ فرانس سے واپسی 15 اپریل سے کرالی تاکے انکا ساتھ ھوجائیے۔ احسن جعفری نے بھی ایسی ھی کرالی تھی

14 اپریل کو جو دوسرے گروپ  یعنی گروپ  A نے آنا تھا  جسکی جگہ ھم گروپ B والے آگئیےتھے، اور انھیں بھی  اسی ھوٹل میں قیام کرنا تھا ۔ لیکن گروپ A کی جگہ گروپ C آگیا جسکو 27 اپریل کو آنا تھا۔وجہ یہ بنی کے گروپ Aکے انچارج جو چیف انجینئر خالد بٹ صاحب  تھے انکو پی ٹی سی چئیرمین میاں جاوید کو  , اسوقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے ساتھ امریکہ کے دورے پر جانا پڑگیا۔ اسلئیے سینئر موسٹ ھونے کی وجی سے چیف انجینئر خالد بٹ صاحب کو قائیم مقام پی ٹی سی چئیرمیں کا چارج سنبھالنا پڑ گیا تھا۔ پریشانی ھمیں یہ ھورھی تھی کے ھمارے گروپ B کےلئیے ھوٹل میں قیام 13 اپریل تک کا تھا اوراسکی واپسی  14 اپریل کی صبح پاکستان کے لئے  واپسی تھی. اور ھم جو لوگ حج پر جارھے تھے انکی ائیر فرانس سے جدہ تک کے لئیے فلائیٹ 15 اپریل صبح نو بجے کی تھی۔ ھم  چاروں  نے جب اپنے فرینچ کوآڑڈینیٹر سے  درخواست کی کے ایک دن ھم کو  ھوٹل میں رھنے کی اجازت دے دی جائیے جو انھوں نے بخوشی قبول کرلی اور ایک دن ھم چاروں کو مزید ھوٹل میں رھنے کی اجازت دے دی ۔ بلکے  انھوں یہ تک کیا کے انھوں نے ھم سب  چاروں کو 14 اپریل کو پورے پیرس کی سیر  بھی کرائی اور  مشھور عجائیب گھر بھی دکھایا۔14 اپریل کی رات کو میں نے ھوٹل میں لگے ٹیلی فون سے پاکستان اپنے گھر اپنے والدین اور تما م عزیز رشتہ داروں  کو مطلع کیا کے میں صبح حج کرنے کے لئیے روانہ ھورھا ھوں خیریت سے حج کرنے  اور اسکو اللہ کی طرف سے قبول کرنے اور خیریت سے واپس آنے کی دعا کریں ۔صبح سات بجے کمپنی کی  طرف سے کی گئی گاڑی ھمیں لینے آگئی جسنے ھم کو آدھے گھنٹے میں چارلس ڈیگال ائیر ہوڑٹ پر ڈراپ کردیا۔ ائیر پوڑٹ میں حج پر جانے والوں کے لئیے ایک اسپیشل کاؤنٹر بنایا گیا تھا۔ ھم لوگ سیدھے وھی پہنچے وھاں انھوں نے ھمارا پاسپوڑٹ اور حج کا ویزہ چیک کیا اور ھمیں بوڑڈنگ کاڑڈ دیا گیا ھمارے سامان پر ٹیگ جدہ کا لگادیا گیا۔ اور  ساتھ ھمیں Al-Hajj کا بیچ  قمیض پر لگایا دیا گیا۔ وھاں اور کچھ لوگ بھی   جج پر جانے والے بھی آئیے تھے جس میں  تقریب تمام تعداد برٹشر  مسلمان کی تھی جو یو کے سے پہلے فرانس آئیے تھے اور وھاں سے حج پر جارھے تھے۔ ھماری ائیر فرانس کی فلائیٹ پیرس سے افریقی ملک  Djibouti کے لئیے  براستہ جدہ  جاتی تھی ۔ جدہ تک کا ھوائی سفر 6 گھنٹے کا تھا۔  ابھی ھم نے حج کے لئیے احرام نھیں باندھا تھا۔جدہ ائیرپوڑٹ پر پہنچنے سے ڈھائی گھنٹے پہلے ، احرام باندھنے کا پروگرام   تھا ۔ ٹھیک نو بجے صبح ھماری  یہ ائیر فرانس کی فلائیٹ  جدہ کے لئیے  پرواز کرگئی.

(جاری ھے ۔پاڑٹ ۲ پڑھیں)

واسلام

محمد طارق اظہر

ریٹائیڑڈ جنرل منیجر ( آپس) پی ٹی سی ایل

راولپنڈی

۲۰ جون ۲۰۲۳

Comments

Popular posts from this blog

.....آہ ماں۔

Article-173 Part-2 [Draft for non VSS-2008 optees PTCL retired employees]

‏Article-99[Regarding clerification about the registration of the Ex-PTC employees of any capacity with EOBI by PTCL]