For those VSS retirees who can under stand


            Article-52[15-04-2018]

Attention all PTCL Pensioners VSS optees

‎"جو سمجھ  سکیں. . . انکے لیئے "

‏‎عزیز پی ٹی سی ایل پنشنر ساتھیو
‏‎                                                             اسلام وعلیکم 
‏‎اگر آپ لوگوں نے میرا حالیہ آڑٹیکل-50 غور سےپڑھا ھوتو اس میں ، میں نے یہ سمجھایا تھا کے سپریم کوڑٹ کے دورکنی بینچ کا ۱۵ فروری ۲۰۱۸ ، نسیم وہرہ اور صادق علی کی درخواست پر دیا گیا فیصلہ ultravires ھے، یعنی اس دو رکنی بینچ جو یہ فیصلہ دیا ھے اسکو ایسا فیصلہ کرنے کا اختیار ھی نہیں تھا. اب آپ کے زہین میں یہ سوال پیدا ھوگا کے میں یہ بات کیوں کہہ رھاھوں. آپ کو یہ تو سمجھ میں آگیا ھوگا کے جو توھین عدالت کا کیس نسیم وہرہ صاحب نے جنرل سیکریٹری ٹیلی کام پینشنر ایسوسی ایشن   کی طرف سے  اور صادق علی وی ایس ایس  ریٹائڑڈ کی طرف سے کیا گیا تھا , وہ پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل کی طرف سے سپریم کوڑٹ کے اس تین رکنی بینچ کے 12 جون 2015 کے فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے کی وجہ سے کیا تھا . جسکی پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل کی طرف سےدائیر کی رویو پٹیشن بھی تین رکنی بینچ نے محترم جج گلزارےصاحب کی سربراھی میں   17   مئی 2017  کو خارج کردی تھی اور اسکے بعد قانونی طور کسی دوسری رویو پٹیشن کی گنجائیش بھی نہ تھی . یہ توھین عدالت کا کیس تھا . مگر دورکنی بینچ نے اس کو ایک توھین عدالت کے کیس کی طرح ٹریٹ نہیں کیا بلکے وہ فیصلہ دے دیا جو انکے وکیل شاھد باجواہ صاحب نے کہا تھا. اور ما سوائے  وی ایس ایس لے کر ریٹائیڑ ھونے والوں کو دوسرے نارمل ریٹائیڑڈ ھونے والے پٹیشنر پنشنرس کو گورنمنٹ والی پنشن انکریز دینے کا حکم دیا. اور پی ٹی ای ٹی نے خلاف سپریم کوڑٹ کی  قانون اور اصول جو اس نے حمید اختر نیازی کیس 1996SCMR1185 میں وضح کردیاھے کے کسی ایک سرکاری ملازم کے حق میں آنے والا فیصلہ جس نے مقدمہ کیا ھو ، اسکا فائدہ  سب ایسے تمام ھی ایسے تمام سرکاری ملازمین کو بھی پہنچے گا جو اس مقدمہ میں پاڑٹی ھوں یا نا ھوں . بجائے ان سے یہ کہا جائے کے وہ بھی ایسے ھی فائدہ حاصل کرنے کے لئے عدالت عظمی یا اور کسی فورم کو رجوع  کریں . اسی اصول کی بنا پر عدالتیں،  چاھے وہ عدالت عالیہ ھو یا عدالت عظمی اسی کو فالو کررھی ھیں . اگر عدالت عظمی کا یہ اصولی قانون اور اصول نہ ھوتا تو آپ لوگ خود ھی اندازہ کرلیں عدالت عظمی پر کتنا بوجھ پڑجاتا ھر ایک یہ ھی اپیل کرتا کے اس کا کیس بھی اس جیسا ھی ھے جس حق میں فیصلہ عدالت عظمی نے فلاں کیس میں کیا تھا اسلئے اسکا بھی یہ کیس سنا جائے اور اسکو بھی وھی ریلیف دیا جائے جو عدالت نے اس فلانے کیس میں فلانے سرکاری ملازم کو دیا تھا وغیرہ وغیرہ. ابھی حال ھی میں 21دسمبر 2017 سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ نے اسی حمید اختر نیازی کیس کے ریفرنس سے واپڈا کے چئیرمین کی اپیل مسترد کردی تھی جو انھوں نے ان نان پٹیشنرس کو وھی فائدہ نہ دینے کے لئےکی تھی جو سروس ٹریونل نے 2008 میں ان  واپڈا  کے ایسے ملازمین  پٹیشنرس  کو دینے کے لئے کہا تھا جنھوں نے سروس ٹریونل میں کیس کیا تھا واپڈا کے چئرمین نے اسوقت ان پٹیشنرس کو سروس ٹریونل کا دیا ھوا فائدہ ، نہ دینے کے لئے سپریم کوڑٹ میں اپیل کی تھی جو 2010 سپریم  کوڑٹ نے مسترد کردی تھی اور پھر واپڈا کے چئرمین کو بادل ناخواسطہ ان تمام پٹیشنرس کو سول سروس ٹریونل کے حکم کے تحت فائدہ دینا پڑا اور جب اور نان پٹیشنرس ایسے ملازمین نے 2016 میں پہلے واپڈا کے چئیرمین کو ایک representation  بھیجی کے انکو بھی وھی فائدہ دیا جائے جو انھوں نے ان پٹیشنرس کوسروس ٹریونل  کے2008  کے فیصلے کےمطابق دیا تھا جنھوں نے کیس کیا تھا ، تو واپڈا کے چئرمین نے تمام نان پٹیشنرس ملازمین کی representation مسترد کردی تو پھر ان نان پٹیشنرس ملازمین نے اسی سروس ٹریونل میں کیس کردیا , تو سروس ٹریونل نے 2016 میں ان نان پٹیشنرس کو بھی وھی 2008 میں اپنے کئے گئے ھوئے   ،  فیصلے کے مطابق  ان سب  کو بھی   ریلیف دینے کا حکم دیا جسکے خلاف پھر چئرمین  واپڈا نے جنوری 2017 میں سپریم کوڑٹ میں اپیل کردی ، جر اس تین رکنی بینچ نے 21 دسمبر 2017 میں خارج کردی. یہ فیصلہ 2018SCMR380 میں[ میں اپنے آڑٹیکل-51 میں اس فیصلے  کی کاپی اور تفصیل لکھ چکا ھوں ] . اب اگر ھم نان پٹیشنرس پنشنرس اپنے کیس کا اس کیس سے موازنہ کریں تو ھمیں کچھ بھی فرق نہیں نظر آئیگا . 34 پٹیشنرس پینشنرس کے حق میں 21 دسمبر 2011 کے حق گورنمنٹ والی پنشن انکریز دینے کا بمعہ بقایا جات فیصلہ دیا . جسکیے خلاف پی ٹی ای ٹی نے پہلے انٹرا کوڑٹ اپیل کی اور نامی گرامی وکیل اعتزاز حسین کو ڈیڑھ کڑوڑ روپے فیس دے کر انگیج کیا مگر پی ٹی ای ٹی کی یہ انٹرا کوڑٹ اپیل  2014 میں خارج ھوگئی پھر انھوں نے سپریم  کوڑٹ میں اپیل کردی جو سپریم کوڑٹ نے ان تقریبن اٹھارہ پی ٹی ای ٹی کی ان اپیلوں اے ساتھ کلب کردیں جو پی ٹی ای ٹی ھائی کوڑٹوں کے ان فیصلوں کے خلاف کی تھیں جو انھوں نیں پی ٹی سی ایل کے ان ٹرانسفڑڈ ملازمین پی ٹی سی ایل پنشنروں کے حق میں کی تھیں جو ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی ھوئے تھے اور کارپوریشن اور کمپنی میں ٹرانسفر ھوکر ریٹائڑڈ ھوگئے تھے . اس میں بہت سے لوگ جہاں شامل تھے وھیں رجسٹڑڈ TPA بھی شامل تھی جو 40 ھزار پی ٹی سی ایل پنشنرس کو represent  کررھی تھی  جسکے جنرل سیکریٹری نسیم وھرہ صاحب ھیں یقینن ھائی کوڑٹ نے TPA کے حق میں فیصلہ دیا ھوگا کے انکے ان پی ٹی سی ایل  پنشنرس کو جن کو TPA سب کو  represent کررھی ھے انکو گورنمنٹ والی انکریز پنشن دی جائے . سپریم  کوڑٹ نے کے تین رکنی بینچ نے یہ تمام پی ٹی ای ٹی کی اپیلیں 12 جون 2015 کو مسترد کردیں تھیں اور اپنے فیصلے میں کہا تھاکے respondents  جو ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی ھوئے اور پھر وہ کارپوریشن اور پھر کمپنی میں ٹرانسفر ھوکر ریٹائڑڈ ھوگئے تھے ، انسبکو ، پی ٹی ای ٹی گورنمنٹ کی اعلان کردہ پنشن دینے کی پابند ھے . ان respondents میں TPA بھی شامل تھی جو تمام چالیس ھزار پی ٹی سی ایل کے پنشنروں کو represent کررھی تھی . تمام پی ٹی سی ایل پنشنرس چاھے وہ ساٹھ سال کی عمر میں ریٹائڑڈ ھوئے ھوں، چاھے جبری یا ۲۵ سال کی سروس کرکے premature retirement  لے کر ریٹائیڑ ھوئے ھوں یا وی ایس ایس لے کر ریٹائڑڈ ھوئے ھوں سب اس میں آتے ھیں اور پی ٹی ای ٹی کو لازمن ان سبکو عدالت عظمی کے اس  12 جون 2015 کے حکم کے مطابق گورنمنٹ والی انکریز پنشن دینا ھوگی . پی ٹی ای ٹی  نے 15 فروری 2015 کے دورکنی بنچ کے حکم کے مطابق ماسوائے TPA کے سب پٹیشنروں کو یہ پنشن ادا کردی مگر  وی ایس ایس لے کر ریٹائڑڈ ھونے والوں کو بھی نہيں دی . جس پر نسیم وہرہ صاحب نے جو 
‏ TPA کے جنرل سیکریٹری ھیں ، انھوں نے پی ٹی ای ٹی کے ایم ڈی کے خلاف عدالت عظمی کے 15 فروری 2015 کے فیصلے مطابق عمل نہ کرنے پر توھین عدالت میں کیس کردیا جسکی شنوائی 19 اپریل  
2018  کو ھوگی . دعا کریں اب عدالت عظمی مصلحت سے کام نہ لے اور انصاف سے فیصلہ کرے . مجھے امید ھے کے عدالت عظمی ضرور بضرور پی ٹی ای ٹی ے خلاف سخت ایکشن لے گی کے اس نے کس قانون کے کے تحت TPA کے ھزاروں پی ٹی سی ایل کے ھزاروں کو عدالتی حکم کے مطابق گورنمنٹ پنشن انکریز کیوں نہیں دیا ؟؟؟؟

آخر میں ایک بات  آپ سبکو بتانا چاھتا ھوں کے کل مں نے فیس بک پر اور واٹس ایپس پر سپریم کوڑٹ  کا 3 اپریل 2018 کو بنکوں کی رویو پٹیشنس  مسترد کرنے کا فیصلہ اپلوڈ کیا تھا . میرے اس بنکوں والے کیس کا اپلوڈ کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کے میں کچھ قانونی حقائیق بتانا چاھتا تھا اپنےان وی ایس ایس لے کر ریٹائڑمنٹ  لینے والے پنشنرس کو اور خاصکر جو بغیر پنشن کے زبردستی وی ایس ایس میں لینے پر مجبورھوئے کے سپریم کوڑٹ کے تین رکنی  بینچ نے  اپنے اس 13 فروری 2018 میں از خود پنشن ، بنک کے ریٹآئڑڈ ملازمین کی مقرر کردی تھی جو کم ازکم 8000 روپے ماھوار کی گئی ہے . جبکے پہلے انکو بہت ھی کم دی جارھی تھی کسی کو ڈھآئی سو روپے ماھوار مل رھے تھے کسی کو پانچ سو وغیرہ وغیرہ. بنکوں نے اس فیصلے کے خلاف رویو اپیل کردی جو سپریم کوڑٹ کے اس تین رکنی بینچ جس کے سربراہ محترم جناب چیف جسٹس ثاقب نثار تھے ، مسترد کردی . اس فیصلے سپرکم کوڑٹ نے بڑے کام کی ایک رولنگ دے دی و اسکے پیرا 3  کے آخر میں موجود ھے. جو خاصکر ان وی ایس ایس لے کر ريٹائڑڈ ھونے والے ملازمین ے لئے بیحد فا ئدہ مند ھے  جن کو دس سال یا اس ھی زیادہ کوالفائیڈ سروس ھونے کے باوجود پی ٹی سی ایل نے  پنشن نہیں دی . عدالت عظمی نے اپنے اس فیصلے کے پیرا 3 کے آخر میں لکھا ھے . یہ وضاحت کی جاتی ھے یہ کے جو پنشن کا فائدہ ھم نے اپنے  13 فروری 2018 کے فیصلے میں دیاتھا،  وہ ان  بنک کے ان 10 اکتوبر 1997 کو 5416 بنک سے نکالے ھوئے ملازمین کو بھی یا جائے گا جنکو سٹاف میں کمی کرنے کی سکیم کی  وجہ سے نکالا گیاتھا، اگر انکی کوالیفائیڈ سروس بنک سے نکالے ھوئی تاریخ تک دس سال کی بنتی ھو ". عدالت عظمی کے اس حکم سے یہ بات صاف ظاھر ھوجاتی ھے " کے دس سال یا اس سے زیادہ کی کوالفائیڈ سروس کرنے والا ھر گورنمنٹ یا سیمی گورنمنٹ کا سرکاری ملازم ریٹائڑڈ ھونے والا ملازم یا ایسا ملازم جسکی سروس ختم کردی ھو ،  پنشن کا حقدار بن جاتا ھے [ یاد رھے صرف نوکری ڈسمس ھونے والے سرکاری ملازم کو چاھے اسکی کوالیفائیڈ سروس کتنی کیوں نہ ھو اسکو پنشن قانونن نہیں د یجاتی] . عدالت عظمی کا یہ حکم ان وی ایس ایس میں بغیر پنشن کے ریٹآئڑڈپی ٹی سی ایل کے ملازمین کے لئے بیحد حوصلہ افزا ھے جنکی سروس دس سال یا اس سے بھی کہیں زیادہ تھی لیکن بیس سال سے کم تھی . ھائی کوڑٹوں میں ان لوگوں کے کیسس سرد مہری کا شکا ر ھیں  . ھائی کوڑٹیں فیصلہ ھی نہیں کررھی ھیں .  میرے کہنے پر غلام  سرور اور دیگر نان پنشنرس وی ایس ایس ریٹائریز نے اسلام آباد ھائی کوڑٹ میں دائیر کی تھی  2016 جون می جسکا یعنی 2114/2016 WP کا فیصلہ 28 فروری سے ابتک محفوظ ھے معزز جج صاحب فیصلہ لکھ ھی نہیں پارھے .  اب تو سپریم  کوڑٹ کے واضح حکم کے تحت انکو ان تمام نان پنشنرس پٹیشنرس ، جنکی کوالفائیڈ سروس دس سال سے بھی کہیں زیادہ  ھے . جب 10 اکتوبر 1997 سے بنکوں سے نکالے گئے ملازمین کو  ، جنکی کوالکفائیڈ سروس دس سال تھی انکو پنشن مل سکتی ھے عدالت عظمی کے جکم پر تو ان مارچ 2008 میں وی ایس ایس لے کر ریٹائڑڈ ھونے والے پی ٹی سی ایل کے ملازمین کو جنکی سروس دس سال یا اس سے بھی زیادہ تھی مگر بیس سال سے کم ، انکو کیوں پنشن نہیں مل سکتی . اس پپرا 3  میں عدالت عظمی نے بنک کے وکیل کی ایما پر یہ بات واضح کردی کے گولڈن شیک ھینڈ لے کر ریٹائڑڈ ھونے والوں کو یہ پنشن انکریز نہیں مل سکتا. یہ فیصلہ عدالت عظمی نے انکے وکیل کی ایما پر دیا مگر یاد رکھیں اس کا اثر پی ٹی سی ایل کے ان پنشنروں پر کبھی نہیں پڑ سکتا اسکی وجہ یہ ھے کے پی ٹی ای ٹی نے اپنی رویو پٹیشن میں یہ بات نہیں اٹھائی تھی اور نہ  ھی انکے وکیل خالد انور نے یہ اعتراز کیا تھا اور وی ایس ایس لےکر ریٹائڑڈ ھونے والوں  کو یہ گورنمنٹ والی انکریز نہيں دی جاسکتی . وہ اٹھاتے بھی کیسے وہ تو یہ چاھتے تھ کے کسی کو بھی نہ ملے. پھر عدالت ععظمی نے اپنے یکم نومبر 2017 کے فیصلے میں یہ بات اچھی طرح واضح کردی کے عدالت نے کہیں بھی یہ حکم نہیں دیا کے ان وی ایس ایس لے کر ریٹائڑڈ ھونے والوں کو یہ انکریز پنشن میں نہ دیا جائے .اگر یہ بات ھوتی تو سپریم کوڑٹ صادق علی کی توھین عدالت کا کیس کیوں ھی سنتی کیونکے صادق علی تو بھی 2008 کا وی ایس ایس ر یٹائیڑی ھے . تو ایسے لوگ بالکل پریشان نہ ھوں اور نہ ایسی کسی بات پر دھیان نہ دیں کے فلاں فیصلے میں یہ سپریم کوڑٹ کاحکم ھے . ایک بات ھمیشہ یاد رکھیں کے سپریم کوڑٹ نے پنشن انکریز کا آڈر ان سب ریٹائڑڈ ملازمین کے لئے دیا ھے " جو ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی ھوئے پھر پی ٹی سی میں ٹرانسفڑڈ ھوکر ریٹائڑڈ ھوئے پھر پی ٹی سی ایل میں یکم جنوری 1996 کو ٹرانسفڑڈ  ھوکر ریٹائڑڈ ھوئے کسی بھی وجہ سے ماسوائے وہ ڈس مس نوکری سے نہ ھوئے ھوں"
واسلام 
محمد طارق اظہر
۱۸ اپریل ۲۰۱۸


Wapda case resemblance to PTCL pensioners


Comments

Popular posts from this blog

.....آہ ماں۔

Article-173 Part-2 [Draft for non VSS-2008 optees PTCL retired employees]

‏Article-99[Regarding clerification about the registration of the Ex-PTC employees of any capacity with EOBI by PTCL]