Article-143 [ Detail report of the proceedings of ICAs cases in IHC on th 2nd June 2021]

Attention          Attention          Attention 


                            Article-143


نوٹ:- مکمل آگاھی ھونے کے لئیے یہ ضروری ھے  آپ لوگ اس  میری اس رپوڑٹ کو مفصل طور پر اسکے آخیرتک مکمل پڑھیں اور اپنی رائیے کمنٹس میں کریں  . شکریہ

 

اسلام آباد ھائی کوڑٹ میں کل یعنی بدھ 2 جون 2021 کو پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی  کے 3 مارچ 2020 کو پی ٹی سی ایل پنشنرز پٹیشنرز کے حق میں آنے والے  سنگل بینچ کے فیصلے کے خلاف ، انکی دائیر کردہ  35 انٹرا کوڑٹ اپیلوں پر سماعت کی کاروائی کی مکمل  تفصیل  . اب اس کیس کی مزید سماعت 9 جون 2021 تک کے لئیے ملتوی ھوچکی ھے جب ریسپونڈنٹس یعنی پی ٹی سی ایل  پنشنرز پٹیشنرز کے وکلاء ، اپیلننٹس کے وکلاء کی طرف سے اٹھائیے ھوئیے اعتراضات کا جواب دیں گے۔


عزیز پی ٹی اسی ایل ساتھیو 

اسلام و علیکم


کل  یعنی بدھ 2 جون 2021 اسلام آباد ھائی کوڑٹ کی کوڑٹ نمبر 1 محترم چیف جسٹس جسٹس اطہر من اللہ  اور محترم جسٹس عامر فاروق مشتمل ڈبل بینچ نے ، پی ٹی ای اٹی اور پی ٹی سی ایل کے 3 مارچ 2020 کو پی ٹی سی ایل پنشنرز پٹیشنرز کے حق میں آنے والے  سنگل بینچ کے فیصلے کے خلاف ، انکی دائیر کردہ  35 انٹرا کوڑٹ اپیلوں پر سماعت کی کاروائی کی کا آغاز کیا ۔  اس میں میرے اور میرے ساتھ گیارہ دیگر کے خلاف انکی انٹرا کوڑٹ اپیل نمبر 98/2020 بھی تھی ۔ اور ھمارے وکیل  بھی خلیل الرحمان عباسی صاحب ھی تھے۔ میں کل صبح جلد عدالت 9 بجے سے پہلے ھی پہنچ گیا تھا، کیونکے  ان سب اپپلوں پر سماعت کا نمبر 2 تھا  جو محترم چیف جسٹس صاحب کے کوڑٹ نمبر 1 میں ھونی تھی ۔ وھاں پہنچ کر مجھے معلوم ھوا کے ڈبل بینچ میں اسکی سماعت آغاز دن  کے 12 بجے کے بعد ھو گا ۔ ابھی سنگل بینچ میں محترم چیف جسٹس صاحب مختلف کیسوں کی سماعت کررھے ھیں ۔ میں کچھ دیر اس کوڑٹ روم کے باھر  بینچ پر بیٹھا رھا ۔ اسی اثناء انھیں کیسوں کے ایک دوست پٹیشنر نبی افضل صاحب بھی آگئیے وہ بھی اسی مغالطے میں جلد آگئیے تھے  کے عدالتی کاروئی  9 بجے شروع ھوگی ۔ کچھ دیر ھم لوگ وھیں بینچ پر بیٹھے باتیں کرتے رھے ۔ پھر کوئی دس بجے کے قریب کوڑٹ کی کیفے ٹیریا میں آگئیے اور وھاں چائیے پی  اور باتیں کرنے لگے ۔ کوئ  ساڑھے گیارہ بجے کے قریب اور ایسے دوست پٹیشنرز جن میں رسول خان صاحب ، افسر علی صاحب اور سرور  خان  صاحب تھے ، وہ بھی آ پہنچے ، چائیے منگائی اور پھر سب  نے آپس میں باتیں  کرنے لگے ۔ اپنے پرانے پی ٹی سی ایل دوستوں کو ایک عرصے کے بعد  دیکھ کر اور ان سے ملکر مجھے بیحد خوشی ھوئی ۔ ھم لوگ بارہ بجے کے قریب  کوڑٹ روم  نمبر 1 پہنچ گئیے  ۔  کوڑٹ روم بھرا دکھائیی دیا مگر شکر ھے کچھ کر سیاں خالی تھیں  تو جہاں جہاں خالی نظر آئیں  وھیں ھم سب  وھیں الگ الگ ھوکر بیٹھ گئیے ۔  اور دوسرے بہت سے پی ٹی سی ایل پنشنرز پٹیشنرز ماسک پہنے ھوئیے  پہلے سے ھی بیٹھے دکھائی دئیے  گئیے ۔ جو ماسک پہنے کی وجہ سے پہچانے نہیں جارھے تھے ۔ ھمارے وکیل خلیل الرحمن  عباسی  صاحب سوا بارہ بجے کے قریب تشریف لائے  اور وہ رسول خان صاحب کے ساتھ کرسی پر بیٹھ گئیے ۔ کوئی بارہ بجکر پینتیس منٹ پر معزز ججز حضرات صاحبان  تشریف لائیے اور پورے کوڑٹ میں روم بیٹھے ھوئیے اشخاض  انکی تعظیم کے لئیے ادب سے کھڑے ھوگئیے ۔ انکے بیٹھتے ھی فورن ھی کیسسس کی سماعت کا آغاز شروع ھوگیا ۔  ،ھمارے کیسس کے سننے کا نمبر تو  دوسرا تھا لیکن ھم سے پہلے ھی تین کیسس کی سماعت پہلے ھوئی جو سوا بجے تک جاری رھی ۔ پھر ھمارا نمبر آیا ، ھم لوگوں کا کیس پکارا گیا ،  یہ اعلان سنتے ھی پی ٹی سی ایل پنشنرس ریسپونڈنٹس  کے تقریبن دس سے  پندرہ وکیلوں  تیزی سے آکر معزز ججوں کے ڈائیس کے قریب گھیرا ڈال کر کھڑے ھوگئیے  اور ھمارے کچھ ساتھی بھی جاکر اس میں شامل ھوگئیے ۔ میں یہ سب کچھ دیکھ کر تھوڑی دیر تو اپنی جگہ بیٹھا رھا ، پھر اٹھ کر آھستہ آھستہ  انھیں کے قریب پہنچ گیا اور مجھے وھاں خوش قسمتی سے اس جگہ کھڑے ھونے کی جگہ مل گئی  جہاں سے میں دونوں  ججز  صاحبان کو  بغور دیکھ بھی سکتا تھا اور انکی آواز بھی بڑی آسانی  سے سن سکتا تھا۔ اپیلنٹ کے وکیل شاھد انور باجواہ صاحب اپنے دلائیل دینے کا آغازُ شروع کرچکے تھے ۔ کیونکے اصول اور قانون کے مطابق،  پہلے ھمیشہ اپیلنٹ کے وکیل ھی وہ ھی دلائیل کا آغاز کرتے ھیں ۔ جنھوں نے کیس دائیر کر رکھا  ھوتا ھے اور اسکے بعد ریسپونڈنٹس کے وکلاء ان دلائیل کی روشنی میں جواب دیتے ھیں ۔ وکیل شاھد انور باجواہ صاحب نے بجائیے یہ دلائیل دینے کے انکی اس انٹرا کوڑٹ دائیر کرنے کا مقاصد کیا تھے اور سنگل بینچ کے فیصلے میں کیا نقائص ھیں ایک الگ ھی نئے ایشوز اٹھا دئیے  ۔ انکا کہنا تھا کی جو لوگ ٹی اینڈ ٹی سے پی ٹی سی ایکٹ 1991 کے تحت ٹرانسفر ھوکر 27 نومبر 1991 کو کاپوریشن میں آئے وہ تو سول سرونٹ تھے ھی نہیں ۔ اسلئیے وہ کسی بھی گورمنٹ کی اعلان کردہ مراعات کے حقدار ھی نہیں ھیں۔  انھوں نے کہا ریسپونڈنٹس میں سے کافی لوگ ورک مین کی تعریف میں آتے ھیں انکو تو ھائیکوڑٹ سے رجوع کرنے کرنے کا تو اختیار ھی نہیں تو پھر کسطرح  سنگل بینچ کے جج نے انکی اپیلوں کو entertain کیا اور انکے حق میں فیصلہ دیا ۔ انھوں نے کہا کے پی ٹی سی ایکٹ  1991 کی شق (1)9 کے تحت ٹی اینڈ میں کام کرنے والے ڈیپاڑٹمنٹل ایپملائیز اسی سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشن پر ، جو ٹی اینڈ ٹی میں انکے کارپوریشن میں ٹرانسفڑڈ ھونے سے فورن پہلے یعنی  “immediacy before” تھیں تو انکو وھی ھمیشہ رھنا چاھئیے،  تو کیسے انکو بعد میں کیوں  گورمنٹ  کی اعلان کردہ سالانہ مراعات ملنی وہ 

2010 اور سال 2017 والی  گورمنٹ کی اعلان کردہ مراعات لے سکتے ھیں۔ انکا مطلب اس سے یہ تھا جو کچھ مراعات انکی 27 نومبر 1991 سے فورن پہلے  تھیں اب بھی وھی ھونی چاھئیے تھیں اس میں کسی قسم کا بھی اضافہ  انکو بعد میں نہیں دینا چاھئیے تھا ۔ چلو جی گل ھی مک گئی ؟؟ یعنی انکا مطلب یہ تھا کے جو تنخواہ یا پنشن انکو 27 نومبر 1991سے فورن پہلے مل رھیں تھیں بس وہ ھی رھنی چاھئیے تھے اور اس میں کسی بھی قسم کے اضافے کا جسکا اعلان گورمنٹ کرتی رھی ھے انکو بلکل بھی نہیں ملنی چاھئیں تھیں ۔ انکا کہنا تھا کے پنشن میں اضافے اور میڈیکل الاؤنس پنشن کے ساتھ دینے کا اعلان یکم جولائی 2010 سے ھوا۔ اردلی الاؤنس دینے کا یکم جولائی 2012میں ھوا ۔ موجودہ دور کے گورمنٹ تنخواھیں بڑھانے کا آغاز یکم جولائی 2017 سے ھوا تو یہ کیسے انکا حقدار بن سکتے ھیں انکو تو صرف وھی ملنا چاھئیے جو پی ٹی ایکٹ 1991 کی شق (1)9 کے تحت جسمیں immediately before such transfer لکھا ھے وہ ھی رھنا چاھئیے تھا ۔ اسپر محترم چیف جسٹس صاحب اطہر من اللہ صاحب نے کہا کے باجواہ صاحب آپ جو یہ ایشو اب اٹھا رھے ھیں ۔ پہلے کسی بھی کیس میں  کبھی نہیں اٹھایا  گیا  اسوقت بھی نہیں اٹھایا گیا جب سپریم کوڑٹ کے مسعود بھٹی کیس میں سماعت ھوئی تھی ۔ محترم ججز صاحبان،  وکیل باجواہ کے اس نئیے ایشو اٹھانے پر کچھ خفا دکھائی دئیے اور بلکل بھی convinced  نظر نہیں آئیے ۔  وکیل باجواہ کے اس دلیل پر کے جو لوگ ٹی اینڈ سے اس ایکٹ 1991 کی شق (1)9  کے تحت  ٹرانسفر ھوکر ٹی اینڈ ٹی سے کارپوریشن میزں آئیے ، وہ تو سول سرونٹ تھے ھی نہیں ۔ جسپر محترم چیف جسٹس  صاحب  نے وکیل باجوہ صاحب  سے کہا کے وہ پی ٹی سی ایکٹ 1991 کی شق (e)2 میں دی گئی “Departmental employees” کی definition پڑھ کر سنائیں ۔ تو باجواہ صاحب نے وہ پی ٹی سی ایکٹ 1991 نکالا اور اور پڑھنا  شروع کیا  جو یہ تھی۔

Departmental employees  belonging to the Pakistan Telegraph and Telephone Department and includes employees of the said Department who may, for the time being be serving in other organisation , but does not include members of accounts groups or secretariat group or other employees of external organisation who may serving in the said Department 

محترم چیف جسٹس صاحب کا یہ انسے پڑھانے کا مقصد یہ تھا کے ان کو بتانا تھا گورمنٹ کے ٹی اینڈ ٹی کام کرنے والے  ڈیپاڑٹمنٹل ایملائز کہلاتے تھے جس کی بابت ھی سپریم کوڑٹ نے اپنے مسعود بھٹی کیس 2012SCMR152  اور 2016SCMR1362 میں تفصیل سے بیان کیا ھے  ، کہ پی ٹی سی ایل میں کام کرنے والے  ڈیپاڑٹمنٹل ایملائز   جو یکم جنوری 1996 کارپوریشن سے ٹرانسفڑڈ ھوکر کمپنی کے ملازم بن گئیے تھے ان پر وھی گورمنٹ سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے  سیکشن 2 سے لیکر سیکشن 22  دئیے گئیے ھیں بلحاظ سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشن، والے قوانین ھی لاگو ھونگے ۔ لحاظہ جب بھی گورمنٹ اپنے سول سرونٹس کو، جو اسی سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے تابع ھیں ، جب بھی کوئی مراعات دینے کا اعلان کرے گی تو وہ لامحالہ انکو  یعنی ان ٹرانسفڑڈ ملازمین کو  بھی دیا جائیے گا جو پہلے پی ٹی سی اور بعد میں پی ٹی سی ایل  کے ملازمین بن گئے تھے مگر انکی حیثیت سرکاری ملازمین  کی ھی جیسے ھی رھے گی  ۔ چاھے  وہ مراعات , انکی تنخواھوں میں  اضافہ جات ، نئیے الاؤنسس میں اضافہ جات اور یا پنشن میں اضافہ جات وغیرہ وغیرہ کی کیوں نہ ھوں ۔ ھم نے دیکھا  ھے کے ماضی میں جب  بھی گورمنٹ اپنے سول ملازمین کے لئیے ایسا کوئی اعلان کرتی تھی تو اسکا اثر ان پی ٹی سی کے ان ملازمین پر اور بعد میں ان ملازمین کا کمپنی  میں ٹرانسفڑڈ ھونے کے بعد بھی پڑتا تھا۔ یکم  جولائی 1994 کو جب گورمنٹ نے اپنے سول ملازمین کی تنخواھوں میں اضافہ کیا تو کاپوریشن کے ان ملازمین   کی بھی  تنخواھوں  میں بھی ویسا ھی اضافہ یکم جولائی 1994  سے  کیا گیا۔ اور جب پھر اسی طرح جب یہ لوگ کمپنی میں یکم جنوری 1996 کو پی ٹی ( ری آرگنئیزیشن ) ایکٹ 1996  کارپوریشن سے ٹرانسفڑڈ ھوکر کمپنی میں آئیے اور اسکے ملازم بن گئیے تو انکی تنخواھوں میں یکم دسمبر 2001 سے اسی طرح اضافہ کیا گیا جسطرح گورمنٹ نے اپنے سول ملازمین کی تنخواھوں میں اضافہ کیا تھا ۔ یہ الگ بات ھے کے بعد میں پی ٹی سی ایل  نے گورمنٹ کا اپنے سول ملازمین یکم جولائی 2005 تنخواھوں میں اعلان کردہ اضافے کا فائدہ اپنے ان ملازمین کو نہیں پہنچایا اور گورمنٹ کے اعلان کردہ تنخواھوں میں اضافے یا الاؤنسس   کو منقطع کردیا ۔ جو ابتک جاری ھے ۔ یاد رھے پی ٹی سی ایل گورمنٹ کے اعلان کردہ ایسے تنخواھوں میں یا الاؤنسس دینے کی قانون پابند تھی  کیونکے یہ ملازمین بھی اسی گورمنٹ سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے قوانین کے تابع تھے جسطرح  گورمنٹ کے سول ملازم  تھے ۔  مگر کمپنی نے ان  کام کرنے والے ٹرانسفڑڈ ملازمین  کو  تنخواھوں میں یکم دسمبر 2001   کے بعد کبھی  بھی نہیں پہنچایا جو بھی گورمنٹ.   نے اعلان کیا۔ جبکے پی ٹی سی ایل پی ٹی سی ایکٹ 1991 کی کلاز (1)9 اور پی ٹی ( ری آرگنئیزیشن ) ایکٹ 1996 کی 35 اور 36 کے تحت اور یکم اکتوبر 2011 سے  سپریم کوڑٹ کے مسعود بھٹی کیس میں  ان ٹرسنفڑڈ ملازمین کے حق میں فیصلو کی وجہ سے [ان کیسس کا زکر اوپر کیا جا چکا ھے۔ [   یہ سب کچھ کرنے کی تابع تھی چاھے وہ کام کرنے ان ملازمین کی تنخواھوں میں بمطابق گورمنٹ کے اپنے سول ملازمین کی تنخواھوں میں اضافہ جات ھوں یا  ان ریٹائیڑڈ ملازمین کی پنشن میں اضافہ جات ھوں چاھے  وہ سابق ٹی اینڈ ٹی   ڈیپاڑٹمنٹ میں  ریٹائیڑڈ  ھوئیے ھوں  یا چاھے کارپوریشن  اور کمپنی  میں ٹرانسفڑڈ ھوکر ریٹائیڑڈ ھوئیے ھوں  ، پی ٹی سی ایل اپنی  یکم جنوری 1996 کو اپنی تشکیل   کے بعد یہ سب کچھ کرتی رھی تھی ۔ وہ سالانہ پنشن میں  اضافہ گورمنٹ کے ھی ھر مالیاتی سال کے آغاز سے اسکی اعلان کردہ پنشن میں اضافہ جات کرتی تھی   لیکن یکم جولائی 2010 سے کمپنی نے یہ یکلخت منقطع کرادیا گیا اور پی ٹی ای ٹرسٹ کے بوڑڈ آف ٹرسٹیز نےاپنی طرف سے گورمنٹ کے اعلان کردہ پنشن اضافہ جات سے کم پنشن میں سالانہ اضافہ دینا شروع کردیا جو ایک نہایت ھی غیر قانونی عمل تھا ۔

محترم چیف جسٹس صاحب نے وکیل باجوہ صاحب سے کہا کے آپ وہ پی ٹی سی ایکٹ کی شق (1)9 پڑھیں ۔ پھر باجواہ ایکٹ کی کاپی نکالی اور پڑھنا شروع کیا جو انھوں جو پڑھا وہ یہ تھا

“all departmental employees  shall , on the establishment of the Corporation stand transferred to, and become employees of the Corporation, on the same terms and conditions to which they were entitled immediately before such transfer provided that Corporation shall to take disciplinary action any such employee

مطلب یہ ھوا کے محترم چیف جسٹس صاحب نے باجواہ صاحب کی طبیعت یہ بتا کر صاف کردی  ٹی اینڈ میں کام کرنے والے ملازمین کو سول سرونٹ نھیں کہا جاسکتا تھا وہ   departmental employees  تھے اور گورمنٹ ڈیپاڑٹمنٹ میں کام کرنے کی وجہ انپر بھی سول سرونٹ ایکٹ 1991، ھی نافظ تھا ۔ 

وکیل باجواہ صاحب اسی بات پر بار بار مصر تھے  کے immediately before جو پی ٹی سی ایکٹ شق (1)9  لکھا ھے اسکے تحت وہ صرف اسی مراعات کے حقدار ھیں جو انکے کارپوریشن سے فورن پہلے تھیں اور کسی اس میں  مزید کسی انکریز یا مزید الاؤنسس لینے کے حقدار نھیں چاھے وہ پنشن انکریز ھو یا اردلی الاؤنس انکریزز ھو یا کوئی دیگر الاؤنس وغیرہ وغیرہ ۔ محترم چیف جسٹس صاحب نے کہا کے باجوہ صاحب  آپ  نے جو یہ نیا ایشو اٹھایا ھے اور اسکے حق میں دلائیل دے رھے ھیں اس سے متفق نہیں ھوسکتے ۔ ھم تو معزز سپریم کوڑٹ کے مسعود بھٹی کیس [ یعنی 2012SCMR152 اور رویو  پٹیشن  2016SCMR1362 میں ]  میں دئیے گئیے ھوئیے فیصلے کے  ھی پابند ھیں جس میں ان ٹرانسفڑڈ ملازمین  حیثیت statutory  ھے یعنی ان پر گورمنٹ کے ھی سرکاری قوانین کا اطلاق ھو گا ۔  چاھے وہ ورک مین ھی کیوں نہ ھو ۔ سپریم کوڑٹ نے اپنے مسعود بھٹی کیس میں یکم اکتوبر 2011 میں دئیے ھوئیے فیصلے صاف طور پران گورمنٹ کے سرکاری قوانین کا اطلاق سب پر ھو گا ماسوائیے وہ ملازمین جو کنٹریکٹ پر تھے ۔ تو ھم کیسے آپ کی بات مان سکتے ھیں ھاں یہ ضرور ھے کے ھم اپنے فیصلے میں آپکے اس اٹھائیے ھوئیے ایشو کا زکر ضرور کردیں گے  مگر اس پر عمل کرنا ھمارے بس کی بات نہیں اور ایسا کوئی عمل نہیں کریں گے  جس سے معزز سپریم کوڑٹ کے فیصلے کی توھین ھو ۔ اس موقع پر مجھے  وکیل باجواہ صاحب  بہت زچ ھوتے دکھائی دئیے اور  انکے چہرے پر پریشانی نمایاں امنڈ آئی تھی تھوڑی دیر تک کچھ نہ بول سکے ۔ 

محترم چیف جسٹس صاحب کے ان سے ان سوال اور جواب کے عمل  سے یہ گمان پڑ رھا تھا جیسے وہ پی ٹی سی ایل پنشنرز پٹیشنرز کے وکیل ھوں ۔ تو اب مجھے اس بات کا اب زرا سا بھی شک نھیں کے گورمنٹ والی پنشن انکریزز اور اسکے بقایا جات نہ ادا کرنے کے بارے میں انکی اپیل نہ خارج کردی جائیے اور انکو یہ حکم عدالت نہ جاری کرے کے وہ ان ریسپونڈنٹس  کو بھی گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن اور اسکے بقایا جات دئیے جائیں ۔ رھا معاملہ ان ریسپونڈنٹس کو اس پنشن انکریز کے ساتھ میڈیکل  یا اردلی الاؤنسس دینے کا جنھوں نیں نے اپنی رٹ پٹیشن میں اسکی ڈیمانڈ کی تھی۔  اسکے متعلق عدالت کیا فیصلہ کرتی ھے ، اس پر ابھی ابہام ھے ۔ ھم نے تو اپنی رٹ پٹیشن 4588/2018 میں تو اسکی بلکل بھی ڈیمانڈ نھیں کی تھی ۔ میں تو اسکے سخت خلاف تھا کیونکے میں نہیں چاھتا تھا کوئی  میٹر جو disputed ھو اسکی بھی رٹ پٹیشن میں ڈیمانڈ کی جائیے   اور پنشن دینے کا معاملہ بھی  اس کی وجہ سے کھٹائی میں پڑجائیے ۔ سپریم کوڑٹ نے اپنے 12 جون 2015 کے فیصلے اسکے بارے اشارتن بھی کوئی بات نہیں کہی تھی کے میڈیکل الاؤنس یا دیگر الاؤنسس بھی دئیے جائیں اور کل عدالت  میں ایسا ھی ھی ھوا جس خدشے کا میں یہ اظہار کررھا ھوں ۔ تو جب محترم چیف جسٹس کی یہ باتیں سن کر ، وکیل باجوہ صاحب  پنشن اد کرنے معاملے سے مایوس ھوگئیے اور یہ سمجھ گئیے کے عدالت اب لازمن گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن کی ادئیگی کا ریسپونڈنٹس کو دینے کا حکم دے گی تو انھوں فورن  ھی  پینترا بدلا اور چیخ کر کہا کے سپریم کوڑٹ  12 جون 2015 کے فیصلے کہاں لکھا ھے کے انکو  گورمنٹ کا اعلان کردہ میڈیکل الاؤنس بھی دیا جائیے [ یاد رھے گورمنٹ نے یکم جولائی 2010 سے گورمنٹ کے پینشنروں کو انکی پنشن کے ساتھ 25%  گریڈ 1 سے لیکر گریڈ 15 تک اور اس سے اوپر 20 %  انکی جاری پنشن کا میڈیکل الاؤنس دینے کا اعلان کیا تھا جو فریز کردیا گیا تھا ] اور اردلی الاؤنس [جو گریڈ 20 سے لیکر گریڈ 22 تک کے گورمنٹ  پنشنروں کے لئیے ھوتا ھے جو یکم جولائی سے بڑھایا گیا تھا ] بھی ۔ اس پر محترم چیف جسٹس صاحب نے وکیل باجواہ صاحب سے کہا کے وہ انکو سپریم کوڑٹ کے 12 جون 2015 فیصلے[ 2015SCMR1472]  کا concluded پیرا پڑھ کر سنائیں ۔ وکیل باجواہ صاحب نے تھوڑی دیر تک اس فیصلے کو فائیلوں میں  تلاش کیا اور ملنے پر پڑھکر سنایا ۔ حیرت انگیز طور پر انھوں نے اس پیرے کو بڑے گول مول انداز میں پڑھا اور جو کچھ پڑھا وہ یوں تھا

 

the employees of T&T Department having retired after their transfer to the Corporation and the Company, will be entitled to the same pension as is announced by the Government of Pakistan and that the Board of Trustees of the Trust is bound to follow 

such announcement of the Government.

جبکے  حقیقتن مکمل پیرا یہ تھا

 For the foregoing reasons, we have come to conclusion that the respondents, who were the employees of T&T Department having retired after their transfer to the Corporation and the Company, will be entitled to the same pension as is announced by the Government of Pakistan and that the Board of Trustees of the Trust is bound to follow such announcement of the Government in respect of such employees. Consequently, these petitions are dismissed.

تو انھوں نے جو پیرے کے الفاظ محترم چیف جسٹس صاحب کو سُنائیے اس میں انھوں نے جان بوجھ کر یہ الفاظ “ in respect of such employees” کا زکر نہیں کیا ۔ کے مبادہ یہ الفاظ سن کر محترم چیف جسٹس کہیں یہ نہ کہہ دیں کے اس میں تو پنشن انکریزز دینے کا حکم تو سب ایسے سارے ریٹائڑڈ ملازمین کے لئیے ھے ۔ تو کیوں آپ سبکو نہیں دے رھے اور کہیں وہ تمام ایسے ملازمین کو   گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریزز بھی دینے کا حکم نہ دے دیں  جو litigation میں نہیں گئیے تھے۔ جب وکیل باجواہ صاحب نے یہ پیرا پڑھ چکے تو دونوں معزز جج حضرات نے آپس میں کچھ مشورہ کیا اور پھر باجواہ صاحب سے پوچھا کے آپ اس کے علاوہ اور مزید کچھ arguments دینا چاھتے ھیں ۔ تو اس پر وکیل باجواہ صاحب نے نفی میں جواب دیا ۔ معزز جج جناب جسٹس عامر فاروق نے فرمایا کے اسکا مطلب یہ کے آپکے arguments مکمل ھوگئیے ھیں ۔ وکیل باجواہ صاحب نے جواب دیا جی ھاں ۔ پھر  معزز جج جناب جسٹس عامر فاروق نے ان سے پوچھا کے آپ اگلے ھفتے available ھوں گے ۔ وکیل باجواہ صاحب نے ھنس کر کہا جی مائی لاڑڈ ۔ پھر معزز جج جناب جسٹس عامر فاروق نے ریسپونڈنٹس کے وکیلوں سے مخاطب ھوکر کہا کے آپ سب نے انکے arguments سن لئیے ھیں اب اس کے مطابق اپنا اگلی ھئیرنگ پر اسکا جواب دیں اور جو کچھ سٹیٹمنٹ وکیل باجواہ صاجب نی دئیے تھے اسکی کاپیاں ھر ایک وکیل کو مہیا کردی گئیں اور انکو بتلا دیا گیا کے جو کچھ وہ جواب دیں گے اسپر جوابلجواب [ جسکو انگلش میں rebutter کہتے ھیں ]  وکیل باجواہ صاحب دیں گے عدالتی کاروائی 9 جون بروز بدھ تک کے لئیے ملتوی کردی گئی۔ 

مجھے دونوں معزز ججز حضرات ، وکیل باجواہ صاحب کی اس دلیل پر convinced نظر آئیے کے سپریم کوڑٹ نے کسی بھی فیصلے میں یہ نہیں کہا ھے کے گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریز کے ساتھ اعلان کردہ مزید الاؤنس بھی دئیے جائیں ۔ جبکے یہ بات بلکل صحیح ھے کے سپریم کوڑٹ نے کسی بھی فیصلے یہ بات بلکل نھیں کہی گئی ھے  ۔ تو جہاں تک پنشن انکریزز کے یکم جولائی 2010  سے ابتک کے بقایا جات دینے کا  اور ان انکریز کی بنیاد پر  ماھانہ رننگ پنشن  پر اضافے دینے کا تعلق ھے اب اس پر کوئی بھی ابہام نہیں ھے بس قباحت میڈیکل الاؤنس ، اردلی الاؤنسس دینے پر ھے ۔ اب دیکھنا یہ ھے کے ھمارے وکلاء کسطرح ، اسکی اگلی ھئیرنگ 9 جون کو عدالت کو وکیل باجواہ صاحب کے ان دلائیل کی  negation پر قائیل کرنے پر کامیاب ھوتے ھیں یا نھیں  ۔ 

میں یہ سمجھتا ھو ں کے ھمارے وکلاء کو اس پر کوئی پریشانی نہیں ھونی چاھئیے کے وہ معزز عدالت کو negation پر کیسے قائل کریں گے۔ یہ ٹھیک ھے کے 12 جون 2015 کے فیصلے میں گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریز دینے کے علاوہ اور کسی بھی گورمنٹ کی اعلان کردہ الاؤنسس دینے کا عدالت عظمی نے کہا ھو لیکن اسی فیصلے کی بنیاد پر ھی سپریم کوڑٹ نے راجہ ریاض کیس 

[. Muhammad Riaz vs Federation of Pakistan 

( 2015SCMR1783)]

کا 6 جولائی  2015 کو جو فیصلہ دیا اس  میں اسکو گورمنٹ کی اعلان کردہ تنخواہ اور پنشن دینے حکم دیا ،جو پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای  ٹی نے اسکو ادا بھی کردی اور اسکو پنشن کے ساتھ میڈیکل الاؤنس بھی دے دیا گیا ، جو اسکو اور اسلام آباد جی پی او کو ڈائیریکٹر پنشن پی ٹی ای ٹی   جاری کردہ 3 دسمبر 2020 کے لیٹر سے ظاھر ھے۔ RF- 26522 اسکا پی پی او نمبر 

ھے ( کاپی نیچے منسلک )۔  اسکی ماہانہ پنشن 101550 روپے اور میڈیکل الاؤنس ماھانہ 9660 روپے فکس کئیے گئیے اور کل ملاکے 111210 روپے ماھانہ پنشن ، یکم نومبر 2020 سے ادا کرنے کا کہا گیا ھے ۔ تو جب ایک ایسے پی ٹی سی ایل ٹرانسفڑڈ ایپملائیز کو اسکی ریٹائیرمنٹ کے بعد پنشن کے ساتھ پی ٹی سی ایل نے میڈیکل الاؤنس بھی ادا کردیا گیا ھے تو اور ایسے ھی دوسرے پنشنروں کو یہ دینے میں کیا قباحت ھے ۔ سپریم کوڑٹ کے منعقدہ مروجہ اصول اور قانون کے مطابق جو اسنے حمید اختر نیازی کیس 1996SCMR1185 میں دیا ھے، اب پی ٹی سی ایل  کا یہ فرض بن گیا کے وہ اور تمام ایسے پی ٹی سی ایل پنشنروں کو جو litigation میں گئیے ھوں یا نا ھوں گورمنٹ کے یکم جولائی 2010 سے اعلان کردہ  میڈیکل الاؤنس ادا کرے جسطرح اسنے راجہ ریاض کو ادا کیا،  اسی دلیل   اور  ڈسکریمینیشن   برتنے کو مدنظر  رکھ کر اور جو اسکے علاوہ انکے زھین میں آرھا ھو ، تو ان وکلاء حضرات  سے درخواست ھے ، جنکے کلائینٹس نے  اپنی رٹ پٹیشنوں میں پنشن انکریزز دینے کے ساتھ ساتھ ، میڈیکل الاؤنس ، اردلی الاؤنس یا اور کسی دیگر الاؤنس دینے کی prayers کی تھیں ، وہ وکیل شاھد انور باجوہ کے دلائیل کا جواب ان خطوط پر تو تیار کریں اور 9 جون کو عدالت میں پیش کریں اور اسپر بحث کریں ۔ مجھے  اللہ کے زات دے امید ھے وہ ضرور کامیاب ھوں گے۔انشاللہ

آخر میں آپ سب سے  عزیز دوستوں سے استدعا ھے کے آپ لوگ دعا کریں یہ کیس مزید linger on نہ ھو اور جلد ھی ڈسپوزڈ ھوجائیے ۔ پی ٹی سی ایل  پٹیشنر پنشنروں کو گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریز بمعہ بقایا جات ، یکم جولائی 2010 سے ملنے کی قوی امید ھے ۔ انشاللہ ۔ کل کی اس عدالتی کاروائی میں محترم ججز کے ریمارکس اور محترم چیف جسٹس صاحب کے  حسن زر اور پی ٹی سی ایل پنشرز پٹیشنرز کے حق میں انکے وکیل شاھد انور باجواہ صاحب  سے سوال وجواب سے ایسا ھی لگ رھا ھے کے “منزل ما دور نیست”


واسلام

محمد طارق اظہر

ریٹائیڑڈ جنرل منیجر (آپس) پی ٹی سی ایل

راولپنڈی

تاریخ  ۳ جون ۲۰۲۱

بروز جمعرات

Comments

Popular posts from this blog

.....آہ ماں۔

Article-173 Part-2 [Draft for non VSS-2008 optees PTCL retired employees]

‏Article-99[Regarding clerification about the registration of the Ex-PTC employees of any capacity with EOBI by PTCL]