Article-172 [ Detail report on hearing of PTCL pensioner cases on 29th April 2024]
Article-172
موضوع:- سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ کے 29 اپریل 2024 کو پی ی ٹی سی ایل ملازمین اور پنشنروں کے 167 قریب کیسسز کی ھئیرنگ کے بعد دئیے احکامات کی آڑڈڑ شیٹس پر تجزیہ
عزیز پی ٹی سی ایل ساتھیو
اسلام علیکم
29 اپریل 2024 کو سپریم کوڑٹ میں ھونے والی پی ٹی سی ایل ملازمین اور پی ٹی سی ایل پنشنروں کے عرصے سے پڑے ھوئیے کیسسس کی سماعت کے اس دن کے احکامات کی آڑڈر شیٹس کی کاپیاں مجھے 6 مئی کو واٹس ایپس پر موصول ھو ئی تھیں ۔ جو نیچے تمام میں نے پیسٹ کردی ھیں ۔ ایک آڑڈڑ شیٹ میں صرف وی ایس ایس پی ٹی سی ایل پنشنرس کے لئیے احکا مات ھیں اور دوسرے میں پی ٹی سی ایل کے ریگولر ملازمین پٹیشنرز اور نارملی ریٹائیڑڈ ملازمین پنشنرس کے لئیے احکامات ھیی۔
ان آڑڈڑ شیٹس کے مطابق وی ایس ایس والوں کےکیسز جو under Section 12(2)C اسلام آباد اور پشاور ھائیکوڑٹوں کے خلاف دائیں کئیے گئیے ھیں انھی ھائی کوڑٹوں سنگل بینچ کے جج کو وہ بھجوادئیے گئیے ھیں کے وہ ان پر مکمل فائینڈنگ کے ساتھ تیس دن کے اندر سپریم کوڑٹ کو بھجوائیں ۔ پھر ھی ان کیسوں کی شنوائی کی جائیگی اور دوسرے نارمل ریگولر پی ٹی سی ایل ملازمین اور ریٹائیڑڈ ملازمین کے کیسز کی شنوائی
14 مئی 2024 کو ھوگی اسوقت تک انکے تمام وکلاء عدالت کی طرف سے اٹھائیے دو سوالوں کے بارے جواب دے کر اسکی ایک سب concise statement عدالت میں جمع کرائیں گے۔
تفصیلن ، انکے بارے میں اپنا تجزیہ نیچے پیش کرررھا ھوں
29 اپریل 2024 کو کل 167 پی ٹی سی ایل کے ریگولر ملازمین اور ریگولر پنشنرز اور وی ایس ایس 2008 آپٹیز پنشنرس کے کیسز سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ نمبر 4 کے سامنے لگے ان میں سے چھ کیسز اسلام آباد ھائی کوڑٹ والے یعنی C.A 1471/2019 سے لیکر C.A 1476/2019 جو PTET اور PTCL نے under Section 12(2) CPC دائیر کئیے تھے ۔ ان میں سے C.A 1471/2019 اور C.A 1472/2019 کیسسز PTCL نے باترتیب فضل مالک و دیگران اور محمد انور شاھد و دیگران کے خلاف دائیر کئے تھے جبکے PTET نے C.A 1473/2019 سے لیکر
C.A 1476/2019 کیسز بالترتیب فدا حسن و دیگران ، فضل مالک و دیگران ،
محمد عارف دیگران ( ان دیگران میں VSS شامل تھے ) اور محمد انور شاھد و دیگران [ جبکے PTCL بھی C.A 1471/2019 اور C.A 1472/2019 کیسسز باترتیب فضل مالک و دیگران اور محمد انور شاھد و دیگران کے خلاف دائیر کرچکی ھے ]۔
اسی طرح پشاور ھائی کوڑٹ کے فیصلوں کے خلاف PTET اور PTCL نے جن کے نمبر CP3956 & CP3994/2019 اور CP 4014 & 4040/2019 بالترتیب مسمات بخت پری و دیگران اور صادق علی ودیگران کے خلاف PTCL اور PTET نے الگ الگ دائر کیں ھیں ۔ جبکے CP 3895 & CP3896/2019 بالترتیب محمد رفیق ودیگران اور محمد یوسف آفریدی ودیگران ( ان دیگران میں VSS والے شامل ھیں PTET نیں دائیر کی تھیں ۔ تو 29 اپریل کے سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ کے آڑڈڑ کے تحت یہ درخواستیں جو Section 12(2)CPC تحت دائیر کی گئی تھیں وہ تمام متعلقہ ھائی کوڑٹوں یعنی اسلام آباد ھائی کوڑٹ اور پشاور ھائی کوڑٹ کے سنگل جج کو انکی finding دینے کےلئیے اور اسکی رپوڑٹ تیس دن کے اندر ، جس تاریخ سے یعنی 29 اپریل سے، بھجوانے کا حکم دیا یعنی اب 29 مئی 2024 تک ان ھائی کوڑٹوں کی طرف سے اسکی findings کی رپوڑٹ جب آجائیگی تو اسکے بعد ان VSS والوں کے کیسسز لگیں گے ملازمین اور پنشنرز کے جبکے اور دوسرے تمام کیسس ریگولر پی ٹی سی ایل ملازمین اور پنشنرز کے 14 مئی 2024 کو لگیں گے.
میرے بہت سے ایسے دوست خاصکر وی ایس ایس آپٹیز عدالتی ان احکامات سے کچھ پریشان نظر آتے ھیں اور وہ سمجھتے ھیں کے انکے کیسسز ھو اتنے سالوں سے عدالت عظمی میں پینڈنگ پڑے ھوئیے تھے، اب اور مزید لنگر آن ھوجائیں گے اور نہ جانے اب کب تک چلیں اور انکا فیصلہ کب آئیے۔ یہ ٹھیک ھے ان وی ایس ایس آپٹ کرنے والوں کے ، جن کے خلاف، PTET اور PTCL نے سپریم کوڑٹ میں Applications under Section 12(2)CPC دائیر کی ھیں ۔ کچھ لنگر آن ھوجائیےگا اور ان پر فیصلے میں کچھ تاخیر تو ضرور ھوسکتی ھے ، مگر یقین جانیں اسکا فیصلہ انشاللہ انشاللہ ان وی ایس ایس آپٹ کرکے ریٹائیڑڈ ھونے والے پٹیشنروں کے حق ھی ھوگا ۔ اور یہ PTET اور PTCL اپنی منہ کی کھائنگے ۔انشاللہ ۔ وہ کیسے میں اسکے بابت اپنے پچھلیArticle-171 میں تفصیلن بتا چکا ھوں جو میں نے اپنے فیس بک پر 29 اپریل کو ھی اپلوڈ کیا تھا اور اپنے بلاگ سائٹ پر بھی ۔ جسکا لنک بھی نیچے شئیر کردیا ھے۔ میرا یہ آپ لوگ یہ آڑٹیکل ضرور پڑھیں۔ اچھی آگاھی ھوگی
Article-171 [ Regarding SCP directions on the date 29-4-2024 on the cases PTCL pensioners whic were pending since last six years]
اس سلسلے میں مختصرن یہ کہنا ھے ، کے 17 مئی 2017 کو رویو پٹیشن کی سماعت سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ جب کر رھا تھا اور مقدمہ اختتام پزیر ھونے کے ھی قریب تھا [ یہ وہ رویو پٹیشن تھی جو PTET اور PTCL نے 12 جون 2015 کے کے اس فیصلے کے خلاف کی تھیں جس میں سپریم کوڑٹ نے تمام ریسپونڈنٹس کو ، جس میں وی ایس 2008 آپٹیز پنشنرز پٹیشنرز ریسپونڈنٹز بھی تھے، انکو بھی گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن کا حقدار ٹھرایا تھا۔]کے PTET اور PTCL کے بڈھے کھوسٹ وکیل ایڈوکیٹ خالد انور صاحب ایک نہایت عجیب اختراع دے ماری کے جو پی ٹی سی ایل میں کام کرنے والے ٹرانسفڑڈ ملازمین نے وی ایس ایس 2008 آپٹ کرکے ریٹائیڑڈ ھوئیے وہ کمپنی کے ایسے ریٹائیڑڈ ملازمین گئیے جن پر گورمنٹ کے قوانین یعنی statutory rules کا اطلاق ختم ھوگیا ، بجائیے اسکے اس بینچ کے سربراہ جسٹس گلزار نے صاحب انکی اس بات کی نفی کرتے ، انھوں نے اس رویو پٹیشن کو ڈسپوزڈ آف کرتے ھوئیے (یعنی ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے فیصلے کی توثیق کردی ) اپنے عدالتی حکم میں یہ پخ لگاتے ھوئیے اپیلنٹس کے وکیل ایڈوکیٹ خالد انور کو کہا کے اگر وہ یہ سمجھتے ھیں کے جن پی ٹی سی ایل کےملازمیین نے وی ایس ایس 2008 آپٹ کیا اور وہ کمپنی کے ملازم گئیے اور انپر کمپنی کے قوانین کا اطلاق ھونے لگا تو وہ سب بطور کمپنی کے ملازم ، ھائی کوڑٹوں سے رجوع کرنے کا اختیار نھیں رکھتے تھے ، مگر انھوں نے یہ بات ھائی کوڑٹوں سے چھپائی اور انسے گورمنٹ پنشن اور دیگر گورمنٹ مراعات حاصل کرلیں تو وہ ( خالد انور ایڈوکیٹ ) انکے خلاف انھی ھائی کوڑٹوں (یعنی اسلام آباد ھائی کوڑٹ اور پشاور ھائی کوڑٹ ) میں under Section CPC 12(2) کے تحت درخواستیں دائیر کریں کے انھوں نے جھوٹ بول کر ان ھائی کوڑٹوں سے رجوع کیا اور یہ پنشن اور دیگر مراعات انسے حاصل کرلیں تو یہ عدالتیں وہ تمام احکامات واپس لیں اور انکے خلاف تادیبی کاروائی کریں ۔ مگر دونوں ھائی کوڑں نے انکی یہ درخواستیں ( جو سننے میں آیا ھے) ٹیکنیکل بنیاد پر خارج کردیں اور ان پر اپنی کوئی detail findings نھیں دیں جسکے خلاف PTET اور PTCL خلاف انھوں نے اپیلیں under section 12(2)CPC سپریم کوڑٹ میں 2019 میں دائیر کردیں۔ اور جیسا کے
29 اپریل کی آڑڈر شیٹ سے ظاھر ھے کے سپریم کوڑٹ نے وہ ھی درخواستوں انھی ھائی کوڑٹوں سنگل بینچ کے جج کو وہ بھجوادیں کے وہ ان پر مکمل فائینڈنگ کے ساتھ تیس دن کے اندر سپریم کوڑٹ کو واپس بھجوائں ۔ یہ انھوں نے اسلئے کیا کے وہ تو Appealant Court ھے اور ٹرائیل کوڑٹ تو نھیں وہ کیسے خود کیسے دے سکتی تھی ھے کے وی ایس ایس آپٹ کرنے والے کمپنی کے ملازم ھو گئیے تھے اور انکے قوانین non statutory ھو گئیے تھے ۔میں نے یہ ھی بات اپنے آڑٹیکل 171 یہ بات آپلوگوں کو کنفرم کردی تھی کے ھائی کوڑٹیں یہ فیصلہ کبھی کر ھی نھیں سکتیں وی ایس ایس آپٹ کرنے والے کمپنی کے ملازمین بن جاتے ھیں اور ان پر کمپنی کے ماسٹر اینڈ سرونٹ کا قانون لاگو ھوجاتے ھیں۔ کیونکے ایک تو کوئی اسکا کوئی قانون نھیں اور نہ ھی VSS آپٹ کرنے کے لئیے VSS-2008 کی Terms & Conditions ( جو 21 تھیں) اس میں کہیں بھی یہ کہا گیا تھا وی ایس ایس آہٹ کرنے والے کمپنی کے ریٹئیڑڈ ملازمین کے قوانین non statutory ھو جائیں گے اور نہ ھی ایسی بات Voluntary Agreement کے contents میں یہ کہی گئی تھی ۔ اور اسی آڑٹیکل میں، میں نے یہ بتایا تھا
چونکے سپریم کوڑٹ کا 7 اکتوبر 2011 مسعود بھٹی کیس یعنی
Masood Bhattie &otgers Vs FoP & PTCL [ 2012 SCMR 152]
میں مسعود بھٹی کے لئیے ، جو ایک جو وی ایس ایس ۲۰۰۸ آپٹیز تھے اور مارچ ۲۰۰۸ وی ایس ایس آپٹ کرکے ریٹائیڑڈ ھوئیے تھے کے لئے ایسا حکم جاری کرچکی تھی کے وہ یہ سمجھیں کے انکی پٹیشن اب تک سندھ ھائی
کوڑٹ میں ابھی تک پڑی ھوئی ھے اسلئے وہ وھاں سے پہلے اپنی اس پٹیشن کا فیصلہ کرائیں۔ سپریم کوڑٹ کا وی ایس ایس کے لئیے ایسا حکم اس حقیقت کی عمازی کرتا ھے کے عدالت کی نظروں میں اپیلنٹ مسعود بھٹی وی ایس ایس آپٹیز ریٹائیڑڈ پر لاگو قوانین Statutory تھے اور انکو اپنے grievances دور کرانے کے لئیے ھائی کوڑٹ سے رجوع کرنے کرنے کا مکمل اختیار حاصل تھا جسطر ح ایک گورمنٹ کے سول سرونٹ یا ریٹائیڑڈ سول سرونٹ کو آئین پاکستان اجازت دیتا ھے ۔ آئین کے آڑٹیکل 199 کے مطابق۔
سپریم کوڑٹ نے دوسرے پی ٹی سی ایل کے ایسے ریگولر ملازمین اور نارملی ریٹائڑڈ پی ٹی سی ایل ملازمین کے کیسسز جسمیں کچھ ریسپونڈنٹس تھے اور کچھ پٹیشنرز تھے، کی مزید ھئیرنگ کے لئے کے لئیے 14 مئی 2024 کادن مقرر کردیا ھے اور ساتھ ھی ، دونوں پاڑٹیوں کے issues کو حل کرنے کے لئیے دو سوال انکے وکلاہ کے سامنے رکھ دئیے کے وہ انکا جامع ( consise )جواب عدلت میں پیش کریں ۔ وہ دو سوال کیا ھیں ، جو آڑڈر شیٹ میں دیئے گئیے ھیں ، وہ میں آپ لوگوں کے لئے نیچے پیش کررھا ھوں جو انگلش میں ھیں ، انکے اردو ترجمہ کے ساتھ پیش کررھا ھوں
Questioners
1. Whether the employees of T&T Department are Civil Servants and weather they are entitled in the pension and other benefits as available to the civil servants and
2. Whether the terms and conditions of the retired employees of the T&T Department are considered non-statutory and whether they have alternative remedy available, rendering petitions before High Court are not maintainable.
اردو ترجمعہ
1. کیا محکمہ T&T کے ملازمین سول سرونٹ تھے کیا وہ پنشن اور دوسرے مراعات کے لئیے اسی طرح کے حقدار تھے جسطرح سول سرونٹ کے لئیے ھوتے ھیں اور
2. آیا ٹی اینڈ ٹی ڈیپارٹمنٹ کے ریٹائرڈ ملازمین کی شرائط و ضوابط کو غیر قانونی سمجھا جاتا ہے اور آیا ان کی ھائی کوڑٹ میں دائیر کردہ پٹیشنیں ناقبل عمل کی صورت میں اور کوئی متبادل راستہ ایسی پٹیشنیں دائیر کرنے کا موجود ھے کوئی متبادل سہولت میسر ھے ، وہ اسلئے کے ھائی کورٹ کے سامنے اپنے عرائیض پیش کرنا انکے ناقبل عمل ھے
اس سے پہلے میں آپلوگوں کو ، سپریم کوڑٹ کے ان دو سوالوں کے، اپنے جوابات سے آگاہ کروں کے میں کیا سمجھتا ھوں ، میں یہ بتانا چاھتا ھوں کے سپریم کوڑٹ نے یہ سوالات کیوں کئیے.اسکے لیے مجھے جون 2021 اسلام آباد ھائی کوڑٹ میں ھونے ، PTET اور PTCL کی دائیر کردہ انٹر اپیلوں کی ایک سماعت کے اندر ھونے والی کاروائی کے بارے میں بتانا پڑے گا جسمیں میں بزات خود موجود تھا ۔ یہ سماعت ، اسلام آباد ھائی کوڑٹ کا ڈبل بینچ جسکے سربراہ سابق جیف جسٹس اسلام آباد ھائی کوڑٹ اطہر من اللہ اور اسوقت کے موجودہ چیف جسٹس جسٹس عامر فاروق تھے ، کررھا تھا ۔ ، [PTET اور PTCL نے وہ انٹرا کوڑٹ اپیلیں ، 3 مارچ 2021 کے اسلام ھائی کوڑٹ کے سنگل بینچ کے اس فیصلوں کے خلاف دائیر کی تھیں ، جو پی ٹی سی ایل پنشنرز پٹیشنروں کے حق میں دیا گیا تھا ] اپیلنٹس کے وکیل شاھد انور باجواہ چاھتے تھے اگر اسلام آباد ھائی کوڑٹ کے سنگل بینچ کے 3 مارچ 2021 کے مطابق ریسپونںڈنٹس کو گورمنٹ کی اعلان کردہ ھی پنشن اور اسکے بقایاجات ادا کرنے کی نوبت آئیے تو وہ ان ریسپونڈنٹس کو نہ دی جاسکے جو ٹی اینڈ ٹی میں گریڈ 1 سے لیکر گریڈ 15 تک کے ملازمین تھے جن کی اپنی یونین بھی ھوتی ھے اور جو ورک مین کے زمرے میں آٹے ھیں اور سول سرونٹ نھیں ھوتے ۔انکو بجائیے گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن دینے کے ، کمپنی کی طرف سے مقرر کردہ پنشن دی جائے۔ تو وہ عدالت میں چیخ چیخ کر یہ فرمارہے تھے کے ٹی اینڈ ٹی میں کام کرنے والے یہ چھوٹے ملازمین یعنی گریڈ 1 سے لیکر گریڈ 15 تک کے ملازمین ، جنکی یونین بھی ھوتی ھے وہ ، سول سرونٹ ایکٹ 1973 کی شق (iii) (b) 2 کے تحت سول سرونٹ نہیں ھو سکتے [اس شق میں کہا گیا ھے گورمنٹ ڈیپاڑٹمنٹ میں کام کرنے وہ شخض سول سرونٹ نہیں ھوسکتا جو فیکٹریز ایکٹ ، (1934 کا XXV) ، یا ورک مین معاوضہ ایکٹ ، 1923 (1923 کا VIII) میں بیان کردہ "کارکن" یا "مزدور" ھو] انکو انکے کارپوریشن اور پھر کمپنی میں ٹرانسفڑڈ ھونے کے بعد گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن نھیں دی جاسکتی کیونکے تو گورمنٹ کے سابقہ ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ میں گورمنٹ سرونٹ تھے ھی نھیں
[ یاد رھے ٹی اینڈ ٹی میں کام کرنے والے تمام ریگولر ملازمین ، پی ٹی سی ایکٹ 1991کی شق 9 سب شق 1 کے تحت ٹرانسفڑڈ ھوکر جب دسمبر 1991 میں آگ ئیے تھے تو سب کی سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس وہ ھی رھیں جو انکے کارپوریشن میں ٹرانسفڑڈ ھونے سے فورن پہلے تھیں ۔ اسکے ھی مطابق انکو گورمنٹ سول سرونٹ سرونٹ والی ھونے کے ناتے وہ ھی مراعات ، تنخواہ اور ریٹائیرمنٹ کے بعد پنشن اور دیگر مراعات مل رھے تھے جو انکے کارپوریشن آنے سے فورن پہلے انکو مل رھی تھی ۔ اور انمیں مل ھی نھیں سکتی کیونکے وہ سول سرونٹ تھے ھی نھیں تو اسی وجہ سے کارپوریشن میں اور 30 جون 2010 پی ٹی ای ٹی کی طرف سے گورمنٹ کی ھی اعلان کردہ پنشن مل رھی تھیں ۔ جسکو غیر قانونی طور پر یکم جولائی 2010 ٹرسٹ نے دینا بند کردیں اور اپنی طرف سے اعلان کردہ پنشن 8 % انکریز کرکے دینا شروع کردی جبکے گورمنٹ نے 15 % انکریز دیا تھا دینا شروع کردیں جو گورمن سب کو انکے کارپوریشن میں آنے سے فورن ، پہلے انکو ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ میں دی جارھی تھیں۔ اب انکو وھی تنخواہ یا ریٹائیرمنٹ کی صورت میں وھی پنشن ملے گی جسکا تعین کمپنی کرے گی ]۔
تو اس پر جسٹس عامر فاروق ایڈوکیٹ نے شاھد انور باجواہ سے کہا تو آپکا مطلب یہ کے گریڈ 16 اور اس سے اوپر والے ملازمین سول سرونٹ تھے اسلئے اب انکو کارپوریشن اور پھر کمپنی میں ٹرانسفڑڈ ھونے کے بعد گورمنٹ کی ھی اعلان کردہ تنخواہ اور پنشن دی جائیے گی۔ جس پر ایڈوکیٹ شاھد انور باجواہ چپ رھے اور کوئی جواب نھیں دیا۔ اسوقت چیف جسٹس
اطہر من اللہ نے ان سے یہ بھی کہا سپریم کوڑٹ نے تو مسعود بھٹی کیس [ 2012SCMR152] میں ایسی کوئی چیز کا تو کوئی زکر ھی نھیں کیا کے گریڈ 1 سے گریڈ 15 تک کے ٹرانسفڑڈ ملازمین کے قوانین non statutory ھونگے اور گریڈ 16 اور اس سے اوپر والوں کے statutory ھونگے ۔ اس پر انور شاھد باجواہ نے کہا جو تین اپیلنٹس تھے چونکے گریڈ 17 , گریڈ 18 اور گریڈ 19 کے تھے ، تو یہ احکامات صرف انکے کے لئیے تھے۔ تو اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا تھا اب ھم کیسے اس سٹیج پر گریڈ 1 سے لیکر گریڈ 15 کے ٹرانسفڑڈ ملازمین کے قوانین کو non statutory قرار دے سکتے ھیں ۔اور قرار دے سکتے ھیں کے کے یہ ورک مین تھے سول سرونٹ نھیں تھے جسکی تعریف گورمنٹ سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے سیکشن (b)2 میں کی گئی ھے
تو جو فیصلہ 2 نومبر 2021 کو آیا اس فیصلے میں بھی اس کو مبھم رکھا گیا تھا۔ کھل کر عدالت نے نھیں بتایا کے ورک مین ھونے کی صورت میں یہ گریڈ 1 سے گریڈ 15 تک کے ملازمین سول سرونٹ کا سٹیٹس نھیں رکھتے تھے۔
میں یہ سمجھتا ھو کے یہ ھی گتھی سلجھانے کے لئیے عدالت عظمیٰ نے یہ دو سوالات پوچھے ھیں تاکے وکلاء اپنے جامع رپورٹ میں عدالت کو اپنے نقطہ نظر سے آگاہ کر سکیں اور عدالت کو یہ فیصلہ کرنے میں آسانی ھو کےسابقہ ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ کے کونسے ملازمین ورک مین کی کٹیگری میں ھونے کی وجہ سے سول سرونٹ نھیں کہلائیے جاسکتے تھے اور ان پر گورمنٹ کے قوانین ( Statutory Rules) کا اطلاق نھیں ھو سکتا تھا اسلئے وہ کمپنی میں آنے کے بعد گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن کے حقدار نھیں ھو سکتے اور کونسے ایسے سابقہ ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ کے ملازمین ھیں جو سول سرونٹ کی کٹیگری میں آتے ھیں جن پر گورمنٹ کے قوانیین ( Statutory Rules ) ھیں کمپنی میں آنے کے بعد گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن کے حقدار ھیں ۔ یقینن ریسپونڈنٹس یعنی پی ٹی سی ایل پنشنرس کے وکلاء یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کے سابقہ ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ میں کام کرنے والے گریڈ 1 سے گریڈ 15 تک کے ملازمین ورک مین نھیں تھے وہ تو سول سرونٹ تھے اسلئے وہ کمپنی میں گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن کے حقدار ھیں، جسکی نفی بار بار ایڈوکیٹ شاھد انور باجواہ صاحب کر رھے تھے مگر میں اب یہ سمجھتا کے سپریم کوڑٹ کے پانچ رکنی بینچ کا یہ حکم آنے کے بعد ، جو انھوں نے کی 19 فروری 2016 کو PTCL کی رویو پٹیشن خارج کرنے کے فیصلے [2016SCMR1362] میں دیا کے کمپنی میں کام کرنے والے سابقہ ٹی اینڈ ٹی اور کارپوریشن کے ملازمین سول سرونٹ نھیں رہ سکتے مگر ان پر سول سرونٹ ایکٹ 1973 میں انکے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس میں سیکشن 3 سے لیکر سیکشن 22 تک کے قوانین کا اطلاق ھوگا اور اسکی خلاف ورزی کی صورت میں انکو ھائی کوڑٹوں سے رجوع کرنے کا اختیار ھوگا .
[اس خاص احکامات کو جو اس فیصلے کے پیرا 6 میں درج ھے اسکا اردو ترجمعہ زیر پیش ھے
"نہ صرف مقننہ وفاقی حکومت کو پابند کرتی ہے کہ وہ موجودہ سروس کی شرائط و ضوابط اور ٹرانسفر شدہ ملازمین کے پنشنری فوائد سمیت حقوق کی ضمانت دے ۔ چونکہ وہ مذکورہ بالا دفعات کی وجہ سے پہلی بار کارپوریشن اور کمپنی کے ملازم بن گئے تھے، اس لیے وہ مزید سول سرونٹ نہیں رہے؛ لیکن سول سرونٹ ایکٹ کے سیکشن 3 سے 22 کے ذریعے فراہم کردہ ان کی سروس کی شرائط اور سیکشنز ایکٹ 1991 کی 9(2) اور ایکٹ 1996 کی دفعہ 35(2)، 36(a) اور (b) بنیادی طور پر قانونی طور پر محفوظ ہیں جو 1996 کے ایکٹ کے تحت بنیادی طور پر قانونی ہیں۔ اس طرح ان میں سے کسی کی بھی خلاف ورزی ہائی کورٹ کے آئینی دائرہ اختیار کے لیے قابل عمل ہوگی۔"].
تو اب یہ کہنا کے کمپنی میں کون سول سرونٹ تھا اور کون سا نھیں ، کسکو گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن ملنی چاھیے تھی کس کو نھیں چہ معنی دارد ۔ کیونکے اپنے اس فیصلے میں عدالت عظمیٰ کے پانچ معزز ججوں نے یہ واضح کردیا پی ٹی سی ایل میں کام کرنے والے سابقہ ٹی اینڈ ٹی کے تمام ملازمین اب سول سرونٹ نھیں رھے مگر ان پر سول سرونٹ ایکٹ 1973 میں انکے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس میں سیکشن 3 سے لیکر سیکشن 22 تک کے قوانین کا اطلاق ھوگا۔ اسطرح اب کمپنی کے یہ ملازمین ،ریٹائڑڈ ملازمین ھیں وہ گورمنٹ کی ھی اعلان کردہ تنخواہ اور پنشن لینے کے حقدار بن گئیے ھیں (گورمنٹ کے مطابق تنخواہ، پنشن اور گریجویٹی دینے کا زکر سول سرونٹ ایکٹ 1973 میں انکے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس بالترتیب سیکشن 17 اور سیکشن 19 میں درج ھے)۔ اسلئے اب یہ تین رکنی سپریم کوڑٹ بینچ سپریم کوڑٹ کے پانچ رکنی بینچ کے اس فیصلے کے خلاف کیسے جاسکتا ھے کے اور گریڈ 1 سے لیکر گریڈ 15 تک کے ایسے پی ٹی سی ایل ریٹائیڑڈ ملازمین کو گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن لینے سے منع کرسکتا ھے اور انکو کمپنی کی ھی اعلان کردہ پنشن لینے کا حقدار ٹھرا سکتا ھے جسطرح اپیلنٹس PTET اور PTCL کے وکیل ایڈوکیٹ شاھد انور باجواہ صاحب چاھتے ھیں
جہا ں تک ان سوالوں کے جواب کا معاملہ ھے تو انکے سوال نمبر 1 کے لئیے میرا جواب یہ ھے۔ کے محکمہ T&T میں کام کرنے والے گریڈ 16 سے اوپر تک کے گریڈ کے ملازمین ، گورمنٹ سول سرونٹ ایکٹ 1973 کی شق (b)2 کے تحت سول سرونٹ کے زمرے میں آتے تھے۔ انکی محکمہ میں , ملازمت، پروموشن ، سینیاریٹی اور اور دوسرے سروس میٹرز وغیرہ وغیرہ گورمنٹ کے سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے تحت ھوئیے بنائیں ھوئیے قوانین کے کے تحت کئیے جاتے ھیں [ ان قوانین کا زکر سپریم کوڑٹ نے مسعود بھٹی کیس 2012SCMR152 میں بھی کیا تھا جس میں اپیلنٹس مسعودبھٹی، نصییرالدین غوری اور دل آویز گورمنٹ کے سول سرونٹ والے قوانین کا حامل قرار دیا تھا] ۔ جو تنخواھیں انکو دی جارھی تھیں وہ گورمنٹ کے گریڈ وائیز پے اسکیلز کے مطابق ھی دی جارھی تھیں اور جو ایسے ریٹائیڑڈ ملازمین کو پنشن دی جارھی تھیں وہ بھی فیڈرل گورمنٹ پنشن رولز کے مطابق دی جارھی تھی۔ مگر گریڈ 1 سے لیکر گریڈ 15 تک کے ملازمین پاکستان ٹیلی گراف اور ٹیلی فون ڈیپاڑٹمنٹ کے اپنے بنائیے ھوئیے ھوئیے قوانین کے تحت کام کررھے تھے ۔ [یہ تمام قوانین انڈین پوسٹ اور ٹیلیگراف ڈیپاڑٹمنٹ کے لئے باقاعدہ قانون سازی (legislation ) کے زریعے بنائیے گئیے تھے۔ برصغیر کی تقسیم اور پاکساتن بنے کے بعد یہ تمام پاکستان پوسٹ اینڈ ٹیلیگراف کے قوانین کہلانے لگے اسکے 12 سے زیادہ والئوم ھیں ( صحیح تعداد مجھے بھول گئی ھے ) 1964 میں پوسٹل ڈیپاڑٹمنٹ میں سے اور ٹیلیگراف اینڈ ٹیلی فون ڈیپاڑٹمنٹ علیحدہ ھوگیا تو جو پوسٹل کے قوانین تھے وہ الگ ھو گئیے اور ٹیلی گراف اینڈ ٹیلیفون ڈیپاڑٹمنٹ کے قوانین الگ ھوگے دونوں کے الگ الگ قانون کے والئمز بنے ھوئیے ھیں ]۔
ان گریڈ 1 سے لیکر گریڈ 15 کے محکمہ ٹیلی گراف اور ٹیلیفون کے جو ملازمین آؤٹ ڈور ڈیوٹیاں کررھے تھے یا انکی پوسٹیں آؤٹ ڈور کی تھیں تو وھی ملازمین ورک مین کی کٹیگری میں آٹے تھے ، ورک مین کمپنسیشن ایکٹ ، 1923 (1923 کا VIII) کے تحت [اس ایکٹ میں بتایا گیا ھے "کارکن" یا "مزدور" ورک مین کی تعریف میں آتے ھیں ، اور ایسے افراد بھی ورک مین کی تعریف میں آتے ھیں جو انڈین پوسٹ اینڈ ٹیلیگراف محکمہ کے بیرونی شعبے میں کام کرتے ھوں ، تاکے کام کے دوران اگر انکی موت واقع ھوجاتی ھے یا وہ زخمی ھوجاتے ھیں یا وہ اپنے کسی اعضا سے محروم ھو جاتے ھیں تو انکو کو یا ان پر انحصار ( dependents) کو معاوضہ دیا جائیے]۔ مگر ان گریڈ 1 سے لیکر گریڈ 15 تک کے محکمہ ٹیلی گراف اور ٹیلیفون کے ملازمین کو تنخواھیں گورمنٹ سول سرونٹس کوں گریڈ وائیز تنخواھیں دینے کے ھی مطابق دی جارھی تھیں۔ اور ریٹائیڑڈ ھونے والے گریڈ 1 سے لیکر گریڈ 15 تک کے ملازمین کو بھی گورمنٹ کی اعلان کردہ ھی پنشن نہ صرف دی جا رھی تھی انکی پنشن بکس پر انکو سول سرونٹ ھی لکھا جاتا ھے ۔ انکے خلاف کوئی تادیبی کاروائی duciplinary action کرنے کے لئیے گورمنٹ سول سرونٹ ( ای اینڈ ڈی) رولز 1973 کا استعمال کیا جاتا ھے.
دوسرے سوال کے جواب میں مجھے صرف یہ بتانا ھے کے صرف گریڈ 16 اور اس سے اوپر والے محکمہ ٹیلی گراف اور ٹیلیفون کے ریٹائیڑڈ ملازمین گورمنٹ کے قوانین statutory تھے کیونکے انکا سٹیٹس سول سرونٹ کا تھا صرف انکو اختیار تھا اپنے سروس معاملات کے علاوہ ایسے معاملات جس میں قانون کی خلاف ورزی کی گئی ھو، ھائی کوڑٹوں سے آئین کے آڑٹیکل 199 تحت رجوع کریں ۔ سروس معاملات کے حل کے لئیے انکو صرف فیڈرل سروس ٹربیونل سے رجوع کرنے کا اختیار تھا ۔ جبکے اس کے کسی فیصلے کے خلاف سپریم کوڑٹ سے رجوع کیا جاتا ھے۔ جبکے گریڈ 1 سے لیکر گریڈ 15 تک کے ٹی اینڈ ٹی ڈیپارٹمنٹ کے ریٹائرڈ ملازمین کی شرائط و ضوابط کو غیر قانونی ( non-statutory ) تھے اور انکو اپنے grievances کو دور کرانے کے لئیے NIRC اور لیبر کوڑٹوں سے رجوع کرنے کا اختیار تھا مگر انکو ھائی کوڑٹوں سے رجوع کرنے کا اختیار نھیں تھا ۔ صرف انکو لیبر کوڑٹ اور NIRC کے ڈبل بینچ کے فیصلوں کے خلاف ھی ھائی کوڑٹوں میں اپیل کر نے کا اختیار ھوتا ھے ۔
جو میں اپنے سروس تجربے اور متزکرہ قانونی ریفرنس کو جانتے ھوئیے صحیح سمجھتا تھا اسکے مطابق میں نے اپنے تئیں مکمل صحیح تجزیہ کردیا اور ان سوالوں کے جواب بھی دے دیئے جو سپریم کوڑٹ نے مانگے تھے۔ اگر کسی کو اس سخت اختلاف ھو تو اس بارے میں مجھے ضرور ریمارکس میں مطلع کرے کے کیوں اختلاف ھے اور وہ کیا تصحیح چاھتا ھے یہ قانون ایسا ھے ایسا نھیں وغیرہ وغیرہ تاکے میں بھی او ر معلومات رکھ سکوں۔ شکریہ
واسلام
محمد طارق اظہر
جنرل منیجر (آپس) ریٹائیڑڈ پی ٹی سی ایل
راولپنڈی
۸مئی ۲۰۳۴
Comments