Article-35(پی ٹی سی ایل ملازمین کو وی ایس ایس-16 پر زبر دستی بھیجنے کے لئے پی ٹی سی ایل کے ظالمانا اور غيرقانونى اوچھے ھتکنڈے) Article-35


تما م پی ٹی سی ایل میں کام کرنے والےٹراسفڑڈ ریگولر ملازمین متوجہ ھوں
عزیز ساتھیو اسلام وعلیکم

پی ٹی سی ایل کا وی ایس ایس -16 کا مرحلہ اختتام پزیر ھوا .پی ٹی سی ایل کی انتظامیہ باوجود اپنے ظالمانہ اوچھے ھتکنڈے استعمال کرنے کے صرف بمشکل تقریبن ایک ھزار پی ٹی سی ایل کے ایسے ملازمین کو وی ایس ایس لینے پر ھی مجبور کرسکی جبکے انکا ہدف تین ھزار ملازمین کو بھیجنے کاتھا . پچھلے وی ایس ایس کو دیکھتے ھوئے جس میں پی ٹی سی کی انتظامیہ نے جسطرح وی ایس ایس لینے والوں کو پریشان کیا اور انکو انکی رقومات دینے جسطرح روڑے اٹکائے .پینشنس آفر لیٹر میں لکھنے کے باوجود نھیں دی وغیرہ وغیرہ اسوجہ سے اس بار لوگ وی ایس ایس لینے پر بالکل تیار نھیں تھے لیکن اس جابر پی ٹی سی ایل کی انتظامیہ نے دور دراز علاقوں میں ٹرانسفر کرنے کی دھمکیوں ،نوکری سے نکانے کی دھمکیں دے دے کر ایسے مجبور لوگوں کو وی ایس ایس دیا.اسکا سب سے بڑا ثبوت جی ایم ایس ٹی آر حیدرآباد جاوید شیخ کا طرز عمل جس نے لوگوں کو آفس میں بلا بلا کر پھلے انکو انکے نوکری سے ٹرمینیشن لیٹر کے ڈرافٹ دھکائے اور پھر کہا کے یہ وی ایس ایس لو ورنہ میں یہ ٹرمینیشن لیٹر سائین کرکے تمکو نوکری سے نکال دوں گا خود بھی اس نے یہ کیا اور اسے متعلقہ سینئر منیجرز نے . یہ تمام باتیں مجھے حیدر آباد اور میر پور خاص سے لوگوں نے فون کر کر کے بتائیں جو مجھے اچھی طرح جانتے تھے کیونکے میں نے پطور ڈائریکٹر فون اور جی ایم ایس ٹی آر حیدرآباد بھی کام کرچکا ھوں . مجھے انکی صداقت سے کوئی انکار نھيں . جاوید شیخ جو اپنا ٹارگیٹ پورا کرنے پر ناچ رے ھیں کے انکو اسکا انعام ملے گا ، مگر وہ ایک بات بھول رھے ھیں کے یہ پی ٹی سی ایل انتظامیہ انکو کچھ ھی عرصے کے بعد دودھ کی مکھی کی طرح نکال دے گی .یہ ھوکے رھنا ھے اس میں کسی کوبھی شک میں نہ رھنا چاھئے . یہ تو اس پی ٹی سی ایل انتظامیہ کا وطیرہ رھا ھے یہ جونير افسران کو لالچ دے کر کنٹریکٹ پر اچھی تنخواہ ھائیر پوسٹوں پر لگادیتے ھیں اور وہ جونئر افسران اپنی پکی نوکریوں سے استعفی دے کر ایسی پوسٹوں پر لگ جاتے ھیں اور پھر چھ ماہ یا ایک سال کے بعد انکو نوکری سے نکال دیتے ھيں .کسی کو پہلے ویٹنگ بر بھیجدیتے ھیں اور بعد میں چلتا کردیتے ھیں یا یہ بھی کرتے ھیں کے جونئر افسران کو آؤٹ آف ٹرن پروموشن دے کر ایسی ھائیر پوسٹوں پر لگادیتے ھیں اور پھر کسی بہانے چارج شیٹ دے کر نوکری سے برطرف کردیتے ھیں . یھیں حیدرآباد ریجن میں رحیم شیخ کے ساتھ کیا ھوا جو ایک جونئر موسٹ تھا پہلے اسکو جی ایم بنایا پھر کچھ عرصے کے بعد اسکو ویٹنگ پر بیھج کر چلتا کردیا اور اسی طرح شکیل صدیقی کے ساتھ کیا ھوا جو ایک جونئیر موسٹ تھا اسکو آؤٹ آف ٹرن پروموشن دے کر جی ایم بنایا اور سکھر میں لگایا اور کچھ ھی عرصے کے بعد اسکو چارج شیٹ دے کر جبری ریٹائر کردیا . میرے ایسے ھی کتنے دوست اور بیچ فیلوز ھیں جنھوں نے لالچ میں آکر پریمیچور ریٹائرمنٹ لے لی اور کنٹریکٹ پر ایک اچھی تنخواہ دو ، تین لاکھ سے زیادہ پر دوبارہ لگ گئے جبکے انکی آٹھ دس سال مزید رگولر سروس کرنے کی عمر باقی تھی ، اور انکو کچھ ھی عرصے کے بعد مزید چھ ماہ یا ایک سال کے بعد انکا کنٹریکٹ ختم کرکے انکو چلتا کردیا .کچھ ایسے بھی نا آقبت اندیش تھے جنھوں نے لالچ میں آکر اپنی بیس ، بائیس سال کی پکی پکائی نوکری کو ، لات ماری اور استعفے دے کر تین ، تین لاکھ یا اس سے زیادہ تنخواہ کا کنٹریکٹ پیکج لیا اور جی ایم کی پوسٹیں سنبھالیں لیکن کچھ ھی عرصے کے بعد انکو بھی کسی نہ کسی بہانے پی ٹی سی ایل نے نکال دیا . اگر یہ لوگ ۲۵ سال کی کی سروس کرنے کے بعد ھی ریٹائرمنٹ لے کر یہ کنٹریکٹ بر دوبارہ نوکری کرتے ، تو آج کم از کم پنشن تو لے رھے ھوتے . مجھے تو بیحد افسوس ان پندرہ یا سولہ گريڈ ۱۹ کے پی ٹی سی ایل ھیڈ کوارٹر میں کام کرنے والے سینئیر منیجرز پر ھوتاھے جنھوں نے لالچ میں آکر اپنی سولہ سولہ سال کی ریگولر سروس سے استعفے دئیے اور کنٹریکٹ پر اچھی پیکج کی تنخواھوں کے ساتھ انھی پوسٹوں پر لگ گئے. مگر کچھ ھی عرصے جب وہ صبح اپنے آفس کام کرنے پھنچے تو سبکو انکے آفسسس میں انکے ٹرمینیشن لیٹرز پکڑا دئیے گئے اور کہا کل سے نوکری پر نہ آئیں. یہ لوگ بہت چیخے چلائے اخباروں میں دیا کے انکو پی ٹی سی ایل نے دھوکہ دیا اور وہ انکے کہنے پر اپنی پکی نوکریوں کو چھوڑا اور اب ھم کہاں جائیں ؟. انھوں نے سپریم کوڑٹ میں اپیل بھی کی مگر انکی اپیل خارج ھوگئی کیونکے انھوں نے خود ھی اپنے پاؤں پر خود ھی کلھاڑی ماری تھی . ان باتوں کو آپ سبکو بتانے کا مقصد یہ کے یہ بتانہ کے یہ پی ٹی سی ایل کی انتظامیہ بڑی ھی بے اعتباری اور دھوکے باز ھے .
پی ٹی سی ایل نے یہ وی ایس ایس -16 کو رضاکرانہ دینے کا اعلان کیا تھا مگر یہ انھوں نے دھونس دھمکی لوگوں کو دے کر دے کر دینے کی کوشش کی جو انکی دھمکیوں میں آگئے انھوں نے وی ایس لے لیا اور جو نہ آۓ انکو دور دراز علاقوں یا تو ٹرانسفر کردیا یا انکو معمولی معمولی باتوں کا بہانہ بنا کر شو کاز نوٹسسس دینے شروع کردئے .انھوں نے چھوٹے سے چھوٹے گریڈ کے ملازموں کو اپنے اپنے شہروں سے جہاں وہ کام کرتے تھے انکو بھی دور دراز علاقوں میں ٹرانسفر کردئے. ایسے ملازموں کو تو لوکل تو ٹرانسفر کیا جاسکتاھے مگر اپنے شہر سے دوسرے دراز علاقوں میں نھيں کیا جا سکتا .انھوں نے سوئپروں کا بھی بلوچستان ٹرانسفر کردیا اور چوکیداروں کا سکھر اپنےاپنے آبائی شھروں سے بہت دور.مجھے چینوٹ سے ایک معزور با ھمت خاتون کا فون آیا جو پی ٹی سی ایل میں ای ایس ھیں اور جو معزوری (Disable) کوٹے پر ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی ھوئی تھیں .انھوں نے مجھے بتایا کے انکے انکے آفیسر نے جہاں وہ کام کرتی تھيں ، انکو بلا کر کہا کے تم یہ وی ایس ایس لے لو ورنہ تمہارا دور جگہ ٹرانسفر کردیا جائے گا .تو انسے میں نے کہا میں وی ایس ایس نہیں لوں گی .چاھے آپ میرا ٹرانسفر کرديں . " اس با ھمت خاتون نے مجھے دیا کے انھوں نے اسکا ٹرانسفر بیس میل دور کردیا اور وہ روزانہ بیس میل جاتی ھے اور اگر وہ زرا سی لیٹ ھوجائے تو اسکو explanation لیٹر دے دیا جاتاھے .انھوں نے بتایا وہ معزوری کی وجہ سے اتنی دور گھر سے آنے کی وجہ سے بیحد پریشان ھے وہ کیا کرے .انکو میں نے مشورہ دیا کے کے وہ میڈیکل گراؤنڈ پر چھٹیاں لے لیں اگر ویسے ھی چھٹیاں مانگے گیں تو یہ خبیث لوگ کبھی بھی چھٹیاں نہ دیں گے اور پھر وہ لیبر کوڑٹ میں انکے خلاف کیس کردیں کے انھوں نے malafiedly ايک معزور خاتون کا گھر سے بہت دور اس لئے کیس کیا کے اس نے وی ایس ایس لینے سے انکار کردیا تھا . میں نے انکو بتایا کے کوڑٹ ضرور انکی دادرسی کریگی. اسکے لئے انکو کوئی اچھا وکیل کرنا پڑے گا .ان خاتون نے بتایا کے اسکے بہت سے رشتے دار اور عزیز اچھے وکیل ھیں وہ انکے ذریعے ھی کیس کریں گی . انھوں نے مجھے یہ بھی بتایا کے میں نے ان پی ٹی سی ایل کے افسران پر یہ اچھی طرح واضح کردیا کے کے اتنی دور گھر سے ٹرانسفر کرنے اور اس کے نتیجے ایک معزور کو روزانہ اتنی دور آنے جانے کی وجہ سے کوئی نقصان پھنچا تو ساری زمہ داری ان پی ٹی سی ایل کے ان آفیسران پر ھوگی جس نے انکا بیجا اتنی دور ٹرانسفر کیا. پہلے انکا آفس اس کے گھر کے بالکل قریب تھا اس لئے انکو کوئی دقت نہیں تھی . بحر حال انکو میں نے یہ ضرور واضح کردیا تھا کے کیس کرنے اور وکیل کو سمجھانے کے لئے اگر میری کوئی ضرورت پڑے تو مجھ سے ضرور رابطہ کریں .
اسی طرح جن لوگوں نے وی ایس ایس لینے سے انکار کیا .پی ٹی سی ایل نے انکو چھوٹی چھوٹی باتوں پر نوکری سے نکالنے کے شوکاز دینے شرع کردئیے .اسی سلسلے میں سیالکوٹ سے کچھ اے ایمز ( گریڈ 17 کے آفیسرز) نے مجھ سے رابطہ کیا جنکو شوکاز نوٹسس نوکری سے ڈس مس کرنے والے دئے گئے جو انکو صرف اس لئے دئے گئے کے انھوں نے وی ایس ایس لینے سے انکار کردیا تھا . شوکازز میں انپر نوکری سے غیر حاظر رھنے کا الزام لگایا گیا تھا. ان لوگوں نے اس سلسلے مجھ سے رابطہ کیا اور میری راۓ مانگی کے انکو اس شوکاز نوٹسس کا کیا ڈیفینس ریپلائی دینا چاھئیے .میں نے انسے ان شوکاز نوٹسس کی کاپیاں فورن منگوائیں جو انھوں نے مجھے بھی فورن ای میل کردیں .شوکازز پڑھنے پر معلوم ھوا کے یہ یہ شوکازز انکو کمپنی کے رولز کے تحت ایشو کئے گئے تھے اگرچہ ان شوکازز میں یہ نھیں لکھا ھوا تھا کے کے کس رولز کے تحت وہ شوکازایشو کئے گئے لیکن انکا پیٹرن بتا رھا تھا کے وہ کمپنی کے اپنے بناۓ ھوۓ رولز کے تحت دئے گئے تھے. [ کیونکے گورنمنٹ سول سروس ای اینڈ رولز 1973 کے تحت دئے گۓ شوکازز نوٹسس ھمیشہ ایک مجاز آفیسر یعنی Authorised Officer ایشو کرتا ھے جس کو مجاز اتھاڑٹی یعنی Authority Concern نامزد کرتی ھے . مجاز اتھاڑٹی اور مجاز آفیسر بلاحظہ گریڈ قانون میں پھلے ھی واضح کردئے گئے ھیں جیسے مثلن گریڈ 17 کے آفیسر کے لئے مجاز آفیسر گریڈ 19کا آفیسر ھوتاھے اور اتھاڑٹی گریڈ 21 کا وغیرہ رغیرہ .بحرحال حکومت نے گورنمنٹ سول سروس ای اینڈ رولز 1973 کے قوانین کے تحت پھلے سے ھی ایک چاڑٹ بنادیا ھے کے کس کس گریڈ کا مجاز آفیسر ھوگا اور اسکو کس کس کس گریڈ کی اتھآڑٹی نامزد کرے گی. یہ نہیں جس طرح پی ٹی سی ایل نے اپنے تئیں یہ قانون بنا لیا کے ایک کم گریڈ والا پی ٹی سی ایل میں کنٹریکٹ کا ملازم ایک ریگولر گورنمنٹ کے آفیسر کو صرف یہ لکھ کر "On behalf of authority " شوکاز نوٹس ایشو کررھا تھا]. .میں نے انکو دئے ھوۓ کمپنی کے شوکاز پڑھکر انکو مشورہ دیا کے وہ فورن ان شوکازز کو قبول کرنے سے انکار کرتے ھوئے ڈیفنس ریپلائی کے پیرئڈ کے اندر اندر ھر ایک یہ نوٹ لکھکر شوکاز بھیجنے والے کو واپس کردیں . " کہ میں آپکا اس نمبر اور اس تاریخ سے بھیجا ھوا شوکاز جو مجھے اس تاریخ کو موصول ھوا تھا قبول نہیں کرسکتا کیونکے یہ پی ٹی سی ایل کے قوانین کے تحت مجھے ایشو کیا گیا ھے جبکے مسعود بھٹی کیس کی رو سے جو 2012SCMR152 میں درج ھے کے پی ٹی سی سے ٹرانسفر ھوکر جو ریگولر ملازمین یکم جنوری 1996 کو پی ٹی سی ایل کا حصہ بن گئے تھے ، پی ٹی سی ایل میں انپر گورنمنٹ کے سرکاری قوانین statutory rules کا اطلاق ھوگا. اور چونکے میں بھی اسی کٹیگری کا پی ٹی سی ایل کا ملازم ھوں جو یکم جنوری 1996 کو پی ٹی سی سے ٹرانسفر ھوکر پی ٹی سی ایل کا حصہ بن گئۓ تھا، اسلئے مجھ پر بھی گورنمنٹ کے سرکاری قوانین statutory rules یعنی اسکے لئے Civil Servants ( E&D)Rules -1973 کا اطلاق ھونا چآھئے اس لئیے کمپنی پی ٹی سی ایل کے قانون کے تحت دیا ھوا یہ شوکاز نوٹس میں واپس کررھا ھوں".
ھوسکتا ھے آپ لوگوں کو ان لوگوں کو دیا ھوا مشورہ جو میں نے اوپر بیان کیا ، کچھ حیران اور پریشان کردے کے اس طرح تو پی ٹی سی ایل کی انتظامیہ ناراض ھوجائے گی اور انکے خلاف اور سخت ایکشن لے گی . بھئی اسکا سوال ھی پیدا نہیں ھوتا . اس سے وہ تلملا تو ضرور ھوگی مگر انکے خلاف کچھ نھیں کرسکتی اور نہ یہ انسے یہ کہہ بھی سکتی ھے کے نھیں تمہارے خلاف ایکشن کمپنی کے قانون کے تحت ھی لیں گے کیونکے انکو معلوم ھے کے اس صورت میں انکے خلاف یہ لوگ عدالت کا رخ کرلیں گے.جیسے سپریم کوڑٹ کے مسعود بھٹی کیس میں یہ قرار دے چکی ھے کے ایسے تمام پی ٹی سی ایل کے ملازمین کو یہ حق حاصل اگر پی ٹی سی ایل انکے دئیے حقوق اور قوانین میں ( یعنی گورنمنٹ کے قوانین ) کسی قسم کی خلاف ورزی یہ منفی تبدیلی کرے تو انکو پی ٹی سی ایل کے ھائی کوڑٹ میں رجوع کرنے کا قانونی حق حاصل ھے اور ھائی کوڑٹ اسکو سننے کے مجاز ھوں گی [ یاد رھے مسعود بھٹی کیس میں سپریم کوڑٹ کو یہ حکم اسلئے دینا پڑے کیونکے سندھ ھآئی کوڑٹ نے ایسے پی ٹی سی ایل کی تقریبن طویل پڑی ھوئی چارسو اپیليں/ پٹیشنیں اپنے 26 اکتوبر 2010 میں صرف اس ٹیکنیکل بنیاد پر خارج کردیں تھیں کے ایسے ملازمین پر ماسٹر اینڈ سرونٹ رولز کا پی ٹی سی ایل کا اطلاق ھوتاھے نہ کے گورنمنٹ کے سرکاری قوانین یعنی statutory rules کا، اسلئے وہ ھائی کوڑٹس کو رجوع نہیں کرسکتے ھیں . سپرکم کوڑٹ نے سندھ ھائی کوڑٹ کا یہ کل عدم قرار دے دیا یعنی ختم کردیا اور یہ تفصیلی فیصلہ دیا کے چونکے ایسے تمام ملازمین جو یکم جنوری 1996 کو پی ٹی سی سے ٹرانسفر ھوکر پی ٹی سی ایل کا حصہ بن گئے ان پر پی ٹی سی ایل میں گورنمنٹ کے سرکاری قوانین یعنی statutory rules ھی استعمال ھوں گے اور وہ اپنی شکایات grivences کے لئے ھائی کوڑٹس رجوع کرسکتے ھيں یعنی they can invoke the jurisdiction of high courts . اس بات کو بھی واضح کردوں کے سندھ ھائی کوڑٹ کے اس فیصلے کے خلاف اپیلیں مسعود بھٹی ، نصیرالدین غوری او سید دلاویز صاحبان نے کی تھیں .جسکا فیصلہ تین رکنی بینچ نے 7 اکتوبر 2011 کو دیا یے فیصل سپریم کوڑٹ کے لا بکس میں درج ھے یعنی 2012SCMR15 میں رپوڑٹ ھے . اسکے خلاف پی ٹی سی ایل کی ریو پٹیشن سپریم کوڑٹ کی پانچ رکنی بینچ نے ، جسکی سر براھی سابقہ چیف جسٹس معزز ظہیر جمالی صاحب تھے اپنے 19 فروری 2016 کے مختصر فیصلے کے زریعے خارج کی جسکا تصیلی فیصلہ 16 مارچ 2016 کو آیا .اب یہ فیصلہ امر ھوچکاھے یعنی ایک قانون بن چکاھے]. میں اس سے پہلے ایسے بہت سے مشورے اپنے ایسے پی ٹی سی ایل دوستوں کو دے چکاھوں جنکو پی ٹی سی ایل نے اسی قسم کی شوکاز نوٹسس یا چارج شیٹس ایشو کی گئیں تھیں.
ایسے لوگ جو مجھ سے واقف تھے انھوں نے مجھ سے رابطہ کیا کے وہ کیا کریں انکو میں نے یہ ھی مشورہ دیا اور پی ٹی سی ایل کی انتظامیہ انکے خلاف مزید کچھ نہ کرسکی اور نہ سرکاری قوانین کے مطابق انکو دوبارہ چارج شیٹس یا شو کاز نوٹسس دے سکی کیونکے وہ اس بات سے اب تک انکاری ھے کے یہ لوگ سرکاری ملازمین کے زمرے مں آتے ھیں اور انپر سرکاری قوانین ھی استعمال ھوسکتے ھيں .
میں آپ لوگوں کو اسی سلسلے میں ھونے والے اپنے کچھ پی ٹی سی ایل کے دوستوں ساتھ ھونے والی ایسی کاروآئی اور ان سے وہ لوگ کسے مبرا ھوئے ،اسکا زکر آپکے سامنے کرتاھوں تاکے آپلوگوں کوحصلہ ھوسکے. ھوا یوں ، یہ 2011 کی بات ھے جناب مظہر حسین (SEVP(HRO نے کوئی پندرہ کے قریب ، پورے پاکستان سے گريڈ 19 اور 20 کے ایسے پی ٹی سی ایل کے آفیسر ملازمین جو سرکاری زمرے میں آتے تھے ، ان سبکوپہلے on waiting پر انکے گھروں میں بھیج دیا اور سبکو بعد میں پی ٹی سی ایل ھیڈ کوارٹر اسلام آباد ٹرانسفر دیا اور انسبکو ایک آفس کا کمرہ دے دیا اور یہ حکم دیا یہ لوگ روزانہ آفس ٹائیم شروع ھونے کے وقت اپنی حاضری biometric کے زریے لگائں اور اس کمرے میں آکر آفس ٹائیم تک خالی بیٹھے رھیں . یہ عجیب حکم نامہ تھا مظہر حسین کا انکو پھلے انکے گھروں پر ویٹنگ پر بھیجا پھر انکا اسلام آباد ٹرانسفر کیا اور انو ویٹنگ پر بھی رکھا ھوا تھا اور ساتھ آفس آنے کا بھی کہا اور سب کو ایک کمرے میں صبح سے شام بٹھا کر رکھا بغیر کسی کام کے سزا کے طور پراور انکا ماہانہ سپیشل + کنوینس الاؤنس بھی بند کردیا جو ماہانہ تنخواہ کے ساتھ ملتا تھا. [ایک گریڈ 19 کے آفیسر کو 35000 روپے ملتے تھے اور گریڈ 20 کو 45000 روپے اسوقت ملتے تھے وہ اگر ڈیوٹی پر ھو] .مگر یہاں ایک عجب بات تھی وہ ایک طرح ڈیوٹی پر بھی تھے یعنی روزانہ گھر سے آفس آنا ،آنے کی حاضری لگانا اور پھر ڈیوٹی ٹائیمنگ ختم ھونے کے بعد جانا. مگر انکو آفیسرز on waiting کہا جارھا تھا .عجب منطق تھی مظہر حسین کی. انکو کسی الزام کے بغیر انکو on waiting کیا اور پھر اسلام آباد ٹرانسفر کیا پھر چھوٹی چھوٹی بات کا بہانہ بنا کر انکو شوکاز نوٹسسس دینا شروع کردئیے .ان میں میرے ایک دوست نعیم صاحب بھی تھے جو پھلے کراچی میں ڈائریکٹر پوسٹ تھے. یہ کو ئی مارچ 2012 کی بات ھے مجھے نعیم کا گھر پر فون آیا کے اسکو مظہر حسین کی ایما پر اسے شوکاز صرف اس وجہ سے ایشو کردیا کے وہ پچھلے ان دنوں غیر حاضر تھے یعنی اس کمرے میں نہں آتے تھے [جہاں سب ایسے لوگوں روزانہ آتے تھے ، جیسا اوپر زکر کرچکا ھوں ]. نعیم نے مجھے بتایا تھا کے اسکی والدہ کراچی میں سخت بیمار تھیں اور اسنے بار بار انسے کراچی جان کے لئے چھٹی مانگی تھی مگر انھوں نے جان بوجھکر اسکو پریشان کرنے کے لئے چھٹی نہ دی تو وہ پریشانی کی حالت میں مجاز آفیسر کو کچھ دنوں چھٹی کی ای میل دے کر کراچی چلے گئے تو انھوں نے کراچی میں ھی ای میل کے زریعے انکو شوکاز نوٹس جاری کردیا. میں نے ان سے معلوم کیا اسکو یہ شوکاز کس قانون کے تحت ایشو کیا تو نعیم نے مجھے بتایا کے کمپنی کے رولز کے تحت. میں نے انکو کو فورن شوکاز واپس کرنے کے لئے کہا اور وھی ڈرافٹ لکھ کر بھیجا جس کا speciman میں نے اوپر دیا ھے نعیم صاحب ویسا ھی کیا اور شوکاز نوٹس یہ نوٹ لکھ کر واپس کردیا . تھوڑے دنوں کے بعد نعیم صاحب نے فون مجھے بتایا اور لوگوں کو بھی شوکاز ملنے شروع ھوگئے اور وہ دو ایسے لوگوں کو میرے گھر لے آیا ان میں ایک جہانگیر صاحب بھی تھے جو پھلے فیصل آباد میں کرنٹ چارج پر جی ایم ڈیویلپمنٹ تھے . ان دونوں کو بھی میں میں نے وھی مشورہ دیا جو نعیم صاحب کو دیا تھا اور انھوں نے ویسا ھی کیا اور مزکورہ نوٹ لکھ کر شوکاز نوٹسس واپس کردئے.
تھوڑے عرصے کے بعد مجھے نعیم صاحب نے بتایا کے اسکے خلاف جی ایم ایچ آر نے انضباتی کاروآئی شروع کردی ھے اور اس کو اس تاریخ کو پرسنل ھئرنگ personal hearing کے لئے بلایا ھے .جسکا مطلب یہ ھوا کے انھوں نے نے شوکاز میں لگے ھوئے نعیم صاحب کے خلاف الزامات کو بغیر defence reply کے کنفرم کردیا اور وہ مزید کاروائی کرنے جا رھے تھے. میں نے نعیم صاحب کو مشورہ دیا کے بالکل نہ جائیں اور انکو لکھ کر بھیجدیں کے وہ پرسنل ھئیرنگ میں حاضر نہیں ھوسکتے کیونکے یہ غیر قانونی ھے اگر انکے خلاف کوئی ایکشن لینا ھے تو گورنمنٹ سرونٹ سروس ای اینڈ ڈی رولز 1973 کے تحت لیا جائے. اور میں ساتھ نعیم صاحب کویہ مشورہ بھی دیا کے وہ ایک آئینی پٹیشن پی ٹی سی ایل پرزیڈنٹ اور پی ٹی سی ایل بھی اسلام آباد ھائی کوڑٹ میں بھی فورن داخل کردیں.انکو میں نے اس آئنی پٹیشن کا ڈرافٹ بناکر بھجوایا اور کہا کے تم کسی بھی چھوٹے موٹے وکیل سے یہ پٹشن داخل کرادو بغیر کوئي وقت ضائع کئے . نعیم صاحب نے ایسا ھی کیا . اور دو دن بعد مجھے بتایا کے اسلام آباد ھائی کوڑٹ نے سٹے آڑڈ ایشو کردیا اور پی ٹی سی ایل کو انکے خلاف کسی قسم کا adverse action کرنے سے روک دیا اور پی ٹی سی ایل سے دو ھفتوں میں جواب مانگ لیا . نعیم صاحب کے علاوہ اوردوسرے لوگوں جن کو اسی طرح کے شو کاز نوٹسس ملے انھوں نے بھی اسلام آباد ھائی کوڑٹ میں اسی طرح کیسس کردئیے اور انکو بھی سٹے مل گیا یعنی پی ٹی سی ایل انکے خلاف بھی کسی قسم کا adverse action لینے سے روک کردیا اور پی ٹی سی ایل سے اسکا جواب مانگ لیاجو یہ پی ٹی سی ایل والے کسی کا بھی جواب عدالت کو چھ ماہ تک نہ دے سکے اور جو جواب دیا اسکو عدالت نے قبول کرنے سے انکار کردیا اس میں انکی plea یے تھی کے یہ تمام ملازمین کمپنی کے ملازمین ھیں اور انکے خلاف کمپنی کے قانون کے مطابق ایکشن لینا ھوگا . عدالت نے ایک سال کے بعد یہ کیس نمٹادیا اور قرار دیا کے پی ٹی سی ایل انتظامیہ صرف فیڈرل گورنمنٹ کے قوانین کے تحت یعنی Govt Civil Servants ( E&D) Rules 1973 کے تحت ھی ایسے ملازمین کے خلاف ھی ایکشن لے سکتی ھے . پی ٹی سی ایل نے اسکے خلاف انٹرا کوڑٹ اپیلیں بھی کیں مگر وہ بھی خارج ھوگئیں. پی ٹی سی ایل ان لوگوں کے خلاف گورنمنٹ کے قوانین ایکشن نہ لے سکی اور آخر کار بادل نا خواسطہ ھوکران کو دوبارہ اپنی پرانی جگہوں پر ٹرانسفر بھی کردیا.اسطرح نعیم صاحب کا بھی دوبارہ کراچی ٹرانسفر ھو گیا .. کچھ عرصے کے بعد جب میں کراچی گیا ھوا تھا، مجھے اسلام آباد سے جہانگیر خان صاحب کا فون گھبرایا ھوا فون آتا ھے ، شائید وہ بدھ کادن تھا ، کے انکا تبادلہ ڈائیریکٹر ٹیلی گراف حیدرآباد مظفر شیخ کی جگہ کردیا گیا اور فورن تین دن کے کے اندر اندر ڈیوٹی رپوڑٹ کرنے کا کہا ھے اور اگر ڈیوٹی رپوڑٹ نہ کی تو سخت ایکشن لیا جائیگا.یاد رھے جہہانگیر صاحب بھی انلوگوں میں شامل تھے جن کو نعیم صاحب کی طرح شوکاز نوٹس ملےتھے اور انھوں نے بھی اسلام آبادھائی کوڑٹ میں آئینی پٹیشن داخل کی تھی جو منظور ھوگئی تھی اور انکے خلاف بھی پی ٹی سی ایل کی انتظامیہ کوئی ایکشن نہ لے سکی تھی .پی ٹی سی ایل نے اسکے خلاف انٹرا کوڑٹ اپیل بھی کی تھی جسکا جواب میں نے ھی جہانگیر صاحب کے وکیل کو بنا کردیا تھا جو اسنے عدالت میں جہانگیر صاحب کی کی طرف سے جمع کرایا گیا تھا اور پی ٹی سی ایل کی یہ انٹرا کوڑٹ اپیل بھی خارج ھوگئی تھی . تو جب ھی پی ٹی سی ایل نے انکا ٹرانسفر غصے میں آکر حیدر آباد کردیا . میں نے جہانگیر صاحب سے کہا گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں اور نہ حیدآباد آنے کی .آپ ایسا کریں کے کل صبح اا بجے سے پھلے اسلام آباد ھائی کوڑٹ میں اپنے اسی وکیل کے توسط سے ایک اپیل جمع کرادیں اور یے plea لیں کے کیونکے اس عدالت اسلام آباد ھائی کوڑٹ نے پی ٹی سی ایل کی میرے خلاف اپیل خارج کردی اسلئے ان لوگوں نے malafiedly غصے میں آکر اتنی دور میراٹرانسفر کردیا ھے اسکو فورن روکا جائے.میں نے جہانگیر صاحب کوبتایا کے انشاللہ کل یعنی جمعہ کو عدالت انکا یہ ارجنٹ کیس ضرور سنے گی اور انشاللہ عدالت یہ ٹرانسفر آرڈر بھی معطل کردے گی اور انسے جواب طلب کرے گی . آپکو حیدرآباد آنے کی ضرورت نہ پڑے گی .آپ ابھی فورن جانے کی کوشش نہ کریں دیکھیں کل کیا ھوتاھے؟. دوسرے دن صبح شائد نو یا دس بجے کے قریب جہانگیر صاحب کا خوشی بھرا فون آتاھے کے عدالت نے انکا ٹرانسفر آڈر معطل کردیا . میں انکو مبارکباد دیتا ھوں مگر جب وہ یہ مجھے بتاتے ھیں کے یہ فون میں ڈیپاارچر لاؤنج سے کررھاھوں میں نے حیدرآباد جانے کے لئے کراچی جان کی بکنگ کل ھی کرالی تھی اور میں نے نے اسلام آباد میں اپنا فلیٹ بھی خالی کردیا ھے اور سارا سامان اپنے گھر پشاور بھیج دیا ھے.مجھے انکی اس جلد بازی پر افسوس بھی ھوا اور غصہ بھی آیا .میں نے انسے کہا میں نے جب آپ سے کہا تھا کے عدالت کے فیصلے کا انتظار کریں اور نہ حیدرآباد ابھی جائیں آپکو ضرور سٹے مل جآئگا . خیر مجھے پتہ نہیں انھوں نے کس طرح اپنا بوڑڈنگ کاڑڈ واپس کیا اور سفر منسوخ کیا اور اپنی اسلام آباد میں ڈیوٹی جائین کی یعنی جہاں سے انکا ٹرانسفر کیا گیا تھا . بحرحال شائید پانچ یا چھ ماہ بعد انکا ٹرانسفر نارمل طریقے سے لاھور کردیا گیا .اب ھی شائید وہ لاھور ھی میں ھیں . انھوں نے اسکے بعد مجھ سے کبھی دوبارہ رابطہ نہیں کیا .
اور اسی طرح جب پی ٹی سی ایل نے دو ایسے ھی گریڈ ۱۹ کے آفیسران فیض الرحمن اور چوھدری محمد قیصر کو کمپنی کے قوانین کے کے تحت انضباتی کاروائی کرے ھوئے جبری نوکری سے ریٹائیر کردیا تو انھوں نے اسلام آباد ھائی کوڑٹ میں اسکے خلاف آئینی پٹیشنیں داخل کردیں [CP-1064 &CP-1065 of 2011] کے پی ٹی سی ایل کے ان ملازمین کے ضمرے میں آتے ھیں جن پر مسعود بھٹی کیس میں سپریم کوڑٹ کے فیصلے کے تحت گورنمنٹ کے سرکاری قوانین لاگو ھوتے ھیں تو انکو پی ٹی سی ایل کمپنی کے قوانین کے تحت انکے خلاف پی ٹی سی ایل انتظامیہ کا انضباتی کاروائی کرنا غیر قانونی اور غیر آئینی ھے.عدالت نے انکی یہ اپیل منظور کرلی اور اپنے یکم اپریل ۲۰۱۳ کے حکم میں کہا کے ان دونوں کو اسی دنسے نوکریپر بحال کیاجائے جس دن سےانکو نوکری سے نکالا یا برطرف کیاگیا ھے اورانکے خلاف حکومت پاکستان کے Civil Servants(E&D) Rules 1973 کےتحت Denove Enquiry کی جائے.مگر پی ٹی سی ایل کے سابق پریزیڈنٹ ولید ارشاد نے اسکے خلاف سپریم کوڑٹ میں اپیل کردی [CP-717 & 718 of 2013] جو سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ جس کے سربراہ سابق چیف جسٹس جناب افتخار چوھدری تھے ، پی ٹی سی ایل کییہ اپیل ۲۳ اگست ۲۰۱۳ کو خارج کردی اور حکم دیا کے اسلام آباد کے یکم اپریل ۲۰۱۳ کے فیصلے کی روح کے مطابق عمل کیا جائے . مگر پھر پی ٹی سی ایل کے سابق پریزیڈنٹ ولید ارشاد نے اسکے خلاف رویو پٹیشن ڈال دی [CRP-253 & 254 of 2013] جو بھی 6 دسمبر 2013 کو خارج ھوگئی اور پی ٹی سی ال کو اپنے منہ کی کھانی پڑی اور ان کو دوبارہ ڈیوٹی پر لینا پڑا مگر ابھی تک انکے خلافdenove enquiry نہیں کی .وہ کرتے بھی کیسے کیونکے انکی تو حکومت پاکستان کے قوانین مطابق کاروائی کرنے میں انکی جان نکلتی ھے.
ابھی مجھے کل ھی ٹنڈو آدم سے ایک اے ایم نے ، اس کو دی ھوئی چارج شیٹ کی کاپی مجھے بھیجی ھے اور مجھ سے پوچھا ھے کے کیا یہ حکومت کے سرکاری قوانین کے مطابق صحیح ھے کیا؟ . یہ چارج شیٹ انکو صرف اسوجہ سے دی گئی کیونکے انھوں نے وی ایس ایس -2016 پر جانے سے انکار کردیا تھا . میں نے جب اس چارج شیٹ کا بغور معائینہ کیا تومعلوم ھوا چارج شیٹ تو پی ٹی سی ایل نے اپنی کمپنی کے قوانین کے مطابق دی ھے بس صرف ایک جگہ یہ لکھا ھے کے یہ " تمھارا یہ غیر قانونی اقدام مس کنڈکٹ اور کرپشن کے ضمرے میں آتا ھے جو E&D Rule-1973 میں ھے " . [یہاں تو پہلے تو یہ واضح نھیں کیا گیا کے کس کے E&D Rules .سندھ کے , پنجاب کے ، یا کسی اور کے صوبے کے یا فیڈرل گورنمنٹ کے وغیرہ وغیرہ. جو رولز پی ٹی سی ایل کے ایسے ملازمین پر لاگو ھوتے ھیں وہ فیڈرل گورنمنٹ کے رولز ھیں ناکے کسی اور پروینشل گورمنٹ کے . فیڈرل گورنمنٹ کے ایسے رولز ، Govt Civil Servant (E&D) Rules-1973 کہلاتے ھیں . ] اور دوسرے یہ کے یہ چارج شیٹ Govt Civil Servant (E&D) Rules-1973 کے Rules-5 کے تحت نھیں نکالی گي جو ایک Authorised Officer ایشو کرتا ھے ناکے خود کوئی On the be half of authority لکھ کر. یہ تو پی ٹی سی ایل والے اپنے کمپنی کے رولز کے مطابق کرتے ھیں. یاد رکھیں گورنمنٹ قوانین کے مطابق Authority خود کبھی بھی یا کوئی اس کے لئے ، ڈائیریکٹ چارج شیٹ یا شو کاز نوٹس ایشو نھیں کرتی .ھمیشہ وہ ایک Authorised officer نامزد کرتی ھے جو یہ اپنے دستخطوں سے چارج شیٹ یا شو کاز نوٹس ایشو کرتا ھے اور پھر جب Penalty دینے وقت آتا ھے تو یہ authorised officer صرف minor penalties دے سکتا ھے ،مگر major penalties کے لئے authority concerned کو کیس بھیج دیتا ھے اب یہ اتھآڑٹی کا اختیار ھے وہ کیا major penalty لگاتی ھے. جبکے پی ٹی سی ایل کے قوانین میں ایسی کوئی بات نھیں .اسی لئے انھوں نے یہ اے ایم کو چارج شیٹ ایشو کی وہ تو وھی کمپنی کے قانون کے تحت تھی بس صرف انھوں نے مبھم یہ الفاظ "E& D Rules -1973 " لکھ کر آنکھوں میں دھول دینے کی کوشش کی ھے کے گورنمنٹ رولز کے مطابق ھے کے کہیں یہ چارج شیٹ لینے سے انکار نہ کردے اور واپس کردے ، اس اعتراض کے ساتھ کے اسے آگر چارج شیٹ دینا ھے تو Govt Civil Servant E&D Rules-1973 کے مطابق دی جائے جو بطور سرکاری ملازم پی ٹی سی ایل میں اس پر لا گو ھوتی ھے.
عزیز دوستو اوپر کے کالمز میں میں نے جو واقعات ، توضیحات اور گورنمنٹ قوانین کے بارے میں وضاحتیں بیان کیں انکا صرف اور صرف مقصد یہ کے آپ سب لوگ جو پی ٹی سی ایل میں ایسے ملازمین کی کٹیگری میں آتے ھوں یعنی جن پر گورنمنٹ کے سرکاری قوانین کا اطلاق ھوتا ھے ، انکو یہ اعتماد پیدا ھو اور وہ پی ٹی سی ایل انتظامیہ کے کسی بھی انکےاپنے بناۓھوئے قانون کی تائیدگی یا پابندگی بلکل نہ کریں اگر یہ زبردستی اپنے قوانین آپکی پروموشن ، سنیارٹی ، چھٹیاں، پوسٹنگ ، ٹرانسفر ،انضباتی کاروائی ، تنخواہ اور پنشن آپ پر ٹھونسنے کی کوشش کریں تو آپ فورن اس پر اجتجاج کريں اور یہ نہ مانیں اور آپکو یہ اگر پریشان کریں تو عدالت یعنی اپنی متعلقہ ھائی کوڑٹ کا دروازہ کھٹکھٹاآئیں. صرف انکے ان قوانین کی پابندگی کریں جن سے آپکو فائدہ ھو اور آپ کے سرکاری سروس کرنے کے حقوق اور شرائیط (Terms & Conditions of Service) میں کوئی بھی منفی عمل نہ ھو جن سے آپلوگوں کو نقصان پھنچنے کا احتمال ھو کیونکے یہی بات مسعود بھٹی کیس میں سپریم کوڑٹ کے تاریخی فیصلے کا اصلی لب لباب ھے.
آخر میں ایک اطلاع آپکو دینا چاھتا ھوں کے وہ پی ٹی سی ایل کے ملازمین جنکو وی ایس ایس-16 نہ لینے کی پاداش میں ٹرانسفر کردیا گیا ھے اور وہ اپنی ٹرانسفر رکوانا چاھتے ھیں اور وہ ملازمین جن کو زبردستی وی ایس ایس - 16 دیا گیا اور وہ واپس دوبارہ آنا چاھتے ھیں ، ایسے تمام لوگ چاھیں تو وہ کراچی میں مقبول زیدی صاحب سے رابطہ کریں .انکا سیل نمبر 2262591-0333 ھے . جو ایسے لوگوں کا انکو حق دلانے کے لئے کوشاں ھیں.
واسلام
محمد طارق اظہر
رٹائیڑڈ جنرل منیجر( آپس) پی ٹی سی ایل
راولپنڈی
tariqazhar.blogspot.com
0300-8249598
Dated 12-01-2017

Comments

Popular posts from this blog

.....آہ ماں۔

Article-173 Part-2 [Draft for non VSS-2008 optees PTCL retired employees]

‏Article-99[Regarding clerification about the registration of the Ex-PTC employees of any capacity with EOBI by PTCL]