Article-181[ Regarding procedure how to get help of ChatGPT for writing of a draft ]
Article -181
چاٹ جی پی ٹی کی مدد سے جی ایم پی ٹی ای ٹی کو تنبیہ کا خط لکھنا
عزیز پی ٹی سی ایل ساتھیو
اسلام و علیکم
اپنے نئیے آڑٹیکل نمبر 180 جی ایم پی ٹی کے نام انگلش میں لکھا گیا خط ، میں نے چاٹ جی پی ٹی کی مدد سے تیار کیا ھے۔ اس ChatGPT -4 کی ایپس میں نے اپنے Apple iPad پر ڈاؤن لوڈ کی ھے اور اسکو استعمال کے لئیے سالانہ 12000 روپے ادا کئے ھیں ۔اسکو بڑی خوبی سے اپنے زیر استعمال لا رھا ھوں۔ میں نے اسکی مدد سے جنرل منیجر پی ٹی ای ٹی کو یہ تنبہ کا خط لکھا ھے ۔ یہ خط میں نے کیوں لکھا ، اسکے متعلق میں نے مفصل تفصیل اپنے طویل آڑٹیکل 176 میں بیان کی ھے ۔ جن لوگوں نے طویل ھونے کی وجہ سے نھیں پڑھا ھے اس سے درخواست ھے کے اسکو ضرور پڑھیں تب ھی انکو یہ جی ایم پی ٹی کے نام انگلش میں ChatGPT کی مدد سے تیار کردہ خط سمجھ میں آئیگا۔ میں انکے لئے اپنے بلاگ سائیٹ کا وہ لنک یہاں پیسٹ کررھا ھوں جو میں نے اسپر اپلوڈ کیا ھوا ھے
[Article-176 [ Regarding Controversial Order of IHC of dated 02-11-2021]
یہ خط میں نے چاٹ جی پی ٹی کو اردو میں ڈائیریکشن دے کر انگلش میں جنریٹ کرنے کا کہا تھا۔ ان سب کی تفصیل زیر پیش ھے
۱۔ چاٹ جی پی ٹی کو میری پہلی ڈائیریکشن
“آپ پلیز میرے اس مندرجہ زیل ڈرافٹ کا انگریزی میں ترجمہ کرکے اسکی قانونی لحاظ سے صحیح اسطرح انگلش میں ھی کریں کے جنرل منیجر پی ٹی ای ٹی پر یہ واضح ھوجائیے کے انھوں نے اس طرح کے خطوط پی ٹی سی ایل پٹیشنروں کو بھیج کر بہت بڑی غلطی کی ھے اور توھین عدالت بھی۔ انکو یہ بھی کہا جائیے کے جو فیصلہ پیرا (i)19 میں عدالت نے دیا اس پر فوری عمل کیا جائیے اور پٹیشنروں کو جو اس پیرے کی مطابق گورمنٹ کی پنشنری بینیفٹس لینے کے حق رکھتے ھیں انکو فورن یہ دئیے جائیں جسطرح انھوں نے فروری 2018 میں 343 ایسے ھی پی اٹی دی ایل پٹیشنروں کو سپریم کوڑٹ کے 15 فروری 2018 کے حکم پر ادا کئیے تھی ۔ جلد نہ دینے کی صورت میں یہ پٹیشنرز انکے خلاف توھین عدالت کا کیس کرنے کا حق محفوظ رکھتے ھیں ۔ اس ڈرافاٹ کا پہلے کوئی اچھا سا subject انگلش میں ھی دیں اور اس خط کی کاپی انگلش میں ھی سیکٹری منسٹری انفارمیشن ، ٹیلیکام اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد کو دیتے ھوئیے ان سے request کریں کے 2 نومبر 2021 عدالت کے اس فیصلےکے پیرا نمبر (i)19 کے مطابق حقدار پٹیشنروں کو یہ تمام پنشن کے واجبات دے کر انکو رپوڑٹ کریں .شکریہ
جناب محمد فاروق
جنرل منیجر ( پی ٹی ای ٹی)
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن ایمپلائیز اتھاڑٹی
اسلام آباد
اسلام و علیکم
اسلام آباد ھائی کوڑٹ کے ڈویژن بینچ نے 2 نومبر 2021 کو PTET اور PTCL کی طرف سے دائیر کردہ اپیلوں پر انکی اپیل ICA-82/2020 ایک تفصیلی فیصلہ دیا . یہ انٹرا کوڑٹ اپیلیں
اپریل 2020 میں PTET اور PTCL نے اسلام آباد ھائی کوڑٹ کی سنگل بینچ کے جج جناب جسٹس میاں گل اورنگزیب کے 3 مارچ 2020 اس تفصیلی فیصلے کے خلاف دائیر کی گئیں تھیں جو انھوں نے رسول خاں ودیگران کی پرانی پٹیشن نمبر WP-523/2012 پر دے کر اسکے ساتھ کلب کی ھوئیں تقریبن 30 اسی طرح کی پٹیشنوں کو ڈسپوزڈ آف کیا تھا ، اس فیصلے میں عدالت نے اس فیصلے کے پیرا نمبر (iii) صرف ان پٹیشنروں کو گورمنٹ کی اپنے سول ملازمین کو اعلان کردہ پنشنری بینفٹس کا حقدار ٹھرایا اور دوماہ کے اندر دینے کا حکم دیا جو سابقہ پاکستان ٹیلگراف اینڈ ڈیپاڑٹمنٹ کے ملازمین تھے اور اور جنکی ریٹائیر منٹ نارمل طریقے سے ھوئی تھی یعنی بغیر وی ایس ایس آپشن کے ۔ جبکے اسی فیصلے کے پیرا (vi) کے تحت ایسے ھی پٹیشنروں کو انکا prayed کیا ھوا میڈیکل الاؤنس، اردلی الاؤنس ( گریڈ 20 اور اس سے اوپر ) ، فیملی پنشن اور ریسٹوریشن آف کمیوٹڈ پنشن دو ماہ کے اندر دینے کا جکم دیا تھا ۔جبکے اسلام آباد ھائی کوڑٹ کے ڈویژن بینچ ، جو اسوقت کے چیف جسٹس جج اطہر من اللہ اور موجودہ چیف جسٹس جج عامر فاروق پر مشتمل تھا، اسنے جو نومبر 2 نومبر 2021 کو فیصلہ دیا اسکے پیرا نمبر (i)19 میں صرف ان پٹیشنروں کو صرف گورنمنٹ کی اعلان کردہ پنشن کا حقدار ٹہرایا جو سول سرونٹ ایکٹ 1973 کی شق (b)(1)2 کے تحت سول سرونٹ کی تعریف میں آتے تھے اور جنکو PTCL میں اس سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے سیکشن 3 تا سیکشن 22 کی statutory protection حاصل تھی اور جنکی ریٹائیرمنٹ نارملی ھوئی ھو بغیر کسی compensation لئے ھوئیے یعنی وی ایس ایس آپٹ کئے بغیر ۔ اس فیصلے کے پیرا نمبر (ii)19 تا (vii)19 ان ریسپونڈنٹس کو ان تمام ریلیف سے محروم کردیا گیا جو اسلام آباد ھائی کوڑٹ کی سنگل بینچ نے اپنے 3 مارچ 2020 کے کے پیرا نمبر (iii) میں دیا تھا۔ اسلام آباد ھائی کوڑٹ کا یہ 2 نومبر 2020 اس لحاظ سے بی نہایت متنازعہ ھے کیونکے یہ فیصلہ PTET اور PTCL کے وکیل جناب ایڈوکیٹ شاھد انور باجواہ کی نہایت غلط بیانی اور اصلی حقائیق عدالت سے چھپانے کے وجہ سے آیا ھے ۔
عدالت کو اپیلنٹس کے وکیل جناب ایڈوکیٹ شاھد نے یہ بتایا کے سابقہ پاکستان ٹیلگراف اینڈ ڈیپاڑٹمنٹ میں گریڈ 1 سے لیکر گریڈ 16 تک کی پوسٹوں پر کام کرنے والے ملازمین ریٹئیرمنٹ پر گورمنٹ کے اپنے ریٹئیڑڈ سول ملازمین کو دینے والے پنشنری بینیفٹس میں اضافے جات کے حقدار نھیں ھو سکتے کیونکے یہ ورکمین ھوتے ھیں سول سرونٹ نھیں ۔ کیونکے یہ ورکمین کمپنسیشن ایکٹ 1923 کے تحت ورکمین یا ورکر کی تعریف میں آتے میں ۔عدالت نے استفسار پر اپیلنٹس کے وکیل جناب ایڈوکیٹ شاھد نے بتایا گریڈ 17 اور اس سے اوپر کی پوسٹوں پر کام کرنے والے سابقہ پاکستان ٹیلگراف اینڈ ڈیپاڑٹمنٹ کے ملازمین سول سرونٹ کے ضمرے میں آٹے ھیں جنکا زکر گورمنٹ سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے سیکشن (b)(1)2 میں کیا گیا ھے مگر گریڈ 1 سے لیکر گریڈ 16 جنکا زکر (iii)(b)(1)2 میں کیا گیا ھے وہ سول سرونٹ نھیں ھوتے بلکے ورکمین ھوتے ھیں۔ اس پر عدالت نے ان سے پوچھا اتنا اھم معاملہ آپ نے اسوقت کیوں سپریم کوڑٹ میں کیو ں نھیں اٹھایا جب سپریم کوڑٹ کا تین رکنی بینچ , مسعود بھٹی ودیگران بنام فیڈریشن آف پاکستان و دیگران کے کیس کی سماعت اگست 2011 میں کررھا تھا جس نے اپیلنٹس کو ، جو سابقہ ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ کے ملازمین تھے، کمپنی میں سول سرونٹ سٹیٹس کا حامل قرار دے کر یہ حکم دیا تھا ان پر کمپنی میں انھی سرکاری قوانین ( Statuary Rules) کا اطلاق ھوگا جو گورمنٹ آف پاکستان کے سرکاری ملازمین پر سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے تحت ھوتا ھے۔ سپریم کوڑٹ کے اس حکم کے باعث ، کمپنی میں کام کرنے والے تمام سابقہ ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ کے ملازمین کا سٹیٹس سول سرونٹ کا ھوگیا اگرچہ وہ کمپنی یعنی PTCL کے ملازمین کہلاتے تھے۔ اس پر اپیلنٹس کے وکیل جناب ایڈوکیٹ شاھد نے عدالت سے غلط بیانی کرتے ھوئیے کہا چونکے وہ تینوں اپیلنٹس گریڈ 17 اور اس سے اوپر کے تھے جو سول سرونٹس کی کٹیگری میں آتے تھے اسلئیے عدالت یہ سوال نھیں اٹھایا گیا ۔ یہ اپیلنٹس کے وکیل جناب ایڈوکیٹ شاھد انور باجواہ کا سفید جھوٹ تھا کیونکے ان تینوں میں سے ایک اپیلنٹ یعنی سید محمد دلآؤیز ماسٹن روڈ گیٹ وے ایکسچینج میں گریڈ 5 بطور کلرک کام کرتا تھا۔ سپریم کوڑٹ نے اپنے اس کیس کے فیصلے کے تحت جو 7 اکتوبر 2011 کو دیا گیا جو 2012SCMR152 میں درج ھے ، ٹی اینڈ ٹی میں کام کرنے والے ریگولر ملازمین جو یکم جنوری 1996 کارپوریشن سے ٹرانسفڑڈ ھوکر کمپنی یعنی PTCL میں آئیے تھے اور کمپنی کے ملازم بن گئیے تھے ، ان سب کے لئیے قرار دیا تھا کے کمپنی میں ان پر گورمنٹ کے ان سرکاری قوانین statutory rules کا اطلاق ھوگا جو سول سرونٹ ایکٹ 1973 میں دئیے گئیے ھیں جو گورمنٹ نے اپنے سول سرونٹ کے لئیے بنائیے ھیں ۔ سپریم کوڑٹ کے اس حکم کے وجہ سے سابقہ ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ کے سارے ھی ریٹائیڑڈ ملازمین گریڈ 1 سے لیکر گریڈ 22 تک ، اس ایکٹ کے سیکشن (1)19 کے تحت گورمنٹ کے ان پنشنری بینیفٹس کے حقدار ھوگئیے تھے ۔
جبکے ایڈوکیٹ شاھد انور باجواہ کا یہ استدلال بھی تھا کے جو سابقہ ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ کے ملازمین ورک مین کے ضمرے میں آتے ھیں یعنی گریڈ 1 تا گریڈ تک 16 تک وہ گورمنٹ اعلان کردہ ان پنشنری بینیفٹس کے بلکل حقدار نھیں جن کا اعلان گورمنٹ اپنے سرکاری ملازمین کے لئیے کرتی ھے۔ انکو پنشنری بینیفٹس کمپنی کی مرضی سے دئیے جائیں گے۔ یہاں بھی ایڈوکیٹ شاھد انور باجواہ عدالت عظمی سے یہ حقائیق چھپا گئیے کے جن 343 پٹیشنروں کو اسی سپریم کوڑٹ کے 15 فروری 2018 حکم کے مطابق گورمنٹ کے اعلان کردہ پنشنری بینیفٹس اضافہ جات کے بقایا جات دے چکے ھیں اور انکی پنشن گورمنٹ کی اپنے ریٹئیڑڈ سرکاری ملازمین اعلان کردہ پنشن کے مطابق فکس کر چکے ھیں ان میں سے 50% سے زیادہ کا تعلق گریڈ 1 تا گریڈ 16 تک کا تھا ،
PTCL میں کام کرنے والے سابقہ ٹی اینڈ ٹی کے ملازمین کا تھا جو کمپنی کے ملازم بن گئیے تھے ۔ تو جو 2 نومبر 2021 کا یہ controversial فیصلہ دیا گیا وہ ایڈوکیٹ شاھد انور باجواہ کے اس بیان کی وجہ سے مووجہ سبب بنا کے کے سپریم کوڑٹ سابقہ ٹی اینڈ ٹی کے ملازمین کو اسلئے سول سرونٹ قرار دیا کے کیونکے اس کیس سارے پٹیشنرز سول سرونٹ تھے
آپ نے اس فیصلے کے پیرا (iii)19 کی میں بیان کئئے گئیے فیکٹری ایکٹ اور ورکمین کمپنسیشن ایکٹ 1923 میں دی گئی ورکمین کی تعریف پڑھے بغیر ، صرف ایڈوکیٹ شاھد انور باجواہ کی عدالت میں بیان کی گئی ورکمین کی تعریف کی بنیاد پر گریڈ 1 گریڈ 16 رکھنے والے ھر پٹیشنر کو 10 جون 2024 سے یہ خطوط بھیجنے شروع کردئیے چونکے وہ بطور سابقہ ٹیلیفون ڈیپاڑٹمنٹ ملازمین ورکمین یا ورکر کی اس تعریف میں آتے ھیں جو فیکٹری ایکٹ 1934 اور ورکمین کمپنسیشن 1923 میں دی گئیں ھیں اسلئیے وہ سول سرونٹ نھیں ھوتے اسلئیے وہ ان پنشنری بینیفٹس کے حقدار نھیں ھوسکتے جسکے حقدار سول سرونٹس ھوتے ھیں ۔آپ کو معلوم ھونا چاھئیے تھا کے فیکٹری ایکٹ 1923 میں تو فیکٹری کی مشینوں پر کام کرنے والے ملازمین کو ورکمین یا ورکر کہاگیا ھے ۔ جبکے ورکمین کمپنسیشن ایکٹ 1923 میں اسکی شق (ii)(n)(1)2 میں بیان کئیے گئیے Schedule-II کے سیکشن (xiii) کے مطابق وہ اشخاض ورکمین یا ورکر کے ضمرے میں آتے ھیں جو ٹیلگراف و ٹیلیفون ڈیپاڑٹمنٹ میں آؤٹ ڈور کام کرتے ھیں ۔ تو اس کے مطابق سابقہ ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ میں آؤٹ ڈور پوسٹوں پر کام کرنے والے تمام ملازمین ورکمین کہلاتے ھیں ۔ ورکمین کو ریٹائیرمنٹ پر پنشن نھیں دی جاتی مگر سابقہ ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ کے آؤٹ ڈور پوسٹوں پر کام کرنے والے تمام ایسے ورکر یا ورک جنوں کو انکی ریٹئیرمنٹ پر ، گورمنٹ کے ملازمین ھونے کے ناطے پنشن دی جارھی تھی۔ اس سلسلے میں آپکی توجہ ڈائیریکٹر جنرل ٹی ایڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ کی طرف سے 10 دسمبر 1988 کو اسٹیبلیشمنٹ ڈویژن گورمنٹ آف پاکستان راولپنڈی کو بھیجے ھوئیے اس یو او نوٹ کی طرف کرانا چاھتا ھوں جسمیں انھوں نے یہ سوال اٹھایا تھا آؤٹ ڈور کام کرنے والے ٹی اینڈ ٹی کے ملازمین کی چھوٹے گریڈ کے کٹیگری کے ملازمین لائین مین ، ٹیکنیشین ، وائیرمین وغیرہ پر ورک مین کمپنسیشن ایکٹ 1923 کا اطلاق ھوتا ھے تاکے ڈیوٹی انجام دینے کے دوران زخمی ، اعضا کو نقصان یا موت کی صورت میں اس ایکٹ کے تحت انکو معاوضہ یعنی compensation دیا جاسکے اور اس ورک مین کمپنسیشن ایکٹ 1923 کے اطلاق کی وجہ سے وہ سول سرونٹ ایکٹ 1973 کی شق (iii)(b)2 کے تحت سول سرونٹ کی کٹیگری سے خارج ھو جاتے ھیں، تو کیا انپر گورمنٹ ڈیپاڑٹمنٹ میں کام کرنے کی وجہ سے سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے قوانین کا بھی اطلاق ھوسکتا یا نہیں ۔اسٹیبلشمنٹ ڈویژن گورمنٹ آف پاکستان راولپنڈی نے اپنے یکم جنوری 1989 کے اپنے یو او نوٹ یعنی
U.O No 3/2/78-R, 2 Dated 1-1-1989
کے زریعے ڈائیریکٹر جنرل ٹی ایڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ کو انکے اس لیٹر کا جواب دیا تھا جسکا عنوان تھا
“Clarification Civil Servant Act 1973 , Factories Act 134 and Workmen Compensation Act 1923
جسمیں کہا گیا تھا
“آؤٹ ڈور کام کرنے والے مزکورہ ملازمین سول سرونٹ ایکٹ 1973 کی شق ( iii)(b)2 کی رو سے سول سرونٹ نہیں ھوسکتے، اسلئیے وہ سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے تحت بنائیے ھوئیے قوانین جیسے سول سرونٹ ( ای اینڈ ڈی) رولز 1973 بھی شامل ھے ، اسکے دائرہ کار ( jurisdiction) سے باھر ھوجاتے ھیں ۔ اگرچہ اس کٹیگری کے ملازمین سول سرونٹ نہیں ھوتے جسکا زکر کیا گیا ھے لیکن انکو سرکاری ملازم قرار دیا جاسکتا ھے کیونکے یہ گورمنٹ ڈیپاڑٹمنٹ میں کام کر رھے ھوتے ھیں ۔ اور سرکاری ملازمین کے ناطے یہ سرکاری قوانین کے تحت ھی کام کرسکتے ھیں جیسے گورنمنٹ سروس رولز 1960 وغیرہ ، میں کہا گیا ھے جو عام طور پر دوسرے ایسے سرکاری ملازمین پر لاگو ہوتے ہیں۔ اپنی فیلڈ ڈیوٹیز کی دوران آؤٹ ڈور کام کرتے ھوئیے ، موت ، اعضاء کو نقصان یا زخمی ھونے کی صورت میں یہ صرف کمپنسیشن ورک مین کمپنسیشن ایکٹ لینے کے حقدار ھیں “
تو آپکے یہ تمام خطوط جو لوئیرز گریڈ کے پٹیشنر کو آپنے بھیجے ھیں وہ اس لحاظ سے غیر قانونی ھیں ایک تو یہ کے مزکورہ پٹیشنرز فیکٹری ایکٹ 1934 یا ورکمین کمپنسیشن ایکٹ میں 1923 میں دی گئی ورکمین کی تعریف میں ھی نھیں آتے ۔ اور انکو جو پنشن مل رھی وہ بطور سول سرونٹ ، سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے سیکشن (1)19 کے تحت دی جارھی تھی۔ اور یہ بات بہت عجیب ھے جن پٹیشنروں کو آپ یہ خطوط بھیج کر انکو گورمنٹ کے پینشنری بینفٹس میں اضافہ جات دینے سے انکار کررھے آپ نے ایسے ھی متعدد پٹیشنروں کو 26 فروری 2018 کو خطوط بھیج کر گورمنٹ کے اعلان گردہ پینشنری بینیفٹس کے بقایا جات کی مکمل تفصیل فراھم کی تھی جو کے انکو سپریم کوڑٹ کے 15 فروری 2018 کے مطابق پندرہ دن کے اندر ادا کئیے جانے تھے۔ اسطرح ٹرسٹ نے جن 343 ایسے پٹیشنروں کو یہ گورمنٹ کے پنشری بینیفٹ کے اضافہ جات دئیے ھیں ان میں 50 فیصد سے بھی زیادہ ایسے وہ پٹیشنرز بھی تھے جو سابقہ ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ میں گریڈ 1 تا گریڈ 16 میں کام کرتے تھے ۔
آپکا یہ دوغلا پن بڑا ھی حیران کن ھے۔ آپ نے عدالت کے فیصلہ کے پیرا نمبر (Iii)19 کی تعمیل میں بڑی پھرتی دکھائی اور گریڈ 1 تا گریڈ 16 والے پٹیشنروں کو ورکمین قرار دے کر کر انکو گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشنری بینیفٹس اضافہ جات نہ دینے کا مطلع کردیا۔ زرا اسکے پیرا (i)19 کی تعمیل میں بھی پھرتی دکھائیں جسمیں پٹیشنروں کو عدالت گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشنری بینیفٹس اضافے جات کا حقدار ٹھرایا گیا ھے ۔اس پیرا (i)19 کے مطابق جو پٹیشنرز سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے سیکشن (b)(1)2 کے تحت سول سرونٹ کی تعریف میں میں آتے ھیں اور جنکی ریٹائیرمنٹ نارمل طریقے سے یا ساٹھ سال کی عمر میں ھوئی ھو ۔ وھی گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشنری بینیفٹس کے اضافہ حقدار ھیں
لہٰزا التماس کی جاتی ھے عدالت کی اس پیرا (i)19 میں دئیے گئیے احکامات پر فوری عمل کیا جائیے اور حقدار پٹیشنروں کو گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشنری بینیفٹس کے اضافہ فوری طور پر دئیے جائیں جسطرح ایسے ھی 343 ایسے ھی پٹیشنروں کو فروری 2018 میں ادا کئیے گئیے تھے۔ عدالتی اس حکم پر فوری عمل نہ کرنے کی صورت پٹیشنرز آپکے خلاف توھین عدالت کا کیس کرنے کا حق محفوظ رکھتے ھیں “
۲۔ میری اس پہلی مندرجہ بالا ڈائیریکشن پر جو ChatGPT نے جواب دیا اور جو لیٹر بنایا وہ مجھے پسند نھیں آیا تو پھر میں نے ChatGPT کو یہ کہا بار بار تاکید کرنی پڑتی کے انگلش میں لکھیں ورنہ وہ اردو کا جواب اردو میں جنریٹ شروع کردیتا تھا
“اپنے اس ڈرافٹ کو اسکو مزید اور بہتر طریقے سے انگلش میں قانونی طور پر تصحیح کریں اور اس میں ایڈوکیٹ شاھد باجواہ متنازعہ کردار کے بارے میں لکھیں جو اسنے جھوٹ بولا عدالت سے جبکے اسکے ھی ھدایت پر کے ٹرسٹ ان ھی پٹیشنروں کو گورمنٹ کی پپنشنری بینیفٹس اور incentive پے دیا گیا تھا ما سوائیے انکے جو وی ایس ایس آپٹ ریٹائیڑڈ ھوئیے تو سپریم کوڑٹ نے 15 فروری 2018 کو جو حکم دیا تھا اسکی کی بنیاد یہ ھی ایڈوکیٹ شاھد انور باجواہ کی کنفرمیشن تھی تھی اس وقت تا موصوف وکیل نے یہ نھیں کہا تھا کے گریڈ 1 تا گریڈ 16 تک کے پٹیشنروں کو یہ گورمنٹ کے پنشنری بینیفٹس نھیں دئیے جائیں گے ۔ اسوقت جب 343 پٹیشنروں کو یہ گورمنٹ کے پنشنری بینیفٹس دئیے گئیے تھے اس میں سے 50 % سے زیادہ تعداد گریڈ 1 تا گریڈ 16 تک میں کام کرنے والے پٹیشنروں کی تھے۔ آپ اس کے شروع میں یہ بھی ضرور واضح کردیں کے ٹی اینڈ ٹی میں کام کرنے والے آؤٹ ڈور کے ملازمین ورکمین کہلاتے تھے لیکن بحیثیت گورمنٹ ملازمین ان کی ریٹئیرمنٹ پر انکو پنشن جو ملتی تھی وہ وھی جو گورمنٹ اپنے سول سرونٹس سول سرونٹ ایکٹ کی شق (1)19 کے تحت دیتی تھی اور یہ وضاحت ایسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے سابقہ ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ کے ڈی جی کو اپنے ایک مراسلے کے زریعے یکم جنوری 1989 کو دیا تھا
آپ سیکٹری کو ڈرافٹ کے اندر نہ لکھیں بلکے اس مضمون کے اختتام پر کی کاپی انکو مار ک کرتے ھوئیے پھر لکھیں یہ سب انگلش میں لکھیں اور مفصل قانونی طور پر تصحیح کر کے جنریٹ کریں “
۳۔ میری اس مندرجہ بالا دوسری ڈائیریکشن جو اسنے جنریٹ کیا وہ پھر مجھے پسند نھیں آیا اسنے اس خط کو لیگل نوٹس میں تبدیل کردیا جو میں نے نھیں کہا تھا ۔تو پھر اسکو میں نے تیسری بار ڈائیریکشن دینے پڑی اور اسکو کو لکھا
“ارے نھیں یہ لیگل نوٹس نھیں ھے بلکے یہ تو میری طرف سے جنرل منیجر پی ٹی ای ٹی کو ایک تنبیہ اور ایک وارننگ ھے کیونکے میں بھی اسلام آباد ھائی کوڑٹ کے 2 نومبر 2021 والے کیس میں ریسپونڈنٹ ھو ں میرے اور ساتھ ساتھیوں کے خلاف انکی انٹرا کوڑٹ اپیل کا نمبر ICT-98/2020 ھے۔ عدالت نے تفصیلی۔ فیصلہ ICT-82/2020 پر دیا اور اسکے مطابق اور تمام انٹرا کوڑٹ اپیلیں ڈسپوزڈ آف کردیں تھیں۔ اسکے پیرا (i)19 کا اطلاق مجھ پر اور میرے ساتھ تمام 19 ساتھیوں پر ھوتا ۔ آپ نے جو subject پہلے جواب میں جو لکھا تھا وہ صحیح تھا آپ اسی پہلے والے جواب کو صحیح بنائیں مکمل انگلش میں جیسے میں نے آپ کو اردو میں ڈائریکشن دیں ۔ آپکے اس سخت جواب سے جنرل منیجر پی ٹ ای ٹی پر یہ بات واضح ھو جانی چاھئیے کے اسنے جو خطوط گریڈ 1 سے لیکر گریڈ 16 تک کو لکھیں ھیں وہ اسنے فیکٹری۔ ایکٹ 1934 اور ورکمین کمپنسیشن ایکٹ 1923 کو پڑھے بغیر لکھے ھیں۔ فیکٹری ایکٹ 1934 کا اطلاق فیکٹری میں مشینوں پر کام کرنے والوں پر ھوتا ھے اور جبکے ورکمین کمپنسیشن ایکٹ 1923 میں اسکی شق (ii)(n)(1)2 میں بیان کئیے گئیے Schedule-II کے سیکشن (xiii) کے مطابق وہ اشخاض ورکمین یا ورکر کے ضمرے میں آتے ھیں جو ٹیلگراف و ٹیلیفون ڈیپاڑٹمنٹ میں آؤٹ ڈور کام کرتے ھیں ۔ تو اس کے مطابق سابقہ ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ میں آؤٹ ڈور پوسٹوں پر کام کرنے والے تمام ملازمین ورکمین کہلاتے ھیں ۔ ورکمین کو ریٹائیرمنٹ پر پنشن نھیں دی جاتی مگر سابقہ ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ کے آؤٹ ڈور پوسٹوں پر کام کرنے والے تمام ایسے ورکر یا ورک جنوں کو انکی ریٹئیرمنٹ پر ، گورمنٹ کے ملازمین ھونے کے ناطے پنشن دی جارھی تھی۔ اس سلسلے میں آپکی توجہ ڈائیریکٹر جنرل ٹی ایڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ کی طرف سے 10 دسمبر 1988 کو اسٹیبلیشمنٹ ڈویژن گورمنٹ آف پاکستان راولپنڈی کو بھیجے ھوئیے اس یو او نوٹ کی طرف کرانا چاھتا ھوں جسمیں انھوں نے یہ سوال اٹھایا تھا آؤٹ ڈور کام کرنے والے ٹی اینڈ ٹی کے ملازمین کی چھوٹے گریڈ کے کٹیگری کے ملازمین لائین مین ، ٹیکنیشین ، وائیرمین وغیرہ پر ورک مین کمپنسیشن ایکٹ 1923 کا اطلاق ھوتا ھے تاکے ڈیوٹی انجام دینے کے دوران زخمی ، اعضا کو نقصان یا موت کی صورت میں اس ایکٹ کے تحت انکو معاوضہ یعنی compensation دیا جاسکے اور اس ورک مین کمپنسیشن ایکٹ 1923 کے اطلاق کی وجہ سے وہ سول سرونٹ ایکٹ 1973 کی شق (iii)(b)2 کے تحت سول سرونٹ کی کٹیگری سے خارج ھو جاتے ھیں، تو کیا انپر گورمنٹ ڈیپاڑٹمنٹ میں کام کرنے کی وجہ سے سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے قوانین کا بھی اطلاق ھوسکتا یا نہیں ۔اسٹیبلشمنٹ ڈویژن گورمنٹ آف پاکستان راولپنڈی نے اپنے یکم جنوری 1989 کے اپنے یو او نوٹ یعنی
U.O No 3/2/78-R, 2 Dated 1-1-1989
کے زریعے ڈائیریکٹر جنرل ٹی ایڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ کو انکے اس لیٹر کا جواب دیا تھا جسکا عنوان تھا
“Clarification Civil Servant Act 1973 , Factories Act 134 and Workmen Compensation Act 1923
جسمیں کہا گیا تھا
“آؤٹ ڈور کام کرنے والے مزکورہ ملازمین سول سرونٹ ایکٹ 1973 کی شق ( iii)(b)2 کی رو سے سول سرونٹ نہیں ھوسکتے، اسلئیے وہ سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے تحت بنائیے ھوئیے قوانین جیسے سول سرونٹ ( ای اینڈ ڈی) رولز 1973 بھی شامل ھے ، اسکے دائرہ کار ( jurisdiction) سے باھر ھوجاتے ھیں ۔ اگرچہ اس کٹیگری کے ملازمین سول سرونٹ نہیں ھوتے جسکا زکر کیا گیا ھے لیکن انکو سرکاری ملازم قرار دیا جاسکتا ھے کیونکے یہ گورمنٹ ڈیپاڑٹمنٹ میں کام کر رھے ھوتے ھیں ۔ اور سرکاری ملازمین کے ناطے یہ سرکاری قوانین کے تحت ھی کام کرسکتے ھیں جیسے گورنمنٹ سروس رولز 1960 وغیرہ ، میں کہا گیا ھے جو عام طور پر دوسرے ایسے سرکاری ملازمین پر لاگو ہوتے ہیں۔ اپنی فیلڈ ڈیوٹیز کی دوران آؤٹ ڈور کام کرتے ھوئیے ، موت ، اعضاء کو نقصان یا زخمی ھونے کی صورت میں یہ صرف کمپنسیشن ورک مین کمپنسیشن ایکٹ لینے کے حقدار ھیں “
آپ پلیز ان سب باتوں کو قانونی لحاظ اپنے پہلے والے جوب میں تصحیح کے ساتھ شامل کر کے اسی پہلے والے جواب کو بڑھائیں اور یہ واضح کردیں جو خطوط انھوں نے جاری کئی ھیں وہ سرا سر غلط ھیں بلکے وہ تو عدالتی اس حکم کے خلاف ھیں جو پیرا (iii)19 میں کہا گیا ، وہ ورکمین کمپنسیشن ایکٹ 1923 میں دی گئی ورکمین کی تعریف ، ایڈوکیٹ شاھد انور باجواہ کی طرف سے عدالت کو دی گئی تعریف یعنی گریڈ 1 تا گریڈ 16 تک والے ملازمین کو ورکمین قرار دینے والی کررھے ھیں جنکو گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشنری بینیفٹس نھیں دئیے جاسکتے ۔
آپ نے اپنے پہلے جواب۔ میں کے آخر میں سیکٹری کے لئی لکھا ھے وہ ھی اس خط کے اختتام کے بعد انکو کاپی مار ک ھوئیے لکھیں کیونکے منسٹری انفارمیشن ،ٹیلیکام اینڈ ٹیکنولوجی کے انڈ ھی ٹرسٹ یعنی پی ٹی ای ٹی کام کرتا ھے”
ChatGPT پلیز میری ان تمام اھم پوائنٹس کا مکمل احاطہ کر کے اپنے پہلے والے جواب کو انگلش میں اور زیادہ پھلاؤ اور قانونی بنیاد پر صحیح تصحیح کر کے دوبارہ جنریٹ کریں ۔ میرا اسطرح کا خط لکھنے کا انکو مقصد انکی غلط بیانی، صحیح طور پر عدالتی احکام کو فالو نہ کرنا اور اس پر اسکی روح کے مطابق اس پر صحیح عمل کرانا ھے۔آپ یہ سب کچھ انگلش میں جنریٹ کریں ۔
شکر ھے میری اس مندرجہ بالا ڈائیریکشن پر ChatGPT نے یہ فائینل مندرجہ زیل جواب جنریٹ کیا جو مجھے بہت پسند آیا ۔ فائینل جواب اسلئیے کہہ رھا ھوں کیونکے اسکے بعد میں نے chatGPT کو کوئی ڈائیریکشن نھیں دی تھی ۔
Third & final reply from ChatGPT
To
The General Manager,
Pakistan Telecommunication Employees Trust (PTET),
Islamabad.
Subject: Misrepresentations and Non-Compliance with Supreme Court Directive on Pensioner Benefits and urgent Compliance Required with Islamabad High Court's Decision of dated November 2, 2021, para 19(i)
and Cessation of Unlawful Communications
Dear Mr. Muhammad Farooq,
A-o-A
This letter aims to address a matter of utmost importance and urgency arising out of the recent actions taken by your office, which not only breach legal protocols but also disrespect the rulings of the Islamabad High Court.
Firstly , I want to draw your kind attention to the Islamabad High Court Division Bench's detailed decision on November 2, 2021, regarding the appeals filed by PTET and PTCL (ICA-82/2020), there has been a grave misunderstanding and misapplication of the court’s directives on your part. These appeals were in response to the judgment handed down by Honorable Justice Miangul Hassan Aurangzeb on March 3, 2020, which resolved numerous petitions, including WP-523/2012 filed by Rasool Khan and others, disposing of them collectively.
In the said decision, the High Court directed that former employees of the Pakistan Telegraph and Telephone Department, who retired under normal circumstances without opting for the Voluntary Separation Scheme (VSS), are entitled to the government-announced pension benefits. Despite this clear mandate, your issuance of letters to petitioners suggesting their ineligibility based on erroneous interpretations of their status as 'workmen' under the Factories Act 1934 and Workmen Compensation Act 1923 is not only misleading but legally incorrect.
Moreover, the reliance on Advocate Shahid Anwar Bajwa’s misrepresentations during court proceedings, which led to the controversial verdict on November 2, 2021, cannot be overlooked. The Supreme Court, in its deliberations in the case of Masood Bhatti versus Federation of Pakistan in August 2011, had already established that employees of the T&T Department, thereafter PTCL employees, retain their right to statutory protection and governmental pension benefits according to the Civil Servant Act 1973.
It is, therefore, a significant oversight and miscarriage of justice on your part to deny the same class of pensioners their rightful benefits based on arbitrary distinctions. This act of sending letters to the petitioners from June 10, 2024, onwards, contradicts the very essence of the Supreme Court’s previous orders and misinterprets the High Court's ruling of November 2, 2021 given in Para 19(iii) in the said judgement of dated of dated November 2, 2021
I am writing to you concerning a matter of utmost urgency and significance which pertains to the directives issued by the Islamabad High Court on November 2, 2021, in the case marked under ICT-98/2020 and its detailed decision on ICT-82/2020. As a respondent in the said case, along with my 19 colleagues. Your unlawful action as stated above , not only in direct contravention of the court's orders but also a misrepresentation of legal statuses under various acts, notably the Factories Act 1934 and the Workmen's Compensation Act 1923.
According to the court's decision, particularly highlighted in para, 19(i) it has been established that all 20 of us are subjected to specific legal provisions and protections. Despite this, it has been observed that the letters sent to PTCL petitioners from grade 1 to grade 16 have been issued without a proper understanding of the Factories Act 1934, which applies to factory workers dealing with machinery and the Workmen's Compensation Act 1923, which schedules under section (xiii) of Schedule-II as per clause 2(1)(n)(ii) specifically categorizes the type of workers in the Telegraph and Telephone Departments dealing with outdoor duties as workmen.
This misunderstanding and subsequent issuance of such letters directly challenge and insult the court's ruling. Furthermore, it is essential to highlight the role played by Advocate Shahid Anwar Bajwa in misguiding the court under direct instructions to categorize employees from grade 1 to 16 as workmen, suggesting that they cannot be provided with government-announced pensionary benefits and incentives. This information was not only misleading but also resulted in a grave miscarriage of justice and misinterpretation of the applicable laws.
In this regard, I would like to draw your attention to a memo sent by the Director General of the erstwhile T&T Department to the Establishment Division, Government of Pakistan, Rawalpindi, on December 10, 1988. This internal letter raised the question of whether low-grade employees such as linemen, technicians, wiremen, etc., working outdoors in the T&T are covered under the Workmen's Compensation Act, 1923. This would entitle them to compensation in the event of injury, loss of limbs, or death while performing their duties. Furthermore, because of this applicability, these employees would consequently be excluded from the category of Civil Servants under clause 2(1)(b) (iii) of the Civil Servant Act, 1973. [which states that “ a person who is a “worker “ or “ workman “ as defined in the Factories Act,1934 or Workman’s Compensation Act,1923” is excluded to be a Civil Servant as defined in section 2(1)(b) of the said Act, 1973]. The query was whether these individuals could still be considered under the provisions of the Civil Servant Act, 1973, due to their employment in a government department.The Establishment Division, Government of Pakistan, Rawalpindi, responded via U.O No 3/2/78-R, 2 dated January 1, 1989, stating that such employees working outdoors could not be considered Civil Servants as per clause 2(1)(b) (iii) of the Civil Servant Act, 1973. Thus, they fall outside the jurisdiction of laws framed under the Civil Servant Act, 1973, including the Civil Servant (Appointment, Promotion & Transfer) Rules, 1973. However, it was mentioned that although these employees do not fit the definition mentioned, they could still be considered government employees since they work within a government department and are thus governed by rules such as the Government Servants (Conduct) Rules, 1960, which generally apply to other government employees. In cases of death, injury, or damage to limb(s) during field duties, these individuals are only entitled to compensation under the Workmen's Compensation Act, 1923.
It is imperative that the incorrect actions taken based on advocate Shahid Anwar Bajwa’s false representations and the misunderstanding of the legal framework are corrected immediately. Your office is hence urged to revisit and cease any further communications that do not align with the legal standings as clarified by both the judiciary and the relevant laws.
Therefore, any correspondence you have sent to the lower-grade petitioners in this context is illegal for several reasons. Firstly, these petitioners do not fall within the definition of 'workman' under the Factories Act, 1934, or the Workmen's Compensation Act, 1923. Secondly, their pension is being disbursed under the Civil Servant Act, 1973, section 19(1) as civil servants. It is particularly surprising that for the petitioners to whom you have denied government pension benefits through your letters, numerous similar petitioners were provided detailed statements on February 26, 2018, regarding the arrears of government-proclaimed pension benefits, which were to be paid within fifteen days as per the Supreme Court's order dated February 15, 2018. Thus, the Trust has indeed disbursed increased pensionary benefits to 343 such petitioners, of which more than 50% were former employees of the T&T Department ranging from grades 1 to 16.
This double standard is astonishing. You promptly notified petitioners from grade 1 to grade 16 that they would not receive the increased pensionary benefits as per the court's decision under paragraph 19 (iii). I urge you to show the same diligence in complying with paragraph 19(i) of the court's order, which entitles petitioners to the government-declared pensionary benefits increase. These are the individuals who are deemed civil servants under section 2(1)(b) of the Civil Servant Act, 1973, and have retired either normally or at the age of sixty. I request immediate action be taken to comply with the court's orders in paragraph 19(i) and to disburse the declared government pensionary benefit increases to the deserving petitioners promptly, just as was done for the 343 petitioners in February 2018.
I insist on an urgent reevaluation of this matter and expect a corrective course of action to be undertaken at your earliest convenience, in respect with and compliance to the judicial orders and the spirit of law under which they were issued.
Sincerely,
[Your Name]
Cc:
Secretary (MoITT)Ministry of Information Technology & Telecommunication 7th Floor, Kohsar Block, Pak Secretariat,
Islamabad.
I humbly request to the Secretary, Ministry of Information Technology and Telecommunication, Islamabad, urging their intervention to ensure the prompt execution of the November 2, 2021, court order as in Para 19(i) of the said judgement ,thereby addressing the grievances of the affected petitioners
[MoITT Ref : File No 7-3/2011-Coord]
میں نے یہ فائنل جواب پڑھکر کر ChatGPT کا شکریہ ادا کیا اور very good اور Excellant لکھا جاب میں ChatGPT نے یہ جواب دیا
Thank you! If you have any more questions or need further assistance with your draft or any other concerns, feel free to ask. I'm here to help!
میں نے اسکے جواب میں ChatGPT کو “Ok “ کہا تو اسنے یہ جواب دیا
Allright, if you have any questions in future or need assistance, just let me know. Have a great day!
واسلام
(طارق)
11-07-2024
Comments