My an important Article -154 is reproduced , regading conterveresial order of double bench of IHC dated 2nd Nov 2021Must read

     اھم نوٹ :-میں یہ ایک اھم آڑٹیکل جو میں نے 26 دسمبر  2021 کو فیسبک اور اپنے بلاک سائٹ پر اپلوڈ کیا تھا اور تفصیلن اسکے ھر پیرے کا جواب دیا تھا۔ 

(طارق)

24th Nov 2023


Article-154 [Regarding Conterversial order of Double Bench of IHC of dated 2nd November 2021]

نوٹ:-  2 نومبر 2021 اسلام آباد ھائیکوڑٹ  کے ڈویژن بینچ نے پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل کی  تمام انٹرا کوڑٹ اپیلیں ڈسپوزڈ آف کردیں ۔ اور  ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ میں بھرتی ھونے والے  انھیں پٹیشنرز ملازمین کو جو سول سرونٹ ایکٹ 1973 میں دی گئی سول سرونٹ کی تعریف کے زمرے میں آتے ھیں  اور جنکی ریٹائیرمنٹ نارملی طور پر  ھوئی ھو ، صرف انھی کو  گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریز ز کا حقدار  ٹھہرایا ھے ۔اور دوسرے ایسے پٹیشنرز ملازمین کو جو وی ایس ایس آپٹ کرکے ریٹائیڑڈ ھوئیے ھوں یا جو پی ٹی سی میں بھرتی ھوئیے ھوں ، ان سبکو  اس حق سے محروم کردیا گیا۔ یہ ایک  نہایت ھی غیر مناسب  فیصلہ  ھے جو بادئیانظر میں سپریم کوڑٹ میں   7 اکتوبر 2011 اس تاریخی مسعود بھٹی کیس (2012SCMR152 )اور 12 جون 2015 کے کیس (2015SCMR1472 )کے  ان  فیصلے کی بلکل نفی کرتا  ھے جس کے  تحت   وہ کاپوریشن  کے  تمام ریگولر ملازمین جو یکم جنوری 1996 کو کارپوریشن  سے ٹرانسفڑڈ ھوکر کمپنی  یعنی پی ٹی سی ایل میں آئیے تھے ، ان سب پر  گورمنٹ آف پاکستان کے سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے تحت بنائیے گئیے انھی قوانین کا  اطلاق  ھورھا تھا ,  جسطرح  گورمنٹ ڈیپاڑٹمنٹ میں کام کرنے والے  تمام سول سرونٹس پر ھوتا ھے  ۔ انھی جیسے ریسپونڈنٹس کو  جس میں وی ایس ایس آپٹ کرکے ریٹائیڑڈ  ھونے والے  پی ٹی سی ایل ملازمین بھی شامل تھے،  ان سبکو  بھی سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ نے اپنے 12 جون 2015 کے فیصلے میں پی ٹی ای ٹی کو گورمنٹ کی اعلان کردہ ھی پنشن اد کرنے کا حکم دیا تھا اور انکے خلاف پی ٹی ای ٹی کی تمام اپیلیں مسترد کردی گئی تھیں اور اس فیصلے کے خلاف پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل کی رویوپٹیشن بھی 17 مئی 2017 کو مسترد کردی گئی تھیں اور یہ 12 جون 2015 کا فیصلہ (2015SCMR1472 ) میں درج ھے، امر ھوگیا تھا۔ لیکن جو یہ 2 نومبر 2021 کا فیصلہ جو ڈویژن بینچ اسلام آباد ھائیکوڑٹ  نے دیا  وہ تضادات سے بھرا ھوا ھے ۔جسکے تحت صرف ان ریٹائیڑڈ ٹی اینڈ ٹی ملازمین کو گورمنٹ کی  پنشن انکریزز لینے کا حقدار  ٹھرایا گیا ھے جو سول سرونٹ ایکٹ1973 کے سیکشن ٹو بی ون کے تحت سول سرونٹ کی تعریف میں آتے ھوں اور نارمل طریقے سے قانون کے مطابق   یا ساٹھ سال کی  ریٹائیڑڈ ھوئیے ھوں  مگر انکو باقی ھر ان الاؤنسس سے محروم کردیا گیا جو  گورمنٹ کے ریٹائیڑڈ سول سرونٹ   پنشن کے ساتھ حاصل کررھے ھیں۔ کیا تضادات  یا نقص اس فیصلے میں ھیں ، اسی کی بابت اس آڑٹیکل میں بتایا گیا ھے۔ اگر آپ تفصیل سے مکمل آڑٹیکل پڑھیں گے تو بہت آشکارا ھونگے۔شکریہ

(طارق)


عزیز پی ٹی سی ایل ساتھیو

اسلام و علیکم 


۲ نومبر ۲۰۲۱ بروز منگل کو اسلام آباد کے ڈویژن بینچ نے پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل کی   طرف سے  دائیر کردہ  تقریبن  52 انٹرا کوڑٹ پر اپیلوں پر فیصلہ سنایا ۔ اور ان سبکو ڈسپوزڈ آف کردیا گیا جس میں 90 % فیصلہ پٹیشنرس کے حق میں اور 10 % ریسپونڈنٹس  کے حق میں دیا گیا ۔ یہ  انٹرا کوڑ ٹ  اپیلیں  پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کی طرف سے ،  اسلام  آباد ھائی کوڑٹ سنگل بینچ کے جج جسٹس میں گل اورنگزیب  کی 28 رٹ پٹیشنوں پر ،پٹیشنروں کے حق میں آئیے ھوئیے  3 مارچ 2020 کے فیصلے کی خلاف  دائر کی گئی تھیں ۔ ان انٹرا کوڑٹ اپیلوں میں ،  میری بمعہ 19 ساتھیوں کے  خلاف  پی ٹی ای ٹی کی  طرف سے دائیر کردہ انٹرا کوڑٹ  اپیل نمبر ICA98/2020 اور پی ٹی سی ایل کی طرف  سے دائیر انٹرا کوڑٹ نمبر ICA149/2020 بھی شامل تھیں ۔یہ انٹرا کوڑٹ اپیلیں ھمارے حق میں  آئیے ھوئیے رٹ پٹیشن نمبر WP-4588/2018 سنگل بینچ کے جج اسلام آباد ھائی کوڑٹ   3 مارچ  کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی تھیں ۔  3 مارچ  2020 کو سنگل بینچ کے جج جسٹس میاں گل اورنگزیب نے پرانی رٹ پٹیشن رسول خان اور دیگران  بنام فیڈریشن و دیگران نمبر WP-523/2012  جسکے ساتھ اور 27 رٹ پٹیشنیں کلب کی ھوئی تھیں ،اسپر تفصیلی فیصلہ  لکھا اور  اسی کی بنیاد پر ھر رٹ پٹیشن کو اس میں دئیے گئیے prayers کے مطابق فیصلہ دے کر  سبکو ڈسپوزڈ آف کردیا۔یہ تحریری فیصلہ کل 31 صفحات پر مشتمل ھے ۔ 29 صفحات پر تو  یہ  فیصلہ ھے اور  آخری دو صفحات پر شیڈول A  میں دیا گیا تھا جس میں  منسلک 28 رٹ پٹیشنوں کی تفصیلات دی گئی تھی ۔ جج صاحب نے اسکے پیرا 64 میں  اپنے اوپر دی گئی ججمنٹ کے مطابق ، تمام ان پٹیشنرس پینشنرس کو  جو ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی ھوئیے اور کمپنی نارمل طریقے سے ریٹائیڑڈ ھوئیے   انکا مانگا ھو ( as prayed) ریلیف دینے کا حکم دیا اور اسکی بابت متعلقہ پیمنٹ ساٹھ دن میں ادا کا حکم دیا ۔ اور جو وی ایس  ایس لے کر ریٹائڑڈ ھوئیے تھے ، انکی رٹ پٹیشنیں واپس لینے کی بنیاد پر ڈسمس کردی گئیں [ یہ پٹیشنیں وی ایس ایس آپٹ کرکے ریٹائڑڈ  ھونے لے  پٹیشنروں نے جج صاحب کی اس دھمکی کے بعد واپس لے لی تھیں ، کے اگر انھوں نے یہ واپس نہ لیں تو اس کیس کی ھئرنگ  گرمیوں کی بعد کریں گے اور تب ھی اسکا فیصلہ کریں گے۔ یہ بات انھوں نے 2 فروری 2020 اور 20 فروری 2020  کی ھئرنگ کے دوران کی تھی  مجبوراً ان رٹ پٹیشنوں میں شامل   وی ایس ایس آپٹ کرکے ریٹائڑڈ ھونے والے  پٹیشنروں نے اپنی اپنی پٹیشنیں واپس لے لیں ۔ میرے ساتھ میرے رٹ پٹیشن نمبر 4588/2018 کل ایسے 11 لوگ تھے جنھوں نے یہ withdraw کرلیں ] ۔ پٹیشنس پینشنرز نے نے جہاں انھوں نے گورمنٹ کا اعلان کردہ انکریزز یکم جولائی 2010  اسکے ساتھ بھی اور کچھ مانگا تھا کسی نے اسکے ساتھ گورمنٹ کا پنشن کے ساتھ میڈیکل الاؤنس جو یکم جولائی 2010 سے لاگو ھو تھا، مانگا ۔ جو پی ٹی سی ایل کے ریٹائیڑڈ  آفیسران گریڈ 20 اور اس سے اوپر تھے انھوں اپنی گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریزز اور پنشن کے ساتھ  اردلی الاؤنس میں گورمنٹ  کا اعلان کردہ انکریزز  ،گورمنٹ  پنشن مجوزہ میڈیکل الاؤنس, کمیوٹڈ پنشن کی بحالی وغیرہ وغیرہ شامل تھے۔  سب کی ڈیمانڈ کی تھی ۔ مگر  ھم نے اپنے رٹ پٹیشن  4588/2018 میں صرف وھی ریلیف یعنی گورمنٹ کا اعلان کردہ پنشن انکریز کی prayers   کی تھی جو یہ پی ٹی ای ٹی والے پہلے ھی 15 فروری 2018  ، سپریم کوڑٹ کے دورکنی بینچ کے حکم کے مطابق 15 دن کے اندر اندر تقریبن  343 ایسے پی ٹی سی ایل  پنشنرس پٹیشنرز کو فروری 2018 میں ادا کر چکے تھے ۔ 

 اس دن یعنی 2 نومبر 2021  کو دورکنی بینچ نے ، جسکے سربراہ چیف جسٹس اسلام آباد ھائی کوڑٹ   تھے ، انھوں صرف دو منٹ میں تما انٹرا کوڑٹ اپیلوں کو ڈسپوزڈ آف کرنے کا اعلان کیا ، جسکی شنوائی 27 جولائی 2021 مکمل ھوگئی تھی اور فیصلہ محفوظ کرلیا گیا تھا  اور اس دن یعنی 2 نومبر کو  تقریبن تین ماہ کے بعد سنایا گیا۔ اسوقت میں بھی  وھیں کمرہ عدالت میں موجود تھا۔ میں نے دیکھا کے یہ فیصلہ سنتے ھی پٹیشنروں یعنی پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کے وکلاء کے چہرے کھل اٹھے  جبکے ریسپونڈنٹس کے وکلاء کے چہروں پر مردنی چھا گئی اور وہ سب جلدی جلدی کمرہ عدالت سے باھر نکل گئے اور جو ریسپونڈنٹس  میری طرح کمرہ عدالت میں میں موجود تھے وہ سب ھی مجھے پریشان نظر آئیے اور وہ جلدی جلدی کمرہ عدالت سے  کسی سے بات کئیے ھوئیے باھر نکل  گئیے تاکے باھر جاکر اپنے وکلاء سے اس کی بابت کچھ سکیں کے عدالت کے ان کیسوں کے ڈیسپوزڈ آف کرنے کا مطلب کیا ھے   ۔  مگر باھر نہ مجھے اپنے وکیل جناب خلیل الرحمان عباسی نظر آئیے اور نہ ھی دوسر ے اسے  بہت ریسپونڈنٹس کے وکلاء ۔دو یا تین   وکلاء مجھے باھر نظر آئیے جن میں ایک را نا صاحب ایڈوکیٹ بھی تھے ۔ وہ بھی مجھے پریشان دکھائی دئیے یہ کہتے ھوئیے کے غلط فیصلہ دیا وہ بھی تین مہینے سے زیادہ محفوظ رکھنے کے بعد ۔ لوگ میری طرف بھی متوجہ ھوئیے کے  یہ پوچھنے کے لئیے کے اس disposed off کا مطلب کیا ھے ، تو میں نے انکو جواب  دیا کے  اسکا مطلب یہ ھے نہ ھی انکی انٹرا کوڑٹ ڈسمس ھوئیں اور نہ ھی پوری طرح قبول ۔ اور لگتا یہ ھے کے  عدالت نے انکو کچھ نہ کچھ ریلیف دے دیا ھے اور ریسپونڈنٹس کو بھی ۔ اب وہ کیا دیا ھے ، یہ تو یہ اسکے تفصیلی فیصلے کو پڑھنے کے  بعد ھی معلوم ھوگا۔ جسکی سڑٹیفائیڈ کاپی حاصل کرنے کیلئے  اپنی  درخواست دینی پڑے گی ۔ میں نے یہ ھی سب باتیں لکھ کر اسی وقت  دوستوں کو بھی واٹس ایپس کردیں تھیں اور سڑٹیفائیڈ کاپی کی لئے  ایپلائی کردیا، بتایا گیا کے 4 نومبر 2021 کو شائید مل جائیے ۔ جب میں نے انسے پوچھا  میں کیا 4 نومبر کو یہ کاپی لینے آؤں تو بتایا گیا کے اسلام آباد ھائی کوڑٹ کی سائیٹ سے پہلے اسکی بابت پتہ کرلیں یا ھمارے میسیج پر   یعنی جب اسکے تیار ھونے کا میسج ملے ، جو  مجھے 10 نومبر کی شام کو ملا اور  میں 11 نومبر   یہ اپنے کیس سڑٹیفائیڈ کاپی کی لیکر  آگیا۔

یہ 2 نومبر 2021 کا فیصلہ  اس دو رکنی بینچ کے ممبر  جج محترم جسٹس عامر فاروق نے تحریر کیا ھے ۔  جسکی توثیق اسکے سربراہ محترم چیف جسٹس  اطہر من اللہ  نے کی ۔ انھوں نے   اپنی تفصیلی  ججمنٹ پی اٹی ای ٹی کی  محمد جعفر خان و دیگران کے خلاف انٹرا کوڑٹ اپیل  I C A-82/2020 تحریر  کیا اور انھی ججمنٹ کی وجوھات کی بنا پر اور تمام دیگر  پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل طرف سے دائر کردہ ساری انٹرا کوڑٹ اپیلوں کو ڈسپوزڈ آف کیا۔ ھمارے خلاف انکی انٹرا کوڑٹ ICA-98/2020  کو اسی طرح ڈسپوزڈ آف کرتے ھوئیے ڈسمس کردیا اور سنگل بینچ کے کے جج کا 3 مارچ 2020 کا فیصلہ برقرار رکھا یعنی جو پٹیشنر پنشنرس ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی ھوئیے پی ٹی سی ایکٹ کے نفاز سے بھرتی ھوئیے تھے اور نارملی ریٹئڑڈ ھوئیے وھی گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریز کے حقدار ھیں ۔ مگر  انھوں نے سنگل بینچ کے  محترم  جج کا 3 مارچ 2020 کے اور دیگر انٹرا کورٹ اپیلوں میں ایسے  پی ٹی سی ایل پٹیشنرس پٹیشنرس کے حق میں دیا گیا ان  فیصلوں کو،  جس میں انھوں ، پنشن کے ساتھ میڈیکل الاؤنس انکریزز ، اردلی الاؤنس اور کمیوٹڈ پنشن کی بحالی کا وغیرہ وغیرہ کا حکم دیا تھا ، اسکو ختم کردیا اور اس فیصلے کے مطابق وہ فیصلہ modify کرنے کا حکم دیا۔ یہ سب  احکامات ، محترم جج جسٹس عامر فاروق کے اس ججمنٹ کے پیرا 19 میں موجود ھیں جسکے سات (7) سب پیرے  ھیں ۔ ان میں سے ھر ایک کی بابت تفصیل اور اس پر ھونے والے لائحہ عمل کے بارے میں آگے چل کر بتاؤ ں گا ۔ 

اس ڈیسپوزڈ آف کرنے کے  فیصلے سے لوگ کافی پریشان ھوگئیے تھے۔ کسی نے یہ افواہیں اڑانی شروع کردیں کے جو لوگ   وی ایس ایس لے کر ریٹائیڑڈ ھوئیے ھیں ، اس فیصلے کے بعد پی ٹی ای ٹی ان سب کی پنشن بند کردے گی ۔ اور اس سلسلے  میری رائیے  مانگنے کے لئی مجھے کافی میسیج آئیے ۔ مجھے ان سب کو سمجھانے کے لئیے  6 نومبر کو آئیڈیو میسج بھیجنا پڑا اور یہ کلئیریفائی کیا کے پی ٹی سی ایل پنشنروں نے جو مقدمات کئیے تھے انکا تعلق پی ٹی ای ٹی کی طرف سے گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریزز  نہ دینے کی وجہ سے تھا ۔  جو ٹرسٹ نے یکم جولائی 2010 سے دینا بند کردی تھی اور اپنی منظور کردہ ھی پنشن انکریز ز دینا شروع کردی تھی جو گورمنٹ کی اعلان کردہ اپنے سول ریاٹئیڑڈ ملازمین  سے  بہت کم تھیں ۔  تو ظاھر  عدالت نے یہ ھی فیصلہ کرنا تھا کے یہ گورمنٹ کی ھی اعلان کردہ پنشن انکریز دی جائیے یا نھیں ۔ جبکے عدالت نے گورمنٹ کے ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ کے ان ریٹائیڑڈ   سرکاری ملازمین کو  اسکا حقدار قرار دیا جو سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے سیکشن  ٹو بی ون  کے تحت سول سرونٹ کی تعریف کے زمرے میں آتے ھوں  اور جنکی ریٹائیرمنٹ نارملی  طور پر فیڈرل پنشن کے قوانین   کے تحت ھی  ھوئی ھو مگر ان میں ایسے  جنکی ریٹائیرمنٹ وی ایس ایس آپٹ کرکے  اور معاوضہ لینے کی بنیاد پر ھوئی ھو  وہ اس گورمنٹ  کی اعلان کردہ پنشن انکریزز لینے کے حقدار نہیں، تو اس سے کیا یہ مطلب نکلتا ھے کے انکی پنشن ھی ختم کرنے کا عدالت  نے حکم دیا ھے ؟؟۔ دوسرے  میں نے اپنے آئیڈیو میسیج میں یہ بھی واضح کردیا  تھا  کے پنشن کا یہ قانون ھے کے ایک بار کسی کو پنشن سیکشن ھو جائیے اور وہ اسکو ملنے لگے تو اسکو ختم نہیں کیا جاسکتا ۔ صرف  اس میں کمی  تو کی جاسکتی ۔ وہ بھی اس صورت میں جب کوئی پنشن لینے والا یا والی کسی سیریس کریمنل ایکٹوی میں ملوث ھوجائیے اور اسکو سزا ھوجائیے اور جیل بھیج دیا جائیے ، تو اسکی پنشن میں مجاز اتھاڑٹی اپنی مرضی سے کمی بیشی  کرسکتا ھے ۔ تو پنشن کے ختم ھونے کا سوال ، قانون کے مطابق  پیدا ھی نھیں ھوتا۔ جنکی پٹیشنیں مسترد ھو گئیں انکو بوڑڈ آف ٹرسٹیز کی طرف سے  مقرر کردہ ھی پنشن  انکریزز ملے گی۔ اب وہ چاھیں کتنی دیں ۔ لیکن میں سمجھتا ھوں عدالت کا یہ فیصلہ وی ایس ایس آپٹ کرکے ریٹائیڑڈ ھونے اس گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریزز کے حقدار نہیں ، صحیح نہیں ھے۔ وہ کیوں اسکی بابت میں تفصیل پیرا (vi)19 میں دئیے گئیے اس طرح کے عدالتی حکم کی تشریح کرکے دوں گا

اس کیس کی  تفصیلی ججمنٹ  پڑھنے کے بعد مجھے ایسا محسوس ھوا، کے معزز جج صاحب کا جھکاؤ زیادہ تر اپیلنٹس کی طرف  ھے انھوں نے کچھ عجیب وغریب دلائیل سے یہ ثابت کرکے ، جو بادئیانظر میں صحیح نہیں نظر آرھی ھیں ،   پٹیشنرز پی ٹی سی ایل  اور پی ٹی ای ٹی کے حق میں فیصلہ دینے کی راہ ھموار کی ھے ۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ھے جب کسی بھی مقدمہ میں دونوں طرف کے وکلاء جو دلائیل دیتے ھیں ، تو ججمنٹ تحریر کرنے والا جج ھمیشہ ان تمام وکلاء کے دئیے ھوئیے دلائیل کو زیر تحریر لاتا ھے ۔ چاھے ایسے وکلاء کی تعداد کتنی کیوں نہ ھو ۔ پھر دونوں طرف کے وکلاء کے دلائیل کو 

مد نظر رکھتے ھوئیے ، اپنی ججمنٹ تحریر کرتا ھے کے فلانے وکلاء کے دلائیل  کیوں صحیح نھیں جس سے وہ agree نہیں ھوتے اور فلانے کے وکیل دلائیل میں کیوں اتنی جان ھے جس سے وہ agree ھوتے ھیں ۔ پھر اسی کی بنیاد اپنی ججمنٹ تحریر کرکے، آخر میں اپنا concluded جواب لکھتے ھیں ۔ کیونکے جج کا مطلب تو یہ ھی ھوتا ھے کے وہ جج کرے کے کون صحیح اور کون غلط ھے ، غلط ھے تو کیوں ھے صحیح ھے تو کیوں ھے ؟ اور پھر اس کی بنیاد پر انصاف کے ساتھ  اپنا فیصلہ سُنائیے ۔اس کیس کے ججمنٹ کے مصنف جج جسٹس  عامر فاروق صاحب نے پیرا 4 سے لیکر پیرا 7 تک پٹیشنرس کے وکلاء دئیے ھوئیے دلائیل کے بارے میں لکھا ۔ پیرا 4 اور پیرا 5 انکے لیڈنگ وکیل شاھد انور باجواہ کے دئیے ھوئیے دلائل کے بارے میں لکھا۔ جبکے جو اھم دلائیل ریسپونڈنٹس کے وکلاء خاصکر  اشتیاق احمد چودھری ایڈوکیٹ  اور حسن محمد رانا ایڈوکیٹ نے دئیے کو بلکل انکو بلکل ھی نظر اندا کردیا- سب جانتے ھیں جو  اس دن یعنی  27 جولائی 2021 کو کمرہ عدالت میں موجود تھے کے  اشتیاق احمد چودھری ایڈوکیٹ تقریبن دوگھنٹے زبر دست دلائیل دئیے اور پٹیشنر ز کے وکیل شاھد انور باجوہ  کے دلائیل کا مدلل  جواب دیا جس میں انھوں نے کہا تھا کے کے سابقہ ٹی اینڈ کے ملازمین کے تمام ملازمین سول سرونٹ کی اس تعریف میں نہیں آتے جو سرونٹ ایکٹ 1973 کے سیکشن  ٹو بی ون میں دی گئی ھے۔ انھوں نے کہا تھا سابقہ ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ کے  گریڈ ا سے گریڈ 15 تک جنکی یونین بھی ھوتی ھے وہ سب کے سب ورک مین کہلاتے ھیں ۔اور جب یہ ٹرانسفڑڈ ھوکر پہلے کارپوریشن اور کمپنی میں چاھے نارمل ریٹائڑڈ ھوئیے ھوں یا وی ایس ایس آپٹ کرکے ، انکو گورمنٹ کی طرف سے اعلان کردہ پنشن انکریزز نھیں دی جاسکتی ھے ۔ اسکے جواب میں جو زبردست دلائیل اشتیاق احمد چودھری ایڈوکیٹ نے دئیے ، وہ کافی قابل ستائش ھے ، وہ بولتے رھے اور ججز حضرات انکو چپ کرانے کی کوشش کرتے رھے ،لیکن انھوں اپنی بات مکمل کرنے کے بعد ھی ڈائیس چھوڑا۔ مگر معزز جج صاحب انکی اور  حسن محمد رانا ایڈوکیٹ کے دلائیل کو  بھی زیر تحریر نہیں لائیے ۔ انصاف کا تقاضہ  تو یہ ھی تھا کے ان کے بھی دلائیل زیر تحریر لاتے  اور پھر  معزز جج صاحب ان کے دونوں طرف کے دلائیل کا جائیزہ کر انصاف کے ساتھ کوئی فیصلہ کرتے لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا ۔ 27 جولائی 2021 سے پہلے جو ھئیرنگ 24 جون 2021 کو ھوئی تھی اس میں  پٹیشنرز کے وکیل شاھد باجواہ صاحب  نے عدالت کو بتایا تھا ، کے 27 دسمبر 1991 کو  جو  ٹی اینڈ ٹی کے ملازمین پی ٹی سی ایکٹ 1991 کی شق  (1)9 کے تحت  کارپوریشن ٹرانسفڑڈ ھوکر آئیے تھے اس میں تین کٹیگری کے ملازمین تھے ایک وہ جو گزیٹڈ ملازمین یعنی  گریڈ 16 اور اس سے اوپر تک  کے ملازمین جو سول سرونٹ کہلاتے ھیں ، دوسرے وہ نان گزیٹڈ یعنی گریڈ 1 سے لیکر گریڈ 15 تک کے ملازمین جنکی یونین ھوتی ھے اور وہ ورکمین ھوتے ھیں اور سول سرونٹ نھیں کہلاتے اور تیسرے وہ جو ٹی اینڈ میں کنٹریکٹ یا ڈیل ویجز پر کام کررھے تھے جو نہ تو ورک مین اور نہ سول سرونٹ کے زمرے میں آتے ۔ دراصل عدالت  کو یہ سب انکا بتانے کا مقصد یہ تھا جو  ملازمین سول سرونٹ  تھے ھی نھیں جب وہ ٹی اینڈ ٹی سے    پی ٹی سی ایکٹ 1991 کی شق  (1)9  اور پھر پی ٹی ( ری -آرگنئیزیشن ) ایکٹ 1996 کی شق 35 اور 36 کے تحت کمپنی میں آئیے تھے تو وہ سول سرونٹ ھی نھیں تھے تو کسطرح انھوں نے ھائی کوڑٹ سے رجوع کرکے ریلیف حاصل کرلئیے ۔ انکی پٹیشنیں تو  non maintainable دے کر خارج کردینی چاھئیے تھے ۔  اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ صاحب نے شاھد انور باجواہ سے کہا۔ تھا آپ کو یہ مسعلہ اس پر مسعود بھٹی کیس کے دوران اٹھانا  چاھئیے تھا جو آپ اب اٹھا رھے ھیں ۔  آپ نے تو کبھی بھی یہ مسعلہ کسی بھی کیس کے دوران عدالت کو نھیں بتایا اب کیوں بتا رھے ھیں۔ ۔ مسعود بھٹی کے کیس کی ھئیرنگ  دوران یہ مسعلہ نہ اٹھانے کی وجہ انھوں نے  چیف جسٹس صاحب کو یہ بتائی کے چونکے تینوں اپیلیلنٹ کا تعلق سول سرونٹ کٹیگری سے تھا یعنی وہ اپیلنٹس تھے جو اس کٹیگری میں آتے تھے جو بقول انکے سول سرونٹ کٹیگری کے تھے یعنی گریڈ 16 اور اس سے اوپر کے۔ [یہ ایک سراسر  سفید جھوٹ تھا جو عدالت سے بولا گیا تھا کیونکے ان تین اپیلنٹس میں سے ایک یعنی سید محمد دل آویز  گیٹ وے  ایکسچینج   ماسٹن روڈ  کراچی میں اسسٹنٹ کلرک  شائید گریڈ 5  یا 7 کے تھے ، جو بقول شاھد انور باجواہ ایڈوکیٹ ورک مین کی کٹیگری میں آتے ھیں ] مجھے  شاھد انور باجواہ صاحب کی اس بات سے اختلاف ھے ۔  کیونکے  27 دسمبر 1991 ٹی اینڈ ٹی سے  کارپوریشن میں ٹرانسفڑڈ ھونے والے تمام ڈیپاڑٹمنٹل ملازمین کو  پی ٹی سی ایکٹ 1991 کی شق (1)9 کے انھی قوانین کا تحفظ حاصل جو انکے کارپوریشن میں ٹرانسفڑڈ ھونے سے فورن پہلے ٹی اینڈ ٹی میں حاصل تھا ۔ اس ایکٹ میں کہیں یہ نہیں لکھا گیا تھا کے وہ  کے گریڈ 1 سے لیکر گریڈ 15 تک کے ڈیپاڑٹمنٹل ایپملائیز  کو یہ پی ٹی سی ایکٹ 1991 کی شق (1)9 کا تحفظ  حاصل نہیں ھوگا۔ جو تمام ڈیپاڑٹمنٹل ایمپلائیز  اس ایکٹ 1991 ٹرانسفڑڈ ھو کر   کارپوریشن کے ملازم بن گئیے تھے وہ سول سرونٹ نہیں رھے تھے بلکے کارپوریشن کے ملازم بن گئیے تھے۔  اور پھر جب یہ سب  تمام یکم جنوری 1996 کو پی ٹی ( ری آرگنائیزیشن )ایکٹ 1996  سیکشن 35 کے تحت ٹرانسفڑڈ ھوکر کمپنی یعنی پی ٹی سی ایل کے ملازم بن گئیے  تو انکے  گورمنٹ والے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشن  کو کارپوریشن میں پی ٹی سی ایکٹ 1991 کی شق (1)9  کے تحت مکمل پروٹیکٹڈ تھی  اور  وہ ھی پروٹیکشن انکو کمپنی میں پی ٹی ( ری آرگنائیزیشن )ایکٹ 1996 کی شق (2)35 کے تحت مکمل طور پر پروٹیکٹڈ تھی۔[ اسی کی تو تشریح مکمل طور سپریم کوڑٹ نے  7 اکتوبر 2011 مسعود بھٹی و دیگران بنام فیڈریشن آف پاکستان و دیگران یعنی 2012SCMR152 میں کی تھی اور اپیلانٹ کو ھائی کوڑٹ سے  اپنے grievances دور کرنے کے لئیے رجوع کرنے کا اختیار دیا تھا جسطرح ایک گورمنٹ کے سول سرونٹ کو یہ اختیار حاصل ھوتا ھے .اس فیصلے کے خلاف انکی رویو پٹیشن بھی 19 فروری 2016 پانچ رکنی  سپریم کوڑٹ نے خارج کردی تھی جو 2016SCMR1362 میں درج ھے ۔ اس میں عدالت عظمی نے واضح کردیا تھا کے   ڈیپاڑٹمنٹ ایمپلائیز  جو کارپوریشن میں ٹرانسفڑڈ ھوکر اسکے ملازم بن گئیے تھے  انکے  وہ سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشن ، جو گورمنٹ کے ٹی اینڈ میں  تھے  وھی پی  ٹی سی ایکٹ 1991 کی شق (1)9  کے تحت مکمل پروٹیکٹڈ تھے اور کمپنی میں  ( ری آرگنائیزیشن )ایکٹ 1996 کی شق (2)35 کے تحت مکمل طور پر پروٹیکٹڈ تھے ۔  عدالت نے یہ بھی واضح  کیا  کارپوریشن اور پھر کمپنی میں ٹرانسفڑڈ ھونے  والے ڈیپاڑٹمنٹل ایمپلائیز  سول سرونٹ بلحاظ الفاظ نھیں کہا جاسکتا کیونکے وہ سول سرونٹ نھیں رھے تھے اور کمپنی کے ملازم تھےلیکن جو  سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس ، سول سرونٹ ایکٹ 1973  میں سیکشن 3 سے سیکشن 22  میں پی  ٹی سی ایکٹ 1991 کی شق (1)9  کے اور کمپنی میں  ( ری آرگنائیزیشن )ایکٹ 1996 کی شق (2)35 اور (2)36 کے تحت مکمل طور پر پروٹیکٹڈ تھے اسکا مطلب کے کمپنی میں انھی گورمنٹ کے سرکاری قوانین جسکو انگلش میں statutory rules  ،  کا اطلاق ھوگا۔ عدالت عظمی نے مزید یہ بھی واضح کردیا تھا کے ان 

statutory rules  , جو سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے میں سیکشن 3 سے سیکشن 22 میں دئیے گئیے ھیں ، اگر  انکی خلاف ورزی پر ، ایسے ملازمین کا یہ آئینی اختیار ھے کے وہ آئین کے آڑٹیکل 199 کے تحت رجوع کرسکتے ھیں اور ھائی کوڑٹیں انکے grievances دور کرنے  ان کو قانون کے مطابق ریلیف دینے کی پابند ھیں ،جو انکا قانونی حق ھوتا ھے] . تو انکے وکیل شاھد انور باجواہ کا یہ کہنا لوگ    جو ٹی اینڈ کے  ملازمین ورک مین  کی کٹیگری یعنی گریڈ 1 سے لیکر گریڈ 15 میں تھے وہ سول سرونٹ نہیں تھے اسلئیے ان کا یہ استدلال کے  ھائی کوڑٹ سے رجوع کرنے کا اختیار نھیں تھا، تو سپریم کوڑٹ کے مندرجہ بالا بیان کردہ فیصلوں کے مطابق ، بلکل غلط ھے اور ناقابل قبول ھے۔ سپریم کوڑٹ نے اپنے فیصلوں میں کہیں بھی نھیں کہا کے جو ڈیپاڑٹمنٹل ورک مین ھوں یا جو گریڈ 1 سے لیکر گریڈ 15 تک کے ملازمین ھوں انپر کارپوریشن اور پھر کمپنی می ٹرانسفڑڈ ھونے کے بعد   پی  ٹی سی ایکٹ 1991 کی شق (1)9  کے تحت اور کمپنی میں  ( ری آرگنائیزیشن )ایکٹ 1996 کی شق (2)35 کے تحت  پروٹیکشن نھیں ملے گی۔

 اس فیصلے کے مصنف جج   پیرا نمبر 16 “ تحریر کرتے ھیں  “ کے اسمیں کوئی شک نہیں   کے اس عدالت کی ججمنٹ اور سپریم کوڑٹ اس ھائی کوڑٹ اور معزز سپریم کوڑٹ کے ججمنٹ نے سابقہ ٹی اینڈ ٹی ملازمین کو  انھیں پنشنری بینیفٹس کا حقدار ٹھرایا ھے جو ریٹائیڑڈ گورمنٹ سرونٹ لیتے ھیں ۔ اس سلسلے میں انھوں نے اپنی عدالت  کے فیصلے

ICA No 34/2017 ٹائیٹل PTCL versus Noor Wali Khan  etc اور سپریم کوڑٹ کے فیصلوں PTET versus Muhammad Arif & others (2015SCMR1472) اور  Muhammad Riaz versus Federation of Pakistan  and others (2015SCMR1783) میں یہ ھی نتیجہ نکالا کے چونکے ٹی اینڈ ٹی  ڈیپاڑٹمنٹ میں کام کرنے والے ملازمین ، پی ٹی سی ایکٹ 1991 کے نافظ سے پہلے سول سرونٹ تھے اسلئیے وہ اسی پنشنری بینیفٹس کے حقدار ھیں جو گورمنٹ کے ریٹائیڑڈ سول سرونٹ کو دئیے جاتے ھیں۔معزز جج صاحب کا یہ بتانے کا مطلب صرف یہ ھی نکلتا ھے کے جو ملازمین

 پی ٹی سی ایکٹ 1991 کے نفاز کے بعد یعنی کارپوریشن میں ریگولر بھرتی ھوئیے ، وہ  ان پنشنری بینیفٹس کے حقدار نہیں جو ریٹائیڑڈ سول سرونٹ کو دئیے جاتے ھیں ۔ میں بزات خود معزز جج صاحب کے اس فیصلے سے اتفاق نھیں کرسکتا ۔  کے سپریم کوڑٹ نے PTET versus Muhammad Arif & others (2015SCMR1472) میں واضح طور پر کہا ھے کے کے ٹی اینڈ ٹی میں کام کرنے والے سول  کارپوریشن میں ٹرانسفڑڈ ھوکر آئیے وہ سول سرونٹ نھیں رھے بلکے وہ کارپوریشن کے ملازمین بن گئیے لیکن   انکے  وہ سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشن ، جو گورمنٹ کے ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ میں  تھے  وھی پی  ٹی سی ایکٹ 1991 کی شق (1)9  کے تحت مکمل پروٹیکٹڈ تھے ۔ ادھر پی ٹی  سی بوڑڈ  نے اپنے 6 فروری 1972  کو ھونے والے دوسرے اجلاس میں یہ فیصلہ  کیا کے جب تک پی ٹی سی  کے اپنے قوانین نہیں بن جاتے اسوقت تک کارپوریشن میں انھیں سابقہ ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ کے قوانین اور طریقہ کار کو اپنایا جائیے [اسکا نوٹیفیکیشن 9 فروری 1972  کو اسوقت کے چیف انجینئیر ( کنسلٹینسی کو آڑڈینیشن) جناب محمد حنیف اعظم  نے جاری کیا تھا] ۔ تو جو ملازمین کاپوریشن میں بھرتی ھوئیے ان پر بھی ٹی اینڈ ٹی کے  انھی قوانین کا اطلاق ھوتا تھا  جو جسطرح ٹی اینڈ ٹی سی ٹرانسفڑڈ ھو کر   آنے والے ملازمین پر ھو رھا تھا۔جو  statutor rules  کہلاتے ھیں ۔ کارپوریشن میں کیا  سرکاری قوانین نافظ تھے اسکا اسی بات کازکر سپریم کوڑٹ نے مسعود بھٹی کیس میں یعنی 2012SCMR152 میں کیا گیا ھے جو اس فیصلے کے پیرا 7  اور پیرا 9 میں دیا گیا ھے 

پیرا 7 :- “ جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے، یہ متنازعہ نہیں ہے کہ 1991 میں پی ٹی سی ایکٹ کے تحت پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن (کارپوریشن) کے قیام سے پہلے، اپیل کنندہ سول  سرونٹ  تھے۔  یہ بات بھی متنازعہ نہیں ہے کہ اس وقت (1991 سے پہلے) اپیل کنندگان کو سرکاری ملازمین کی خدمات کے حوالے سے مختلف قواعد و ضوابط کے تحت چلایا جاتا تھا۔  یعنی سول سرونٹس (کارکردگی اور نظم و ضبط) رولز، 1973 اور سول سرونٹس (تقرری، پروموشن اور ٹرانسفر) رولز، 1973 ایسے قوانین کی مثالیں فراہم کرتے ہیں جو اپیل کنندگان اور ان کے آجر یعنی وفاقی حکومت کے درمیان تعلقات پر لاگو ہوتے ہیں۔  ایسے قوانین بلاشبہ، قانونی تھے، جو سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے تحت وفاقی حکومت کو دیے گئے اصول سازی کے اختیارات کے تحت بنائے گئے تھے۔” 

 اور پھر اسکے پیرا 9 میں تین  ممبرز ججز کہتے ھیں 

 پیرا 9:- “ نتیجتاً، T&T ڈیپارٹمنٹ میں اپیل کنندگان کی ملازمت کو کنٹرول کرنے کے لیے جو بھی قواعد موجود تھے، انہیں قانون میں ہی حوالہ کے ذریعے اپنایا گیا اور کارپوریشن پر لاگو اور پابند بنایا گیا۔  اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سیکشن 9 کی وجہ سے ایسے قوانین نے قانونی حیثیت حاصل کر لی ہے جو خود PTC ایکٹ کے ذریعہ تقدیس کی گئی ہے۔  لہذا، ہم بغیر کسی دقت کے یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ کارپوریشن کے ساتھ سروس کے دوران اپیل کنندگان پر لاگو ہونے والے ملازمت کے قواعد قانونی ( statutory rules) تھے۔ تو جب کاپوریشن میں ٹرانسفڑڈ ھونے والے ٹی اینڈ ٹی کے ملازمین پر گورمنٹ کے ھی سرکاری قوانین یعنی statutory rules کا انعقاد ھورھا تھا ، تو یہ کیسے ممکن ھو سکتا ھے  جو نئیے ملازمین کارپوریشن میں بھرتی کئیے ریگولر بھرتی جارھے تھے انپر  بھی انھی  سرکاری قوانین کا اطلاق نہ ھو ؟؟۔ جیسا کے معزز جج صاحب  اس فیصلے میں یہ فرما رھے  ھیں کاپوریشن کے ملازمین پر ان  سرکاری قوانین یعنی statutory rules کا اطلاق ھی نہیں ھو تا اسلئیے انکو ھائی کوڑٹ سے رجوع کرنے کا اختیار ھی نھیں  اسلئیے انکی درخواستیں ناقابل عمل قرار ( non maintainable ) دے کر مسترد کی جاتی ھیں . میں معزز جج صاحب کے اس فیصلے سے بلکل اتفاق نھیں کر سکتا کے جو  ٹی اینڈ ٹی کے ٹرانسفرڑڈ ملازمین کاپوریشن کے میں پی ٹی سی ایکٹ 1991  کے تحت دسمبر 1991 میں  ٹرانسفڑڈ ھوکر آئیے تھے صرف انھی کو گورمنٹ کے سرکاری قوانین یعنی statutory rules کی پرو ٹیکشن تھی اور جو اس ایکٹ 1991 کے بعد   یعنی پاکستان ٹیلی کمیو نیکیشن کارپوریش میں بھرتی ھوئیے تھے انکو یہ گورمنٹ کے سرکاری قوانین یعنی statutory rules کی پرو ٹیکشن حاصل نہیں تھی . یہ صحیح ھوسکتا نھیں کیونکے کاپوریشن میں جو رولز اینڈ ریگولیشن نافظ تھے وہ وھی تھے جو ٹی اینڈ ٹی میں تھے، جسکا فیصلہ پی ٹی سی  بوڑڈ کے 6 فروری 1992 کو سیکنڈ اجلاس میں کیا گیا جو میں اوپر بیان کرچکا ھوں ۔ انکے وکیل انور شاھد باجواہ کا یہ کہنا کے جو لوگ ایکٹ 1991 کے بعد پی ٹی سی میں بھرتی ھوئیے تھے  ان پر گورمنٹ کے  سرکاری قوانین یعنی statutory rules کا اطلاق نھیں ھوسکتا اسلئیے ھائی کوڑٹوں کے کا یہ  دائرہ اختیار ھی نھیں کے وہ آئین کے آڑٹیکل 199 انکی پٹیشنیں سنیں اور ریلیف دیں جسطرح  انکا دائیرہ گورمنٹ کے سول سرونٹ کے لئیے ھوتا ھے۔ انھوں نے یہ سب کچھ اس پی ٹی سی ایل کی اپیل CPNO-4426/2017 میں بیان کیا تھا۔ پی ٹی سی ایل نے یہ اپیل لاھور ھائیکوڑٹ کے ملتان برانچ کے ڈبل بینچ کے 

11 اکتوبر 2017 کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کوڑٹ میں دائیر کی تھی ، جو اسنے پی ٹی سی میں بھرتی ھونے والے ملازمین محمد ارشد اقبال و دیگران کے حق میں دیا تھا ۔ سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ جسکے سربراہ  معزز جج جناب گلزار احمد صاحب تھے ۔ انھوں لاھور ھائیکوڑٹ کے ملتان برانچ کے ڈبل بینچ کے 11 اکتوبر 2017 کے ریسپونڈنٹس  محمد ارشد اقبال و دیگران ، جو لی ٹی سی میں بھرتی ھوئیے تھے، صحیح قرار دیتے ھوئیے پی ٹی سی ایل کی اپیل 16 اکتوبر 2017  کو خارج کردی ۔ جسکا مطلب یہ ھی نکلتا ھے، عدالت عظمی نے یہ کنفرم کردیا کے ایکٹ 1991 کے انعقاد کے بعد کاپوریشن  میں بھرتی ھوئیے والے ریگولر ملازمین کو بھی گورمنٹ کے سرکاری قوانین یعنی statutory rules کی پرو ٹیکشن  حاصل تھی اور انکو پورا اختیار تھا کے وہ اپنے grievances دور کرنے کے لئیے آئین کے آڑٹیکل 199 تحت رجوع کرسکتے ھیں ۔  


ابھی حال ھی اسلام آباد ھائی کوڑٹ کے سنگل بینچ کے جج محترم جسٹس بابر ستار نے وسیم احمد کی رٹ پٹیشن نمبر 3757/2020 بنام فیڈریشن آف پاکستان پر  14 اکتوبر 2021 تفصیلی فیصلہ دیتے تقریبن 75 ایسی رٹ پٹیشنیں نمٹائی تھیں انھو  نے ان رٹ پٹیشنس  تین کٹیگریز ں بنائی تھیں ۔ کٹیگری ون میں وہ پٹیشنرس شامل تھے جو ٹی اینڈ ٹی میی بھرتی ھوئیے ، کٹیگری ٹو میں پٹیشنرس شامل تھے جو  ، ایکٹ 1991 کے  نفاظ کے بعد کاپوریشن  یعنی پی ٹی سی بھرتی ھوئیے تھے اور تیسری کٹیگری وہ پٹیشنر جو ٹی اینڈ ٹی یا پی ٹی سی بھرتی ھوئیے ھوں مگر وی ایس ایس آپٹ کرکے ریٹائیڑڈ ھوئیے ھوں۔ محترم جج جسٹس ستار صاحب نے  سپریم کوڑٹ کے مسعود بھٹی کیس  مسعود بھٹی و دیگران  بنام فیڈریشن آف پاکستان و دیگران ( 2012SCMR152) کا ریفرنسس دیتے ھوئیے لکھا کے جب معزز عدالت عظمی نے ایک cut of date دے دی یعنی یکم جنوری 1996 کی یعنی  جو کارپوریشن کے ملازمین  اس تاریخ کو کارپوریشن سے ٹرانسفڑڈ کمپنی کے ملازم بن گئیے  ان پی  ٹی ( ری آرگنئیزیشن ایکٹ ) 1996 کی شق 35 اور 36 کے تحت ان پر گورمنٹ کے سرکاری قوانین یعنی statutory rules کا ھی اطلاق ھوگا جو سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے تحت گورمنٹ نے بنائیے ھیں  اور جنکا اطلاق گورمنٹ کے سول سرونٹ پر ھوتا ھے۔ تو بات ھی ختم ھوگئی کے یہ کارپوریشن میں کام کرنے والے سول سرونٹ تھے یا ورک  میں تھے یا جو کارپوریشن  میں بھرتی ھوئیے تھے ان پر گورمنٹ کے ان سرکاری قوانین کا اطلاق ھوتا تھا یا نھیں ۔ پھر جسٹس بابر ستار صاحب نے اس ایک 1996 میں دی گئی telecommunication employees کی تعریف کی شق  (t)2  کا ریفرنس دیتے ھوئیے بھی لکھا تھا کے اس تعریف میں کارپوریشن میں کام کرنے تمام ریگولر ملازمین آتے چاھے وہ  ٹی اینڈ  ٹی کے ٹرانسفڑڈ ملازمین  تھے یا جو ایکٹ 1991 کے نفاز کے بعد کارپوریشن میں بھرتی ھوئیے تھے  ۔ ان میں تو ٹی اینڈ ٹی میں ھی  ریٹائڑڈ ھونے ملازمین بھی شامل تھے ۔ پی ٹی سی ایکٹ ۱۹۹۱ کے نفاز سے پہلے ۔ اور ٹرسٹ  میں اس شق  (t)2 کی تعریف میں آنے والے سارے telecommunication employees کو انکی ریٹائیرمنٹ پر اسی ایکٹ 1996 کی شق (d)(1)46   کے تحت انکے استحقاق (entitlement) کے مطابق پنشن دینے کی پابند ھے ۔اس کیس میں محترم جج  جسٹس بابر ستار صاحب نے ، پی  ٹی ای ٹی کے وکیل شاھد انور باجواہ ایڈوکیٹ کا یہ اعتراض مسترد کردیا کیونکے پی  ٹی سی میں بھرتی ھونے والے نئیے ملازمین سول سرونٹ کا درجہ نہیں رکھتے تھے اسلئیے ھائی کوڑٹ سے رجوع کرنے کا اختیار ھی نھیں رکھتے  ھیں ۔جو انھوں نے  وسیم احمد کی رٹ پٹیشن نمبر 3757/2020 بنام اور اپنے ان دلائیل سے واضح کردیا کے  ایکٹ 1991 کے نفاظ کے بعد پی ٹی سی  میں بھرتی ھونے والے ملازمین پر بھی گورمنٹ آف پاکستان کے ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ والے ھی قوانین استعمال ھورھے تھے ۔ انکے خلاف ھر سطح پر انھیں گورمنٹ کے قوانین کا اطلاق ھوتا تھا  جو گورمنٹ نے سول سرونٹ کے لئیے سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے تحت بنائیے گئیے تھے۔ جبکے اس  انٹرا کوڑٹ اپیلوں کے کیس میں محترم جج عامر فاروق کا یہ کہنا تھا کے  جو ملازمین ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ سے ٹرانسفڑڈ ھوکر کارپوریشن میں آئیے  صرف ان پر ھی گورمنٹ کے سرکاری قوانین  یعنی statutory rules کا اطلاق ھوگا اور جو کارپوریشن  میں  بھرتی ھوئیے  ان پر نھیں ھوگا اسلئیے انکو یہ اختیار نھیں کے وہ اپنے grievances دور کرنے کے لئیے ھائی کوڑٹ سے رجوع کرتے۔ اسکے سبب  ھی انھوں نے ایسے تمام پی ٹی سی میں بھرتی ھونے والوں کی رٹ پٹیشنیں ناقابل عمل یعنی non maintainable  قرار دے کر مسترد کردیں۔ انکے ان دلائیل میں کوئی وزن نھیں ھے جسطرح کے  جج محترم جسٹس بابر ستار  کے دلائیل میں وزن ھے ۔ جسمیں انھوں  نے پی ٹی سی میں بھرتی ھونے والے اور  ٹی اینڈ ٹی  سے ٹرانسفڑڈ ھوکر  کارپوریشن کے ملازمین بنے والوں ایک ھی طرح کے گورمنٹ کے قوانین حامل قرار دیا ۔

پی ٹی ای ٹی کے وکیل انور شاھد باجواہ صاحب اسی  نکتے پر مصر تھے کے کے ٹی اینڈ ٹی میں کام کرنے وہ وہ نون گزیٹڈ ملازمین جن کی اپنی یونین بھی ھوتی ھی وھی تمام ورک مین کی کٹیگری میں آتے ھیں اور سول سرونٹ نہیں ھوتے  اسلئیے وہ گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن کے حقدار نہیں ۔انکو وھی پنشن دی جائیے گی جو کمپنی مقرر کرے گی ۔ جبکے عدالت نے اپنے اس فیصلے میں یہ لکھا  کے  ورک مین وھی ھوتے ھیں  اور سول سرونٹ نھیں گورمنٹ سول سرونٹ ایکٹ 1973 کی شق ٹو ون بی کے تحت سول سرونٹ نھیں ھوتے یا رھے اس شق میں کہا گیا ھے سول سرونٹ  کا مطلب ایسا شخض     جو آل پاکستان سروس کا ممبر ھو یا فیڈریشن  کے سول سروس کرتا ھو یا اور جو ایسی سول پوسٹ  پر  متعین ھو  جسکا تعلق ڈیفینس سے ھو  مگر اس میں ایسا شخض شامل نہیں جو یا ۱) فیڈریشن میں کسی صوبے سے آکر ڈیپوٹیشن میں کام کررھا ھو  یا ۲) جو  فیڈریشن میں کنٹریکٹ پر کام کررھا ھو یا  بطور ڈیلی ورک چارجڈ یا  اس کو پیمنٹ ھنگامی بنیادوں پر کی جارھی ھو یا ۳) وہ شخض جو “ ورکر “ یا ورک مین “ کی اس تعریف میں آتا ھو جو فیکٹری ایکٹ 1934 یا ورکمین کمپنسیشن ایکٹ 1923 میں دی گئی ھے۔

جبکے  ورکمین کمپنسیشن ایکٹ 1923 کی شق (n)(1)2 جو ورکمین کی تعریف کی گئی ھے اسکے تحت اسکے شیڈول II میں کی سیریل ix اور xiiia شامل وہ ٹی اینڈ ٹی کے ملازمین جو آؤٹ ڈور کام سے جڑے ھوں یعنی جو ٹیلیگراف یا ٹیلیفون لائنز کی مینٹیننس، ریپئرینگ، اور کیبل وغیرہ کی مینٹیننس وغیرہ وغیرہ کے ھوتے ھیں ۔ اس سے یہ صاف ظاھر کے جو  پی ٹی سی ایل انڈور کام کرتے تھے جس میں ٹیلیفون یا ٹیلیگراف آپریٹرس ، وائیرمین ، کلینرز کلرکس اور ایسے بہت سے ایسے آتے تھے وہ ورکمین نہیں کہلاتے تھے اور وہ سول سرونٹ کی تعریف میں آتے تھے۔

اب میں  اس فیصلے کے پیرا 19 کی طرف آتا ھے جس میں عدالت نے اوپر تحریر کئیے   ھوئیے دلائیل کے  نتیجہ بنیاد پر اس میں احکامات جاری کئے ھیں  


پیرا (i )19:- اس پیرے میں بیان کیا گیا ھے کے سابقہ ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ کے ملازمین جو سول سرونٹ ایکٹ  1973 کی شق (b)(1)2 دی گئی سول سرونٹ کی تعریف میں آتے ھیں اور جن کی گورمنٹ والی  سروس ٹرمز اینڈ  کنڈیشنس کا اس ایکٹ 1973 کی سیکشن 3  سے 22 تحت تحفظ حاصل ھے اسلئیے وہ اسی گورمنٹ پینشنری بینیفٹس کے اضافہ جات کے حقدار ھیں جسطرح گورمنٹ کے ملازمین انجوائے کررھے ھیں ماسوائیے ان ملازمین کے جو ایسے پنشنری بینیفٹس لے رھے  جو کوئی معاوضہ  لینے کی وجہ سے انکو ملررھا ھے جو گورمنٹ کے ملازمین نھیں لے رھے ۔اس سے انکا مطلب یہ کے تما م ٹی اینڈ کے وہ تمام ملازمین  جو سول سرونٹ کے زمرے میں آتے ھیں اور جو کارپوریشن اور کمپنی میں ٹرانسفڑڈ ھوئیے تھے وہ اس گورمنٹ کی  اس اعلان کردہ پنشن انکریز  کے مکمل حقدا ر ھیں جو وہ اپنے ریٹائیڑڈ سول سرونٹ کو دیتی ھے بشرطیہ کے انکی ریٹائیرمنٹ کسی کمپنسیشن لینے کے بنیاد پر نہ ھو۔ یعنی وہ جو صرف نارملی گورمنٹ کے پینشن کے قوانین کے مطابق ھی ریٹائیڑڈ ھوئیے ھوں وھی حقدار ھیں ۔یہاں یہ بات قابل زکر ھے کے عدالت نے یہ حکم صرف ایسے ریسپونڈنٹ کے لئیے نہیں دیا بلکے  بلکے سب ایسے سابقہ ان تمام ٹی اینڈ ٹی کے ملازمین کے لئیے دیا ھے  جو سول سرونٹ ایکٹ  1973 کی شق (b)(1)2 دی گئی سول سرونٹ کی تعریف میں آتے ھیں اور نارملی ریٹائیڑڈ ھوئیے ھوں ۔ میں سمجھتا ھوں ایسے تمام ملازمین جو کسی مقدمے کاحصہ نھیں تھے وہ بھی انکو گورمنٹ کی پنشن انکریزز ادا کرنے کا نوٹس دے سکتے ھیں اور نہ دینے کی صورت میں انکے خلاف توھین عدالت کا کیس بھی کرسکتے ھیں ۔ بہر حال انکو کسی اچھے وکیل سے مشورہ کرنا بیحد ضروری جو آئینی امور اور سروس کیسس کا ماھر ھو۔


پیرا (ii)19:- اس پیرے میں بیان کیا گیا کے وہ سابقہ ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ کے ملازمین جو سول سرونٹ ایکٹ  1973 کی شق (b)(1)2 دی گئی سول سرونٹ کی تعریف میں  نہیں آتے انکو   گورمنٹ والی  سروس ٹرمز اینڈ  کنڈیشنس کا اس ایکٹ 1973 کی سیکشن 3  سے 22 تحت تحفظ نھیں حاصل ھے اسلئیے انکو ریٹائیڑڈ گورمنٹ سرونٹ والے پینشنری بینیفٹس کے انکریزز نھیں دئیے جاسکتے۔ مجھے اس فیصلے سے اختلاف ھے کیونکے سپریم کوڑٹ کے پانچ رکنی ممبرز ججز نے انکی مسعود بھٹی کیس 2012SCMR152 کے خلاف 19 فروری 2016 انکی رویو پٹیشن کے خارج ھونے والے تفصیلی فیصلے یعنی 2016SCMR1362  میں کہا ھے ایسے کمپنی میں کاپوریشن سے  ٹرانسفڑڈ ھونے والے ملازمین کو سول سرونٹ نہیں کہا جاسکتا تاھم ان پر ان سبکو گورمنٹ والی  سروس ٹرمز اینڈ  کنڈیشنس کا اس ایکٹ 1973 کی سیکشن 

3  سے 22 تک کا  تحفظ یعنی پروٹیکشن حاصل رھے گا - اور اسکی خلاف ورزی پر  انکو اختیار ھے کے وہ ھائی کوڑٹوں سے آئین کے آڑٹیکل 199 کے تحت رجوع کرسکتے ھیں ۔ اس میں انھوں نیں یہ کہیں نھیں  لکھا کے یہ تحفظ صرف ان سابقہ ٹی اینڈ ٹی کے ملازمین کو ھی حاصل ھوگا جو سابقہ ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ میں سول سرونٹ کی اس تعریف میں آتے ھیں جو سول سرونٹ ایکٹ 1973 کی شق (b)(1)2  میں دی گئ ھے۔

جو ایسے ریسپونڈنٹس اس فیصلے سے متاثر ھوئیے ھیں انکو انھی گراؤنڈ پر سپریم کوڑٹ میں فورن اپیل کرنی چاھئیے کسی اچھے اور آئینی ماھر وکیل کو انگیج کر کے ۔


پیرا (iii)19:- اس پیرے میں کہا گیا ھے کے ٹی اینڈ ٹی کے ملازمین جو  کمپنسیشن ایکٹ 1923, یا فیکٹریز ایکٹ 1934 میں دی گئی ھوئیی تعریف  کے زمرے میں آتے ھیں اور سول سرونٹ نہیں ھوتے اسلئیے وہ اس پینشنری بینیفٹس میں اضافے کا حقدار نھیں جو گورمنٹ کے سول سرونٹ وصول کررھے ھیں ۔ مجھے اس فیصلے سے بھی اختلاف ھے کیونکے جو ملازمین  کارپوریشن سے یکم جنوری 1996  کو کمپنی میں ٹرانسفڑڈ ھو کر آئیے  ان میں سے کوئی بھی سول سرونٹ کا سٹیٹس نھیں رکھتا تھا۔ چاھے وہ کارپوریشن میں ٹی اینڈ ٹی سے پی ٹی سی ایکٹ 1991 کے تحت ٹرانسفر ھوکر آیا ھو چاھے وہ کارپوریشن میں بھرتی ھوا ھوا ان سب پر سابقہ ٹی اینڈ ٹی کے رولز اور ریگولیشن کا ھی اطلاق ھورھا تھا  ( اوپر تفصیل سے بتا چکا ھوں) تو جب یہ کمپنی میں cut off date یعنی  یکم جنوری 1996 کو اسکے ملازم بن گئیے ان پر گورمنٹ کے ان سرکاری قوانین اطلاق statutory rules کا ھی اطلاق ھورھا تھا جو گورنمنٹ نے سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے تحت اپنے سول سرونٹ کے لئیے بنائیے تھے۔ یہ سب کچھ سپریم کوڑٹ نے مسعود بھٹی کیس یعنی اچھی طرح واضح کردیا تھا اسکی تفصیل بھی اوپر بتا چکا ھوں ) ۔

جو ایسے ریسپونڈنٹس اس فیصلے سے متاثر ھوئیے ھیں انکو انھی گراؤنڈ پر سپریم کوڑٹ میں فورن اپیل کرنی چاھئیے کسی اچھے اور آئینی ماھر وکیل کو انگیج کر کے 


پیرا (iv)19: اس پیرے میں بتایا گیا ھے کے سابقہ ٹی اینڈ ٹی کے  ملازمین کو جنکو گورمنٹ والی  سروس ٹرمز اینڈ  کنڈیشنس کا اس ایکٹ 1973 کی سیکشن 3  سے 22 تک کا  تحفظ یعنی پروٹیکشن حاصل نہیں تھا  اور سروس ٹرمز  قانونی یعنی statutory نہیں تھے ، انکی پٹیشنیں آئین کے آڑٹیکل 199 کے تحت ناقابل  عمل non maintainable ھیں ۔ مجھے اس فیصلے سے بھی اختلاف ھے ۔کیونکے جیسے  اوپر پیرا (ii)19  میں بتایا ھے کے سپریم کوڑٹ کے پانچ رکنی ممبر ججز نے، انکی مسعود بھٹی کیس 2012SCMR152 کے خلاف 19 فروری 2016 انکی رویو پٹیشن کے خارج ھونے والے تفصیلی فیصلے یعنی 2016SCMR1362  میں کہا ھے ایسے کمپنی میں کاپوریشن سے  ٹرانسفڑڈ ھونے والے ملازمین کو سول سرونٹ نہیں کہا جاسکتا تاھم ان پر ان سبکو گورمنٹ والی  سروس ٹرمز اینڈ  کنڈیشنس کا اس ایکٹ 1973 کی سیکشن 3  سے 22 تک کا  تحفظ یعنی پروٹیکشن حاصل رھے گا - اور اسکی خلاف ورزی پر  انکو اختیار ھے کے وہ ھائی کوڑٹوں سے آئین کے آڑٹیکل 199 کے تحت رجوع کرسکتے ھیں ۔ اس میں انھوں نیں یہ کہیں نھیں  کہا اسکا مطلب یہ ھی نکلتا چاھے ایسا ملازم ٹی این ٹی میں بھرتی ھوا ھو یا کارپوریشن مگر یکم جنوری 1996 کو کمپنی کا ملازم ھوگیا ایسے تمام ملازمین سول سرونٹ ایکٹ 1973 کی سیکشن 3  سے 22 تک کا  تحفظ یعنی پروٹیکشن حاصل رھے گا -اور اس وجہ سے انکو یہ اختیار حاصل ھوگا وہ اپنے grievances دور کرنے کے لئیے ھائی کوڑٹوں سے آئین کے آڑٹیکل 199 کے تحت رجوع کرسکتے ھیں اور ھائی کوڑٹیں انکی ان آئین کے آڑٹیکل 199 کردہ درخواستوں کو ناقابل عمل یعنی non maintainable قرار دے کر مسترد نھیں کرسکتیں۔ جو ایسے ریسپونڈنٹس اس فیصلے سے متاثر ھوئیے ھیں انکو انھی گراؤنڈ پر سپریم کوڑٹ میں فورن اپیل کرنی چاھئیے کسی اچھے اور آئینی ماھر وکیل کو انگیج کر کے ۔


پیرا(v)19:- اس پیرے میں کہا گیا ھے جو ملازمین پی ٹی سی ایکٹ 1991 کے بعد یعنی کارپوریشن میں بھرتی ھوئیے انپر لاگو قانون  سرکاری نھیں تھے جسطرح سابقہ ٹی اینڈ ٹی۔ وہ۔ ملازمین  کے تھے   جو سول سرونٹ  کی تعریف میں آتے تھے۔ اسلئیے انکی بھی درخواستیں آئین کے آڑٹیکل 199 کے تحت ھائی کوڑٹ میں ناقابل عمل یعنی non maintainable  ھیں ۔ مجھے اس سے بھی اختلاف ھے۔ میں اسکے متعلق تفصیل سے اوپر بتاچکا ھوں کے اسلام آباد ھائی کوڑٹ کے سنگل بینچ کے جج محترم جسٹس بابر ستار نے وسیم احمد کی رٹ پٹیشن نمبر 3757/2020 بنام فیڈریشن آف پاکستان پر  14 اکتوبر 2021 تفصیلی فیصلہ دیتے   ھوئیے  کٹیگری 2  میں شامل ان پی ٹی سی ایل کے ریٹائیڑڈ ملازمین پٹیشنروں  کو جو پی ٹی سی میں ایکٹ 1991 کے نفاز کے بعد بھرتی ھوئیے ، انھیں statutory rules کا حامل قرار دیا جسطرح  کٹیگری  1 میں شامل  سابقہ ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ کو وہ ریٹائیڑڈ ملازمین پٹیشنرز شامل تھے جن پر انھی سرکاری قوانین یعنی statutory rules کا اطلاق ھوتا تھا ۔ اسلئیے  انکو بھی آئین کے آڑٹیکل 199 کے تحت ھائی کوڑٹ سے رجوع کرنے اختیار بھی  حاصل تھا۔جو ایسے ریسپونڈنٹس اس فیصلے سے متاثر ھوئیے ھیں انکو انھی گراؤنڈ پر سپریم کوڑٹ میں فورن اپیل کرنی چاھئیے کسی اچھے اور آئینی ماھر وکیل کو انگیج کر کے ۔


پیرا(vi)19:- اس پیرے میں کہا گیا ھے کے سابقہ ٹی اینڈ ٹی کے وہ ملازمین  جنھوں نے اپنی رضامندی سے  اس وی ایس ایس  کو قبول کیا اور معاوضہ لیا جسکی وجہ سے سے انکی سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس تبدیل ھوگئیے اسلئی وہ گورمنٹ کی اس اعلان کردہ پنشن انکریز کے حقدار نھیں ۔مجھے اس فیصلے سے بیحد اختلاف ھے۔ جج محترم کا یہ کہنا  سابقہ ٹی اینڈ ٹی کے وہ ملازمین جنھوں نے جنھوں نے وی ایس ایس آپٹ کیا انکے گورمنٹ والے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس تبدیل ھوگئیے اسلئیے وہ گورمنٹ کی اس پنشن انکریز لینے کے حقدار نہیں وہ اسلئی کے سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ نیں 7 اکتوبر 2011 کو  اپیلنٹ مسعود بھٹی ،نصیرالدین غوری اور سید دل آویز   کے حق میں جو فیصلہ یہ دیا ھے کے یہ جو اپیلنٹ یکم جنوری 1996 کو کارپوریشن سے ٹرانسفڑڈ ھوکر کمپنی میں آئیے تھے ان کمپنی میں ان گورمنٹ کے سرکاری قوانین کے تحت ھی کام کریں گے جو حکومت نے اپنے سول سرونٹ لے لئی گورمنٹ سول سرونٹ ایکٹ 1973  کے تحت بنائیے تھے ۔ اور کمپنی یا حکومت کو اس کا بلکل اختیار نھیں ان کے  اس قوانین  میں کوئی ایسی منفی تبدیلی کریں جن سے انکو فائیدہ نہ ھو ۔ انکو سول سرونٹ کی طرح ھائی کوڑٹ  سے آئین کے آڑٹیکل 199 کے تحت رجوع کرنے کا اختیار حاصل ھوگا۔ جبھی تو عدالت نے اپنے اس فیصلے کے آخر میں مسعود بھٹی اور سید دل آویز کے لئیے یہ قرار دیا تھا کے وہ سمجھیں کے انکی سندھ ھائی کوڑٹ میں پینڈنگ پڑی ھوئی ھیں ۔ [یاد رھے سندھ ھائی کوڑٹ کے ڈویژن بینچ جسکے ممبران میں موجودہ چیف جسٹس جسٹس گلزار احمد  اور جسٹس شاھد انور باجواہ تھے جو پی ٹی ای ٹی   کے  اسوقت وکیل ھیں جنھوں میں پی ٹی سی ایل میں ایسے ٹرانسفڑڈ ایمپلائیز کی متعددہ پٹیشنروں کو ناقابل عمل یعنی non maintainable  کر  اس بنا پر خارج  کے انک کمپنی میں کوئی statutory provision نہیں کیونکے یہ کمپنی کے ایمپلائی  ھیں اور انکو یہ اختیار ھی نہیں وہ ھائی کوڑٹ سے آئین کے آڑٹیکل 199 کے تحت رجوع کرتے  ] اور ابھی اسپر فیصلہ ھائی کوڑٹ نے دینا ھے ۔ یاد رھے  اپیلنٹ  مسعود بھٹی سابقہ ڈائیریکٹر (B-19) پی ٹی سی ایل  وی ایس ایس 2008 آپٹ کرکے ریٹائیڑڈ ھوئیے تھے ۔ عدالت عظمی نے تو انکو کے لئی یہ بلکل نھیں کہا چونکے وہ وی ایس ایس آپٹ کرکے ریٹائیڑڈ ھوئیے ھیں اسلئے انکے گورمنٹ والے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس تبدیل ھوگئیے ھیں  تو عدالت عظمی کے اس فیصلے سے یہ تقویض پہنچتی جو ٹرانسفڑڈ ملازمین وی ایس ایس کسی بنا شرط کے قبول کرکے ریٹائیڑڈ ھوئیے ھیں  وہ ریٹائیرمنٹ پر اسی پنشن اور اسکے بینیفٹس کے حقدار  ھیں جو ریٹئیڑڈ سول سرونٹ لے رھے ھیں ۔ دوسرے 12 جون 2015 سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ کے  اس فیصلے  سے بھی یہ کنفرم ھوجاتا ھے کے وی ایس ایس آپٹ کرکے ریٹائیڑڈ ھونے والے بھی اسی گورمنٹ  کی اعلان کردہ پنشن انکریز  کے اختیار  رکھتے ھیں جو وہ اپنے ریٹائیڑڈ سول سرونٹ کو دیتی ھے۔ یا د رھے ۔ پی ٹی ای ٹی نے اسلام آباد ھائی کوڑٹ اور پشاور ھائی کوڑٹ  کے ان فیصلو ں کے خلاف سپریم کوڑٹ میں اپیلیں داخل کی تھیں جنھوں  نے ان عدالتوں سے  گورمنٹ کا اعلان  کردہ   پنشن انکریزز  لینے کا ریلیف حاصل کرلیا تھا۔  یہ ریلیف حاصل کرنے میں  وی ایس ایس 2008 آپٹ  کرکے ریٹائیڑڈ سابقہ ٹی اینڈ کے کے وہ  ملازمین  پٹیشنرز بھی شامل تھے جو سول سرونٹ کے زمرے میں آتے تھے ۔ 12جون 2015 کو سپریم کوڑٹ نے پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل کی  تمام اپیلیں خارج کردیں اور تمام ریسپوںڈنٹس کو  جس میں نا صرف وہ ریٹائیڑڈ  ملازمین شامل تھے جو ساٹھ سال کی عمر میں نارملی ریٹائیڑڈ ھوئیے تھے  بلکے وہ بھی شامل تھے جو وی ایس ایس ۲۰۰۸ آپٹ کرکے ریٹائیڑڈ ھوئیے تھے ۔ اور ان سب کو گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن  دینے کا حکم دیا تھا۔ اس  12 جون 2015 کے ان فیصلے  خلاف انکی رویو پٹیشن بھی 17 مئی 2017 کو خارج ھوگئی تھی اور اب یہ  12 جون 2015 کا عدالت عظمی یہ فیصلہ امر ھوگیا تو جج صاحب کا یہ فیصلہ سپریم کوڑٹ کے اس سے 12 جون 2015 کے فیصلے سے متصادم ھے  اور صحیح نھیں ۔ اسلئیے قابل چیلنج ھے ۔تو جو ایسے ریسپونڈنٹس اس فیصلے سے متاثر ھوئیے ھیں انکو انھی گراؤنڈ پر سپریم کوڑٹ میں فورن اپیل کرنی چاھئیے کسی اچھے اور آئینی ماھر وکیل کو انگیج کر کے ۔


پیرا (vii)19:- اس پیرے  میں  کہا گیا کے   پی ٹی سی ایکٹ 1991 کی شق (1)9 کے تحت سابقہ ٹی اینڈ ٹی سے کارپوریشن میں  ٹرانسفڑڈ ھونے والے سول سرونٹ کے زمرے میں آنے والے ملازمین وہ اس الاؤنس  اور بینفٹس کے حقدار نہیں ھیں جو  کارپوریشن میں ٹرانسفڑڈ کے وقت شامل نہیں تھے ۔ مطلب یہ ھوا انکی اس ٹرانسفڑڈ کے بعد گورمنٹ کے سول سرونٹ کو ملنے والے ان الاؤنسس  اور بینیفٹس کے حقدار نھیں ھیں جو گورمنٹ کے دیگر ڈیپاڑٹمنٹ میں کام کرنے والے سول سرونٹ کو دئیے جارھے ھیں ۔ میں سمجھتا ھوں یہ صحیح نھیں ھے کیونکے پی ٹی سی ایکٹ 1991 کی شق (1)9 کا تعلق  ان ھی سروس ٹرمز  اور کنڈیشنس کےمتعلق ,   کارپوریشن میں آنے سے فورن پہلے  انکا تھا مثلاً   The Civil Servant (E&D)rules 1973, the Civil Servants ( Appointment, Promotion and Transfer) Rules etc. جہاں تک تنخواہ اور اسکے ساتھ الاؤنسس دینے کا تھا وہ تو انکو وھی مل رھی تھیں جو انکے ٹرانسفر سے فورن پہلے انکو مل رھیں تھیں اور جو دیگر گور منٹ ڈیپاڑٹمنٹ کے سول سرونٹ لے رھے تھے اور جب بھی گورمنٹ نے انکے تنخواھوں میں اضافہ کیا اور کوئی نئیے الاؤنسس یا ایڈھاک الاؤنس دینے کا اعلان کارپوریشن میں ٹرانسفڑڈ ھوکر آنے والے ان سابقہ ٹی اینڈ ٹی میں کام کرنے والے ملازمین کو بھی ضرور دیا گیا۔ جیسے جب 1994 گورمنٹ نے اپنے سول سرونٹ کے تنخواھوں کے اسکیل ریوائیزڈ کئیے تو کارپوریشن میں کام کرنے والے ان سابقہ ٹی اینڈ ٹی کے ملازمین کے تنخواھوں کے اسکیلز ، جو گورمنٹ کے سول سرونٹ کی ھی طرح تھے ، وہ بھی ریوائیزڈ اسی طرح کردئیے گئیے ۔ جب یہ کارپوریشن کے ملازمین یکم جنوری 1996 کو کمپنی یعنی پی ٹی سی ایل میں ٹرانسفڑڈ ھوئیے اور اسکے ملازم بن گئیے تو پی ٹی سی ایل میں بھی ان کے گورمنٹ والے پے سکیلز  یکم دسمبر 2001 سے ریوائیزڈ کردئیے گئیے گورمنٹ کے اعلان کے مطابق . مگر پی ٹی سی  ایل  نے یکم جولائی 2005  گورمنٹ کے اعلان کردہ  ریوائزڈ پے اسکیلز نھیں دئیے اور اپنی طرف سے اس میں الاؤنسس لگا دئیے ۔ پی ٹی سی ایل میں موجودہ   کام کرنے والے ایسے ملازمین کو  وہ گورمنٹ کی اپنے سول سرونٹ کو دینے تنخواھیں اور متعلقہ الاؤنسس نھیں مل رھے جو گورمنٹ کے سول سرونٹ کو مل رھے ھیں ۔ جو ٹی اینڈ ٹی  کے ملازمین ، ایکٹ 1991 کے نفاذ سے پہلے  ھی ریٹائڑڈ  ھو چکے تھے انکو گورمنٹ کے پنشن فنڈ سے پنشن مل رھی تھی ، لیکن ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ 

کی تحلیل  ھونے کے بعد  اور کارپوریشن کی تشکیل ھونے پر  جب یہ سوال 

پیدا ھوا کے ان پہلے سے  ٹی اینڈ ٹی میں ریٹائڑڈ ھونے والوں کو کہاں سے پنشن دی جائیے ۔ تو حکومت نے کارپوریشن میں ایک “پنشن فنڈ “ قائیم کیا اور اسکا ٹرسٹیز کارپوریشن کے چئیرمین  اور دیگر اسکے  پانچ سنئیر ترین آفیسران کو بنایا گیا اور 2 اپریل 1994 کو ایک ٹرسٹ ڈیڈ سائین کیا گیا ۔ اس ٹرسٹ ڈیڈ کے مطابق ٹرسٹیز  یعنی کارپوریشن ان ٹی اینڈ میں ریٹائیڑڈ ھونے والے تمام ملازمین کو اور جو آئندہ  مستقبل میں ریٹائیڑڈ ھونگے انکو فیڈرل گورمنٹ کے پنشن قوانین کے مطابق حقدار ریٹائیڑڈ ملازم   کو پنشن ادا کریگا ۔ ایک اھم شرط اس ٹرسٹ ڈیڈ میں دی گئیی  ھوئی جو اسکے  preamble کے سیکشن 2 گئی ھے جسمیں کہا گیا ھے “ کارپوریشن  میں ٹرانسفڑڈ ھونے والے تمام ڈیپاڑٹمنٹل ایپملائیز جو پی ٹی سی ایکٹ سیکشن 9 کے تحت آئیے ھیں ، وہ ان تمام گورمنٹ کے بینیفٹ کے حقدار ھیں جو فیڈرل گورمنٹ پنشن رولز میں دئیے گئیے تعریف میں آتے ھیں جو ان پر کارپوریشن ٹرانسفڑڈ سے پہلے ان پر قابل اطلاق ( applicable ) تھا۔ جسکا صاف طلب یہ تھا کے جن   ٹی اینڈ ریٹائڑڈ ملازمین ، کاپوریشن کی تشکیل میں جو پنشن مل رھی تھی اور جو کچھ بھی اسکے ساتھ مل تھا، ٹرسٹی کارپوریشن انکو وھی  پنشن اور اسکے ساتھ دینے والے بینیفٹس  نہ صرف انکو  ھی نھیں بلکے اور جو بھی ریٹائیڑڈ ھونگے  ، ان سب کو وھی دیں گے ۔ اگر سابقہ ٹی اینڈ ٹی میں ایک گریڈ 20 کے کے ریٹائیڑڈ ملازم کو اردلی الاؤنس مل رھا تھا تو ہ ھی اردلی ایک گریڈ 20 کی  کارپوریشن ریٹئیڑڈ ھونے والے ڈیپاڑٹمنٹل ایمپلائی کو بھی  ضرور دیا جائیے گا [ یاد رھے کارپوریشن میں ٹی اینڈ ٹی سے ٹرانسفڑڈ ھونے والے تمام ریگولر ملازمین کو ، اس ایکٹ 1991 کی شق تحت (e)2 ڈیپاڑٹمنٹل ایمپلائیز  کہا گیا ھے] ۔  اور  جب پی ٹی ( ری آرگنائزیشن ) ایکٹ 1996 کی شق 34 کے  تحت یکم جنوری 1996 سے ، جہاں کمپنی یعنی پی ٹی سی ایل کی تشکیل کی گئی  وھیں اسیی ایکٹ 1996 کی شق (1)44 کے تحت پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن ایمپلائیز ٹرسٹ قائم  کی گئی  جسکے زریعے ایک بوڑڈ آف ٹرسٹیز کا قیام کیا گیس جسکی زمہ داری ان تمام ریٹائڑڈ ٹی اینڈ کے ملازمین جو ٹی اینڈ ٹی میں ریٹائیڑڈ ھوئیے تھے یا کارپوریشن یا کمپنی میں ریٹائڑڈ ھوئیے تھے اور ھونگے  ، انکو ریٹائیرمنٹ پر گورمنٹ والی ھی پنشن اور اسکے بینیفٹس دینا تھا۔ حکومت نے اس مقصد کے لئیے کارپوریشن کے ساتھ  اپریل 1994 کو   کارپوریشن اسی ٹرسٹ ڈیڈ کے زریعے قائم کردہ پنشن فنڈ ، اسکی زمہ داریوں ( liabilities )  کے ساتھ اس ایکٹ 1996 کی شق (1)45 کے تحت پی  ٹی ای ٹی کے بوڑڈ آف ٹرسٹیز  کو تقویض کردیا تھا اور بوڑڈ آف ٹرسٹیز کو اس کا 

پا بند  کردیا کے وہ اس ٹرسٹ ڈیڈ کے  مطابق ان تمام ریٹائیڑڈ ٹی اینڈ کے ملازمین  ، کارپوریشن  اور کمپنی میں ریٹائیڑڈ  ھونے  والے ملازمین [جنکو   ٹیلی کمیونیکیشن ایمپلائیز   اس ایکٹ 1996 کی شق (t)2  کے تحت کہا جاتا ھے یعنی وہ تمام اشخاض جو کمپنی میں یکم جنوری 1996 س پہلے کارپوریشن کے ملازم تھے تو سوال پیدا ھوا  

ٹی اینڈ ٹی میں ریٹائڑڈ ھونے والوں کو کہاں سے پنشن دی جائیے [جو کارپوریشن کے ملازم تھے اور وہ جو ٹی اینڈ ٹی فیڈرل گورمنٹ ڈیپاڑٹمنٹ کے ریٹئیڑڈ ملازمیین کارپوریشن سے پینشنری بینیفٹس لے رھے تھے  یا وہ  کارپوریشن میں ریٹئرمنٹ پر یہ لینے کا اختیار رکھتے تھے وہ سب ٹیلی کمیونیکیشن ایمپلائیز  کہلاتے ھیں ]  ان سب کو اس ٹرسٹ ڈیڈ کے مطابق فیڈرل گورمنٹ پنشن رولز کے تحت ھی  ٹرسٹ انکو گورمنٹ والی پنشن اور اسکے بینیفٹس دینے کے لئیے، اس ایکٹ 1996 کی شق (d)46 کے تحت انکے حق ( entitlement) کے مطابق پنشن اور اسکے بینیفٹس دینے کے پابند ھیں ۔ یعنی وہ پنشن بینیفٹس جو حکومت نے اپنے ریٹائیڑڈ سول سرونٹ کو دیتی تھی اور  دے رھی ھے۔ عدالت کا یہ کہنا صحیح نہیں  موجودہ گورمنٹ  کے ریٹائیڑڈ سول سرونٹ  جو پینشنری بینیفٹس لے رھے ھیں اسکے حقدار پی ٹی سی ایل سے ریٹائیڑڈ ھونے والے ایسے نہیں  ملازمین نہیں ھیں۔ اس ٹرسٹ ڈیڈ کا زکر سپریم کوڑٹ کے  اس 12 جون 2015 کے فیصلے میں بھی موجود ھے ۔عدالت نے  سبکو عدالت عظمی نے گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریزز دینے کا ٹرسٹ کو پابند ٹھرایا تھا۔ اس ڈیڈ کے بارے  میں ریسپونڈنٹس کے کسی بھی  وکیل نے عدالت کو  آگاہ نہیں کیا اگر وہ کردیتے  ھوسکتا ھے کے عدالت 

یہ موقف اختیار ھی نھیں کرتی ۔

عدالت نے اس فیصلے کے پیرے 13 میں اس 2 اپریل 1994 گورمنٹ کی کارپوریشن کے ساتھ ھونے وکی ٹرسٹ ڈیڈ  جسکے تحت ٹیلیکمیونیکیشن کارپوریشن ایپملائیز فنڈ قائیم کیا گیا ، اسکے پیرا 2  کے متعلق تحریر کیا ھے “ وہ تمام ڈیپاڑٹمنٹل ایمپلائیز  جو کاپوریشن  میں ٹرانسفڑڈ ھوکر آئیےجنکی  تعریف  ایکٹ  1991 کے سیکشن   ۹ کی گئی ھے وہ انھی مراعات ( benefits) کے حقدار ھونگے جو فیڈرل  گورمنٹ کے پنشن رولز میں دئیے گئیے ھیں ، جنکا اطلاق  کارپوریشن کے قیام سے پہلے ایسے ملازمین پر تھا۔سپریم کوڑٹ کا اپنے 12 جون 2015 کے فیصلے میں اسکا زکر کرنا ، اس چیز کی عمازی کرتا ھے ، کے ایسے ریٹائیڑڈ ملازمین اسی پنشن اور پنشن کے ساتھ دئیے گئیے بینیفٹس کے لازمن حقدار رھیں گے جس طرح گورمنٹ کے ریٹائیڑڈ ملازمین حقدار ھیں اس میں کسی بھی قسم کا امتیازی سلوک  یعنی discrimination نھیں  کیا جاسکتا ھے  ۔ جو آئین کے آڑٹیکل 27 سے متصادم ھو یا اسکی خلاف ورزی کی 

گئی ھو


20:- اس پیرے میں بتایا گیا ھے مندرجہ بالا اصولوں کی بنیاد پر  میں پٹیشنروں  کو رٹ پٹیشنز میں نمٹانے کے لیے کچھ حقائق کا تعین کرنا شامل ہے۔ ایسے حقائق کا ثبوت  نہ تو ججز کے چیمبر دیا گیا اور نہ ھی  اپیلوں میں ۔ اس لیے اپیلوں میں بھی نہیں شامل نہیں کیا جا سکتا.  بصورت دیگر، ریسپونڈنٹس کا یہ موقف ہے کہ وہ  سبھی سرکاری ملازمین ہیں اور پنشنری مراعات میں اضافے کے حقدار ہیں، جبکے پٹیشنرز  نے اس پر شدید اختلاف کیا ھے لہٰذا یہ متنازعہ سوالیہ حقائق کے مترادف ہے (یعنی ایک  dispute پیدا ھوگیا ) تاہم 

ہم محسوس کرتے ہیں کہ  ان معاملات کو پہلے عدالت کے دائیرے کار میں لانے کے ، پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کو چاھئیے کے وہ جو اصول ھم نے اوپر واضح کردئیے ھیں اسکے ھی مطابق ایک مشق کرے اور  ان ریٹائیڑڈ  ایمپلائیز  کے پنشنری فوائید میں اضافے  کا تعین کرے ۔تاھم اگر کوئی ملازم اس سے مطمئن نھیں ھوتا  یا ھوتی تو  وہ مجاز دائرہ اختیار کی عدالت سے اسکا  کا فائدہ اٹھا سکتا /سکتی ھے۔

اس پیرے کے اندراج کا مطلب تو میں یہ ھی سمجھا ھوں کے عدالت میں پٹیشنروں کے وکیل نے یہ جو بیان بار بار دیا تھا کے  گریڈ 1 سے لیکر گریڈ 15  تک کی کٹیگری کے ملازمین جو  پی ٹی سی ایکٹ 1991 کی سیکشن 9 کے تحت ٹرانسفڑڈ ھوکر کارپوریشن میں آئیے تھے وہ ورک مین تھے اور سول سرونٹ نھیں تھے۔ مگر انکے وکیل عدالت میں اسکے متعلق کوئی ثبوت عدالت کو  فراھم نہ کرسکے  (انکے وکیل شاھد انور باجواہ صاحب نے  اس بارے جو کچھ عدالت میں  بیان کیا ، اس فیصلے کے پیرا نمبر 4 لکھا ھے )۔ تو عدالت نے اسی بنیاد پر اس پیرے نمبر 20 میں کہا ھے کے اسنے جو اس سلسلے میں اصول واضح کردئیے ھیں  یعنی کے کون سول سرونٹ ھے اور کون نھیں ھوسکتے، اسی کی روشنی میں  وہ  گریڈ 1 سے لیکر گریڈ 15  تک کی کٹیگری کے ملازمین کا تعین کرے کے کون ورکمین تھے اور کون سول سرونٹ،  جو پنشنری بینفٹس میں اضافے کا حقدار ھیں  ۔ اگر ایسے ملازمین جو حقیقت میں  ، سول سرونٹ کی کٹیگری میں عدالتی حکم میں متعین کردہ اصولوں کے مطابق  آتے ھیں  مگر پی ٹی ای ٹی / پی ٹی سی ایل  انکو  سول سرونٹ ماننے سے انکار کر دیتی ھے ۔ تو وہ مجاز عدالت سے جسکے دائیرہ اختیار میں یہ سب کچھ آتا ھو ،  اس سے فائیدہ حاصل کرنے کے لئے رجوع کرسکتے ھیں۔


اب اس 2 نومبر 2021   کے اس فیصلے   کے بعد کی موجودہ صورت حال یہ ھے کے  اسکے پیرا (i )19  کے مطابق حامل جن ریسپونڈنٹس کے حق میں جو فیصلہ آیا ، انھوں نے پٹیشنر پی ٹی ای ٹی کو گورمنٹ پینشن کے بقایا جات ۱۵ دن کے اندر اندر کرنے کے نوٹسس ایشو کئیے اور نہ دینے کی صورت میں توھین عدالت کے کیسس کرنے کی دھمکی دی ۔ مگر پی ٹی ای ٹی نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کوڑٹ میں اپیلیں  CPLA داخل کردیں  ھیں تاکے انکے خلاف توھین عدالت کے کیسس نہ کئیے جاسکیں ۔ اس سلسلے میں ، میں تفصیلن اپنے آڑٹیکل 155 میں بتا چکا ھوں۔

واسلام

محمد طارق اظہر

ریٹائیڑڈ جنرل منیجر ( آپس) پی ٹی سی ایل

راولپنڈی

 26 دسمبر 2021





 














Comments

Popular posts from this blog

.....آہ ماں۔

Article-173 Part-2 [Draft for non VSS-2008 optees PTCL retired employees]

‏Article-99[Regarding clerification about the registration of the Ex-PTC employees of any capacity with EOBI by PTCL]