Article-115[Regarding Writ Petition No 2114/2016 in IHC]

‏Attention   Attention VSS Non Pensioners



کیا  یہ انصاف ھے ؟؟؟؟۔ ۔ ۔ ایک لمحہ فکریہ

عزیز پی ٹی سی ایل ساتھیو
اسلام و علیکم
13 فروری 2020 کو اسلام آباد ھائی کوڑٹ کے معزز جج جناب جسٹس میاں گل اورنگ زیب  صاحب نے پی ٹی سی ایل سے  وی ایس ایس لے کر ریٹائیڑڈ ھونے والے نان پنشنرز  پٹیشنروں غلام سرور ابڑو اور دیگران  کی پٹیشن نمبر 2114/2016   , جو 31 مئی 2016 میں دائیر کی گئی تھی، Non Maintainable کی بنیاد پر خارج کردیں ۔ اور اس پر میرٹ کی بنیاد پر فیصلہ کرنے سے اجتناب کیا۔
مجھے یہ فیصلہ پڑھکر بیحد دکھ اور حیرانی ھوئی ۔ اور سوچنے لگا کے خوب ناانصافی  کی گئی ان بیچارے نان پنشنرس وی ایس ایس لے کر ریٹائیڑڈ ھونے والے پٹیشنرس پی ٹی سی ایل پنشنرس کے ساتھ محترم جج صاحب نے تقریبن چار سال کے بعد یہ کیسس non maintainability کی بنیاد پر خارج کردیا ۔  یہ فیصلہ پڑھکر برطانیہ کے وزیر اعظم  جنگ عظیم دوم کے ھیرو سر ونسٹن چرچل کا وہ قول یاد آگیا جس میں انھوں نے کہا تھا ملک جنگ سے تباہ نھیں ھوتے وہ تب تباہ ھوتے ھیں جب ایسے ملکوں  کی عدلیہ کے جج انصاف سے کام کرنا چھوڑ دیں۔ محترم جج صاحب اس پٹیشن کو خارج کرنا ملک خدادد پاکستان  کے جج کی ناانصافی کی ایک زندہ مثال ھے جسکی نظیر ملنا مشکل ھے۔اگر انکو اسی طرح کا فیصلہ ھی کرنا تھا تو وہ پہلے ھی ایک دو سماعتوں میں 2016 میں بھی کر سکتے تھے اور اب تک یہ کیس سپریم کوڑٹ کے مراحل تک کو پاس کرکے پٹیشنرز کے حق میں یقینی ھو چکا ھوتا۔ کیونکے ایسے بہت سے سپریم کوڑٹ کے فیصلے ھیں کے دس سال کی کوالیفائیڈ پر، ایک ریٹائیڑڈ سرکاری ملازم چاھے کسی بھی طریقے سے بھی ریٹائڑڈ ھوا ھو ، سرکاری ملازمین کے پنشن قوائد کے مطابق پنشن کا حقدار بن جاتا ہے۔
اس پٹیشن میں جو بڑا مدعا کہا گیا تھا کے پی ٹی سی ایل نے کس قانون کے تحت  گورنمنٹ کے سرکاری ملازمین کی پنشن کا حقدار ھونے کی  کم ازکم کولیفائیڈ سروس دس سال سے بڑھا کر بیس سال کردی جسکا اسکو اختیار ھی نھیں تھا ۔ کیونکے پی ٹی سی ایل میں یکم جنوری 1996 کو کارپوریشن ( پی ٹی سی ) سے ٹرانسفر ھوکر  کمپنی میں  آنے والا ھر کاپوریشن کا ریگولر ملازم  سرکاری ملازم کے زمرے میں آتا ھے کیونکے اسپر پی ٹی سی ایل میں سرکاری قوانین ( statutory rules) ھی استعمال ھوتے ھیں اور اسکو اپنے  grievances دور کرنے کے لئے ھائی کوڑٹ سے آئین کے آڑٹیکل -۱۹۹ کے تحت رجوع کرنے کا بلکل اختیار ھوتا ھے ۔
اس کیس کی سماعت دو مرتبہ کی گئی تھی ۔ پہلی بار 17 اپریل 2017 کو اس کی سماعت ھر طرح سے مکمل ھوگئی تھی ۔ اور اسکی اگلی سماعت جب 12 جون 2017 کو ھوئی تو یہ خیال تھا کے محترم جج صاحب اسکا پر فیصلہ سنادیں گے مگر انھوں نے اس دن معزرت کرلی کے وہ فیصلہ نہیں تحریر کر سکے تاھم انھوں نے وعدہ کیا کے اسکے فیصلے کا اعلان وہ عدالتی چھٹیوں کے بعد 27 ستمبر 2017  کو کریں گے۔ لیکن انھوں نے اس دن بجائیے ، فیصلہ سنانے کے پی ٹی سی ایل کے وکیل کو ، اسکے کہنے پر ،مزید arguments دینے کی اجازت دے دی اور ایک ھفتے کے لئیے سماعت ملتوی کردی اور پھر جب ایک ھفتے کے بعد بھی پی ٹی سی ایل کے وکیل  مزید دلائیل دینے سے قاصر رھے تو انکو مزید ایک ماہ کی مہلت دے دے دی۔ بحر حال اس کیس کی سماعت دوسری مرتبہ 28 فروری 2018 کو ھر طرح سے مکمل ھو گئی اور محترم جج صاحب نے اس پر فیصلہ محفوظ کرلیا ۔ اور14 مارچ  2019 اس کیس پر فیصلہ سنانے کی بجائیے اسی طرح کے  دوسرے جاری پی ٹی سی ایل پنشنرس اور نان پنشنرس  کیسس کے ساتھ  کلب کر دیا  ۔ان دیگر جاری کیسس میں نارملی ریٹئائیڑڈ اور وی ایس ایس لے کر ریٹائیڑڈ ھونے والے پی ٹی سی ایل پنشنرز پٹیشنروں کے کیسس بھی شامل تھے۔ محترم جج صاحب نے ۱۳ فروری ۲۰۲۰ کو یہ پٹیشن نمبر 2114/2016 کو Non Maintainability کی بنیاد پر ڈسمس کردی اور اسپر میرٹ پر فیصلہ دینے سےاجتناب کیا۔
انھوں نےNon maintainability پر ڈسمس کرنے کی 2 بڑی وجوھات  بیان کیں اس فیصلے کے  پیرا 14 اور 15میں تحریر کی ھیں ۔  پہلی یہ کے ان پٹیشنروں کو  ھائی کوڑٹ سے رجوع کرنے کا اختیار ھی نھیں تھا کیونکے کمپنی میں انپر ماسٹر اینڈ سرونٹ کے قوانین نافظ تھے ناکے سرکاری قوانین۔ چاھے وہ 1991 سے پہلے ٹی اینڈ اٹی میں بھرتی ھوئیے   یا ھوں  1991 سے پی ٹی سی میں . دوسری وجہ انھوں نے یہ بیان کے انھوں نے بہت دیر سے یہ پٹیشن داخل ۔انکو تو ساٹھ دن کے اندر اندر ھی ایسی پٹیشنیں داخل کرنی چاھئیے تھیں یعنی 2007 میں ھی جب انکے ساتھ پی ٹی سی ایل نے ایسا سلوک کیا تھا-
مجھے محترم جج صاحب کے ان وجوھات سے بیحد اختلاف ھے ۔ انھو اپنے اس فیصلے کے پیرے 14 میں یہ دلیل دی کے جو پٹیشنرز کارپوریشن میں 1991 سے بھرتی ھوئیے تھے ان ہر کوئی بھی سرکاری قوانین کا اطلاق نہیں ھوتا تھا کیونکے کارپوریشن میں statutory rules کی provision ھی نھیں تھی ۔ انھوں نے اس سلسلے میں سپریم کوڑٹ کے کیس Pakistan Telecommunication Company Ltd   Vs Iqbal Nasir ( PLD
‏2011 SC 132 ) کا ریفرنس دیتے ھوئیے بیان کیا کے اس فیصلے میں کہا گیا ھے جو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کے سروس رولز ریگولیشن 1996 , پی ٹی سی ایکٹ 1991 کی سیکشن 20 کے تحت بنائیے گئیے تھے انکو گزیٹڈ نوٹیفائیڈ نہیں کیا گیا تھا۔ اور چونکے ان ریگولیشن کا کوئی بھی statutory status , نہیں تھا اسلئیے جو ملازمین پی ٹی سی ایکٹ 1991 کے اجراء کے بعد پی ٹی سی میں بھرتی ھوئیے انکی کوئی بھی statutory provision نھیں تھی اسلئیے وہ اپنے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشن میں کسی قسم کی تبدیلی جس میں پنشن بھی شامل ھی ، اسکے خلاف ھائی کوڑٹوں سے اجتجاج، رجوع  کرنے کے مجاز نہیں تھے۔ محترم جج صاحب کا یہ استدلال بلکل صحیح نہیں ۔ یہ ٹھیک ھے کے پی ٹی سی کے سروس رولز ریگولیشن 1996 تو بن گئیے تھے لیکن وہ گورنمنٹ سے منظور نھیں ھوئیے تھے ۔ مگر پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن میں گورنمنٹ کے ھی ٹی اینڈ ٹی والے کی گورنمنٹ کے ھی رولز اینڈ ریگولیشن نافظ تھے ۔   پی ٹی سی ایکٹ 1991 کی شق 1 کے تحت کارپوریشن کی تخلیق ھوئی تھی ۔ اسکا آڈٹ بھی آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے زمہ تھا جسطرح اور تمام گورنمنٹ ڈیپاڑٹمنٹ کا ھوتا ھے۔  اور دوسرے چونکے پی ٹی سی کے اپنے بنائیے کوئی بھی رولز اینڈ ریگولیشن نہیں تھے اسلئیے اسکے بوڑڈ آف ڈآئیریکٹرز کے دوسرے ھی اجلاس میں جو  فروری 1992 کے پہلے ھفتے میں منقد ھوا اس میں پی ٹی سی میں چلنے والے سابقہ ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ کے رولز ، ریگولیشنس اور پروسیجر کو ھی adopt کرنے کا فیصلہ کیا گیا کے جب تک کے کارپوریشن کے اپنے کوئی قوانین فریم یا تشکیل نہیں  جاتےسابقہ ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ کے ھی رولز اور پروسیجر کارپوریشن میں لاگو رھیں گے [بوڑڈ آف ڈآئیریکٹرز کے اس فیصلے کا باقاعدہ نوٹیفیکیشن 9 فروری 1992 کو  چیف انجینئیر ( سی اینڈ سی ) جناب محمد  حنیف اعظم صاحب نے بحوالہ نمبرNo C.E(C&C)/Rules اپنے دستخط سے جاری کیا ].  ٹی اینڈ ٹی میں دو طرح کے رولز نافظ تھے ایک وہ رولز اور پروسیجرز ٹی اینڈ ٹی کے ھی لئیے  پاڑٹیشن سے پہلے ھی انگریزوں کے دور میں قانون سازی کرکے بنائیے گئیے تھے ۔ اور دوسرے وہ قوانین جو حکومت نے سرکاری ملازمین  کے لئے گورنمنٹ سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے تحت فریم کئیے تھے ۔ تو جو ملازم بھی ریگولر طور پر پی ٹی سی میں بھرتی ھوئیے ان سب پر انھی سرکاری قوانین کا عمل ھونا لازمی امر تھا اسلئیے ایسے ملازمین کو statutory protection  تھی اسلئے انکو ھائی کوڑٹ میں اپنے grievances  دور کرانے کے لئیے آئین کی شق 199 کے تحت رجوع کرنے کا قانونی حق  سو فیصد حاصل تھا۔ابھی حال ھی میں لاھور ھائی کوڑٹ کے دو  رکنی معزز ججوں کے بینچ نے سپریم کوڑٹ کی طرف سے ریمانڈ کیس ایسے پی ٹی سی میں بھرتی ھونے والے ملازم چودھری بشارت علی کی انٹرا کوڑٹ اپیل نمبر ICA No 1772/2015 اور اس طرح کی دیگر انٹرا کوڑٹ اپیلوں پر 18 فروری 2020 کو ایک بہت ہی comprehensive فیصلہ دیتے ھوئیے یہ اعلان کیا کے وہ پی ٹی سی ایل  ملازمین جو یکم جنوری 1996 سے پہلے بھرتی ھوئے,  انکو statutory protection مہیا ھے لیکن جو اس کے بعد بھرتی ھوئیے انپر non statutory رولز استعمال ھونگے۔کیونکے انکی نوکری  contractual nature کی ھیں۔
محترم جج صاحب نے پیرا 15 ان پٹیشنرز کے بارے میں لکھا ھے کہ یہ ٹھیک ھے کے یہ ٹی اینڈ ٹی کے ڈیپاڑٹمنٹل اییمپلائیز تھے اور وہ  پی ٹی سی میں پی ٹی سی ایکٹ 1996کی شق 9 کے تحت ٹرانسفڑڈ ھوئیے  اور پھر پی ٹی ( ری ۔ آرگنئیزیشن ) ایکٹ 1996 کی شق اور 35 اور 36 کے تحت پی ٹی سی ایل میں ۔ ان ڈیپاڑٹمنٹل اییمپلائیز کے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس پی ٹی سی ایل میں سپریم کوڑٹ کے ان فیصلوں
‏PTCL vs Masood Bhattie (2016SCMR1362),
‏PTET vs Muhammad Arif ( 2015SCMR1472)
‏Muhammad Riaz vs Federation of Pakistan ( 2015SCMR1783)
کے تحت ایسے ڈیپاڑٹمنٹل ملازمین کو یہ اختیار ھے کے وہ اپنے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس کے کسی مسعلے یعنی grievances پر ھائی کوڑٹ سے رجوع کرسکتے ھیں آئین کے آڑٹیکل 199 کے تحت ۔ لیکن جن ڈیپاڑٹمنٹل ملازمین نے وی ایس ایس کے بینیفٹس لئیے ھیں ان پر ھائی کوڑٹ کے دروازے بند ھیں ۔ انھوں نے یہ دلیل سپریم کوڑٹ کے Pakistan Telecommunication Company Ltd   Vs Iqbal Nasir ( PLD
‏2011 SC 132 ) کے فیصلے میں پیرا نمبر
29 کا ریفرنس دیتے ھو ئیے یہ لکھا ھے  کے ھائی کوڑٹ ان ملازمین  کو جو وی ایس ایس لینے کے بینیفٹ مانگ رھے ھیں انکو کوئی بھی ریلیف نہیں دی سکتی جنکی رٹ پٹیشنیں non maintainable ھیں کیونکے پر کی انکی سروس پر کسی بھی گورنمنٹ کے قوانین (statutory rules )اطلاق نہیں ھوتا ھے تو اسلئیے اس بنیاد پر جو فیصلہ سپریم کوڑٹ نے Pakistan Telecommunication Company Ltd   Vs Iqbal Nasir ( PLD
‏2011 SC 132 )  میں دیا ھے اسکے ان تمام پٹیشنرز  کی رٹ پٹیشنس جو ڈیپاڑٹمنٹل ایمپلائیز ھیں اور انھوں نے وی ایس ایس کے بینیفٹ حاصل کئیے، non maintainability کی بنیاد پر ڈسمس کی جاتی ھے ۔ محترم جج صاحب کی یہ دلیل صحیح نھیں ہے ۔ دراصل یہ فیصلہ تو سپریم کوزڑٹ نے پی ٹی سی ایل میں اُن کام کرنے والے ان عارضی ملازمین کے بارے میں دیا تھا نہ کے ریگولر ملازمین کے لئیے ۔ ان عارضی ملازمین کو پی ٹی سی ایل نے وی ایس ایس پیکیج اس بنیاد ہر آفر نھیں کیا تھا کے انکی سروس ریگولر نھیں تھی  بلکے عارضی کنٹریکٹ پر تھے   اگرچہ  وہ کارپوریشن سے یکم جنوری 1996 کو ٹرانسفڑڈ ھوکر آئیے تھے ۔
اس سے پہلے میں اس پر مزید کہوں میں اس سپریم کوڑٹ اس کیس کے متعلق آپ آپکو بتانا چاھتا ھوں یعنی
‏Pakistan Telecommunication Company Ltd   Vs Iqbal Nasir ( PLD
‏2011 SC 132 ) کے متعلق  جیسا کے آپ لوگ جانتے ھیں 2007-2008 پی ٹی سی ایل نے ان تمام پی ٹی سی سی ایل میں کام کرنے ریگولرز ملازمین کو وی ایس ایس لینے کے لئیے آفر لیٹرز ایشو کئیے تھے جن کی عمر 57 برس تک کی تھی مگر انھوں نے کسی کنٹریکٹ ، ایڈھاک یا کسی ڈیلی ویجز پر کام کرنے والے عارضی ملازمین کو یہ آفر لیٹرز ایشو نہیں کئیے ۔ جو کارپوریشن سے ٹرانسفڑڈ ھو یکم جنوری 1996 کو پی ٹی سی ایل میں آئیے تھے ان میں ایسے وہ لوگ بھی شامل تھے جنکو ٹیلی کام فاؤنڈیشن نے کنٹریکٹ  89 روز کے لئیے لگایا تھا اور پھر انکو ٹی اینڈ ٹی میں متعین کردیا گیا ۔ جن میں سے بیشتر تعداد ٹیلی فون آپریٹرز کی تھی ۔ انکی کنٹریکٹ سروس 89 بعد ختم کردی جاتیں اور پھر دوبارا 89 روز کے لئیے انکو کنٹریکٹ پر دوبارا رکھ لیا جاتا ۔ٹیلی کام فاؤنڈیشن یہ طریقہ کار اسلئیے اپنایا تھا کے کہیں نوے(90) روز مسلسلُ کنٹریکٹ پر کام کرنے پر یہ ریگولر کرنے کا دعوہُ نہ کردیں ۔ جب انکو ایسے وی ایس ایس لینے کے آفرلیٹرز نہیں ملے تو انھوں نے اپنے اپنے متعلقہ ھائی کوڑٹوں میں رٹ پٹیشنیں داخل کردیں کے  انھیں بھی یہ  وی ایس ایس لینے کے آفر لیٹرز ایشو کئیے جائیں ۔ ھائی کوڑٹوں نے ان ایسے عارضی پی ٹی سی ایل ملازمین  کے حق میں فیصلہ دیا . اسکے خلاف پی ٹی سی ایل نے سپریم کوڑٹ نے اپیل داخل کردیں جو منظور کرلی گئ اور ان عارضی ملازمین کو وی ایس ایس لینے کے بینیفٹ سے محروم کردیا اور یہ بڑی وجوھات بیان کیں کے ان عارضی پی ٹی سی ایل میں کام کرنے والے ملازمین کے کوئی بھی statuary provision of rules نہیں تھے اسلئیے ان کو ھائی کوڑٹوں سے رجوع کرنے کا اختیار ھی نھیں تھا۔
    جس وقت انکی مسعود بھٹی کیس کے خلاف رویو پٹیشن کا کیس  سپریم کوڑٹ کے پانچ رکنی بینچ کے سامنے چل رھا تھا ، تو پی ٹی سی ایل کے بڈھے وکیل جناب خالد انور چیخ چیخ کر اسی کیس
‎یعنی Pakistan Telecommunication Company Ltd   Vs Iqbal Nasir ( PLD 2011 SC 132 )
‎کا زکر کرتے ھوئیے چلارھےتھے اور بار بار یہ کہ رھے تھے پی ٹی سی ایل ملازمین جو ٹرانسفڑڈ ھوکر کمپنی میں آئیے ان پر سرکاری قوانین ( statutory rules ) کا اطلاق ھی نھیں ھوتا ھے ان پر صرف کمپنی کے ماسٹر اینڈ سروس رولز کا ھی اطلاق ھوتا اسلئیے انکو ھائی کوڑٹوں سے آئین کے آڑٹیکل 199 کے تحت رجوع کرنے کا اختیار نہیں اور انکا یہ بھی کہنا تھا کے یہ اوپر مزکورہ  ناصر والے کیس کا فیصلہ جس کو سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ نے دیا تھا وہ مسعود بھٹی کیس کے تین رکنی بینچ کے فیصلے سے پہلے آیا تھا اسلئیے اس میں ردوبدل کے لئیے لارجر بینچ کا ھی فیصلہ موثر ھو گا ۔ لیکن یہ رویو پٹیشن سننے والے پانچ رکنی بینچ کےُممبران ججز نے  خالد انور کا یہ اعتراض انکےغلط خیال کی بنیاد پر بلکل مسترد کردیا اور کہا اقبال ناصر والے کیس میں جن ملازمین کا تزکرہ ھے یہ وہ ملازمین نہیں ھیں جن کو پی ٹی سی ایل میں statutory rules کی provision حاصل نہیں  تھے کیونکے یہ تمام وہ ملازمین تھے جو کنٹریکٹ پر ٹیلیکام فاؤنڈیشن کی طرف سے کام کررھے تھے [ دیکھیے اس رویو پٹیشن
یعنی PTCL vs Masood Bhattie (2016SCMR1362), کا پیرا 7. نیچے یہ ھائی لائیٹڈ کرکے پیسٹ کریا گیا]۔  تو ایسے پی ٹی  سی ایل ملازمین  جو کارپوریشن سے ٹرانسفڑڈ ھوکر پی ٹی سی ایل میں آئیے تھے ان  کو بھی    Statutory Rules کی پروٹیکشن حاصل نہیں تھی اور انکو ھائی کوڑٹوں سے آئین کے آڑٹیکل 199 کے تحت رجوع کرنے کا  اختیار ھی نھیں تھا مگر ھائی کوڑٹوں نے انکی آئینی پٹیشنیں سنیں اور انکے حق میں فیصلہ دیا، جسکے خلاف پی ٹی سی ایل ایک نے سپریم کوڑٹ میں یہ اپیل داخل کی تھی جو منظور کرلی گئی اور  ھائی کوڑٹوں کے فیصلوں کو ختم کردیا گیا ۔اور ایسے پی ٹی سی ایل میں کام کرنے والےکنٹریکٹ ملازمین  پر کمپنی کے ماسٹر اینڈ سرونٹ کا اطلاق ھونا قرار دیا گیا اسلئیے انکو وی ایس ایس  لینے کی آفر دینے سے محروم کردیا گیا ۔ تو محترم جج صاحب کا ان ریگولر ملازمین کو [جن میں دونوں ملازمین شامل تھے یعنی ایک وہ جو ٹی اینڈ ٹی سے پی ٹی سی ایکٹ  1991 کی شق 9 کے تحت ٹرانسفڑڈ ھوکر پی ٹی سی میں دسمبر 1991 میں آئیے تھے انھیں  سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس پر جو ان پر ، انکے پی ٹی سی میں ٹرانسفڑڈ ھونے سے فورن پہلے تھے  اور دوسرے وہ ملازمین جو کارپوریشن میں ریگولر بھرتی ھوئیے تھے اور انکے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشن بھی ٹی اینڈ ٹی سے ٹرانسفڑڈ ھونے والے ملازمین کے ھی جیسے تھے  ۔ کیونکے پی ٹی سی نے انھی  ٹی اینڈ ٹی کے گورنمنٹ قوانین اور ریگولیشنس کو adopt کر رکھا تھا جب تک کے کارپوریشن  کے اپنے قوانین نھیں بن جاتے ۔ مگر یہ قوانین نہ بن سکے اور یہ سب کارپوریشن کے ملازمین ، پی ٹی ( ری آرگنئیزیشن) ایکٹ کی شق 35 اور 36 کے تحت انھیں سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس پر یکم جنوری 1996کو کمپنی یعنی پی ٹی سی  ایل  میں ٹرانسفڑڈ ھوگئیے تھے اور پی ٹی سی ایل کے ملازم بن گئیے انکو گورنمنٹ قوانین یعنی  statutory rules کا provision حاصل تھا اور انکے اس سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس میں کسی بھی منفی تبدیلی  کا اختیار پی ٹی دی ایل کو نھیں تھا جس سے انکو فائیدہ نہ ھو ۔ تو محترم جج صاحب کا ان پٹیشنروں کو ، چاھے وہ ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی ھوئیے ھو پی ٹی سی ایکٹ 1991 کے اجرا سے پہلے یا بعد میں کارپوریشن میں اس کٹیگری کے ملازمین میں شامل  کرنا غلط ھے جن کو سپریم کوڑٹ نے Pakistan Telecommunication Company Ltd   Vs Iqbal Nasir ( PLD
‏2011 SC 132 )کیس میں کمپنی کے وہ ملازمین قرار دئیے ھیں جن پر کمپنی کے ماسٹر اینڈ سرونٹ رولز کا اطلاق ھوتا ھے ۔ اس پٹیشن کو non maintainable کی دوسری وجہ time barred  قرار دینا ھے۔ کے کیوں انکی اتنی مدت کے بعد  سے دائیر کرنے کی گئی ۔ اس ڈیلے کی وجہ مسعور بھٹی کیس  میں انکی طرف سے دائیر کردہ رویو پٹیشن پر فیصلہ دیر سے آنے کی  ۔ کیونکے جو بھی پٹیشن دائیر کی جانی تھی وہ اسی مسعود بھٹی کیس 2012SCMR152 کے ریفرنس کی ھی بنیاد پر دائیر کی جانی تھی اور جب انکی رویو پٹیشن 19 فروری 2016 کو شاڑٹ آڑڈ سے ڈسمس کردی گئی  اور مسعود بھٹی کیس میں عدالت عظمی کا دیا ھوا ھو فیصلہ فائینل ھوگیا اور جب اسکا مفصل فیصلہ 16 مارچ 2016 آگیا (2016SCMR1362)، تو اسکے بعد ھی یہ ایسی پٹیشنیں مختلف ھائی کوڑٹوں میں دائیر کی گئیں ، مگر کسی بھی اور ھائی کوڑٹ نے  اسکو ڈیلے کی وجہ سے non maintainable کی بنیاد پر کبھی خارج نھیں کیا ۔
میں اس کیس کے نان پنشنرس وی ایس ایس پی ٹی سی ایل پٹیشنروں کو یہ ھی سب مشورہ دوں گا کے وہ ھمت نہ ھاریں اسکے خلاف جلد از جلد  اسلام آباد ھائی کوڑٹ میں انٹرا کوڑٹ اپیل داخل کریں ۔ وھی پٹیشنرز یہ اپیلیں داخل کرسکتے ھیں جو  آریجنل پٹیشن 2114/2016 کا حصہ تھے ۔ اور انھیں کو انٹرا کوڑٹ میں ریلیف ملے گا جو یہ انٹرا کوڑٹ اپیل داخل کریں گے ۔ اس سلسلے میں اسی کیس کے ایک پٹیشنر جناب ملک اعجاز صاحب (6298377-300-92+) نے  انٹرا کوڑٹ اپیل کچھ چند ایسے آریجنل کیس کے پٹیشنروں کے ساتھ مل کر داخل کر دی ھے ۔  انھوں نے مجھے بتایا اور بہت سے ایسے پٹیشنروں نے انکا ساتھ نہیں دیا اگر کافی اتنے ھی لوگ آجاتے تو کوئی بڑا وکیل کر لیتے ۔ میں نے کہا آپ پریشان نہیں ھوں ۔ انشاللہ اگر عدالت نے اسکا فیصلہ میرٹ پر کیا گیا تو آپ کے ھی حق میں  آئیگا اور اس  کا فائیدہ صرف انھیں کو ھوگا جنھوں نے یہ انٹرا کوڑٹ اپیل دائیر کی ھوگی ۔ اگر  آریجنل پٹیشن والے پٹیشنرس  یہ سمجھ رھے ھیں ، جنھوں نے اس انٹرا کوڑٹ اپیل میں جصہ نہیں لیا کے اسکا فائدہ ان کو بھی پہنچے گا ، تو ایسے پہلے پٹیشنرس سخت غلطی پر ھیں ۔
واسلام
طارق
بتاریخ ۱۲ مارچ ۲۰۲۰

Comments

Popular posts from this blog

.....آہ ماں۔

Article-173 Part-2 [Draft for non VSS-2008 optees PTCL retired employees]

‏Article-99[Regarding clerification about the registration of the Ex-PTC employees of any capacity with EOBI by PTCL]