Article-74[Status of PTCL employees who appointed or regularised in PTC]
نوٹ:- پی ٹی سی میں بھرتی ھونے والے پی ٹی سی ایل ملازمین اور پنشنرس متوجہ ھوں
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کارپویشن (PTC) میں ریگولر پوسٹوں پر بھرتیی یا ریگولر ھونے والے ملازمین کا پاکستان ٹیلی کمیونیکشن کمپنی لمیٹڈ (PTCL) میں سٹیٹس ؟.
عزیز پی ٹی سی ایل ساتھیو
اسلام وعیکم
مجھے پی ٹی سی ایل کے بہت سے حاظر ملازمین جو کارپوریشن یعنی پی ٹی سی میں بھرتی ھوئے تھے اور پھر یکم جنوری 1996 کو پی ٹی سی ایل میں ٹرانسفڑڈ ھوۓ. وہ مجھ سے یہ سوال کر رھے ھیں کے کیا پی ٹی سی ایل میں انکا سٹیٹس بھی اسی طرح کا ھے جو ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی ھو نے والے ملازمین کا ھے ۔ جو پہلے وہاں سے کارپوریشن یعنی پی ٹی سی سے ٹرانسفڑڈ ھوئے اور پھر پی ٹی سی ایل میں یکم جنوری 1996 کو اور اسکے ملازم بن گئیے تھے۔ جنکے متعلق سپریم کوڑٹ مسعود بھٹی کیس میں فیصلے کے تحت ان پر پی ٹی سی ایل میں سول سرونٹ والے سرکاری قانون یعنی statutory rules لاگو ھیں؟ ۔. کچھ عرصے پھلے مجھے میسنجر سلسلے میں ایک پی ٹی سی ایل حاظر سروس لیڈی ٹیلفون آپریٹر کی کال موصول ھوئی تھی جو اسوقت پی ٹی سی ایل کے روینیو ڈیپاڑٹمنٹ بطور کلرک کام کررھی ھیں ۔ انھوں نے مجھے بتایا کے وی ایس ایس لینا قبول نہیں کیا باوجود انپر بے انتھا پریشر تھا . وہ دسمبر ۱۹۹۵ میں کارپوریشن بطور آپریٹر بھرتی ھوئی تھیں . انھوں نے مجھے بتایا کے مگر انکی تقرری کمپنی یعنی پی ٹی سی ایل میں یکم جولائی 1996 سے ظاہر کی گئے ھے . جس سےانکا وہ سٹیٹس کمپنی میں نہیں رہا جو کارپوریشن سے یکم جنوری 1996 کو کمپنی میں ٹرانسفڑڈ ھونے والے کارپوریشن کے ملازمین کا ھے ۔ یعنی گورنمنٹ والا کیونکے کمپنی میں انکا تقرر یکم جنوری 1996 کے بعد کا دکھایا گیا ھے اور وہ کمپنی کی ملازم بن گئی ھیں اور وہ گورنمنٹ والی مراعات اور پنشن سے محروم ھوگئی ھیں ۔ وہ مجھے بہت پریشان معلوم ھوتی تھیں . اس سلسلے میں انھوں نے مجھ سے استدعا کی کے میں ایسے پی ٹی سی ایل میں کام کرنے والوں کے سٹیٹس کے بارے میں صحیح پوزیشن واضح کروں کے:-
(نمبر ۱ ) جو لوگ پی ٹی سی یعنی کارپوریشن میں ڈائیریکٹ ریگولر بھرتی ھوۓ تھے اور پھر یکم جنوری 1996 کو کمپنی یعنی پی ٹی سی ایل میں ٹرانسفڑڈ ھوکر اسکے ملازم بن گئیے تھے، کیا انکا سٹیٹس پی ٹی سی ایل میں ان ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی والے ملازمین جیسا ھے یا نہیں جو پہلے کارپوریشن میں ٹرانسفڑڈ ھو کر آئے اور پھر وھاں سے پی ٹی سی ایل میں یکم جنوری 1996 کو ٹرانسفڑڈ ھوئیے ؟
( نمبر ۲ ) ان کی تقرری بطور ٹیلی فون آپریٹر تو پی ٹی سی میں دسمبر 1995 میں ھوئی تھی گر انکی تقرری پی ٹی سی ایل میں انکی ٹریننگ پیریڈ کو ختم کرکے یکم جولائی 1996 سے دکھائی گئی ھے جس کی وجہ سے وہ کمپنی کی ملازم بن گئیں اور پنشن سے اور دیگر گورنمنٹ والی مراعات سے محروم ھوگئیں کیونکے کمپنی کے ملازمین کے لئے ریٹائڑمنٹ کے بعد گورنمنٹ پنشن کا تصور نہیں ۔
جواب نمبر۱ : ٹی اینڈ ٹی میں کام کرنے والے تمام سرکاری ملازمین جن کو ڈیپاڑٹمنٹل ایمپلائیز کہا جاتا تھا اور جن کا سٹیٹس گورنمنٹ سول سرونٹ کا تھا ، وہ سب27 نومبر 1991 کو نافذ ھونے والے پی ٹی سی ایکٹ ۱۹۹۱ کے تحت بننے والی کارپوریشن یعنی پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کار پوریشن میں , 24 دسمبر ۱۹۹۱ كو ضم ھوگئے تھے اور کارپوریشن کے ملازم گئیے تھے اور انکا سول سرونٹ والا تو سٹیٹس تو ختم ھوگیا تھا اور وہ کاپوریشن کے ملازم بن گئیے تھے اور لیکن انپر سول سرونٹ ایکٹ والے قوانین [ یہ قوانین گورنمنٹ نے سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے تحت سول سرونٹس کے لئیے بنائیے تھے جن کو سرکاری قوانین ( statutory rules) کہتے ھیں ] ،اسی ایکٹ ۱۹۹۱ کے کلاز (۲)۹ کے تحت لاگو ھوگئے تھے یہ وھی قوانین تھے جو انپر کارپوریشن میں ٹرانسفڑڈ ھونے سے فورن پہلے یعنی ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑمنٹ میں لاگو تھے ۔ چونکہ کارپوریشن کے پاس اپنے بنائیے ھوئیے کوئی قوانین نھیں تھے تو پی ٹی سی بوڑڈ نے اپنے ھی دوسرے ھی ، فروری 1992 میں ھونے والے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا کے جب تک کاپوریشن کے اپنے قوائد اور ضوابط[Rules and Procedures] نہیں بن جاتے اسوقت تک کارپوریشن میں سابقہ ٹیلیگراف اور ٹیلی فون ڈیپاڑٹمنٹ کے ھی قوائد اور ضوابط [ Rules &Procedures] ھی استعمال ھونگے .. . [ 9 فروری 1992 کو جاری ھونے والی اس نوٹیفیکیشن کی فوٹو کاپی میں نے نیچے پیسٹ کر رکھی ھے. یاد رھے سابقہ ٹیلیگراف اور ٹیلی فون ڈیپاڑٹمنٹ میں ایک تو اسکو چلانے کے لئیے ٹیلیگراف اور ٹیلی فون ڈیپاڑٹمنٹ اپنے قوانین تھے مثلاً لوئیر ٹیکنیکل سٹاف کی بھرتی کرنے اور انکو ٹریننگ دینے قوانین - ٹیلیفون اور ٹیلگراف سروس کی فراھمی کے قوانین اور اکاؤنٹ اور ریونیو کے قوانین وغیرہ ۔ ان قوانین کے کافی والیمز تھے جو انگریزوں نے ٹیلی کمیونیکیشن سروس کے لئیے ۔ پری پاڑٹیشن سے پہلے بنائے تھے ۔ یہ بہت ھی پرانے قوانین تھے مثلاً ٹیلیگراف ایکٹ ۲۲ جولائی ۱۸۸۵ کو بنایا گیا تھا- پری پاڑٹیشن سے پہلے اس ڈیپاڑٹمنٹ کا نام انڈین پوسٹ اینڈ ٹیلیگراف ڈیپاڑٹمنٹ تھا جو گورنمنٹ آف انڈیا کا ڈیپاڑٹمنٹ تھا۔ پاڑٹیشن کے بعد جو حصہ پاکستان کے پاس آیا اس کا نام پاکستان پوسٹ اینڈ ٹیلگراف ڈیپاڑٹمنٹ رکھا گیا- بعد میں 1962 میں پوسٹل ڈیپاڑٹمنٹ کو اس میں سے الگ کردیا گیا اور اس میں ٹیلیفون کو شامل کرکے پاکستان ٹیلیگراف اور ٹیلی فون ڈیپاڑٹمنٹ رکھا گیا جسکو شاڑٹ طور پر ٹی اینڈ ٹی [ T&T] کہتے ھیں. چونکہ یہ ڈیپاڑٹمنٹ گورنمنٹ کا ڈیپاڑٹمنٹ تھا اس لئیے اس میں کام کرنے والے سارے ملازمین سول سرونٹ کہلائے - گورنمنٹ نے سول سرونٹس کے فائدے کے لئی سول سرونٹس ایکٹ 1973 بنایا ھے جس میں انکے سروس کے ٹرمز اینڈ کنڈیشنر بنائیے کے انکو کیسے appoint کیا جائیگا ، کیسے انکو کیا کیا مراعات دی جائیں گی ، تنخواہ ، پنشن، جی پی فنڈ، انکی چھٹیاں، پروموشن، ٹرانسفر، سینیارٹی اور انکے خلاف انضباتی گا روائی کیسے کی جائیگی وغیرہ وغیرہ]. . ویسے حقیقت تو یہ ھے کے یہ پی ٹی سی ایکٹ ۱۹۹۱ کے تحت ھونے والی کارپوریشن ایک گورنمنٹ based کاپوریشن تھی اور اس میں کام کرنے والے تمام ریگولر ملازمین بھی ایک طرح کے گورنمنٹ کے ھی ملازمین تھے۔ کیونکے اس کارپوریشن کا آڈٹ کرنے کا کا م آڈیٹڑ جنرل آف پاکستان کے پاس ھی تھا جیسے اس ایکٹ میں Defination کی کلاز(a)2 سے ظاھر ھے۔ یاد رھے آڈیٹڑ جنرل آف پاکستان کی زمہ داری صرف گورنمنٹ departments اور گورنمنٹ کے ھی مختلف organizations, ministries کا آڈٹ کرنا ھوتا ھے۔
اس کارپوریشن میں جو لوگ نئیے بھرتی کیئے گئیے یا پرانے ایڈہاک یا عارضی طور پر بھرتی ھونے والے لوگ regularised کیئے ۳۱ دسمبر ۱۹۹۵ تک یعنی جب تک اس کارپوریشن کا وجود رھا، ایسے تمام لوگ انھی کارپوریشن میں رائج سابقہ ٹیلیگراف کے اور ٹیلی فون ڈیپاڑٹمنٹ کے قوائد اور ضوابط کے ھی تحت بھرتی یا ریگولرئز کئے گئیے تھے اور ان پر بھی سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے تحت گورنمنٹ کے سرکاری قوانین statutory لاگو تھے. جو کارپوریشن میں گورنمنٹ کے تنخواہوں کے سکیلز سابقہ ٹیلیگراف کے اور ٹیلی فون ڈیپاڑٹمنٹ سے ٹرانسفر ھو کر آنے والوں کو مل رھے تھے وہ ھی تنخواہ اسکیلز اور گورنمنٹ والی تنخواہیں گورنمنٹ والی مراعات وغیرہ ان کارپوریشن میں بھرتی ھونے والوں کو مل رھے تھے۔ تو کاپوریشن میں جو ٹی اینڈ ٹی سے ٹرانسفڑڈ ھوکر آئیے تھے اور جو اس میں بھرتی ھوئی تھی وہ سب ھی کاپوریشن کے ملازم کہلائے گئیۓ۔ اور جب یہ ملازمین یکم جنوری 1996 کو کمپنی پی ٹی سی ایل میں ٹرانسفڑڈ ھوئیے تو یہ کمپنی کے ملازم بن گئیے اور ایسے تمام ٹرانسفڑڈ ملازمین کے لئی سپریم کوڑٹ نے مسعود بھٹی کیس [2012SCMR152] میں یہ فیصلہ دیا کے ان پر گورنمنٹ والے قوانین یعنی ٹی اینڈ ٹی والے ھی قوانین استعمال ھونگے یہ فیصلہ کرنے والے تین محترم ججز حضرات نے اس میں یہ بھی لکھا کے وہ کسی شک اور شبے کے اس نتیجے پر پہنچے ھیں کے اپیلنٹس پر ( یہ 3 اپیلنٹس تھے جو ٹی اینڈ سے پہلے ٹرانسفڑڈ ھوکر پی ٹی سی میں آئیے اور پھر پی ٹی سی ایل میں) کارپوریشن میں گورنمنٹ والے ھی قوانین یعنی statutory rules لاگو تھے [ پڑھئیے اس کیس کے فیصلے کا پیرا 9]. تو یہ ثابت ھوا کے کاپوریشن میں تمام اسکے ملازمین پر گورنمنٹ والے ھی قوانین یعنی statutory rules کا اطلاق ھو رھا تھا۔ یہ بات یاد رکھنے کی ھے سپریم کوڑٹ نے اپنے اس مسعود بھٹی کیس میں لفظ "کاپوریشن "کے ملازمین استعمال کیا اگر صرف ٹی اینڈ ٹی کے ھی ملازمین کے لئے یہ احکام ھوتا تو یقینن سپریم کوڑٹ اسکو ضرور کلئیریفائیڈ کر دیتی۔ اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کے سپریم کوڑٹ نے اپنے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے فیصلے صرف کیوں خاص طور پر لکھا کے ٹی اینڈ ٹی کے وہ ملازمین جو کارپوریشن اور کمپنی می ٹرانسفڑڈ ھو کر ریٹائیڑڈ ھوئیے تھے انکو گورنمنٹ کی اعلان کردہ ھی پنش انکریز دینے کی پی ٹی ای ٹی ادا کرنے کی پابند ھے۔ اسکی وجہ یہ کے مسعود بھٹی کیس کا فیصلہ جن تین اپیلنٹس کے حق میں آیا تھا وہ ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی ھوۓ تھے۔ جو پہلے پی ٹی سی میں ٹرانسفڑڈ ھوئیے اور وہاں سے پی ٹی سی ایل میں یکم جنوری 1996 کو ٹرانسفڑڈ ھوئیے تھے۔ میرا خیال ھے کے اگر اسطرح کی کیس میں کوئی ایسا اپیلنٹ یا اپیلنٹس ھوتے جو پی ٹی سی یعنی کارپوریشن میں بھرتی ھوئیے ھوتے، تو یقینن سپریم کوڑٹ انکے حق میں یہ ھی فیصلہ دیتی کیونکے ایسا نہ دینے کی کوئی وجہ نہ ھوتی۔
مزید برآں پی ٹی ای ٹی یعنی یعنی ٹرسٹ کے قوانین کے مطابق صرف پی ٹی ای ٹی ٹیلی "کمیونیکیشن ایمپلائیز" کو انکے گریڈ کے مطابق پنشن دینے کی پابند ھے۔ [ دیکھئے کلاز (d)46
پی ٹی ( ری آر گنائیزیشن) ایکٹ 1996] .ان "ٹیلی کمیونیکیشن ایمپلائیز" کی تعریف میں نہ صرف ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی ھوئیے گورنمنٹ ملازمین شامل ھیں بلکے کاپوریشن میں بھرتی ھونے والے ملازمین بھی شامل ھیں۔ "ٹیلی کمیونیکیشن ایمپلائیز"[telecommunication employees] کی تعریف پی ٹی ( ری آر گنائیزیشن) ایکٹ 1996 کی کلاز 2 کی سب سیکشن t میں یہ کی گئی ھے کے:-
" کارپوریشن کے وہ ملازمین جو ٹرانسفڑڈ ھو کر کمپنی کے ملازمین بن گئیے اس ایکٹ کے تحت ، ان کے علاوہ جن پر ایکٹ کے سیکشن 36 کی سب سیکشن 3 لاگو ھورھی ھے [ اسکا مطلب انکے علاوہ جو کارپوریشن سے اسکے دوسرے حصوں میں ٹرانسفڑڈ ھونے والے یعنی NTC اور PTA وغیرہ وغیرہ میں] ، وہ ملازمین جو کارپوریشن اور سابقہ پاکستان ٹیلیگراف کے ملازمین تھے جو pensionary benefits لے رھے تھے یا وہ یہ کارپوریشن سے لینے کے حقدار تھے"-
جیسا اوپر زکر کر چکا ھوں کے کارپوریشن میں دو طرح کے ملازمین تھے ایک وہ جو ٹی اینڈ ٹی سے ٹرانسفڑڈ ھوکر آئیے تھے پی ٹی سی ایکٹ ۹۹۱ کے تحت اور دوسرے وہ ملازمین جو کارپوریشن میں انھی ٹی اینڈ ٹی رولز کے تحت بھرتی ھوئیے تھے۔ اسلئیے یہ سب ٹیلی کمیونیکیشن ایمپلائیز[telecommunication employees] ھی کے زمرے میں آتے ھیں۔ جب پی ٹی ای ٹی کا قانون صرف telecommunication employees کو پنشن دینے کی اجازت دیتا ھے تو ان کارپوریشن کے ملازمین جو کارپوریشن میں بھرتی ھوئیے اور کمپنی میں ٹرانسفڑڈ ھوگئیے اور کمپنی میں telecommunication employees بن گئیے اور کسی بھی وجہ سے ریٹائیڑڈ ھوگئیے ھوں تو انکو گورنمنٹ والی پنشن پی ٹی ای ٹی کیوں نہیں دے سکتی ۔ یہ تو صریحاً اپنے ھی قوانین کی خلاف ورزی کررھی ھے.
میں سمجھتا ھوں کے اوپر جو میں نے دلائیل دئیے ھیں اس سے یہ بات صاف ظاھر ھے پی ٹی سی ایل میں کام کرنے ایسے کارپوریشن کے ایسے ملازمین جو دسمبر ۱۹۹۵ تک کارپوریشن میں بھرتی(appointed) ھوئیے اور پھر یکم جنوری 1996 کو کمپنی ملازم بن گئیے ھوں ان میں اور کمپنی کام کرنے والے ٹی اینڈ ٹی کے ملازمین جو پہلے ٹرانسفڑڈ ھوکر کارپوریشن کے ملازم بنے اور پھر یکم جنوری 1996 کو کمپنی کے، ان دونوں کے سٹیٹس کا کمپنی یعنی پی ٹی سی ایل میں کوئی فرق نہیں ۔ یہ بات سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ کے اس 16 اکتوبر 2018 کے فیصلے [ highlighted کاپی نیچے پیسٹ کر رکھی ھے] سے اور بھی واضح ھو جاتی ھے ، جو اسنے پی ٹی سی ایل کی اپیل جو انھوں نے ایسے ملازم محمد ارشد اقبال کے حق میں دی اور پی ٹی سی ایل کی اپیل خارج کردی ۔محمد ارشد اقبال جو کاپوریشن میں بھرتی ھوا اور پھر کمپنی میں یکم جنوری 1996 کو ٹرانسفڑڈ ھوا اور وہ ۲۰۰۸ میں وی ایس ایس لے کر ریٹائیڑڈ ھوا.لاھور ھائی کوڑٹ کے ملتان برانچ میں پہلے سنگل بینچ نے اسکے حق میں فیصلہ دیا اور پھر ڈبل ینچ نے بھی یہ فیصلہ برقرار رکھا اور پی ٹی سی ایل کی انٹرا کوڑٹ اپیل خارج کردی اور پھر سپریم کوڑٹ نے بھی پی ٹی سی ایل کی اپیل خارج کردی اورلاھور ھائی کوڑٹ کے ملتان برانچ کے سنگل بینچ کا فیصلہ برقرار رکھا ۔ پی ٹی سی ایل کے وکیل شاھد باجواہ نے یہ plea لی تھی کے چونکہ محمد ارشد کارپوریشن میں بھرتی ھوا تھا اسلئے وہ اس پر گورنمنٹ کے statutory rules کا اطلاق نہیں ھوتا جیسا مسعود بھٹی کیس 2012SCMR152 میں کہا گیا ھے اور اس لئیےمحمد ارشد کو اس بات کا اختیار نہیں تھا کے وہ آئین کے آڑٹیکل ۱۹۹ کے تحت ھائی کوڑٹ سے رجوع کرے اور نہ ھی لاھور ھائی کوڑٹ کے وہ اسکی اپیل کو entertain کرنے کا اختیار تھا۔[ آپسبکو کو یہ بات واضح کردوں کے صرف اور صرف سرکاری ملازمین کو یہ ھی حق حاصل ھے کے وہ اپنے grievances دور کرنے کے لئے ھائی کوڑٹوں سے آئین کے آڑٹیکل ۱۹۹ کے تحت کرسکتے ھیں۔ کیونکے ان پر گورنمنٹ سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے تحت بنے ھوئیے statutory rules کا اطلاق ھوتا ھے ۔کمپنی اور دوسرے پرائیویٹ اداروں میں بھرتی ھوکر کام کرنے والے ملازمین کو یہ اختیار حاصل نہیں۔چونکہ کارپوریشن سے کمپنی میں ٹرانسفڑڈ ھونے ملازمین پر بھی مسعود بھٹی کیس [2012SCMR152] کے فیصلے کے تحت ان پرstatutory rules کا اطلاق ھوتا ھے تو ایسے تمام پی ٹی سی ایل میں کام کرنے والے ٹرانسفڑڈ ملازمین اپنےgrievances دور کرانے کے لئی ھائی کوڑٹ سے آئین کی کلاز ۱۹۹ کے تحت رجوع کرسکتے ھیں ۔یاد رھے مسعود بھٹی کیس میں پہلے سپریم کوڑٹ نے یہ ثابت کیا کے مسعود بھٹی اور دوسرے دو اپیلنٹس وہ ٹرانسفڑڈ ایمپلائیز ھیں ، جن پر گورنمنٹ کے قوانین ، پی ٹی سی ایل میں لاگو ھوتے ھیں اسلئے وہ آئین کے آڑٹیکل ۱۹۹ کے تحت ھائی کوڑٹ سے رجوع کرسکتے ھیں اس لئی سپریم کوڑٹ نے سندھ ھائی کوڑٹ کے 6 جون 2010 کے اس حکم کو ختم کردیا تھا جو پی ٹی سی ایل میں اس کیس کے پی ٹی سی ایل کے وکیل محترم شاہد انور باجواہ صاحب جب وہ جج سندھ ھائی کوڑٹ تھے اور جناب محترم جج گلزار صاحب جج سپریم کوڑٹ ، جو اسوقت جج سندھ ھائی کوڑٹ تھے نے صادر فرمایا تھا اور ۸۵ کے قریب ایسی اپیلیں ، جس میں میری بھی اپیل شامل تھی صرف اس ٹیکنیکل بنیاد پر خارج کردی تھیں کے یہ سب کمپنی کے ملازم ھیں ان پر گورنمنٹ کے قوانین کا اطلاق نھیں ھوتا لہازا یہ آئین کے آڑٹیکل ۱۹۹ کے تحت سندھ رجوع کرنے کے مجاز نھیں تھے]۔ پی ٹی سی ایل نے محمد ارشد اقبال کے حق میں آئیے ھوئیے سپریم کوڑٹ کے 16 اکتوبر 2018 کے اس فیصلے کے خلاف رویو اپیل بھی خارج ھوگئی ھے ۔ یہ اطلاع مجھے فیس بک پر حسن محمد رانا سیکٹری جنرل PTEU [CBA] میسج سے ھوا جو بھی نیچے پیسٹ ھے۔
جواب نمبر ۲:-پی ٹی سی ایل مینیجمنٹ ان ٹیلی آپریٹروں جو ۱۹۹۵ میں کارپوریشن بھرتی ھوئیے تھے انکے ٹریننگ پیریڈ کو ، خارج کرکے انکی پوسٹ پر جائینگ کی تاریخ انکے ٹریننگ کو نہیں شامل کررھے ھیں۔ اس لئیے انکی بھرتی کی تاریخ کمپنی میں بھرتی ھونے کی تاریخ بن گئی جبکے حقیقت میں کارپوریشن میں ۱۹۹۵ میں بھرتی ھونے والی کی تاریخ ھونی چاھئیے تھی۔ نہ صرف کارپوریشن میں بھرتی ھونے والے آپریٹرس بلکے ایسے اور بھی ٹیکنیکل سٹاف جن کو پہلے ٹریننگ قانون کے مطابق ضروری ھوتی ھے، سب کے ساتھ انھوں نے یہ سلوک روا رکھا ھوگا جو ۱۹۹۵ میں کارپوریشن میں بھرتی ھوئیے ھوں اور انھوں نے انکی ٹریننگ پیریڈ مکمل ھونے کے بعد ، جو انکے پی ٹی سی ایل میں یکم جنوری 1996 کو ٹرانسفڑڈ ھونے کے بعد ھی مکمل ھوئی ھو تو انھوں نے انکی ٹریننگ کے بعد جائینگ ھی کو بھرتی ھونے والی تاریخ تصور کیا۔ اسطرح وہ سپریم کوڑٹ کے مسعود بھٹی کیس [2012SCMR152] دئیے گئیے اس حکم کے مطابق بعد یکم جنوری 1996 کے بعد کمپنی میں شامل ھونے والے ملازمین پر گورنمنٹ کے statutory rules لاگو نہ ھوں گے اور وہ کمپنی کے ملازم کہلائیں گے۔ پی ٹی سی ایل نے نے ٹریننگ پیریڈ کو کوالیفائنگ سروس میں نا شامل کرکے ھزاروں پی ٹی سی ایل کے ایسے ملازمین ، جنھوں نے وی ایس ایس لیا تھا، پنشن سے محروم کردیا ۔ پہلے ایسے وی ایس ایس لینے والوں کو جو لیٹرز وی ایس ایس لینے کے آفرڑ ھوئیے تھے ان میں ٹریننگ پیریڈ کو شامل کرکے انکی کوالیفائنگ سروس بیس سال سے زیادہ دکھائی گئی تھی اور وہ پنشن کے حقدار تھے اور بیچارے ایسے لوگوں نے خوشی خوشی وی ایس ایس لینا قبول کیا کے ایک تو انکو اچھی خاصی رقم وی ایس ایس لینے کی وجہ سے ملے گی اور ساتھ انکو پنشن بھی [پی ٹی سی ایل مینیجمنٹ نے گورنمنٹ کے قوانین کے خلا ف بجائیے دس سال کی کم از کم کوالیفائنگ سروس پنشن لینے کے بیس سال رکھی ۔پہلے یہیں انھوں نے گورنمنٹ کے قانون کی خلاف ورزی کی جسکا انکو اختیار نھیں تھا کیونکے سپریم کوڑٹ اپنے مسعود بھٹی کیس [2012SCMR152] میں لکھا ھے کے پی ٹی سی ایل کو اسکا زرا بھی اختیار نہیں کے وہ ایسے ملازمین یعنی پی ٹی سی سے یکم جنوری 1996 کو پی ٹی سی ایل میں ٹرانسفڑڈ ھوئے ھوں , انکے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس میں ایسی منفی تبدیلی کریں جن سے انکو فائیدہ نہ ھو۔ اور ایسا کرنے کا حکومت پاکستان کو بھی اختیار نہیں مگر ان ظالموں نے پنشن لینے کی کم از کم کوالیفائیڈ سروس دس سال سے بڑھا کر بیس سال کرکے ایسے ھزاروں وی ایس لینے والوں کو پنشن سے محروم کریا جنکی کوالیفائیڈ سروس دس سال سے زیادہ تھی مگر بیس سال سے زرا سا کم بھی] ملے گی ۔ مگر اس ظالم پی ٹی سی ایل مینیجمنٹ نے ایسے ھزاروں وی ایس ایس کی آفر قبول کرنے والوں کی ٹریننگ پیریڈ کوالیفائیڈ سروس سے ختم کردیا اور انکی کوالیفائیڈ سروس بیس سال سے کم کرکے انکو پنشن سے محروم کردیا۔ ظاھر بات ھے ایسے متآثرین وی ایس ایس پی ٹی سی ایل پنشنرس نے عدالتوں سے رجوع کیا۔ سب سے پہلے پشاور سے اظھر علی بابر اور ایسے اور اسکے ساتھیوں نے کیا۔ اظھر علی بابر جو ٹیلی فون آپریٹر تھا پی ٹی سی ایل میں اور اسکی کوالیفائیڈ سروس بیس سال سے کہیں زیادہ تھی اسنے بھی اسی لئی وی ایس ایس 2008 آپٹ کیا مگر اسکا بھی ٹریننگ پیریڈ ختم کرکے اسکو بھی پنشن سے محروم کردیا۔ اظھر علی بابر جو اسوقت وکالت بھی کررھا تھا اسنے پہلے این آئی آر سی کے سنگل بینچ میں کیس کیا تو سنگل بینچ نے اسکی ٹریننگ پیریڈ کو اسکی کوالیفائیڈ سروس میں شامل کرکے اسکو پنشن دینے کا حکم دیا ۔پی ٹی سی ایل نے اس فیصلے کو این آئی آر سی پشاور کے ڈبل بینچ میں چیلنج کردیا وھاں سے انکو منہ کی کھانی پڑی اور پی ٹی سی ایل کی اپیل خارج کردی گئی۔ پھر پی ٹی سی ایل نے این آئی آر سی پشاور کے ڈبل بینچ کے فیصلے کو پشاور ھائی کوڑٹ میں چیلنج کردیا وہاں سے بھی انکو منہ کی کھانی پڑی اور پی ٹی سی ایل کی اپیل خارج کردی گئی۔ اسوقت ویں پشاور نئی کوڑٹ کے چیف جسٹس محترم جناب دوست محمد خان تھے انھوں نے عدالت میں ان پی ٹی دی ایل کے وکیلوں کو بہت سنائیں اور سبکو ٹریننگ پیریڈ شامل کرکے پنشن کی ادائیگی کا فورن حکم دیا۔ ان پی ٹی سی ایل والوں کی بولتی بند ھوگئی اور انھوں اسکے خلاف سپریم کوڑٹ میں اپیل بھی نہیں کی اور اظھر علی بابر اور دوسروں جو کیس میں شامل تھے انکو اس دن سے پنشن دینا شروع کی جس دن سے وہ وی ایس ایس2008 لے کر ریٹائیڑڈ ھوئے تھے ۔یہ فیصلہ 2013 میں آیا اور انکو تمام بقایا جات بھی لاکھوں روپے کے حساب سے ملے۔ یہ فیصلہ نیٹ پر موجود ھے ۔
Azhar Ali Baber case on PHC
Azhar Ali Baber case 2013 P L C 345
PAKISTAN TELECOMMUNICATIONS COMPANY LTD. through President and 5 others Versus AZHAR ALI BABAR and 2 others
Before Dost Muhammad Khan, C.J. and Mrs. Irshad Qaiser, J
اس فیصلے میں عدالت نے ٹریننگ پیریڈ کو سروس کا جز قرار دیا اور اسکی بابت یہ تحریر کیا. کے ٹریننگ پیریڈ کو سروس سے نہیں نکالا جاسکتا اور یہ پیریڈ ماھانہ پنشن لینے کیلکولیشن میں شامل ھوتا ھے. میں اس اظہر علی بابر کیس کے آڑڈڑ کے پیراز ، جس میں اسکا زکر کیا گیا ھے اسکا extract نیچے پیسٹ کر رکھا ھے. پی ٹی سی ایل PHC کے اس اظہر علی بابر کیس پر عمل کرتے ھوئیے اظہر علی اور دوسرے ایسوں کے ٹریننگ پیریڈ شامل کرکے انکو اسی دن سے پنشن دینا شروع کردی۔ پی ٹی سی ایل نے اسی طرح اسلام آباد ھائی کوڑٹ کے 16 جنوری 2013 کے فیصلے جو اسنے طارق ناگی اور دیگران کی رٹ پٹیشن نمبر WP-5174/2010 پر دیا تھا , انکی ٹریننگ پیریڈ کو سروس میں شامل کرکے ان سب کو اسی دن سے پنشن دینا شروع کردی جس دن سے وہ لوگ وی ایس ایس 2008 بغیر پنشن کے ریٹائڑڈ ھوئیے تھے۔ ان آٹھ ریٹائیڑڈ پی ٹی سی ایل ملازمین کا تعلق بلوچستان سے تھا۔ اسی طرح لاھور ھائی کوڑٹ نے ثمینہ ظاہر کے کیس WP-2684/2012 میں فیصلہ دیا اور انکی ٹریننگ پیریڈ کو شامل کرکے انکو پنشن دینے کاحکم دیا۔ تو اب یہ پی ٹی سی ایل کی مینجمنٹ حاظر سروس کے ایسے ملازمین جن کو پری ٹریننگ سروس دیتی ھے انکے اس ٹریننگ کو انکی سروس میں کیوں شامل نہ کرکے انکو پنشن اور دیگر فوائد سے کیوں محروم کررھی ھے۔ جبکے وہ عدالتوں کے حکم پر ٹریننگ پیریڈس شامل کرکے انکو پنشن دے چکے ھیں تو اب وہ کیوں ان حاظر ملازمین کے ٹریننگ پیریڈس کو انکے سروس ریکارڈ میں شامل کیوں نہ کرکے انکو زھنی ازیت دے رھے ھیں۔ میرا خیال میں ایسے ملازمین کو فورن کوئی قدم اٹھانا چاھئیے ۔ ایک تو پہلے انکو پہلے انکو اپنا سروس ریکاڑڈ اچھی طرح چیک کریں اور اگر یہ ٹریننگ پیریڈ نہ شامل کیا گیا ھو اور جائیننگ پی ٹی سی ایل میں لکھی گئی ھو تو پہلے اس کی تصیح کرانے کے لئیے ان سے اپیل کی جائیے اور اگر یہ نہ کریں تو پھر NIRC میں اپیل کی جائیے۔ اگر ایسے ملازمین نے نہ کیا تو انکو بہت نقصان ھوگا نہ تو انکو گورنمنٹ والی پنشن ملے گی نا انکو گورنمنٹ والی اور مراعات۔ پی ٹی سی میں بھرتی ھونے والے سرکاری ملازمین کے ضمرے میں آتے ھیں ۔ اوپر تفصیل سے بیان کر چکا ھوں۔ یہاں پر CBA Union مؤثر کردار ادا کرسکتے ھیں وہ پہلے انتظامیہ سے ایسے ملازمین کا ریکاڑڈ درست کراسکتے ھیں ان سے مزکرات کرکے اور انکے نہ کرنے کی صورت میں انکو ان ملازمین کو جائیز حق دلانے کے لئیے NIRC میں کیس بھی کرسکتے ھیں۔ میں سمجھتا چونکہ اس معاملے پہلے ھی اعلے عدلیہ اپنا فیصلہ دے چکی ھیں جن میں سے چند میں اوپر بیان کرچکا ھوں، تو NIRC بھی انکے ھی حق میں فیصلہ کرے گی انشاللہ۔
واسلام
محمد طارق اظہر
رٹائیڑد جنرل منیجر (آپس) پی ٹی سی ایل
راولپنڈی
Date 07-01-2019
Time: 13:10
Cell# 0314-9525902
--
Comments