Article-96[ Regarding EOBI Adjudicating Authority ruling for the registration of all Ex-PTCL employees with EOBI]
Article-96[ Regarding EOBI Adjudicating Authority ruling for the registration of all Ex-PTCL employees with EOBI and to issue them EOBI registration cards from the date excistance of PTCL ie 1st January , when they were part of service PTCL and onwards.
پی ٹی سی ایل میں اسکے یکم جنوری 1996 سے وجود میں آنے کے وقت اس میں کام کرنے والے پی ٹی سی ایل ملازمین کی EOBI میں رجسٹریشن اور انکو EOBI کی رجسٹریشن کاڑڈ ایشو کرنے کا معاملہ ۔ ۔ ۔ ۔ EOBI کی Adjudicating Authorityنے EOBI کو حکم دیا ہے ایسے تمام سابقہ پی ٹی سی ایل کے سابقہ ملازمین جو اسکے وجود میں آنے کے دن یعنی یکم جنوری 1996 اور اسکے بعد بھی کام کرتے رھے انکو بھی EOBI میں رجسٹریشن یکم جنوری 1996 سے کی جائیے اور انکو بھی EOBI کے رجسٹریشن کا کاڑڈ ایشو کئیے جائیں۔
عزیز پی ٹی سی ایل ساتھیو
اسلام و علیکم
میں ایک نہایت اھم موضوع کو آپکو عرض کرنے لگا ھوں جس سے آپ سبکو چاھے وہ اس وقت پی ٹی سی ایل کی سروس کا حصہ ھیں یا نہیں ھیں بہت فائدہ ھوگا تو اسلئیے میری درخواست ھے کے آپ میرے اس مضمون کو بہت غور سے پڑھیں اسکی طوالت کی وجہ سے پڑھنے سے نہ گھبرائیں ۔ اس کو پڑھنے سے یہ آپلوگوں کو صحیح آگاھی ھوگی اور بہت فائدہ بھی۔ شکریہ
کوئی ایک ھفتے پہلے مجھے راولپنڈی سے احسان اللہ صاحب کا فون آیا ، جو ۲۰۰۸ میں پی ٹی سی ایل سے وی ایس ایس لے کر ریٹائیڑڈ ھوئیے ھیں ۔ انکی سروس چونکہ بیس سال سے کم تھی اسلئیے انکو بھی پنشن نہیں ملی [انھوں اور بہت سے ایسے ساتھیوں نے وحید راجپوت صاحب کے ساتھ مل کر اسلام آباد ھائی کوڑٹ میں ویسا ھی کیس 2016 میں کیا ھے جس طرح کوئیٹہ بلوچستان کے غلام سرور صاحب اور انکے ساٹھ ساتھیوں سمیت اسلام آباد ھائی کوڑٹ میں کیا ھے جسکی رٹ پٹیشن کا نمبر 2114/2016 ھے ۔ اسکی بابت آپ سب لوگوں کو پہلے کئی دفع آگاہ کر چکا ھوں۔ اس کیس کی فیصلہ جج صاحب نے ۲۸ فروری سے محفوظ کر رکھا ھے اور اسکو سنانے کا نام ہی نھیں لے رھے -] احسان اللہ صاحب نے اس کیس کے بارے میں مجھ سے پوچھا کے اسکی اپڈیٹ کیا ھیں کیونکے آخری بار یہ کیس ۱۳ جون ۲۰۱۹ کو لگا تھا ، جسکو جج صاحب نے اور کیسوں کے ساتھ کلب کردیا تھا ۔ ۱۳ جون ۲۰۱۹ کو انھوں سب کی ھئیرنگ مکمل کرنے کے بعد کہا تھا کے اب ان تمام کیسوں کے فیصلوں کا اعلان کیا جائیے گا ۔ کب کیا جائیگا یہ یا تو اللہ جانتا ھے یا جج صاحب۔ احسان اللہ صاحب کا کیس بھی ان کیسوں کے ساتھ کلب کیا ھوا ھے۔ تو میں نے احسان اللہ صاحب کو بتایا کے ابھی تو ھائی کوڑٹ کی چھٹیاں ھیں شائید ان کیسس کے فیصلوں کا اعلان ستمبر میں چھٹیوں کے بعد شائید ھو۔ باتوں باتوں میں مجھے احسان اللہ صاحب نے بتایا کے یہ EOBI والے انکو پیمنٹ نہیں کر رھے ۔ میں نے انسے کہا بھئی وہ آپ کو کیسے پیمنٹ کریں گے نہ تو آپ قاعدے کے مطابق وہاں رجسٹڑڈ ھیں اور نہ ھی آپ کو انکا رجسٹریشن کاڑڈ ایشو ھوا ہے اور نہ ھی آپ کی کوئی بھی کنٹرئبیوشن آپکی ماھانہ تنخواہ سے کی گئی ہے جب آپ سروس میں تھے ۔ اس پر احسان اللہ نے جواب دیا کے انھوں نے اور انکے دیگر ایسے دیگر ساتھیوں نے EOBI کے خلاف کیس کیا تھا اور عدالت نے ھم کو بھی یہ EOBI کی پنشن دینے کا حکم دے دیا ہے ۔ میں انکی یہ بات سن کر چونک پڑا میں نے کہا کے میرے علم میں ایسا کوئی کیس نہیں جو کسی عدالت ھائی کوڑٹ یا سپریم کوڑٹ نے دیا ھو ۔ وہ کہنے لگے میرے پاس اس عدالتی حکم کی کاپی موجود ہے میں آپکو بھیج دیتا ھوں آپ خود پڑھ لیں۔ میں نے انکو اپنے گھر کا ایڈریس دیا اور کہا اسکی کاپی مجھے فورن بھیجیں بلکے ٹی سی ایس کریں ۔ میں خود بہت تزبزب میں پڑگیا کے عدالت نے کس بنیاد پر ایسا حکم دیا اور اب تک یہ لوگ کیوں میرے نالج میں لے کر کیوں نہیں آئیے جبکے مجھے ھر کیس کی اطلاع دی جاتی تھی یہ جب بھی کوئی کرے اور وہ لوگ پھر اس پر میری رائیے پوچھتے تھے ۔ آپ سب لوگ اس سے اچھی طرح واقف ھیں گزشتہ سات سالوں سے میں اسی جدو جہد میں لگا ھوا ھوں ۔کے پی ٹی سی ایل پنشنروں کا کو motivate کررھا ھوں اور قانونی اور عدالتی تاکے مسعلہ حل ھو عدالتی کاروئیوں اور اسکے فیصلوں اثرات سے اور اسی کوشش میں لگا ھو کے ٹی سی ایل پنشنروں گورنمنٹ والی پنشن مہیا ھوجائیے ۔ اس سلسلے ایسے سب لوگ میرے رابطے میں رھتے ھیں اور مجھ سے عدالت میں چلنے والے کیسس کی آپ ڈیٹ لیتے رھتے ھیں ۔
اس سے پہلے میں آپ لوگوں کو اس عدالتی حکم کے بارے میں بتاؤں ، جسکا زکر احسان اللہ صاحب نے کیا تھا اور جسکی کاپی انھوں نے دو دن پہلے ھی مجھے رجسٹڑڈ میل کے زریعے بھیجی ھے ، میں اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیٹیوشن (EOBI) اور اسکے بیک گراؤنڈ اور پی ٹی سی ایل کے گندے اور ظالمانہ رول کے متعلق بتاؤں جس نے ۳۵ ھزار سے بھی زیادہ ایسے سابقہ پی ٹی سی ایل ملازمین کو ای او بی آئی کی پنشن سے محروم کردیا جو کبھی پی ٹی سی ایل کے یکم جنوری 1996 سے ھی قیام سے اسکا حصہ تھے یعنی پی ٹی سی ایل میں کام کررھے تھے
اولڈ ایج بینیفٹس انسٹی ٹیٹیوشن (EOBI) ، آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان کی شق (c)38 کو بروئیے کار لاتے ھوئیے قائیم کیا گیا، جس میں کہا گیا ہے کے ھر پاکستانی کو سوشل انشورنس لازمن مہیا کی جائیے گی، تو یہ اولڈ ایج بینیفٹ(EOB) کی ایکٹ 1976 کے تحت یکم اپریل 1976 سے قائیم کیا گیا ۔ اسکا مقصد پاکستان کے صنعتی تجارتی اور دیگر اداروں میں کام کرنے والے کارکنوں اور ملازمین کو بڑھاپے یا معزوری کے دوران پنشن یا گرانٹ دینے کے علاوہ انکی وفات کی کے بعد انکی بیواؤں کو تا حیات اور انکے کمسن بچوں کو بالغ ھونے تک پنشن دینا ھے اور اگر کسی مرحوم ملازم کے بیوی بچے نہ ھوں لیکن انکے بوڑھے والدین زندہ ھوں تو انکو پانچ سال تک پنشن دینا ھے۔ ضعیف العمری کی پنشن ان رجسٹڑڈ مرد ملازمین کو ساٹھ کی عمر ھونے پر اور رجسٹڑڈ عورت ملازمین کو پچپن سال کی عمر ھونے پر دی جاتی ہے بشرطیہ کے انھوں نے کسی ایک ادارے میں یا اور بہت سے ادروں میں جو سروس کی اسکی مدت ملا کر پندرہ سال ھو اور نہ ھونے کی سورت میں انکو پنشن نہیں دی جاتی صرف پنشن گرانٹ دی جاتی ہے۔ EOBI کے دائرے اختیار میں نان گورنمنٹ پرائیوٹ ادارے آتے ھیں یعنی کارخانے ، فیکٹریاں ، رفاہی ادارے پرائیوٹ اسکول ، کمپنیز اور اس طرح ھر طرح کے ڈیپاڑٹمنٹل سٹور، تجارتی مراکز وغیرہ وغیرہ جہاں دس یا دس سے زیادہ لوگ ملازم یا کارکن ھوں ۔ جب کوئی ایسا ادارہ معرض وجود میں آتا ھے اور اس میں دس یا اس سے زیادہ ملازم ھوں اور تو اس ادارے کے آجر یعنی employer کو EOB ایکٹ 1976 کے تحت لازمن تیس دن کے اندر اندر کے مطابق اپنے ادارے اور اس میں کام کرنے والوں ملازمین / کارکنوں کو EOBI میں رجسٹڑڈ کراکر ان تمام کے رجسٹریشن EOBI کاڑڈ حاصل کرنے پڑ تے ھیں ۔ [ یہ نوٹ فرمائیں جولائی 2008 کے بعد معرض وجود میں آنے والے صنعتی یا تجارتی ادارے جہاں کم ازکم پانچ لوگ بھی ملازمت کرتے ھوں انکو بھی EOBI میں رجسٹڑڈ کیا جاتا ہے ] ۔
پی ٹی سی ایل یعنی کمپنی یکم جنوری 1996 کو 1984 کے کمپنی آڑڈیننس کے تحت پی ٹی ( ری آرگنائیزیشن ) ایکٹ 1996 کے مطابق معرض وجود جو اس لحاظ سے یہ اس لحاظ پرائیوٹ ادارہ ھے کیونکے اسکے شئیرز بھی تھے اور ان تمام شئیرز کی ھولڈر گورنمنٹ آف پاکستان تھی ۔ EOBI کے قانون کے مطابق اس وقت کی پی ٹی سی ایل انتظامیہ کوچاھئیے تھا اسکے معروض وجود میں آنے کے تیس دن کے اندر اندر اس کمپنی کی اور اس میں کام کرنے والے تمام پی ٹی سی ایل ملازمین کی یکم جنوری 1996 رجسٹریشن کراکر ھر ملازم کا EOBI رجسٹریشن کاڑڈ حاصل کرنا چاھئیے تھا اور رجسٹڑڈ ملازم کی کنٹری بیوشن کی رقم EOBI کے اکاؤنٹ میں ھر مہینے باقاعدہ جمع کرانی چاھئیے تھی[جو ملازم کی تیرہ ھزار روپے تک تنخواہ کا 5%حصہ کمپنی کا + اور اسکی بقایا تیرہ ھزار سے اوپر کا ۱% ملازم کی تنخواہ کا ھوتا ھے] ۔ ھر ایک رجسٹڑڈ شدہ ملازم کی پنشن کا تعین جب ھوتا ھے جب وہ اس عمر کی قانونی حد تک پہنچ جاتا ھے جہاں سے وہ پنشن کا حقدار ھوتا ھے،وہ ایک فارمولے کے زریعے کیا جاتا ھے کے اسکو کتنی پنشن ملے گی ۔ مگر کم ازکم پنشن 6500 روپے موجودہ دور میں ھے وہ تو ملنی ھی ملنی ھے [ بعض لوگوں کا خیال ھی کے بس یہ ھی کم ازکم پنشن فکس ھے ، یہ غلط ھے]۔
یاد رہے جو پی ٹی سی میں کام کرنے والے جو ملازمین پی ٹی سی سے یکم جنوری 1996 کو ٹرانسفڑڈ ھوکر اس پی ٹی سی ایل کا حصہ بنے وہ اب کمپنی کے ملازم ہی کہلائیں جائیں گے اسلئیے انکو بھی EOBI میں رجسٹڑڈ کرانا پی ٹی سی ایل کا لازمی امر تھا اور پھر اسے رجسٹڑڈ ملازمین کو بھی EOBI کی پنشن ملنا بھی لازمی تھا اگرچہ انکو ریٹائیڑمنٹ پر گورنمنٹ والی پنشن تو ملنا ھی تھی وہ تو ختم نہیں ھو سکتی تھی کیونکے وہ گورنمنٹ کے ٹرانسفڑڈ ملازمین تھے جنکو پی ٹی ( ری آرگنئائزیشن) ایکٹ1996 میں دی ھوئی پروٹیکشن حاصل تھی کے کمپنی میں ملازمت کے دوران ان پر گورنمنٹ آف پاکستان کے ہی سرکاری قوانین ( Statuory Rules) ھی لاگو ھوں گے اور اس کے بارے میں اکتوبر ۲۰۱۱ میں سپریم کوڑٹ کا مسعود بھٹی کیس میں آیا ھوا حکم بہت واضح تھا۔” کے کارپوریشن کے جو ملازمین یکم جاری 1996 کو وھاں سے ٹرانسفڑڈ ھوکر پی ٹی سی ایل کا حصہ بن گئیے تھے ان ہر گورنمنٹ کے سرکاری قوانین ( Statuory Rules) لاگو ھونگے ۔ تو جو بھی پی ٹی سی ایل کا ایسا ملازم قانون کے مطابق ای او آئ بی( EOBI) میں رجسٹڑڈ ھو گا اگر وہ ساٹھ سال کی عمر میں ریٹائیڑڈ ھو گا تو ایک تو اسکو گورنمنٹ والی پنشن ملے گی اور دوسری EOBI والی بھی لیکن اگر اگر وہ بیس سال کی سروس کرنے کے بعد premature retirement لے لیتا ھے تو اسکو گورنمنٹ والی پنشن تو ملنا شروع ھو جائیگی لیکن EOBI والی پنشن جب شروع ھوگی جب اسکی عمر ساٹھ سال ھو جائیگی لیکن اگر اسکی وفات ساٹھ سال سے پہلے ھوجاتی ھے تو اسکی بیوہ کویہ EOBI والی پنشن بغیر کٹوتی کے کے ملنا فورن شروع ھو جائیگی جبکے گورنمنٹ والی پنشن تو بیوہ کو گورنمنٹ پنشن قوانین کے مطابق ھی ملے گی ۔ یہ ھی عمل ایسی خواتین ملازمین کے ساتھ ھوگا صرف فرق یہ ھے خواتین رجسٹڑڈ ملازمین کو پچپن سال کی عمر ھونے پر یہ EOBI کی پنشن ملنا شروع ھوجائیگی چاھے انھوں نے premature retirement لی ھو یا نہیں لی ھو اور زیر سروس ھوں پی ٹی سی ایل انتظامیہ نے EOBI کے قانون مطابق یکم جنوری 1996 سے کمپنی معروض وجود میں آنے تیس دن کے اندر بعد نہ تو کمپنی کو رجسٹڑڈ کرایا اور نہ ھی اس میں کام کرنے والے ان تمام ملازمین کو جو کارپوریشن سے یکم جنوری 1996 کو ٹڑانسفڑڈ ھوکر آئیے تھے ۔ یہ انکا ایک بہت ہی غیر قانونی اقدام تھا ۔ جب انھوں نے بلکل خاموشی اختیار کر رکھی تو 1998 میں EOBI نے انکو EOB کے ایکٹ 1976 کے سیکشن 9 اور 9B کے تحت تمام پی ٹی سی ایل ملازمین کی یکم جنوری 1996 سے کنٹربیوشن کی پیمنٹ جمع کرانے کا نوٹس دے دیا ۔ پی ٹی سی ایل نے یہ دینے سے انکار کردیا اور کہا کے پی ٹی سی ایل ایک Statuory Body ھے اسلئیے وہ EOB ایکٹ 1976 کی کلاز (f)47 کے تحت اسکے دینے کی پابند نہیں ۔ مگر EOBI نے انکا یہ عزر قبول کرنے سے انکار کردیا اورشوکاز نوٹس ایشو کردیا اور پھر پی ٹی سی ایل کی EOBI میں رجسٹریشن کردی تاکے یہ اپنے تمام ملازمین کی EOBI میں رجسٹریشن کراسکیں لیکن پی ٹی سی ایل نے اس رجسٹریشن کو EOB ایکٹ 1976 کی سیکشن 33 کے تحت EOBI کی Adjudicating Authority کے سامنے ک چیلنج کردیا ۔[یہ EOBI کا ہی وہ قانونی ادارہ ھے جو EOBI کے اور اس میں رجسٹڑڈ ھونے والے اشخاص ، جنکو بیمہ شدہ اشخاص کہا جاتا ھے ، انکے قانونی مسائیل حل کرتا ہے ۔ یہ EOB ایکٹ 1976 کے تحت کیا گیا ھے اسکے فیصلوں کے خلاف اپیل ھائی کوڑٹ میں کی جاتی ھے] تو اسنے پی ٹی سی ایل کی اپیل EOB ایکٹ 1976 کے سیکشن 35 تحت مسترد کردی ۔ مارچ 2007 میں EOBI نے پی ٹی سی ایل کو ملازمین کو رجسٹڑڈ جانے اور ان کی کنٹری بیوشن ادائیگی کا ڈیمانڈ نوٹس بھیج دیا ۔ جسکے خلاف ، پی ٹی سی ایل نے آئین کے آڑٹیکل ۱۹۹ کے تحت لاھور ھائی کوڑٹ کی پنڈی برانچ میں آئینی رٹ پٹیشن داخل کردی۔ انکی یہ آئنی پٹیشن اسوقت اسلام آباد میں نئی قائیم ھونے والی ھائی کوڑٹ یعنی اسلام آباد ھائی کوڑٹ میں منتقل کردی گئی جہاں سے یہ پی ٹی سی ایل کی یہ رٹ پٹیشن (622/2007) 17 مئی 2012 کو خارج کردی گئی تو انھوں نے اسکے خلاف سپریم کوڑٹ میں سول اپیل ( 908/2012) داخل کردی جو سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ نے یہ اپیل بھی یکم مارچ 2016 کو خارج کردی اور اپنے حکم میں یہ لکھا کہ
"In view of the above discussion the appellant company (PTCL) can not be regard as a statuory body and thus has become liable to pay contribution under the provision of Employees' Old Age Benefits, Act, 1976 from the date of in-corporation .This appeal is therefore dismissed.
17 مئی 2012 کو پی ٹی سی ایل نے اپنی آئنی پٹیشن اسلام آباد ھائی کوڑٹ سے خارج ھونے کے بعد صرف اسوقت یکم جولائی 2012 پی ٹی سی ایل میں کام کرنے والے تمام ملازمین EOBI رجسٹریشن یکم جنوری 1996 سے کر والی اور ان سب کے رجسٹریشن کاڑڈ حاصل کر لئیے اور جسے رجسٹڑڈ ملازمین کی کنٹریبیوشن کی رقم کے بقایا جات ، جو یکم جنوری 1996 سے due تھے وہ بھی EOBI کو ادا کردئیے اور بعد میں ان کام کرنے والوں ملازمین کی تنخواھوں سے اس کنٹریبیوشن کی ادا کردہ رقم بھی ، ۲ یا ۳ قستوں میں کٹوتی کرکے recover کرلی ۔
پی ٹی سی ایل نے جان بوجھ کر عدالتی حکم کے روح کے مطابق عمل نہیں کیا اور ان سابقہ پی ٹی سی ایل ملازمین کی رجسٹریشن نہیں کرائی جو یکم جنوری 1996 کو تو اس کمپنی کا حصہ تھے یعنی پی ٹی سی ایل میں کام کر رھے تھے۔تو اسطرح پی ٹی سی ایل میں کام کرنے والے وہ تمام ملازم جو پی ٹی سی سے ٹرانسفڑڈ ھوکر یکم جنوری 1996 ھوکر آئیے تھے اور 30 جون 2012 کے بعد بھی اسکا حصہ رھے , وہ سب EOBI میں رجسٹڑڈ یکم جنوری 2012 سے کردئیے گئیے اور ایسے لوگوں کو EOBI کے وہ فوائید حاصل ھیں جن کا زکر میں اوپر کرچکا ھوں ۔۔
اب میں اس عدالتی حکم کی طرف آتا ھوں جسکا زکر میں نے اوپر دوسرے پیرے میں کیا ھے جسمیں عدالت نے EOBI کو ان پی ٹی سی ایل کے سابقہ ملازمین کو، جس میں سے بیشتر ۲۰۰۸ میں وی ایس ایس لے کر ریٹائیڑڈ ھو گئیے تھے۔ مجھے احسان اللہ صاحب کے اس کی ۱۹ جولائی ۱۹ کو بزریعہ رجسٹڑڈ ڈاک بھیجی ھوئی کاپی ۲۲ جولائی ۱۹ کو گھر پر ملی۔ یہ عدالتی حکم کسی ایسی عام عدالت کا نہیں تھا جہاں عمومن مقدمات کئیے جاتے ھیں ، بلکے یہ EOBI کی اپنی بنائی ھوئی عدالت کا تھا جسکا بھی زکر اوپر کرچکا ھوں ۔ تو اس عدالتی حکم پڑھنے پر معلوم ھوا کے کوئی 86 پی ٹی سی ایل کے سابقہ پی ٹی سی ایل ملازمین وی ایس ایس نان پینشنر نے یہ اپیلیں کیں ان میں ھر ایک نے زاتی طور EOBI کے اسلام آباد ریجن کے خلاف EOB ایکٹ 1976 کی سیکشن 33 شکایات/ پٹیشنس داخل کیں تھیں کے انکو بھی رجسٹڑڈ کرکے EOBI کے بینیفٹس دئیے جائیں ۔ ان سب کیسسس کے ریسپونڈنٹس EBOI تھا ، جنھوں اس اتھاڑٹی کو بتایا کے آجر(employer ) یعنی پی ٹی سی ایل نے ان قانون کے مطابق اپنے معرض وجود میں آنے کے تیس دن کے اندر اندر نہ تو کمپنی کو رجسٹڑڈ کرایا اور نھی اس میں کام کرنے والے کو ملازمین کی بلکے مقدمہ بازی شروع کردی کے وہ EOBI میں نہ ھی تو رجسٹڑڈ ھونے پر راضی تھی اور نہ ھی اپنے ملازمین کو اس میں رجسٹڑڈ کرانے پر ، اس جواز پر کے پی ٹی سی ایل کمپنی ایک Statuory Body ھے اور اس پر EOB ایکٹ 1976 کا اطلاق نہیں ھوتا اور اسکے لئیے کمپنی سپریم کوڑٹ تک گئی اور وھاں سے بھی ھار گئی ۔ جب یہ معاملہ ھائی کوڑٹ 2012 میں decide ھو گیا اور انکی اپیل خارج ھوگئی تو پی ٹی سی ایل نے صرف ان ملازمین کی کنٹریبیوشن کی رقم ادا کی جو ۲۰۱۲ میں پی ٹی سی ایل میں ملازمت کررھے تھے یا اوراور اسکے بعد تک ملازمت کر رھے تھے ۔ لیکن انھوں (یعنی پی ٹی سی ایل ) نے ان سابقہ اپنے ملازمین کو نہ تو رجسٹڑڈ کرایا اور نہ ھی انکی کنٹریبیوشن کی رقم ادا نہی کی جو ریٹائیڑڈ ھو چکے تھے یا جنھوں نے وی ایس ایس لے لیا تھا-
21 فروری 2018 کو EOBIکی Adjudicating Authorityنے ان تمام اپیلوں کا فیصلہ کرتے ھوئیے EOBI کویہ حکم دیا کے " ان تمام متاثرین ملازمین (aggrieved employees) کی جو یکم جنوری 1996 سے پی ٹی سی ایل میں ملازمت کر رھے تھے انکا ڈیٹا اور کنٹربیوشن کی رقم کے بقایا جات recover کئیے جائیں اور اسکے بعد انکو رجسٹریشن کاڑڈ EOB ایکٹ 1976 میں دئیے گئیے قانون کے مطابق سختی سے ایشو کئیے جائیں ۔ ایک بات اور نوٹ فرمالیں اس حکم میں عدالت نے لفظ “ متاثرین ملازمین ( aggrieved employees) استعمال کیا ہے نا کے شکایات کنندگان یا اپیل کنندگان ۔اسلئے اب ایسے سب سابقہ پی ٹی سی ایل ملازمین جو یکم جنوری 1996 سے لے کر30 جون 2012 تک یا اس سے پہلے تک پی ٹی سی ایل میں ملازمت کرتے رھے تھے ان سب کا ڈیٹا اور کنٹری بیوشن کی رقم پی ٹی سی ایل سے وصول کرکے ان رجسٹریشن کاڑڈ ایشو کرنا تاکے یہ سابقہ ملازمین بھی EOBIکے بینیفٹس سے مستفید ھو سکیں، EOBI کے لئے ایک ضروری امر بن چکا ھے، کیونکے یہ حکم اسکی کی لیگل اتھاڑٹی Adjudicating Authority نے دیا ہے اب بال اسکے کوڑٹ میں ھے اور اب وہ کیسے اس پر عمل کرتی ہے، یقینن انکے پاس ایسا کرنے کے لئی قانونی پروسیجر ھوگا ۔ میں یہ سمجھتا ھیں کے ایسا ھر پی ٹی سی ایل کا سابقہ ملازم اپنی مکمل CV کے ساتھ شناختی کاڑڈ کی کاپی لگا کرکے کب سے ٹی اینڈ ٹی یا پی ٹی سی میں ملازم ھوا اور یکم جنوری 1996 کو پی ٹی سی ایل میں ٹرانسفڑڈ ھوکر اسکا ملازم بنا ۔ اور وہ کس عمر میں ریٹائیڑڈ ھوا / وی ایس ایس لیا/ استعفی دیا / نکال دیا گیا وغیرہ وغیرہ تو وہ کس پوسٹ ، گریڈ پر اور کہاں پر تھا اور ماھانہ کتنی تنخواہ لے رھا تھا اور اسکا ایپملائی نمبر کیا تھا وغیرہ وغیرہ لکھ کر اور اس اتھاڑٹی کے ۲۱ فروری ۲۰۱۸ کی کاپی لگا کر اپنے اپنے علاقے کے EOBI کے ڈسٹرکٹ آفس سے رجوع کریں ۔ انکی ویب سائیٹ www.eobi.gov.pk پاکستان کے ھر شھر انکے ڈسٹرکٹ آفسس کی معلومات موجود ہیں، وہاں سےاستفادہ کریں اور اسکے بارے صحیح معلومات کے وہ اس سے کیسے اور کسطرح استفادہ کرسکتے ھیں۔ کراچی میں انکا ھیڈ آفس ھے جو پی ای سی ایچ میں واقع ہے جسکا ایڈریس یہ ھے:
EOBI House, 190/B/1, Block-2 PECHS Karachi
Telephone Nos: PABX: 021-34328050-5 EOBI
Telephone Nos: PABX: 021-34328050-5 EOBI
یہEBOI کی Adjudicating Authority کا فیصلہ کے اسکے کیمپ چکوال ریجن کے جج زلفقار علی Adjudicating Authority-III نے 21 فروری 2018 کو صادر فرمایا اور اسکی سڑٹیفئیائیڈ کاپی 6 مارچ 2018 کو جاری کی گئی ھے ۔ میں نے اس فیصلے کی کاپیاں نیچے پیسٹ کر رکھی ھیں ۔ رجسٹریشن کاڑڈ ملنے کی صورت میں اگر کسی مرد حضرات کی عمر ساٹھ سال کی ھوچکی تو وہ EOBI آفس پنشن لینے کے لئیے مجوزہ فارمز حاصل کریں اور پنشن کے لئے کلیم داخل کریں ۔ انکا وھاں اپنا ھی ایک سسٹم اور ہیلپ ڈیسک ھوتا ھے وہ ایسے لوگوں کی مدد کرسکتا ھے ۔ اگر مرد حضرات کو ساٹھ سال کی عمر میں پہنچے ھوئیے چھ ماہ سے زیادہ کتنا بھی عرصہ ھو چکا ھو اور خواتین پچپن سال کو پہنچے ھوئیے چھ ماہ سے زیادہ عرصہ کتنا بھی عرصہ انکو EOBI کی پنشن ملنا توشروع ھوجائیگی لیکن انکو پنشن کے صرف چھ ماہ کے ھی بقایا جات ھی ملیں گےآپ لوگوں کو اس مقصد حاصل کرنے کے لئے EOBI کے آفسسس کے بہت چکر لگانے پڑیں گے اور بہت تلخ تجربے سے دوچار ھونگے ۔ اگر آپ وہی سب کچھ کرسکیں جو آجکل اپنا کام جلد نکلوانے کے لئیے کیا جاتا ھے تو آپ کو جلد کامیابی مل جائیگی ورنہ آپ لوگ گھسٹتے ھی رھیں گے اسلئیے آپ لوگ بھی ھوشیا رھیں اور کمر کس لیں۔ مجھے تو اس بارے میں سخت تلخ تجربہ ھے۔ کے EOBI سے پنشن سیکشن کرانے کے لئیے کتنے پاپڑ پیلنے پڑتے ھیں ھے یہ مجھے اسلئیے معلوم ھے مجھے اپنی بیوہ سالی کے EOBI پنشن کے کلیم کے سلسلے EOBI کے سٹیلائیٹ ٹاؤن بلاک سی ایران روڈ کتنے سینکڑوں چکر لگانے پڑے تھے ۔ کبھی کہتے یہ لے کر آ ؤ اور کبھی کہتے وہ لے کر آؤ ۔ کبھی کچھ کبھ کچھ ۔ میرے عزیز ھم زلف کا انتقال ۲۳ دسمبر ۲۰۱۳ کو ھوا تھا وہ EOBIکی پنشن اسوقت گزشتہ دس سال سے لے رھے تھے انکے انتقال کے بعد اب اس پنشن پر حق انکی بیوی کا تھا ۔ اسکے لئیے میں نے انکی بیوہ جو میری بڑی سالی ھیں انکی پنشن سیکشن کرانے کے لئیے جسطرح طریقہ کار ہے ، EOBI راولپنڈی کے اس ڈسٹرکٹ آفس سے رابطہ کرنا پڑا جنھوں نے مجھے بیحد پریشان کیا اور مجھے اس آفس کے اسی سلسلے میں بار بار چکر لگانے پڑے ۔ خدا خدا کرکے جب کلیم کے فارم جمع کر دئیے اور اور سب صحیح قرار دے دئیے تو میں نے اس کلرک سے پوچھا ، جو کلیم فارم جمع کرکے اسکی فائیل کھول رھا تھا بھئی کب تک ان بیوہ کی پنشن سیکشن ھو جائیگی ۔ تو کلرک نے مجھے بیحد روکھے پن سے جواب دیا جی اس میں کافی دیر لگی گی تین مہینے بعد آکر پتہ کرنا اسکے بارے میں ۔ ھمارے پاس ایک کیس تھوڑا ھی ھے ھزاروں ایسے کیس پڑے ھوئیے ھیں ۔ اب آپکے کیس کا نمبر کب آتا ھے ھمیں کیا معلوم ۔ جائیں انتظار کریں ۔ بڑا ھی غصہ آیا ۔ پھر میں نے سوچا ایسے کام نہیں چلے گا ۔ کوئی سخت قسم کی اپروچ لڑانا چاھئیے جب ھی یہ کام جلدی ھو گا ۔ خوبئی قسمت میرے انھیں مرحوم ھم زلف کا بیٹا فاروق ، جو میرا داماد بھی ھے اور یو فون میں اسوقت ملازم تھا ، اس سے میں نے جب اس بات کا زکر کیا کے یہ لوگ کہہ رھے ھیں کے ڈھائی ماہ بعد آکر پتہ کرنا کے کب ملے گی ۔ تو اس نے بتایا اسکے باس چئیرمین EOBI کے اچھے دوست ھیں آپ مجھے اس کلیم درخواست اور رسید کے pirticulers دیں میں ان سے بات کرتا ھوں ۔ اس بات چوتھے ہی دن کوئی صبح گیارہ بجے فاروق نے مجھے پنشن سیکشن کا لیٹر نمبر ایس ایم ایس کر دیا کے اور فون ہر مجھے کہا کے طارق انکل اسی آفس جاکر امی کے سیکشن لیٹر لے کر آجائیں میں نے کہا وہ مجھے لیٹر کیسے دیں گے وہ تو تمہاری امی کو ھی قانون کے مطابق دیں گے اور تمہاری امی تو اسوقت عدت میں ھیں اور اب کیسے جاسکتی ھیں ۔ مگر اس نے اسرار کیا کے آپ خود جائیں وہ دے دیں گے۔ بحرحال جس دن یہ ایس ایم ایس ملا تھا اسی دن شام تین بجے پہنچ گیا ۔ جب اسی کلرک نے مجھے دیکھا تو دیکھتے ھی فورن کھڑا ھوگیا اور مجھے سلام کیا اور کرسی پیش کی اور کہنے لگا بیٹھیں میں ابھی وہ سیکشن لیٹرز والی فائیل لے کر آتا ھوں ۔ میرے باس آپکا صبح سے پوچھ رھے ھیں ۔ خیر وہ دوڑا دوڑا گیا فائیل لے کر آیا اور بغیر کسی حجت کے مجھے بیوہ سالی کا EOBI کا رجسٹریشن کاڑڈ دو پنشن کے سیکشن لیٹرز پکڑا دئیے ایک نیشنل بنک کا جہاں سے پنشن ملنا تھی [ انکے اس لیٹر میں۔ مرحوم کمال بھائی کی ان پچھلے دو مھینے کی بھی پنشن کے بقایا جات بھی شامل تھے جو وہ نہیں لے سکے تھے اور دوسرا پنشن لینے والے کا۔ اسکی آفس کاپی میرے وصول یابی کے دستخط لئیے اور پھر بڑے ہی ارم دب انداز میں مجھے باھر تک چھوڑنے آیا جس نے مجھ سے کہا تھا کے تین ماہ کے بعد آکر پتہ کریں-
یہ سب کچھ آپ لوگوں کو بتانے کا مقصد یہ تھا کے آپ بھی اسی طرح کی کوشش کرئیے گا یا انکے چائے پانی کا انتظام کریں یا بڑی سے بڑی اپروچ ورنہ رل جائیں گے۔
جب میں نے یہ ۲۱ فروری ۲۰۱۸ کا اتھاڑٹی کا فیصلہ پڑھا تو مجھے اس بات کا بیحد ملال ھوا کے اس کے بابت مجھے انھیں دنوں کیو نہیں بتایا گیا اور اگر اس فیصلے کے بارے مجھے بروقت بتا دیا جاتا تو میں اسکے بارے میں اور لوگوں کو گائیڈ لائین دے دیتا جیسے اب دے رھا ھوں اور ھو سکتا ھے کے بہت سے لوگ اس فیصلے سے اب تک مستفید ھو چکے ۔ میں نے احسان اللہ صاحب کو فون کرکے اس بات کا بیحد گلا کیا اور اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ۔ جب میں نے ان سے استفسار کیا کیا وہ اس عدالتی حکم کے مطابق EOBI میں رجسٹڑڈ ھوگئیے کیا انکو EOBI کا کاڑڈ مل گیا ؟ انھوں نے بتایا ابھی تک کچھ نہیں ھوا۔ میں نے پوچھا کیوں نہیں ھوا اور کیوں آپ نے مجھ سے اس بارے میں مشورہ نہیں لیا۔ کہنے لگے غلطی ھوگئی دراصل اس فیصلے کےآنے کے بعد ھمارے ایک ساتھی جو خود بھی اس کیس میں شکایت کنندگان تھے انھوں نے ھم سب سے کہا کے تم مجھے کنٹریبیوشن کی رقم دو میں تم سب کی EOBI میں رجسٹریشن کراکر اسکی پنشن دلواؤں گا اور اس سلسلے میں انھوں نے ھم سے ایک affidavit بھی مانگا تھا ۔ جب میں نے اس شخض کا نام انسے معلوم کیا تو انھوں نے اسکا نام محمد آفتاب چشتی بتایا۔ جسے سن کر میں اچھل پڑا ۔ کیونکے یہ شخص بہت بڑا چیٹر ھے اور میں اسکو اچھی طرح جانتا تھا [ اس شخض کا نام اس پٹیشن کی لسٹ میں 45 نمبر سیریل پر موجود ھے ۔ اور احسان اللہ صاحب کا سیریل 49 پر آپ لوگ دیکھ سکتے ھیں ] اور مجھے انکی بات سن کر بہت غصہ آیا اور کہا کے آپ سب لوگ توبہت بڑے بیوقوف ہیں آپ نے اس دھوکہ باز کی باتوں پر کیسے اعتبار کرلیا۔ وہ تو ایک نمبر کا چیٹر ھے میں اسے اچھی طرح جانتا ھوں ۔ پھر مجھے یاد آیا انھی دنوں مارچ ۲۰۱۸ میں ملتان سے پی ٹی سی ایل پنشنر جناب عابد صاحب نے نے فون کرکے بتایا تھا یہاں کچھ لوگ ایک فارم تقسیم کررھے ھیں اور کہہ رھے ھیں کے یہ EOBI کے رجسٹریشن فارم ھیں یہ بھر کر دے دیں تاکے انکو یہ EOBI کی پنشن ملنا شروع ھوجائے کیونکے یہ پی ٹی ای ٹی والے انکو جو یہ دے رھے ھیں وہ ختم یا فریز ھونے والی ھے۔ وہ میرا مشورہ چاھتے ھیں کے کیا وہ یہ رجسٹریشن فارم پر کر دیں یا نہیں۔ میں نے عابد صاحب کہا کے بھئی وہ اب کو کیسے رجسٹڑڈ ھو سکتے ھیں انکو تو EOBI رجسٹڑڈ کروانا اور پھر انکی تنخواہ سے کںٹری بیوشن کاٹ کر EOBI پی ٹی سی ایل کا فرض تھا جب آپ سروس میں تھے۔ اب یہ کیسے ممکن ھے ۔ تو جو لوگ ایسا کرنے کو اب کہہ رہے ھیں ، مجھے انکا زاتی مفاد لگتا ھے [ اگر مجھے اس ۲۱فروی ۲۰۱۸ کے فیصلے کے اسوقت علم ھوتا تو انکو میں یہ ہی مشورہ دیتا کے وہ ڈائیریکٹ EOBI کے اپنے ڈسٹرکٹ آفس کو اپروچ کریں ۔ اور ان سے مشورہ لیں ۔ اور ان دھوکے بازوں کو کوئی پیسہ ویسہ نہ دیں]۔ میں نے جہاں عابد صاحب کو اپنی اس بات سے مطلع کیا وہیں میں نے ۱۳ مارچ ۲۰۱۸ کو “ مشتری ھوشیار باش !!!!” کے عنوان سے ایک آڑٹیکل لکھا اور اسکو اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر اور اپنی بلاگ سائیٹ پر بھی اپلوڈ کیا۔ جو اب بھی موجود ھے ۔ لیکن لوگ اسکے بعد بھی انھی کے ھاتوں بیوقوف بنتے رھے۔ اس سال اپریل ۱۹ میں مجھے یہ شکایت پھر ملی کے کوئی ملتان کا الیاس چشتی نام کا ایک شخض ھے جو پی ٹی سی ایل کا سابقہ ملازم اور یونیسٹ ھے اور وہ ۲۰۰۸ میں وی ایس ایس ، بغیر پنشن ریٹائیڑڈ ہے ، وہ یہ حرکتیں کر رھا ھے اور لوگوں سے پیسے بٹور رھا ہے اس پر پھر میں نے ۲۳ اپریل ۲۰۱۹ یہ مندرجہ زیل یہ سب کچھ لکھ کر فیس بک اور اپنی بلاگ سائیٹ پر اپلوڈ کیا
“مشتری ھوشیار باش؟؟؟؟؟؟
ھوشیار. . . خبردار
نوٹ :- یہ بات سننے میں آرھی ھے کے یہ شخض آفتاب چشتی ملتان والا لوگوں کو EOBI کے کے فارم اور اور ایک affidavits بھر کر مانگ رھا ھے اور ساتھ ھر ایک سے کافی پیسے وصول کررھا جیسے یہ ان کو EOBI کی پنشن بھی دلآکر دے گا - ایک سال پہلے پہلے جب مجھے اس بات کا علم ھوا تو میں نے اس سے لوگوں کو ھوشیار کیا تھا کے وہ بیوقوف نہ بنیں او یہ مندرجہ زیل آڑٹیکل لکھا تھا۔ آپ بھی پڑھیں اور اپنی رائیے دیں ۔شکریہ
واسلام
طارق
۲۳ اپریل ۱۹”
اب میں امید رکھتا ھوں کے آپ لوگ اس شخص اور ایسے اشخاص کے ھاتوں بیوقوف نہیں بنیں گے اور جیسا انکو میں نے اوپر مشورہ دیا ہے اس ۲۱ فروری ۲۰۱۸ EOBI کی عدالت کے احکامات کے مطابق ،
ویسا ھی عمل کریں گے انشاللہ
آخر میں ایک بات آپ لوگوں سے کہنا چاھتا ھوں مجھے آج یہ سب کچھ اس اتھاڑٹی کے فیصلے کو پڑھکر اس بات کا بیحد دکھ ھورھا کے کے پی ٹی سی ایل کے یکم جنوری 1996 کے وقت ، اسکے جو کرتا دھرتا تھے یعنی جو مالک تھے وہ اپنے ھی وہ لوگ تھے جو ٹی اینڈ ٹی کام کررھے تھے ۔ انکو کیا اتنی عقل نہیں تھی اور کیا وہ یہ نہیں جانتے تھے کے اس کمپنی کی تشکیل کمپنی ایکٹ 1984 کے تحت ھوئی ھے جسطرح کمپنیوں کی ھوتی ھے اور یہ کوئی Statuory Body نہیں ۔ بحیثیت کمپنی اسکو EOBI میں رجسٹریشن اپنی تشکیل کے تیس دن کے اندر اندر یعنی 30 جنوری 1996 تک ضروری تھا ۔ اگر وہ اس وقت یہ کر لیتے تو تمام اسوقت کام کرنے والے کارپوریشن کے سابقہ ملازمین EOBI میں رجسٹڑڈ ھو جاتے اور پھر اسکے بینیفٹس سے مستفید ھوتے رھتے ۔ اور انکو یہ EOBI کی پنشن پر بھی ملتی جب وہ عمر کے لحاظ سے اسکے حقدار ھوجاتے۔آگر کسی کا انتقال اس عمر کی حد سے پہلے ھو جاتا تو اسکے شریک حیات ( spouse) کو فورن یہ EOBI کی پنشن ملنی شروع ھو جاتی . اگر شریک حیات زندہ نہ ھوتے تو انکے بچوں کو ملنی شروع ھو جاتی اگر غیر شادی دہ ھوتے تو انکے بوڑھے والدین کو اگر وہ زندہ ھوۓ ، پانچ سال تک یہ EOBI کی پنشن ملتی رھتی ۔کچھ تو ان بیچاروں کے آنسو پونچھ جاتے کچھ تو
مداوہ ھو جاتا۔ مگر یہ نہ ھوسکا یہ اسوقت کے کرتا دھرتا بڑے قانونی دماغ رکھنے والے یہ سب کچھ نہ کرسکے بلکے litigation میں پڑگئیے جی ھم کمپنی کو EOBI میں کیوں رجسٹڑڈ ھوں ھم کیوں اپنے ملازمین کو EOBI کا فائیدہ پہنچائیں ۔ جب عدالتوں نے انکے منہ پر جوتا مارا اور کہا نہیں یہ پرائویٹ ادارہ ھے آپ کو اسکو اور اسکے ملازمین کو اسوقت سے EOBI میں رجسٹڑڈ کرانا ھوگا جب سے آپکی یہ کمپنی ظہور میں آئی ھے۔ تو بڑی دیر ھوچکی تھے اور اسوقت اسکی پرائیویٹائیزیشن کے بعد جو لوگ اسکے مالک بن گئیے ، انھوں نے صرف حاظر سروس ملازمین کو رجسٹڑڈ کیا اور کسی بھی سابقہ ملازمین کو نہیں کیا جو اسکی تشکیل کے وقت اسکا حصہ تھے ۔ تو یہ سب کچھ اپنوں ھی کا کا کیا درا ھے جو آج نان پنشنر پی ٹی سی ایل ملازمین اس EOBI کی پنشن سے محروم ھو گئیے ۔ گورنمنٹ کی پنشن تو پی ٹی سی ایل ظالم انتظامیہ نے پہلے ھی محروم کر رکھا تھا ۔ انیس انیس سال کی نوکری کرنے کے باوجود یہ لوگ اپنے اپنے جائیز حق سے محروم کردئیے گئیے اور آجکل یہ کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ھیں ۔ اللہ ان پر رحم کرے اور ان ظالموں سے انکا حق دلوائے آمین
واسلام
محمد طارق اظہر
ریٹائیڑڈ جنرل منیجر( آپس) پی ٹی سی ایل
راولپنڈی
۲۲ جولائی ۲۰۱۹
نوٹ :- فیس بک اور میری بلاگ سائیٹ پر یہ میرا آڑٹیکل 96 پڑھنے والوں سے التماس ھے کے ایک تو وہ مجھے اسکے بارے میں اپنی رائیے ضرور دیں دوسرے یہ کے ان کے زھین میں کوئی بھی اسکے متعلق سوال پیدا ھوتا ہے یا کسی بات کی کلئریفئکیشن چاھتے ھیں تو مجھے سب کچھ کمنٹس میں لکھیں میں انشاللہ ان کو مکمل تسلی کے ساتھ جواب دوں گا ۔ شکریہ
طارق
Comments