Article-42[ About the pension increase as per GoP to VSSs retirees ]
Note:-Attention . . . Attention. . . Attention ... All those PTCL Pensioners retired by adopting VSSs
Article-42[سپریم کوڑٹ کا 17 مئی 17 کا حکم نامہ. . . وی ایس ایس لے کر ریٹائیرمنٹ لینے والے بالکل بھی پریشان نہ ھوں]
عزیز پی ٹی سی ایل دوستو!
اسلام وعلیکم
اس سے پہلے میں نے سپریم کوڑٹ کے 17 مئی 2017 ایک اپنا طویل اردو آڑٹیکل 41 لکھا تھا جس پر جہاں میں نے اس بات پر فوکس کیا تھا کے جو نارمل طریقے سے ریٹآیر ھوئے انکو حکومت والا پنشن انکریز کا کوئی مسعلہ نھیں انکو تو پی ٹی ای ٹی دینے کی پابند ھے البتہ جو لوگ وی ایس اایس لے کر ریٹائر ھوئے انکو ملنے میں دیر لگے گی اور نہ جانے کتنی دیر لگے .جیسا کے آپ سبکو معلوم ھے کے وہ پی ٹی سی ایل کے ملازمین , جو پہلے ٹی اینڈ ٹی کے ملازمین تھے پھر یعنی وہ پہلے ٹرانسفر ھوکر پی ٹی سی یعنی کارپوریشن میں ٹرانسفر ھوئے ور پھر وہاں سےپی ٹی سی ایل میں یعنی کمپنی میں اور پھر ریٹائر ھوئے اور جن کے حق میں سپریم کوڑٹ نے اپنے 12 جون 2015 کو یہ میں یہ فیصلہ دیا کے پی ٹی ای ٹی ایسے ریٹايڑد ملازمین و وھی پنشن دینے کے پابند ھے جو حکومت پاکستان اپنے سرکاری ملازمین یعنی پشنرس کے لئے اعلان کرتی ھے. اور اسطرح کی اور کئی اپیلں جو پہلے سے پی ٹی ای ٹی نے سپریم کوڑٹ میں دائر کررکھی تھیں سب کی سب مسترد کردیں گئیں . جسکے خلاف پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی کی رویو پٹیشنیں بھی سپریم کوڑ نے 17 مئی 2017 کو اپنے فیصلے کے تحت نمٹادیں یعنی disposed off کردیں صرف اس بات کی پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کے وکیل کو انکی درخواست پر اجازت دی کے وہ سی پی سی کی سیکشن (2 )12 ھآئی کوڑٹ سے رجوع کرسکتے ھیں جن وی ایس ایس لے ریٹائر ھونے والوں نے اپنے اس پنشن کے لئے ھائی کوڑٹوں سے رجوع کیا تھا جبکے وہ اسکے مجاز نھیں تھے . انکے وکیل خالد انور صاحب نہ یہ الزام صرف اسلئے لگایا جب وہ 16مئی 2017 کو اپنی متواتر عدالت میں بحث کئے جانے کے باوجود ، کے یہ سب کمپنی کے ملازم تھے اور انپر حکومت پاکستان کے سرکاری ملازمین والے قوانین کا اطلاق نھیں ھوسکتا اسلئے انکی پنشن میں گورنمنٹ والا انکرییز نھیں لگ سکتا، انھوں نے معزز عدالت کے ججوں کے ریمارکس سے یہ اندازہ لگایا تھا کے عدالت انکے ان دلائل سے مطمئن نظر نھیں آرھی اور فیصلہ انکے حق میں نھیں آسکتا اور انکی رویو اپیل مسترد ھوجائیگی تو 17 مئی 2017 کو جب کیس کا آغاز ھوا تو انھوں نے اپنی نامکمل بحث کا آغازکرتے ھی عدالت کو یہ باور کرایا ان میں سے ( یعنی Respondents میں سے ) جنھوں نے نے وی ایس ایس پیکج قبول کیا اوراسکا فائدہ اٹھایا ، اور اپنے اور ھائی کوڑٹوں سے رجوع کیا اور مزید مراعات ھائی کوڑٹوں سے حاصل کیں جسکے وہ مجاز نہ تھے کیونکے وی ایس ایس لینے ے بعد وہ کمپنی کے ملازم بن گئے تھے اسلئے ان پر گورنمنٹ کے قوانین کا اطلاق نھیں ھوتا تھا لہازا وہ آئین پاکستان کے آڑٹیکل ۱۹۹ کے تحت ھائی کوڑٹوں سے رجوع کرنے کا اختیار نہیں رکھتے تھے یعنی They can not invoke the jurisdiction of high court under Article -199 of Constitution of Islamic republic of Pakistan اور نہ ھي ھائی کوڑٹ انکی کسی قسم کی اپیلیں سننے کی مجاز تھیں کیونکے یہ اسکے دائرہ اختیار jurisdiction سے باھر تھیں . اور ایسی بہت سی انکی طرف سےآئنی پٹیشنیں ابھی تک ھائی کوڑٹوں میں زیر سماعت ھیں [ میں سمجھتا ھوں کے انکا لازمی اشارہ ان وی ایس ایس والوں کے ان توھین عدالت کی دائر کردہ آئین کے آڑٹیکل 204 کی طرف تھا جو ان وی ایس ایس لینے والے اسلام آباد ھائی کوڑٹ او پشاور ھائی کوڑٹ میں داخل کر رکھی تھیں جو پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کے سپریم کوڑٹ کے 12 جون 2015 فیصلے پر عمل در آمد نہ کرنے کی وجہ سے ان لوگوں نے داخل کی ھیں اور خالد انور صاحب کو یہ اعتراض کے انھوں نے یہ کیوں داخل کیں کیونکے یہ اسکے مجاز نھیں تھے او ھا ئی کوڑٹوں نے کیوں entertain کیں کیونکے یہ انکے دائرہ اختیار jurisdiction سے باھر تھیں] . اسلئے خالد انور صاحب نے عدالت عالیہ سے ان ھائی کوڑٹوں سے رجوع کرنے کے لئے سی پی سی کی سیکشن (۲)۱۲ کے تحت رجوع کرنے کی اجازت مانگی اور عدالت نے انکو یہ اجازت دیتے ھوئے انکی کی رویو پٹیشن نمٹادی اور 12 جون 2015 کا سپریم کوڑٹ کا دیا ھوا فیصلہ فائنل شکل اختیار کرگیا اور ایک قانون بن گیا.
اب آپ لوگوں کے زھنوں میں یہ سوال ضرور اجاگر ھوگا کے یہ سی پی سی کی سیکشن (۲) ۱۲ کیا بلا ھے جسکے تحت سپریم کوڑٹ نے پی ٹی سی اور پی ٹی ای ٹی و ھائی کوڑٹوں سے رجوع کرنے کے لئے کہا .پھلے میں یہ قانون کیا ھے وہ بتادوں جو میں نے حاصل کیا اور اسے بعد اسکی تشریح:-
"In simple words, Section 12(2) CPC, speaks of the principle that if a Decree, Order or Judgment is obtained by Fraud, misrepresentation, or where Question of jurisdiction has risen, such Order Decree or Judgment shall be challenged through an application in the same court and no other
separate Suit shall lie."
اگر کوئی کسی کے خلاف عدالت سےڈگری یا کوئی ایسا حکم فراڈ، غلط بیانی کیوجہ سے حاصل کرلیتاھے ، یا جہاں عدالت کے دائیرہ اختیار کا سوال اٹھ چکاھو تو ایسی ڈگری کا یا فراڈ اور غلط بیانی کی وجہ لیا ھوا عدالتی حکم ایک درخواست کے ذریعے اسی عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ھےاور اسکے لئے کوئی علیحدہ سے کیس کرنے کی ضرورت نھیں . اسی بات کی تشریح میں اوپر کرچکا ھوں کے کیوں خالد انور صاحب یہ چیلنج کرنا چاھتے ھیں . وہ چاھتے ھیں کے وی ایس ایس والے پنشنرس پی ٹی ای ٹی یا پی ٹی سی ایل خلاف کسی قسم کا بھی کوئی کیس ھائی کوڑٹوں میں نہ کرسکیں چاھے وہ توھین عدالت ھی کیوں نہ ھو کیونکے نہ تو یہ وی ایس ایس لے کر ریٹائر ھونے والے کیس کرنے کے اور نہ ھی ھائی کوڑٹس سننے کے مجاز ھیں .
میں نے اپنے آڑٹیکل 41 میں اس بات کی تشریح کی تھی وہ تمام پنشنرس جن کی پی ٹی سی ایل سے ریٹائرمنٹ ما سوائے وی ایس ایس لے کر ریٹائیر منٹ کے ، وہ سب پنشن میں گونمنٹ والے انکریز کے حقدار ھیں اور انکو اگر یہ نہ دیں تو پھلے انکو ایک اپیل اور نوٹس بیھجا جائے کے اتنے دنوں میں ادائیگی کریں اور نہ کرنے کی صورت میں انکے خلاف سپریم کوڑٹ یا ھآئی کوڑٹ میں توھین عدالت کا کیس کیا جائے . میں نے نے وی ایس ایس لے کر ریٹائر ھونے والوں کے بارے میں یہ ضرور کہا تھا کے عدالت نے انکو یہ انکریز دینے سے روکا نھیں بلکے چونکے ایک مسعلہ پیدا ھوگیا اسلئیے یہ انکریز دینے میں دیر لگ جائے کیونکے عدالت کے ایسے حکم سے یہ تاثر ملتا ھے کے فی الحال عدالت انکو یعنی صرف وی ایس ایس لے کر ریٹائر ھونے والوں یہ گورنمنٹ کا اعلان کردہ انکریز نہیں دینا چاھتی تاقت یہ مسعلہ حل نہ ھو جائے.
مزکورہ آڑٹیکل 41 لکھنے کے بعد مجھے بات بیحد پریشان کرتی رھی کے میں نہ یہ کیوں اور کیسے یہ اخز کرلیا کے فیلحال سپریم کوڑٹ نے وی ایس ایس لے کر ریٹائیر ھونے والوں کو یہ گورنمنٹ کا اعلان کردہ انکریز روک دیا ھے جبکے عدالت نے کوئی ایسا حکم جاری نھیں کیا .اعلی عدالت کا جو فیصلہ ھوتا ھے وہ تاثرات مفروضوں یا اور کسی وجہ سے قائیم نہیں کیا جاسکتا.اعلی عدالت کا ھر حکم specific اور برابر تحریر ھوتاھے اور اس میں کسی مبہات کا اشارہ تک نہیں ھوتا. اور عدالت کو کو ایسا حکم دینا ھوتا تو وہ لازمن اپنے 12 جون 2015 پہلے modify کرتی .مگر کیسے کرتی کیونکے یہ تین رکنی بینچ اسکو modify کرنے کا مجاز ھی نھیں تھا کیونکے اس آڈر ميں وہ فیصلہ تحریر ھے جو تین رکنی بینچ نے [یعنی مسعود بھٹی کیس جو 2012SCMR152 رپوڑٹ ھے] نےدیا تھاجسکو پانچ رکنی بینچ نے کنفرم کیا تھا اور 19 فروری 2016 پی ٹی سی ایل کی مسعود بھٹی کیس کے خلاف دویو پٹیشن خارج کردی تھی [جو PTCL Vs Bhattie 2016SCMR1362 میں رپوڑٹ ھے] . مسعود بھٹی کیس کا یہ فیصلہ جو تین رکنی بینچ نے 7 اکتوبر 2011 کو دیا تھا اور اپنے فیصلے کہا تھا " پی ٹی سی ایل کے ملازمین جو ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی ھوئے اور پھر کارپوریشن یعنی پی ٹی سی میں ٹرانسفڑڈ ھوئے اور پھر یکم جنوری 1996 کو کمپنی یعنی پی ٹی سی ایل میں ٹرانسفر ھوکر اسکا حصہ بن گئے ان پر حکومت پاکستان کے سرکاری ملازمین والے قوانین کا اطلاق ھوگا اور کمپنی کو اس بات کا بالکل بھی اختیار نھیں وہ انے سروس کے ٹرمز اور کنڈیشنس میں کسی بھی قسم کی ایسی منفی تبدیلی کرے جن سے انکو نقصان ھو اور یہ اختیا ر حکومت پاکستان کو بھی نھیں اور وہ اس بات کی گارنٹر ھے خاصکر انکو ملنے والے پینشن benefits سےھے.
اب یہ دیکھتے ھیں کے سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ نے 12 جون 2015 پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کی تمام اپیلیں جو تقریبن 17 کے قریب تھیں خارج کرتے ھوئے کیا حکم تحریر کیا تھا جو اس تفصیلی فیصلےآخری پیرے میں درج ھے کا جسکا ترجمہ زیر تحریر ھے.
"Civil Petitions Nos 565-568 & 582-584 of 2014"
پیرا نمبر ۲۰:- " جو وجوھات بیان کی گئيں ھیں ھم انسے اس نتیجے پر پہنچے ھیں کے ریسپونڈنٹسُ، جو پاکستان ٹیلیگراف اینڈ ٹیلی فون ڈیپاڑٹمنٹ کے ملازمین تھے جو پہلے کارپوریشن اور بعد میں کمپنی میں ٹرانسفر ھوکر ریٹائر ھوئے وہ اسی پنشن کے حقدار ھیں جو حکومت پاکستان اعلان کرتی ھے، اور بوڑڈ آف ٹرسٹیز آف ٹرسٹ پابند ھے کے وہ حکومت کے ایسے اعلان پر عمل کرے جو ایسے ملازمین کے لئے ھے. نتیجتن ، یہ پٹیشنشس مسترد کررھے ھیں"
Sd/- Nasir-ul-Mulk, HCJ
Sd/- Gulzar Ahmed, J
Sd/-Mushir Alam, J
Announced in open Court on 12-06-2015
تو اب میرا سوال یہ ھے کیا وی ایس ایس پیکج قبول کرکے ریٹائر ھونے والے ھزاروں پی ٹی سی ایل ملازمین ایسے ٹرانسفڑڈ ایمپلائی نہیں تھے کیا ؟؟؟؟ جن پر گورنمنٹ کے statutory rules کا اطلاق ھونا تھا مسعود بھٹی کیس کے فیصلے کی روشنی میں ، کیونکے وہ پہلے ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی ھوئے وہاں سے پی ٹی سی میں دسمبر 1991 میں پی ٹی سی ایکٹ 1991 کی شق (1)9 کے تحت ٹرانسفڑڈ ھوئے پھر وھاں سے پی ٹی ( ری آرگنائیزیشن) ایکٹ 1996 کی شقس (1)35 اور (1) 36 کے تحت پی ٹی سی ایل یعنی کمپنی میں یکم جنوری 1996 کو ٹرانسفڑڈ ھوکر پی ٹی سی ایل کا حصہ بن گئے.یقینن یہ سب تھے اس میں کسی کو شک نہیں ھونا چاھئیۓ. . جو وی ایس ایس لے کر ریٹائر ھوئے اس میں کسی کو بلکل بھی شک نھیں ھونا چاھئے . یہ سب 100% ٹی اینڈ ٹی ڈیباڑٹمنٹ میں ھی بھرتی ھوئے تھے اسکی وجہ یہ ھے کے جب انھوں نے 2008 میں وی ایس ایس قبول کرکے ریٹائرمنٹ لی اسوقت انکی پی ٹی سی ایل میں سروس بیس سال سال یا اس سے زیادہ تھی جب ھی تو انکو پنشن مل رھی ٹھی کیونکے پی ٹی سی ایل نے انھی وی ایس ایس لینے والوں کو وی ایس ایس 2008 میں پنشن دی تھی جنکی کوالیفائنگ سروس 31 ماچ 2008 تک بیس سال یا اس سے زیادہ تھی . . . [ یہ پنشن لینے کی کم از کم مدت میں ، ایسے سرکاری ملازمین کا سٹیٹس رکھنے والے پی ٹی سی ایل کے ملازمین کی اضافہ کرنا پی ٹی سی ایل کا ایک غیر قانونی اقدام تھا کیونکے فیڈرل گورنمنٹ کے پنشن رولز کے مطابق پنشن لینے کی کم از کم سروس کی مدت دس سال کی کوالیفائیڈ سروس ھے ھے جبکے انھوں ، یعنی پی ٹی سی ایل نے اپنے تئیں اس میں دس سال کا مزید اضافہ کرکے ھزاروں ایسے پنشن کے حقدار وی ایس ایس لینے والے پی ٹی سی ایل کے ملازمین کو پنشن کے حق سے محروم کردیا جنکی کو ا لیفائنگ سروس بیس سال سے زرا سی بھی کم تھی جو صریحن، مسعود بھٹی کیس میں سپریم کوڑٹ کا ایسے ملازمین کے حق میں آۓ ھوۓ فیصلے کی خلاف ورزی تھی . 19 فروری 2016 جب پی ٹی سی ایل کی رویو پٹیشن مسعود بھٹی کیس میں سپریم کوڑٹ کے خلاف خارج ھوئی تو ھزاروں ایسے وی ایس ایس لینے والے پی ٹی سی ایل کے ملازمین جنکی کولیفائنگ سروس دس سال سے زیادہ تھی مگر بیس سال سے کم اور انکو پنشن لینے ے حق سے پی ٹی سی ایل نے غیر قانونی طور پر پنشن لینے سے محروم کردیا تھا ، تو ایسے لوگ ھائی کوڑٹوں مں پھنچ گئے کے انکے ساتھ نا انصافی کی گئی کیونکے انکو پنشن کا حقدار ھوتے ھوئے بھی پنشن سے غیر قانونی طور پر محروم کردیا گیا. جسکا انکے یعنی پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کے پاس کوئی جواب نھیں ، کے انکو کس نے اختیار دیا تھا کے وہ حکومت کا بنایا ھوا قانون تبدیل کریں جبکے وہ ایسا کرنے کے بالکل بھی مجاز نہ تھے .جن کے متعلق اب یہ محترم خالد انور صاحب فرمارھے ھیں یہ سب دھوکے باز ھیں یہ کیسے ھائی کوڑٹ پہنچ گئے جبکے انکو اختیار نھیں تھا اور ھائی کوڑٹ نے کیسے ان کو entertain کرلیا جبکے یہ اسکے دائرہ اختیار میں نھیں تھا ]. . کیونکے پی ٹی سی کی تشکیل ، 27 نومبر 1991 میں جاری کئے ھوئے پی ٹی سی ایکٹ 1991 نوٹیفیکیشن کے تحت دسمبر 1991 میں ھوئی تھی اور ٹی اینڈ ڈیپاڑٹمنٹ گورنمنٹ آف پاکستان کے تمام ملازمین اس میں ضم ھوگئے تھے، انھیں سروس کے ٹرمز اینڈ کنڈیشنس پر جو انکے پی ٹی سی میں ضم ھونے سے فورن پھلے ٹی اینڈ ڈیپاڑٹمنٹ میں تھے.
محترم خالد انور صاحب اس دن کوڑٹ میں یہ چیخ چیخ کر فرمارھے تھے کے ان وی ایس ایس لینے والوں کو پہلے ھی بہت خطیر رقم دچکے ھیں اب یہ دھوکے سے اور زیادہ رقم گورنمنٹ پنشن انکریز کے تحت ھتیانا چاھتے ھیں جبکے یہ وی ایس ایس لینے کے بعد کمپنی کے ملازم ھوچکے ھیں انپر گورنمنٹ کا اعلان کر دہ پنشن پر انکریز نھیں دیا جاسکتا. تو خالد انور صاحب سے بڑی عزت کے ساتھ عرض ھے کے بقول انکے ان وی ایس ایس والوں کو ایک خطیر رقم دے جاچکی تو کوئی ان پر احسان نہیں کیا یہ تو دینی ھی تھی جب کسی بھی ملازم کو آپ نوکری سے نکلنے کے لئے کہیں گے ، جو ساٹھ سال کی عمر تک ملازمت کرکے ماہانہ تنخواہ لے کر اپن بیوی بچوں کا پیٹ پال سکتا ھے تو اسکو اسکے اس جائیز حق سے محروم کرنے کے لئے اسکو compensate تو کرنا ھی پڑے گا اور زیادہ سے زیادہ رقم دینی پڑی گی . کیا جن لوگوں کو اسی پی ٹی سی ایل نے 1998 میں وی ایس ایس دیا تھا انکو زیادہ رقم نھیں دی تھی انکو تو ماہانہ اسوقت سے اتنی پنشن کی ادائیگی کی جارھی تھی جو انکے ماہانہ تنخواہ کے تقریبن برابر تھی ، کیا انکو باقاعدہ سے ھرسال یہ ھی پی ٹی ای ٹی والے گورنمنٹ کا اعلان کردہ پنشن پر انکریز نھیں دے رھے تھے جو انھوں نے سب کے ساتھ یکم جولائی 2010 سے غیر قانونی طور پر بند کردیں. کیا 2008 میں بھی ایسے وی ایس ایس لینے والوں کی پنشنس میں بھی 2009-2008 اور2010-2009 میں گورنمنٹ والا سالانہ پنشن انکریز نھیں دیا گیا ؟. کیا ان سب کی ماہانہ پنشن اور کمیوٹیشن کی رقم گورنمنٹ کے بنائے ھوۓ پنشن فارمولے کے تحت نھیں دی گئيں . کس طرح آپ یہ کہتے ھیں ے یہ وی ایس ایس لے کر کمپنی کے ملازم بن گئے کیونکے انکے سروس ٹرمز اور کنڈیشنس تبدیل ھوگئے . انکے سروس ٹرمز اور کنڈیشنس کرنا جن سے انکو نقصان پہنچآئے، کمپنی کو تو کیا خود حکومت پاکستان کو بھی یہ اختیار نھیں کے یہ تبدیل کرےاور اس بات پر آٹھ سپریم کوڑٹ کے معزز جج حضرات نے مہر ثبت لگائی ھے پہلے اسکا حکم دے کر مسعود بھٹی کیس میں فیصلہ دے کر پھر اسکے خلاف کمپنی کی رویو پٹیشن خارج کر کے. کس طرح آپ کہتے ھیں کے یہ کمپنی کے ملازم وی ایس ایس لینے کے بعد بن گئے ؟؟؟؟ اسلئے انکو گورنمنٹ والا انکریز نھیں مل سکتا . کیسی فضول باتیں کرتے ھیں آپ خالد انور صاحب کیا سپرکم کوڑٹ کا مسعود بھٹی والا فیصلے میں لکھی ھوئی یہ بات بھول گئے اس میں صاف صاف لکھا ھے کے جن ملازمین نے کمپنی یعنی پی ٹی سی ایل کو یکم جنوری 1996 کے "بعد" جائین کیا ھوگا انپر حکومت پاکستان کے ان سرکاری رولز (Statutory rules) کا اطلاق نھیں ھوگا اور نہ انکی گورنمنٹ آف پاکستان گارنٹر ھوگی اور ایسے تمام ملازمین کمپنی کے ملازم کہلائیں گے اور ان پر Master & Servants Rules کا اطلاق ھوگا. جب ھی تو ایسے ملازمین کو کمپنی اپنی طرف سے پنشن نھیں دے رھی کیونکے انکو EOIB کی طرف سے انکی عمر ساٹھ سال ھوجانے پر ماہانہ EOIB پنشن ملے گی . جو تو اتنی کم ھے جیسے اونٹ کے منہ میں زیرا.
پی ٹی سی ایل کی اس رویو پٹیشن جو سپریم کے تین رکنی بینچ نے 17 مئی 17 کو نمٹادی اور اسکو قبول نھیں کی ، یہ رویو پٹیشن خالد انور صاحب نے تحریر کی تھیں جسکے آخری دوصفحات کی فوٹو کاپیاں اس مضمون کی تکمیل کے نیچے آپ سب کی معلومات کے لئے اپلوڈ کررہا ھوں . خالد انور صاحب نے وی ایس ایس لینے والوں کے لئے خلاف کہا ھےکے جو اوپر تحریر کرچکا ھوں ، وہ مجھے انکی اس رویو پٹیشن جو عدالت میں جمع کرا ئی گئی ھے ، کہیں نظر نہ آیا اور نہ انکے prayer میں یہ بات نظر آئی کے انکو سی پی سی کے سیکشن (۲) ۱۲ کے تحت ان وی ایس ایس والوں کے خلاف جنھوں نے فراڈ دھوکہ دئی کی ھے ، ھائی کوڑٹوں سے رجوع کرنے کی اجازت دی جائے ،بلکے prayer میں صرف انکا رونا نظر آیا " کے انکی یہ رویو پٹیشن قبول کی جائے ورنہ انکے کلائنٹس پٹیشنرس( پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی ) کو بہت ھی نقصان ھوگا جسکی تلافی نا ممکن ھوگی اور جو انھوں نے وجوھات بیان کی ھیں انکو مدنظر رکھتے ھوئے یہ معزز عدالت انکے خلاف کوئی منفی حکم (adverse order ) جاری نہ کرے وہ عدالت عالیہ کا بہت احترام اور عزت کرتے ھیں . " وغیرہ وغیرہ . مگر عدالت نے انکی یہ استدعا، یعنی prayer قبول نہیں کی. یہاں ایک بات کا زکر کردوں جب سے یہ رویو پٹیشن داخل ھوئی تھی اور سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچز یعنی پہلے سپیشل بینچ اور پھر عام بینچ جسٹس گلزار صاحب کی سبراھی میں بنا جس نے انکی یہ رویو پٹیشن مسترد کی، مجھے اس بات پر زرا سا بھی شک نھیں تھا کے یہ رویو پٹیشن مسترد نہ ھو اور میں اکثر فیس بک پر یہ نوٹ لکھا کرتا تھا "کے پریشانی کی کوئی بات نھیں انشاللہ انکی یہ رویو پٹیشن ضرور خارج ھوگی اس میں سی کو شک نہیں ھونا چاھئیے . آپ سوچتے ھونگے کے میرے اس اعتماد کی وجہ کیا تھی . وہ یہ ھے ، کے جو سپریم کوڑٹ کا 12 جون 2015 کا فیصلہ ھمارے حق میں آیا اور انکی تمام اپیلیں سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ نے محترم جناب ناصرل ملک سابق جسٹس کی سربراھی میں مسترد کردیں اور یہ فیصلہ جناب جسٹس گلزار صاحب نے لکھا اور اسکا فیصلہ مسعود بھٹی کیس میں پی ٹی سی ایل کے ٹرانسفڑڈ ملازمین ( یعنی جو ٹی اینڈ ٹی سے پی ٹی سی میں آئۓ اور پھر پی ٹی سی ایل میں ) کے حق میں آۓ ھوئے سپریم تین رکنی بینچ کے فیصلے کو بنیاد بنا کرلکھا گیا تھا کے چونکے یہ ٹرانسفڑڈ ملازمین ھیں انپر گورنمنٹ کے قوانین ھی استعمال ھو نگے اس لئے انپر گورنمنٹ کا اعلان کردہ ھی پنشن انکریز دیا جائے گا. . . سپریم کوڑٹ کے مسعود پھٹی کیس مزید پانچ رکنی بینچ نے محترم جناب ظہیر جمالی سابقہ چیف جسٹس نے endorse کیا اور اس پر مہر ثبت لگائی اور پی ٹی سی ایل کی اور 19 فروری 2016 کو انکی یہ رویو پٹیشن خارج کردی[ اس کیس کی ھیرنگ کے دوران انھی خالد انور صاحب نے پٹیشنر یعنی پی ٹی سی ایل کے وکیل کے نا طے بہت چیخم دھآڑ کی . محترم جناب ظہیر جمالی صاحب نے انکو بولنےکا خوب موقع دیا اور یہ مسلسل دو دن یعنی 17 اور 18 فروری 2016 خوب بولے مگر عدالت کو convinced نہ کرسکے ]، تو میں سوچتا تھا ے یہ کیسے ممکن ھے کے رویو پٹیشن میں ایک تین رکنی بینچ کے ججز ان پانچ ججوں بلکے یوں کہۓ کے کل آٹھ ججوں کے فیصلے خلاف جا سکیں جس فیصلے کی بنیاد ان آٹھ ججوں کا فیصلہ تھا . تو یہ ھی بات مجھ کو پریشان کرھی تھی ، (جسکا زکر شروع میں اوپر کر چکا ھوں ) کے میں نے یہ کیوں اخز کرلیا کے ابھی وی ایس ایس والوں کو پینشن میں انکریز نھیں دیا جائے گا جبکے سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ نے اپنے 12 جون 2015 کے فیصلے کو نہ تو ختم کیا اور نہ کوئی اس میں modification کی بلکے جوں کا توں رھنے دیا اور انکی رویو پٹیشن نمٹادی یعنی disposed off کردی .
اس اوپر کے پیرے میں جو قانونی باتیں میں نے تحریر کیں یہ تمام چیزیں مجھے بہت شروع سے معلوم تھی وہ بھی صرف میرے شوق کی وجہ سے کیونکے میں عدالتوں میں چلنے والے کیسسز اور ان پر فیصلے بڑے شوق سے پڑھتا ھوں اور پھر اسکو ذھین نشین کرنے کی کوشش کرتاھوں جو بعد میرے کام آتیں . مگر یہ موجودہ مضمون لکھنے سے پھلے تاکے میری پوری تسلی رھے میں نے نیٹ پر اور سرچ کیا اور ایک سپریم کوڑٹ کا کیس پڑھکر مجھے بیحد تقویت ملی . یہ ایک سول اپیل نمبر1072/2005 تھی جو چئرمین ریلوے نے ایک ریلوے ملازم شاہ جہاں کے حق میں آۓ ھوئے اس فیڈرل ٹریونل (FST) کے خلاف داخل کی تھی جس میں ٹریونل FST نے اسکو پینشن benefit دینے کو کہا تھا کیونکے شاہ جہاں جس نے کوئی 14 سال ایڈہاک سروس کی تھی اور پھر دوسال کنٹریکٹ پر کام کیا اور وہ ریگولر پوسٹ کے لئے امتحان نہ پاس کرسکا تو اسکا کنٹریکٹ ختم کرکے نوکری سے نکال دیا .شاہ جہاں اپنی نوکری کرنے کے ڈیپاڑٹمنٹ سے پینشن benefit مانگے توڈیپاڑٹمنٹ نےانکار کردیا تو اس نے FST میں کیس کردیا اور FST نے اسکی یہ اپیل سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ کے ایک اسی طرح کے ایک فیصلے جو اپیلنٹ کے حق میں آیا تھا ، اسکو جواز بناتے ھوئے،شاہ جہاں کے حق میں بھی ایسا ھی فیصلہ کردیا جسکو چئرمین ریلوے اسلام آباد نے سپریم کوڑٹ میں چیلنج کردی اور فورن اس پر سٹے مانگا کیونکے اسطرح کے اور بہت سے ملازم نکالے گئے تھے، ان سبکو یہ حق دینا پڑے گا اور پھر یہ دلیل دی کے FST نے جس تین رکنی بینچ سپریم کوڑٹ کو جواز بنا کر شاہ جہاں کو یہ پینشن benefit دینے کا حکم دیا تھا، اس میں ھی سقم موجود تھا . تو یہ کیس سپریم کوڑٹ کے پانچ ممبر معزز ججز بینچ کو سننا پڑا جو سابق معزز چیف جسٹس ظہیر جمالی کی سربراھی جنھوں نے پہلے وہ تین ممبر ججز کے فیصلے کو کل عدم کیا پھر FST کے فیصلے کو اور چئرمین ریلوے اسلام آباد کی اپیل منظور کی . آگرچہ یہ ایک معمولی کیس تھا مگر پانچ ججوں کو اسلئے سننا پڑا اسکی وجہ صرف وہ تین ججوں کا سقم والا فیصلہ تھا .میرا مطلب صرف یہ کہنا ھےجب ایسی نوعیت کے کیس آتے تو ھمیشہ لارجر بینچ بنتےھیں جس میں ججوں کی تعداد پھلے والوں سے زیادہ تھی . تو ھمارے حق میں آۓ ھوئے 12 جون 17 سپریم کوڑٹ کی بنیاد آٹھ معزز ججز کی مسعود بھٹی کیس میں ٹرانسفڑڈ ملازمین کے حق میں آۓ ھوئے فصلے کی وجہ سے تھی تو تین رکنی بینچ رویو پٹیشن میں اسکے خلاف کیسے فیصلہ دے سکتا تھا. میں نے اسطرح کی تمام باتیں ، قانونی نکات اپنے ذھین میں رکھ کر کسی اچے وکیل قانون دان سے مشورہ لینے کا بھی کے فیصلہ کیا مبادہ اس میں غلطی پر نہ ھوں اسکے لئے میں اپنے دوست جگری دوست سہیل کے بیٹے سے مشورہ لینے کا فیصلہ کیا جو لندن میں زیر تعلیم ھے قانون یعنی Law میں PHD کرنے کے لئے کوشاں ھے. ماشالللہ نظر بد سے بچاۓ وہ ایک بہت ھی ھونہار گولڈ میڈیلسٹ اور قانون کی ت اعلی ڈگریاں بار ایٹ لا وغیرہ امتیازی حیثیت سے حاصل کرچکا ھے ، اس سے میں نے رمضان کی آمد سے ایک ھفتے پہلے ھی اسکو فون پر یہ تمام تفصیلات بیان کرکےفون پر مشورہ لے چکا ھوں. وہ میری یہ باتیں سن کر پہلے تو بہت ھی حیران ھوا کے میں ایک انجینئیر کی ڈگری رکھنے والا اتنا کچھ جانتاھوں جب اسکو میں نے یہ بتایا کچھ نہیں یہ سب کچھ میرے شوق کی وجہ سے ھے تو وہ بہت خوش ھوا اور اسنے میری باتوں کی مکمل تائید کی کے ان لوگوں کے عزائیم وی ایس ایس لے کر ریٹائیر ھونے والے پی ٹی سی ایل کو گورنمنٹ والا پنشن انکریز نہ دینے کے لئے لگتے ھیں جنکو بظاھر نہ دینے کی کوئی بھی قانونی رکاوٹ نظر نہیں آتی . اس نے یہ بات بھی قانونی لحاز سے ریکنفرم کی . اب ایک ٹرانسفڑڈ پی ٹی سی ایل ایمپلائی جو ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی ھوا ھو پر پی ٹی سی ميں ٹرانسفر ھوا اور پھر یکم جنوری 1996 کو پی ٹی سی ایل ميں ٹرانسفر ھوا ھو اور پھر پی ٹی سی ایل میں کسی وجہ سے ریٹائڑڈ ھوا ھو چاھے ساٹھ سال کی عمر میں ،چاھے جبری، چاھے والینٹری 25 سال سروس کرنے کے بعد ، چاھے وی ایس ایس لے کر وغیرہ وغیرہ ،اسکو اور ایسے سبکو ، پی ٹی ای ٹی نہ صرف گورنمنٹ والی پنشن بلکہ گورنمنٹ والا انکريز سو فیصد عدالت عالیہ کے حکم کے تحت دینے کی پابند ھے ، اور اگر نہ دے گی تو س سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتاھے اور یہ سب توھین عدالت کے مرتکب ھوں گے. یہ لوگ ، وی ایس ایس لے کر ریٹائر ھوئے انکو یہ گورنمٹ والا پنشن انکریز کا قانونی حق نہیں دینا چاھتے . کیونکے قانونی طور پر تو یہ روک سکتے نھیں تو انھوں نے یہ سی پی سی کی سیکشن (۲) ۱۲ کا چکر چلایا ھے. انکا صرف یہ مقصد ھے کے اگر یہ لوگ یہ انکریز نھیں دیتے تو یہ وی ایس ایس والے ھائیکوڑٹوں سے نہ رجوع نہ کرسکیں انکو کسی نہ کسی طرح روکا جائے کے وہ وہ عدالتوں کا رخ نہ کرسکیں .
میں نے یہ باتیں اور قانونی نکات اپنے ذھین نشین کرلئے تھے اور یہ ارادہ کیا تھا کے میں اپنا اگلا آڑٹیکل 42 آپ لوگوں کے لئے رمضان کے بعد تحریر کروں گا کیونکے میں رمضان میں اپنا سارا وقت اللہ کی عبادت میں لگانا چاھتا تھا کیا پتہ نھیں زندگی وفا کرے نہ کرے اگلا رمضان نصیب ھو یا نہ ھو مگر جب مجھے دودن پھلے توقیر صاحب سیکٹری APPPC کا یہ ایس ایم ایس ملا کے پی ٹی ای ٹی کے وکیل خالد انور صاحب نے سپریم کوڑٹ کے حکم کے تحت ریفرنس سی پی سی کی سیکشن (۲) ۱۲ کے تحت اسلام آباد ھآئی کوڑٹ میں داخل کردئیے ھیں جو عدالت نے قبول کرتے ھوئے متعلقہ لوگوں یعنی فدا حسین ، محمد عارف ، انور شاھد، فاضل ملک وغیرہ کو نوٹسس بھی جاری کردئیے ھیں تو میرے کان کھڑے ھوئے اچھا تو یہ بات ھے اب اگلی پیشی میں خالد انور صاحب یہ سٹے لینے کی کوششش کریں گے جب تک یہ کیس چل رھا ھے یہ وی ایس ایس لے کر ریٹائر ھونے والے اپنے کسی مسعلے کے لئے کسی بھی ھائی کوڑٹ سے رجوع نہیں کرسکیں . اسطرح یہ لوگ انکے خلاف عدالت کی حکم یعنی پنشن پر گورمنٹ والا انکریز نہ دینے کی صورت میں کو ئی بھی contempt of court کا کیس ھائی کوڑٹ یا سپریم کوڑٹ میں نھیں داخل کر سکیں گے . یہ ھی سوچکر اور آپ لوگوں کو اس طوفان سے آگاہ کرنے کے لئے رمضان کے مبارک مہینے میں ھی میں یہ سب کچھ لکھنے کے لئے بیٹھ گیا . تو آپ سب لوگوں سے میری التجا ھے کے آپ انلوگوں کی مدد کریں جن کے خلاف اسطرح کے نوٹسسس یہ لوگ عدالت سے نکلوارھیں ھیں اوریہ مزید اور نکلوائیں گے ان لوگوں کی مدد کریں سب مل کر انکو اچھا سا اچھا نہ بکنے والا وکیل کروائیں . مختلف پاکستان پنشن ایکشن کمیٹیاں اس پر کام کرتی نظر آرھی ھیں جس میں توقیر صاحب سیکریٹری
( Cell#s 0321-6123299,03123553399 ) کی APPPC سب سے زیادہ نمایاں ھے جو ان لوگوں کے لئے ، جن کو نوٹسس بھیجے گئے ھیں ، انکے لئے ایک ٹاپ کلاس وکیل کرنے کے لئے کوشاں ھے آپ لوگوں کو بھی چآھئے ان سے تعاون کریں انکی وکیل کرنے میں مدد کریں اس میں آپ سب ھی کا فائدہ ھوگا .
آخر میں ایک بات آپ لوگوں سے کہنا چاھتا ھوں کے آپ سب لوگ اپنی صفوں میں مکمل اتحاد رکھيں کسی منفی سچ رکھنے والے حاسدوں کی باتوں میں ھر گزنہ آئيں . کچھ حاسد لوگوں کو یہ بات ضرور کھلے گی کے ان لوگوں کیوں یہ فائدہ ھورہا ھے تو وہ طرح طرح کی تاویلیں پیش کرکے آپلوگوں کو مایوس کرنے کی کوشش کریں گے کچھ دل جلے میری ان باتوں کو ٹوپی ڈرامہ کہیں گے کچھ کہیں گے یہ تو بکواس کرتا ھے وغیرہ وغیرہ اور اس بات کا بلکل یقین رکھیں کے جو کچھ قانونی نکات دے کر میں نے یہ ثابت کیا کے سپریم کوڑٹ کے 12 جون 2015 میں ایسا کوئی حکم نھیں کے کے وی ایس ایس لے کر ریٹآئر ھونے کو گورنمنٹ والا انگریز نہ دیا جائے اور نہ ھی سپریم کوڑٹ نے اپنے 17مئی 17 کے حکم نامے میں اشارتن بھی ایسا کوئی حکم نہیں دیا بلکے سپریم کوڑٹ نے انکی رویو پٹیشن کم قبول ھی نہیں کیا اور مسترد کردی جسکی وجہ سے 12 جون 2015 کا فیصلہ امر ھوگیا . اگر آپ کو میری باتوں پر ذرا سا بھی شک ھے تو آپ لوگ اپنے تئیں بڑے سے بڑے وکیل اور قانون دان سے اسکی تصدیق کروالیں . اور اسکے بعد ھی کچھ کریں . مگر میں سمجھتا ھوں ان سب باتوں سے آپ لوگوں کو آگاہ کرکے میں نے اپنا فرض ادا کردیا اور اپنے ضمیر کو مطمئن کرلیا.
واسلام
محمد طارق اظہر
ریٹائڑڈ جنرل منیجر(آپس) پی ٹی سی ایل
راولپنڈی
واٹس ایپس نمبر:- 2104574-332-92
12-06-2017
Article-42[سپریم کوڑٹ کا 17 مئی 17 کا حکم نامہ. . . وی ایس ایس لے کر ریٹائیرمنٹ لینے والے بالکل بھی پریشان نہ ھوں]
عزیز پی ٹی سی ایل دوستو!
اسلام وعلیکم
اس سے پہلے میں نے سپریم کوڑٹ کے 17 مئی 2017 ایک اپنا طویل اردو آڑٹیکل 41 لکھا تھا جس پر جہاں میں نے اس بات پر فوکس کیا تھا کے جو نارمل طریقے سے ریٹآیر ھوئے انکو حکومت والا پنشن انکریز کا کوئی مسعلہ نھیں انکو تو پی ٹی ای ٹی دینے کی پابند ھے البتہ جو لوگ وی ایس اایس لے کر ریٹائر ھوئے انکو ملنے میں دیر لگے گی اور نہ جانے کتنی دیر لگے .جیسا کے آپ سبکو معلوم ھے کے وہ پی ٹی سی ایل کے ملازمین , جو پہلے ٹی اینڈ ٹی کے ملازمین تھے پھر یعنی وہ پہلے ٹرانسفر ھوکر پی ٹی سی یعنی کارپوریشن میں ٹرانسفر ھوئے ور پھر وہاں سےپی ٹی سی ایل میں یعنی کمپنی میں اور پھر ریٹائر ھوئے اور جن کے حق میں سپریم کوڑٹ نے اپنے 12 جون 2015 کو یہ میں یہ فیصلہ دیا کے پی ٹی ای ٹی ایسے ریٹايڑد ملازمین و وھی پنشن دینے کے پابند ھے جو حکومت پاکستان اپنے سرکاری ملازمین یعنی پشنرس کے لئے اعلان کرتی ھے. اور اسطرح کی اور کئی اپیلں جو پہلے سے پی ٹی ای ٹی نے سپریم کوڑٹ میں دائر کررکھی تھیں سب کی سب مسترد کردیں گئیں . جسکے خلاف پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی کی رویو پٹیشنیں بھی سپریم کوڑ نے 17 مئی 2017 کو اپنے فیصلے کے تحت نمٹادیں یعنی disposed off کردیں صرف اس بات کی پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کے وکیل کو انکی درخواست پر اجازت دی کے وہ سی پی سی کی سیکشن (2 )12 ھآئی کوڑٹ سے رجوع کرسکتے ھیں جن وی ایس ایس لے ریٹائر ھونے والوں نے اپنے اس پنشن کے لئے ھائی کوڑٹوں سے رجوع کیا تھا جبکے وہ اسکے مجاز نھیں تھے . انکے وکیل خالد انور صاحب نہ یہ الزام صرف اسلئے لگایا جب وہ 16مئی 2017 کو اپنی متواتر عدالت میں بحث کئے جانے کے باوجود ، کے یہ سب کمپنی کے ملازم تھے اور انپر حکومت پاکستان کے سرکاری ملازمین والے قوانین کا اطلاق نھیں ھوسکتا اسلئے انکی پنشن میں گورنمنٹ والا انکرییز نھیں لگ سکتا، انھوں نے معزز عدالت کے ججوں کے ریمارکس سے یہ اندازہ لگایا تھا کے عدالت انکے ان دلائل سے مطمئن نظر نھیں آرھی اور فیصلہ انکے حق میں نھیں آسکتا اور انکی رویو اپیل مسترد ھوجائیگی تو 17 مئی 2017 کو جب کیس کا آغاز ھوا تو انھوں نے اپنی نامکمل بحث کا آغازکرتے ھی عدالت کو یہ باور کرایا ان میں سے ( یعنی Respondents میں سے ) جنھوں نے نے وی ایس ایس پیکج قبول کیا اوراسکا فائدہ اٹھایا ، اور اپنے اور ھائی کوڑٹوں سے رجوع کیا اور مزید مراعات ھائی کوڑٹوں سے حاصل کیں جسکے وہ مجاز نہ تھے کیونکے وی ایس ایس لینے ے بعد وہ کمپنی کے ملازم بن گئے تھے اسلئے ان پر گورنمنٹ کے قوانین کا اطلاق نھیں ھوتا تھا لہازا وہ آئین پاکستان کے آڑٹیکل ۱۹۹ کے تحت ھائی کوڑٹوں سے رجوع کرنے کا اختیار نہیں رکھتے تھے یعنی They can not invoke the jurisdiction of high court under Article -199 of Constitution of Islamic republic of Pakistan اور نہ ھي ھائی کوڑٹ انکی کسی قسم کی اپیلیں سننے کی مجاز تھیں کیونکے یہ اسکے دائرہ اختیار jurisdiction سے باھر تھیں . اور ایسی بہت سی انکی طرف سےآئنی پٹیشنیں ابھی تک ھائی کوڑٹوں میں زیر سماعت ھیں [ میں سمجھتا ھوں کے انکا لازمی اشارہ ان وی ایس ایس والوں کے ان توھین عدالت کی دائر کردہ آئین کے آڑٹیکل 204 کی طرف تھا جو ان وی ایس ایس لینے والے اسلام آباد ھائی کوڑٹ او پشاور ھائی کوڑٹ میں داخل کر رکھی تھیں جو پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کے سپریم کوڑٹ کے 12 جون 2015 فیصلے پر عمل در آمد نہ کرنے کی وجہ سے ان لوگوں نے داخل کی ھیں اور خالد انور صاحب کو یہ اعتراض کے انھوں نے یہ کیوں داخل کیں کیونکے یہ اسکے مجاز نھیں تھے او ھا ئی کوڑٹوں نے کیوں entertain کیں کیونکے یہ انکے دائرہ اختیار jurisdiction سے باھر تھیں] . اسلئے خالد انور صاحب نے عدالت عالیہ سے ان ھائی کوڑٹوں سے رجوع کرنے کے لئے سی پی سی کی سیکشن (۲)۱۲ کے تحت رجوع کرنے کی اجازت مانگی اور عدالت نے انکو یہ اجازت دیتے ھوئے انکی کی رویو پٹیشن نمٹادی اور 12 جون 2015 کا سپریم کوڑٹ کا دیا ھوا فیصلہ فائنل شکل اختیار کرگیا اور ایک قانون بن گیا.
اب آپ لوگوں کے زھنوں میں یہ سوال ضرور اجاگر ھوگا کے یہ سی پی سی کی سیکشن (۲) ۱۲ کیا بلا ھے جسکے تحت سپریم کوڑٹ نے پی ٹی سی اور پی ٹی ای ٹی و ھائی کوڑٹوں سے رجوع کرنے کے لئے کہا .پھلے میں یہ قانون کیا ھے وہ بتادوں جو میں نے حاصل کیا اور اسے بعد اسکی تشریح:-
"In simple words, Section 12(2) CPC, speaks of the principle that if a Decree, Order or Judgment is obtained by Fraud, misrepresentation, or where Question of jurisdiction has risen, such Order Decree or Judgment shall be challenged through an application in the same court and no other
separate Suit shall lie."
اگر کوئی کسی کے خلاف عدالت سےڈگری یا کوئی ایسا حکم فراڈ، غلط بیانی کیوجہ سے حاصل کرلیتاھے ، یا جہاں عدالت کے دائیرہ اختیار کا سوال اٹھ چکاھو تو ایسی ڈگری کا یا فراڈ اور غلط بیانی کی وجہ لیا ھوا عدالتی حکم ایک درخواست کے ذریعے اسی عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ھےاور اسکے لئے کوئی علیحدہ سے کیس کرنے کی ضرورت نھیں . اسی بات کی تشریح میں اوپر کرچکا ھوں کے کیوں خالد انور صاحب یہ چیلنج کرنا چاھتے ھیں . وہ چاھتے ھیں کے وی ایس ایس والے پنشنرس پی ٹی ای ٹی یا پی ٹی سی ایل خلاف کسی قسم کا بھی کوئی کیس ھائی کوڑٹوں میں نہ کرسکیں چاھے وہ توھین عدالت ھی کیوں نہ ھو کیونکے نہ تو یہ وی ایس ایس لے کر ریٹائر ھونے والے کیس کرنے کے اور نہ ھی ھائی کوڑٹس سننے کے مجاز ھیں .
میں نے اپنے آڑٹیکل 41 میں اس بات کی تشریح کی تھی وہ تمام پنشنرس جن کی پی ٹی سی ایل سے ریٹائرمنٹ ما سوائے وی ایس ایس لے کر ریٹائیر منٹ کے ، وہ سب پنشن میں گونمنٹ والے انکریز کے حقدار ھیں اور انکو اگر یہ نہ دیں تو پھلے انکو ایک اپیل اور نوٹس بیھجا جائے کے اتنے دنوں میں ادائیگی کریں اور نہ کرنے کی صورت میں انکے خلاف سپریم کوڑٹ یا ھآئی کوڑٹ میں توھین عدالت کا کیس کیا جائے . میں نے نے وی ایس ایس لے کر ریٹائر ھونے والوں کے بارے میں یہ ضرور کہا تھا کے عدالت نے انکو یہ انکریز دینے سے روکا نھیں بلکے چونکے ایک مسعلہ پیدا ھوگیا اسلئیے یہ انکریز دینے میں دیر لگ جائے کیونکے عدالت کے ایسے حکم سے یہ تاثر ملتا ھے کے فی الحال عدالت انکو یعنی صرف وی ایس ایس لے کر ریٹائر ھونے والوں یہ گورنمنٹ کا اعلان کردہ انکریز نہیں دینا چاھتی تاقت یہ مسعلہ حل نہ ھو جائے.
مزکورہ آڑٹیکل 41 لکھنے کے بعد مجھے بات بیحد پریشان کرتی رھی کے میں نہ یہ کیوں اور کیسے یہ اخز کرلیا کے فیلحال سپریم کوڑٹ نے وی ایس ایس لے کر ریٹائیر ھونے والوں کو یہ گورنمنٹ کا اعلان کردہ انکریز روک دیا ھے جبکے عدالت نے کوئی ایسا حکم جاری نھیں کیا .اعلی عدالت کا جو فیصلہ ھوتا ھے وہ تاثرات مفروضوں یا اور کسی وجہ سے قائیم نہیں کیا جاسکتا.اعلی عدالت کا ھر حکم specific اور برابر تحریر ھوتاھے اور اس میں کسی مبہات کا اشارہ تک نہیں ھوتا. اور عدالت کو کو ایسا حکم دینا ھوتا تو وہ لازمن اپنے 12 جون 2015 پہلے modify کرتی .مگر کیسے کرتی کیونکے یہ تین رکنی بینچ اسکو modify کرنے کا مجاز ھی نھیں تھا کیونکے اس آڈر ميں وہ فیصلہ تحریر ھے جو تین رکنی بینچ نے [یعنی مسعود بھٹی کیس جو 2012SCMR152 رپوڑٹ ھے] نےدیا تھاجسکو پانچ رکنی بینچ نے کنفرم کیا تھا اور 19 فروری 2016 پی ٹی سی ایل کی مسعود بھٹی کیس کے خلاف دویو پٹیشن خارج کردی تھی [جو PTCL Vs Bhattie 2016SCMR1362 میں رپوڑٹ ھے] . مسعود بھٹی کیس کا یہ فیصلہ جو تین رکنی بینچ نے 7 اکتوبر 2011 کو دیا تھا اور اپنے فیصلے کہا تھا " پی ٹی سی ایل کے ملازمین جو ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی ھوئے اور پھر کارپوریشن یعنی پی ٹی سی میں ٹرانسفڑڈ ھوئے اور پھر یکم جنوری 1996 کو کمپنی یعنی پی ٹی سی ایل میں ٹرانسفر ھوکر اسکا حصہ بن گئے ان پر حکومت پاکستان کے سرکاری ملازمین والے قوانین کا اطلاق ھوگا اور کمپنی کو اس بات کا بالکل بھی اختیار نھیں وہ انے سروس کے ٹرمز اور کنڈیشنس میں کسی بھی قسم کی ایسی منفی تبدیلی کرے جن سے انکو نقصان ھو اور یہ اختیا ر حکومت پاکستان کو بھی نھیں اور وہ اس بات کی گارنٹر ھے خاصکر انکو ملنے والے پینشن benefits سےھے.
اب یہ دیکھتے ھیں کے سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ نے 12 جون 2015 پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کی تمام اپیلیں جو تقریبن 17 کے قریب تھیں خارج کرتے ھوئے کیا حکم تحریر کیا تھا جو اس تفصیلی فیصلےآخری پیرے میں درج ھے کا جسکا ترجمہ زیر تحریر ھے.
"Civil Petitions Nos 565-568 & 582-584 of 2014"
پیرا نمبر ۲۰:- " جو وجوھات بیان کی گئيں ھیں ھم انسے اس نتیجے پر پہنچے ھیں کے ریسپونڈنٹسُ، جو پاکستان ٹیلیگراف اینڈ ٹیلی فون ڈیپاڑٹمنٹ کے ملازمین تھے جو پہلے کارپوریشن اور بعد میں کمپنی میں ٹرانسفر ھوکر ریٹائر ھوئے وہ اسی پنشن کے حقدار ھیں جو حکومت پاکستان اعلان کرتی ھے، اور بوڑڈ آف ٹرسٹیز آف ٹرسٹ پابند ھے کے وہ حکومت کے ایسے اعلان پر عمل کرے جو ایسے ملازمین کے لئے ھے. نتیجتن ، یہ پٹیشنشس مسترد کررھے ھیں"
Sd/- Nasir-ul-Mulk, HCJ
Sd/- Gulzar Ahmed, J
Sd/-Mushir Alam, J
Announced in open Court on 12-06-2015
تو اب میرا سوال یہ ھے کیا وی ایس ایس پیکج قبول کرکے ریٹائر ھونے والے ھزاروں پی ٹی سی ایل ملازمین ایسے ٹرانسفڑڈ ایمپلائی نہیں تھے کیا ؟؟؟؟ جن پر گورنمنٹ کے statutory rules کا اطلاق ھونا تھا مسعود بھٹی کیس کے فیصلے کی روشنی میں ، کیونکے وہ پہلے ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی ھوئے وہاں سے پی ٹی سی میں دسمبر 1991 میں پی ٹی سی ایکٹ 1991 کی شق (1)9 کے تحت ٹرانسفڑڈ ھوئے پھر وھاں سے پی ٹی ( ری آرگنائیزیشن) ایکٹ 1996 کی شقس (1)35 اور (1) 36 کے تحت پی ٹی سی ایل یعنی کمپنی میں یکم جنوری 1996 کو ٹرانسفڑڈ ھوکر پی ٹی سی ایل کا حصہ بن گئے.یقینن یہ سب تھے اس میں کسی کو شک نہیں ھونا چاھئیۓ. . جو وی ایس ایس لے کر ریٹائر ھوئے اس میں کسی کو بلکل بھی شک نھیں ھونا چاھئے . یہ سب 100% ٹی اینڈ ٹی ڈیباڑٹمنٹ میں ھی بھرتی ھوئے تھے اسکی وجہ یہ ھے کے جب انھوں نے 2008 میں وی ایس ایس قبول کرکے ریٹائرمنٹ لی اسوقت انکی پی ٹی سی ایل میں سروس بیس سال سال یا اس سے زیادہ تھی جب ھی تو انکو پنشن مل رھی ٹھی کیونکے پی ٹی سی ایل نے انھی وی ایس ایس لینے والوں کو وی ایس ایس 2008 میں پنشن دی تھی جنکی کوالیفائنگ سروس 31 ماچ 2008 تک بیس سال یا اس سے زیادہ تھی . . . [ یہ پنشن لینے کی کم از کم مدت میں ، ایسے سرکاری ملازمین کا سٹیٹس رکھنے والے پی ٹی سی ایل کے ملازمین کی اضافہ کرنا پی ٹی سی ایل کا ایک غیر قانونی اقدام تھا کیونکے فیڈرل گورنمنٹ کے پنشن رولز کے مطابق پنشن لینے کی کم از کم سروس کی مدت دس سال کی کوالیفائیڈ سروس ھے ھے جبکے انھوں ، یعنی پی ٹی سی ایل نے اپنے تئیں اس میں دس سال کا مزید اضافہ کرکے ھزاروں ایسے پنشن کے حقدار وی ایس ایس لینے والے پی ٹی سی ایل کے ملازمین کو پنشن کے حق سے محروم کردیا جنکی کو ا لیفائنگ سروس بیس سال سے زرا سی بھی کم تھی جو صریحن، مسعود بھٹی کیس میں سپریم کوڑٹ کا ایسے ملازمین کے حق میں آۓ ھوۓ فیصلے کی خلاف ورزی تھی . 19 فروری 2016 جب پی ٹی سی ایل کی رویو پٹیشن مسعود بھٹی کیس میں سپریم کوڑٹ کے خلاف خارج ھوئی تو ھزاروں ایسے وی ایس ایس لینے والے پی ٹی سی ایل کے ملازمین جنکی کولیفائنگ سروس دس سال سے زیادہ تھی مگر بیس سال سے کم اور انکو پنشن لینے ے حق سے پی ٹی سی ایل نے غیر قانونی طور پر پنشن لینے سے محروم کردیا تھا ، تو ایسے لوگ ھائی کوڑٹوں مں پھنچ گئے کے انکے ساتھ نا انصافی کی گئی کیونکے انکو پنشن کا حقدار ھوتے ھوئے بھی پنشن سے غیر قانونی طور پر محروم کردیا گیا. جسکا انکے یعنی پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کے پاس کوئی جواب نھیں ، کے انکو کس نے اختیار دیا تھا کے وہ حکومت کا بنایا ھوا قانون تبدیل کریں جبکے وہ ایسا کرنے کے بالکل بھی مجاز نہ تھے .جن کے متعلق اب یہ محترم خالد انور صاحب فرمارھے ھیں یہ سب دھوکے باز ھیں یہ کیسے ھائی کوڑٹ پہنچ گئے جبکے انکو اختیار نھیں تھا اور ھائی کوڑٹ نے کیسے ان کو entertain کرلیا جبکے یہ اسکے دائرہ اختیار میں نھیں تھا ]. . کیونکے پی ٹی سی کی تشکیل ، 27 نومبر 1991 میں جاری کئے ھوئے پی ٹی سی ایکٹ 1991 نوٹیفیکیشن کے تحت دسمبر 1991 میں ھوئی تھی اور ٹی اینڈ ڈیپاڑٹمنٹ گورنمنٹ آف پاکستان کے تمام ملازمین اس میں ضم ھوگئے تھے، انھیں سروس کے ٹرمز اینڈ کنڈیشنس پر جو انکے پی ٹی سی میں ضم ھونے سے فورن پھلے ٹی اینڈ ڈیپاڑٹمنٹ میں تھے.
محترم خالد انور صاحب اس دن کوڑٹ میں یہ چیخ چیخ کر فرمارھے تھے کے ان وی ایس ایس لینے والوں کو پہلے ھی بہت خطیر رقم دچکے ھیں اب یہ دھوکے سے اور زیادہ رقم گورنمنٹ پنشن انکریز کے تحت ھتیانا چاھتے ھیں جبکے یہ وی ایس ایس لینے کے بعد کمپنی کے ملازم ھوچکے ھیں انپر گورنمنٹ کا اعلان کر دہ پنشن پر انکریز نھیں دیا جاسکتا. تو خالد انور صاحب سے بڑی عزت کے ساتھ عرض ھے کے بقول انکے ان وی ایس ایس والوں کو ایک خطیر رقم دے جاچکی تو کوئی ان پر احسان نہیں کیا یہ تو دینی ھی تھی جب کسی بھی ملازم کو آپ نوکری سے نکلنے کے لئے کہیں گے ، جو ساٹھ سال کی عمر تک ملازمت کرکے ماہانہ تنخواہ لے کر اپن بیوی بچوں کا پیٹ پال سکتا ھے تو اسکو اسکے اس جائیز حق سے محروم کرنے کے لئے اسکو compensate تو کرنا ھی پڑے گا اور زیادہ سے زیادہ رقم دینی پڑی گی . کیا جن لوگوں کو اسی پی ٹی سی ایل نے 1998 میں وی ایس ایس دیا تھا انکو زیادہ رقم نھیں دی تھی انکو تو ماہانہ اسوقت سے اتنی پنشن کی ادائیگی کی جارھی تھی جو انکے ماہانہ تنخواہ کے تقریبن برابر تھی ، کیا انکو باقاعدہ سے ھرسال یہ ھی پی ٹی ای ٹی والے گورنمنٹ کا اعلان کردہ پنشن پر انکریز نھیں دے رھے تھے جو انھوں نے سب کے ساتھ یکم جولائی 2010 سے غیر قانونی طور پر بند کردیں. کیا 2008 میں بھی ایسے وی ایس ایس لینے والوں کی پنشنس میں بھی 2009-2008 اور2010-2009 میں گورنمنٹ والا سالانہ پنشن انکریز نھیں دیا گیا ؟. کیا ان سب کی ماہانہ پنشن اور کمیوٹیشن کی رقم گورنمنٹ کے بنائے ھوۓ پنشن فارمولے کے تحت نھیں دی گئيں . کس طرح آپ یہ کہتے ھیں ے یہ وی ایس ایس لے کر کمپنی کے ملازم بن گئے کیونکے انکے سروس ٹرمز اور کنڈیشنس تبدیل ھوگئے . انکے سروس ٹرمز اور کنڈیشنس کرنا جن سے انکو نقصان پہنچآئے، کمپنی کو تو کیا خود حکومت پاکستان کو بھی یہ اختیار نھیں کے یہ تبدیل کرےاور اس بات پر آٹھ سپریم کوڑٹ کے معزز جج حضرات نے مہر ثبت لگائی ھے پہلے اسکا حکم دے کر مسعود بھٹی کیس میں فیصلہ دے کر پھر اسکے خلاف کمپنی کی رویو پٹیشن خارج کر کے. کس طرح آپ کہتے ھیں کے یہ کمپنی کے ملازم وی ایس ایس لینے کے بعد بن گئے ؟؟؟؟ اسلئے انکو گورنمنٹ والا انکریز نھیں مل سکتا . کیسی فضول باتیں کرتے ھیں آپ خالد انور صاحب کیا سپرکم کوڑٹ کا مسعود بھٹی والا فیصلے میں لکھی ھوئی یہ بات بھول گئے اس میں صاف صاف لکھا ھے کے جن ملازمین نے کمپنی یعنی پی ٹی سی ایل کو یکم جنوری 1996 کے "بعد" جائین کیا ھوگا انپر حکومت پاکستان کے ان سرکاری رولز (Statutory rules) کا اطلاق نھیں ھوگا اور نہ انکی گورنمنٹ آف پاکستان گارنٹر ھوگی اور ایسے تمام ملازمین کمپنی کے ملازم کہلائیں گے اور ان پر Master & Servants Rules کا اطلاق ھوگا. جب ھی تو ایسے ملازمین کو کمپنی اپنی طرف سے پنشن نھیں دے رھی کیونکے انکو EOIB کی طرف سے انکی عمر ساٹھ سال ھوجانے پر ماہانہ EOIB پنشن ملے گی . جو تو اتنی کم ھے جیسے اونٹ کے منہ میں زیرا.
پی ٹی سی ایل کی اس رویو پٹیشن جو سپریم کے تین رکنی بینچ نے 17 مئی 17 کو نمٹادی اور اسکو قبول نھیں کی ، یہ رویو پٹیشن خالد انور صاحب نے تحریر کی تھیں جسکے آخری دوصفحات کی فوٹو کاپیاں اس مضمون کی تکمیل کے نیچے آپ سب کی معلومات کے لئے اپلوڈ کررہا ھوں . خالد انور صاحب نے وی ایس ایس لینے والوں کے لئے خلاف کہا ھےکے جو اوپر تحریر کرچکا ھوں ، وہ مجھے انکی اس رویو پٹیشن جو عدالت میں جمع کرا ئی گئی ھے ، کہیں نظر نہ آیا اور نہ انکے prayer میں یہ بات نظر آئی کے انکو سی پی سی کے سیکشن (۲) ۱۲ کے تحت ان وی ایس ایس والوں کے خلاف جنھوں نے فراڈ دھوکہ دئی کی ھے ، ھائی کوڑٹوں سے رجوع کرنے کی اجازت دی جائے ،بلکے prayer میں صرف انکا رونا نظر آیا " کے انکی یہ رویو پٹیشن قبول کی جائے ورنہ انکے کلائنٹس پٹیشنرس( پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی ) کو بہت ھی نقصان ھوگا جسکی تلافی نا ممکن ھوگی اور جو انھوں نے وجوھات بیان کی ھیں انکو مدنظر رکھتے ھوئے یہ معزز عدالت انکے خلاف کوئی منفی حکم (adverse order ) جاری نہ کرے وہ عدالت عالیہ کا بہت احترام اور عزت کرتے ھیں . " وغیرہ وغیرہ . مگر عدالت نے انکی یہ استدعا، یعنی prayer قبول نہیں کی. یہاں ایک بات کا زکر کردوں جب سے یہ رویو پٹیشن داخل ھوئی تھی اور سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچز یعنی پہلے سپیشل بینچ اور پھر عام بینچ جسٹس گلزار صاحب کی سبراھی میں بنا جس نے انکی یہ رویو پٹیشن مسترد کی، مجھے اس بات پر زرا سا بھی شک نھیں تھا کے یہ رویو پٹیشن مسترد نہ ھو اور میں اکثر فیس بک پر یہ نوٹ لکھا کرتا تھا "کے پریشانی کی کوئی بات نھیں انشاللہ انکی یہ رویو پٹیشن ضرور خارج ھوگی اس میں سی کو شک نہیں ھونا چاھئیے . آپ سوچتے ھونگے کے میرے اس اعتماد کی وجہ کیا تھی . وہ یہ ھے ، کے جو سپریم کوڑٹ کا 12 جون 2015 کا فیصلہ ھمارے حق میں آیا اور انکی تمام اپیلیں سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ نے محترم جناب ناصرل ملک سابق جسٹس کی سربراھی میں مسترد کردیں اور یہ فیصلہ جناب جسٹس گلزار صاحب نے لکھا اور اسکا فیصلہ مسعود بھٹی کیس میں پی ٹی سی ایل کے ٹرانسفڑڈ ملازمین ( یعنی جو ٹی اینڈ ٹی سے پی ٹی سی میں آئۓ اور پھر پی ٹی سی ایل میں ) کے حق میں آۓ ھوئے سپریم تین رکنی بینچ کے فیصلے کو بنیاد بنا کرلکھا گیا تھا کے چونکے یہ ٹرانسفڑڈ ملازمین ھیں انپر گورنمنٹ کے قوانین ھی استعمال ھو نگے اس لئے انپر گورنمنٹ کا اعلان کردہ ھی پنشن انکریز دیا جائے گا. . . سپریم کوڑٹ کے مسعود پھٹی کیس مزید پانچ رکنی بینچ نے محترم جناب ظہیر جمالی سابقہ چیف جسٹس نے endorse کیا اور اس پر مہر ثبت لگائی اور پی ٹی سی ایل کی اور 19 فروری 2016 کو انکی یہ رویو پٹیشن خارج کردی[ اس کیس کی ھیرنگ کے دوران انھی خالد انور صاحب نے پٹیشنر یعنی پی ٹی سی ایل کے وکیل کے نا طے بہت چیخم دھآڑ کی . محترم جناب ظہیر جمالی صاحب نے انکو بولنےکا خوب موقع دیا اور یہ مسلسل دو دن یعنی 17 اور 18 فروری 2016 خوب بولے مگر عدالت کو convinced نہ کرسکے ]، تو میں سوچتا تھا ے یہ کیسے ممکن ھے کے رویو پٹیشن میں ایک تین رکنی بینچ کے ججز ان پانچ ججوں بلکے یوں کہۓ کے کل آٹھ ججوں کے فیصلے خلاف جا سکیں جس فیصلے کی بنیاد ان آٹھ ججوں کا فیصلہ تھا . تو یہ ھی بات مجھ کو پریشان کرھی تھی ، (جسکا زکر شروع میں اوپر کر چکا ھوں ) کے میں نے یہ کیوں اخز کرلیا کے ابھی وی ایس ایس والوں کو پینشن میں انکریز نھیں دیا جائے گا جبکے سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ نے اپنے 12 جون 2015 کے فیصلے کو نہ تو ختم کیا اور نہ کوئی اس میں modification کی بلکے جوں کا توں رھنے دیا اور انکی رویو پٹیشن نمٹادی یعنی disposed off کردی .
اس اوپر کے پیرے میں جو قانونی باتیں میں نے تحریر کیں یہ تمام چیزیں مجھے بہت شروع سے معلوم تھی وہ بھی صرف میرے شوق کی وجہ سے کیونکے میں عدالتوں میں چلنے والے کیسسز اور ان پر فیصلے بڑے شوق سے پڑھتا ھوں اور پھر اسکو ذھین نشین کرنے کی کوشش کرتاھوں جو بعد میرے کام آتیں . مگر یہ موجودہ مضمون لکھنے سے پھلے تاکے میری پوری تسلی رھے میں نے نیٹ پر اور سرچ کیا اور ایک سپریم کوڑٹ کا کیس پڑھکر مجھے بیحد تقویت ملی . یہ ایک سول اپیل نمبر1072/2005 تھی جو چئرمین ریلوے نے ایک ریلوے ملازم شاہ جہاں کے حق میں آۓ ھوئے اس فیڈرل ٹریونل (FST) کے خلاف داخل کی تھی جس میں ٹریونل FST نے اسکو پینشن benefit دینے کو کہا تھا کیونکے شاہ جہاں جس نے کوئی 14 سال ایڈہاک سروس کی تھی اور پھر دوسال کنٹریکٹ پر کام کیا اور وہ ریگولر پوسٹ کے لئے امتحان نہ پاس کرسکا تو اسکا کنٹریکٹ ختم کرکے نوکری سے نکال دیا .شاہ جہاں اپنی نوکری کرنے کے ڈیپاڑٹمنٹ سے پینشن benefit مانگے توڈیپاڑٹمنٹ نےانکار کردیا تو اس نے FST میں کیس کردیا اور FST نے اسکی یہ اپیل سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ کے ایک اسی طرح کے ایک فیصلے جو اپیلنٹ کے حق میں آیا تھا ، اسکو جواز بناتے ھوئے،شاہ جہاں کے حق میں بھی ایسا ھی فیصلہ کردیا جسکو چئرمین ریلوے اسلام آباد نے سپریم کوڑٹ میں چیلنج کردی اور فورن اس پر سٹے مانگا کیونکے اسطرح کے اور بہت سے ملازم نکالے گئے تھے، ان سبکو یہ حق دینا پڑے گا اور پھر یہ دلیل دی کے FST نے جس تین رکنی بینچ سپریم کوڑٹ کو جواز بنا کر شاہ جہاں کو یہ پینشن benefit دینے کا حکم دیا تھا، اس میں ھی سقم موجود تھا . تو یہ کیس سپریم کوڑٹ کے پانچ ممبر معزز ججز بینچ کو سننا پڑا جو سابق معزز چیف جسٹس ظہیر جمالی کی سربراھی جنھوں نے پہلے وہ تین ممبر ججز کے فیصلے کو کل عدم کیا پھر FST کے فیصلے کو اور چئرمین ریلوے اسلام آباد کی اپیل منظور کی . آگرچہ یہ ایک معمولی کیس تھا مگر پانچ ججوں کو اسلئے سننا پڑا اسکی وجہ صرف وہ تین ججوں کا سقم والا فیصلہ تھا .میرا مطلب صرف یہ کہنا ھےجب ایسی نوعیت کے کیس آتے تو ھمیشہ لارجر بینچ بنتےھیں جس میں ججوں کی تعداد پھلے والوں سے زیادہ تھی . تو ھمارے حق میں آۓ ھوئے 12 جون 17 سپریم کوڑٹ کی بنیاد آٹھ معزز ججز کی مسعود بھٹی کیس میں ٹرانسفڑڈ ملازمین کے حق میں آۓ ھوئے فصلے کی وجہ سے تھی تو تین رکنی بینچ رویو پٹیشن میں اسکے خلاف کیسے فیصلہ دے سکتا تھا. میں نے اسطرح کی تمام باتیں ، قانونی نکات اپنے ذھین میں رکھ کر کسی اچے وکیل قانون دان سے مشورہ لینے کا بھی کے فیصلہ کیا مبادہ اس میں غلطی پر نہ ھوں اسکے لئے میں اپنے دوست جگری دوست سہیل کے بیٹے سے مشورہ لینے کا فیصلہ کیا جو لندن میں زیر تعلیم ھے قانون یعنی Law میں PHD کرنے کے لئے کوشاں ھے. ماشالللہ نظر بد سے بچاۓ وہ ایک بہت ھی ھونہار گولڈ میڈیلسٹ اور قانون کی ت اعلی ڈگریاں بار ایٹ لا وغیرہ امتیازی حیثیت سے حاصل کرچکا ھے ، اس سے میں نے رمضان کی آمد سے ایک ھفتے پہلے ھی اسکو فون پر یہ تمام تفصیلات بیان کرکےفون پر مشورہ لے چکا ھوں. وہ میری یہ باتیں سن کر پہلے تو بہت ھی حیران ھوا کے میں ایک انجینئیر کی ڈگری رکھنے والا اتنا کچھ جانتاھوں جب اسکو میں نے یہ بتایا کچھ نہیں یہ سب کچھ میرے شوق کی وجہ سے ھے تو وہ بہت خوش ھوا اور اسنے میری باتوں کی مکمل تائید کی کے ان لوگوں کے عزائیم وی ایس ایس لے کر ریٹائیر ھونے والے پی ٹی سی ایل کو گورنمنٹ والا پنشن انکریز نہ دینے کے لئے لگتے ھیں جنکو بظاھر نہ دینے کی کوئی بھی قانونی رکاوٹ نظر نہیں آتی . اس نے یہ بات بھی قانونی لحاز سے ریکنفرم کی . اب ایک ٹرانسفڑڈ پی ٹی سی ایل ایمپلائی جو ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی ھوا ھو پر پی ٹی سی ميں ٹرانسفر ھوا اور پھر یکم جنوری 1996 کو پی ٹی سی ایل ميں ٹرانسفر ھوا ھو اور پھر پی ٹی سی ایل میں کسی وجہ سے ریٹائڑڈ ھوا ھو چاھے ساٹھ سال کی عمر میں ،چاھے جبری، چاھے والینٹری 25 سال سروس کرنے کے بعد ، چاھے وی ایس ایس لے کر وغیرہ وغیرہ ،اسکو اور ایسے سبکو ، پی ٹی ای ٹی نہ صرف گورنمنٹ والی پنشن بلکہ گورنمنٹ والا انکريز سو فیصد عدالت عالیہ کے حکم کے تحت دینے کی پابند ھے ، اور اگر نہ دے گی تو س سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتاھے اور یہ سب توھین عدالت کے مرتکب ھوں گے. یہ لوگ ، وی ایس ایس لے کر ریٹائر ھوئے انکو یہ گورنمٹ والا پنشن انکریز کا قانونی حق نہیں دینا چاھتے . کیونکے قانونی طور پر تو یہ روک سکتے نھیں تو انھوں نے یہ سی پی سی کی سیکشن (۲) ۱۲ کا چکر چلایا ھے. انکا صرف یہ مقصد ھے کے اگر یہ لوگ یہ انکریز نھیں دیتے تو یہ وی ایس ایس والے ھائیکوڑٹوں سے نہ رجوع نہ کرسکیں انکو کسی نہ کسی طرح روکا جائے کے وہ وہ عدالتوں کا رخ نہ کرسکیں .
میں نے یہ باتیں اور قانونی نکات اپنے ذھین نشین کرلئے تھے اور یہ ارادہ کیا تھا کے میں اپنا اگلا آڑٹیکل 42 آپ لوگوں کے لئے رمضان کے بعد تحریر کروں گا کیونکے میں رمضان میں اپنا سارا وقت اللہ کی عبادت میں لگانا چاھتا تھا کیا پتہ نھیں زندگی وفا کرے نہ کرے اگلا رمضان نصیب ھو یا نہ ھو مگر جب مجھے دودن پھلے توقیر صاحب سیکٹری APPPC کا یہ ایس ایم ایس ملا کے پی ٹی ای ٹی کے وکیل خالد انور صاحب نے سپریم کوڑٹ کے حکم کے تحت ریفرنس سی پی سی کی سیکشن (۲) ۱۲ کے تحت اسلام آباد ھآئی کوڑٹ میں داخل کردئیے ھیں جو عدالت نے قبول کرتے ھوئے متعلقہ لوگوں یعنی فدا حسین ، محمد عارف ، انور شاھد، فاضل ملک وغیرہ کو نوٹسس بھی جاری کردئیے ھیں تو میرے کان کھڑے ھوئے اچھا تو یہ بات ھے اب اگلی پیشی میں خالد انور صاحب یہ سٹے لینے کی کوششش کریں گے جب تک یہ کیس چل رھا ھے یہ وی ایس ایس لے کر ریٹائر ھونے والے اپنے کسی مسعلے کے لئے کسی بھی ھائی کوڑٹ سے رجوع نہیں کرسکیں . اسطرح یہ لوگ انکے خلاف عدالت کی حکم یعنی پنشن پر گورمنٹ والا انکریز نہ دینے کی صورت میں کو ئی بھی contempt of court کا کیس ھائی کوڑٹ یا سپریم کوڑٹ میں نھیں داخل کر سکیں گے . یہ ھی سوچکر اور آپ لوگوں کو اس طوفان سے آگاہ کرنے کے لئے رمضان کے مبارک مہینے میں ھی میں یہ سب کچھ لکھنے کے لئے بیٹھ گیا . تو آپ سب لوگوں سے میری التجا ھے کے آپ انلوگوں کی مدد کریں جن کے خلاف اسطرح کے نوٹسسس یہ لوگ عدالت سے نکلوارھیں ھیں اوریہ مزید اور نکلوائیں گے ان لوگوں کی مدد کریں سب مل کر انکو اچھا سا اچھا نہ بکنے والا وکیل کروائیں . مختلف پاکستان پنشن ایکشن کمیٹیاں اس پر کام کرتی نظر آرھی ھیں جس میں توقیر صاحب سیکریٹری
( Cell#s 0321-6123299,03123553399 ) کی APPPC سب سے زیادہ نمایاں ھے جو ان لوگوں کے لئے ، جن کو نوٹسس بھیجے گئے ھیں ، انکے لئے ایک ٹاپ کلاس وکیل کرنے کے لئے کوشاں ھے آپ لوگوں کو بھی چآھئے ان سے تعاون کریں انکی وکیل کرنے میں مدد کریں اس میں آپ سب ھی کا فائدہ ھوگا .
آخر میں ایک بات آپ لوگوں سے کہنا چاھتا ھوں کے آپ سب لوگ اپنی صفوں میں مکمل اتحاد رکھيں کسی منفی سچ رکھنے والے حاسدوں کی باتوں میں ھر گزنہ آئيں . کچھ حاسد لوگوں کو یہ بات ضرور کھلے گی کے ان لوگوں کیوں یہ فائدہ ھورہا ھے تو وہ طرح طرح کی تاویلیں پیش کرکے آپلوگوں کو مایوس کرنے کی کوشش کریں گے کچھ دل جلے میری ان باتوں کو ٹوپی ڈرامہ کہیں گے کچھ کہیں گے یہ تو بکواس کرتا ھے وغیرہ وغیرہ اور اس بات کا بلکل یقین رکھیں کے جو کچھ قانونی نکات دے کر میں نے یہ ثابت کیا کے سپریم کوڑٹ کے 12 جون 2015 میں ایسا کوئی حکم نھیں کے کے وی ایس ایس لے کر ریٹآئر ھونے کو گورنمنٹ والا انگریز نہ دیا جائے اور نہ ھی سپریم کوڑٹ نے اپنے 17مئی 17 کے حکم نامے میں اشارتن بھی ایسا کوئی حکم نہیں دیا بلکے سپریم کوڑٹ نے انکی رویو پٹیشن کم قبول ھی نہیں کیا اور مسترد کردی جسکی وجہ سے 12 جون 2015 کا فیصلہ امر ھوگیا . اگر آپ کو میری باتوں پر ذرا سا بھی شک ھے تو آپ لوگ اپنے تئیں بڑے سے بڑے وکیل اور قانون دان سے اسکی تصدیق کروالیں . اور اسکے بعد ھی کچھ کریں . مگر میں سمجھتا ھوں ان سب باتوں سے آپ لوگوں کو آگاہ کرکے میں نے اپنا فرض ادا کردیا اور اپنے ضمیر کو مطمئن کرلیا.
واسلام
محمد طارق اظہر
ریٹائڑڈ جنرل منیجر(آپس) پی ٹی سی ایل
راولپنڈی
واٹس ایپس نمبر:- 2104574-332-92
12-06-2017
Comments