Article-141 [ PTCL ka lolly Pop. CBA se ghalut agreement]
Attention Attention PTCL Employees
Article -141
دیتے ھیں دھوکہ کیسے بازی گر کھلا؟؟؟؟؟؟
موضوع :- پی ٹی سی ایل میں کام کرنے والے ٹی اینڈ ٹی اور کارپوریشن کے ریگولر ملازمین کا ، ہی ٹی سی ایل پے اسکیلز ۲۰۱۵ قبول کرنے کا معاملہ. . . . . . . سی بی اے یونین کا انتظامیہ سے ایک بہت غلط معاھدہ. . . . پی ٹی سی ایل انتظامیہ کی مبہم کلئیریفیکیشنس . . . . . ملازمین اسکو قبول کرنے یا نہ کرنے میں تزبزب کا شکار
عزیز پی ٹی سی ایل کے ساتھیو
اسلام وعلیکم
میرے پاس ایسے بہت سے ایسے پی ٹی سی ایل ملازمین کے میسیجز اور فون آرھے ھیں جو نہایت تزبزب کا شکار ھیں کے وہ یہ پی ٹی سی ایل یعنی کمپنی کا دیا ھوا سیلیری پیکیج ۲۰۱۵ قبول کریں یہ نہ کریں ۔ جو انھیں سی بی اے سے معاھدے کے تحت آفر کیا جارھا ھے ، انکا کہنا ھے کے یہ یونین والے کہتے ھیں کے اسکے قبول کرلیں سے انکے گورمنٹ والے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشن پر کوئی فرق نہیں پڑے گا وہ جوں کے توں رھیں گے ۔ انتظامیہ نے اپنے 4 اپریل 2021 کے میں بھی یہ واضح کردیا ھے کے انکے کے کمپنی کے پے سٹریکچر پر “ ایمپلائیز “ کے سروس اینڈ ٹرمز سے کوئی تنازعہ ( Conflict ) نہیں پڑے گا اور ٹرانسفڑڈ ملازمین کے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ 1996 میں دئیے گئیے رائیٹس پروٹیکٹڈ رھیں گے ۔
میں یہ سمجھتا ھوں انکی یہ بات ایسے ملازمین کو صرف لولی پاپ دینے یا انکو الو بنانے کے سوا اور کچھ نھیں ھے کیونکے اس پی ٹی ( ری آرگنائیزیشن ) ایکٹ 1996 کے تحت تو گورمنٹ کے رائیٹس صرف ان ملازمین کے ھی پروٹیکٹڈ ھوں گے جو کمپنی کے ملازم نہیں ھوں گے تو جب ایک ٹرانسفڑڈ ملازم کپمنی کے یہ پےاسکیلز قبول کرے گا تو اس پی ٹی ( ری آرگنائیزیشن ) ایکٹ 1996 کی شق (2) 36 کے کےمطابق consent دینے کی وجہ اس پر لاگو سرکاری قوانین adversely تبدیل ھوجائیں گے اور وہ تو کمپنی کا ملازم بن جائیگا ، کیونکے اس ایکٹ 1996 کی اس شق (2) 36 میں لکھا ھوا ھے کے ٹرانسفڑڈ ایمپلائی کے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشن میں منفی تبدیلی نہیں کی جاسکتی ماسوائیے پاکستان کے قوانین کے مطابق یا اس کی رضامندی پر اور اسکو مناسب compensation دینے کے بعد ۔ جب ایسا consent دینے والا ٹرانسفڑڈ ملازم کمپنی کا ملازم بن جائیے گا تو کیا اسکے کسطرح اس اس ایکٹ 1996 کے تحت اسکے گورمنٹ والے رائیٹس پروٹیکٹڈ رھیں گے ؟؟ کیونکے وہ تو اپنی consent دینے کی وجہ سے اس گورمنٹ رائیٹس سے محروم ھو چکا ھوگا اور وہ بجائیے گورمنٹ کے پے اسکیل کے مطابق وہ تو کمپنی کے پے اسکیل کے مطابق تنخواہ لے رھا ھوگا ۔ یاد رھے گورمنٹ ملازمین کو تنخواہ سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے سیکشن 17 کو ریگولیٹ کرکے دی جاتی ھے ۔ جو کمپنی کے قوانین لاگو ھونے کی وجہ سے ختم ھوجائیں گے اور اسکی جگہ کمپنی کے پے اسکیلز نافظ ھو جائیں گے ۔ مزید یہ کے سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے سیکشن (1)19 کے تحت ھر ریٹائیڑڈ ھونے والے سرکاری ملازم کو پنشن یا گریجویٹی دی جاتی ھے تو سرکاری حیثیت کھونے والا ملازم اپنی ریٹائیرمنٹ پر کیسے وہ گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن لے سکے گا وہ تو اب کمپنی کے رحم و کرم ہر ھو گا وہ اس کو پنشن دیتی ھے یا بھی نہیں یا اگر دیتی بھی ھے تو کتنی دیتی ھے ۔
پی ٹی سی ایل کے گروپ ای وی پی ایچ آر جو 3 اپریل 2021 کو ایک کلئریفئکیشن لیٹر نکالا کے جسکے پیرا 4 میں ایک نہایت مبہم بات لکھی کے ریوائیزڈ کمپنی پے اسکیل لینے والوں کی پنشن ، 2008 کے پے اسکیل سے کم نہ ھوگی ۔ اس سے تو یہ ظاھر ھوتا ھے جب ایک کمپنی کا یہ ریوائزڈ پے اسکیل 2015 لینے والا ملازم ریٹائڑڈ ھوگا تو یہ ضروری نہیں کے کپمنی اس کو اسکو قانون کے مطابق اسی ریوائیزڈ پے اسکیل میں last pay drawn کے مطابق کیلکولیٹ ھونے والی پنشن ھی دے وہ کم بھی دے سکتی مگر اس سے زیادہ کم نھیں دے سکتی جو پےاسکیل ۔ 2008 میں last pay drawn پر کیلکولیٹ کرکے دی جاتی ھو مثلاً پی ٹی سی ایل کا یہ ریوائیزڈ پی ٹی اسکیل 2015 لینے والا ایک ٹرانسفڑڈ ملازم ریٹائیرمنٹ پرlast pay drawn کے مطابق کیلکولیٹ پنشن, فرض کریں 20000 روپے ماھانہ بنتی ھے ، اور پی ٹی سی ایل اتنی نہیں دینا چاھے اس سے کم دینا چاھے ھو تو وہ اس کیلکولیٹڈ پنشن سے کم نھیں دے سکتی جو اسکی پی ٹی سی ایل کے اسکیل 2008میں last pay drawn کے مطابق بنتی ھو مثلاً اگر 9000 روپے بنتی ھو ، تو پی ٹی سی ایل اس ریٹائیڑڈ ملازم 9000 روپے سے کم پنشن نھیں دے سکتی یا تو 9000 روپے دے گی یا اس سے زیادہ ، جو یقینن 20000 روپے حقیقی کیلکولیٹڈ پنشن سے کم ھی ھوگی ۔
سی بی اے کے جنرل سیکریٹری حافظ لطیف اللہ اسی چیز کی کلئریفئکیشن مانگنے کے لئیے کے 7 اپریل 2021 کو ایک ای میل احمد جلال گروپ ای وی پی ایچ آر پی ٹی سی ایل کو ارسال کی پی ٹی سی ایل کے بیسک پے اسکیلُ 2015 کے مطابق دی جائیگی یا نہیں ، کیونکے جو 3 اپریل کے لیٹر کے پیرا 4 میں لکھا گیا ھے اس سے ظاھر ھوتا ھے کے پنشن بی پی ایس -2008 پر فریز کرلی گئی ھے [ حالانکے اس پیرے 4 سے یہ ظاھر نھیں ھوتا کے پنشن کو بی پی ایس 2008 پر فریز کردیا گیا ھے ۔ میں اسکی وضاحت اوپر دے چکا ھوں ] ۔ انکی اس ای میل کے جواب میں احمد جلال گروپ ای وی پی ایچ آر پی پی ٹی سی ایل نے اپنی ای میل بتاریخ 8 اپریل 2021 , حافظ لطیف اللہ کو لکھا کے “ یہ محض پریپوگنڈہ ھے پنشن کو پر فریز نھیں کیا گیا ، پنشن ریٹائیڑڈ ملازمین کو قانون کے مطابق last pay drawn پر کیلکولیٹ کرکے دی جائیگی اور اس میں اضافہ اتھاڑٹی کی منظوری سے دیا جائیے گا “ [ ان دونوں ای ملوں کے سکرین شاٹس کی کاپیا ب نیچے پیسٹ کردی گئی ھیں ]۔ احمد جلا ل صاحب کے اس جواب نے مزید ابہام پیدا کردیا ھے ۔ پہلے تو انھوں نے یہ واضح نھیں کیا کے کس بیسک اسکیل کی last pay drawn پر 2008 کی یا 2015 کے پی ٹی سی ایل کے پےاسکیل کے مطابق دیں گے ۔ لطف اللہ صاحب نے اپنی ای میل بیسک پے ریوائیزڈ اسکیل 2015 کے مطابق دینے کا پوچھا تھا ، جو انھوں نے کلئیر نہیں کیا ۔ دوسرا انھوں نے لکھا کے “قانون کے مطابق “ مگر یہ تشریح نہیں کی کے کس قانون کے مطابق ۔ فیڈرل پنشن رولز کے مطابق یا پی ٹی ای ٹی پنشن رولز 2012 کے مطابق ۔ چونکے جو ٹرانسفڑڈ ملازمین نے اپنی consent دے کر یہ پی ٹی سی ایل کے روائزڈ اسکیل 2015 قبول کرکے تو کمپنی کے ملازم بن گئیے ھونگے تو انکو کسطرح گورمنٹ کے پنشن کے قوانین کے مطابق پنشن نہیں دی جاسکتی ھے ۔ انھوں نے تو اپنے نئے پنشن قوانین پی ٹی ای ٹی پنشن رولز 2012 میں تو کمپنی کے ملازمین کو تو پنشن دینے کی گنجائش ھی نھیں رکھی ھے۔ [ میں یہ بات واضح کردینا چاھتا ھوں پی ٹی ای نے یہ نئیے پنشن رولز 2012 میں بنائیے تھے جسکا مقصد صرف یہ تھا کے ٹرانسفڑڈ ریٹائیڑڈ ملازمین کی پنشنروں میں اضافہ صرف پی ٹی ای ٹی بوڑڈ کی اپروول سے کیا جانا نہ کے گورمنٹ کی اعلان کردہ اضافے پر۔ اور دوسرے انھوں اور ایسے قوانین بنائیے جو سرکاری ریٹائیڑڈ ملازمین اور بیواؤں کے حق میں منفی تھے ۔ مطلب یہ کے انکو وہ پنشن نھیں دی جاسکتی جو گورمنٹ اپنے سرکاری ریٹائیڑڈ ملازمین اور بیواؤں کو دے رھی ھے ۔ ان پی ٹی ای ٹی پنشن رولز 2012 , کو جنرل منیجر( ریٹائیڑڈ) پشاور یوسف آفریدی صاحب مرحوم نے 2012 میں پشاور ھائی کوڑٹ میں چیلنج کردیا تھا اور پشاور ھائی کوڑٹ نے 3 جولائی 2014 کو ان یہ فیصلہ دیا کے ان پی ٹی ای ٹی پنشن رولز کا اطلاق صرف ان ملازمین پر ھوگا جو کمپنی کے ملازم ھونگے جو یکم جنوری 1996 کے بعد ھی کمپنی میں شامل ھوئیے ھونگے۔ پی ٹی ای ٹی نے اسکے خلاف سپریم کوڑٹ میں اپیل داخل کی جو 12 جون 2015 کو ڈسمس کردی گئی اور اسکے خلاف انکی رویو پٹیشن بھی 17 مئی 2017 کو خارج ھوگئی]۔ تو اس بات کی کیا گارنٹی ھے کے پی ٹی سی ایل کے ریوائیزڈ اسکیل 2015 قبول کرکے کمپنی کے ملازم بن جانے والے ٹرانسفڑڈ ملازمین کو پنشن دی بھی جائیگی یا نہیں ۔ موصوف نے یہ بھی تحریر کیا ھے کے اس پنشن جو بھی اضافے کیا جائیگا وہ اتھاڑٹی کی اپروول سے کیا جائیے گا لیکن یہ واضح نہیں کیا اتھاڑٹی کون ھوگی ایک سوال میرے زھین میں یہ سوال میرے پیدا ھورھا ھے کے انکا اپنے 3 اپریل 2021 کے لیٹر یہ پیرا 4 لکھنے کا مقصد کیا تھا جب یہ ھی سب کچھ انھوں نے لکھنا تھا ؟؟؟؟۔
مجھے سی بی اے ورکر اتحاد فیڈریشن کا پی ٹی سی ایل انتظامیہ سے اس قسم معاھدہ کرنے کا بہت دکھ ھوا کیونکے ورکر اتحاد فیڈریشن کے چیف ایگزیکٹو حافظ لطف اللہ صاحب کمپنی یا کارپوریٹ اسکیلز کے سخت خلاف تھے اور گورمنٹ کے ھی اسکیلز کے حق میں تھے
انھوں نے 2017 میں ایک اشتہار جاری کیاتھا بعنوان “ غیر قانونی کمپنی اسکیلز یا کارپوریٹ اسکیلز نامنظور نا منظور نا منظور “ ۔ اس میں انھوں نے سپریم کوڑٹ کا راجہ ریاض کے حق میں آئیے ھوئیے فیصلے کا ریفرنس دے کر گورمنٹ والی ھی اسکیلز۔ ورکروں کو دلانے کا اعدہ کیا تھا اور لکھا تھا کے جب پی ٹی سی ایل ورکر ز کا سٹریکچر/ شرائیط ملازمت ایکٹ 1996 کے مطابق قانونی رھے گا تب تک ورکروں کے گورمنٹ والے حقوق کے کی ضمانت رھے گی اور وہ عدالتوں سے اپنے حقوق لینے کی پوزیشن میں ھونگے
اس میں انھوں نے صاف طور لکھا تھا گے اگر پی ٹی سی ایل ملازمین نے انکے یعنی کمپنی کے یہ اسکیلز قبول کر لئیے تو قانون کے مطابق گورمنٹ آف پاکستان کی ضمانت ختم ھوجائیگی “ جو انکا کا حق ھے ۔ گورمنٹ کے پے اسکیلز موجودہ پی ٹی اسکیلز سے 250 گنا زیادہ ھے اور بقایا جات اسکے علاوہ ھیں اور ۲۰۰۵ سے ابتک کے واجبات لینا انکا بنیادی حق ھے اگر پی ٹی سی ایل انتظامیہ نے سپریم کوڑٹ کے لاجر بینچ فیصلے کی حکم عدولی کی تو وہ سخت توھین عدالت کی مرتکب ھوگی “ ۔ اب یہ بڑے ھی تعجب کی بات ھے انھوں نے کیوں اپنی اس عزم سے راہ فرار اختیار کی ۔ اور ان ملازمین کو دھوکہ دیا ۔ ورکر اتحاد فیڈریشن نے ، 14جون 2019 کو جو یہ سی بی اے کا ریفرنڈم جیتا تھا اسکی بنیاد بھی یہ ھی کچھ تھا سمجھ نہیں آتا کے کیوں انھوں نے کمپنی کے ریوائزڈ پے اسکیلز قبول کر کے ورکروں کے اعتماد کو زبردست ٹھیس پہنچائی اور انکو ایک عجیب کشمکش اور پریشانی میں مبتلا کردیا ھے ۔ پی ٹی سی ایل انتظامیہ تو چاھتی ھی یہ ھی تھی کے کسی طرح یہ ورکر پی ٹی سی ایل کے بیسک پےاسکیل قبول کرلیں تاکے ان پر سے گورمنٹ کی ضمانت ختم ھو جائیے اور وہ بطور کمپنی ملازم انپر کمپنی کے ماسٹر اینڈ سرونٹ رولز کے ماتحت آجائیں اور پھر وہ انکے ساتھ من مانا سلوک کرسکیں اور انکے اس گورمنٹ کے ان تنخواھوں کے کلیم کو بھی ختم کردیں جو راجہ ریاض کی طرح انکو بھی دینے پڑتے ۔ پتہ نہیں ایسا معاھدہ کیوں کیا گیا جسکے لطف اللہ صاحب پہلے سخت مخالف تھے . مجھے سے اسکے متعلق لوگوں نے بہت افسوسناک بات بتائی ھے جو میں بتانا نہیں چاھتا ھے کیونکے وہ بات تو سچ ھے مگر بات ھے رسوائی کی ؟؟؟
جب انکی پی ٹی سی ایل ورکر اتحاد فیڈریشن نے 14 جون 2019 کاریفرنڈم جیتا تھا تو انکو میں نے انکو 16 جون 2019 کو ایک تہنیتی پیغام بھیجا ( اس پیغام کی سکرین شاٹ کی کاپی نیچے پیسٹ کردی ) جہاں میں نے انکی کامیابی پر مبارکباد دی تھی وھیں ان سے میں نے یہ بھی گزارش کیا تھا کے وہ پی ٹی سی ایل میں کام کرنے والے ٹرانسفڑڈ ملازمین کے حقوق کے لئیے آوازاٹھائیں اور پی ٹی سی ایل انتظامیہ سے انکو گورمنٹ کے واجبات دینے کے مطالبے کو سر فہرست رکھیں اور اگر وہ نہ مانیں تو ھڑتال کرنے کا نوٹس دیں ۔ بارے میں اس تہنیتی پیغا م میں جو کچھ اس بارے میں لکھا تھا دوبارہ مندرجہ زیل حاضر ھے۔ آپ لوگ بھی پڑھیں
“ پی ٹی سی ایل میں کام کرنے والے ٹی اینڈ ٹی اور کارپوریشن کے ملازمین اور ایسے ریٹائیڑڈ ملازمین پنشنرس اس ظالم پی ٹی سی ایل انتظامیہ کے ظلم و ستم کا شکار ھیں ۔ سپریم کوڑٹ ان سب کو گورنمنٹ کے ملازمین ڈیکلئڑڈ کرچکی ہے اور یہ مسعود بھٹی کیس 2016SCMR1362 میں کہہ چکی ھے ۔ ابھی حال ھی میں 2 مئی 2019 کو سندھ ھائی کوڑٹ دو رکنی بینچ نے عمار جعفری اور دیگران کے کیس D-1952/2014 میں بیحد تاریخی اور کوزے میں دریا کو بند کرنے کے مترادف والا حکم دیا ھے کے جو ان پی ٹی سی ایل ملازمین کے حق میں عدالت عظمی نے فیصلے دئیے ، وہ ان کی روح کے مطابق اس ہر عمل کرے ۔ یعنی جو بھی گورنمنٹ کے سرکاری قوانین کا ان پر اطلاق ھوتا ھے جو سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے تحت فیڈرل گورنمنٹ نے سول سرونٹ کے لئیے بنائیے گئیے ہیں ،انکی روح کے مطابق ان پر عمل کرے۔ انکو وہی تنخواہ دیگر الاؤنسس اور گورنمنٹ والی پنشن دے ۔ یاد رھے یہ عدالت نے ایسا روح کے مطابق کرنے کا حکم دیا ہے یہ نہیں کہا کے “انکو یہ کرنا چاھئیے” اور اب یہ عدالت کے اس حکم کی پاسداری کریں ورنہ سخت توھین عدالت کے مرتکب ھو ں گے۔ انکی رویو اپیل بھی سپریم کو ڑٹ میں نہ تو قبول ھو گی اور نہ انکو کوئی بھی سٹے ملے گا کیونکے ھائی کوڑٹ نے تو یہ ہی کہا ہے کے سپریم کوڑٹ کے احکامات کی اسکی روح کے مطابق عمل کریں۔ میں سمجھتا سندھ عدالت نے ایک ایسا جامع حکم دیا ھے جو کسی اور ھائی کوڑٹ نے ان آٹھ سالوں میں اب تک نہیں دیا ہے۔ اب آپ کو لطف اللہ صاحب یہ چاھئیے کے پہلے آپ پی ٹی سی ایل انتظامیہ کو یہ سندھ ھائی کوڑٹ کے اس 2 مئی 2019 کے حکم پر فوری عمل کرنے کے لئیے مزاکرات کرنے کا نوٹس دیں تاکے ان تمام ملازمین اور پنشنرس کو گورنمنٹ والی تنخواہ ، الاؤنسس اور ریٹائیڑڈ ملازمین کو پنشن اس تاریخ سے ادا کریں جب سے انھوں نے غیر قانونی طور پر بند کر دیا تھا۔ اور پھر نہ دینے کی صورت میں ان کو انڈسٹریل قانون کے مطابق ھڑتال پر جانے کا نوٹس دیں ۔ یقینن جب آپ یہ سب کچھ کریں گے تب ھی آپ ان ملازمین کے سچے ھمدرد کہلائیں گے اور انکی دعائیں لیں گے۔ شکریہ
نیاز مند
محمدطارق اظہر
ریٹائیڑڈ جنرل منیجر(آپس) پی ٹی سی ایل
راولپنڈی
15جون 2019”
[یہ تہینئتی پیغام میں نے 16 جون 2019 کو اپنے فیس بک پیج پر بھی اپلوڈ کیا تھا ۔ پھر اس پر میں نے ایک تفصیلی طویل آڑٹیکل نمبر 94 بھی آپ لوگوں کے لئے 19 جون 2019 کو لکھا تھا اور اسی دن فیس بک پر بھی اپلوڈ کیا تھا ۔ آپ سب لوگوں اب بھی یہ آڑٹیکل 94 میری بلاگ سائیٹ tariqazhar.blogspot پر جون 2019 کے کالم میں موجود ھے ۔ ]
مزید یہ جب 2019 میں اس ریفرنڈم کے بعد سی بی اے یونین والے اور دیگر پی ٹی سی ایل کے نمائیندے پی ٹی سی ایل کی انتظامیہ کی دعوت پر اسلام آباد آئیے تھے تو ان یونین والوں کے نمائیندوں نے ، جس میں کچھ میرے میرے دیرینہ دوست تھے جیسے اسحاق ، خلیل وغیرہ اور دیگر ( جن کے نام میرے زھین میں اسوقت نھیں آرھے ) انھوں نے مجھ سے میرے گھر پر آکر ملاقات کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا کچھ مشاورت کی جانے کے سلسلے میں انکو میں نے اس دن شام کو اپنے گھر راولپنڈی میں بلایا تھا ۔ دس یا بارہ یہ یونین کے لوگ میرے گھر آئیے تھے اس میں سی بی اے کے پریزیڈنٹ زاھد امام بمعہ کچھ اور دیگر سی بی اےکے ممبران کے ساتھ آئیے تھے بھی ۔ وہ سب مجھے اچھی طرح جانتے تھے ۔ میں نے اپنی نوکری 35 سالوں میں کوئی 28 سال ایسی پوسٹوں پر کام کیا جسکا تعلق زیادہ تر ایڈمن اور ایچ آر سے رھا ۔ جیسے بطور کنٹرولر ٹیلیگراف اسٹور کراچی , ڈی جی ایم ایس ٹی آر 1, 2 اور 4 کراچی اور ڈائیریکٹر فون اور جی ایم فون حیدرآباد وغیرہ وغیرہ جس میں میرا یونین کے ساتھ ڈائیریکٹ رابطہ رھتا تھا ۔ میں نے تقریبن ایسی ھر پوسٹ اپنے ٹینیور سے زیادہ کام کیا ۔ بطور کنٹرولر ٹیلیگراف سٹور کراچی ساڑھے چھ سال سے زیادہ کام کیا جبکے ٹینیور تین سال کا تھا ۔ کبھی بھی میں ان یونین والوں کی بلیک میلنگ میں نہیں آیا اور وھی کام کیا جو قانونن کے مطابق صحیح تھا ۔ مجھ پر یہ اپنا جائیز اور نا جائیز کام کرانے کے لئیے بہت زور ڈالتے تھے میں نے انکا ھر جائیز کا قانون کے مطابق کیا اور ھر نا جائیز کام کو ھمیشہ سختی سے مسترد کیا [انھوں نے میرے خلاف کیا کیا مہم نہیں چلائی , بطور ڈی جی ایم ایس ٹی آر فور جب میں کام کررھا تھا تو وھا ں کے یونین والوں نے اپنے نا جائیز مطالبے کو نہ ماننے پر میرے آفس میں حملہ بھی کیا تھا آفس میں توڑ پھوڑ کی اور مجھے مارنے تک کی کوشش کی ۔ میں ان سبکے خلاف زاتی طور ایف آئی آر درج کروانا چاھتا تھا ، مگر اسوقت کے جنرل منیجر ایس ٹی آر فور زیڈ اے ٹونیو صاحب مجھ سے منت کرکے اس سے باز رکھا کیونکے انھیں معلوم تھا کے اگر میں نے ایف آئی آر درج کرادی تو یہ لوگ نہیں بچ سکیں گے ۔ یہ واقعہ جولائی یا اگست 1999 میں پیش آیا تھا ۔ غرض کے انھوں نے مجھے ھٹانے کے لئیے کیا کیا جتن نہیں کئیے لیکن وہ مجھے کسی بھی پوسٹ سے نہ ھٹواسکے۔ یہ لوگ میری ورکنگ اور قوانین کے تحت اس پر عملداری کو یہ خوب اچھی طرح جانتے ھیں ]۔ میں نے اس دن سی بی اے پریزیڈنٹ زاھد امام صاحب سے یہ ھی استدعا کی تھی کے جن مقاصد کی بنیاد پر ورکر اتحاد فیڈریشن نے یہ ریفرنڈم جیتا ھے وہ اس پر قائیم رھیں اور اسکو حاصل کرنے کی کوشش کریں ورکروں کے اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچنے پائیے ، ورکروں کے لئیے گورمنٹ کے اسکیل حاصل کرنا اور انکو گورمنٹ کے قوانین کے مطابق حقوق دلانا ، انکا اولین مقصد ھونا چاھئیے ۔ پھر انکو میں نے کچھ قانونی مشورے بھی دئیے تھے کے کسطرح انکی سی بی اے نے اقدامات کرنے چاھئیں ان ورکروں کے حقوق حاصل کرنے کے لئئے ۔ زاھد امام صاحب نے مجھ سے وعدہ کیا تھا وہ ورکروں کے ان حقوق سے پیچھے نھیں ھٹیں گے اور لے کر رھیں گے ۔ خوب لیا ایسا متنازعہ معاھدہ کرکے انھوں نے ورکروں کے حقوق کے لئیے بلکے الٹا انکو تباہ کردیا ؟؟؟۔ زاھد امام صاحب کے بطور پریزیڈنٹ سی بی اے اس معاھدے پر سائین موجود ھیں ۔ اسکی کاپی میں نے نیچے لگادی ھے آپ لوگ خود ھی ملاحظہ کرلیں ۔
لوگ یہ سوال اکثر کرتے ھیں کے پی ٹی سی ایل والوں نے کمپنی کا تتنخواہ دینے کا پیکج یکم جولائی 2008 سے دے دیا تھا اب تو صرف اسکی جگہ 2015 کا پیکیج دے رھے تو اسے کیوں نہ لیا جائیے ۔ پہلے عرض کر چکا ھوں کے وہ پے سکیل پیکیج 2008، پی ٹی سی ایل میں کام کرنے والے ٹرانسفڑڈ ملازمین کے بغیر کسی consent یعنی بغیر منظوری کے دیا گیا تھا اسلئیے اسکا کوئی بھی منفی افیکٹ نہیں ھوا ۔ اگر ھو جاتا تو راجہ ریاض کے کیس میں کمپنی کے وکلاء عدالت کیا یہ چیخ چیخ کر سر پر نہ اٹھا لیتے کے راجہ ریاض تو کمپنی کا ملازم ھے اور اسکو تو ھائی کوڑٹ سے تو رجوع کرنے کا اختیار نہیں ۔ یہ کیسے ھائی کوڑٹ اپیل کرنے آگیا اور کیوں عدالت عالیہ نے اسکی اپیل سن رھی ھے [ یاد رھے صرف سول سرونٹ یعنی سرکاری ملازم کو یہ اختیار حاصل ھوتا ھے کے وہ اپنی شکایات کے حل کے لئیے ھائی کوڑٹوں سے آئین کے آڑٹیکل 199 تحت رجوع کر سکتے ھیں ۔ سپریم کوڑٹ نے انکی 19 فروری 2016 رویو پٹیشن خارج والے فیصلے2016SCMR1362 میں صاف طور پر لکھا ھے پی ٹی سی ایل کے ان ملازمین کو بھی یہ اختیار حاصل ھے کے اگر پی ٹی سی ایل انکے سول سرونٹ ایکٹ 1973 میں سیکشن 3 سے سیکشن 22 تک سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس کی خلاف ورزی کرتی ھے تو وہ ھائی کوڑٹوں سے آئین کے آڑٹیکل 199 کے تحت رجوع کرسکتے ھیں ] ۔ راجہ ریا ض نے گورمنٹ کے پے اسکیل کے مطابق اور ریٹائیرمنٹ پر گورمنٹ کے مطابق تنخواہ اور پنشن لینے کے لئیے ، 2012 میں اپنی ریٹائیرمنٹ سے پہلے ایک رٹ پٹیشن نمبر 1727/2012 اسلام آباد ھائی کوڑٹ میں داخل کی تھی جو ھائی کوڑٹ نے 11 مارچ 2015 کو مسترد کردی تھی جسکے خلاف محمد ریاض (راجہ ریاض ) اسسٹنٹ ڈائیریکٹر ( B-17) نے سپریم کوڑٹ میں سول پٹیشن نمر 797/2015 دائیر کی اور سپریم کے دو رکنی بینچ نے یکم جولائی 2015 کو انکی اس پٹیشن کو اپیل میں تبدیل کرنے ھوئیے انکو گورمنٹ کی اعلان کردہ تنخواہ اور پنشن ادا کرنے کا حکم دیا اور جو آخر کار پی ٹی سی ایل کو دینا پڑے [راجہ ریاض یکم اپریل 2015 کو ریٹئیڑڈ ھوئیے تھے ] جسکی پائیہ تکمیل 3 دسمبر 2020 کو گورمنٹ کے مطابق 101550 روپے پینشن اور 9666 روپے میڈیکل الاؤنس کا PPO نمبر RF-56522 جاری کرکے ھوئی ۔ اس پی پی او کی کاپی بھی آپلوگوں کی اطلاع کے لئیے نیچے پیسٹ کردی ھے ۔ اور یقینن اب پی ٹی سی ایل کو اسی کے مطابق یہ تمام اور ایسے ملازمین کو لازمن ، سپریم کوڑٹ کے مروجہ بنائیے ھوئیے قانون اور اصول کے مطابق دینے کے پابند ھیں جنھوں نے راجہ ریاض کی طرح مقدمہ نہ بھی کیا ھو ، سپریم کوڑٹ کے دو رکنی بینچ نے 1996 میں دئیے گئیے اس حکم کے مطابق جو حمید اختر نیازی بنام سیکریٹری اسٹیبلیشمنٹ فیڈرل گورمنٹ 1996SCMR1185 میں درج ھے۔ُلیکن یہ انھی پی ٹی سی ایل ملازمین کو ملیں گے جن کے گورمنٹ کے رائیٹس اس ایکٹ 1996 کے تحت پروٹیکٹڈ رھیں گے - اسی لئیے تو یہ چاھتے ھیں کے زیادہ سے زیادہ یہ لوگ یہ پی ٹی سی ایل کے ریوائزڈ اسکیل 2015 قبول کریں تاکے اس گورمنٹ کے پے اسکیلز اور پنشن کے حق سے محروم ھو جائیں.
میں جانتا آجکل لوگ بڑے ھی تزبزب کا اور پریشانی کا شکار ھیں وہ یہ پی ٹی سی ایل کے اسکیل 2015 قبول کریں یہ نہیں کریں ؟۔ اسکے متعلق صرف یہ صحیح مشورہ دوں گا کے یہ لوگ بلکل نہ قبول کریں ورنہ اپنے پیروں پر خود کلھاڑی نہ مار لیں گے اور بہت ھی پچھتائیں گے ۔ یہ ٹھیک ھے کے انکو قبول کرنے سے ان لوگوں کی تنخواھیں تو بڑھ سکتی ُاور انکو وقتی فائیدہ تو ھوسکتا ھے ،لیکن وہ ایک زھنی پریشانی کا مسلسل شکار ھوجائیں گے ، یہ سوچ سوچ کر کے آپ اس گورمنٹ کی تنخواہ اور پنشن لینے کے حق سے محروم ھوگئیے ھیں جسکے تحت آپ کو 2005 سے ابتک کے واجبات کی ایک خطیر رقم ملنا تھی بقایا جات کی صورت میں ۔ اور یوں بھی مسلسل یہ سوچ سوچ کر پریشان اور غمگین رھیں گے کے انکو ریٹئرمنٹ پر پنشن ملتی بھی ھے یا نہیں اور ملے گی بھی تو کتنا ۔ جبکے جو لوگ اس کو قبول کرنے سے انکار کردیں گے انکو یہ ھی تنخواھ ملتی رھے گے جو وہ پی ٹی سی کے پے اسکیل 2008 کے مطابق لے رھیں ھیں لیکن انکو وہ غم اور پریشانی مستقل نہیں رھے گی جو یہ قبول کرنے والوں کا مقدر بنے گی ۔
واسلام
محمد طارق اظہر
ریٹائڑڈ جنرل منیجر ( آپس) پی ٹی سی ایل
راولپنڈی
12th April 2021
Time 12:50 AM
یہ اٹیچڈ زدیکومنٹس دیکھنے کے لئیے اس میرے فیس بنک لنک ہر کلک کریں
یہ اٹیچڈ زدیکومنٹس دیکھنے کے لئیے اس میرے فیس بنک لنک ہر کلک کریں
Comments