My Hajj. Part-2

 حج (پاڑٹ -2)

میرے حج کرنے اور دوران حج پیش ھونے والے واقعات کی روداد


عنوان :-جاتے ھیں وھی ،   آتے ھیں  جنکے  بلاوے. . . . 


ھماری ائیر فرانس کی فلائٹ جدہ کی جانب محو پرواز تھی ۔ ھم سب خاموش بیٹھے  درود شریف کا  اور اللھم لبیک کا ورد کررھے تھے ۔ فلائیٹ کی روانگی کے ساڑھے تین گھنٹے کے بعد ، جب جدہ پہنچنے میں ڈھائی گھنٹے کا وقت رہ گیا تھا۔ ھم سب چاروں نے باری باری واش روم  جاکر پہلے وضو کیا اور احرام  باندھ  لئیے اور دو  نفل نماز پڑھکر عمرے کی نیت کرلی [چونکے ھم لوگوں نے حج تمتع کرنا تھا جسمیں پہلے عمرہ کیا جاتا ھے اور  اسمیں حلق (سر مونڈوانہ) کرنے کے بعد جب عمرہ مکمل ھوجاتا ھے تو احرام کھول دیا جاتا ھے۔ اسکے بعد 8 زولحجہ   دوبارا احرام باندھا جاتا ھے اور پھر   صرف حج کی نیت کی جاتی ھے اور اسکا احرام 10 ذولحجہ کو  ، بترتیب رمی  ( بڑے شیطان کو سات کنکریاں مار کر ) اسکے بعد قربانی  اور اسکے بعد حلق کرنے ، بعد کھول دیا جاتا ھے ] ۔جھاز  میں  ھم نے کرسی پر بیٹھکر دونفل پڑھے اور سجدے کے لئیے کھانے کی میز کو کھول کر استعمال کیا ۔ جب جدہ پھنچنے میں ایک گھنٹہ رہ گیا ۔ تو بار بار  ھمیں پائیلیٹ کی انگلش اور فرینچ میں یہ ھی تنبیھ کرنے والی اناؤنسمنٹ آرھی تھی   کے اپنے سامان کا خاص خیال رکھیں کوئی الکوحل چیز یہ نشہ کی چیز لیکر نہ اتریں ۔کیونکے سعودی عرب اس قسم کی چیزیں رکھنے کی سزا موت ھے۔ جہاز نے جدہ کے اس مین انٹرنیشنل ائیر پوڑٹ پر لینڈ کیا جہاں سے تمام کمرشل فلائٹ چلتی ھیں جبکے حج فلائیٹس کے لئیے الگ ائرپوڑٹ پر جگہ ھے ۔ھم چاروں کو ایک بڑی بس کے زریعے اس حج فلائیٹس والی جگہ پہنچا دیا گیا، جھاں  میں  حج فلائیٹس آرھی تھیں اور لوگ اتر رھے تھے۔ کلئر نس کے لئیے ان لوگوں  کی لمبی قطاریں  لگی ھوئی تھی ۔ھم نے سوچا اگر ھمیں  بھی ان لمبی قطاروں  میں کھڑا کردیا گیا تو ھم کو تو یہاں سے نکلتے  نکلتے ھوئیے صبح  ھی ھو جائیگی۔ مگر بس نے ھم کسے وی آئی پی جگہ اتارا ھمارے سامان کے سمیت ۔ جیسے ھی ھم اترے اور امیگریشن کلئیرنس والے کمرے میں داخل ھوئیے چار لڑکے بھاگ کر ھماری طرف آئیے انکے ھاتھ میں کچھ فارم تھے انھوں نے ھمارے ھاتھ سے پاسپوڑٹس لیکر ھمارے سامنے بیٹھکر وہ فارم جلدی جلدی فل کرنے لگے اور اس پر ھمارے دستخط لیکر پاسپوڑٹ لیکر ھم کو امیگریشن سے کلئرنس کراکر جلدی  باھر نکال دیا۔  اس قدر جلدی کلئیرنس  پر ھم حیران تھے۔ ھمیں بتایا گیا کے باھر نکل کر اس پاسپوڑٹ  کو ایک جگہ جمع کرانا پڑے گا جو ھم کو مکتب الاٹ کرے گا اور پھر  اس مکتب انچارج کی ھرطرح کی زمے واری ھوتی ھے وھی ھمکو بس کے زریعے مکہ پہنچائےگا  اور اسی کے ھمارے  پاسپوڑٹ رھیں گے جو وہ واپسی پر دے گا ۔ وھی منی اور عرفات جانے کے لئیے بس کا انتظام کرے گا اور منی میں رھائش کا بندو بست کرے گا  اور واپسی کے لئیے جدہ ائرپوڑٹ تک بس کا انتظام کرےگا۔( یہ بات یاد رکھنی چاھئیے جو لوگ دوسرے ملکوں سے گروپ میں  آتے ھیں انکو پہلے سے ھی اسطرح کے مکتب الاٹ ھو جاتے  ھیں  اور اس مکتب کے انچارج جو انکو ائیر پوڑٹ پر رسیو کرتے ھیں )۔ چونکے ھم اسطرح نھیں آئیے تھے اسلئیے ھمارے لئیے مکتب کا وھیں جدہ ائیرپوڑٹ پر بندوبست کیا گیا تھا( جو بھی ایسے لوگ آتے ھیں انکو اسی طرح مکتب الاٹ کیا جاتا ھے).امیگریشن سے کلئرنس کے بعد ھم ائیر پوڑٹ کے اس لاؤنج جہاں حج کرنے والے  صاحبان آکر   بیٹھتے تھے پھر بس کے زریعے جدہ سے مکہ روانہ ھورھے تھے۔ اس لاونج میں آکر پہلے تو ھم نے کھانا کھایا کیونکے سخت بھوک لگی  ھوئی تھی ۔ اسوقت مغرب کی نماز کا وقت ھونے والا تھا۔ کھانا کھانے کے بعد ھم سب اس جگہ پر   پہنچے جو ھم کو بتائی گئی تھی وھاں پر ھم کو جو مکتب الاٹ ھوا تھا اسکے انچارج کے پاس گئیے اسنے ھم سب کا پاسپوڑٹ لے لیا اور ھم کو مکہ جانے والی اس بس میں بٹھادیا جس نے ھم کو مکہ میں اس کے مکتب میں لیجانا تھا۔ بس میں ھم لوگ آٹھ بجے رات بیٹھ گئیے تھے۔ اس میں جو اور لوگ بیٹھے تھے وہ سب انڈین  مسلم تھے بس میں بیٹھے بیٹھے چار گھنٹے سے زائید ھو چکے تھے بس تھی کے چلنے کا نام ھی نھیں لیتی تھی۔ بس یہ ھوتا کچھ لوگ بس میں آتے اور بار بار مسافروں کو گننا شروع کردیتے ۔ چلے جاتے اور پھر دوبارا آکر مسافروں کو گننے  لگتے ۔ معلوم ھوتا تھا کے شائید کوئی مسافر جسکا پاسپوڑٹ تو انکے پاس تھا مگر وہ بس میں موجود نھیں تھا شائید غلطی سے کہیں اور نکل گیا تھا یا کسی اور بس میں غلطی سے بیٹھ گیا ھوگا۔ یہ  بار  بار شمار کرنے  کا کھیل رات بارا بجے  کے بعد تک   جاری رھا پھر کہیں جاکر اس مسافر  کا پتہ چلا اور بس مکہ کی طرف رات ایک بجے کے بعد روانہ ھوئی ۔ تمام بس کے مسافر لیبئیک  لئبئک اللھم  لیبئیک  کا ورد کررھے تھے۔ مکہ میں داخل ھونے سے پہلے بس سیکوڑٹی چیک اپ کے لئیے رکی اور دو سکئورٹی والے مسافروں کے پاسپوڑٹ  لیکر ڈرائیور کے ساتھ  بس میں داخل ھوئیے اور ھر ایک مسافر کو پاسپوڑٹ کے مطابق چیک کرنے لگے۔  اور چیک کرنے کے بعد وہ بس ڈرائیور کو ساتھ لیکر اپنے افس چلے گئیے ۔ اسی دوران ایک آدمی مشکیزہ لیکر  بس میں داخل ھوا اور گلاس سے ھر ایک مسافر کو پانی پلانے لگا۔ معلوم ھوا وہ آب زم زم ھے ۔ میں نے کھڑے ھوکر اور دعا پڑھتے ھوئیے آب زم زم پیا۔ (آب زم زم ھمیشہ کھڑے ھوکر اور کعبہ شریف کی طرف منہ کرکے پیا جاتا ھے ). دل کو بہت  ھی سکون  ملا اور ایک عجیب سی خوشی کا احساس ھوا ۔ بس کی وھاں سے روانگی کوئی آدھے گھنٹے کے بعد ھوئی۔ روانگی کے پانچ منٹ بعد ھی ھم مکہ شریف میں داخل ھو چکے تھے  ۔بس نے ھم کو ھمارے مکتب ( مجھے اسوقت اس مکتب کانام یاد نھیں رھا ) پر لیجا کر اتارا۔  وھاں ھمارے رات کے کھانے کا انتظام تھا۔ مگر ھم نے کھانے کا شکریہ کے ساتھ انکار کردیا تھا کیونکے ھم پہلے ھی ائیر پوڑٹ سے رات کا کھانا خوب کھاکر چلے تھے۔ اب ھم کو حرم شریف جانے کی بہت  ھی جلدی تھی ۔ ھم سب نے وھیں مکتب میں وضو کیا اور جلدی جلدی حرم شریف روانہ ھوئیے جو مکتب سے دس یا بارا منٹ کی دوری پر تھا۔ حرم کے قریب پہنچنے ہر ھم آزان کی آواز سنائی دی جو تھجد کی نماز کی آواز تھی۔ جسکا مطلب کے رات کے تین بج چکے ھیں۔ (تھجد کی صرف وھاں آزان ھوتی ھے ۔ اسکی با جماعت نماز نھیں ھوتی ۔ وھاں  تھجد کی آزان کے  بعد خود اکیلے نماز پڑھنی ھوتے ۔ تھجد کی کل رکعاتیں زیادہ سے زیادہ بارا ھوتی ھیں اور کم ازکم دو ھوتی ھیں ۔ آپ چاھے کتنی پڑھیں یہ آپ پر منحصر ھوتا ھے)۔ جو ں جوں حرم شریف نزدیک آرھا تھا میری دل کی دھڑکنیں تیز ھورھی تھیں ایک عجیب سی کیفیت طاری ھورھی تھی ۔ سب نے بتایا تھا کے کعبہ شریف پر پہلی نظر پڑھتے ھی جو پہلی دعا مانگی جائیے  وہ ضرور پوری ھوتی ھے ۔بزرگوں نے بتایا تھا کے اسوقت اللہ سے یہ دعا مانگنی چاھئیے " کے اے اللہ میں جو بھی دعا اس حرم شریف میں مانگوں ۔تو اسکو  قبول فرماء. آمین"۔ جیسے ھی ھم لوگ باب العمر کے گیٹ سے حرم شریف کے اندر داخل ھوئیے اور میری نظر کعبہ شریف پر پڑی میں تو گنگ ھوکر رہ گیا اور مجھ سے کچھ بھی نہ بولا گیا اور نہ ھی کوئی دعا میری زبان پر فورن ھی آئی ۔تھوڑی دیر بعد جب میرے حواس کچھ بحال ھوئیے تو جو پہلی دعا میں نے جو مانگی وہ اہنے چھوٹے بھائی ناصر کی بیٹی  اسماء کو  بینائی عطا کرنے کی تھی جو نابینا پیدا ھوئی تھی۔ اسکے بعد ھی میں نے اور دعائیں مانگیں ۔ اسکے بعد ھم سب نے عمرہ ادا کیا۔ سعی کرنے کے بعد میں نے تو حلق کرایا یعنی پورا سر مونڈ والیا یعنی پورا گنجا ھو گیا تھا۔ عمرا کرنے سے فارغ ھوئیے تو فجر کی نماز کا وقت ھوگیا تھا ۔ فجر کی نماز سے فارغ ھو کر وھیں حرم سے نکل کر وھیں قریبی ریسٹورانٹ سے ناشتہ کیا۔ پھر ھمارے ایک ساتھی بھادر شاہ جنھوں نے ایک کافی عرصے تک مکہ میں ڈیپوٹیشن پر ملازمت کی تھی انھوں نے ھمارے مکہ میں رھنے کے لئیے اپنے ایک پاکستانی دوست جو برسوں سے مکہ میں مقیم تھے انکے گھر رھنے کا انتظام کر رکھا تھا ۔ انکے دوست نے ھمکو ایک کمرہ دے رکھا تھا ۔ جسمیں ھم چاروں رھتے تھے اور نیچے سوتے تھے۔ ھم لوگ صبح کا ناشتہ انکے دوست کے ھاں کرتے تھے اور پھر ھم حرم چلے جاتے سارا دن حرم میں ھی رھتے اور وھاں سے عشاء کی نماز پڑھکر اور حرم کے  باھر سے رات کا کھانا کھاکر واپس  پیدل لوٹتے تھے۔ حرم سے انکے دوست کے گھر تک راستہ چالیس منٹ کا ھوتا تھا۔( مجھے اسجگہ کا نام تو یاد نھیں بس اتنا یاد ھے انکے گھر کے قریب   ایرانی حاجیوں کے قیام کی جگہ تھی )۔مکہ پہنچنے اور عمرہ ادا کرنے کے دوسرے دن ھم بس کے زریعے رات دس بجے مدینہ روانہ ھوگئیے۔ مدینہ لے جانے والی بس کافی اچھی تھی اور بڑی تھی۔ اسکا ڈرائیور ایک انڈین مسلم  ، حیدرآباد دکن کا رھنے والا تھا جسنے روانہ ھوتے ھی ٹیپ ریکاڑڈ پر لتا منگیشتر کے پرانے فلمی گا کا کیسٹ لگا دیا اور گانے سنتے ھوئیے بس ڈرائیونگ کرتا رھا۔ کچھ مسافروں نے  اسکو منع بھی کیا کے گانے نہ لگائیے ۔بس مدینے جارھی ھے اسکا آداب ملحوظ رکھے۔ مگر ڈرائیور نے سنی ان سنی کردی۔ غالبن بس کو مکہ سے روانہ ھوئیے ڈیڑھ گھنٹہ ھی ھوا ھوگا کے بس اچانک ایک جگہ سڑک کے کنارے رک گئی  اور دو عربی  نوجوان بس میں داخل ھوئیے اور انھوں نے ھم سب  مسافروں سے یہ ایک سوال کیا  ڈرائور نےٹیپ ریکاڑد پر گانے لگائیے تھے یا نہیں اور  کیا وہ گانے سنتے ھوئیے ڈرائیو کررھا تھا۔ یہ صورت حال بڑی عجیب تھی  اگر کسی نے کہہ دیا کے یہ تو گانے سنتے آرھا تھا اور منع کرنے کے باوجود محترم باز نھیں آئیے تھے تو یہ بیچارہ مارا جائیگا اور شائید نوکری سے بھی اسکو ھاتھ دھونا پڑے گا۔ مگر کسی بھی مسافر نے اسکے خلاف شکایت نھیں کی ڈرائیور کی  صورت دیکھتے ھوئیے ۔بحرحال اسکے  بعد بس روانہ ھوگئی۔ ڈرائور صاحب نے اسکے بعد گانے بلکل نھیں لگائیے۔  کوئی پانچ گھنٹے کے سفر کے بعد ھم مدینہ منورہ میں داخل  ھوئیے  اسوقت فجر کی آزانیں  ھورھی تھیں  ۔  جس وقت بس مدیبہ منورہ شہر میں داخل ھوئی اور ھم کو دور سے روشنی میں جگمگاتا ھوا گنبد خضراہ نظر آیا یعنی مسجد نبوی کا سبز رنگ کا گنبد، میری تو  ایک عجیب حالت سی ھوگئی گنبد کو دیکھتے ھی میرے آنکھوں میں خوشی کے آنسو بہہ نکلے اور میں 

یا رسول اللہ  سلام وعلیک . . .  یا رسول اللہ سلام وعلیک   بار کہہ کر درود ابراھیمی کا ورد کرنے لگا ۔ مدینہ منورہ پہنچتے ھی اور بس سے اتر کر   ھم نے  سب سے پہلے اپنی رھائش  کی تلاش  شروع کی  جو جلد ھی مل گئی اور ھمیں ایک  اے سی والا کمرہ  آٹھ دن کے لئیے  مل گیا تھا  جو مسجد نبوی سے  ۱۵ منٹ کی دوری پر تھا  اسکا مناسب کرایہ  تھا جو ھم چاروں پر تقسیم ھوگیا ۔ کمرے  میں سونے کے لئے  نیچے فرش پر انتظام تھا جسپر پر چار بسترے لگادئیے گئیے تھے۔   جبکے باتھ روم کوریڈور میں تھا ۔  کمرے  سے باھر جانے  کی صورت اسکو  لاک کرنے کرنے کے لئیے  میں نے اپنا جاپانی بغیر چابی کے  نمبر والا تالہ استعمال کیا ( یہ  تالہ ، میں ، جب مئی ۱۹۸۸ میں جاپان جائیکا ٹریننگ پرتین ماہ کی ٹریننگ پر گیا تھا، وھاں سے لیکر آیا تھا) جسکو اوپن کرنے کا کوڈ ھم چاروں کے پاس تھا۔ اسلئیے سب کو  کمرے آنے جانے میں بڑی آسانی رھی۔   ھم نے مدینہ منورہ آٹھ  یا نو دن تک رھنا تھا جب تک کے ھماری چالیس نمازیں مسجد نبوی میں پوری نھیں ھوجاتیں۔ ھم نے مدینہ منورہ   پہنچکر  ،  جو پہلی نماز  مسجد نبوی میں پڑھی   ، وہ  ظہر کی نماز  تھی ۔ اسکے بعد ھمارا معمول رھا  کے فجر اور اشراق کی نماز پڑھکر مسجد نبوی سے آتے اور پہلے ناشتہ کرتے پھر کمرے میں آکر  سوجاتے ۔ پھر ظہر کی نماز پڑھنے گیارہ بجے کے مسجد  نبوی چلے جاتے ۔ ظہر کی نماز 

سوا بارا بجے ھوتی تھی۔ اور آزان کے فورن بعد ھی شروع ھوجاتی تھی۔ ظہر کی نماز  پڑھنے اور لنچ کرنے کے بعد ھم لوگ کمرے میں آکر تھوڑا قیلولہ کرتے اور پھر ڈھائی بجے مسجد نبوی پہنچ جاتے ۔ عصر کی ازان سہہ پہر  تین  بجے  عمومن ھوجاتی تھی ۔ اسکے بعد عشاء کی نماز تک ھم مسجد نبوی میں ھی رھتے ۔ ھماری کوشش ھوتی تھی کے ھم ریاض الجنہ میں زیادہ سے زیادہ نفلیں پڑھیں۔ کبھی کبھی جگہ مل ھی جاتی تھی ۔ وھاں روضہ  مبارک رسول اللہ ﷺ  کے قریب بیحد رش ھوتا تھا خاصکر  ھر نماز کے ختم ھونے کے بعد کیونکے  ھر نمازی  نماز کے بعد روضہ پر رسول اللہ ﷺ کے حاضری دیتا ھے  اور درود اور سلام پڑھتا ھے ۔   لوگ ایک طرف سے قطار میں اندر کی طرف آتے اور روضہ  مبارک کے سامنے سے گزرتے ھوئیے درود اور سلام پڑھتے ھوئیے باھر گیٹ سے نکل جاتے۔ وھاں کھڑے ھوکر قطار کے دوران چلتے ھوئیے دعا مانگنا سخت منع تھا  ۔ مجھے اس بات کا علم نھیں تھا کے روضہ  مبارک رسول اللہ ﷺ  کی طرف منہ کرکے دعا  مانگنا منع ھوتا ھے ۔ ایک دن میں قطار سے نکل کر  روضہ مبارک  کی طرف منہ کرکے  اور اس سے بس تھوڑی دور کھڑا  ھو کر  ھاتھ پھیلا کر آنکھیں بند کئیے ھوئیے دعا مانگ رھا تھا کے اچانک کسی نے مجھے پیچھے سے آکر دبوچ لیا اور سختی سے میری پورے جسم    کو 180 ڈگری موڑ دیا ۔  میں نے فورن آنکھیں کھولیں تو خاکی لباس میں ایک شترا ( وھاں کی پولیس کا آدمی)  تھا جسنے یہ سب کچھ کیا تھا۔ اسنے مجھے انگلی کے اشارے سے بتایا کے روضہ مبارک سامنے منہ کرکے دعا نھیں مانگنی چاھئیے بلکے جسطرف اسنے میرا منہ کیا یعنی قبلہ کی طرف ، اسطرف منہ کرکے صرف اللہ سے دعا مانگنی چاھئیے۔ 

ھم لوگ مدینہ منورہ پہنچنے کے دوسرے  یا تیسرے دن فجر کے نماز مسجد میں ادا کرکے اور ناشتہ کرکے, مدینہ منورہ میں واقع  زیارتوں کی سیر کرنے چلے گئیے۔ صبح کے وقت مسجد نبوی کے باھر بہت سی ٹیکسیاں کھڑی رھتی تھیں جنکے ڈرائیور زیارت ، زیارت  جانے کی آوزیں لگاتے رھتے تھے ، وہ 

تما م زیارتوں کی سیر کراتے اور پھر واپس بھی لیکر آتے تھے۔ ھم نے بھی ایک مناسب ٹییکسی کی اور وھاں کافی زیارتوں کی سیر کیں مجھے ابھی ان کے نام یاد نھیں رھے۔ صرف حضرت حمزہ (رض)  [رسول اللہ ﷺ کے سگے چچا جو جنگ احد میں شہید ھو گئیے تھے] کی قبر مبارک  دیکھی جو کافی لمبی تھی ۔  اور مسجد قبلتین  [  جہانپر رسول اللہ ﷺ  کو عصر کی  نماز  کی ادئیگی کے قبلہ مسجد الاقصا سے کعبہ شریف مکہ کی طرف  منہ کرکے نمازکی ادئیگی کا حکم ھوا تھا] یہاں  ھم نے دو، دو نفلیں نماز پڑھی میں تو چار نفلیں پڑھیں ایک مسجد میں آنے کی اور دوسرے  شکرانے کی اپنے بیٹے سجاد کی آٹھویں جماعت میں اسکول میں اول آنے کی [ میں تقریبن  ھر صبح فجر کی نماز پڑھنے کے مسجد نبوی کے باھر قریبی ٹیلفون بوتھ سے گھر ضرور فون کیا کرتا تھا۔ اور سب گھر والوں کی اور والدین کی خیریت لیتا تھا۔ اس روز بھی جب میں نے فون کیا تو یہ خوشخبری ملی کے سجاد ( میرا سب سے بڑا بیٹا ھو آجکل اٹاوہ کنیڈا میں مقیم  ھے اور  کنیڈا گورمنٹ کے ریونیو کمپنی  میں آئی ٹی  کنسلٹنٹ  اور سوفٹ وئیر ڈیویلپر کی پوسٹ پر کام کررھا ھے ، وہ گزشتہ 17 سال سے کنیڈا مقیم ھے) نے آٹھویں کلاس کا امتحان بڑے ھی اچھے نمبروں سے پاس کیا اور اسکول بھر میں اول  بھی آیا  ھے ]۔ 

کوئی آٹھ دن مدینہ منورہ میں رھنے کے بعد نویں دن مسجد نبوی میں  چالیسویں نماز،  جو نماز فجر تھی اسکو پڑھنے کے بعد  اس دن  صبح دس بجے بس  کے زریعے مکہ شریف روانہ ھوئیے مکہ شریف پہنچنے سے کوئی ڈیڑھ گھنٹے پہلے بس ایک جگہ رکی   جو ذُو الحلیفہ کہلاتی ھے یہ مدینہ طیبہ کی میقات ہے یھاں سے بغیر احرام باندھے مکہ مکرمہ جانا منع ھوتا ھے۔ اس جگہ ایک بہت بڑی خوبصورت  مسجد تھی اور جسمیں  کافی غسل خانے تھے ۔ وھیں ھم سب سے کہا گیا  سب لوگ احرام باندھ لیں ۔ ھم نے وضو کیا اور احرام باندھ لئیے اور دو رکعت نفل پڑھکر عمرہ کی کرنے کی کی نئیت بھی کرلی۔ بس نے ھمیں وھاں سے  ٹھیک  ڈیڑھ گھنٹے میں  مسجد حرم کے  قریب پہنچا کر اتار دیا ۔  ھم نے پہلے مسجد حرم جاکر   سب نے عمرہ ادا کیا۔ میں نے  حلق کے لئیے پھر اپنے گنجے سر پر پورا استرا پھروایا۔ عشاء کی نماز پڑھکر اور رات کا کھانا کھا کر  ، ھم سب پیدل ھی اپنا سامان اٹھائیے اس  گھر پہنچ گئیے ، جسکے متعلق اوہر بتا چکا ھوں ۔ اس دن  تاریخ غالبن  26 اپریل  1995 تھی اور ابھی ذوالحجہ شروع ھونے چار یا پانچ دن باقی تھے۔ 30 اپریل کی شام کو  یکم ذوالحجہ 1415 ھ  یکم مئی 1995 بروز پیر سے ھونے کا اعلان  ھوا۔ عجیب اتفاق تھا کے ھجری اور عیسوی تاریخیں   ایک ھی دن پڑرھی تھیں ۔ [حج کے پانچ دن 8 ذوالحجہ سے لیکر 13 ذوالحجہ یعنی 8 مئی 1995 سے 13 مئی تک پڑ رھے تھے جبکے وقوف عرفات  جو 9 ذوالحجہ کو ھوتا ھے ۹ مئی کو ھی پڑرھا تھا۔ وقوف عرفات حج کا رکن اعظم ھوتا ھے  عرفات میں قیام کے  بغیر حج نھیں ھوتا ۔ عرفات میں قیام نھایت ضروری ھوتا ھے چاھے ایک یا دو منٹ کے لئیے ھی  کیوں نہ ھو ۔آپکا حج ھوجائیے گا۔عرفات  میں وقوف کا    وقت 9 ذوالحجہ کو زوال کے بعد سے لیکر صبح فجر کے وقت تک  کا ھوتا ھے ۔ ان وقت کے دوران آپ کسی وقت بھی وقوف عرفات کرسکتے ھیں ۔ دن کے دوران وقوف کرنے والوں کو سورج غروب ھونے کے بعد ھی ، بغیر مغرب کی نماز پڑھے ھوئیے عرفات سے مزدلفہ کی طرف روانہ ھوتا ھے اور مغرب اور عشاء کی نماز ایک ساتھ مزدلفہ میں پڑھنی ھوتی ھیں ۔ یہ عشاء میں پڑھنے والی مغرب کی نماز قضا نماز نھیں کہلاتی ھے ]۔   مدینہ منورہ  سے مکہ مکرمہ پہنچنے کے  دوسرے دن ھم نے قربانی کے لئیے  رقم حرم کے قریب واقع سعودی بنک میں جمع کرائیے اور رسیدیں حاصل کیں جس میں  قربانی کرنے کا وقت لکھا ھوا تھا  کے  10 ذوالحجہ کو کس وقت پر  قربانی کی جائیگی کیونکے اسوقت کے بعد ھی ھم نے حلق کرنا اور اسکے بعد احرام کھولنا تھا۔[میں نے دو قربانیوں کی رقم الگ الگ جمع کرائی تھی ایک اپنی  طرف  سے قربانی کی اور دوسری  اپنی  سگی    چچی مرحومہ   کی طرف سے , جو انڈیا میں رھتی تھیں۔  وہ جب ایک سال پہلے حج کرنے آئیں تھیں تو کسی وجہ سے قربانی نہ کرواسکیں تھیں جو ان پر قرض تھی مجھے  یہ قربانی کروانے کے لئیے انھوں نے مجھے کہلوا بھیجا تھا ۔تو انکی طرف سے میں نے وہ دوسری  قربانی کی بھی رقم جمع کرائی تھی] ۔

۸ ذوالحجہ کو مغرب کی آزان اور نمازکے فورن بعد ھم نے احرام باندھ لئیے اور حج کرنے کی نئیت کی اور اسکے  بعد طواف کعبہ کیا۔[ مسجد حرم میں دیواروں پر جگہ جگہ دو طرح کی گھڑیاں لگی ھوئیں ھیں ایک عئسوی سن کے لحاز سے  وقت بتاتی تھی جسمیں ھر عیسوی تاریخ کا آغاز رات 12 بجے  ھوتا  اور 24 گھنٹے کے  پورا ھونے پر رات 12بجے ھی ختم ھوتا اور پھر دوسری تاریخ  کا فورن ھی آغاز شروع ھوجاتا ھے۔ جبکے ھجری لحاظ سے  وقت بتاتی تھیں ۔جو  یہ گھڑیاں تھیں ان میں نئی ھجری تاریخ کا آغاز مغرب کا وقت شروع ھوتے ھی ھوتا تھا اور اختتام بھی مغرب کاوقت شروع ھوتے ھی ھوتا اور پھر دسری ھجری تاریخ  بھی فورن شروع ھوجاتی اس لحاظ سے کبھی 24 گھنٹے سے کم  وقت کے بعد ھر ھجری تاریخ کے اختتام اور نئی تاریخ کا آغاز ھوتا ھے]. 

قاعدہ  اور اصول  تو یہ ھی ھے کے ۸ ذوالحجہ  کو فجر کی نماز پڑھکر اور سورج نکلنے کے بعد ھی منی طرف نکلنا چاھئیے تلبیہ پڑھتے ھوئیے اور زوال سے پہلے وھاں منی  لازمن پہنچ جانا چاھئیے. لیکن گورمنٹ ٹرانسپوڑٹ والے اکثر  رات ھی سے حج کرنے والوں کو  رش ھونے کی وجہ سے منی لیجانا شروع کردیتے ھیں ھم سے بھی یہ ھی کہا گیا کے ھم کو بس رات عشاء  کی نماز کے بعد منی لے جائیگی ، تیار رھیں۔ ھم سب عشاء کی نماز اور کھانا کھانے کے بعد  حرم سے نکل کر باھر اسجگہ آکر بیٹھ گئیے ، جھاں اوربھی  کافی  لوگ بھی  بیٹھے، اپنی اپنی بسوں کے آنے کا انتظار کررھے تھے۔ اور لوگوں کی بسیں تو آنا شروع ھوگئی تھیں  مگر ھمارے گروپ کی بس لینے ھی نھیں آرھی تھے۔ بس کے انتظار میں  بیٹھے بیٹھے کافی دیر ھو چکی تھی بس تھی کے آنے کا نام نھیں لیتی تھی جبکے اوروں کی بسیں آئی جارھی تھیں اور لوگ منی روانہ ھورھے تھے۔ انتظار میں بیٹھے بیٹھے   فجر کی نماز کاوقت  اور حرم سے فجر کی آزان کی صدا آنے لگی مگر ھماری بس نے  نہ آنا تھا نہ آئی    ۔ ھم سب پھر فجر کی نماز پڑھنے چلے گئیے اور پڑھکر پھر آکر  بس کے انتظار میں بیٹھ گئیے ۔  یاد رھے ھم کو بس نے منی لے جاکر ھم کو ھمارے  لئیے منی میں  رھائش کے لئیے الاٹ کردہ   خیموں  کے قریب ھی جاکر اتارنا تھا۔ خدا خدا کرکے کوئی صبح نو یا ساڑھے نو بجے کے قریب بس نمودار ھوئی ۔بس کے دیر میں آنے کی وجہ پوچھی تو معلوم رات کو منی میں بہت سے خیموں میں آگ لگ گئی تھی اچانک۔ ان خیموں میں ھمارے لئیے الاٹ کردہ خیمے بھی شامل تھے ۔ اور جب نئیے خیموں کا انتظام ھوگیا اور خیمے لگادئیے گئیے ، تب بس ، ھم سب گروپ والوں کو لینے  آئی ۔ منی ھم لوگ ایک گھنٹے میں پہنچ گئیے تھے حالانکے مکہ سے منی کا راستہ بس کے زریعے بیس منٹ کا ھوتا ھے ھے ۔مگر بسوں کی رش کی وجہ سے  ھماری بس  بھی دھیمی چال سے آئی تھی ۔ جو خیمہ ھمیں الاٹ کیا گیا تھا اس میں آٹھ افراد کے سونے کی جگہ تھی [منی میی خیموں کایک شھر آباد ھوجاتا ھے حج کے دنوں میں 8 زولحجہ کے دن ۔ مردوں اور عورتوں کے لئیے الگ الگ خیمے ھوتے ھیں ] ۔ یہاں  منی  میں ھم نے پانچ نمازیں پڑھنیں تھی اور پانچویں نماز جو  دوسرے دن یعنی 9 زولحجہ کو فجر کی نماز  ھوتی ھے ، اسکو پڑھکر  ھی اور سورج کے طلوع ھونے کے بعد ھی حج کا رکن اعظم ادا کرنے کے لئے، جسکی ادئیگی کے بغیر حج نھیں  ھوتا  ، میدان عرفات کی طرف  روانہ ھونا تھا۔ منی پہنچ کر لوگ  عمومن اپنے اپنے خیموں میں ظہر اور عصر کی دو ، دو رکعاتیں فرض نمازیں  ( مسافرت کی نمازیں ) پڑھتے  ھیں ۔ اور مسجد الخیف منیٰ میں واقع جامعہ مسجد میں یہ نمازیں مقامی امام نھیں پڑھاتا بلکے کوئی دسرا امام پڑھاتا ھے جو مقامی نھیں ھوتا ۔ مسجد الخیف  ، یہ  منی میں مشاعر مقدسہ کی انتہائی اہم مساجد میں سے ایک ہے۔ یہ 25ہزار مربع میٹر کے رقبے میں پھیلی ہوئی ہے۔ تقریباً45ہزار افراد آسانی سے نماز ادا کرسکتے ہیں۔  وھاں میرے ساتھ ایک عجیب واقعہ پیش آیا کے کسطرح اللہ نے میری مدد کی۔ ھواں یوں کے میں نے اور  میرے ایک ساتھی افسر علی صاحب نے یہ دونوں نمازیں مسجد الخیف میں  باجمات ھی پڑھنے کا پروگرام بنایا ۔ مسجد ھمارے خیمے سے آدھے گھنٹے کے فاصلے پر تھی ۔ ظہر کی آزان کا وقت  دن کے سوا بارا بجے تھا اور  سعودی عرب میں آزان کے  ختم ھوتے ھی جماعت نماز کے لئیے کھڑی  ھوجاتی ھے۔ ھم  رش کی  ھونے وجہ سے  نماز سے ایک گھنٹہ پہلے یعنی ، سوا گیارہ بجے ھی مسجد الخیف کی طرف روانہ ھوگئیے ۔  تاکے آرام سے پہنچ  مسجد پہنچ سکیں ۔ افسر علی صاحب نے تو وضو تو وھیں سے ، خیموں کے سامنے بنے ھوئیے وضو خانوں میں ایک وضو خانے سے کرلئیا تھا مگر میں نے نھیں کیا تھا ۔حالانکہ  مجھے افسر علی صاحب نے  بہت کہا  تھا کے یہاں سے  وضو کرکے چلو  مگر اس ڈر کے مارے کے میرا وضو بیچ میں کھیں ٹوٹ نہ جائیے ، میں نے  مسجد الخیف پہنچ کر ھی وضو کرنے کا اردا کیا تھا ۔ مسجد کی جانب جانے والی مین سڑک پر بہت ھی ھجوم تھا  جس پر لوگ  مسجد  کی طرف   کچھوے کی چال کی طرح رواں دواں تھے اگرچہ سڑک کافی چوڑی تھی  رش کی وجہ سے  بہت کم رفتار سے ھی ھم لوگ دل میں  تلبئیہ پڑھتے ھوئیے رواں دواں تھے۔وقت تیزی سے گزر رھا تھا مگر ھم ابھی مسجد الخیف سے بہت دور تھے۔ مجھے یہ خدشہ تھا ھم شائید نماز کے وقت سے پہلے مسجد نہ پہنچ سکیں کیونکے جس رفتار انسانوں کا ایک سمندر مسجد کی طرف جارھا تھا ، اس سے تو یہ ھی ظاھر ھوتا تھا۔ اور مجھے  تو  پہلےوضو بھی کرنا تھا۔  میں نے چلنے سے پہلے ھی  وضو نہیں کیا تھا باوجود افسر علی صاحب کے سمجھانے پر بھی۔ یہ خدشہ مجھے کھائیے جارھا تھا کے  شائید میں میں نہ وضو کرسکوں اور پھر نمازیں  بھی نہ پڑھ سکوں گا۔ اور وھی ھوا جب ھم لوگ مسجد سے پانچ منٹ کی دوری پر ھی تھے کے  مسجد  کے لاؤئڈ اسپیکر سے   ظہر کے وقت کی  آذان کی آواز آنا شروع ھوگئی۔ میں آزان سنتے ھی گھبرا گیا کے کسطرح میں بھاگ کر پہلے مسجد میں جاؤں اور پہلے وضو کروں اور پھر نماز پڑھوں ۔ آزان ابھی ھو ھی رھی تھی۔ میرے آگے  اور آس پاس کے لوگوں نے سڑک پر ھی نماز پڑھنے کے لئیے بیٹھنا شروع کردیا۔ مگر میں  کھڑا  پریشانی کی حالت ادھر ادھر دیکھ رھا تھا اور سوچ رھا تھا کے کیا کروں۔  کہاں اور کیسے وضو کرنے جاؤں  اللہ سے دعا کی کے وہ میری مدد کرے  آمین ۔ میں افسر علی سڑک کے بیچوں بیچ تھے افسر علی سمیت میرے چاروں طرف کے لوگ بیٹھکر آزان سن رھے تھے۔ افسر علی صاحب مجھے بار بار گھو ر گھور دیکھتے  ھوئیے اور ناراض ھوتے  کہا طارق تم سے میں نے کتنا کہا تھا کے وضو کرکے  چلو . . مگر تم نے  نھیں کیا . . .  اب بھگتو۔ مگر میں پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر دیکھا جارھا تھا کے کیا کروں ، ابھی میں اسی سوچ میں تھا کے مجھے  پیچھے اپنے  کمر  پر کسی کے ھاتھ رکھنا محسوس ھوا ۔ میں فورن پیچھے مڑا تو کسی نے میرے ھاتھوں میں پانی سے بھری ایک بڑی بوتل تھمادی  مگر میں اس  مہربان شخصیت کو بلکل بھی نہ دیکھ سکا وہ تو میرے ھاتھوں پر  پانی بوتل تھما کر  چھلاوے کی طرح غائیب ھو چکا تھا۔ اچانک پانی کی بھری بڑی بوتل دیکھکر مجھ پر شادئ مرگ کی کیفئیت طاری ھوگئی. . . میں  نے چیخ کر   افسر علی    . . .افسر علی   . . پانی مل گیا. . . .  پانی  مل گیا . . . پلیز  جلد اٹھو مجھے فورن وضو کراؤ ۔ افسر علی اٹھکر فورن میرے پاس  آیا اور بوتل لیکر مجھے وضو کرانا شروع کردیا سڑک  بیٹھے ھوئیے لوگ بھی ادھر ادھر ھونے لگے تاکے مجھے سڑک پر وضو کرنے کی جگہ مل جائیے ۔ وضو کرنے کے دوران ھی آزان  ختم ھوچکی تھی اور جماعت نماز کے لئیے  بھی کھڑی ھو چکی تھی ۔ اقامت کی آزان کے دوران میں وضو کرکے فارغ ھو چکا تھا۔ میں نے افسر علی کا شکرئیہ ادا کئیا  پھر ھم دونوں  نماز کی نئیت کرکے  جماعت میں شامل ھوگئیے۔ میں نے نماز پڑھنے کے بعد اللہ تعالی کا  روتے ھوئیے بہت بہت شکرئیہ ادا کئیا جسنے ایسے موقع پر میری مدد کی اور مجھے باجماعت نماز ادا کرنے کا موقع دیا۔  ایک اقامت کے ساتھ ھم  نے دورکعت نماز فرض ظہر کی پڑھی اور دوسری اقامت کے ساتھ دورکعات نماز عصر کے پڑھے۔ نماز سے جب فارغ ھوئیے تو افسر علی نے پوچھا " طارق یہ کون تھا جو   یہ پانی کی بوتل  تم کو اچانک فراھم کرکے غائیب ھوگیا. . . . اسے  اتنی زیادہ بھیڑ میں کیسے معلوم  ھوگیا کے تم نے وضو نھیں کیا ھے۔. . . یقینن یہ کوئی فرشتہ ھی ھوگا"۔ میں نے بتایا  "افسر علی مجھے معلوم نھیں میں تو اسکی شکل تک نہ دیکھ سکا وہ تو میرے  پیچھے مڑتے ھی مجھے بوتل تھما کر  فورن ھی غائیب ھو چکا تھا۔ میں یہ سمجھتا ھوں یہ اللہ تعالی کی طرف سے یہ غیبی امداد تھی۔میں آج تک اس واقعے کو نھیں بھولا اورجب بھی یاد آتا ھے میں اپنے اللہ کابہت بہت  شکر ادا کرتا ھوں۔

دوسرے دن   یعنی ۹ ذولحجہ کو منی میں پانچویں نماز یعنی نماز   یعنی فجر  کی پڑھی اور پھر سورج کے طلوع  ھونے کے بعد حج کا رکن اعظم ادا کرنے کے لئیے  میدان عرفات کی طرف روانگی ھوئی جہاں وقوفہ عرفہ کرنا تھا یعنی سورج کے غروب ھونے تک عرفات کے میدان میں قیام کرنا تھا۔ جس بس سے ھم لوگ عرفات جارھے تھے وہ کھچا کھچ بھری ھوئی تھی میں بڑی مشکل سے بس کے اندر کھڑا ھوا تھا میرے تین دوستوں کو اتفاق سے بیٹھنے کے لئیے سیٹیں مل گئی تھیں مجھ سے بس میں جلدی چڑھنے میں کویئ کوتاھی ھوئی تھی اسلئیے مجھے سیٹ بیٹھنے کے لئیے نہ مل سکی تھی اور  میدان عرفات تک کھڑا ھونا پڑا  جیسے ھی بس عرفات  کے میدان میں داخل ھوئی اور پانچ منٹ بعد بس تھوڑی دیر کے لئیے رکی اور کچھ لوگ بھی اتر گئیے تو میں بھی اتر گیا میرے ساتھی مجھے روکتے رہ گئیے کے آگے جاکر بس جب  رکے گی وھاں تم اترنا مگر میں کھڑے کھڑے ھوئیے بھیڑ میں سخت  گرمی کی وجہ سے گھبرا چکا تھا اسلئیے  جلد ھی اتر گیا تھا ۔ اتر نے کے بعد میں نے میدان عرفہ میں ایسی جگہ تلاش  شروع کردی  تھی جھاں کچھ سایہ بھی ھو۔  اسوقت سخت گرمی تھی  ٹمپریچر تقریبن 50 سنٹی گریڈ سے تو اوپر  لگ رھا تھا ۔ اگرچہ جگہ جگہ پانی پھینکے والے  فوارے لگے ھوئیے تھے مگر پھر  بھی گرمی کی حدت کم نھیں ھورھی تھی۔عرفات کے میدان واقع میں الرحمہ پہاڑ ( جسکے متعلق کہا جاتا ھے کے یہاں  پر کھڑے ھوکر ھمارے پیارے   رسول اللہ ﷺ نے اپنے پہلے اور آخری حج کا آخری خطبہ دیا تھا) حجاج کرام نے رب تعالی سے عفو درگرز طلب کرتے ہوئے دعائیں مانگنے کے لئیے لاکھوں کی تعدا اس پہاڑ پر چڑھتے نظر آئیے ۔ میں کافی رش کی وجہ سے پہاڑ  کے قریب تک بھی   نہ جاسکا ۔   عرفات کے میدان میں  لاکھوں فرزندان اسلام نے حج کا رکن اعظم وقوف عرفہ ادا کیا۔ حجاج کرام نے ظہر اور عصر کی نمازیں قصر و جمع کی صورت میں ادا کیں اور غروب آفتاب تک میدان عرفات میں ہی قیام کیا۔تلاش تلاش کرتے ھوئیے بالا آخر مجھے ایک ایسی جھاڑی مل ھی گئی جس کے نیچے سایہ بھی تھا اور بیٹھنے کی جگہ تھی  میں اس جگہ آکر جانماز بچھا کر بیٹھ گیا اور تلبئیہ ، شریف کا ورد کرنے لگا ۔ جب ظہر کا وقت ھوگیا تو میں نے جھاڑی کے نیچے سے نکل کر  دھوپ میں قبلے کے رخ پر جانماز بچھا کر پہلے ظہر کی نماز کے دورکعت فرض کے پڑھے اور اسکے بعد عصر کی نماز کے دو رکعت  فرض کے پڑھے ۔ نماز پڑھنے کے بعد پھر میں جھاڑی کے نیچے جاکر بیٹھ گیا اور عبادت کرنے میں اپنا وقت کاٹنے لگا۔ کوئی ساڑھے پانچ بجے کے قریب  وھاں سے اٹھا، ابھی سورج غروب ھونے میں ڈیڑھ گھنٹے سے زیادہ  کا وقت تھا اسکے بعد ھی عرفات کے میدان سے نکل کر ھی مزدلفہ جانا تھا۔ میں نے قریب غسل خانے میں جا کر پہلے غسل کیا اور احرام بھی تبدیل کیا ۔ اور اسکے بعد میں اپنا بیگ اٹھا کر آھستہ آھستہ عرفات سے نکلنے والی جگہ تک بڑھتا رھا تاکے جوں ھی سورج غروب ھو میں فورن ھی عرفات کے میدان سے باھر نکل کر پیدل ھی مزدلفہ کی طرف  روانہ ھو جاؤں ۔ بس کے زریعے جانے  کا اردہ میں نے ترک کر دیا تھا ایک تو بھت دیر میں پھنچے گی اور دوسرے اس میں بھیڑ کی وجہ سے بہت گھٹن ھوتی ھے ۔ میرا نھیں خیال اسوقت وھاں کوئی اے سی والی بھی بسیں موجود تھیں ۔ میں آھستہ آھستہ چلتا ھوا اس آفس کے سامنے آکر کھڑا ھو گیا  جو کسی بھی  کسی  حاجی کی گمشدگی کی کی رپوڑٹ درج کی جاتی تھی اور اسکو تلاش کیا جاتا تھا  ۔ میں جب اس آفس کے قریب جاکر کھڑا ھوا  تو وہ آفس پہلے سے ھی بند ملا۔  میرے سامنے بسوں کی قطاریں لگی ھوئیں تھیں  جنھوں  نے حاجئیوں سورج غروب ھونے کے بعد مزدلفہ لیکر جانا تھا۔  وہ آآکر اس میں سوار ھورھے تھے ۔

وھیں پر اللہ تعالیے نے مجھے میری ایک اچانک مانگی ھوئی دعا کا  قبولئیت اثر فورن دکھا دیا۔ ھواں یوں جب میں میں اس گمشدگی کی رپوڑٹ درج کرانے  آفس کے سامنے کھڑا تھا جو بند ھو چکا تھا اور  سورج کے غروب ھونے کا انتظار کر رھا تھا کے اچانک مجھے  اپنے دائیں طرف سے دور سے ایک لڑکی کے رونے اور چیخنے کی آوازیں سنائیں دیں  ۔ میں نے دیکھا کچھ لوگ ایک لڑکی کو جو روئیے جارھی تھی اور چیخیں مارتے ھوئیے عربی میں کچھ کہہ رھی تھی کبھی ایک طرف گرتی اور کبھی دوسری طرف اور لوگ اسے بار بار گرنے سے روک لیتے تھے ، کسی کی   گمشدگی کی رپوڑٹ کرانے اس  آفس کی طرف آرھے تھے ۔ جب وہ  لوگ اس آفس کے قریب پہنچے تو میں نے دیکھا کے وہ ایک نھایت خوبصورت مصری لڑکی تھی جو روئیے جارھی تھی اور عربی بار بار کچھ کہہ جارھی تھی۔ میں نے اسکے قریب والے ساتھی سے انگلش  پوچھا  اسے کئیا ھوا یہ کیوں رورھی ھے ۔ اسنے  ، جو  غالبن مصری ھی تھا ، بتایا کے " اس بیچاری کا شوھر چار گھنٹے سے غائیب ھے جو اسکو نھیں مل رھا ھے اب ھم اسکو لیکر آفس کی طرف آئیں تاکے اسکے شوھر  گمشدگی  کی رپوڑٹ لکھوادیں ۔ مگر یہ تو آفس بند ھوچکا ھے "۔  وہ لوگ تو آفس بند دیکھ کر واپس چلے گئیے ، مگر پتہ نھیں  میرے   دل میں کیا  آئی میرے ھاتھ فورن    دعا کے لئیے اٹھ گئیے  اور  میں نے آسمان کی طرف دیکھتے ھوئیے دعا کی " اے اللہ کریم اس بےچاری لڑکی کی مدد فرماء اور اسکو اس کے شوھر سے ملادے آمین"۔ اسکے بعد میں پھر  عبادت  میں مشغول ھوگیا ، اور سورج غروب ھونے  کا انتظار کرنے لگا۔ سورج آھستہ آھستہ غروب ھونے جارھا تھا .زردی مائیل  دھوپ پھیلنا شروع ھو چکی تھی ۔ میں مسلسل اپنے سامنے کھڑی ھوئی بسوں کو دیکھے جارھے جنھوں نے حاجئیوں کو مزدلفہ لیجانا تھا۔ لوگ آئیے جارھے تھے اور بسوں میں بیٹھ رھے تھے ۔    کچھ دیر کے بعد  میں نے جب اچانک اپنے دائیں طرف دیکھا تو حیران رہ گیا وھی مصری لڑکی ھنستی ، کھکھلاتی ایک شخض کے گلے میں  اپنا ایک ھاتھ ڈالے ھوئیے ان بسوں کی طرف آرھی ھے جو میرے سامنے کھڑی  ھوئیں تھیں ۔اور آپ لوگ یقین جانیں وہ ٹھیک اسی بس پر اس  شخض کے ساتھ چڑھی جو میرے  بلکل سامنے ھی کھڑی تھی۔ یقین وہ اس لڑکی کا شوھر ھوگا۔ اور اللہ کریم نے میری دعا قبول بھی کرلی اور قبولئیت کا اثر بھی  مجھے دکھا بھی دیا  " کے دیکھ میرےے بندے تو نے جو دعا مجھ سے مانگی وہ میں نے قبول کرلی اور تجھے اسکی قبولئیت  بھی دکھادی"۔ آپ یقین جانیں میری آنکھوں اللہ کریم کے لئیے شکر کے آنسو آگئے اور میں نے رو رو کر اللہ کریم کا شکر ادا کئیا۔ اس وقت بھی میرے آنکھوں میں اللہ کریم کے لئیے شکر کے آنسو آرھے ھیں جب میں یہ تحریر کررھا ھوں کے کسطرح اللہ کریم نے میری وقوف عرفہ میری دعا کی لاج رکھی اور مجھے شرمندہ ھونے سے بچایا۔ اپنے باری تعالی کا میں جتنا بھی شکر ادا کروں بہت ھی کم ھے۔سچ ھے کے. . .

موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لیے

قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے

سورج کے غروب ھوتے ھی میدان عرفات  بسوں نے  چلنا شروع کردیا۔  لوگ تو ان بسوں میں تو پہلے ھی آدھے گھنٹے پہلے ھی بیٹھ چکے تھے ۔ کچھ لوگوں نے پیدل ھی مزدلفہ کی طرف چلنا شروع کر دیا میں بھی انکے ساتھ ھی پیدل چل پڑا۔ پیدل چلنے والے حاجئیوں نے سڑک سے جانے کے بجائیے بیچ کا راستہ اختیار کیا جو  ریتیلا میدان تھا جہاں پر جگہ جگہ بہت سے چھوٹے ، بڑے  ریت کے ٹیلے تھے۔ اس میدان کو کراس کرنے کے بعد ھم نے اسی سڑک پر پہنچ جانا تھا جو مزدلفہ کی طرف جاتی تھی جس پر بسیں  آرھی تھیں مزدلفہ جاتے ھوئیے اور وھاں سے  مزدلفہ کا راستہ پابچ منٹ کا  رہ جاتا تھا.  وہ میدان کراس کرتے ھوئیے جب ایک بڑے ریت کے ٹیلے پر مجھے چڑھنا پڑا تو چڑھا نھیں جاتا تھا . بار بار  میرا ایک پیر دھنس جائیے  اور مجھے نیچے آنا پڑتا پھر کوشش کرتا پھر پیر  ریت میں پھنس جاتا اور پھر تھوڑا نیچے آنا پڑتا تین اور حاجی جو میرے ساتھ چل رھے تھے اس  میں سے ایک نے مجھ سے احرام کا اوپر والا  کپڑا دینے کو کہا اور خود پہلے آسانی سے ٹیلے کے اوپر چڑھکر میرے احرام کے اس کپڑے کا دوسرا سرا میری طرف پھینکا اور پہلا سرا لیکر ٹیلے کے اوپر کھڑا ھو گیا۔میں نے دوسرا سرا پکڑتے ھی اسکو پکڑ کر ٹیلے کے اوپر  آھستہ آھستہ چڑھ گیا اور پھر دوسری طرف آسانی سے اتر گیا ۔ میں نے اس حاجی صاجب کا شکریہ کیا جو انڈیا سے تھے اور اچھی اردو بول رھے تھے۔ جیسے ھم تینوں  لوگ سڑک پر پہنچے ایک ویگن ھمارے پاس آکر رکی جو مزدلفہ کی طرف جارھی تھی اس میں کافی حاجی بیٹھے تھے ھم تینوں لوگ بھی کسی نہ کسی طرح اس ویگن میں گھس گئیے ۔ کوئی پانچ یا چھ منٹ بعد ھی ھم مزدلفہ کی جامع مسجد ، مسجد العشر الحرام پہنچ گئے . اسوقت تک مسجد میں مغرب اور عشا کی نمازیں ایک ساتھ ھوچکی تھیں [یاد رھے مزدلفہ میں عشا کے وقت ادا کرنے والی مغرب کی نماز قضاء نھیں کہلاتی بلکے حقیقی مغرب کی ھی کی نماز کہلاتی ھے۔] ۔ لوگ مسجد کے باھر میدان میں بیٹھے الگ ٹولیوں میں تھے کچھ نماز پڑھ رھے تھے کچھ عبادت میں مشغول تھے اور کچھ لیٹ کر سورھے تھے یا سونے کی کوشش کررھے تھے۔ مزدلفہ میں یہ رات نھایت ھی مقدس ھوتی ھے۔ بعض علماء نے اس رات شبقدر کی رات سے بھی زیادہ فضیلت قرار دی ھے ۔  جب میں اس مسجد کے کے میدان میں پہنچا ، چار یا پانچ پاکستانی  حاجئیوں ، جنکا تعلق صوبہ سرحد ( اسوقت تک  آج کے ، کے پی کے   نام صوبہ سرحد ھی تھا) سے تھا مجھےے آواز دے کر بلایا ، جاجی صاب. . .. حاجی صاب  ام کو نماز پڑھائیں۔ پھر میں نے  انکو پہلے  مغرب تین فرض اقامت کی آزان کے بعد پڑھائیے اور پھر دو فرض عشاء کےاقامت کی آزان کے بعد پڑھائیے۔ نماز پڑھنے کے بعد میں ایک کونے میں اپنی جانماز بچھاکر بیٹھ گیا اور اللہ کی عبادت میں مشغول  ھو گیا۔ میں  نے مسمم ارادہ کر رکھا تھا کے میں آج ساری رات جاگوں گا اور اس رات کی آفادیت سے پورا فائیدہ اٹھاؤں گا مگر تھوڑی دیر بعد مجھ پر نیند تاری ھونے لگی کبھی میں آگے لڑکھتا اور کبھی پیچھے ۔ بحر حال شیطان کمبخت غالب آگیا اور میں نیند کی وادیوں میں کھو گیا۔ ساری دن کی مشقت سے سخت تھکا ھوا تھا اسلئیے نیند جلدی ھی آگئی۔ فجر کی آزان سے آنکھ کھلی تو فورن ھی جاکر وضو کیا اور دوسنتیں فجر کی نماز پڑھیں اس سے پہلے کے فرض نماز کے لئیے جماعت کھڑی ھو [ یاد رکھیں یہ  فجر کی دو  سنتیں فرض نماز سے پہلے ضرور پڑھنیں چاھئیں اسکو بلکل کبھی بھی نھیں  چھوڑنا چاھئیے ھاں اگر سنتیں پڑھنے میں اگر یہ احتمال ھورھا ھو کے اگر سنتیں پڑھیں تو جماعت کے ساتھ پڑھنے والی فرض نکل جائیں گے تو پھر چھوڑ دینے چاھئیں لیکن اگر فرض کی نماز با جماعت شروع ھو جائیے اور یہ پکا یقین ھو کے میں فرض نماز میں شامل ھو جاؤں گا اور  فرض نماز   ضائیع نھیں ھوگی، حتی کے آپ کو اتنا یقین بھی ھو میں فرض کی دوسری رکعات جائین کرلو گا تو تب بھی پہلے  دو  سنتیں نماز کی پڑھنیں چاھئیں ۔ امام فجر کی نماز ھر رکعت میں قرعت  ھمیشہ لمبی ھی پڑھتے ھیں کیونکے اسکا ھی حکم ھے تاکے لوگ سنتیں پڑھکر  ھی فرض نماز میں شامل ھوں  سکیں۔ اگر باوجو اس کے ، کسی کی یہ سنتیں قضا ھوجائیں اسکو سورج کے طلوع ھونے  کے بارہ منٹ بعد ھی ، جب اشراق کا وقت ھوجاتا ھے۔ یہ سنتیں پڑھ لینی چاھئں ۔ اسوقت یہ نفلیں شمار ھونگیں نہ کے سنتیں].  فجر کی نماز اور کچھ اسکے بعد وظائیف پڑھنے کے بعد میں نے رمی کے لئی یعنی  منی میں بڑے شیطان کو 10 زوالحجہ کو سات کنکریاں مارنے کے لئیے او ر 11, 12 اور 13 زوالحجہ کو تین  چھوٹے شیطانوں کو یعنی ھر ایک کو سات ، سات  کنکریاں  مارنے کے لئیے 70 کنکریاں اٹھانی تھیں مگر میں نے کچھ زیادہ ھی اس سے اٹھالیں مبادا اگر کوئی کنکری  غلطی ضائیع ھو جائیے تو دوسری  کو استعمال کرلی جائیے ۔کیونکے  کنکریاں تو مارنی تو  سات ھی  تھیں ، ھر ایک شیطان  کو چاھے بڑا ھو یا چھوٹا ( جو حاجی 12 زوالحجہ تک ھی منی میں رکنا چاھتے ھوں انکو  49 ایسی کنکریاں اٹھانی چاھئیں اور مارنے کے بعد سورج غروب ھونے سے پہلے منی سے نکل جانا چاھئیے۔ اگر وہ سورج غروب ھونے سے پہلے  منی سے نہ نکل سکے تو انکو  

13 زوالحجہ کو بھی منی میں لازمن رکنا پڑے گا اور تین چھوٹے شیطانوں میں ھر ایک کو  باری باری سات کنکریاں بھی مارنی پڑیں گی )۔ کنکریاں اٹھانے کے بعد   منی جانے کے لئیے سورج کے مکمل طلوع ھونے کا انتظار کرنے لگا۔میں نے    شھر کے بیچوں پیچ سے منی   تک پیدل جانے کا پروگرام  بنا ر کھا تھا اور بھت کافی  اکثر حاجئیوں نہ بھی منی پیدل جانے کا پروگرام بنا رکھا تھا۔ پیدل راستہ شائید ایک گھنٹے کا تھا۔ سورج کے مکمل  طلوع ھوتے ھی  پیدل جانے والے حاجئیوں نے منی کی طرف چلنے کا آغاز کیا اور میں نے بھی۔ اور وہ بسیں بھی چلنا شروع ھوگئیں جو حاجئیوں کو لیکر منی جارھی تھیں ۔ ھم ایک قافلے کی سورت میں منی تلبئیہ پڑھتے ھوئیے بازاروں اور گلئیوں سے گزر رھے تھے جب ایک تنگ گلی کے شروع ھوتے ھی  جب حاجئیوں  کا ھجوم  سڑک سے دائیں طرف اس گلی  میں مڑ ا ، میں جو بلکل داھنے طرف تھی  ۔ ھجوم کے مڑتے ھی ، گلی کے شرع میں ایک دوکان کی منڈیر پر دوھری کمر کے ساتھ  گرگیا مجھے سنبھالا اس مونڈیر نے دیا اور دوسرے حاجی بھی دھڑا در میرے اوپر گرنے لگے شکر ھے میں بلکل نیچے نھیں گرا تھا ورنا شائید نہ بچتا لیکن جو حاجی   اس مونڈیر پر گر رھے تھے وہ فورن ھی کھڑے ھوجاتے اور چل پڑتے اور اس طرح میں بھی نکلنے میں کامیاب ھو گیا اور اللہ کا شکر ادا کئیا اسنے جان بچائی۔ اسکے بیس منٹ بعد ھی میں اپنے منی والے خیمے میں پہنچ چکا تھا جیسے ھی میں اندر داخل ھوا ، افسر علی صاحب بھاگتے ھوئیے میرے پاس آئیے اور مجھ سے لپٹ گئیے اور ناراضگی کے انداز میں بولے " یار تم کہاں غائیب ھوگیا تھا"(بتاتا چلوں کے افسر علی پختون تھے اور پختون جس طرح اپنی زبان میں اردو بولتے ھیں اس سے آپ سب لوگ تو واقف ھی ھونگے )۔  میں  صرف  مسکرا دیا اور انکو کچھ جواب نہ دے سکا۔ تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد ھم لوگ رمی کے لئی یعنی بڑے شیطان کو سات کنکریاں مارنے جمرات کی طرف نکل گئیے۔ وھاں بڑا ھی رش تھا مجھ کو اور  دوسرے ساتھیوں کو اچھل اچھل کر سات کنکریاں بڑے شیطان کو مارنی پڑیں۔ رمی کرکے واپس ھوئیے تو پہلے وقت چیک کیا تو  گیارا بجے صبح کے بجنے والے تھے جبکے ھم کو دس بجے کا وقت قربانی کا دیا تھا۔اسکا مطلب تھا قربانی ھو چکی ھوگی۔پھر ھم نے حلق کئیا یعنی اپنا سر مونڈوایا ۔ میں نے افسر علی  کا سر مونڈا اور اسنے میرا اسکے بعد ھم نے احرام کھول دئیے اور سلے ھوئیے کپڑے پہن لئیے[ ایک بات بتانا بھول گئیا  کراچی سے میرے ایک عزیز بھی حج  کے لئیے آئیے تھے ۔ میری بیگم نے انکے ھاتھ تین  نئیے سفید جوڑے شلوار قمیض کے بھیجے تھے جو میں نے انکی مکہ میں قیام کی جگہ جاکر انسے بہت پہلے  ھی وصول کرلئیے تھے ] ۔ دوپہر کے وقت ھم حرم شریف کی طرف مکہ روانہ ھوئیے  طواف زیارت کرنے کے لئیے ۔ میرے تینوں دوست تو بس کے زریعے چلے گئیے۔ مگر میں پیدل ھی حرم کی طرف روانہ ھوا۔ منی سے لیکر  مسجد الحرام تک  ایک بڑا خوبصورت راستہ بنا یا گیا ھے۔ پیدل چلنے والوں کے لئیے ۔ گرمی سخت تھی۔ راستے میں انڈر گراؤنڈ بہت پیسیج آئے تھے۔ راستے میں جگہ جگہ پانی دینے والے  چھوٹے ٹرک کھڑے ھوئیے تھے جو ھرایک چلنے والے حاجی کو ٹھنڈے آب زم زم کے  چھوٹے چھوٹے پورچ دے رھے تھے۔ میں نے بھی راستے کافی دفعہ یہ پانی کے پورچ لئیے تھے اور انکو پیتا ھوا  مسجد الحرام پہنچ گیا کوئی دو گھنٹے کے بعد ۔ کعبہ کا طواف نیچے کرنا یعنی جہاں کعبہ شریف تھا نھایت ھی مشکل نظر آرھا تھا وہ پورشن کھچا کھچ بھرا ھوا تھا لاکھوں لوگ طواف زیارت کررھے تھا .[ یہ  طواف بھت ھی ضروری ھوتا ھے کہتے ھیں اگر  حاجی شوھر طواف زیارت نہ کرے تو اسپر اسکی بیوی حرام ھو جاتی ھے اور حجن بیوی طواف زیارت نہ کرے اس پر اسکا شوھر حرام ھو جاتا ھے]۔ میں یہ صورت حال دیکھ کر اوپر کی منزل پہنچ گیا وھاں پر بھی بھی لوگ طواف زیارت کررھے ۔ میں نے بھی استلام [ اوپر بھی استلام کرنے لئیے جگہ ویسے ھی بنی ھوئی تھی جیسے نیچے بنی ھوئی تھی] کرکے طواف شروع کردیا۔ کعبے کے گرد سات چکر لگانے پڑتے ھیں پھر کھیں جاکر  طواف مکمل ھوتا ھے۔ اوپر ایک چکر ، جو میں نے نوٹ کیا تھا، وہ تقریبن 45 یا 48 منٹ کا تھا۔ اسطرح آپ اندازہ لگالیں سات چکر میں کتنا وقت لگا ھوگا۔مجھے طواف زیارت  اوپر مسجد الحرم  اوپر کی منزل پے  کرنے میں تقریبن چار گھنٹے لگے تھے۔ مگر شکر ھے کے یہ نہایت اھم فریضہ انجام دے لئیا تھا۔اسکے بعد کوہ صفاہ اور مرواہ کے درمیان سعی  بھی کرلی ۔ اور پھر عصر کی نماز حرم میں ادا کرنے کے بعد میں واپس پیدل ھی منی اپنے خیمے کی طرف لوٹ گیا تھا ۔ اسکے بعد  ھم لوگ 11, 12 اور 13 ذولحجہ کو رمی جمرات کی  یعنی تین چھوٹے شیطانوں کو زوال کے بعد  بار بار ھر ایک  چھوٹے شیطان کو  سات، سات  بار کنکریاں ماریں  اور 13 ذولحجہ کو یہ رمی کرنے  کے بعد ، سورج غروب ھونے سے پہلے مکہ واپس  روانہ ھوئیے ۔ اور حرم شریف سے عشاء کی نماز پڑھکر اور رات کھانا  حرم کے باھر ریسٹورانٹ سے کھا اپنے رھنے والی جگہ کی طرف روانہ ھوئیے ۔ ھماری پاکستان واپسی ۱۵ مئی کو  11 بجے صبح سعودیی ائیرلائن سے جدہ انٹر نیشنل ائیرپوڑٹ سے تھی  ھم کو بتایا گیا کے 14 مئ کو ھم نے دس بجے مسجد الحرم کے باھر ایک جگہ جمع ھوجانا ھے وھیں سے بس ھم کو لیکر جدہ ائیر پوڑٹ چھوڑدے گی۔ 24 گھنٹے پہلے ھی جدہ ائیر پوڑٹ لیجانے کی تک ھمیں سمجھ نھیں آئی ۔ بحرحال ھم  14 مئی کی صبح سات  ھی بجے اپنا سامان اٹھاکر مسجد الحرم پہنچ گئیے وھاں ھم نے پہلے طواف الوداع کیا اور پھر مسجد الحرم سے رخصت ھوئیے ۔میرا دل اس طواف الوداع کے بعد بھرآیا  اور وھاں سے رخصت ھوتے ھوئیے آنسو نکل  پڑے کے پتہ نھیں اب دوبارا یہاں آنے کا موقع ملتا بھی ھے یا نھیں۔ ھم سب لوگ اسی جگہ پر پہنچ گئیے جہاں سے بس نے ھم کو لیجانا تھا اور بھی دوسرے لوگ بھی وھاں پہنچ گئیے تھے جنھوں نے جدہ ائیرپوڑٹ جانا تھا۔میری طبیعت حج کے دوران خراب  رھی . سخت کھانسی اور سینہ جکڑا معلو م ھوا تھا۔ کافی  دبلا اور کمزور بھی ھوگیا تھا چہرے کا رنگ بھی کافی جھلس  گیا تھا وھاں کی سخت ترین گرمی  کی وجہ سے تھا۔ قبض کی شدت  بھی تھی کھانے کا بلکل بھی دل نھیں چاھتا تھا بس ٹھنڈا اورنج جوس اور ٹھنڈا پانی پینے کا دل چاھتا رھتا تھا۔ داڑھی میں نے حج کے دوران ھی رکھ لی تھی ۔کلئین شئیو آیا تھا اور اب داڑھی کے ساتھ واپس جارھا تھا۔ 

بس نے ھمیں بجائیے جدہ انٹرنیشنل ائیر پر ڈراپ کرنے کی بجائیے اس حاجئوں  والے ٹرمینل  پر  ڈراپ کردیا  جھاں اور دوسرے تما م  حاجی اپنے اپنے وطن   واپس جارھے تھے ۔ اسجگہ بیحد رش تھا ۔ ھم چاروں بھی ایک جگہ پر اپنا سامان رکھکر فرش پر چادریں بچھا کر بیٹھ گئیے ۔ ھمیں بتادیا گیا تھا کے کل یعنی 15 مئی کو  فلائیٹ جانے سے تین گھنٹے پہلے ایک دوسری بس  ھم کو جدہ انٹر نیشنل ائیر پوڑٹ لے جائیگی ۔ وھاں سے جدہ انٹر نیشنل ائیر پوڑ ٹ سات منٹ کی دوری پر تھا. دوسرے دن  صبح آٹھ بجے کے قریب  ھی اس  دوسری بس  نے ھم کو  جدہ انٹر نیشنل ائیر پوڑٹ پر ڈراپ کردیا ۔ سعودی عب کی فلائیٹ نے گیارہ بجے ، ٹھیک ٹائیم  پر ٹیک آف اور ٹھیک پانچ گھنٹے  بعد کراچی انٹر نیشنل ائیر پوڑٹ پر لینڈ کیا۔ جھاز میں فلائیٹ کا آخری ایک گھنٹہ میرے لئیے بھت ھی مصروف گزرا ۔ ھواں یوں کے فلائیٹ کے پنچنے سے آدھے گھنٹے پہلے ائیر ھوسٹس سب مسافروں کو ایک  ایک کاڑڈ دیا اور کہاں اسکو بھر کر اپنے پاس  رکھیں جو امیگریشن حکام کو آپکو دینا پڑے گا۔ اس کاڑڈ میں ھر مسافر کی مکمل تفصیل لکھنی ھوتی تھیں  ، اسکا نام پاسپوڑٹ نمبر ، آنے کی وجہ وغیرہ وغیرہ  [ آجکل یہ سسٹم ختم ھو چکا ھے  اب تو پاسپوڑٹ  اور ٹکٹ  تک کمپیوٹرائیزڈ ھو چکے ھی ۔ پاسپوڑٹ کو اسکین کرتے ھی تمام معلومات فورن امیگریشن حکام  حاصل کر لیتے ھیں  ] . جب میں نے اپنے کھانے کی میز کھول کر اس پر وہ کاڑڈ رکھ کر فل کر لیا۔ تو دیکھا ایک حاجی صاحب جو پختوں تھے میرے پاس آئیے اور مجھے کہنے لگے " حاجی صاب امارا بی برو"۔ میں نے انکا کاڑڈ لیکر فل کر دیا۔ انکا کاڑڈ فل کیا ھی تھا کے دوسرے حاجی صاحب آگئیے انھوں نے بھی ویسی ھی فرمائیش کردی " امارا  بی برو"۔ پھر تو میرے گرد  حاجیوں کی لائین لگ گئی اور میں ھر ایک کو پانچ منٹ کے اندر فل کر کر کے دیتا رھا اسطرح مجھے فلائیٹ کا آخری ایک گھنٹہ  کا سفر بلکل بھی معلوم نھیں ھوا۔ کراچی ائیر پوڑٹ استقبال کرنے والوں  کا کافی ھجو منتھا۔ میں  بیلٹ پر سامان  کا انتظا کررھا تھا اور بار دور سے  باھر جانے گیٹ کی طرف دیکھتا کے مجھے   کون لینے آیا ھے ۔ مجھے میرے دونوں بھائی خالد اور ناصر نظر آگئیے ۔ میں نے اپنی جگہ سے اچھل اچھل کر کر انکی طرف ھاتھ ھلانا شروع کردئیا مگر انکی طرف سے کوئی ایسا ریسپونس ھی نھیں آیا کے جیسے انھوں نے  مجھے دیکھ لیا ھو ۔ مجھے سخت غصہ آنے لگا  " عجیب  لوگ ھیں کوئی جواب یا اشارا تک کرکے مجھے نھیں بتارھے "۔ جب میں باھر اپنا سامان لیکر نکلا ۔ تو ان دونوں   پر بہت  غصہ کیا کے انھوں نے مجھے ریسپونس کیوں نھیں  دیا جب میں اچھل اچھل کر انکی طرف ھاتھ  کے اشارے کر رھا تھا۔ وہ دونوں قسمیں کھانے لگے کے میں نے انکی طرف کوئی بھی ھاتھ کا اشارہ نھیں کیا۔ انھوں نے اتنا ضرور کہا ایک داڑھی والا  اچھل اچھل کر تو  ھاتھ کے اشارے کر رھا تھا مگر وہ تو آپ نھیں تھے"۔ میں اور گرم ھوگئیا اور غصے میں کہا کے وہ ھی تو میں تھا۔ دونوں بھائیوں نے کہا " بھائی صاحب یقین جانے ھم آپکو بلکل بھی نھیں پہچانے تھے"۔ وہ ٹھیک ھی کہہ رھے تھے ایک تو میری داڑھی تھی کیونکے یہاں سے تو کلین شئیؤ گیا تھا اور دوسرے کافی  رنگ جھلس گیا تھا اور کافی دبلا بھی ھو چکا تھا ( اسکے متعلق اوپر تحریر کر چکا ھوں )۔ سب آئیے ھوئی لوگوں  ، میری بیگم ، مرے بچے اور دوسرے تمام عزیز واقارب جو میرے اسقبال کے لئیے  تھے انھوں نے  مجھے گلے لگایا اور حج کرنے کی مبارکباد دی.  میں اپنے گروپ کے ساتھی  افسر علی ، جنکی اسلام آباد جانے  کے لئیے پی آئی کی فلائیٹ 16 مئی کے صبح دس بجے کی تھی ، انکو  کو اپنے گھر لے آیا  تھا ۔دوسرے دن میرے بھائی خالد نے جو پی ٹی وی کراچی میں ٹرانسپوڑٹ سپروائیزر تھا ، اسنے افسر علی کو پی ٹی وی کی گاڑی  پر  کراچی ائیر پوڑٹ پر ڈراپ کروادیا تھا۔

 پاکستان پہنچنے پر مجھے معلوم ھوا کے  ھمارے چیف انجینئر خالد بٹ صاحب کو حج کرنے کا ویزاہ نھیں  مل سکا اور وہ  بیچارے حج کرنے سے رہ گئیے  جو انکی دیرینہ خواھش تھی  ۔ وجہ یہ بنی انکے  گروپ   A جو 14 اپریل 1995 کو فرانس جانا تھا لیکن انکے  قائیم مقام چئرمین پی ٹی سی  بننے کی وجہ سے،  وہ نہ جاسکے ۔ وجہ یہ بنی   اسوقت کے پی ٹی سی کے چئیرمین میاں جاوید کے وزیر اعظم پاکستان بے نظیر بھٹو کے ساتھ امریکہ کے دورے پر  چلےگئیے تھے ،  اور انکو سینئر موسٹ ھونے کی وجہ سے قئم مقام چئیر مین بننا پڑا۔ اسلئیے وہ اپنے گروپ  A کو ساتھ لیکر فرانس نہ جاسکے اور انکو  آخری گروپ  C کی جگہ 28 اپریل 1995  کو  فرانس جانا پڑا   ۔ اور خوبئی قسمت صرف گروپ B اور گروپ C میں سے چند لوگوں کو ھی پیرس سے حج کا ویزہ مل گیا تھا لیکن گروپ  A میں   ، جسکو پہلے آنا تھا مگر وہ آخیر میں آیا۔ اور جو آخیر میں فرانس آیا تھا اس میں سے کسی کو بھی حج کا ویزہ نہ مل سکا اور   چیف انجینئر خالد بٹ صاحب جنھوں صرف حج کرنے کی ھی وجہ سے  مارچ،  اپریل 1995  میں یہ فرانس کا دورہ ارینج کروایا تھا۔  وہ ھی حج کرنے سے رہ گئیے انکی  پاکستان واپسی فرانس سے 10 مئی 1995 کو براستہ جدہ  ھوئی ۔  جدہ انٹرنیشنل ائیر پوڑٹ ، انھوں نے جج کے ھی دنوں میں پاکستان جانے کے لئیے ٹرانزٹ تین یا چار گھنٹے کا سٹے کیا۔ مگر چونکے اللہ کی طرف سے   انکو بلاوہ نہیں آیا تھا  اسلئیے وہ اپنی بے پناہ  خواھش کے باوجود حج نہ کر سکے۔  سچ  کسی نے بلکل صحیح  ھی کہا ھے کے جاتے  ھیں وھی  جنکے  بلاوے  آتے ھیں . 

واسلام 

محمد طارق اظہر

ریٹائیڑڈ جنرل منیجر(آپس) پی ٹی سی ایل

راولپنڈی

۳۰ جون ۲۰۲۳

بروز جمعہ

Comments

Popular posts from this blog

.....آہ ماں۔

Article-173 Part-2 [Draft for non VSS-2008 optees PTCL retired employees]

‏Article-99[Regarding clerification about the registration of the Ex-PTC employees of any capacity with EOBI by PTCL]