Article-176 [ Regarding Controversial Order of IHC of dated 02-11-2021]
Article-176
موضوع۔ جی ایم پی ٹی ای ٹی کے نہایت قابل اعتراض ، غیر قانونی اور احمقانہ خطوط، ان پی ٹی سی ایل پٹیشنروں کو جنھوں نے گرییڈ 1 تا گریڈ 16 تک کسی بھی پوسٹ پر کام کیا ھو اور پھر وھیں سے ریٹائیڑڈ ھوئیے ھوں . . . ایسے غیر قانونی خطوط جاری کرنے کی بنیاد اسلام ھائی کوڑٹ کے ڈویژن بینچ کے مورخہ 2 نومبر 2021 کا انکی انٹرا کوڑٹ اپیلوں پر وہ متنازعہ فیصلہ ھے جو بادئیانظر میں ،عدالت سے پی ٹی ای ٹی وکیل ایڈوکیٹ شاھد انور باجواہ کی دروغ گوئی اور اصلی حقائیق چھپانے کی وجہ سے موجب سبب بنا
عزیز پی ٹی سی ایل ساتھیو
اسلام و علیکم
آجکل جی ایم پی ٹی ای ٹی فاروق صاحب ، اسلام آباد ھائی کوڑٹ کے ڈبل بینچ کے 2 نومبر 2021 کے ICT-82/2020 کے فیصلہ کے پیرا نمبر (iii)19 کی compliance دیتے ھوئیے ھر ان پٹیشنرزکو جنھوں نے پی ٹی سی ایل میں گریڈ ا سے لیکر گریڈ 16کی کسی پوسٹ پر کام کیا ھو اور اس پوسٹ سے ریٹائیڑڈ ھوے ھوں ، ان سب کو غیر قانونی خطوط بھیج رھے ھیں کے وہ ورکمین ھونے کی بنا پر گورمنٹ کے اعلان کردہ پنشنری بینیفٹس کے حقدار نھیں ھیں ۔وہ دو طرح کے خطوط بھیج رھے ھیں ۔ جو پٹیشنرز گریڈ ایک سے لیکر گریڈ 16 تک کی کسی پوسٹوں پر سابقہ ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ میں کام کرتے رھے تھے اور بعد میں کاپوریشن اور کمپنی میں ٹرانسفڑڈ ھوکر ریٹائیڑڈ ھوئیے ھوں وہ انکی سروس ھسٹری بیان کرکے کے انکو یہ مطلع کررھے ھیں چونکے وہ ورکر یا ورک مین کی تعریف میں آتے ھیں اسلئیے وہ اس پنشنری بینیفٹس میں اس اضافے کا حقدار نھیں ھیں جو گورمنٹ اپنے سول سرونٹس کو مہیا کررھی ھے ۔ اور دوسرا خط وہ ان ریٹائیڑڈ پی ٹی سی ایل پٹیشنرز کو بھیج رھے ھیں جو گریڈ 17 اور اس سے اوپر کی پوسٹوں سے ریٹائیڑڈ ھوئیے تھے جن پر انکو یہ شک ھے کے انکی ابتدائی پوسٹنگ لوئیر گریڈ کی پوسٹوں پر ھوئی تھی . وہ ان سب سے appointment letter کی کاپی مانگ رھے ھیں تاکے وہ انکا وہ status جان سکیں جو یکم جنوری 1991 پر انکا تھا یعنی جب وہ ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ سے ٹرانسفڑڈ ھوکر کاپوریشن میں آرھے تھے۔
موصوف جی ایم پی ٹی ای ٹی فاروق صاحب جن گریڈ 1 سے لیکر گریڈ 16 تک کے پی ٹی سی ایل پٹیشنرز کو جو یہ خطوط بھیج رھے ھیں اسمیں وہ 2 نومبر 2021 کے فیصلے کا پیرا نمبر (iii) 19 لکھ بھی رھے ھیں جسمیں عدالت نے یہ کہا ھے کے “سابقہ ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ کے ملازمین جو ورکمین کی اس تعریف میں آتے ھیں جو ورکمین کمپنسیشن ایکٹ 1923 یا فیکٹری ایکٹ 1934 میں دی گئیں ھیں ، اسلئیے وہ وہ ان بڑھے ھوئئے پنشنری بینیفٹس کے حقدار نھیں ھوسکتے جو حکومت اپنے ریٹائیڑڈ سول سرونٹس کو دینے کا اعلان کرتی ھے ۔ موصوف ورکمین کمپنسیشن ایکٹ 1923 اور فیکٹری ایکٹ 1934 میں دی گئی حقیقی ورکمین کی تعریف کو ignore کرکے اپنے تئیں یہ بتارھے ھیں چونکے ان ایکٹز میں ٹی اینڈ ٹی میں گریڈ 1 تا گریڈ 16 تک کی پوسٹوں پر کام کرنے والوں کو ورکمین گردانا گیا ھے اسلئیے انکو سول سرونٹ نھیں کہا جاسکتا اسلئیے وہ اس پنشنری بینیفٹس کے میں دئیے گئیے اضافہ جات کے حقدار نھیں ھوسکتے ، جو گورمنٹ اپنے سول سرونٹس کو دیتی ھے ۔ یہ بلکل غلط . . . بلکل غلط ھے۔موصوف جی ایم کو ایسے خطوط جاری کرنے سے پہلے اپنے گربیان میں بھی ضرور جھانک لینا چاھئیے تھا کیونکے یہ تو ایسے ھی کتنے گریڈ 1 سے لیکر گریڈ 16 تک کی پوسٹوں پر کام کرنے والے سابقہ ٹی اینڈ کے ریٹائیڑڈ ملازمین پٹیشنرز کو فروری 2018 کو گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشنری بینیفٹس دے چکے ھیں۔ ٹرسٹ نہ صرف ماھانہ پنشن گورمنٹ کے اپنے سول پنشنرز کو دینے کے مطابق فکس کرچکا ھے بلکے اور اس میں ھر سال اضافہ بھی گورمنٹ کے اعلان کردہ پنشن اضافہ جات کے مطابق ھی دے رھا ھے.یاد رھے ۔ٹرسٹ نے جن 343 ایسے پٹیشنروں کو فروری 2018 گورمنٹ کے پنشری بینیفٹس دئیے تھے اس میں سیے 50% سے زیادہ وہ لوئئر گریڈ کے پٹیشنرز تھے ، جو بقول موصوف جی ایم پی ٹی ای ٹی فاروق صاحب کے , آجکل جاری کردہ لیٹرز کے مطابق وہ ورکمین کے زمرے میں آتے تھے [ میرے پاس ایسے چند پٹیشنروں کی طرف سے بھیجی ھوئیے ایسے خطوط کی کاپیاں اب بھی موجود ھیں جو انھی موصوف جی ایم نے انکو عدالتی حکم کے مطابق بھیجیں تھیں کے انکو کے انکے کتنے بقایا جات بنتے ھیں جو دئیے جائیں گے ۔ ان پٹیشنرز دوستوں مجھ سے تھا کے میں چیک کرکے کے انکو یہ بتاؤں کے ٹرسٹ یہ انکے بقایا جات صحییح بنائیے ھیں یا غلط ]. یاد رھے سپریم کوڑٹ کے دورکنی بینچ نے 15 فروری 2018 کو ، صادق علی ودیگران اور نسیم وھرہ کی طرف سے پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل کی طرف سے سپریم کوڑٹ کے 12 جون 2015 پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے انکے خلاف دائیر کردہ توھین عدالت کرنے کی اہیلوں Crl, Org-53 & 54/2015 پر ماسوائیے وی ایس ایس آپٹیز پٹیشنروں کے ، اور تمام پٹیشنروں کو گورمنٹ کی اعلان کردہ پینشن انکریز کے بقایا جات 15 دن میں ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔ سپریم کوڑٹ نے یہ حکم اسوقت
پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل کے انھی وکیل ایڈوکیٹ شاھد باجواہ کی اس ایما اور یقین دھانی کے بعد دیا تھا کے PTET/PTCL ان تمام پٹیشنروں کو ، ماسوائیے ( beside) وی ایس ایس آپٹیز کو گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن اور incentive pay ساتھ دینے کو تیار ھے۔ تو ان موصوف جی ایم پی ٹی ای ٹی فاروق نے فروری 2018 ان 343 پٹیشنروں میں سے ھرایک کو پہلے ایک لیٹر بھیجا تھا ، جنکو مزکورہ عدالتی حکم کے پر عمل تحت بقایا جات ادا کرنے تھے جسمیں ھر ایک کو کیلکولیشن کرکے پہلے بتایا گیا تھا کے انکو کتنی رقم کی ادئیگی کی جائیگی ۔
موصوف جی ایم صاحب جن کو اب ایسے خطوط بھجوارھے ھیں وہ ورک مین کمپنسیشن ایکٹ 1923 یا فیکٹری ایکٹ 1934 کے میں بیان کئیے گئیے ورکمین ملازمین کی تعریف میں آٹے ھی نہیں ھیں وہ اس کی غلط تشریح کر رھے ھیں جس کا نہ کوئی در ھے نہ پیر ۔وہ یہ سمجھتے ھیں ٹی اینڈ میں کام کرنےوالے سارے گریڈ 1 سے لیکر گریڈ 16 تک ملازمین ورکمین کے ضمرے میں آتے ھیں اور سول سرونٹ نھیں ھوتے جن پر سول سرونٹ ایکٹ 1973 کا اطلاق ھوتا ھے۔ مجھے موصوف جی ایم کے دماغ کا فتور نظر آتا ھے۔
آیا ایسے لوئیر گریڈ کے ٹی اینڈ ٹی کے ملازمین ورکمین ھوسکتے ھیں یا نھیں ، تو اسکے لئیے ھم کو پہلے فیکٹریز ایکٹ ، (1934 کا XXV) ، یا ورک مین کمپنسیشن ایکٹ ، 1923 (1923 کا VIII) کا باریک بینی سے جائیزہ لینا ھوگا ۔ جب ھی ھم کسی نتیجے پر پہنچ سکتے ھیں ۔ تو پہلے یہ دیکھنا ھوگا ان مزکورہ ایکٹ میں ورک مین یا ورکر کی کیا تعریف کی گئی ھے اور اس تعریف کے حامل ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ میں کام کرنے والے اشخاض کون تھے ۔ فیکٹریز ایکٹ ، (1934 کا XXV) کا تو فیکٹریز کے ملازمین کے لئیے تھا اسمیں کہیں بھی پوسٹ اینڈ ٹیلیگراف محکمہ کا زکر نہیں ھے اور صرف انھی ملازمین کا تفصیل سے زکر ھے جو فیکٹریز وغیرہ میں کام کرتے ھیں ۔ مگر ورک مین کمپنسیشن ایکٹ ، 1923 (1923 کا VIII) میں اسکا زکر ضرور ھے اور ورک مین کی تعریف کرکے بتایا گیا ھے، کے ایسے افراد جو انڈین پوسٹ اینڈ ٹیلیگراف محکمہ کے بیرونی شعبے میں کام کرتے ھوں وہ ھی ورک مین کی تعریف میں آتے ھیں تاکے کام کے دوران اگر انکی موت واقع ھوجاتی ھے یا وہ زخمی ھوجاتے ھیں یا وہ اپنے کسی اعضا سے محروم ھو جاتے ھیں تو انکو کو یا ان پر انحصار ( dependents) معاوضہ یعنی compensation دیا جاسکے ۔
میں اس مزکورہ ورک مین کمپنسیشن ایکٹ 1923 کا وہ حصہ نیچے re produce کررھا ھوں تاکے یہ پہلے معلوم ھوسکے اس ایکٹ میں دی گئی تعریف کے تحت ورک مین کون ھوسکتے ھیں
Workman Compensation Act 1923
2. Definition.– (1) In this Act, unless there is anything repugnant in the subject or context,–
(a) “adult” and “minor” mean respectively a person who is not and a person who is under the age of fifteen years;
(b) “Commissioner” means a Commissioner for Workmen’s Compensation appointed under Section 20;
(c) “compensation” means compensation as provided for by this Act;
.
.
.
(n) “workman” means any person (other than a person whose employment is of a casual nature and who is employed otherwise than for the purposes of the employer’s trade or business) who is–
(i) a railway servant as defined in section 3 of the Railways Act, 1890[17], not permanently employed in any administrative, district or sub-divisional office of railway and not employed in any such capacity as is specified in Schedule II, or
(ii) employed [18][* * *] [19][* * *] in any such capacity as is specified in Schedule II
یہ دیکھیں ورک میں کی تعریف جس شق نمبر (n)2 میں کی گئی ھے اسکی سب شق (ii) وہ اشخاض جو اس جگہ ملازمت کرتے ھوں جو شیڈول 2 میں بیان کئیے گئیے ھیں ۔ اس شیڈول 2 کا بھی وہ حصہ بھی نیچے re produce کر رھا ھوں جس میں پوسٹل اینڈ ٹیلیگراف محکمہ کا زکر ھے
SCHEDULE II
[See section 2(1)(n)]
LIST OF PERSONS WHO, SUBJECT TO THE PROVISIONS OF SECTION 2(1)(N), ARE INCLUDED IN THE DEFINITION OF WORKMEN
The following persons are workmen within the meaning of section 2 (1) (n) and subject to the provisions of that section, that is to say, any person who is:-
(ix) employed in setting up, repairing, maintaining, or taking down any telegraph or telephone line or post or any overhead electric line or cable or post or standard for the same; or
(x) employed, [189][* * *] in the construction, working, repair or demolition of any aerial ropeway, canal pipeline, or sewer; or
(xi) employed in the service of any fire-brigade; or
(xii) employed upon railway as defined in clause (4) of section 3, and sub-section (1) of section 148 of the Railways Act, 1890[190], either directly or through a sub-contractor, by a person fulfilling a contract with the railway administration; or
(xiii) employed as an inspector, mail guard, sorter or van peon in the Railway Mail Service, or employed in any occupation ordinarily involving outdoor work in the [191][* * *] Posts and Telegraphs Department; or
تو اس کمپنسیشن ایکٹ 1923 کی شق (ii)(n)(1)2 میں بیان کئیے گئیے Schedule-II کے سیکشن (xiii) کے مطابق وہ اشخاض جنکو ملازم رکھا گیا ھو کسی بھی ٹیلی گراف یا ٹیلیفون لائن یا پوسٹ یا کسی بھی اوور ہیڈ الیکٹرک لائن یا کیبل یا پوسٹ یا معیار کو قائم کرنے ، مرمت کرنے ، برقرار رکھنے یا نیچے اتارنے والے کاموں کے لئیے . تو اسکے تحت تو ٹی اینڈ ڈیپاڑٹمنٹ میں ایسے کاموں کے لئیے رکھے ھوئیے وہ ملازم آتے جنکو ڈیلی ویجز مسٹر رول پر رکھا گیا ھوں یا کسی کنٹریکٹ ایسے کاموں کے لئیے عارضی طور پر رکھا گیا ھو ۔
تو یہ ثابت ھوگیا کے ٹی اینڈ ٹی میں میں آؤٹ ڈور کرنے والے ملازمین چاھے وہ ریگولر پوسٹوں پر ھوں. کنٹریکٹ ملازمین ھوں ، ڈیلی ویجز ھوں سب ھی ورکمین کہلاتے تھے۔ تاکے انکو کام کے دوران زخمی ھو جانے پر معاضہ compensation یا مرنے کی صورت میں انکے لواحقین کو بھی اس ایکٹ کے تحت معاضہ compensation دیا جاسکے۔ ٹی اینڈ ٹی میں کام کرنے والے تمام ریگولر ملازمین جسمیں یہ آؤٹ ڈور کام کرنے ورکمین بھی شامل تھے۔ انکو ماھانہ تنخواہ کی ادائیگی اور ریٹائرمنٹ پر پنشن گورمنٹ سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے مطابق جاتی تھی۔ جبکے بوڑڈ آف ٹرسٹیز کے عقل سے پیدل لوگ اپنے تئیں یہ سمجھتے ھیں کے چونکے سابقہ ٹی اٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ میں گریڈ 1 سے لیکر گریڈ 16 تک کی پوسٹوں پر کام کرنے والے ملازمین ورک مین کہلاتے تھے کیونکے وہ بقول انکے ورکمین کمپنسیشن ایکٹ 1923 یا فیکٹری ایکٹ 1934 کے تحت ورکمین ھوتے ھیں اور سول سرونٹس نہیں ھوتے ۔اسلئیے وہ ان گورمنٹ کے پنشنری بینیفٹس کے حقدار نھیں ھوسکتے ۔
یہ نوٹ کریں ٹی اینڈ ٹی میں آؤٹ ڈور کام کرنے والے ملازمین کو انکی ریٹائیرمنٹ پر پنشن اسلئیے دی جاتی تھی کے وہ گورمنٹ کے ملازمین کہلاتے تھے۔1989 میں اسکے متعلق اسٹیبلشمنٹ ڈویژن گورمنٹ آف پاکستان نے یہ کلئریفیکیشن دی تھی کے ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ میں آؤٹ ڈور فیلڈ میں کام کرنے والے ملازمین ورکمین ھوتے ھیں سول سرونٹ نھیں کہلائیے جاتے اور انکو انکی ریٹائیرمنٹ پر گورمنٹ جو پنشن دیتی ھے وہ گورمنٹ کے ملازمین ھونے کے ناتے دی جاتی ھے۔اسٹیبلشمنٹ ڈویژن گورمنٹ پاکستان نے اپنے یکم جنوری 1989 کے زریعے سابقہ ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ کے ڈائیریکٹر جنرل کو مطلع کیا تھا پاکستان ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ کے ایسے ملازمین جو سول سرونٹ میں ایکٹ 1973 کی شق
(iii)(b)2 ورکمین کے ضمرے میں آتے ھیں وہ سول سرونٹ نھیں ھوتے اور ان پر سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے بنائیے ھوئیے قوانین کا اطلاق نھیں ھوسکتا مگر جو انکو تنخواھیں دی جاتی ھیں وہ بطور سرکاری ملازمین کے ناطے دی جاتی ھییں
[ اسکی مختصر تفصیل کچھ یوں ھے کے ڈائیریکٹر جنرل ٹی ایڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ نے 10 دسمبر 1988 کو اسٹیبلیشمنٹ ڈویژن گورمنٹ آف پاکستان راولپنڈی کو ایکب لیٹر بھیجا تھا جسمیں انھوں نے یہ سوال اٹھایا تھا آؤٹ ڈور کام کرنے والے ٹی اینڈ ٹی کے “ملازمین جسمیں چھوٹے گریڈ کے لائین مین ، ٹیکنیشین ، وائیرمین وغیرہ ھوتے ھیں اور جو سول سرونٹ کے زمرے میں آتے ھیں بوجہ گورمنٹ ڈیپاڑٹمنٹ میں کام کرنے کے آتے ھیں تو کیا یہ سول سرونٹ کام کے دوران زخمی ، اعضا کو نقصان اور موت کی صورت میں اس ورک مین ایکٹ 1923 کے تحت معاوضہ کے حقدار ھوتے ھیں یا نہیں۔
تو پھر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن گورمنٹ آف پاکستان راولپنڈی نے اپنے یکم جنوری 1989 کے اس یو او نوٹ یعنی
U.O No 3/2/78-R, 2 Dated 1-1-1989 کے زریعے ڈائیریکٹر جنرل ٹی ایڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ کو انکے اس لیٹر کا جواب دیا تھا جسکا عنوان تھا
“Clarification Civil Servant Act 1973 , Factories Act 134 and Workmen Compensation Act 1923
اور ا سٹیبلشمنٹ ڈویژن پاکستان نے اپنے اس جواب میں لکھا تھا کہ
“جن ملازمین کی کٹیگری ( یعنی آؤٹ ڈور ) ملازمین کا انھوں مزکور لیٹر میں زکر کیا ھے اسلئیے یہ سول سرونٹ ایکٹ 1973 کی شق ( iii)(b)2 کی رو سے سول سرونٹ نہیں ھوسکتے، اسلئیے وہ سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے تحت بنائیے ھوئیے قوانین جیسے سول سرونٹ ( ای اینڈ ڈی) رولز 1973 بھی شامل ھے ، اسکے دائرہ کار ( jurisdiction) سے باھر ھوجاتے ھیں ۔ اگرچہ اس کٹیگری کے ملازمین سول سرونٹ نہیں ھوتے جسکا زکر کیا گیا ھے لیکن انکو سرکاری ملازم قرار دیا جاسکتا ھے کیونکے یہ گورمنٹ ڈیپاڑٹمنٹ میں کام کر رھے ھوتے ھیں ۔ اور سرکاری ملازمین کے ناطے یہ سرکاری قوانین کے تحت ھی کام کرسکتے ھیں جیسے گورنمنٹ سروس رولز 1960 وغیرہ میں کہا گیا ھے جو عام طور پر دوسرے ایسے سرکاری ملازمین پر لاگو ہوتے ہیں۔ اپنی فیلڈ ڈیوٹیز کی دوران آؤٹ ڈور کام کرتے ھوئیے ، موت ، اعضاء کو نقصان یا زخمی ھونے کی صورت میں یہ صرف کمپنسیشن ورک مین کمپنسیشن ایکٹ لینے کے حقدار ھیں “
(نوٹ : میں نے مزکورہ لیٹر اور ان کراسپونڈس لیٹر کی ھائی لائیٹڈ کاپیاں آپ لوگوں کی آگاھی کے لئیے نیچے پیسٹ کردی ھے ۔ کافی پرانی کاپی ھے مشکل سے پڑھی جاتی ھے ۔)
یہ سوال کسنے اٹھائیے تھے اور کیوں کر اٹھائیے تھے ۔ یہ سب جان نے کے لئیے آپلوگوں کو میرے اس آڑٹیکل 148 کو پڑھنا پڑے گا جو میں نے جولائی 2021 میں لکھا تھا , انٹرا کوڑٹ اپیلوں سماعت مکمل ھونے کے ھی کچھ دن بعد ۔ اس میں ھر چیز کو میں بڑی تفصیل سے بیان کیا ھے ۔یہ آڑٹیکل 148 میرے بلاگ سائیٹ پر موجود ھے جسکو دوبارہ 18 جون 2024 کو Re-Publish کر چکا ھوں ۔ اور اسکا لنک یہ ھے
Republish of Article -148 on Workman issue ]
ایسٹیبلشمنٹ ڈویژن گورمنٹ آف پاکستان کے کلئریفیکشن سے یہ ایک بات تو اچھی طرح واضح ھوگئی کے سابقہ ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ میں کام کرنے والے ملازمین گریڈ 1 سے لیکر گریڈ 20 تک کے سول سرونٹس کے ضمرے میں آتے تھےماسوائیے آؤٹ ڈور فیلڈ پر کام کرنے والے ملازمین کے کیونکے وہ سول سرونٹ ایکٹ 1973 کی شق ( iii)(b)2 کے تحت ورکمین کہلائئے جاتے تھے. اگر موصوف جی ایم پی ٹی نے ایسے خطوط نکالنے عدالتی احکامات کی صحیح compliance چاھتے تھے تو وہ ایسے پٹیشنروں کو یہ خط بھجواتے جو ٹی اینڈ میں آؤٹ ڈو رفیلڈ پوسٹوں پر تعنیات تھے اور ورکمین کمپنسیشن ایکٹ 1923 کے تحت ورکمین کی تعریف میں آتے تھے ۔]
جیسا کے میں نے شروع میں بتایا ھے کے یہ 2 نومبر 2021 کا فیصلہ بہت متنازعہ ھے خاصکر اسکا پیرا (iii)19 . پٹیشنروں کے وکیل شاھد انور باجواہ صاحب دوران سماعت عدالت سے حقائیق نہ چھپاتے اور سج بولتے تو مجھے مکمل یقین تھا کے اسطرح کا فیصلہ بلکل نھیں آتا۔ وہ کیوں اسکی تفصیل زیر پیش ھے
“۲جون ۲۰۲۱ کو جب ان انٹرا کوڑٹ اپیلوں پر سماعت کا آغاز ھوا تو ایڈوکیٹ شاھد انور باجواہ نے پہے اپنے دلائیل کا آغاز کیا اور عدالت کو بتایا کے جو ریسپونڈنٹس سابق ٹیلی فون اینڈ ٹیلیگراف ڈیپاڑٹمنٹ میں گریڈ 1 سے لیکر گریڈ 16 تک کی پوسٹوں پر کا کام کررھے تھے وہ ورکمین کی کٹیگری میں آتے تھے اسلئیے وہ سول سرونٹ نھیں ھوتے تھے انکو کمپنی میں ٹرانسفڑڈ ھوے کے بعد گورمنٹ کی اپنے سول سرونٹس کو اعلان کردہ والے پینشنری بینیفٹس نھیں دئیے جاسکتے۔ انکو پنشنری دینے کا تعین کمپنی بزات خود کرے گی۔تو عدالت ان سے استفسار کیا کے آپ یہ کس بنا پر یہ کہہ رھے ھیں کے یہ ورکمین ھوتے ھیں تو انھوں نے جواب دیا کیونکے انکی یونینز ھوتی ھیں اور انکے مسائل حل کرانے کے لئیے خصوصی عدالتیں (یعنی NIRC ) ھوتی ھیں جسمیں مزدورں اور ورکرز کے مسائیل کئیے جاتے ھیں تو اس پر عدالت نے جواب دیا اسکا مطلب یہ ھوا وھی لوگ سول سرونٹ ھوتے ھیں جو گریڈ 17 یا اس سے اوپر کے ھوتے ھیں اور وھی گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشنری بینیفٹس کے حقدار ھوتے ھیں ۔ تو اسکے جواب ایڈوکیٹ شاھد انور نے جواب میں کہا جی ھاں. تو پھر اسوقت کے چیف جسٹس اطہر من اللہ ( جو اس کیس کی سماعت کرنے والے ڈبل بیینچ کے سربراہ تھے جبکے دوسرے آجکل کے چیف جسٹس عامر فاروق تھے)
نے کہا تو آپ یہ چاھتے ھیں کے ھم یہ ثابت کریں کے ایسے لوگ ورکمین ھوتے ھیں سول سرونٹ نھیں . اس سٹیج پر یہ ھمارے لئیے یہ ثابت کرنا کسی ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے سے کم نہ ھوگا ۔آپ نے یہ اتنا اھم معاملہ سپریم کوڑٹ مسعود بھٹی کیس کی 2011 کیس کی سماعت کے دوران کیوں نھیں اٹھایا [ یاد رھے اس کیس کے فیصلے میں تمام اپیلنٹس ، کو سول سرونٹ سرونٹ کا سٹیٹس دیا گیا تھا کے یہ کمپنی کے ملازم تو ھونگے مگر انپر سرکاری قوانین (Statutory Rules) کا اطلاق ھوگا یعنی ان قوانین کا جو سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے تحت بنائیے گئیے ھیں اور انکو ھائی کوڑٹ سے اپنے grievences دور کرانے کے لئیے رجوع کرنے کا اختیار بھی ھوگا اسی طرح کا جو صرف سول سرونٹ کا اختیار ھوتا ھے ]۔ جسپر ایڈووکیٹ شاہد انور باجوہ نے جواب دیا کہا کہ چونکہ مسعود بھٹی کیس میں تمام اپیل کنندگان “اعلی گریڈ 17 اور اس سے اوپر کے تھے” اسلئیے لوئیر گریڈ والوں کا یہ مسعلہ نھیں اٹھایا۔اسوقت کسی بھی ریسپونڈنٹ کے وکیل نے اسکی تردید نھیں کی کے ایڈووکیٹ شاہد انور باجوہ جھوٹ بھول رھے ھیں ۔ مجھے بھی اسوقت بھی اس حقیقت کا پتہ نھیں تھا ۔یہ مجھےکافی عرصے کے بعد ھی معلوم ھوا تھا کے سپریم کوڑٹ میں مسعود بھٹی کیس میں تین اپیلنٹس میں ایک اپیلنٹ سید محمد دل آویز بطور کلرک گریڈ 5 ماسٹن روڈ کراچی میں گیٹ وے ایکسچینج میں کام کرتا تھا۔ ھوسکتا ھے وکیلوں کو بھی یہ حقیقت اسوقت معلوم نہ ھو اور یہ بھی امکان ھے کے خود ایڈووکیٹ شاہد انور باجوہ کو بھی یہ نہ معلوم ھو۔ مگر انکو ایسا بیان مکمل چھان بین کرکے اور کنفرم کے عدالت کے سامنے دینا چاھئیے تھا کیونکے یہ عدالت کا معاملہ تھا اور اگر وہ یہ صحیح طرح کنفرم کر دیتے اور ان سے دوسرے اور حقائق بھی نہ چھپاتے تو عدالت کا
2 نومبر 2021 کا فیصلہ بلکل مختلف ھوتا۔ جو حقائیق انھوں نے عدالت سے چھپائیے ان میں سر فہرست ٹرسٹ کا سپریم کوڑٹ کے حکم پر پر عمل کرکے ایسے کئی پٹیشبرز کو گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشنری بینیفٹ کے اضافہ جات ھے۔ کیونکے سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ نے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کو جن ریسپونڈنٹس کے حق میں گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن دینے حکم ٹرسٹ کو دیا تھا ان میں سے 50 % سے زیادہ وہ ریسپونڈنٹس تھے جو ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی ھوئئے اور انھوں نے گریڈ 1 سے لیکر گریڈ 16 تک کی پوسٹوں کام پر کام کیا تھا اور انھی پوسٹوں سے ریٹائیڑڈ ھوئئے تھے۔
[میں نے ہر عدالت کی ھر کاروائی ڈائیس کے ساتھ وکیلوں کے ساتھ انکے جھرمٹ میں کھڑے ھوکر دیکھی اور سنی اور ھر کاروائی کے بعد میں عدالت سے ھی واٹس ایپس اپنے تمام دوستوں کو مطلع کردیتا کے آج کیا ھوا ھے۔ ان کاروائیوں کی داستان کے بارے میں تین آڑٹیکلز 143,147 148 میں بیان کی ھے جسکو فیسبک اور اپنے بلاگ سائیٹ پر اپلوڈ کیا تھا تھے ۔ بلاگ سائیٹ لنک نیچے پیسٹ کررھا ھوں وقت ملے تو ضرور مکمل پڑھیں بڑی آگاھی ھو گی
Article-143 [ Detail report of the proceedings of ICAs cases in IHC on th
2nd June 2021]
Article-147 [ Regarding detail report of ICA cases proceedings in IHC on
24th June 2021]
Article-148[ Regarding Arguments to be placed by respondent’s councils in
ICA cases in IHC]. ]
تو جو فیصلہ 2 نومبر 2021 کو سنایا گیا جو جسٹس عامر فاروق نے تحریر کیا انھوں نے تو پہلے تمام وکلاء کے دلائیل لکھنے کے بعد اپنے دلائیل کا جو آغا ز کیا تھا ۔انھوں اس فیصلے کے پیرا نمبر 4 میں یہ تحریر کیا کے ایڈوکیٹ شاھد انور باجواہ نے بتایا کے جو “ججمنٹ معزز سپریم کوڑٹ ٹی اینڈ ٹی ملازمین کے لئیے پاس کی تھی کے وہ سول سرونٹ کے ضمرے میں آتے ھیں وہ اس بنیاد پر پاس کی تھی اس کیس میں تمام پٹیشنرز سول سرونٹس تھے[ نہ معلوم کیوں اور کسوجہ سے ایڈوکیٹ شاھد انور باجواہ صرف گریڈ 17 یا اس سے اوپر والے ٹی اینڈ کے ملازمین کو ھی سول سرونٹ گردانتے تھے] اور اگر ان اپیلنٹس میں کوئی لوئیر گریڈ کا ھوتا تو پھر یہ سوال ضرور اٹھایا جاتا اور عدالت کو پھر واضح طور پر کلئر کرنا پڑتا کے کون سے ٹی اینڈ ٹی کے ملازمین سول سرونٹ کے ضمرے میں آتے ھیں اور کونسے نھیں اور کیوں اور کسوجہ سے۔ جبکے حقیقت یہ ھے ان اپیلنٹس میں ایک اپیلنٹ سید محمد دل آویز لوئر گریڈ کا تھا۔جسکی حقیقت ، ایڈوکیٹ شاھد انور باجواہ نے عدالت سے چھپا کر یہ واضح کرنے کی کوشش کی یہ مسعلہ مسعود بھٹی کیس کی سماعت کے دوران کیوں نھیں اٹھایا گیا تھا۔ اب تو اس عدالت نے ھی اسکا فیصلہ کرنا ھے تو عدالت نے اپنے 2 نومبر 2021 کے فیصلے کے پیرا نمبر (iii)19 میں یہ لکھ کر کے “سابقہ ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ کے ملازمین جو ورکمین کی اس تعریف میں آتے ھیں جو ورکمین کمپنسیشن ایکٹ 1923 یا فیکٹری ایکٹ 1934 میں دی گئیں ھیں ، اسلئیے وہ وہ ان بڑھے ھوئئے پنشنری بینیفٹس کے حقدار نھیں ھوسکتے جو حکومت اپنے ریٹائیڑڈ سول سرونٹس کو دینے کا اعلان کرتی ھے “ ، مسعلہ حل کردیا مگر چونکے عدالت نے چونکے specifically یہ نھیں لکھا ورکمین کمپنسیشن ایکٹ 1923 کونسے ٹی اینڈ ٹی اینڈ ٹی کے میں کام کرنے والے کونسے ملازمین ورکمین کی تعریف میں آتے ھیں اور ٹرسٹ نے اپنے تئیں یہ سمجھ لیا کے ورکمین کمپنسیشن ایکٹ 1923 میں دی گئی ورکمین کی تعریف میں ٹی اینڈ ٹی میں گریڈ 1 سے لیکر گریڈ 16 تک کے ملازمین آتے ھیں ۔ اور موصوف جی ایم پی ٹی ای ٹی فاروق صاحب نے دھڑا دھڑ ایسے پٹیشنروں کو غیر قانونی خطوط جاری کردینا شروع کردئیے، عدالتی حکم کی compliance دینے کے لئیے۔ میں تو ان موصوف کے لئے اتنا ھی کہوں گا کے پہلے وہ زرا برائیے مہربانی وہ ورکمین کمپنسیشن ایکٹ 1923 میں دی گئی ورمین کی تعریف تو ھی پڑھ لیتے کے کونسے ٹی اینڈ ٹی کے ملازمین ورکمین کٹیگری میں آتے ھیں اور کونسے نھیں ھیں [ اسکی تفصیل میں اوپر بتا چکا ھوں]
عدالت نے اس فیصلے کے پیرا نمبر 13 میں مزکورہ ورکمین کمپنسیشن ایکٹ 1923 کی سیکشن (n)(1)2 کو جو re produce تو کیا مگر عدالت نے Schedule II کے سیکشن (xiii) کے بارے میں نہ تو کچھ reproduce کیا اور نہ ھی اس کے بارے میں مکمل بتایا ۔
میں سمجھتا ھوں اگر وہ Schedule II کے سیکشن (xiii) کو مکمل re produce کردیتے تو یا اسکے بارے میں مکمل بیان کردیا جاتا تو یہ حقیقت سب پر پوری طرح عیاں ھوجاتی ھوجاتی کے ٹیلیگراف اور ٹیلی فون ڈیپاڑٹمنٹ میں صرف آؤٹ ڈور کام کرنے ملازمین چاھے وہ ریگولر ھوں یا عارضی وہ سب ورکمین کی کٹیگری میں آتے ھیں ۔ تو پھر یقینن معزز جج جسٹس عامر فاروق کو پیرا نمبر (iii)19 ایسا طرح نھیں تحریر کرنا پڑتا جسطرح لکھا گیا ھے اور یقینن گیا ھے اور پھر اسی کے مطابق ٹرسٹ کو compliance دینا پڑتی جو یقینن اسطرح کی نھیں ھوتی جسطرح اب موصوف جی ایم پی ٹی اب دے رھے ھیں ۔
ان کا ایسے پٹیشنروں کو گورمنٹ کے اعلان کردہ پنشن نہ دینا اس بنیاد پر یہ ورک مین تھے صحیح نھیں ھے ۔یہ سب انکے وکیل ایڈوکیٹ شاھد انور باجوہ کی دماغی خناسی معلوم ھوتی ھے جب کے حقیقت یہ ھے کارپوریشن میں ٹرانسفڑڈ ھونے سے پہلے ، ٹی اینڈ ٹی میں ھی ریٹئائڑڈ ھونے ولے ملازمینوں گورمنٹ کے خزانے سے پنشن دی جاتی تھی اور جب کارپوریشن آنے کے بعد ان سب ملازمین کا سول ملازمین کا سول سرونٹ والا سٹیٹس تبدیل ھوگیا اور وہ سب کارپوریشن کے ڈیپاڑٹمنٹ ایمپلائیز کہلانے لگے اور کارپوریشن بطور ٹرسٹیز انکو گورمنٹ کے قائیم کردہ پنشن ایک ٹرسٹ ڈیڈ کے تحت گورمنٹ کے پنشن رولز کے مطابق انکو دے رھی تھی اور پھر کمپنی میں انکو بطور Telecommunication Employees، ٹرسٹ انکو گورمنٹ کی اعلان کردہ ھی پنشن دے رھا تھا۔ اس سب کی تفصیل کچھ اسطرح ھے ۔سابقہ ٹیلیفون ڈیپاڑٹمنٹ میں کام کرنے والے تمام ملازمین جب پی ٹی سی ایکٹ 1991 کی سیکشن (1)9 کے تحت انھی سروس اینڈ ٹرمز کنڈیشنس پر ٹرانسفڑڈ ھو کر آئیے کارپوریشن میں ٹرانسفڑڈ ھو گئیے تھے انھی سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشن پر جو انکے کارپوریشن ٹرانسفڑڈ ھونے سے فورن پہلے ٹی اینڈ ٹی میں تھیں تو انکا سول سرونٹ والا سٹیٹس ختم ھو گیا تھا اور وہ تمام ملازمین پی ٹی سی ایکٹ 1991 کے سیکشن ( e) 2 کے تحت Departmental Employees میں تبدیل ھو گئیے تھے اور ان کو انکی ریٹائیرمنٹ پر کارپوریشن بطور ٹرسٹیز انکو گورمنٹ کی اعلان کردہ ھی پنشن دے رھی تھی ، اس ٹرسٹ ڈیڈ کے مطابق جو جو گورمنٹ اور ٹرسٹیز، یعنی کاپوریشن کے چھ ممران پی ٹی سی چیئرمین اور دیگر پانچ ھائیر پوسٹوں پر تعینات پی ٹی سی آفیسران جن کو ٹرسٹیز بنایا گیا تھا انکے درمیان 2 اپریل 1994 کو سائین ھوا تھا۔ اس ٹرسٹ ڈیڈ کے تحت ایک پنشن فنڈ گورمنٹ نے پی ٹی سی
ھیڈ کوارٹر میں قائم کیا تھا اور اس ٹرسٹ ڈیڈ کی Preamble کے پیرا 2 میں ٹرسٹیز کو اس چیز کا پابند کیا تھا کے وہ تمام پی ٹی سی کے ریٹایڑڈ ڈیپاڑٹمنٹل ملازمین کو اور مستقبل میں ھونے ریٹایڑڈ ڈیپاڑٹمنٹل ملازمین کو بھی وھی گورمنٹ کی پنشن دیں گے جو ریٹائیڑڈ سول سرونٹ کو فیڈرل پنشن رولز کے تحت دی جارھی ھے جسکے وہ entitled ھیں۔ سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ اپنے 12 جون 2015 کے فیصلے میں بھی اسکا زکر کیا ھے اور کلئر کیا کے تمام ڈیپاڑٹمنٹل ایمپلائیز ریٹائیرمنٹ پر گورمنٹ کی ھی اعلان کردہ پنشن کے کیوں حقدار ھیں۔ جب یہ تمام کارپوریشن کے ڈیپاڑٹمینٹل ایمپلائیز اور وہ نئیے ملازمین جو کارپوریشن میں ریگولر بھرتی ھو ۓ ، وہ یکم جنوری 1996 کو کارپوریشن میں پی ٹی ری آرگنئزیشن ایکٹ 1996 کے سیکشن 35 اور 36 کے تحت کارپوریشن سے ٹرانسفڑڈ ھوکر کمپنی کے ملازمین بن گئیے تو وہ تمام اس ایکٹ 1996 کے سیکشن (t)(b)2 کے تحت Telecommunication Employees میں تبدیل ھو گئیے۔ بلکے وہ بھی جو ٹی اینڈ کے میں کام کرنے والے وہ ملازمین بھی جو ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی ھوئیے اور وھیں سے ریٹائیڑڈ ھوئے تھے. گورمنٹ نے ان Telecommunication Employees کو ریٹائیرمنٹ پر گورمنٹ والی پنشن ادا کرنے کےلیے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن ایمپلائیز ٹرسٹ (PTET) کو پی ٹی ری آرگنئزیشن ایکٹ 1996 کے سیکشن 45 کے تحت قائم کیا اور پھر اس کے سیکشن 45 وھی پنشن فنڈ تقویز کردیا جو گورمنٹ نے 2 اپریل 1994 کی ٹرسٹ ڈیڈ کے مطابق پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کا پوریشن میں قائم کیا تھا اور ایک ٹرسٹ ڈیڈ کے تحت اس ٹرسٹ کو پابند کیا کے وہ تمام ریٹائیڑڈ Telecommunication Employees کو اسکی entitlement کے مطابق گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن ادا کرے گا۔ اس ٹرسٹ ڈیڈ میں یہ یہ کلئر کردیا گیا تھا کے کارپوریشن کے جو ایمپلائز ڈیپاڑٹمنٹل اییمپلائز کہلاتے تھے جنکو پی ٹی سی ایل میں ٹیلیکمیونیکیشن ایمپلائیز کہا جاتا ھے وہ ریٹائیر منٹ پر پی ٹی ای ٹی کے پنشنرز ھوں گے ۔اسی ٹرسٹ ڈیڈ کے سیکشن (e)8 جو یہ کہتی ھے فیڈرل گورمنٹ ٹائیم ٹو ٹائیم اپنے ریٹائیڑڈ سول ملازمین کے لئیے جو پنشنر انکریز یا اور کوئی مراعات دیتی ھے تو اسکو یہ ٹرسٹ ، ان ریٹائیڑڈ ٹیلیکمیونیکیشن ایمپلائیز کو دینے کا پابند ھوگا اور اس ڈیڈ کے سیکشن 15 میں کہا گیا ھے جو فیڈرل گورمنٹ اپنی ریٹائیڑڈ ملازمین کے لئیے کسی بھی پنشنری بینیفٹس یا مراعات کا اعلان کرتی ھے تو اسکا اطلاق پی ٹی ای ٹی کے ان ریٹائیڑڈ ٹیلیکمیونیکیشن ایمپلائیز پر انکا اطلاق خود بخود ھوجائیگا اسکو بوڑڈ آف ٹرسٹیز سے کوئی سےبھی اپروول کی ضرورت نھیں ھو گی اور ایسے رولز خود بخود تبدیل ھو جائیں گے اور ایسے تصور ھو گا کے یہ کے وہ بوڑڈ سے منظور ھوں گے.
سوچنے کی بات ھے کے جس ادارے نے یہ ٹرسٹ بنایا ھے یعنی گورمنٹ اس نے ایکٹ میں ایسی کوئی بات لکھی ھی نھیں کے کس ملازم کو ورک مین کہا جائیے اور کس کو سول ملازمین وہ تو کسی میں تفریق ھی نھیں کررھی عدالت کو یہ اختیار کہاں سے آگیا کے وہ یہ کہے کے فلاں ایمپلائی ورک مین ھے فلاں سول سرونٹ فلاں کو گورمنٹ والی پنشن ملنی چاھئیے فلاں کو کمپنی والی وغیرہ وغیرہ جبکے جس نے ٹرسٹ بنایا ھے کے پی ٹی سی ایل میں آنے والے اور پھر ریٹئیڑڈ ھونے والوں کو گورمنٹ کی ھی اعلان کردہ پنشن ملیں گی جسکا اعلان وہ اپنے ریٹائیڑڈ سول سرونٹ کے لئیے کرتی ھی تو بات ختم۔
یہ ٹرسٹ گورمنٹ کے اسی ایکٹ 1996 کے مطابق گورمنٹ والی ھی پنشن اور دیگر مراعات یکم جنوری 1996 دیتا چلا آرھا تھا تو پھر اسکو پتہ نھیں کیا کھرک پیدا ھوئی جو اسنے یکم جولائی 2010 سی یہ سب دینا بند کردیں اور خود اپنی مرضی سے پنشن انکریز دینا شروع کردیں جو گورمنٹ کی اپنے ریٹائیڑڈ ملازمین کو دینے کے مقابلے میں بہت کم ھے۔ پھر اسنے عدالتی حکم پر 343 پٹیشنروں کو گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن اضافہ جات کے بقایا جات ادا کردئیے بلکے انکی پنشن گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن اپنے ریٹائیڑڈ سول سرونٹ، کے مطابق فکس کردی اور جو اضافہ ھرسال گورمنٹ کرتی ھے وھی اضافہ ان 343 پٹیشنروں کو دیا جارھا ھے ۔ اب نئیے ایسے ھی پٹیشنروں کو دینے سے کیوں کترا رھا ھے اور کیوں حیلے بہانے کر رھا ھے کے یہ ورک مین ھے اسے گورمنٹ کی پنشن بینیفٹس ھیں ملیں گے اور یہ سول سرونٹ ھیں انکو ملیں گے مگر یہ تو کسی کو بھی کچھ نھیں دے رھا۔
آخر میں آپ لوگوں کو یہ بتانا چاھتا ھوں عدالت کا یہ متازعہ اور غلط فیصلہ ٹرسٹ کے وکیل ایڈوکیٹ شاھد انور باجواہ کی عدالت سے غلط بیانی، جھوٹ اور اصل حقائیق چھپانے کی وجہ سے آیا جسکی بنا پر جی ایم پی ٹی ای ٹی کی طرف سے ایسے پٹیشروں کو غیر قانونی خطوط لکھے جارھے جن مں انکو کو یہ دھمکی دیکر کے انکو گورمنٹ کے اعلان پنشنری بینیفٹس اضافے جات نھیں ملیں گے ، ھراساں کئیے جارھا ھے ۔ اس سلسلے میں نے مظہر حسین ایم ڈی پی ٹی ای کو ٹرسٹ کے وکیل ایڈوکیٹ شاھد انور باجواہ کے خلاف نہ صرف شکایات کی ھے کے انکے خلاف مناسب ایکشن لئیے جانے کا لکھا ھے اور بلکے یہ بھی انپر واضح کردیا ھے کے متاثران پٹیشنرز نہ صرف وہ ٹرسٹ کے خلاف نہ صرف توھین عدالت کرنے بلکے انکے خلاف CPC 12(2) کے تحت کاروائی کا حق بھی محفوظ رکھتے ھیں۔
میں اپنے اس خط کی ایک کاپی ، سیکریٹری (MoITT) اسلام آباد اور ایک کاپی رجسٹرار اسلام آباد ھائی کوڑٹ اسلا م آباد کو بھی بھیجی ھے۔ میں نے اپنے اس خط کا ڈرافٹ Article-177 میں لکھ دیا ھے جسکو فیسبک اور بلاگ سائیٹ پر اور واٹس ایپس پر اپلوڈ کررھا ھوں ۔ تاکے ایسے تمام پی ٹی سی ایل پنشنرز پٹیشنرس بھی اسی ڈرافٹ کو اپنے نام سے ، سب کو ضرور بھیجیں۔ میں چاھتا ھوں زیادہ سے زیادہ ایسے خط بھیجے جائیں تاکے ان پر پریشر بڑھے اور لوگ کچھ سوچنے پر مجبور ھوں ۔میں نے Article-178 میں ان گریڈ 1 تا گریڈ 16 والے پٹیشنروں کے لئیے بھی جی ایم پی ٹی ای ٹی کو بھیجنے کے لئے ڈرافٹ بنایا ھے جنکو یہ دھمکی دی جارھی ھے کے کیونکے وہ ورکمین کی کٹیگری میں آتے ھیں اسلئے انکو گورمنٹ کے پنشنری بینیفٹس کے اضافہ جات نھیں دئیے جاسکتے ۔ اور میں نے دوسرے Article-179 میں ڈرافٹ ان پٹیشنروں کے لئیے بنایا جو گریڈ 17 یا اس سے اوپر والے گریڈ سے ریٹئائڑڈ ھوئیے جنکو جی ایم پی ٹی ای ٹی سمجھتے ھیں کے انکی ابتدائی ملازمت لوئیر گریڈ میں ھوئی تھی لیکن انکی ریٹئائئرمنٹ گریڈ 17 یا اس سے اوپر میں ھوئی ۔ وہ ان سے انکا وہ appointment letter مانگ رھے ھیں تاکے وہ انکا یکم جنوری 1991 کا سٹیٹس جان سکیں۔ تو ایسے پٹیشنرز اس Article-179 میں دبنائیے ھوئیے ھوئیے ڈرافٹ کو اپنی طرف سے بناکر جی ایم پی ٹی ای ٹی کو بھیج دیں ۔
جن لوگوں کو یہ خطوط مل رھے ھیں وہ بلکل بھی پریشان ھوں کیونکے یہ تمام غیر قانونی ھیں جو انھوں نے اصل حقائیق چھپا کر صرف پٹیشنروں کو پریشان اور ھراساں کے لئیے بنئیے ھیں ۔جب یہ معاملہ عدالت میں جائیے گا انکو حقیقت معلوم ھوجائیگی اور وہ لوگ منہ کی کھائیں گے۔میں نے اس طویل آڑٹیکل ھر طرح سے یہ ثابت کردیا کے یہ غیر قانونی خطوط جو میرٹ دے ھٹ کر جاری کئیے گئیے۔ آپ لو گ صرف انکا جواب دے کر جیسا میں نے آپکو بتایا ھے سختی سے ماننے سے انکار کردیں اور ان خطوط کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیں ۔شکریہ
واسلام
محمد طارق اظہر
ریٹائیڑڈ جنرل منیجر (آپس) پی ٹی سی ایل
راولپنڈی
مورخہ ۳ جولائی ۲۰۲۴ بروز بدھ
۔
،
Comments