Article 156 of dated 22th Jan 2022 is reproduced , regarding unrealistic points of law raised by PTET & PTCL in their CPLA against the decision of division bench IHC of dated 2nd November 2021
نوٹ:- یہ اھم آڑٹیکل میں نے ۲۲ جنوری ۲۰۲۲ کو فیسبک پر اور اپنے بلاگ سائیڈ پر اپلوڈ کیا تھا ۔ ھے یہ بھی بہت اھم اگرچہ کافی طویل مگر جب اسکو آپ لوگ تفصیلن پورا غور سے پڑھ لیں گے تو آپکو کافی اھم باتوں سے آپلوگ آشکارا ھونگے۔شکریہ
(طارق)
24th Nov 2023
Article-156 [ Regarding unrealistic points of law raised by PTET & PTCL in their CPLA against the decision of division bench IHC of dated 2nd November 2021 , filed in HSCP under Article 185(3) of Constitution of Islamic Republic of Pakistan]
https://www.facebook.com/1218137701/posts/pfbid0aWebtUUm8SNWhN29JvVMUoaLgFpNgwN8s1hFHsmQyWnvB1aNBfm7fGEVEiZZv4oLl/
پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل کی بدحواسیاں ۔ ۔ ۔ انکے وکیل جناب th شاھد انور باجواہ نے سپریم کوڑٹ میں آئین پاکستان کے آڑٹیکل (۳)۱۸۵ تحت ، اسلام آباد ھائی کوڑٹ کے ڈویژن بینچ کے ۲ نومبر ۲۰۲۱ کے فیصلوں کے خلاف ( CPLAs ) دائیر کی ھیں جس میں 90% فیصلے انکے حق میں ھیں ۔ان اپیلوں میں اٹھائیے گئیے قانون کے نکات ( law points) ، بادئیانظر میں غیر حقیقی اور غیر دانشمندانہ ھیں ۔ان اپیلوں کو دائیر کرنے کا انکا صرف ایک ھی مقصد ھے کے عدالت کے اس فیصلے پر عمل نہیں کرنا ھے , جو اسنے
پی ٹی سی ایل کےنارملی ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی اور سول سرونٹ کی تعریف میں آنے والے ان ملازمین ریسپونڈنٹس کے حق میں دیا جو سول سرونٹ ایکٹ 1973 کی شق ٹو ون بی کے تحت سول سرونٹ کی تعریف کے زمرے میں آتے ھیں اور جو کمپنی میں یعنی پی ٹی سی ایل میں ٹرانسفڑڈ ھو کر ریٹائیڑڈ ھوئیے ھیں ۔
عزیز پی ٹی سی ایل ساتھیو
اسلام و علیکم
جیسا کے آپ سب لوگوں کے علم میں آگیا ھوگا کے پی ٹی سی ایل اور پی ٹی سی ایل نے، اسلام آباد ھائیکوڑٹ کے ڈویژن بینچ کے 2 نومبر ۲۰۲۱ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کوڑٹ میں اپیلیں آئین پاکستان کے آڑٹیکل (۳)۱۸۵ تحت دائیر کردیں ھیں ۔ [ایسی اپیلوں کو انگلش میں C PLA کہا جاتا ھے یعنی Civil Petition leave to grant appeal اسکے متعلق میں نومبر ۲۰۲۱ کو ایک اسپیشل آڑٹیکل میں تفصیلن بتا جاچکا ھوں ]۔ اور اس میں انٹرم ریلیف بھی مانگا گیا ھے۔ انکا فوری مقصد تو یہ ھی نظر آتا ھے انکے خلاف ریسپونڈنٹس کی طرف سے جن کے حق میں فیصلہ آیا ھے ، انکو انکے خلاف توھین عدالت کے مقدمات کرنے سے روکنا ھے۔ آئین پاکستان کے آڑٹیکل (3)185 تحت انکا یہ مقدمات دائیر کرنے کا مقصد یہ ھی ھے کے وہ سمجھتے ھیں کے ان میں کچھ قانونی نکات ایسے ھیں کے اگر عدالت اس کی جانچ کرلیتی تو متعلقہ ریسپونڈنٹس کے حق میں ایسا فیصلہ نہ کرتی اور کوئی بھی ریلیف نھیں دیتی۔ ابھی تو یہ صرف اپیلیں دائر ھوئیں ھیں اور سپریم کوڑٹ میں ابھی اس پر کوئی شنوائی نہیں ھوئی ھے ۔ ابھی تو پہلے سپریم کوڑٹ نے یہ فیصلہ کرنا ھے کے آیا یہ اپیلیں قابل سماعت بھی ھیں یا نہیں اور جو قانونی نکات اٹھائیے گئیے ھیں کیا اس قابل ھیں کے انکو اس بنا پر عدالت اسکو سن سکے اور انکو leave to appeal گرانٹ کرسکے ؟۔ جب عدالت اسکا فیصلہ کرلے گی تو تب ھی سارے ریسپونڈنٹس کو عدالت عظمی کی طرف سے نوٹسس آئیں گے اور انکے ساتھ اپیل کی کاپیاں بھی آئیں گی اور پھر ریسپونڈنٹس اپنے وکیل کے زریعے اسکا جواب داخل کریں گے اور پھر بحث ھوگی اور اسکے بعد ھی عدالت leave to appeal گرانٹ کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرے گی۔ اگر قبول کر لیتی ھے تو ھائی کو ڑٹ کے دئئیے ھوئیے فیصلے جو اپیلنٹس کے خلاف اسلام آباد ھائی کوڑٹ کے ڈویژن بینچ نے ۲ نومبر ۲۰۲۱ کو دئیے تھے وہ ختم ھوجائیں گے یا modify ھو جائیں گے ۔ ابھی تو ھر ریسپونڈنٹ کے پاس صرف ایڈوکیٹ آن ریکاڑڈ کی طرف سے ھر ایک کو یہ ھی intimation آئی ھے کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کوڑٹ میں اپیل دائیر کی جارھی ھے جسمیں سپریم کوڑٹ سے انٹرم ریلیف بھی مانگا جارھا ھے [ یعنی ھائی کوڑٹ کے اس حکم کو سٹے دے دیا جائیے جب تک اس اپیل کا فیصلہ نہ ھو ]۔
میرے اور میرے ساتھیوں کے حق میں آنے والے انکی دائیر کردہ انٹرا کوڑٹ اپیل نمبر ICA-98/2030 پر فیصلے کے خلاف ، جو CPLA انھوں نے سپریم کوڑٹ میں اپیل دائیر کی ھے اسکا نمبر CP.6023/2021 ھے ۔یہ انھوں نے سپریم کوڑٹ رجسٹری برانچ لاھور میں دا خل کی ھے ۔ لاھور سپریم کوڑٹ کے رجسٹری آفس میں داخل کردہ اپیلوں کی تفصیلات ، جو میرے علم میں ابتک آئی ھیں ، وہ مندرجہ زیل ھیں
1. CP.6023/2021
Pakistan Telecommunication Employees Trust ( PTET) thr GM Ibd
Vs
Muhammad Tariq Azhar & others
2. CP.6024/2021
Pakistan Telecommunication Employees Trust ( PTET) Islamabad
Vs
Zahid Hussain & others
3. CP.6025/2021
Pakistan Telecommunication Employees Trust ( PTET) Islamabad
Vs
Abdul Hameed Malick & others
4. CP.6026/2021
Pakistan Telecommunication Employees Trust ( PTET) Islamabad
Vs
Syed Ubaid Hassan Shah & another
5. CP.6027/2021
Pakistan Telecommunication Employees Trust ( PTET) Islamabad
Vs
Muhammad Yousef & others
6. CP.6028/2021
Pakistan Telecommunication Employees Trust ( PTET) Islamabad
Vs
Guldad Khan & others
7. CP.6029/2021
Pakistan Telecommunication Employees Trust ( PTET) Islamabad
Vs
Israr Ahmed Khan & others
8. CP 6030/2021
Pakistan Telecommunication Employees Trust ( PTET) Islamabad
Vs
Mumtaz Ali Shah & others
ان تمام اپیلوں کی شنوائی سپریم کوڑٹ اسلام آباد میں ھی ھوگی ۔
پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل نے تمام ریسپونڈنٹس کے خلاف ایسی بہت سی اپیلیں سپریم کوڑٹ میں دائیر کی ھیں کچھ لاھور سپریم کوڑٹ رجسٹری میں اور زیادہ تر سپریم کوڑٹ اسلام آباد میں بھی ڈائیریکٹ دائیر کی ھیں ۔ انھوں نے جو اپیلیں سپریم کوڑٹ اسلام آباد داخل کی ھیں اس میں سے ایک کاپی مجھے واٹس ایپس پر کسی نے بھیج دی جسکی کاپی میں نے نیچے پیسٹ کردی ھے ۔ یہ اپیل پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کے وکیل شاھد انور باجواہ نے تیار کی ھے اور جناب خٹک ایڈوکیٹ آن ریکاڑڈ نے سپریم کوڑٹ اسلام آباد میں دائیر کی ھے ۔ یہ اپیلیں پی ٹی ای اٹی کی طرف سے جعفر خان اور دیگران کے خلاف دائیر کردہ انٹرا کواڑٹ نمبر ICA 82/2020 پر دورکنی بینچ کے تحریر کئیے ھوئیے فیصلے کے خلاف دائیر کی گئی ھیں کیونکے عدالت عالیہ نے اسی طرح کی اور تقریبن 51 انٹرا کوڑٹ اپیلیں ، جو اسکے ساتھ کلب کی گئیں تھیں ، وہ بھی نمٹادی تھیں۔ تو تب ھی تو نے انھوں نے اسطرح کی کلب کی ھوئیں رٹ پٹیشنوں کے خلاف بھی یہ اپیلیں دائیر کی ھیں تو اسلئیے ھر ایک ریسپونڈنٹ کو ایڈوکیٹ آن ریکاڑڈ کی طرف سے نوٹس آئیے ھیں ۔
انکے وکیل شاھد انور باجواہ صاحب نے میں 2 قانونی نکات اٹھائیے (جو نیچے بیان کئیے جارھے ھیں تبصرے سمیت ) پھر اسکے حقائیق یعنی facts بیان کئے , جو وھی ھیں جو اس 2 نومبر 2021 کے فیصلے کے پیرا 19 اور 20 دئیے گئیے ھیں اور اسکے بعد ان قانونی نکات دینے کے وجوھات بیان کئیے ھیں اور آخر انھوں نے prayer کی جسمیں عدالت ۲ نومبر ۲۰۲۱ کے فیصلے کو ختم کرنے کی استدعا کی گئی ھے حالانکے اس ججمنٹ میں 90 % فیصلے پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کے حق میں آیا ھے۔
میں اس اپیل میں دئیے گئیے پہلے قانونی نکات Points of Law اور پھر اسکے جو انھوں جو اسکے وجوھات grounds دئیے ھیں اس پر اپنا تبصرہ کرونگا۔
Points of law raised in CPLA
1. Whether in view of judgment of Supreme Court reported at 2016 SCMR 1362 any change in the terms and conditions of employment of civil servants brought about by Federal Government after 01-01-1991 are applicable to erstwhile T&T employees now employees of PTCL?
2. What is import wordsَُ “ were entitled immediately before such transfer” used in section 9(1) of Pakistan Telecommunication Act 1991
اردو ترجمہ
قانون کے نکات جو سی پی ایل اے میں اٹھائیے گئیے
1. وفاقی حکومت نے یکم جنوری 1991 کے بعد سول سرونٹ کی سروس کے ٹرمز اینڈ کنڈیشنس میں جو کوئی بھی کوئی تبدیلی کی ھے ، کیا اسکا اطلاق ٹی اینڈ ٹی میں کام کرنے والے ان ملازمین پر بھی ھوگا جو اب پی ٹی سی ایل کے ملازمین ھیں کیا وہ سپریم کورٹ کی ججمنٹ 2016SCMR1362 کی روشنی میں ھو سکتا ھے ؟
2. پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ 1991 کے سیکشن(1)9 میں استعمال ہونے والے الفاظ "جو اس ٹرانسفڑڈ سے فورن پہلے حقدار تھے" کیا ظاھر کرتے ھیں
[نوٹ :- انھوں نے Pakistan Telecommunication Act 1991 لکھا ھے جو نامکمل ھے ۔ صحیح یہ ھے Pakistan Telecommunication Corporation Act 1991]
1. پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل کے وکیل انور شاھد باجواہ کا یہ قانون کے نکات اٹھانے کا مطلب یہ ھے کے وہ یہ چاھتے ھیں سپریم کوڑٹ اسکے متعلق اپنا فیصلہ دے کے وفاقی حکومت نے یکم جنوری 1991 کے بعد اپنے سرکاری ملازمین اور ریٹائیڑڈ سرکاری ملازمین کی تنخواھوں اور پنشن میں اضافہ جات کے لئیے جو نوٹیفیکیشنس نکالیں ھیں اور جو اب وقتن فوقتن نکالتی رھتی ھے ، تو کیا اسکا اطلاق ان ایسے پی ٹی سی ایل کے ملازمین اور ریٹائیڑڈ ملازمین پر ھوسکتا ھے، جو کبھی گورمنٹ کے ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ کے سرکاری ملازمین ( سول سرونٹ ) تھے [ چونکے ان سول سرونٹس پر سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے تحت گورمنٹ کے بنائیے ھوئیے سرکاری قوانین ( statutory rules)کا اطلاق ھوتا تھا۔ یہ وہ قوانین ھیں جو حکومت پاکستان نے سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے سیکشن 25 میں ، اسکو دئیے ھوئیے اختیارات کی بنیاد پر ، ان قوانین کے مطابق بنائیے ھیں ، جو اس ایکٹ 1973 کے سیکشن 3 سے سیکشن 22 تک میں دئیے گئیے ھیں ۔ایسے کچھ قوانین زیر پیش ھیں ۔ مثلاً Government Servants ( E&D) Rules 1973,
Civil Servants(Appointment,Promotion and Transfer) Rules,1973 وغیرہ وغیرہ ۔
جبکے سپریم کوڑٹ نے پی ٹی سی ایل بنام مسعود بھٹی و دیگران 2016SCMR1362 (یہ انکی رویو پٹیشن تھی جو 19 فروری 2016 کو ڈسمس کردی گئی تھی جو انھوں نے 7 اکتوبر 2011 مسعود بھٹی و دیگران کے کیس 2012SCMR152 کے خلاف نومبر 2011 میں دائیر کی تھی ) کے فیصلے میں لکھا ھے کے جو ٹی اینڈ ٹی کے ملازمین ٹرانسفڑڈ ھوکر کارپوریشن اور بعد میں کمپنی میں آئیے انکو کارپوریشن اور کمپنی کا ملازم ھی کہا جائیگا مگر انپر سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے سیکش 3 سے سیکشن 22 میں ھی دئیے گئیے ھوئیے قوانین کا ھی اطلاق ھو گا ، یعنی ان گورمنٹ کے قوانین جن میں سے کچھ کا اوپر بیان کیا جاچکا ھے ۔
آئیے یہ دیکھتیں ھیں کے ان سول سرونٹ کے متعلق عدالت عظمی نے اپنے اس فیصلے یعنی 2016SCMR1362 میں کیا لکھا ھے ۔عدالت اس فیصلے کے پیرا نمبر 6 میں لکھتی ھے (جسکا اردو ترجمعہ پیش کیا جارھا ھے)
“ اوپر دی گئی دفعات پر ایک مختصر نظر ڈالنے سے معلوم ھوجاتا جائے گا
کے ڈیپاڑٹمنٹل ملازمین 1991 کے ایکٹ کے سیکشن 9 کے تحت کارپوریشن کے ملازم بن گئے تھے اور پھر ایکٹ 1996 کے سیکشن 35 کے تحت کمپنی کے ملازم بن گئے۔انکے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس اس ایکٹ 1991 کے سیکشن (2)9 اور 1996 کے ایکٹ کے (2)35 کے تحت مکمل طور پر محفوظ ( protected ) ھوگئیے تھے ۔ اور انکے ان سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس کوئی بھی ایسی منفی تبدیلی نہیں کی جاسکتی جن سے انکو نقصان پہنچے جیسا کے ان سیکشنس میں کہا گیا ھے۔ نہ صرف یہ کہ مقننہ وفاقی حکومت کو پابند کرتی ہے کہ وہ انکے موجودہ سروس کے ٹرمز اینڈ کنڈیشنس اور ٹرانسفر کیے گئے ملازمین کے پنشنری فوائد سمیت حقوق کی ضمانت کرے۔ چونکہ یہ مذکورہ بالا دفعات کی وجہ سے پہلے کارپوریشن اور پھر کمپنی کے ملازم بن گئے، اس لیے وہ مزید سول سرونٹ نہیں رہے۔ لیکن ان کی سروس کے جو شرائط و ضوابط جو سول سرونٹ ایکٹ کے سیکشن 3 سے 22 کے ذریعے فراہم کیے گئے ہیں اور ایکٹ 1991 کے سیکشن (2)9 اور ایکٹ کے سیکشن (2)35،(a)36اور (b) کے ذریعے محفوظ (protected) ہیں۔ جو ایکٹ 1996 کے بنیادی طور پر قانونی ہیں۔ اس طرح ان میں سے کسی کی بھی خلاف ورزی ہائی کورٹ کے آئینی دائرہ اختیار کے لیے قابل عمل ہوگی۔ اگرچہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن اور ایک اور بمقابلہ کے معاملات میں۔ ریاض احمد اور چھ دیگر اور ڈویژنل انجینئر فونز، فونز ڈویژن، سکھر اور دوسرا بمقابلہ۔ محمد شاہد اور دیگر (سپرا) نے کہا کہ کارپوریشن اور پھر کمپنی میں تبادلے پر محکمانہ ملازمین بدستور سول سرونٹ رہیں گے، لیکن یہ تشریح درست معلوم نہیں ہوتی۔ کیونکے یہ کارپوریشن 1991 کے ایکٹ کے سیکشن 9 کے تحت پہلے کارپوریشن کے ملازم بنے اور پھر ایکٹ 1996 کے سیکشن 35 کے تحت کمپنی کے ملازم بنے”
تو آپ نے دیکھا عدالت عظمی نے صاف حکم دیا ھے کے جو ٹی اینڈ ٹی کے ملازمین پہلے کارپوریشن کے ملازم بنے اور پھر کمپنی کے ، انکو سول سرونٹ نہیں کہا جاسکتا لیکن انپر انھی سول سرونٹ والے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس والے قوانین کی جو سول سرونٹ ایکٹ کے سیکشن 3 سے 22 تک دئیے گئیے ھیں استعمال ھونگے اور وہ اسکی پروٹیکشن میں رھیں گے اور کمپنی ان قوانین کی اگر خلاف ورزی کرتی ھے تو ان ملازمین کو یہ اختیار ھے کے وہ ھائی کوڑٹوں سے انکے خلاف آئین پاکستان کرکے آڑٹیکل 199 کے تحت انسے رجوع کرسکتے ھیں ۔یاد رھے یہ آئینی اختیا ر صرف گورنمنٹ ڈیپاڑٹمنٹ میں کام کرنے والے سول سرونٹس کو ھی ھو تا ھے ۔( یہ ھی بات معزز دورکنی بنچ اسلام آباد ھائی کوڑٹ نے اپنے 2 نومبر 2021 کے فیصلے کے پیرا نمبر 13 میں بھی واضح کی ھے جسے معزز جج جسٹس عامر فاروق نے تحریر کیا ھے) اور ساتھ عدالت نے وفاقی حکومت کو یہ بھی واضح کردیا کے وہ انکے موجودہ (existing) سروس کے ٹرمز اینڈ کنڈیشنس اور ٹرانسفر کیے گئے ملازمین کے پنشنری فوائد سمیت حقوق کی ضمانت دے گی ۔ اور اس سلسلے میں سپریم کوڑٹ نے مسعود بھٹی کیس 2016SCMR152 پہلے ھی واضح کردیا ھے کے اس گورمنٹ کی ضمانت کا مطلب یہ ھے اگر کسی وقت کمپنی دیوالیہ ھو جاتی ھے تو گورمنٹ ایسے ٹرانسفڑڈ ملازمین تنخواہ اور پنشن دینے کی ذمہ دار ھوگی ۔ مگر گورمنٹ کی یہ ضمانت ان پی ٹی سی ایل ملازمین کے لئیے نہیں ھوگی جو یکم جنوری 1996 کے بعد کمپنی میں بھرتی ھوئیے ھونگے ۔
وکیل شاھد انور باجواہ صاحب نے جو سوال اٹھایا ھے وہ یہ ھے پی ٹی سی ایل میں ایسے کام کرنے والے ملازمین پر سول سرونٹ ایکٹ 1973میں سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس میں دئیے گئیے ھیں لیکن ان قوانین کی پروٹیکشن ھوگی جو انکے پی ٹی سی ایکٹ ۱۹۹۱ کے نفاظ زریعے ٹرانسفر سے سے فورن پہلے سول سرونٹ ایکٹ 1973 میں موجود تھے اور اگر اور یکم جنوری 1991 کے بعد حکومت اپنے سرکاری ملازمین کے ان سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس میں انکے فائیدے کے لئیے کوئی اضافہ کیا ھے اور انکی تنخواھوں اور الاؤنسس یا پنشن اور الاؤنسس وغیرہ وقتن فوقتن اضافہ کرتی رھتی ھے اسکا اطلاق ان ٹرانسفڑڈ ھونے والے ٹی اینڈ ٹی ملازمین پر ، نہیں ھوسکتا ھے جو اب پی ٹی سی ایل کے ملازم ھیں کے ملازم ھیں ۔ یعنی جو کچھ انکو تنخواہ ، اور دیگر الاؤنسس کی مد اور جو پنشن اور اسکے ساتھ الاؤنسس انکو کارپوریشن میں پی ٹی سی ایکٹ 1991 کے سیکشن (1)9 کے تحت ٹرانسفڑڈ ھونے سے فورن پہلے مل رھے تھے ، وھی کاپوریشن میں اور بعد میں کمپنی میں ٹرانسفڑڈ ھونے پر بھی ملیں گے، مطلب یہ جو انکی تنخواھیں یا پنشن تھیں اسوقت تھیں وہ فریز ھو چکی ھیں ۔ میرے نزدیک یہ انکی نہایت احمقانہ دلیل ھے کیونکے سپریم کوڑٹ کے فیصلے 2016SCMR1362 میں دئیے گئیے اس فیصلے کی رو سے ، ان پی ٹی سی ایل ملازمین پر سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے سروس ٹرمز اینڈ سیکشن 3 سے 22 تک دئیے گئیے درج کنندہ قوانین کی پروٹیکشن کا مطلب یہ صرف یہ نھیں ھوتا صرف وہ ان ھی قوانین کی پروٹیکشن میں ھوں گے جو انکے کارپوریشن میں ٹرانسفڑڈ سے فورن پہلے تھے اس میں درج تھے بلکے گورمنٹ نے جو یکم جنوری 1991 کے بعد سول سرونٹس کے فائیدے کے لئیے ان قوانین میں جو بھی اضافہ کیا اور تنخواھیں اور پنشن میں اضافہ جات کے وقتن فوقتن نوٹیفیکیشن نکالے تو اسکا اطلاق ایسےکمپنی کام کرنے والے ایسے سابقہ ٹی اینڈ ٹی کے ایسے ملازمین پر بھی لازمن ھوگا ۔ گورمنٹ نے یکم جنوری 1991 کے بعد اس سول سرونٹ ایکٹ 1973 میں دئیے گئیے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس جو سیکشن 3 سے لیکر سیکشن 22 تک دئیے گئیے ھیں اس میں سول سرونٹ کے فائیدے کے لئیے اضافے کئیے بزریعہ آڑڈیننس اور نوٹیفیکیشنس نکالے ھیں مثلاً سیکشن 3 میں سب سیکشن 2 کا اضافہ 17 مارچ 1996 میں کیا گیا جسمیں کہا گیا ھے اس ایکٹ کے حامل شخض کے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس تبدیل نہیں کئیے جاسکتے جس سے اسکو فائیدہ نہ ھو ۔ اور اسی کی تشریح تین رکنی سپریم کوڑٹ بینچ نے 7 اکتوبر 2012دئیے گئیے ابتدائی مسعود بھٹی کیس 2012SCMR152 کے فیصلے میں کی ھے کے پی ٹی سی ایل کو یہ بلکل بھی اختیار نھیں کے وہ ان ٹرانسفڑڈ ملازمین کی جو اب کمپنی کے ملازم ھیں کوئی ایسی تبدیلی کریں جن سے انکو فائیدہ نہ ھو اور ساتھ حکومت کو بھی ایسا کرنے سے منع کردیا ۔ اور پھر اس فیصلے کے خلاف انکی رویو پٹیشن جو 19 فروری 2016 کو ، ڈسمس کی گئی، پانچ رکنی بینچ سپریم کوڑٹ نے اسکو ری کنفرم کیا ( جو اوپر بیان کیا جاچکا ھے ) ۔ تو اس یہ ثابت ھوتا ھے کے یکم جنوری 1991 کے بعد جو بھی کوئی تبدیلی حکومت نے اپنے سول سرونٹس کے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس میں کیں ھیں اسکا اطلاق لازمن ان ٹی اینڈ کے سابقہ سرکاری ملازمین پر بھی ھو گا جو اب پی ٹی سی ایل کے ملازمین ھیں ۔ اور ایک دوسری دلیل کے اگر ایسی بات نہ ھوتی تو سپریم کوڑٹ کا تین رکنی بینچ اپنے 12 جون 2015 کے فیصلے 2015SCMR1472 یہ حکم کیسے جاری کرسکتا تھا کے ایسے پی ٹی سی ایل کے ریٹائڑڈ ملازمین کو ٹرسٹ کا بوڑڈ آف ٹرسٹیز گورمنٹ کی “اعلان کردہ پنشن اضافہ جات “ دینے کا پابند ھے ۔ پھر اس فیصلے کی ھی بنیاد پر سپریم کوڑٹ کا دو رکنی بینچ راجہ ریاض کے کیس کے فیصلے 2015SCMR1783 میں اسکو گورمنٹ کی وقتن وقتن کردہ تنخواہ اور پنشن میں اضافہ جات دینے کا کیسے حکم دیتا ۔ “ عدالت عظمی کا یہ لکھنا “گورمنٹ کی اعلان کردہ” جسکا مطلب تو یہ ھی نکلتا ھے کے جب بھی وفاقی حکومت اپنے سول سرونٹ یا ریٹائیڑڈ سول سرونٹ کے تنخواھوں میں یا پنشن میں اور دیگر مراعات میں اضافہ کرے گی تو پی ٹی سی ایل اور
پی ٹی ای ٹی ایسے کام کرنے والے سابقہ ٹی اینڈ ٹی کے ملازمین کی تنخواھوں اور پنشن میں لازمن کرنا پڑے گا ۔ پی ٹی ای ٹی نے 15 فروری 2018 کو سپریم کوڑٹ کے دو رکنی بینچ کے احکامات کے مطابق تقریبن 343 ایسے ریٹائڑڈ
پی ٹی سی ایل ملازمین پٹیشنرز کو گورمنٹ کے پنشن میں اعلان کردہ اضافہ جات کے بقایا جات فروری 2018 میں ادا کئیے، جسکا اعلان گورمنٹ نے یکم جولائی 2010 سے لیکر یکم جولائی 2017 تک اپنے ریٹائیڑڈ سرکاری ملازمین کے لئیے کیا تھا۔ اب یہ 343 ایسے پی ٹی سی ایل ریٹئیڑڈ ملازمین ھرسال گورمنٹ کی ھی اعلان کردہ پنشن انکریزز لیتے ھیں۔ یکم جولائی 2020 گورمنٹ نے اپنے ریٹائیڑد سول سرونٹ کو یہ پنشن انکریزز نھیں دئیے تھے اسی لئیے پی ٹی ای ٹی نے بھی انکو بھی نھیں دئیے تھے۔ اسی طرح پی ٹی ای ٹی نے راجہ ریا ض کو گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن اضافہ جات دئیے, جو انھوں نے یکم جولائی 2010 سے دینے بند کردئیے تھے اور پی ٹی سی ایل راجہ ریاض کو گورمنٹ کے اعلان کردہ وھی تنخواہوں میں اضافہ جات دئئیے جو انھوں نے یکم جولائی 2005 سے دینا بند کردئیے تھے۔ راجہ ریاض کے توھین عدالت کیس میں ، پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کے وکیل شاھد انور باجواہ کی ھی ایما پر ھی سپریم کوڑٹ نے پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کو راجہ ریاض کو گورمنٹ کی اپنے سرکاری ملازمین دی جانے ولی تنخواہ میں اضا فہ جات کے بقایا جات اور ریٹائیڑڈ سرکاری ملازمین والے پنشن میں اضافہ جات کے بقایا جات دینے،کے ادائیگی کے احکامات جاری کئیے تھے اور جو انھوں نے ادا کردئیے [یاد رھے کے محمد ریاض کی طرف سے انکے خلاف دائیر کردہ توھین عدالت کے کیس کریمنل اپیل 13/2017 جسکا فیصلہ 27 اکتوبر 2017 کو آیا اس میں شاھد باجواہ وکیل پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کی طرف راجہ ریاض کو گورمنٹ کی اعلان کردہ تنخواہ اور پنشن دینے کی رضامندی ظاھر کی تھی اور راجہ ریاض کو یہ سب ادئیگیاں کردی گئیں ۔اسی طرح صادق علی اور نسیم وہرہ کی طرف سے سپریم کوڑٹ کے 12 جون 2015 کے فیصلے پر عمل نہ کرنے پر انکی طرف سے دائیر کردہ توھین عدالت کے کریمنل اپیلیں نمبرز 53 اور54/2015 انھی وکیل شاھد باجواہ کی ھی ایما پر کے پی ٹی ای ٹی ، ما سوائیے وی ایس ایس لے کر ریٹائیڑڈ ھونے پنشنرز پٹیشنر ز کے ، نارملی ریٹائیڑڈ پینشنرز پٹیشنرز کو ، incentive pay ملا کر گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریزز دینے کے لئیے تیار ھے ۔ اور عدالت عظمی نے، 15 فروری 2018 کو یہ سب ادئیگیاں 15 دن میں ادا کرنے کا حکم دیا ۔ اور ایسے صرف 343 پٹیشنروں کو یہ سب ادئیگیاں کردی گئیں]۔ اسی طرح لاھور ھائی کوڑٹ نے 8 جون 2018 کو قمرالدین بنام فیڈریشن آف پاکستان و دیگران رٹ پٹیشن نمبر WP-282225/2016 کیس میں کو ان پی ٹی سی ایل میں کام کرنے والے ان سابقہ ٹی اینڈ ٹی ملازمین پٹیشنروں نارملی ریٹئیڑڈ ملازمین پٹیشنرس کے حق میں ایسا ھی فیصلہ دیا تھا ۔ اور جو کچھ لکھا تھا وہ آپ سبکو بتانا چاھتا ھوں ۔لاھور ھائی کوڑٹ کے سنگل بینچ کے جج محترم جسٹس شجاعت علی خان اس فیصلے کے آخری پیرے (i)33 میں ان پی ٹی سی ایل کام کرنے والےایسے ٹرانسفڑڈ ملازمین اور نارملی ریٹائڑڈ ملازمین کو وھی سیلیریز اور پنشن میں اضافے جات ادا کرنے کا حکم دیا جسکا اعلان گورمنٹ اپنے سرکاری اور ریٹائیڑڈ ملازمین کے لئیے وقتن فوقتن کرتی رھتی ھے وہ عدالتی حکم او ر اسکا اردو ترجمہ زیر پیش ھے
i. That the petitioners, who were initially appointed in T&T department, have competently filed writ petitions and they are entitled to same perks & privileges as admissible to other employees of the Federal Government along with periodical increases; hence respondents are directed to pay their emoluments accordingly.
اردو ترجمعہ
“جو پٹیشنرز، جن کا ابتدائی تقرر ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ میں ھوا جنھوں نے قابلیت کے ساتھ رٹ پٹیشنز دائر کی ہیں اور جو ان استحقاق اور مراعات کے حقدار ہیں جو وفاقی حکومت کے دیگر ملازمین کو وقتاً فوقتاً اضافے کے ساتھ دی جاتی ھیں جو انکو قابل قبول ھوتی ہیں۔ اس لیے ریسپوںڈنٹس کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اسی کے مطابق انکو ادا کریں “
یعنی عدالت عالیہ نے ریسپونڈنٹس یعنی پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کو ایسے تمام پٹیشنروں کو وہ تمام مراعات ، تںخواہ اور پنشن ادا کرنے کا حکم دیا ھے جسکا اعلان گورمنٹ اپنے سول ملازمین اور ریٹائڑڈ ملازمین کو دینے کا وقتن فوقتن کرتی رھتی ھے ۔
اس عدالتی فیصلے کو لکھنا اور اسکا اردو ترجمعہ پیش کرنے کا میرا مقصد یہ ھے کے آپ لوگوں کے علم میں صرف یہ لانا تھا اس فیصلےمیں عدالت نے “perks & privileges “ دینے والے جو الفاظ استعمال کئیے ھیں اسکا مطلب صرف یہ نھیں کے انکو گورمنٹ کی اپنے سرکاری ملازمین اور ریٹائیڑڈ ملازمین کو وقتن فوقتن اعلان کردہ تنخواہ اور پنشن ھی صرف دی جائیں ، بلکے وہ ھر طرح کی اور مراعات بھی ادا کی جائیں جو حکومت اپنے سرکاری اور ایسے ریٹئیڑڈ ملازمین کے لئی کرتی ھے اور کرتی رھتی ھے ۔
[اطلاعن عرض ھے لاھور ھائی کوڑٹ کا یہ 8 جون 2018 کا فیصلہ مجھے گوگل سرچ کے دوران ملا جب میں راجہ ریاض والے فیصلے کیس جب میں راجہ ریاض 2015SCMR1783 کی پی ڈی ایف کاپی کی تلاش میں تھا۔ مجھے اس سرچ کے ریفرنس اور بہت سے کیسس ملے تھے ۔ یہ کیس اسی نوعیت کا تھا جسطرح ھمارے کیس کا تھا جسکا فییصلہ ھمارے حق میں سنگل بینچ جج اسلا م آباد ھائی کوڑٹ نے 3 مارچ 2020 کو دیا تھا جسکے خلاف
پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی نے انٹرا کوڑٹ اپیلیں دائیر کیں جس پر ڈویژن بینچ اسلا م آباد ھائی کوڑٹ کے ڈبل بینچ نے 2 نومبر 2021 کو ان پی ٹی سی ایل کے ریٹائیڑڈ ملازمین کے جو سابقہ ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ کے ملازم تھے اور نارملی ریٹائیڑڈ ھوئیے تھے۔ صرف انکو گورمنٹ کی ھی اعلان کردہ پنشن انکریزز کا حقدار ٹھرایا تھا ۔ اس لاھور ھائی کوڑٹ والے کیس میں پی ٹی سی ایل میں کام کرنے والے ٹرانسفڑڈ ملازمین اور نارملی اور وی ایس ایس آپٹ کرکے ریٹئڑڈ ملازمین نے آئین کے آڑٹیکل 199 کے تحت یہ اپیلیں داخل کی تھیں ( اس کیس کے فیصلے کی آڑڈ شیٹ کچھ اھم کاپیا ں میں نے نیچے پیسٹ کردی ھیں ) ۔کیونکے ٹی اینڈ ٹی سے کارپوریشن یعنی پی ٹی سی اور پھر کمپنی یعنی پی ٹی سی ایل میں ٹرانسفڑڈ ھوکر آنے والے ملازمین انھیں سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس کا تحفظ تھا، جسکا اطلاق ان پر گورمنٹ کے ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ میں ھورھا تھا اور جب یہ لوگ ٹرانسفڑڈ ھوکر کارپوریشن میں گئیے پی ٹی سی ایکٹ سیکشن (1)9 کے تحت تو جو فیڈرل گورمنٹ کی اپنے سول سرونٹ کی سیلیریز میں اضافہ کررھی تھی اسکا اطلاق انپر بھی لازمی امر تھا۔ یکم جولائی 1994 سے وفاقی حکومت اپنے سرکاری ملازمین پے اسکیل جو ریوائیزڈ کئیے اور تنخواھوں میں اضافے کئیے اسی طرح کارپوریشن نے ان ٹرانسفڑڈ ملازمین کے جو کارپوریشن کے ملا زم بن چکے تھے، انکے بھی پے اسکیلز اسی طرح ریوائیزڈ کئیے اور انکی تنخواھوں میں اسی طرح اضافہ کیا جو گورمنٹ نے کیا تھا ۔ اسی طرح یکم دسمبر 2001 سے پی ٹی سی ایل نے بھی ان کارپوریشن سے ٹرانسفڑڈ ھوکر آنے والے اور والے ایسے ملازمین تنخواھوں میں اسی ریٹ سے اضافہ کیا تھا جس طرح وفاقی حکومت نے اپنے سرکاری ملازمین کے لئیے کیا تھا]
یہ بات قابل زکر ھے کے لاھور ھائی کوڑٹ میں مزکورہ کیس کے ھئیرنگ کے دوران عدالت نے انکی یعنی ایڈوکیٹ شاھد انور باجواہ کی اس دلائیل میں سے بلکل بھی اتفاق نھیں کیا جسمیں انھوں کہا تھا کے تنخواھوں اور پنشن پر پروٹیکشن کا یہ مطلب نھیں ھوتا کے اس میں اضافہ گورمنٹ کے ریٹ کے مطابق کیا جائیے ۔ اور اسکو عدالت عالیہ نے نامنظور کردیا۔ اور اسکی وجوھات، سپریم کوڑٹ کے فیصلے یعنی پی ٹی سی ایل بنام مسعود بھٹی و دیگران (2016SCMR1362 ) کے فیصلے کے پیرا نمبر 6 کا ریفرنس دے کر دیں ۔عدالت نے اسکے لئیے اپنے فیصلے پیرا نمبر 17 اور 18 میں لکھا تھا ، اسکا اردو ترجمعہ کرکے زیر پیش ھیں تاکے آپ سبکو معلوم ھوسکے کے عدات نے ایڈوکیٹ شاھد انور باجواہ کو کیسے لتاڑا تھا۔
17. مزید، جناب شاہد انور باجوہ، ایڈووکیٹ میں جو سپریم کوڑٹ میں پٹیشنروں کی طرف سے دائیر کردہ توھین عدالت کی اپیلیں نمبر (Crl.org 53&54) ریسپونڈنٹس کی طرف سے پیش ھوئیے تھے انھوں نے یہ وعدہ کیا تھا کے پی ٹی سی ایل صرف ان پٹیشنروں کو پنشن دے گا ما سوائیے وی ایس ایس لے کر ریٹائیڑڈ ھونے والے پٹیشنر ز کے اور انکو وھی وفاقی حکومت کا وقتاً فوقتاً اعلان کردہ اضافہ دیا جائے گا ۔اگرچہ پی ٹی سی ایل کی نمائندگی کرنے والے اس ماہر وکیل نے اپنے اس بیان کو توہین عدالت کی دائیر کردہ ایسے پٹیشنروں تک ھی محدود رکھا تھا لیکن حقیقت یہ ھے کہ وہ ٹرانسفر شدہ ملازمین جو ابتدائی طور پر ٹی اینڈ ٹی ڈیپارٹمنٹ میں تعینات ہوئے تھے وہ بھی انھیں فائدے اور مراعات کے حقدار ہیں جن کا اعلان وفاقی حکومت وقتاً فوقتاً اپنے ملازمین کے لیے کرتی رھتی ھے اس پس منظر میں، ریسپوںڈنٹس کو اسی طرح کے افراد کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، خاص طور پر جب ملک کی عدالت عظمیٰ پہلے ہی یہ نتیجہ اخذ کر چکی ہے کہ جو ملازمین محکمہ T&T سے ٹرانسفڑڈ ھوکر آئیے اور باوجود اپنی سرکاری حیثیت کھونے کے باوجود وفاقی حکومت کے اعلان کردہ تنخواہ اور وقتاً فوقتاً پنشن میں اضافے کے حقدار ھیں ، اس کے علاوہ کوئی دوسری تشریح جائز نہیں ہے۔
18. وفاقی حکومت کی طرف سے ابتدائی طور پر محکمہ T&T میں تعینات ہونے والے ملازمین کی جانب سے دائر رٹ پٹیشنز کی مخالفت کرتے ہوئے، مسٹر شاہد انور باجوہ، ایڈووکیٹ نے دلیل دی ہے کہ PTCL کے قیام کے بعد ریٹائر ہونے والوں کو پنشنری تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ شاید، پی ٹی سی ایل کے ماہر وکیل نے اس حقیقت سے چشم پوشی کرھے ھیں کہ ٹرانسفر ہونے والے ملازمین کو پنشن ایکٹ 1996 کے سیکشن 45 کے تحت قائم پنشن فنڈ سے ادا کی جاتی ھے ۔ اور اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پی ٹی سی ایل کی مذکورہ فنڈ میں صرف contribute کرنا ھوتا ھے ۔لیکن اسکا مطلب یہ نہیں ھوتا کے پنشن ادا کرنے کا سارا بوجھ صرف پی ٹی سی ایل کو برداشت کرنا پڑتا ھے۔
تو آپنے دیکھا کے عدالت نے وکیل شاھد باجواہ صاحب کو کیا لتاڑا جو یہ
فرما رھے تھے کے پی ٹی سی ایل کو انکو گورمنٹ والی پنشن کی ادئیگیوں کے لئیے مجبور نھیں کیا جاسکتا جیسے کیا پی ٹی سی ایل کی زمہ داری تھی انکو پنشن دینے کی ۔عدالت نے یاد دلایا یہ تو پی ٹی ( ری آرگنائیزیشن ) ایکٹ 1996 کے سیکشن 45 کے تحت قائیم کردہ پنشن فنڈ سے ادا کرنے کی پی ٹی ای ٹی کے ٹرسٹ کی زمہ داری ھے جبکے پی ٹی سی ایل صرف اس میں اپنے شئیرز کے مطابق contribute کی زمہ داری تھی [یاد رھے جب پی ٹی سی ایکٹ 1991 کے سیکشن 9 کے تحت ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ کے ملازمین جب ٹرانسفڑڈ ھوکر کارپوریشن میں آئیے تھے اور کارپوریشن کے ملازمین گئیے تھے تو حکومت پاکستان نے پی ٹی سی ھیڈ کوارٹر اسلام آباد میں حکومت نے کارپوریشن سے 2 اپریل 1994کے ٹرسٹ ڈیڈ ساتھ ایک پنشن فنڈز قائیم کیا جسکے تحت کارپوریشن کو ان تمام ٹی اینڈ ڈیپاڑٹمنٹ کے ریٹائڑڈ ملازمین کو جو ٹی اینڈ ٹی ھی میں ریٹائیڑڈ ھوچکے تھے اور جو کارپوریشن میں ریٹائیڑڈ ھونگے انکو گورمنٹ کے پنشن قوانین کے مطابق اس پنشن فنڈ سے پنشن ادا کرنے کی پابند تھی۔ کارپوریشن تو صرف اپنے خزانے سے ٹرانسفڑڈ ھو کر آنے والے
ٹی اینڈ ٹی کے ملازمین کو صرف گورمنٹ کے پے اسکیلز اور سیلیریز دینے کی پابند تھی ۔اور جب کمپنی یعنی پی ٹی سی ایل کی تشکیل پی ٹی (ری آرگنائیزیشن ) ایکٹ 1996 کے سیکشن 35 کے تحت عمل میں آئی تو حکومت نے اس ایکٹ 1996 کے سیکشن 44 کے تحت پاکستان ٹیلیکمیونیکیشن ایمپلائیز ٹرسٹ (PTET) کا قیام کیا جسکا مقصد کمپنی میں ٹرانسفڑڈ ھوکر آنے والےکاپوریشن کے ملازمین کو جو ، اسکے ملازم بن گئیے تھے ، انکو انکی ریٹائیرمنٹ پر پنشن ادا کرنا اور انکو بھی پنشن ادا کرنا تھا جو ٹی اینڈ ٹی میں یا کارپوریشن میں ھی ریٹائیڑڈ ھوگئیے ۔حکومت نے اس ایکٹ 1996 کے تحت وھی پنشن فنڈ جو 2اپریل 1994 کو کارپوریشن سے ٹرسٹ ڈیڈ کے تحت قائیم کیا تھا اسکو اس ایکٹ 1996 کی سیکشن 45 کے تحت بمعہ liabilities کے ساتھ اس ٹرسٹ کو تقویض کردیا ۔ ٹرسٹ کا فرض تھا کے ان پی ٹی سی ایل کے ان ریٹائڑڈ ٹیلیکمیونیکیشن ایمپلائیز کو , جنکی تعریف اس ایکٹ 1996 کی سیکشن (t)2 کے میں کی گئی ھے ، ان سب کو ماھانہ پنشن گورمنٹ کے پنشن قوانین کے مطابق اسی ایکٹ 1996 کی شق (d)(1)46 کے تحت انکے حق (entitlement) کے مطابق ادا کرے ۔ ایکٹ 1996 کی سیکشن (t)2 میں کہا گیا ھے کمپنی میں کام کرنے والے وہ تمام ریگولر ملازمین جو ٹی اینڈ ٹی سے ٹرانسفڑڈ ھو کر کارپوریشن میں آئیے تھے، وہ کارپوریشن کے ریگولر ملازمین جو ایکٹ 1991 کے نفاز کے بعد کارپوریشن میں بھرتی ھوئیے اور وہ تمام ٹی اینڈ ٹی میں ھی ریٹائڑڈ ھوئیے ان ملازمین ان سبکو telecommunication employees سے تعبیر کیا جائیے گا]
تو وکیل شاھد انور باجواہ صاحب کا یہ پہلا اٹھایا ھوا قانونی نکتہ کے چونکے سپریم کوڑ ٹ کے اس فیصلے یعنی 2016SCMR1362 کے تحت ٹی اینڈ ٹی سے کارپوریشن میں ٹرانسفڑڈ ھونے والے ملازمین کی سول سرونٹ کی حیثیت ختم ھوگئی تھی اسلئیے یکم جنوری 1991 کے بعد وفاقی حکومت نے اپنے سول سرونٹس کے لئیے جن مراعات کا اعلان کیا ھے اسکا اطلاق ان کاپوریشن میں ٹرانسفڑڈ ھوکر آنے والے ٹی اینڈ ٹی کے ملازمین پر نہیں ھوسکتا، بلکل غلط اور غیر بنیادی ھے
2. دوسرا قانونی نکتہ بھی پہلے قانونی نکتہ جیسا ھی ھے وکیل صاحب عدالت سے پو چھ رھے ھیں دئیے گئیے ان الفاظ کا مطلب کیا ھے جو ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ 1991 کے سیکشن(1)9 میں دیا گیا ھے یعنی استعمال ہونے والے یہ "اس طرح کی منتقلی سے پہلے" کے حقدار تھے؟.مطلب یہ کے اگر عدالت یہ فرمادے کے جو کچھ انکو کارپوریشن میں آنے سے فورن پہلے بطور سول سرونٹ ٹی اینڈ ٹی میں ملتا تھا، انکو ھمیشہ صرف وھی ملتا رھنا چاھئیے تھا۔ اسکے لئیے میرا جواب وھی ھے جو اوپر میں انکے پہلے قانونی کے جواب میں اوپر دیا جا چکا ھے۔
3. وکیل شاھد انور باجواہ صاحب اپنے ان دو قانونی نکات ( law points) کو صحیح ثابت کرنے کے لئیے جو وجوھات ( grounds) دئیے ھیں انسے بلکل بھی متفق نہیں ھویا جاسکتا ھے ۔ انھوں نے کل 8 وجوھات ( grounds) دئیے ھیں ماسوائیے گراؤنڈ نمبر 3 اور 8( جس میں انھوں نے مزید دلائل عدالتی شنو آئی کے دوران دینے کا لکھا ھے ) کے انھوں وہ بار بار مختلف زاویوں اور دلائیل سے صرف ایک ھی بات دھرائی ھے کے چونکے سپریم کوڑٹ نے اپنے فیصلے 2016SCMR1362 میں پی ٹی سی ایل میں کام کرنے والے ٹرانسفڑڈ ملازمین کی سول سرونٹ کی حیثیت ختم کردی ھے اسلئیے انکو وہ گورمنٹ کی اپنے سول سرونٹس کے اعلان کردہ وہ مراعات ، تنخواہ یا پنشن میں اضافہ جات نھیں دیا جاسکتا جسکا اعلان گورمنٹ نے یکم جنوری 1991 کے بعد کیا ھے ۔ مگر وہ اس بات کا بلکل زکر تک نھیں کررھے ھیں کے عدالت نے ساتھ یہ بھی کہا ھے کے “مگر انپر سول سرونٹ والے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس والے انھیں قوانین کا اطلاق ھوگا جو سول سرونٹ ایکٹ کے سیکشن 3 سے 22 تک دئیے گئیے ھیں (اس پر تفصیلن اوپر لکھ چکا ھوں)۔ وکیل شاھد انور باجواہ کا صرف یہ ھی کہنا کے سپریم کوڑٹ نے اپنے 2016SCMR1362 فیصلے انکی سول سرونٹ کی حیثیت ختم کردی ھے ۔ اور اسکے آگے کی مزید بات نہ بتانا ، بلکل ایسا ھی ھے جیسے کوئی نامعقول انسان یہ بات کہے قرآن میں نماز پڑھنے کو منع کیا گیا ھے اور یہ پوری بات نہ بتائیے قرآن نے یہ بھی آگے کہا ھے “مگر اسوقت جب تم نشے کی حالت میں ھو “۔ وکیل شاھد انور باجواہ صاحب مکمل بات نہ بتانا اور پھر اور ساتھ معزز بینچ پر یہ الزام دھرنا کے اسنے اس aspect پر غور ھی نہیں کیا، صحیح نھیں ھے ۔ پہلی بات تو یہ ھے وکیل شاھد انور باجواہ نے ھائی کوڑٹ ڈویژن بینچ کے سامنے یہ نکتہ تو اٹھایا ھی نھیں تھا ۔اگر اٹھا دیتے تو اسکا بھی جواب بھی بینچ انکو ضرور دے دیتا ۔ انھوں نے تو صرف یہ بات کہی تھی کے ٹی اینڈ ٹی میں کام کرنے والے تما م ملازمین سول سرونٹ نھیں تھے بلکے صرف وہ ھی تھے جو سول سرونٹ ایکٹ 1973 (b)(1)2 کی شق کی تعریف کے زمرے آتے تھے۔ وھی گورمنٹ کی اعلان کردہ تنخواہ اور پنشن میں اضافے جات کے حقدار ھیں اور انھوں نے اسکے لئیے پی ٹی سی ایل و دیگران بنام مسعود بھٹی و دیگران (2016SCMR1362) کا ریفرنس بھی کوڈ کیا تھا ۔ مگر یہ بینچ کو ایسا کچھ نھیں بتا یا تھا ۔
4. گراؤنڈ نمبر 3 میں ، بینچ کی طرف سے سپریم کوڑٹ کے 12 جون 2015 کو دئیے گئیے فیصلے پی ٹی ای ٹی بنام محمد عارف و دیگران کے کیس 2015SCMR1472 کو مثال بنانے پر وکیل شاھد انور باجواہ صاحب نے اعتراض کیا ھے اور یہ دلیل پیش کی ھے چونکے سپریم کوڑٹ نے محمد ریاض کے کیس (2015SCMR1783) میں اسکے کے حق میں آئیے ھوئیے فیصلے میں یہ واضح کردیا گیا تھا، اس فیصلے کو ایسے ھی کسی اور کیس میں مثال نہ بنایا جائیے اسلئیے عدالت کو چاھئیے تھا تو اس لحاظ اس کیس کو مثال نہ بناتی۔ ھائی کوڑٹ ڈویژن بینچ نے اپنے 2 نومبر 2021 کے فیصلے کے میں جسے مصنف جج جسٹس عامر فاروق پیرا نمبر 16 کیا تحریر کیا تھا لکھا تھا “ اسمیں کوئی شک نہیں کے اس عدالت کی ججمنٹ اور سپریم کوڑٹ اس ھائی کوڑٹ اور معزز سپریم کوڑٹ کے ججمنٹ نے سابقہ ٹی اینڈ ٹی ملازمین کو انھیں پنشنری بینیفٹس کا حقدار ٹھرایا ھے جو ریٹائیڑڈ گورمنٹ سرونٹ لیتے ھیں ۔ اس سلسلے میں انھوں نے اپنی عدالت کے فیصلے
ICA No 34/2017 ٹائیٹل PTCL versus Noor Wali Khan
etc اور سپریم کوڑٹ کے فیصلوں PTET versus Muhammad Arif & others (2015SCMR1472) اور Muhammad Riaz versus Federation of Pakistan and others (2015SCMR1783) کے ریفرینس دئیے
اس پیرا نمبر 16 میں دی گئی ججمنٹ سے وکیل شاھد باجواہ صاحب کو یہ اعتراض ھوا کے کیوں اس میں راجہ ریاض والے کیس 2015SCMR1783 کو مثال بنایا گیا ھے جب کے اسکو مثال بنانے کے لئیے منع کردیا گیا تھا ۔میں سمجھتا ھوں کے شاھد باجواہ صاجب کے ان دلائیل میں کوئی بھی وزن نہیں ھے ۔ اگر آپ لوگ محمد ریاض والے کیس 2015SCMR1783 کو مفصل طور ہر پڑھیں گے اس میں کہیں بھی سپریم کوڑٹ دورکنی بینچ یہ بات نہیں کبھی لکھی اس فیصلے کو مثال نہ بنایا جائے بلکے انھوں راجہ ریاض کو گورمنٹ والی تنخواہ اور پنشن دینے کا جو حکم دیا تھا وہ سپریم کوڑٹ کے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے محمد عارف اور دیگران کے حق میں آنے والے کیس 2015SCMR1472 کو ھی بنیاد بنایا تھا. یاد رھے راجہ ریاض کے حق میں ، اس سپریم کواڑٹ کے دورکنی بینچ کا فیصلہ 6 جولائی 2015 کو آیا تھا جسکے خلاف انکی رویو پٹیشن بھی 8 اگست 2015 کو خارج ھوگئی تھی اور جب رویو پٹیشن خارج ھونے کے باوجود انھوں نے راجہ ریا ض کو کوئی پیمنٹ وغیرہ نہیں کی تو راجہ ریاض نے انکے خلاف 6 جولائی 2015 فیصلے پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے توھین عدالت کا کیس [Cr.Miscellaneous Appeal 13/2015] دائیر کردیا جسکو تین رکنی بینچ نے 27 اکتوبر 2017 کو، پی ٹی سی ایل کے وکیل شاھد باجواہ کے اس بیان اور یقین دھانی پر ڈسپوزڈ آف کردیا تھا کے پی ٹی سی ایل محمد ریاض کو incentive pay کے ساتھ ،جو صرف پی ٹی سی ایل ملازمین کو دی جاتی ھے، اسکو Salary اور pension میں وھی increases ادا کرے گی جو گورمنٹ اپنے سول سرونٹ کو ادا کرتی ھے مگر اسکو اسکو کسی اور کیس میں مثال نہ بنایا جائیے ۔ مگر اسلام آباد ھائی کوڑٹ کے سنگل بینچ کے سابق جج جسٹس شوکت صدیقی نے تو 18 جنوری 2017 کو اسی راجہ ریاض والے کیس 2015SCMR1783 کے ریفرنس کو مثال بناکر پی ٹی سی ایل ایمپلائیز پٹیشنرس نور ولی اور دیگران کے کیس Noor Wali khan & others Vs Federation of Pakistan & other WP-1875/2016 میں انکو گورمنٹ کی اعلان کردہ تنخواہ 15 دنوں میں دینے کا حکم دیا تھا۔ پی ٹی سی ایل نے اسکے خلاف انٹرا کوڑٹ
اپیل نمبرPTCL versus Noor Wali khan & others ICA No 34/2017 دائیر کی جو جنوری 2018 میں خارج کردی گئی اور اسکے خلاف انکی اپیل سپریم کوڑٹ میں ابتک پینڈنگ پڑی ھے ۔اگر بقول شاھد انور باجواہ صاحب کے راجہ ریاض کے کیس 2015SCMR1783 کو مثال نہ بناے کا کا سپریم کوڑٹ نے حکم دیا تھا، تو نور ولی خان کیس میں اسلام آباد ھائی کوڑٹ نے راجہ ریاض والے کیس کو کیوں مثال بنایا ؟؟ دراصل اسکی کی اصلی وجہ یہ ھے کے 1996 میں سپریم کوڑٹ کے دورکنی بینچ نے حمید اختر نیازی بمقابلہ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ وفاقی حکومت اور دیگر کیس یعنی 1996SCMR1185 میں یہ ایک اصول طے کردیا تھا کے کسی سرکاری ملازم ،جس نے مقدمہ دائیر کیا ھو، اس کے حق میں سپریم کوڑٹ یا فیڈرل سروس ٹریونل کی طرف سے آنے والے فیصلے کا فائیدہ ایسے تمام سرکاری ملازمین کو بھی پہنچے گا چاھے انھوں نے مقدمہ کیا ھو یا نا کیا ھو ، بجائیے ان سے یہ کہا جائیے کے وہ بھی عدالت یا کسی فورم سے رجوع کریں گے ۔ اور پھر اسی اصول کو سید محمود اختر نقوی اور دیگر ان بمقابلہ فیڈریشن آف پاکستان اور دیگران ”کیس میں جو عام طور پر محترمہ انیتا تراب علی کیس (پی ایل ڈی 2013 ایس سی 195) کے نام سے مشہور ھے ، سابق چیف جسٹس ایس اے خواجہ کی سربراہی میں ایچ ایس سی پی کے تین ججوں کے بنچ نے اس اصول کی اہمیت کی تصدیق کی اور authenticate کیا کے کسی سرکاری ملازم کے حق میں آنے والے فیصلے کا فائیدہ تمام ایسے سرکاری ملازمین پر بھی ھو گا جنھوں نے کیس کیا ھو یا نہ ھو اور جو ادارہ بیوروکریٹ اسکی خلاف ورزی کرے گا تو اسکے خلاف آئین کے آڑٹیکل 204 کے تحت توھین عدالت کی کاروائی کی جائیے گی ۔تو اس لحاظ سے بھی وکیل شاھد باجواہ صاحب کے ان گراؤنڈ کی کوئی بھی حیثیت نھیں ھے۔
آپ سبکو ایک اھم مجھے یقین ھے کے معزز عدالت عظمی ان تمام گراؤنڈ کو مسترد کرکے انکی یہ سی پی ایل اے، ابتدا میں ھی خارج کردے گی اور انکو کوئی انٹرم ریلیف نھیں ملے گی انشاللہ ۔ لیکن ابھی تو مسعلہ یہ ھے کے یہ اپیلیں ابھی تک عدالت میں ابتدائی شنوائی کے لئیے بھی لگی ھی نہیں ھیں اور کب لگیں گی یہ معلوم نہیں ھے ۔ پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کی کوشش تو یہ ھی ھوگی کہ جتنی دیر سے لگیں اتنا ھی انکے لئیے اچھا ھے کیونکے وہ خود جانتے ھیں کے انکی ان اپیلوں میں کوئی وزن نہیں ھے اور اچھا ھی ھے جو جلد نہ لگیں اور وہ پیمنٹ کرنے سے بچے رھیں
اگر عدالت انکی ابتدائی سماعت کے بعد منظور بھی کر لیتی ھے تو تب بھی خارج ھوجائیے گی انشاللہ۔ مگر اسکے لئیے ھم کو دبنگ اور ایماندار وکلاء کو انگیج کرنا پڑے گا۔ایسے وکلاء نہیں جسطرح کے کچھ ان انٹرا کوڑٹ کیسس کے لئیے انگیج کئیے گئیے تھے ۔ میرا یہ آڑٹیکل لکھنے کا ایک مقصد یہ بھی ھے کے مکمل طور پر کیس سے آشکارا ھوں اور اس کو اچھی طرح سمجھ لیں اور اپنے اپنے وکلاء کو اچھی طرح grooom کریں ۔ تو اسلئیے ان کیسسز کے لئیے صرف دبنگ ایماندار ، آئینی ماھر اور زبردست بولنے وکیل کو ھی انگیج کرنا ضروری ھے۔اسطرح تمام ایسے پٹیشنروں سے گزارش ھے کے وہ ایسے وکلاء کو ھی انگیج
کریں تاکے انکو رزلٹ اچھا مل سکے۔ شکریہ
واسلام
محمد طارق اظہر
ریٹائیڑڈ جنرل منیجر (آپس) پی ٹی سی ایل
راولپنڈی
Date : 27th January 2022
Comments